شیرازی صاحب دورے پر گئے ہوئے تھے اس لیے بیگم شیرازی اکیلی تھیں اور وہ اپنے کمرے میں سو رہی تھیں… اس گھر میں ان کے ساتھ ایک ملازم بھی رہتا تھا جو اس گھر کا باورچی بھی تھا اور چوکیدار بھی, لیکن آج رات چونکہ شیرازی صاحب گھر میں نہیں تھے, اس لیے وہ بھی گھوڑے بیچ کر سویا ہوا تھا… یکایک اس کی آنکھ کھل گئی… کچھ دیر تک وہ سوچتا رہا کہ اس کی آنکھ کیوں کھل گئی… اچانک اس کے کانوں میں آواز آئی…
“ٹھک ٹھک….”
“یہ آواز کہاں سے آ رہی ہے؟” وہ سوچ میں ڈوب گیا آواز مسلسل آرہی تھی…
“یا خدا یہ کیا معاملہ ہے…” وہ بڑبڑایا… “کہیں کوئی نقب تو لگانے کی کوشش نہیں کر رہا ہے… اوہ ایسا ہی معلوم ہوتا ہے… مجھے چل کر بیگم صاحبہ کو جگانا چاہیے… ہاں…”
وہ اٹھا اور بیگم صاحبہ کے کمرے کی طرف چل پڑا.. اس نے دروازے پر دستک دی…
“کون ہے, کیا بات ہے؟” اسے نیند میں ڈوبی ہوئی آواز سنائی دی…
“بیگم صاحبہ! میں ہوں…”
“کون؟ غفور!”
“جی ہاں…”
“کیا بات ہے؟”
“آپ دروازہ تو کھولیے, بتاتا ہوں…” غفور کی آواز گھبرائی ہوئی تھی… اس لیے بیگم شیرازی جلدی سے اٹھیں اور دروازہ کھول دیا… غفور سہما ہوا کھڑا تھا…
“ہاں اب بتاؤ کیا بات ہے؟”
“ذرا غور سے سنیے… آپ کو کوئی آواز سنائی دے رہی ہے یا میرے کان بج رہے ہیں…” اس نے پریشان آواز میں کہا…
“کیا مطلب؟”
“کافی دیر سے میں ایک آواز سن رہا ہوں جیسے کوئی نقب لگا رہا ہے…”
“کیا بکتے ہو…” بیگم شیرازی کو یقین نہیں آ رہا تھا…
“آپ سنیے تو…”
بیگم شیرازی خوموش ہو گئیں اور دھیان سے اس آواز کو سننے لگیں جو اب بھی مسلسل آ رہی تھی…
“واقعی تم سچ کہتے ہو…” بیگم شیرازی بھی سہم گئیں…
“پھر اب کیا کیا جائے…”
“پولیس کو ٹیلیفون کرتی ہوں اور کیا کیا جا سکتا ہے…”
“پہلے دیکھ تو لیں آواز کہاں سے آ رہی ہے…”
اور وہ دونوں اس طرف بڑھنے لگے جس طرف سے آواز آ رہی تھی… کچھ دور چل کر آواز صاف ہو گئی…
“میں یقین سے کہہ سکتا ہوں’ آواز سٹور سے آ رہی ہے…” غفور نے رکتے ہوئے کہا…
“مگر سٹور میں تو کوئی ایسی چیز بھی نہیں…” بیگم شیرازی بڑبڑائیں…
“خدا جانے کیا بات ہے…” غفور بڑبڑایا…
دونوں سٹور کے دروازے پر پہنچ گئے… اب تو معانلی بالکل صاف تھا’ کوئی اندر سے دروازہ کھٹکھٹا رہا تھا… ڈر کے مارے ان کی گھگھی بندھ گئی…
“آخر کوئی شخص اندر کیسے پہنچ گیا؟”
“میرا خیال ہے’ کوئی جن بھوت ہو گا…” غفور کی حالت نازک تھی…
“پاگلوں والی باتیں نہ کرو…” بیگم شیرازی نے کہا… پھر دل کڑا کر کے بلند آواز میں بولیں…
“کون ہے؟”
دستک کی آواز رک گئی اور پل بھر کے لیے موت کا سناٹاچھا گیا…
“اندر کون ہے؟” بیگم شیرازی اور اونچی آواز میں بولیں…
“آنٹی! یہ میں ہوں…” کھنکارتے ہوئے کہا…
“میں کون؟” بیگم شیرازی نے پوچھا…
“میں ہوں محمود… جو آپ کے ساتھ والے مکان میں رہتا
ہے… انسپکٹر جمشید کا لڑکا…”
“مگر تم اندر کیسے پہنچ گئے اور یہ سب کیا ہے؟”
“آپ دروازہ تو کھولیے, میں ابھی سب کچھ بتاتا ہوں…”
بیگم شیرازی نے غفور کو تیار رہنے کا اشارہ کیا… اس خیال سے کہ کہیں دھوکا نہ کیا جا رہا ہو اور محمود کی بجائے اندر کوئی اور ہو… ایک بار پھر انہوں نے اپنا اطمینان کر لینے کی کوشش کی…
“تم محمود ہو نا؟”
“ہاں آنٹی…” اندر سے آواز آئی…
“تمہارے گھر میں اور کون کون رہتا ہے؟”
“میری امی’ میری بہن فرزانہ اور فاروق, کیوں آپ یہ کیوں پوچھ رہی ہیں؟”
“میں اپنا اطمینان کر رہی ہوں, کہیں اندر کوئی چور نہ ہو اور وہ دروازہ کھلوانا چاہتا ہو…”
“خدا کی قسم میں محمود ہوں’ آپ بےدھڑک دروازہ کھول دیں…”
بالآخر بیگم شیرازی نے دروازہ کھول دیا اندر محمود کھڑا تھا…
“کیا بات ہے… یہاں کیوں کر آئے, خیریت تو ہے؟”
“میں یہاں اس روشن دان سے پہنچا ہوں…” محمود نے روشن دان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا…
“روشن دان سے, مگر یہ تو بہت اونچائی پر ہے…”
“جی ہاں! یہ ایک لمبی داستان ہے… مگر میں سب سے پہلے ایک جگہ فون کرنا چاہتا ہوں…”
“کچھ بتاؤ بھی تو…” بیگم شیرازی حیران کھڑی تھیں…”
“ہم ایک مصیبت میں گرفتار ہو گئے ہیں… دن نکلنے سے پہلے پہلے اگر پولیس یہاں نہ پہنچی تو ہماری خیر نہیں… اس لیے پہلے مجھے فون کر لینے دیں…… پھر میں اطمینان سے بیٹھ کر ساری باتیں بتاؤں گا…”
“اچھا! آؤ میرے ساتھ……”
“بیگم شیرازی اسے فون کے پاس لے آئیں…
محمود پولیس اسٹیشن فون کرنے لگا…
“ہیلو! کون بول رہا ہے؟” دوسری طرف سے پوچھا گیا…
“جی میں ہوں محمود, انسپکٹر جمشید کا بیٹا…”
“اچھا کیا بات ہے؟”
“چار زندگیاں خطرے میں ہیں… اس وقت ہم ایک بڑے خطرے سے دوچار ہیں… چار بدمعاش ہماری زندگیوں کے در پے ہیں’ مہربانی فرما کر فوراً آئیے…”
“تم کہاں سے بول رہے ہو؟”
“میں اپنے مکان کے ساتھ والے مکان سے بول رہا ہوں… یی شیرازی صاحب کا مکان ہے اور یہ تو آہ کو معلوم ہے کہ ہم گرین روڈ پر رہتے ہیں…”
“بات کیا ہے؟”
“میں فون پر تفصیل سے نہیں بتا سکتا, کیونکہ ایک ایک پل قیمتی ہے… دن نکلنے میں صرف دو گھنٹے باقی ہیں اور اگر دن نکل آیا اور آپ لوگ اس وقت تک نہ پہنچے تو ہم میں سے کسی کو زندہ نہیں پائیں گے… اس کے علاوہ ہو سکتا ہے کہ ملک اور قوم کو ناقابلِ تلافی نقصان برداشت کرنا پڑے…
“اچھا میں آ رہا ہوں…”
“اور ہاں,وہ لوگ ہمارے مکان کے چاروں طرف بکھرے ہوئے ہیں… اس لیے آپ اپنی گاڑی دور ہی روکیے گا……… میں آپ کو شیرازی صاحب کے دروازے پر ملوں گا…”
“ٹھیک ہے, تم بےفکر رہو… اس قسم کے طریقے ہمیں معلوم ہیں…”
دوسری طرف سے فون رکھ دیا گیا… اب محمود نے سب انسپکٹر اکرام کا فون نمبر ڈائل کیا… یہ انسپکٹر جمشید کا اسسٹنٹ تھا…
دوسری طرف تھوڑی دیر تک گھنٹی بجتی رہی آخر کسی نے فون اٹھایا اور نیند میں ڈوبی ہوئی آواز سنائی دی…
“ہیلو!” آواز سب انسپکٹر اکرام کی ہی تھی, محمود کو پہچاننے میں دقت نہ ہوئ…
“اسلام علیکم انکل…”
“کون ہیں آپ؟”
“آپ نے مجھے پہچانا نہیں, میں محمود ہوں انکل…” محمود نے تھوک نگلتے ہوئے کہا…
“محمود تم…… اور اس وقت, خیر تو ہے؟” سب انسپکٹر اکرام کے لہجے میں حیرت اور پریشانی کا اظہار ہو رہا تھا…
“انکل ہم سخت خطرے میں ہیں جلدی پہنچیں…”
“تم فون کہاں سے کر رہے ہو؟”
“شیرازی صاحب کے ہاں سے…”
“بات کیا ہے؟”
“بات بتانے کا وقت نہیں ہے, بس آپ پہنچ جائیے…”
“اچھا میں آ رہا ہوں…”
“میں نے پولیس کا بھی فون کر دیا ہے…”
“ٹھیک کیا, میں پہنچ رہا ہوں…” اس کے ساتھ ہی اس نے ریسیور رکھ دیا…
……………………………………