(Last Updated On: )
بہت دن انتظار کے بعد اسے اذن باریابی ملا تھا۔
اس نے اپنی ترکی ٹوپی کو سر پر سجایا ۔شروانی کے بٹن لگائے ۔ صافے سے منہ کو صاف کیااور لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا دربان کے پیچھے پیچھے چل پڑا۔ محل سرا کے دروازے پر خود شاہ عالم بہ نفس نفیس اس کے استقبال کو موجود تھے۔
’’ حضور غلام آداب بجا لاتا ہے۔‘‘
حضرت… آپ کیسے ہیں ۔ چشم ماردشن دل ماشاد۔ آئیے… تشریف لائیے…
حضور… آج غلام کا دل چاہ رہا تھا کہ رخ انور کا دیدار کرے ۔ سو بے تابی دل یہاں تک لے آئی۔
’’ حضرت… زہے نصیب … آپ کے لیے چشم براہ ہونا ہمارے لیے لائق صد افتخار ہے۔‘‘
حضور… بندہ پروری آپ کی سرشت میں شامل ہے ورنہ من آنم کہ من دانم ؟
حضر ت… نفوس پاکیزہ سے ملاقات … یہی ہماری عارضی زندگی کا اثاثہ ہے۔
حضور … جب بے کلی بڑھتی ہے … تو کچھ کرنے کی خواہش بے چین کر دیتی ہے۔
حضرت، یہی کیفیت یہاں بھی ہے ۔ ایسا معلوم ہو رہا ہے کہ آپ کے طفیل ہماری بھی عاقبت سنور جائے گی اور کوئی بڑی سعادت ہمارے حصے میں آئے گی۔
حضور… بندگان الہی پر آپ کے بے شمار احسانات ہیں ۔ ہم فقیروں کے لیے کافی ہے کہ حضور ہم سے محبت کرتے ہیں…
حضرت… آپ کے پاس ادب کے ہم قائل ہیں ۔ پہلے بتلائیے کہ آپ کی کیا خدمت کی جائے تشریف رکھیے۔ اور تکلفات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے حکم فرمائیے کہ خیال خاطر احباب کا سلسلہ کس طرح شروع کیا جائے۔
حضور… آپ بندہ پرور ہیں۔ غلام کیا عرض کرے ۔ جو منشاء حضور ہو اس پر غلام آمنّا صدقنا کہتا ہے۔
حضرت… آپ ہم سے عمر میں بڑے ہیں اور گن بھی آپ میں زیادہ ہیں۔ ہم تو بس آپ کی نگاہِ محبت کے اسیر ہیں ۔ دلگیر ہیں…
حضور… آپ ہندوستان کے مالک اور شاہ عالم ہیں اور یہ بندہ فقیر عاصی اور پر تفصیر… بس آپ کے سہارے زندگی کے دن بتا رہا ہے۔
حضرت … توشہ خانے سے کچھ منگوایا جائے فواکہات و مشروبات!
حضور … بس شربت دیدار کافی ہے۔
حضرت … اگر آپ مناسب خیال کریں تو پہلے خاصا تناول فرمائیں ۔ اس کے بعد آپ سے تفصیلی گفتگو کرنی ہے اور ہاں آج رات گئے تک آپ ہمارے مہمان ہیں…
حضور … بندہ آپ کے ہر حکم پر لبیک کہتا ہے…
تو پھر حضرت آئیے… آگے بڑھیے اور مجھے یہ سعادت حاصل کرنے دیں کہ میں آپ کے ہاتھ دھلوادوں۔
حضور… ناحق زحمت نہ کریں ۔ فقیروں کی اوقات کو زیادہ نہ بڑھائیں۔ مجھے یہ سعادت حاصل کرنے دیں کہ میں شاہ عالم کی خدمت کا حق ادا کروں… آپ کی خدمت تو ہم فقیروں پر فرض ہے حضور۔
حضرت… کبھی زندگی میں ہمیں بھی فقیروں کی جوتیاں سیدھی کرنے دیں۔یہ شرف ہمیں عطا ہو۔‘‘
حضور… آپ اس فقیر کو نادم کر رہے ہیں۔ کجا گنگوا تیلی کجا راجا بھوج…
’’ حضرت… ہیرے کی قدر جوہری جانتا ہے ناں… آج ہمارے لیے عید کا دن ہے ۔ مسرت اور شادمانی ہمارے گردوالہانہ رقص ر رہی ہے ۔ حضور کی تشریف آوری پر اس محل کا ہر ذرہ اپنی قسمت پر نازاں ہے اور سب سے بڑھ کر ہمارا دل ۔ جو آپ کے قرب پر مسلسل بے اختیار دھڑکے جا رہا ہے۔
حضور… آپ کی بندہ پروری کے قربان جائیے… یہاں بھی جسم کارواں رواں آپ کی محبت، عنایت اور کرم سے سرشار ہے … اور پھر…
شا ہ عالم نے باآواز بلند کہا ’’ ارے کوئی ہے …‘‘
حکم عالم پناہ… خاصہ یہیں لگایا جائے…
’’ حضرت لیجیے۔ خاصہ حاضر ہے ۔ تناول فرمایے…
’’ حضور… پہلا لقمہ آپ لیجیے… تاکہ کھانے میں برکت ہو۔
حضرت… پہلے لقمہ لیجیے… تاکہ کچھ سعادت ہمارے حصے میں آئے۔
’’ حضور… غلام آپ کے حکم کو بجا لاتا ہے… لیجیے بسم اللہ کیجیے …
حضور… اللہ پاک آ پ کا اقبال بلند کرے۔ اس دسترخوان کو اور وسیع کرے اور اس دسترخوان سے غریبوں اور فقیروں کی تالیف قلب کی ہوتی رہے۔
آمین… حضرت… آمین … اے مرے پروردگار ہمیں اور توفیق ارزانی عطا کرتا کہ ہم بندگان الہی کی خدمت کر سکیں۔
لیجیے… حضرت ہاتھ دھو لیجیے … یہ صافہ لیجیے۔
حضور… ہم فقیروں کو گناہ گار نہ کیجیے…
’’ حضرت … آج کا دن باعثِ عزوافتخار ہے کہ آپ نے بندہ پروری کی اور قدم رنجہ فرمایا۔
حضور… آپ کی مہربانیاںِ اس قدر ہیں کہ یہ عاجز آپ کی محبتوں کا کس منہ سے شکریہ ادا کرے۔ بات یہ ہے شاہ عالم کہ ہم عرصہ دو سال سے بلاد ہندوستان کے چپہ چپہ پر گھوم آئے ہیں… ہرجانب ا من وسکون ہے مگر کہیں کہیں رعایا سخت مالی مشکلات کا شکار ہے ۔ افلاس دن بدن بڑھ رہا ہے ۔ غربا و مساکین کی زندگی اجیرن ہوکر رہ گئی ہے۔آپ جیسے بندہ پرور اور عادل حکمراں کے دور میں یہ چیزیں قابل ستائش نہیں ہیں۔لہذا اس جانب فی الفور توجہ کی درخواست ہے۔
حضرت… ان شاء اللہ کل صبح ہی اس سلسلے میں فرمان شاہی جاری کر دیا جائے گا۔
حضور… عمال حکومت پر گرفت بھی ضروری ہے۔ ان اسباب کا پتہ چلانا بھی ضروری ہے کہ جن کی بدولت معاشرے میں بے چینی پیدا ہوتی ہے۔
حضرت ان شاء اللہ ایسا ہی ہوگا… آپ اطمینا ن رکھیے… اور ہاں مجھے یاد آیا کہ آج سے ہفتہ عشرہ پہلے ہم نے ایک خواب دیکھا۔ خواب میں ہم دیکھتے ہیں کہ ہمیں ایک انبوہ کثیر ملنے آیا ہے ۔ کسی کے ہاتھ میں درانتی ہے ۔ کسی کے ہاتھ میں کدال ہے ۔ کوئی معمار ہے۔ کوئی بڑھئی ہے۔ کوئی تجار ہے ۔کوئی حافظ قرآن ہے۔ بہت سے لوگ خطاطی کے نمونے لیے ہوئے ہیں۔ بڑے ہی دل کش انداز میں آیات ربانی نفاست سے لکھی ہوئی ہیں … کہیں اونٹوں پر سنگ سرخ لدا ہوا ہے ۔ کہیں بہت سے کٹے ہوئے درختوں کے ڈھیر ہیں… کہیں چونے۔ مٹی کے بڑے بڑے ڈھیر ہیں … سب چیزیں آہستہ آہستہ جمع اور یک جا ہونا شروع ہوتی ہیں ۔ اور آہستہ آہستہ میرے کاندھوں پر وزن بڑھنا شروع ہوتا ہے… میرے کاندھوں پر وزن لمحہ بہ لمحہ بڑھ رہا ہے۔ میں بے کل اور پریشان ہوں کہ یہ الہیٰ کس بات کی سزا مل رہی ہے۔ تو ناگہاں میرا ذہن آپ کی جانب سے توجہ کرتا ہے… میں دیکھتا ہوں کہ آپ مسکراتے ہوئے تشریف لا تے ہیں اور میں دوڑ کر آپ کی قدم بوسی کے لیے جھکتا ہوں کہ آنکھ کھل جاتی ہے … اس خواب کی تعبیر بتلائیے حضرت۔
’’ حضور… آپ اپنے خواب کی تعبیر معلوم کرنا چاہتے ہیں اور ہم آپ سے اپنا خواب بیان کرنا چاہتے ہیں ۔ اگر اجازت ہو تو سمع خراشی کی زحمت دیں۔
حضرت… بسم اللہ ۔
حضور… فقیر نے ایک خواب دیکھا کہ دریائے راوی پار کرکے شہر لاہور میں داخل ہوا ہے اور داتا صاحب کے دربار میں حاضری دے رہا ہے۔ فاتحہ خوانی کے بعد ایک بزرگ ملتے ہیں اور کہتے کہ اس شہر میں ایک چیز کی کمی ہے …
وہ کیا … ہم نے سوال کیا۔
دیکھیے … انھوں نے ہماراہاتھ پکڑا۔ ہمیں ایسا محسوس ہوا کہ ہم دونوں فضا میںبلند ہو رہے ہیں ۔ اوپر جا کر دیکھا تو شہر کی عمارتیں چھوٹی چھوٹی نظر آ رہی تھیں۔ ہمرے ہمراہی نے کہا ۔ حافظ صاحب دیکھیے… یہ شہر ایک شاندار مسجد سے محروم ہے اور یہ سعادت آپ کے حصے میں آئی ہے کہ بلند و بالا عالی شان مسجد آپ کے ہاتھوں تیار ہو اور وہ سامنے میدان دیکھو… جہاں مسجد تعمیر کرنی ہے ۔ یہ کہتے ہوئے انھوں نے ہمارا ہاتھ چھوڑ دیا… اور یوں ہماری آنکھ کھل گئی …
حضرت سبحان اللہ … یہ آپ کا کمال ہے کہ آ پ نے ہمارے خواب کی اتنی اچھی تعبیر بیان کی سبحان اللہ …
’’ حضور … اب آپ کا کیا خیال ہے…
’’حضرت … جو حکم ہو … ہمارا خیال ہے کہ واقعی ہمیں مسجد کا کام شروع کر دینا چاہیے او رہماری دلی خواہش ہے کہ یہ کام آپ اپنے ہاتھوں سے سرانجام دیں۔ مسجد اتنی وسیع ، دلکش او رعالی شان ہو کہ آنے والی نسلیں ہمارے فن تعمیر کی تعریف کریں۔
حضور…ایک بات بتلائیے کہ انسانو ں کو خوابوں میں نت نئے خیال کیوں سمجھائے جاتے ہیں۔
’’ حضرت… مجھ کم علم کو کیا پتہ۔ اس بارے میں اگر آپ کچھ ارشاد کریں … تو …
حضور… آپ کی سلطنت میں مختلف النوع مذاہب کے انسان رہتے ہیں۔ایک اچھے حکمران کی یہ بھی خاصیت ہونی چاہیے کہ ملک میں ہر شخص کو ذاتی ترقی کابرابر حق ملے ۔ اس کے حقوق عادلانہ طریقے سے اسے حاصل ہوں۔ تعمیرات انسانی زندگی کا راستہ ہیں۔ اس سے بہت سے انسانوں کو روزگار ملتا ہے ۔ اور کام کرنے کی لگن پیدا ہوتی ہے ۔ دولت کی ریل پیل ہوتی ہے … نت نئی چیزوں کی اختراع پیدا ہوتی ہے۔ صناع اور کاریگر اپنے اپنے پیشوں میں نئی نئی اختراع کرتے ہیں … مخلوق ِ خدا زندگی کی مسرتوں سے ہم کنار ہوتی ہے ۔ تخلیق کار میں محشرِ خیال سر اٹھاتا ہے… فن میں جوت پیدا ہوتی ہے۔ مسابقت لگن پیدا کرتی ہے۔
حضرت … بجا ارشاد فرمایا۔ آپ کی باتیں سن کر دل شاد ہوا ۔ آباد ہوا۔
حضور… وقت زیادہ ہو گیا ہے۔ یہ فقیر اب اجازت چاہتا ہے ۔
حضرت… حضرت ہم تو کئی دنو ںسے آپ کے لیے چشم براہ تھے۔ آج دل کی مراد برآئی ہے ۔ آپ سے درخواست ہے کہ بلا د ہندوستان میں ایک ایسی مسجد تعمیر کریں کہ صاحبان ذوق اش اش کر اٹھیں… مگر اس لمحہ میری آپ سے ایک درخواست ہے کہ … آج آپ کے اقتداء میں نماز تہجد ادا کی جائے…
حضور… یہ گناہ گار اس کا اہل نہیں ہے۔
حضرت ہم سے یہ سعادت نہ چھینے… بسم اللہ …
حضور… اگر آپ کی منشاء یہی ہے کہ تو صفیں درست کرنے کا حکم دیجیے…
جنگل کی آگ کی طرح یہ خبر محل سرا میں پھیل گئی اور نماز تہجد کے لیے صفیں آراستہ ہونے لگیں …
________________