پیر سائیں کو درگاہ کے احاطہ ہی میں دفنا دیا گیا تھا۔مریدین کے علاوہ شہر کے عمائدین ،سیاست دان و جاگیر دار کی ایک کثیر تعداد وہاں موجود تھی۔ظہیر شاہ نہیں پہنچ سکا تھا۔ہجوم میں چہ میگوئیاں تو ہوئیں۔لیکن ہرکسی نے اپنی سوچ کے مطابق خود ہی وجہ اخذ کر لی۔کیونکہ ظہیر شاہ کی جگہ شعیب موجود تھا۔تجہیر و تکفین اگرچہ دیوان ہی کر رہا تھا۔لیکن تمام تر معاملات اسی کی زیر نگرانی ہو رہے تھے۔جس کسی نے دیوان سے پوچھا کہ ظہیر شاہ کیوں نہیں پہنچا تو ا س کے پاس ایک ہی بہانہ تھا ۔اس نے لوگوں کو یہی کہا کہ والد صاحب کی اچانک وفات کا سن کر صدمے سے انہیں دل کا دورہ پڑ گیا ہے۔وہ لندن ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔ڈاکٹروں نے اتنا طویل سفر کرنے سے منع کیا ہے۔دھیرے دھیرے یہ بات لوگوں میں پھیلتی چلی گئی۔تا ہم شعیب کو دیکھ کر کسی نے بھی اتنا محسوس نہیں کیا تھا۔سب لوگ اسی سے افسوس کرتے ہوئے چلے گئے تھے۔زہرہ بی جہاں عدت کے لیے بیٹھ گئی وہاں اسے بیٹے کے بچھڑے کا بھی غم شدت سے تھا۔اس نے اپنے بیٹے سے بہت کہا کہ تم آ جاؤ ،لیکن وہ اپنی ضد پر قائم رہا۔
’’بابا سائیں نے اپنی زندگی میں میری جگہ اس عورت کو ترجیح دی،جس سے میں شدت سے نفرت کرتا ہوں۔وہ اب بھی حویلی میں ہے اور بقول آپ کے بابا سائیں نے اس سے معافی بھی مانگی ۔مگر اس بد ذات عورت نے معافی نہیں دی۔میں اب بھی اس کے ہوتے ہوئے حویلی میں آ جاؤ۔یہ نا ممکن ہے اماں جی۔۔نا ممکن۔۔۔‘‘
’’میں بیٹا یہاں اکیلی ۔!کس کے سہارے پر رہوں۔‘‘ زہرہ بی نے کمزور سی دلیل کا سہارا لیا۔
’’آپ کو اپنے عدت کے دن تو وہیں گذارنا پڑیں گے۔پھر اس کے بعد میں دیکھ لوں گا کہ کیا کرنا ہے۔‘‘اس نے حتمی انداز میں جواب دیا تھا۔ اور زہرہ بی خاموش ہو گئی تھی۔وہ اپنے کمرے تک سمٹ گئی تھی۔ باہر کیا ہو رہا تھا ۔اسے کچھ خبر نہیں تھی۔حویلی میں آنے والی خواتین سے وہ نہیں ملی،وہ ان سے بات چیت کرنے کی ہمت ہی محسوس نہیں کر رہی تھی۔اس نے سب کچھدادی اماں پر چھوڑ دیا اور وہ افسوس کے لیے آنے والی عورتوں سے ملتی رہیں۔
پیر سائیں کو فوت ہوئے دو دن گذر گئے ۔اگلی صبح سوئم کی رسم تھی۔یہ وہ موقعہ ہوتا تھا جب نئے پیرسائیں کا اعلان کیا جاتا تھا۔درمیان میں فقط ایک رات تھی۔بڑے کمرے میں دادی اماں اپنی ہی سوچوں میں گم بیٹھی ہوئی تھی کہ ملازمہ نے دیوان کے آنے کی بابت اطلاع دی۔اماں نے اسے آنے کی اجازت دے دی۔وہ بڑے مودب انداز میں ان کے سامنے آ کر کھڑا ہو گیا۔
’’بولودیوان۔! کیا کہتے ہو؟‘‘اماں بی نے انتہائی سنجیدگی سے پوچھا۔
’’کل صبح سوئم کی رسم کے لیے تمام انتظامات مکمل ہو گئے ہیں۔امید ہے کہ مریدین کی ایک کثیر تعداد آئے گی۔اس کے علاوہ بہت زیادہ لوگ ہوں گے۔‘‘
’’اگر انتظامات ہو گئے ہیں تو اچھی بات ہے ۔اب تم کیا چاہتے ہو۔‘‘انہوں نے پوچھا۔
’’میں معلوم کرنے آیا تھادادی اماں کہ کل ظہیر شاہ تو ہیں نہیں ،دستار بندی کے بارے میں کیا جواب دیں گے۔پہلے تو جھوٹ سچ چل گیا تھا۔اب کیا ہو گا؟۔‘‘دیوان نے خاصی تشویش سے پوچھا۔
’’تم نے کیا سوچا ہے؟‘‘وہ بولیں۔
’’یہ جھوٹ وقتی طور پر تو چل جائے گاکہ ابھی انہیں ہسپتال سے فارغ نہیں کیا گیا۔یا ڈاکٹرز نے سفر کرنے کی اجازت نہیں دی۔لیکن یہ بھی تو کوئی امید نہیں ہے کہ وہ کب تک یہاں پہنچ پائیں گے یا آئیں گے ہی نہیں۔ اگر ہم چہلم تک کا اعلان کر دیتے ہیں تو کیا اس وقت وہ آ پائیں گے۔کوئی امید ہے؟‘‘دیوان نے کسی موہوم امید کا سہارا لینا چاہا۔تو اماں سوچ میں پڑگئیں ۔پھر سر اٹھا کر بولیں۔
’’دیوان جو کچھ ظہیر شاہ نے کیا،کیا اب بھی وہ اس قابل ہے کہ اسے اس حویلی میں داخل بھی ہونے دیا جائے۔اسے اگر اپنی بیوی سے کوئی مطلب نہیں تھا تو اپنے باپ کی وفات پر آ جاتا۔آخر وہ کسی برتے ضد کر رہا تھا۔کم از کم میں اپنی زندگی میں اسے حویلی میں داخل نہیں ہونے دوں گی۔‘‘انہوں نے حتمی لہجے میں کہا تو دیوان ایک دم سے مایوس ہو گیا۔پھر دھیمے لہجے میں بولا۔
’’پھر تو سارا معاملہ ہی چوپٹ ہو جائے گا۔کیا جواب دیں گے لوگوں کو۔پیر سائیں کا جانشین ضروری ہے۔میرا تو خیال ہے ،اعلان کر دیتے ہیں۔یہ بعد کی بات ہے کہ ظہیر شاہ کے ساتھ کیا معاملہ ہوتا ہے۔‘ ‘ دیوان نے صلاح دی۔
’’ظہیر شاہ گدی نشین نہیں ہو گا۔یہ حتمی فیصلہ ہے۔‘‘اماں بی نے اس کی غلط فہمی دور کر دی۔
’’تو پھردادی اماں،میرے لیے کیا حکم ہے؟‘‘دیوان نے انتہائی احترام سے کہا۔
’’میں صبح تمہیں بتا دوں گی کہ کیا کرنا ہے۔ابھی تم جاؤ،‘‘اماں بی نے کہا تو وہ چند لمحے وہاں کھڑا رہا۔پھر واپس پلٹ گیا۔
اماں بی کے ذہن میں بھی کچھ نہیں تھا۔لیکن اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ اس مسئلہ سے آنکھ چرائی جا سکتیں ۔دستار بندی تو ہوتا تھی اور ظہیر شاہ کے بارے میں وہ فیصلہ کر چکی تھی۔تبھی اس کے ذہن میں شعیب کا خیال آ گیا۔وہ بھی تو اس خاندان کا فرد تھا۔کیوں نا اسے گدی نشین بنا دیا جائے ؟ یہ خیال آتے ہی اس نے ملازمہ سے کہا کہ زبیدہ شعیب اور زہرہ کو بڑے کمرے میں لے آؤ۔کچھ ہی دیر بعد وہ سبھی ایک ایک کر کے بڑے کمرے میں جمع ہو گئے۔صرف نادیہ اپنے کمرے میں تھی۔اماں بی کو معلوم تھا کہ وہ شعیب کے سامنے نہیں آئے گی۔
’’اماں کیا بات ہے ،خیریت تو ہے نا۔‘‘زبیدہ نے پوچھا تو انہوں نے دیوان کے آنے اور اس کی گفتگو بارے سب کو بتادیا۔
’’ہاں۔!یہ مسئلہ تو کل ہو گا؟‘‘ زبیدہ نے تشویش سے کہا۔
’’نہیں ہو گا،کیونکہ اب ظہیر شاہ کی تو کوئی گنجائش نہیں،اب اس خاندان میں شعیب ہی ہے جو اب اس ذمہ داری کو نبھائے ۔‘‘یہ کہتے ہوئیدادی اماں نے شعیب کی طرف دیکھا تو سبھی چونک گئے۔تبھی وہ نہایت تحمل سے بولا۔
’’اماں بی۔!آپ کا حکم سر آنکھوں پر لیکن میں اس ذمے داری کااہل نہیں ہوں،میں گنہ گار بندہ اتنے زیادہ لوگوں کے جذبات و احساسات کے ساتھ نہیں کھیل سکتا۔‘‘
’’لیکن بیٹا۔!یہ دنیا داری تو بھی چلانا ہے۔تم سمجھاؤ اپنے بیٹے کو۔‘‘اماں بی نے ایک ہی وقت میں شعیب اور زبیدہ سے کہا۔
’’میں مانتا ہوں اماں کہ یہ دنیا داری ہے مگر میں اپنے ضمیرکے سامنے بھی جواب دہ ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ مال و دولت کی فراوانی ہو گی۔مگر کیا کروں گا ایسی دولت کا جس سے میرا ضمیر مجھے ملامت کرتا رہے۔ میں بہرحال اس کا اہل نہیں ہوں۔‘‘
’’شعیب ۔!‘کمرے کے باہر سے نادیہ کی آواز گونجی تو سبھی نے ادھردیکھا۔وہ اگرچہ کمرے میں نہیں تھی لیکن اس کے باہر ہونے کا انہیں یقین ہو گیا تھا۔’’شعیب آپدادی اماں کی بات مان لیں۔‘‘
’’کیوں مان لوں میں۔!صرف اسی وجہ سے کہ میں اس خاندان کا فرد ہوں۔۔تم بھی جانتی ہو کہ گدی نشین ہونے کا مطلب کیا ہوتا ہے۔جیسے خود ہاتھ اٹھانا نہیں آتے۔وہ کسی کے لیے کیا دعا کرسکے گا۔۔صرف مال و دولت اکٹھا ہی تو مقصد نہیں ہے نا۔۔‘‘اس نے بڑے دھیمے مگر طنزیہ لہجے میں کہا۔
’’آپ مال و دولت اکٹھا نہ کریں۔مگر لوگوں کی پریشانیاں دور کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔‘‘نادیہ نے دلیل دی۔
’’وہ الحمد اللہ میں کر رہا ہوں۔مزید کی مجھے ضرورت نہیں۔‘‘
’’دیکھو شعیب ،یہ مرد کی دنیا ہے۔ہم حویلی کی عورتیں ،وہ کچھ نہیں کر سکتیں جو آپ کر سکتے ہو۔جب ہم آپ سے درخواست کر رہی ہیں تو آپ کو ہماری بات ماننا چاہئے۔قدر ت کی طرف سے جب یہ رتبہ آپ کو تفویض کیئے جانے کے حالات بن گئے ہیں تو آپ کیوں منع کر رہے ہیں۔اور جہاں تک صلاحیت یا اہلیت کی بات ہے تویہ اتنی بڑی بات نہیں ،اللہ تعالیٰ خلوص نیت دیکھتا ہے ،آپ دردِ دل کے ساتھ انسانیت کی خدمت کریں۔رب تعالیٰ برکت دے گا۔‘‘نادیہ نے بہت ٹھہرے ہوئے لہجے میں سکون سے کہا تو وہ بولا۔
’’دیکھو نادیہ ضد نہیں کرتے،یہ حق ظہیر شاہ کا ہے،اس کا انتظار کر لیا جائے تو میرے خیال میں زیادہ بہتر ہے۔کل اعلان ہی کرنا ہے تو وہ میں کر دوں گاکہ جب تک وہ یہاں نہیں آ جاتے،اس وقت تک دستار بندی نہیں ہو سکتی۔ویری سمپل۔‘‘شعیب نے ایک دوسری طرح سے اپنی جان چھڑانے کی کوشش کی۔
’’پوچھ لیں زہرہ بی سے،کیا انہیں امید بھی ہے کہ ظہیر شاہ یہاں آئے گا؟‘‘ نادیہ نے اسی ٹھہرے ہوئے لہجے میں کہا تو شعیب نے زہرہ بی کی جانب دیکھا جو سر جھکائے حسب معمول خاموش بیٹھی ہوئی تھی۔وہ کافی دیر یونہی بیٹھی رہی تو اس نے پوچھا۔
’’آپ جواب دیں نادیہ کی بات کا۔۔۔‘‘
’’نہیں،وہ یہاں نہیں آئے گا۔اس نے کہا ہے کہ جب تک نادیہ اس حویلی میں ہے،وہ یہاں قدم نہیں رکھے گا۔‘‘زہرہ بی نے دکھتے ہوئے لہجے میں کہا۔اس پر وہ چند لمحے خاموش رہا ،پھر بولا۔
’’چلیں ۔!آپ اس سے پوچھ لیں ،بلکہ اسے بتادیں کہدادی اماں اور نادیہ اس حویلی میں نہیں رہیں گیں۔وہ آ جائے۔‘‘
’’یہ کیسے ہو سکتا ہے ۔۔میں خود اسے یہاں آنے کی اجازت نہیں دوں گی۔‘‘اماں بی نے سخت لہجے میں کہا۔
’’اماں بی۔!اب کسی مسئلے کا حل تو نکالنا ہے نا۔۔اس کی چیز ہے ،اسے دے دی جائے ،ایک ہی سال میں ایسی حویلی کھڑی ہو جائے گی،آپ فکر مند کیوں ہوتی ہیں۔‘‘ شعیب نے اسے سمجھایا تو ایک دم سے نرم ہوتے ہوئے بولیں۔
’’بیٹا ۔!وقت اور حالات نے تمہیں ہمارے خاندان کا سر براہ بنا دیا ہے ۔میں تمہاری ہر بات تسلیم کرنے کو تیار ہوں ۔مگر میں ظہیر شاہ کو معاف کردوں یہ ناممکن ہے۔‘‘
’’میں ساری بات سمجھتا ہوں دادی اماں،آئندہ کیا ہو گا۔میں نے وہ بھی سوچ لیا ہے،ایک بار آپ زہرہ بی کو فون تو کر لینے دیں۔‘‘ اس نے انتہائی تحمل سے کہا تودادی اماں نے اجازت دے دی۔
’’ٹھیک ہے کر لے فون۔‘‘
فون منگوایا گیا اور زہرہ بی نے اپنے بیٹے سے رابطہ کیا۔سبھی سن رہے تھے۔کچھ دیری تمہیدی باتوں کے بعد جب زہرہ بی نے یہاں کی ساری صورت حال بارے بتا کر پوچھا تو وہ بولا۔
’’ٹھیک ہے ،اگر وہ حویلی سے چلے جاتے ہیں ۔تو میں آ جاؤں گا۔‘‘
’’لیکن پھر تمہاری بہن حویلی میں آ جائے گی۔پوری زندگی کے لیے۔‘‘فرح نے ایک دم سے چیختے ہوئے کہا۔
’’یہ کیا بات ہوئی،تم اپنے گھر میں خوش ہو ۔‘‘وہ بولا۔
’’نادیہ کی یہ شرط اس لیے تھی کہ تمہاری بہن کا گھر بس جائے،جس کو یہ امید نہیں تھی کہ اس کی کبھی شادی بھی ہوگی۔اس نے میری اتنی عزت کی،میرامان رکھا اور میں اس کی تذلیل ہونے دوں۔ ظہیر شاہ،تم نہیں آتے تو نہ آؤ،اگر آناہے تو انہی کی موجودگی میں آنا ہو گا۔ورنہ میں شعیب کا گھر چھوڑ کر حویلی میں آ جاؤں گی۔کیا صرف تم ہی ضد کرنا جانتے ہو۔ ۔بابا سائیں کی موت تمہاری وجہ سے ہوئی اور اس کا الزام تم نادیہ پر ڈال رہے ہو۔شرم آنی چاہیے تمہیں۔اسے طلاق بھیجتے ہوئے تمہیں اپنی بہن کا ذرا بھی خیال نہیں آیا۔‘‘
’’ٹھیک ہے ،میں کبھی حویلی نہیں آؤں گا۔تم لوگ یہ سمجھ لو،میں تم لوگوں کے لیے مر گیا ہوں۔‘‘وہ حتمی لہجے میں بولا۔
’’تو پھر تمہیں مر ہی جانا چاہئے۔‘‘فرح نے انتہائی تلخی سے کہا تو دوسری طرف سے لائن کٹ گئی۔فرح چند لمحے تیز تیز سانس لیتی رہی،پھر شعیب کی طرف دیکھ کر بولی۔’’اس وقت یہ خاندان انتہائی نازک حالات سے گذر رہا ہے۔اس وقت اس کی عزت و وقار آپ کے ہاتھ میں ہے۔میں سمجھتی ہوں کہ اس طرح آپ کو اپنی نوکری چھوڑنا ہو گی۔لیکن میں لکھ کر دیتی ہوں کہ میری تمام جائیداد آپ کے نام،امی بھی ابھی دے دیں گی۔‘‘
’’اور فرح میں بھی اپنی جائیداد شعیب کے نام کر دوں گی۔‘‘نادیہ نے کمرے کے باہر سے کہا۔چند لمحے بعد بولی۔’’فی الحال آپ چھٹیاں لے لیں۔جب آپ کے نام یہ سب ہو جائے تو آپ نوکری چھوڑ دیں۔‘‘
شعیب سر جھکائے چند لمحے سوچتا رہا ،جیسے کسی فیصلے پر پہنچ جانا چاہتا ہو۔پھر ایک دم سر اٹھا کر بولا۔
’’نادیہ۔کچھ وقت پہلے تم نے مجھ سے ایک سوال کیا تھا،وہ تمہیں یاد ہے؟‘‘
’’ہاں یاد ہے۔۔‘‘وہ دھیرے سے بولی۔
’’تم نے مجھ سے کہا تھا کہ کیا مجھے تم سے محبت ہے؟آج میں تم سے یہ سوال کرتاہوں کہ کیا تمہیں مجھ سے محبت ہے؟‘‘شعیب نے بڑے گھمبیر لہجے میں پوچھا۔تو چند لمحے خاموشی کے بعد اس نے کہا۔
’’ہاں۔!ہے۔یہ ایک ایسا جذبہ ہے جو ختم تو نہیں ہو سکتا۔‘‘
’’تو پھر آج میں تمہیں اس ناطے ایک درخواست کرتا ہوں ۔۔مجھے گدی نشین ہو جانے کا حکم مت دو۔بلکہ یہ ذمہ داری تم سنبھالو۔‘‘
ایک دم سے سناٹا چھا گیا۔ یوں جیسے وہاں موجود ہر ذی روح کی سانس رک گئی ہو۔انہوں نے انتہائی حیرت سے شعیب کی دیکھا۔
’’یہ کیسے ممکن ہے ۔۔۔؟‘‘نادیہ نے تیز لہجے میں کہا۔
’’ممکن ہے ،کیا تم انسان نہیں ہو۔کیا تمہارے اندر جذبات و احسات نہیں ہیں۔کیا تم لوگوں کے کام نہیں آ سکتی۔تم با پردہ رہ کر بھی انسانیت کی خدمت کر سکتی ہو۔میں تم سے وعدہ کرتا ہوں کہ تمہارے جتنے بھی باہر کے معاملات ہوں گے،میں انہیں دیکھوں گا۔تمہیں جہاں بھی مشکل پیش آئے گی،میں تمہارے ساتھ کھڑا ہو ں گا۔بولو،کیا تم میری بات مانتی ہو؟ ‘‘شعیب نے ٹھہرے ہوئے لہجے میں سنجیدگی سے کہا۔ دوسری طرف خاصی دیر تک خاموشی رہی۔پھر اس کی آواز ابھری۔
’’جی،میںآپ کا حکم مانتی ہوں۔‘‘اس کی آواز آتے ہی سب چونک گئے۔
’’تم نے میرا مان رکھ لیا۔‘‘شعیب نے خوشدلی سے کہا۔
’’لیکن۔!یہ کیسے ہو گا۔کیونکرہو گا۔۔یہ سب آپ نے دیکھنا ہے۔‘‘نادیہ نے کہا۔
’’میں دیکھ لوں گا۔‘‘یہ کہہ کر اس نے سب کے چہروں پر دیکھا کسی نے بھی کچھ نہیں کہا۔سو وہ بولا۔’’کیاآپ اس فیصلے پرمطمئن ہیں۔‘‘
’’اب تو جو تم چاہو گے۔وہی ہو گا بیٹا۔!‘‘دادی اماں نے کہا اور اپنا سر جھکا لیا۔
اس صبح حویلی کے اندر اور باہر لوگوں کا جم غضیرتھا۔دیوان کو ابھی تک معلوم نہیں تھا کہدادی اماں نے کیا فیصلہ کیا ہے۔وہ منتظر تھا کہ حویلی سے اس کے لیے کیا پیغام آتا ہے۔ایصال ثواب کی خصوصی دعا ہو چکی تو ایک بے چینی پھیل گئی۔ظہیر شاہ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔اب نیا پیر سائیں کون ہو گا؟ ایسے ہی لمحات میں شعیب نے آگے بڑھ کر اپنے ادرگرد بیٹھے ہوئے لوگوں کو دیکھا،ان میں مریدین خاص بھی تھے۔ عمائدین شہر اور سیاست کی دنیا سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی تھے۔وہ سب شعیب کی بات سننے کے لیے متوجہ ہو گئے۔اس نے چند تمہیدی باتوں کے بعد کہا۔
’’رسم کے مطابق اس وقت پیر سائیں کی دستار بندی ہونا چاہئے تھی۔لیکن کچھ ضروری وجوہات کی بناء پر دلاور شاہ صاحب کے بیٹے ظہیر شاہ تشریف نہیں لا سکے۔کچھ عرصہ تک امکان بھی نہیں ہے کہ وہ تشریف لا سکیں۔لندن میں ان کے ساتھ مسلسل رابطہ ہے اور انہی کی خواہش ہے اس فیصلے میں پوری طرح شامل ہے جو میں آپ کے علم میں لانا چاہ رہا ہوں۔‘‘اس نے اتنا کہا تو ایک دم ہر طرف سکوت چھا گیا۔ہر ایک کو تجسس تھا ۔سب متوجہ تھے۔تبھی اس نے کہا۔’’فیصلہ یہ ہوا ہے کہ ظہیر شاہ صاحب کی دستار بندی نہیں ہوگی۔بلکہ دلاور شاہ صاحب کے بڑے بھائی صاحب کی بیٹی کے سر آنچل دے دیا جائے گا۔اب وہ گدی نشین ہوں گی۔‘‘
اس فیصلے نے پورے ہجوم میں بے چینی بھر دی۔لیکن سوال کرنے کی جرات کسی میں بھی نہیں ہوئی۔ایسے ہی لمحات میں دیوان نے حق نمک ادا کیا اور شعیب کے بیٹھتے ہی آگے بڑھا او ر ہجوم کی توجہ اپنی طرف کرتا ہوا بولا۔
’’جس طرح پیر سائیں کی زندگی میں سلسلے چلتے تھے،اسی طرح اب بی بی سائیں کی زندگی میں بھی چلیں گے۔کسی بھی نئی بیعت کی ضرورت نہیں۔ جو عقیدت رکھتا ہے،اس کی بیعت ہے،باقی چاہیں تو آزاد ہیں۔دستار کی بجائے آنچل انہیں بھجوایا جا رہا ہے۔کیا آپ سب کو قبول ہے۔‘‘ہجوم سے قبول ہے کی صدا بلند ہوئی۔تو چند مریدین کے سامنے بڑے سے تھال میں سفید آنچل لایا گیا۔انہوں نے وہ اٹھایا اور اندر موجود خواتین کی طرف بھجوا دیا گیا۔تب ہجوم میں لنگر کھول دیا گیا۔لوگ اس طرف متوجہ ہو گئے۔لنگر کھانے کے دوران لوگ تبصرہ آرائی کرتے رہے۔جن لوگوں کو اس فیصلے پر اختلاف تھا بھی،وہ دب گیا۔دوپہر ہونے سے پہلے تک ہجوم کم ہوتا ہو اختم ہو گیا۔وہاں فقط ملازمین رہ گئے۔یا پھر وہ لوگ جنہوں نے کئے گئے انتظام کو سمیٹنا تھا۔بہت پہلے شعیب مردان خانے بیٹھا ۔لوگوں سے میل ملاقات کر رہا تھا۔اس نے محسوس کیا کہ اس فیصلے کا ردعمل فوری طور پر ظاہر نہیں ہوا تھا۔آئندہ آنے والے حالات میں کیا ہوتا ہے یہ وقت پر منحصر تھا۔مگر وہ مطمئن تھا۔کہ لوگوں نے فیصلہ مان لیا ہے۔
***
نادیہ کو پہلی بار کھڑکی میں کھڑا ہونا اچھا نہیں لگا۔وہ ہجوم میں سے اٹھ کر اپنے کمرے کی تنہائی میں آئی تھی۔وہ سارا وقت خاموش رہی تھی۔حویلی میں آنے والی خواتین کے تبصرے وہ سنتی رہی تھی۔ لیکن کسی ایک پر بھی اپنی زبان نہیں کھولی۔اس وقت جبکہ وہ کمرے کی تنہائی میں آ ئی تو سناٹے نے اس کا استقبال کیا۔لیکن دماغ میں مختلف خیالات کا ہجوم تھا۔بلاشبہ یہ اس کا ردعمل تھا جو وہ لوگوں کی باتیں سن آئی تھی ۔اس نے ایک نگاہ سے باہر ڈالی۔سورج مغربی افق کی جانب جھک چکا تھا۔وہ اپنے بیڈ پر آ کر بیٹھ گئی۔یہ تو وہ کئی دنوں سے محسو س کر رہی تھی کہ ا س میں جو الہڑ پن ہے ،وہ تو کب کا ختم ہو چکا ہے اورسنجیدگی نے آ کر ڈیرے جما لیے ہیں۔اس تبدیلی نے اس میں اعتماد بھر دیا تھا۔وہ اعتماد جو اس کی اپنی ذات پر تھا۔اگرچہ گذری رات شعیب نے بی بی سائیں ہو جانے کی ذمہ داری اس پر ڈال دی تھی۔لیکن اسے کچھ دن پہلے ہی معلوم ہو گیا تھا کہ ایک بہت بڑی ذمہ داری اس پر پڑنے والی تھے۔حیران کر دینے والا خواب۔جیسے وہ الہام ہی کہتی تھی اس میں اپنے والدین کو دیکھا اور اپنے آباؤ کے اس بزرگ کو جو صاحب مزار تھا۔اس وقت وہ اس خواب کو سمجھ نہ سکی تھی،لیکن آج اس خواب کو وہ پوری طرح جان گئی۔اس خواب میں یہی دکھائی دیا تھا کہ وہ اسی سفید محل کے باہر کھڑی ہے۔دور دور تک کوئی ذی روح نہیں ہے۔رنگوں اور خوشبوؤں کے اس جزیرے میں وہ تنہا ہے۔تبھی محل کے برجوں میں سے اڑتا ہوا ایک سفید آنچل اس کے سر پر آ پڑتا ہے۔جب وہ اپنا آنچل ہٹاتی ہے تو خواب ٹوٹ گیا تھا۔وہ جاگ گئی تھی۔رات اسے وہ خواب یاد نہیں آتا تھا لیکن جب خواتین نے ایک بڑا سارا سفید آنچل جس کے کناروں پر سنہری گوٹا لگا ہوا تھا،اس پر اوڑھا دیا تو وہ خواب اپنی پوری جزئیات کے ساتھ اس کے ذہن میں تازہ ہو گیا۔وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ ایک دن اس طرح وہ بی بی سائیں بن جائے گی۔وہ جو اسے حویلی سے نکال رہے تھے۔وہ خود اس حویلی میں آنے کے لیے اس کی اجازت کے مرہون منت تھے۔یہ خیال آتے ہی وہ چونک گئی۔اب اس کا رویہ دوسروں کے ساتھ کیسا ہونا چاہیے۔اس سوال کے جواب میں اس کے اندر سے آواز ابھری۔
’’ظاہر ہے اپنی محرومیوں کا ازالہ کرو،قدر ت نے تمہیں موقعہ دیا ہے کہ اپنی گذشتہ زندگی میں جو تم سسکتی رہی ہو ،وہ ساری خوہشیں پوری کرو جن کے لیے تم ترستی رہی ہو۔‘‘
’’وہ تو سب کچھ مجھے ویسے ہی مل گیا ہے۔اب میرا حکم ہی یہاں سب سے مقدم ہو گا۔بلکہ میری خواہش ہی میرا حکم ہے۔اور وہ وقت گذر چکا۔ وہ اپنے ساتھ میری محرومیاں اور تشنگی بھی اپنے ساتھ لے گیا۔اب تو میرے سامنے وہ آنے والا وقت ہے ،جس کو میں جیسے چاہوں،ویسا ہو گا۔‘‘
’’کیا خود پر ہونے والے ظلم اور زیادتیوں کوبھول جاؤ گی۔کیا تم ظہیر شاہ کو معاف کر پاؤ گی۔‘‘
’’کس سے بدلہ لو گی۔وہ پیرسائیں جو حالات کا سامنا ہی نہ کر سکا اور خود اپنے ہی خوف سے موت کی وادی میں جا پہنچا۔اس نے جس منصب کے لیے یہ ساری تگ و دو کی تھی۔وہ قدرت نے میرے ہاتھوں میں دے دیا۔اور اس کے ساتھ ہی میرا انتقام بھی دفن ہو گیا۔رہی ظہیر شاہ کی بات،حقیقت یہ ہے کہ میں خود اس سے فرار چاہتی تھی،میں نے کون سا اس کے سامنے اپنا آپ جھکا دیا تھا۔فطری طور پر مرد کی ایک انا ہوتی ہے۔میرے ساتھ شادی بھی تو اس نے جبر سے کی تھی۔یہ اچھا ہوا کہ اس نے وقت سے پہلے ہی مجھے آزاد کر دیا۔ورنہ وہ کوئی ایسا زور رنج بندہ ہوتا تو مجھے سسک سسک جانے پر مجبور کر دیتا۔وہ اگر ضد نہ کرتا تو آج وہ پیر سائیں ہوتا۔میں پھر کہاں ہوتی۔اگر قدرت نے مجھے یہ موقعہ دے ہی دیا ہے تو مجھے سارے بغض ،کینے انتقام اور بدلے بھول جانا چائیے اور وہ کچھ کرنا چاہیے جو اس منصب و مقام کا حق ہے۔‘‘
’’اس منصب و مقام کا ایک تقاضا یہ بھی ہے نادیہ کہ جب تک تم خود میں مضبوط اور سخت نہ رہو گی۔یہ لوگ تمہیں ،تمہاری ذات سمیت بہا کر لے جائیں گے۔پھر نہ تم رہو گی ار نہ تمہارا یہ منصب و مقام ،وہ لوگ جو پیر سائیں کے دور میں عیاشیوں میں اپناوقت گذارتے تھے ،وہ تمہیں کیسے قبول کر لیں گے۔‘‘
’’مجھے تو اپنے ڈگر پر چلنا ہے۔اور مجھے یقین ہے کہ میں راہ پر کامیاب رہوں گی۔اگر نہ بھی رہی تو میں نے کون سا اسی منصب و مقام کے لیے تگ و دو کی ہے،چھنتا ہے تو چھن جائے۔مجھے کیا لینا دینا۔اس منصب سے او رلوگوں سے ،جب تک میرا رب چاہے گا ،میں بی بی سائیں رہوں گی۔جب نہیں چاہے گا تو نہیں رہوں گی۔‘‘
’’تو بس پھر اپنی خواہشوں ،تمناؤں اور امیدوں کا گلا گھونٹ کر بی بی سائیں بنی رہو۔ویسے بھی تمہارے لیے زندگی میں کچھ نہیں بچا۔تمہیں اب تو گوشہ نشین ہو جانا چاہئے۔‘‘
’’نہیں میں گوشہ نشین نہیں رہوں گی۔میری زندگی کا ایک مقصد تھا،وہ پیر سائیں کے اس دنیا سے چلے جانے کے بعد ختم ہو گیا۔لیکن اب میں ان روایات کو ختم کر دوں گی جس نے انسانوں کو باندھا ہوا ہے۔ بلکہ خود انسان اس سے بندھے ہوئے ہیں۔‘‘
’’کیسے کروگی یہ سب۔کیسے ممکن ہو پائے گا یہ سب ۔کہیں یہ مقصد بھی ادھورا نہ رہ جائے۔‘‘
’’زندگی ہے اور کچھ کرنے کی لگن ہو تو سب کچھ ہو جاتا ہے۔میں نہ رہی اور میرے اندر امیدوں کے چراغ بجھ گئے تو پھر کیا،حالات اپنے اندر کیا کچھ رکھتے ہیں۔ میں ان کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتی۔لیکن اپنے من میں موجود امیدوں کو تو ٹٹول سکتی ہوں۔ممکن ہے میں ان لوگوں میں ہوں جن اپنی زندکی ان کے کام نہیں آتی۔وہ پیدا ہی دوسروں کے لیے ہوتے ہیں۔زندگی تو بتانی ہے ،جیسے بیت جائے۔‘‘
’’ہاں زندگی گذارنا تو مجبوری ہوتی ہے۔یہ تو گذرہی جاتی ہے۔انسان کا ہونا تو تبھی ہوتا ہے نا کہ وہ زندگی کو اپنے مطابق گذارے۔کیا اس کے اندر خواہشیں نہیں ہیں۔جنہیں پورا ہونا چاہیے۔کیا امیدیں نہیں ہیں جنہیں بر آنا چاہیے۔کیا وہ خواب نہیں دیکھتا جو حقیقت کا روپ دھار سکیں۔کیا حالات کے جبر تلے زندگی گذارنا ہی جیون ہے ۔اصل زندگی تو یہ ہے کہ اس کے لمحے لمحے سے خوشیاں کشید کر لی جائیں۔حالات تو دکھ ہی دیتے ہیں۔ہم دوسروں کی امیدوں پر پورا اترنا چاہیں تو بکھر کر رہ جائیں ٹوٹ کر ریزہ ریزہ ہو جائیں۔یہ زندگی تو نہیں ہے نادیہ۔۔ کیا ہم ہی نے دوسروں کے لیے جینا ہے۔کیا ہمیں کوئی حق نہیں کہ ہم چاہے جائیں۔کوئی ہمارے لیے جیئے۔تم مان لو نادیہ کہ تم ہار گئی ہو۔مایوس ہو اور اپنے آپ کو حالات کی دسترس میں دے دیا ہے۔حالات تو وہ بہا ؤ ہے ،جس میں ہر شے خش و خاشاک کی مانند بہہ جاتی ہے‘‘
’’ہم انسان ہی ہیں جو خوشیوں کی چاہ میں غم کو گلے لگا بیٹھتے ہیں۔کبھی سوچا کہ ایسا کیوں ہوتا ہے ۔جب ہم خود سے نا امید ہو جاتے ہیں ہماری یہی نا امیدی ہماری ذات کے اندر یقین کو دیمک کی طرح کھا جاتی ہے۔اور ہم شکستگی کی اس انتہا پر جا پہنچتے ہیں جہاں زندگی سے آنکھیں ملانے کی جرات نہیں ہوتی ۔کیا پتے گرنے سے شجر مرجھا جاتا ہے ۔نہیں،وہ یونہی منتظر ہوتا ہے ۔اسے امید ہوتی ہے ۔اور پھر یہی امید اسے پھل دیتی ہے۔‘‘
’’سوال تو یہ ہے کہ نا نادیہ۔! تمہیں اب کس کی امید ہے ۔تمہیں اگر شعیب کے کھوجانے کا ملال ہے تو کیا تم اب بھی اس کی امید رکھتی ہو۔کیا تم فرح کو اپنے ہاتھوں سے اس کی دلہن بنا کر بھی امید رکھتی ہو کہ وہ تمہارا ہو جائے۔‘‘
’’نہیں۔!خدا کے لیے میں ایسا نہیں چاہتی۔میں تو ایسا سوچوں گی بھی نہیں۔ ایسا سوچنا بھی بہت بڑا گناہ ،یہ تو نری خودغرضی ہے۔‘‘ اس نے کانپتے ہوئے سوچا۔اس سوچ نے اسے خوداپنے آپ سے ڈرا دیا تھا۔سوال ہی نہیں وہ الزام بھی تھی جس سے وہ ہر صورت بچنا چاہتی تھی۔اسے ہی نہیں ،سب کو یہ معلوم تھا کہ وہ شعیب سے محبت کرتی ہے ۔سبھی کے ذہن میں سوال تھا کہ اس نے اپنی محبت کو فرح کی جھولی میں کیوں ڈال دیا؟ اس کا جواب وہ نہ کسی کو بتا سکتی تھی اور نہ ہی بتانا چاہتی تھی۔تا ہم لوگوں کا تجسس اس کے ایک ایک رویے پر ہو گا۔خاص طور شعیب کے معاملے میں ۔اس کے کسی بھی طرز عمل سے اگر یہ شائبہ بھی ہو گیا کہ وہ اب بھی شعیب کی امید رکھتی ہے تو اس کی ساری ریاضت مٹی میں مل جائے گی۔وہ جو اس نے قربانی دی تھی رائیگاں چلی جائے گی۔
’’یہ سارا کچھ تم لوگوں کے خوف سے محسوس کر ہی ہو،تم اپنے من کی بات کہو،کیا تم اب بھی شعیب کو نہیں چاہتی ہو۔کیا تم اب بھی اس کی امید نہیں رکھتی ہو؟‘‘
’’میں شعیب کو چاہتی ہوں اور پورے دل سے چاہتی ہوں۔اس سے محبت کرتی ہوں۔اختر رومانوی نے مجھے جس شخصیت سے پیار کرنے کا الہام بخشا ،وہ شعیب ہی تو ہے۔لیکن اب اس کی آس رکھوں یا اس کی امید کروں تو یہ مسلک محبت سے سر ا سر ناجائز ہے۔ محبت کا مطلب پانا تو نہیں ہے نا۔‘‘
’’تو پھر امید کے نام پر وہی سامنے کیوں آ جاتاہے؟‘‘
’’حالات پر تو میری کوئی دسترس نہیں۔اختررومانوی میرے لیے ایک ان دیکھا ہیولا تھا۔جسے میں نے چاہا اوراس کو اپنی دسترس میں کرنے کے لیے ایک طویل سفر کیا۔اس کو پانے کی بہت ساری وجوہات میں میری بغاوت بھی شامل تھی۔میں نے اسے پانے کی تمنا کی تو وہ میری زندگی سے یوں نکل گیا جیسے وہ کبھی میر زندگی میں آیا ہی نہیں تھا۔اور پھر جب میں نے اسے پانے کی تمنا چھوڑ دی تو میرے سامنے آن کھڑا ہوا۔میں چاہتی تو ہاتھ بڑھا کر اسے اپنی دسترس میں کر سکتی تھی،لیکن نہیں،وہ میری دسترس کے لیے میری چاہت کے لیے بنا ہے۔بس میں چاہتی رہوں گی۔اسے اپنانے کی خواہش نہیں کروں گی۔مجھے معلوم ہے کہ جس دن میں نے اسے اپنا بنانے کی خواہش کی،اسی دن وہ میری زندگی سے چلا جائے گا۔‘‘
’’آنے والے حالات میں تم چاہو بھی تو اسے نظر انداز نہیں کر پاؤ گی۔وہ اس حویلی کا حصہ نہیں،بلکہ وہ واحد مرد ہے جیسے تم نے بھی خود پر حاکم تصور کر لیا تھا۔اس لیے تواسے گدی نشین ہو جانے کی درخواست کی تھی۔یہ اسی کا تحفہ ہے جو تمہیں دیا گیا ہے۔وہ ہر پل تمہاری نگاہوں کے سامنے رہے گا۔تم اس کے احساس سے کہاں تک بچ پاؤں گی۔کیا کبھی بھی تمہارے اندر اس کے لیے ہوک نہیں اٹھے گی؟‘‘
’’میں انسان ہوں اور انسان تو ویسے ہی جذبات سے گندھا ہوا ہوتا ہے ۔اس کی محبت میں اب احترام شامل ہو گیا ہے۔تو اس کی حیثیت ہی بدل گئی ہے۔اب میری محبت کے رنگ گہرے ہیں۔کیا یہ میری خواہش کے لیے اپنا آپ وار دیتا ہے۔میں کچھ نہ بھی کہوں تو وہ مجھے اہمیت دیتا ہے۔کیا صرف جسمانی تعلق ہی سب کچھ ہوتا ہے۔اس نے تو مجھے دیکھا تک نہیں ہے۔مجھے دیکھے بغیر میری چاہت رکھتا ہے ۔اور پھر یہ سارے سوال قبل از وقت ہیں۔ وہ فرح کا ہے اور میں کسی بھی بد دیانتی کے بغیر اس کی محبت دم بھرتی ہوئی۔جس سے مجھے کوئی نہیں روک سکتا۔اب تو میں خود آپ اپنے کو بھی روک سکتی۔شاید میری محبت ایسے ہی ہے۔‘‘
’’صحرا بھی عبور کرنا چاہتی ہواور نخلستان بھی تمہارے ساتھ محو سفر ہو،کیا یہ ممکن ہو پائے گا۔محبت میں اپنے آپ کو وار کر زندگی کی خواہش مندی بھی ہو۔قربانی دے کر اس کا صلہ بھی مانگ رہی ہو۔رنگوں کو وار کر اپنی زندگی بھی رنگین کر لینا چاہتی ہو۔یہ سب کیا ہے؟‘‘
’’یہ سب زندگی کا عطیہ ہے میں نے تحفے سمجھ کر قبول کر لیا ہے۔پا لینے کے بعد پھر کھو جانے کا خوف بے حال رکھتا ہے۔میں نے اسے پایا بھی نہیں مگر ہو میرا ہو گیا۔یہی انہونی ہو گئی ہے۔میں اگر چاہو ں بھی خود کو نہیں آزما سکتی ۔وقت مجھے آزما رہا ہے۔اور میں اس کی ہر آزمائش پر پورا اتروں گی،اس میں کوئی میری خواہش شامل نہیں ہے۔میں نے تو اپنی خواہشوں کو گرہ دے کر ایک طرف رکھ دیا ہے۔اور اسی کی چاہ کرنی ہے جو لازوال ہے۔جیسے میں چاہوں تو وہ ستر قدم آگے بڑھ کر مجھے چاہتا ہے۔وہ جو چاہے گا مجھے مقصد دے دے گا۔وہ جہاں چاہے گا میں اس کے سامنے سر جھکا دینے ہی میں اپنی فتح محسوس کرتی رہوں۔ اب یہی میری چاہ کی مسافت ہے ۔اب یہی میرا فیصلہ ہے۔بندگی کے مقدس ریشمی کپڑے میں جب بندہ اپنا آپ باندھ لیتا ہے تو پھر زندگی خود بخود نرم ہو جاتی ہے۔‘‘
’’کیا تمہیں بندگی کا دعویٰ ہے؟‘‘
’’انسانی بندگی نہ بھی کرے تو وہ بندہ ہی ہے۔اس کی دی ہوئی نعمتوں کو قبول کر نا بندگی ہی تو ہے۔اب یہ بندے پر منحصر ہے کہ وہ شکر ادا کرتا ہے یا نا شکروں کی صف میں جا کھڑا ہوتاہے ۔ان حالات میں دعویٰ کیا وقعت رکھتا ہے۔‘‘
اس جواب کے ساتھ ہی اس کے اندر سے اٹھنے والے سوال بند ہو گئے۔کافی دیر تک یہ خلا جیسی کیفیت میں رہی۔اسے لگا کہ یہ خود کلامی اسے بہت ساری ڈھارس دے گئی ہے۔اک حوصلہ اس کے من جا گزیں ہو گیا ہے۔وہ اعتماد مزید پختہ ہو گیا کہ وہ اب نادیہ نہیں بی بی سائیں ہے۔یہ سوچ آتے ہی اس نے ایک نگاہ دوڑائی۔مریدین کا دور و نزدیک حلقہ ،جاگیر داری کے درپیش مسائل اور پھر معاملات دنیا،کیا وہ نبھا پائے گی؟ وہ دھیرے سے مسکرا دی۔جس نے یہ سب دیا ہے ،اس نے ان سے نبرد آزمائی کی طاقت وہمت بھی دی ہے۔وہ کر لے گی۔۔۔یہ سوچ کر اس نے طویل سانس لی اور پھر بیڈ سے اٹھ گئی۔کھڑکی کے باہر اندھیرا اتر آیا تھا۔اب اس کی تنہائی ،تنہائی نہیں رہی تھی۔بہت کچھ ایسا تھا جیسے وہ اپنے ساتھ پاتی تھی۔وہ کمرہ جو کبھی سُونا ہوا کرتا تھا،اب وہی اتنا بھرپور لگتا تھا کہ وہ خود میں سمٹ جاتی ،یہی اس کے من کی تبدیلی تھی۔
شعیب ایک دم سے سلامت نگر میں اس طرح معروف ہو ا کہ لوگ اس کا احترام کہیں زیادہ کرنے لگے۔پہلے وہ فقط ایک انتظامی آفیسر تھالیکن اب اس کا تعلق پیر سائیں کے گھرانے سے مشہور ہو ا تو وہ عقیدت اس کے ساتھ بھی شامل ہو گئی۔جہاں لوگوں کی کثیر تعداد اس کا احترام کرتی تھی،اسے عزت کی نگاہ دے دیکھتی تھی، وہیں ایسے حاسدین بھی پیدا ہو گئے ،جن کے بہت سارے کام رک گئے۔چوہدری ثنا اللہ اس کے قریبی مشیروں میں شامل ہو گیا۔اور زندگی ایک خاموش ڈگر پر چل پڑی۔ حویلی وہ انہی دنوں میں گیا تھا جب پیر سائیں کا انتقال ہوا تھا۔پھر وہ پلٹ کر وہاں نہیں گیا۔ایک شام وہ لان میں بیٹھا ہوا تھا کہ ملازم چائے کی ٹرالی رکھ گیا۔اس کے ساتھ ہی وہاں فرح آ گئی۔اس نے آتے ہی چائے بنانا شروع کر دی تو شعیب نے پوچھا۔
’’امی،کہاں ہیں؟وہ ٹھیک تو ہیں؟‘‘
’’وہ بالکل ٹھیک ہیں اور ڈرائنگ روم میں بیٹھی ہوئی ہیں۔انہوں نے کہا مجھے وہیں چائے دے دو تو میں نے دے دی۔‘‘فرح نے دھیمے سے لہجے میں کہا اور پیالی اس کی جانب بڑھا دی۔اس نے پیالی پکڑتے ہؤے فرح کی طرف دیکھا ۔وہ اب اپنی ہیت میں تھوڑی سی تبدیل ہو گئی تھی۔وہ اس کی جانب دیکھ کر دھیرے سے مسکرا دیا۔تبھی وہ بولی۔
’’آج میں اور پھوپھو حویلی گئی تھیں ۔اماں نے بلایا تھا۔‘‘
’’اچھا،کیسے ہیں وہ سب ٹھیک ہیں۔کس لیے بلایا تھا؟‘‘اس نے عام سے لہجے میں پوچھا۔
’’ٹھیک ہیں۔اماں نے ایک صلاح دی ہے۔‘‘وہ سپ لیتے ہوئے بولی۔
’’کیا؟‘‘اس نے تجسس سے پوچھا تو وہ دبے ہوئے انداز میں بولی۔
’’وہی پرانی بات ۔۔۔کہہ رہی تھیں کہ ہم تینوں وہیں حویلی ہی میں آ جائیں۔‘‘
’’تم کیا کہتی ہو؟‘‘اس نے پوچھا۔
’’میرا تو خیال یہ ہے کہ ہمیں وہاں چلے جانا چاہئے۔اس میں میری کوئی ذاتی خواہش نہیں ہے۔میںیہاں آپ کے ساتھ بہت خوش ہوں۔یہاں میں خود کو کھلی فضا میں محسوس کرتی ہوں۔حویلی میں جانے کا مطلب،وہاں کی روایات کی پابند ہو جانا ہے۔میں وہاں سے زیادہ یہاں خود کو پر سکون محسوس کرتی ہوں۔لیکن اس وقت حویلی کو ایک مرد کی ضرورت ہے ۔جو وہاں کے تمام تر معاملات کو دیکھے،عورتیں جتنی مرضی ہوں۔لیکن ان کے ساتھ ایک مرد بچے کا بھی سہارا ہو نا تو وہ تحفظ محسوس کرتی ہیں۔آپ کا وہاں ہونا ہی حویلی کو اعتماد بخش دے گا۔‘‘
’’ہوں۔! ‘‘شعیب نے ہنکارا بھرا اور پھر سپ لینے کے بعد چند لمحے خاموش رہا۔پھر فوراً بولا۔’’فرح ۔!میری طرف سیدادی اماں کو یہ کہہ دینا اور تم بھی سمجھ لو کہ حویلی مجھ سے اوجھل نہیں ہے۔میری اس پر پوری نگاہ ہے۔میں جس طرح چاہتا ہوں۔حویلی کا نظام اسی طرح چل رہا ہے۔اس طرف سے فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘
’’آپ وہاں کے معاملات کو دیکھ رہے ہیں۔لیکن وہاں جا کر رہنا پسند نہیں کرتے۔یہ کیوں،کیا رکاوٹ ہے ۔‘‘فرح نے الجھتے ہوئے پوچھا۔
’’دیکھو۔!ایک ہی چھت تلے رہنے کے باوجود تم مجھے پوری طرح سمجھ نہیں پائی ہو۔میری یہ کوشش ہوتی ہے کہ کوئی میری وجہ سے تنگ نہ ہو۔پریشان نہ ہو۔نادیہ میرے سامنے نہیں آتی۔اور میں جب وہاں رہوں گا تو لازماً اس کے ذہن میں میرا خیال ہر دم رہے گا۔وہ اس سے ڈسٹرب ہو گی۔اس لیے میں اسے ذرا سی بھی تکلیف نہیں دینا چاہتا۔میری مخالفت پیر سائیں کے ساتھ تھی۔وہ اب نہیں رہا تو معاملہ ہی ختم ہو گیا۔‘‘اس نے اعتماد سے کہا۔
’’تو صرف نادیہ کے لیے آپ وہاں نہیں جا رہے ہیں۔‘‘فرح نے سوچتے ہوئے کہا۔
’’ہاں۔!بالکل ،میں نہیں چاہتا کہ اسے ذرا سی بھی تنگی ہو۔وہ پوری آزادی سے اپنے معاملات میں مصروف رہے۔اور جس مقصد کے لییدادی اماں مجھے حویلی میں بلانا چاہتی ہیں۔وہ مقصد میرا حویلی میں جائے بغیر بھی پورا ہو رہا ہے۔حویلی کے کچن سے لے کر تمام تر جاگیر کے معاملات تک میری نگاہ میں ہیں۔ ظہیر شاہ کا جو حق ہے ،وہ اسی طرح پڑا ہے۔اور اس میں اسی طرح اضافہ ہو تا چلا جائے گا۔اماں بی سے کہنا مت گھبرائیں۔‘‘اس نے سمجھاتے ہوئے کہا۔
’’اگر آپ کو نادیہ ہی وہاں رہنے۔۔۔۔‘‘
’’تو میں پھر بھی نہیں جاؤں گا۔اب اگر وہ میرے سامنے بھی آنا چاہے تو میں نہیں چاہوں گا۔‘‘اس نے یوں کہا جیسے دور کہیں خواب میں کوئی بول رہا ہو۔اس پر فرح چند لمحے خاموش رہی ،پھر گہرے لہجے میں پوچھا۔
’’آپ نادیہ سے بہت محبت کرے ہیں؟‘‘
’’فرح تم میری بیوی ہو ،اور تم یہ جانتی ہو کہ میں نے تمہارے معاملے میں کبھی کوتاہی نہیں کی۔تمہیں بھر پور پیار دیا ہے۔اتنا کہ جتنا میں دے سکتا تھا۔اور جتنا میں دے سکتا ہوں۔ لیکن اگر اس کے رویے پر غور کرو،حالات کو بڑی گہری نگاہ سے دیکھو تو وہ ہے ہی محبت کرنے کے لائق۔‘‘وہ بڑی محبت سے بولا۔
’’ہاں۔!میں نے بہت سوچا ہے،وہ ہے محبت کرنے کے لائق۔۔۔بلکہ ہو تو میری محسن ہے۔ لیکن ہمیں بھی تو چاہے نا کہ ہم اس کے کام آ سکیں۔‘‘وہ بولی۔
’’وہ مجھے جو بھی حکم دے گی،میں بجا لاؤں گا۔لیکن ہمیں یہ بھی تو خیال رکھنا چاہئے کہ وہ پرسکون کیسے رہتی ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ وہ کیسے پر سکون رہ سکتی ہے۔‘‘
’’مجھے کبھی کبھی تو اس پر بڑا ترس آتا ہے۔وہ زندگی۔۔۔۔‘‘فرح نے کہنا چاہا تو اس کی بات ٹوک کر جلدی سے بولا۔
’’نہ۔۔۔فرح نہ۔۔۔کبھی ایسا مت سوچنا۔۔۔اس پر ترس مت کھانا۔۔۔نہ اس سے کبھی ہمدردی جتانا۔۔۔وہ کچھ اورہی چیز ہے ۔۔۔اس نے اپنے مادی وجود کو اپنے قابو میں کر لیا ہے۔۔۔اس کی روح بہت توانا ہے۔وہ ایک مظلوم لڑکی نہیں،بلکہ معصوم پیکر ہے۔ کیا تم نے یہ نہیں دیکھا کہ جو بھی اس سے دعا کرانے آتا ہے ،وہ اپنی مراد پاتا ہے۔یہ اس کی وجود کا کوئی کمال نہیں ہے۔یہ رب تعالیٰ کی عنائیتں ہیں۔یاد رکھو ۔!جو جتنا اپنے وجود کو منفی خیالات سے پاک کر لیتا ہے،وہ اتنی ہی تیزی سے رب تعالیٰ کی قربت حاصل کر لیتا ہے۔جو دل دنیا او ر اس کی آلائشات سے پاک ہو جاتا ہے،رب تعالیٰ وہاں بسیرا کر لیتا ہے۔اور پھر جس دل میں رب تعالیٰ بس جاتا ہے،اس وجود کی لاج بھی اللہ سائیں خود رکھتا ہے۔اس میں بندے کا کوئی کمال نہیں ہوتا۔‘‘
’’ہاں۔!نادیہ کی کوئی ریاضت نہیں ،لیکن پھر بھی مریدین کا اس پر اعتقاد بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔‘‘فرح نے سوچتے ہوئے کہا۔
’’عبادت و ریاضت سے پارسائی تو مل جاتی ہے ،نیکی نہیں ،بلکہ بندہ نیکی کے لیے تیار ہوتا ہے۔جس بندے کی سوچ ہی دوسروں کو فائدہ دینے کے لیے ہواور وہ اپنی ذات کے بارے میں سوچے ہی نا،وہاں برکت ہی برکت ہوتی ہے۔یہ رب تعالیٰ کا انعام ہے بندے کے لیے۔‘‘ شعیب نے عقیدت سے کہا تو فرح اس کی طرف دیکھتی چلی گئی۔پھر اٹھ کر اندر چلی گئی۔کچھ ہی دیربعد ملازم برتن اٹھا کر لے گیا۔
***
نادیہ نے سفید سوتی ڈھیلا ڈھالا لباس پہنا ہوا تھا۔اس پر سیاہ چادر لیے وہ وہیں بیٹھی ہوئی تھی ،جہاں کبھی پیر سائیں بیٹھا کرتا تھا۔مگر اب کمرے کی حالت ویسی نہیں تھی۔اس میں بہت ساری تبدیلیاں آ گئی ہوئیں تھیں۔وہ خواتین سے بالمشافہ مل لیا کرتی تھی۔ان کی روداد بہت دھیان سے سنتی اور پھر جو اس سے ہو سکتا وہ کرتی۔اسی طرح مرد حضرات بھی اپنی بیپتا لے کر اس کے پاس آتے ،مگر وہ ان کے سامنے کبھی نہیں آئی تھی۔شیشے کی مضبوط دیوار حائل دیتی تھی۔وہ تو دیکھ سکتی تھی لیکن اندر کوئی نہیں جھانک سکتا تھا۔ان کے درمیان ایک مائیک ہوتا،جس سے وہ آواز سن لیتی۔پھر اس کی بات سن لینے کے جواب میں کوئی نہ کوئی شے باہر کھسکا دیتی ان میں کوئی بھی میٹھی چیز ہو سکتی تھی۔سائل سمجھ جاتا کہ اس کی بات سن لی گئی ہے۔وہ دن میں ایک خاص وقت کے لیے وہاں آتی اور پھر اس کا ٹھکانہ وہی اپنا کمرہ ہوتا ۔ عدت ختم ہونے کے بعد سے اس کا یہی معمول بن گیا ہوا تھا۔
اس دن جب وہ وہاں سے واپس آئی تو اس کے ذہن میں بہت کچھ آنے لگا تھا۔وہ اپنے کمرے میں آئی تو آتے ہی تاجاں مائی کو بلوایا۔وہ آ گئی تو اس نے بڑے ہی نرم اور جذبات بھرے لہجے میں اس سے کہا۔
’’تاجاں۔!تم آج ہی خود شعیب کے پاس جاؤ،اور اسے میری طرف سے عرض کرنا کہ وہ حویلی میں آئے،مجھے ان سے کچھ کام ہے۔اگر وہ آ جائیں تو ٹھیک ہے ،نہ آنا چائیں تو خاموشی سے واپس آ جانا۔‘‘
’’جی بی بی سائیں۔!کیا میں ابھی جاؤں۔؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’ہاں ابھی۔!اور مجھے آ کر بتاؤ۔‘‘بی بی سائیں نے کہا تو تاجاں پلٹ گئی۔تبھیدادی اماں اس کے پاس آ گئی اور اس کے پاس بیڈ پر بیٹھ گئی ۔کچھ دیر ادھر ادھر کی باتوں کے بعد وہ لرزتے ہوئے لہجے میں دھیرے سے بولیں۔
’’ظہیر شاہ نے زہرہ کو اپنے پاس لندن بلوایا ہے۔۔وہ وہاں شادی کرنا چاہ رہا ہے۔‘‘
’’وہ اس کا حق ہے کرے۔۔۔اور جہاں تک زہرہ بی کے جانے یا نہ جانے کا تعلق ہے ۔وہ ان کی مرضی،ہم اس میں کوئی دخل تو نہیں دے سکتے نا۔۔‘‘ بی بی سائیں نے انتہائی تحمل سے کہا۔
’’بیٹی۔!میں جب تمہیں دیکھتی ہوں نا۔۔۔تو خود ہی کو بڑا قصور وار سمجھتی ہوں۔تیری ویران زندگی۔۔‘‘
’’نہیں اماں بی۔۔آپ سے کس نے کہا میری زندگی ویران ہے ۔۔میں تو اس قدر مصروف ہو ں کہ میرے پاس خود اپنے لیے وقت نہیں ہوتا۔۔آپ قطعاً خود کو قصور وار مت سمجھیں۔میرے لیے زندگی ایسے ہی تھی اور میں اس زندگی پر بہت خوش ہوں۔‘‘
’’تم لاکھ دلیلیں دو میری بیٹی۔!جو فطری تقاضے ہوتے ہیں نا۔۔۔انہیں پورا کرنا ہی پڑتا ہے ۔ اللہ نے اگر تمہیں یہ عزت و مقام دے دیا ہے تو یہ اس کی نعمت ہے ۔لیکن بہت ساری نعمتوں سے خود کو الگ رکھنا یہ بھی تو کفران نعمت ہے نا۔۔۔‘‘اماں بی نے آہستگی سے کہا تو اس نے چونک کودادی اماں کی طرف دیکھا ۔پھر دھیمے سے لہجے میں بولی۔
’’اماں بی۔!آپ کیا کہنا چاہتی ہیں۔صاف لفظوں میں کہیں ،تا کہ مجھے آپ کی بات سمجھ میں آ سکے۔‘‘
’’دیکھ بیٹی۔!انسان اپنے آپ سے جتنا فرار حاصل کر نا چاہے ،کر تو سکتاہے ۔لیکن تب تک وقت بیت جاتاہے۔پھر پچھتاوے انسان کو توڑ کر رکھ دیتے ہیں ۔عقل مندی کا تقاضا یہ ہے کہ وقت کو سنبھال لے اور پھر اس کے مطابق چلے۔۔‘‘
’’اماں بی۔میں اب بھی نہیں سمجھ سکی ہوں کہ آخر آپ کہنا کیا چاہتی ہیں۔آپ کھل کر کہیں۔آپ کیا کہنا چاہتی ہیں۔‘‘نادیہ نے یہ بھانپ لیا تھا کہ جو باتدادی اماں اس سے کہنا چاہ رہی ہے ،ضرور ایسی ہے کہ جو اہم ہونے کے ساتھ ساتھ ایسی ہے کہ جس سے کسی کے دل کو ٹھیس پہنچنے کا احتمال بھی ہو سکتا ہے ۔ورنہ وہ اس قدر محتاط انداز میں بات نہ کرتیں۔وہدادی اماں کے چہرے پر دیکھتی رہیں۔جبکہ وہ اپنی سوچوں میں گم تھی۔اس کی بات سن کر اپنا سر اٹھایا اور نہایت آرزدہ لہجے میں بولیں۔
’’نادیہ۔!میرے ذہن میں چند دن سے ایک خیال آ رہا ہے ۔اگر تم اس خیال بارے اپنی رائے فوراً نہیں کچھ دن سوچ سمجھ کر دوتو میں تم سے کہوں۔۔۔‘‘
’’آپ کہیں۔۔میں سوچ سمجھ کر ہی آپ کو اس پر اپنی رائے بتاؤں گی۔‘‘نادیہ نے بڑے تحمل سے کہا۔تبدادی اماں نے قدرے گہری سانس لی اور بڑے مان سے کہا۔
’’میں مانتی ہوں کہ انسان اپنے بدن پر جیسا چاہے کنٹرول کر سکتا ہے۔اسے پھولوں کی سیج پر رکھے یا کانٹوں میں گھسیٹتارہے۔اس کی اپنی مرضی ہے کہ وہ خود پر ظلم کرے یا اسے بنا سنوار لے۔مگر بعض اوقات حالات اس طرح کے بن جاتے ہیں کہ اپنی خواہش کے مطابق وہ کچھ نہیں کر سکتا۔اسے وہ کرنا پڑتا ہے ،جو حالات اس سے چاہتے ہیں۔میرے کہنے کا مطلب یہ ہے میری بیٹی کہ تم چاہتی تواپنے حصے کی خوشیاں بڑی آسانی سے حاصل کر سکتی تھی۔پھر اپنی خوشیوں کی راہ میں خود ہی رکاوٹ بن بیٹھی ہو۔خیر۔!وہ جو بھی حالات تھے،جیسا بھی وقت تھا،وہ گذر گیا۔لیکن اب میں چاہتی ہوں کہ تم شادی کر لو۔‘‘
اماں بی نے اپنی بات کہی تھی جو اس کے من میں اس وقت کھٹکنے لگی تھی جب انہوں نے تمہید ہی باندھی تھی۔اس لیے نادیہ نے بڑے تحمل سے کہا۔
’’اماں ۔!اب اگر میں بی بی سائیں بن گئی ہوں تو اب میرا بنتا ہی نہیں کہ میں شادی کروں اور ایک ازدواجی زندگی بسر کروں۔۔۔میرا اب سارا وقت اپنے مریدین کے لیے ہے۔اور دوسری بات اب اگر میں شادی کرنا بھی چاہوں تو کس سے کروں،کیا ایسا کوئی لڑکا ہے خاندان میں جس سے میں شادی کروں گی۔؟ بالفرض محال اگر لڑکا مل بھی جاتا ہے تو میں پھر بھی شادی نہیں کر سکتی۔اس کی وجہ یہ ہے کہ بی بی سائیں بن جانے کے بعد کیا اب میں اپنی حویلی کی روایات کی امین نہیں ہوں؟‘‘
’’تمہاری بات بالکل ٹھیک ہے ،میں مانتی ہوں اس کو۔۔۔لیکن کیا ضروری ہے کہ اب ان روایات کو زندہ رکھا جائے جو اس حویلی میں موجود عورتوں کا سانس تک بند کردے،اب اختیار تمہارے ہاتھ میں ہے ۔تم چاہو تو ان روایات کو بدل سکتی ہو۔اگر تم ان روایات کو نہ بھی بدلنا چاہو تو میرے پاس ایک راستہ ہے ۔‘‘اماں بی نے ٹھہرے ہوئے لہجے میں انتہائی سنجیدگی سے کہا۔
’’کیسا راستہ۔؟‘‘اس نے تحمل ہی سے پوچھا۔
’’یہی کہ تم شعیب سے شادی کر لو۔۔۔‘‘اماں بی نے ایک مختصر سا فقرہ کیا کہا کہ دھماکا کر دیا۔وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہدادی اماں اس نہج پر سوچ رہی ہے۔تب اس نے لرزتے ہوئے لہجے میں کہا۔
’’یہ کیسے ممکن ہے اماں۔۔وہ فرح سے۔۔۔‘‘
’’وہ چار شادیاں کر سکتا ہے ۔تم فرح کی سگی بہن تو نہیں ہو کہ اس نکاح میں کوئی رکاوٹ ہو۔اگر ایسا ہو جاتا ہے تو پھر شعیب اس حویلی میں آکر رہے گا۔چاہے تو سب کچھ اس کے سپرد کر دینا اور چاہے تو اس سلسلے کو بڑھائے رکھنا۔اس وقت حویلی کو ایک مرد کی ضرورت ہے۔اگر زہرہ لندن چلی جاتی ہے اپنے بیٹے کے پاس تو پھر حویلی میں تم اور میں۔۔۔اور پھر میرے دن بھی کتنے ہیں۔۔کسی وقت بھی بلاوا آ سکتا ہے۔‘‘ اماں نے اسے سوچ کیا دی کہ وہ لاجواب ہو گئی۔اس کے پاس کوئی بھی ایسی دلیل نہیں تھی جیسے وہ جھٹلا سکتی۔انہوں نے جو کہا تھا وہ بالکل سچ تھا۔اس وقت حویلی کو ایک مرد کی بلاشبہ ضرورت تھی ،لیکن اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ وہ شعیب سے شادی کر لے۔اگر اس نے شعیب سے شادی کر نا ہی ہوتی تو وہ اس وقت کر لیتی،جب وہ اسے لینے کے لیے حویلی آن پہنچا تھا۔وہ انہی سوچوں میں ڈوبی ہوئی تھی کہدادی اماں نے کہا۔’’میری باتوں پر خوب سوچ لینا،اور پھر جواب دینا،اس کے علاوہ اگر تجھے کوئی راستہ سوجھے تو مجھے بتانا،میں وہی مان لوں گی۔‘‘
’’اماں بی۔!آپ نے مجھے ایک ایسے دوراہے پر لا کھڑا کیا ہے کہ میں آپ کی کسی بات کو جھٹلا نہیں سکتی اور نہ ہی انکار کر سکتی ہوں۔لیکن۔!یہ غلط ہے کہ میں شعیب سے شادی کر لوں،میں فرح کی زندگی میں کوئی ایسا بھونچال نہیں لا سکتی کہ جس سے وہ اپنی ہی ذات میں ڈوب کر رہ جائے۔آپ لوگوں کی زبان نہیں پکڑ سکتیں۔لیکن یہ سوچ لیں کہ میرا یہ عمل صرف اور صرف انتقام ہی سمجھا جائے گا۔اب شعیب فقط ایک نہیں جسے منانا پڑے گا۔بلکہ اس کی زندگی میں فرح کے ساتھ ساتھ ایک تیسرے فرد کا بھی اضافہ ہونے والا ہے ۔ایسے وقت میں دادی اماں۔۔کچھ نہیں ہو سکتا۔ہاں،حویلی کی روایات کو توڑتے ہوئے ،خاندانی روایات کو توڑتے ہوئے ۔۔آپ جس سے چاہیں میری شادی کر دیں۔مجھے کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔۔لیکن جب میں شادی کر لوں گی ،تو یہ بی بی سائیں والا معاملہ مجھ سے نہیں ہو پائے گا۔میں پھر اپنی خواہشوں کے مطابق مزید آزادیاں چاہوں گی جو میرا حق بنتا ہے۔‘‘
’’دیکھو بیٹی۔!میں نے ساری صورت حال تمہارے سامنے رکھ دی ہے۔اس پر اب فیصلہ تو تمہارا ہی بنتا ہے نا۔۔تم ہی کہو گی۔۔‘‘اماں بی نے مرجھائے ہوئے انداز میں کہا۔
’’اماں بی ،آپ کا مسئلہ یہ ہے کہ حویلی کو کسی مرد کی ضرورت ہے ،اگر وہ مسئلہ حل ہو جاتا ہے تو پھر میری شادی کوئی معنی نہیں رکھتی۔۔۔شعیب آج آ رہا ہے ۔اگر آ گیا تو میں خود اس سے درخواست کروں گی کہ وہ یہاں رہے۔‘‘
’’اور تم ۔!تم کیا پھر ادھر ہی رہو گی۔؟‘‘اماں بی نے کہا تو وہ خاموش رہی۔تبھی وہ اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بولی۔’’جہاں تک میرا خیال ہے ،وہ ایسا انا پرست ہے کہ کبھی حویلی میں نہیں آئے گا۔اگر آنا ہوتا نا تو وہ پہلے دن ہی آ جاتا۔پیرسائیں بن جانے کا موقعہ اس کے لیے بہت بڑا تھا۔وہ اس نے قبول نہیں کیا۔‘‘
’’اماں بی۔!میرے خیال میں آپ کے ذہن میں جو سوچ ہے نا،وہ کبھی بھی حقیقت نہیں بن پائے گی،جیسے میں نے خود فرح کی جھولی میں ڈالا،اب ا س میں حصے دار کیسے بن جاؤں؟ آپ کو حویلی کے لیے مرد چاہیے نا،تو وہ میں کہہ رہی ہوں ،شعیب سے میں درخواست کروں گی۔‘‘
’’میں نے تجھے پہلے ہی کہا تھا کہ میری بات کا فوراً جواب نہیں دینا۔سے سوچنا ،اچھی طرح سوچ کر جواب دینا، تاکہ ہاتھ آئے وقت کو ہم پھر نہ گنوا دیں۔‘‘اماں بی نے اسے سمجھایا۔جس پر نادیہ نے کوئی جواب نہیں دیا۔وہ سمجھ گئیں کہ نادیہ ۔اب اس موضوع پر مزید بات نہیں کرے گی۔اس لیے وہ کچھ دیر ادھر ادھر کی باتیں کر کے اٹھ گئی۔جبکہ نادیہ کے لیے سوچنے کا ایک نیا بہانہ چھوڑ گئی۔مگر اس نے زیادہ نہیں سوچا، بس اتنا ہی کہ یہ نا ممکن ہے۔اب ایسا نہیں ہو سکتا ۔اور اس خیال کو ذہن سے جھٹک دی۔
اس وقت شام کے سائے ڈھل چکے تھے ،جب اسے اطلاع ملی کہ مردان خانے میں شعیب آیا ہو اہے اور اس کا انتظار کر رہا ہے۔ایک لمحے کے لیے اس کا دل کٹ کر رہ گیا۔کیا اس نے خود کو عام مریدین کی سطح پر رکھا ہوا ہے یا دوسرے ملاقاتی لوگوں کی طرح،جس طرح بھی تھا۔اس نے خود کو حویلی کا حصہ ظاہر نہیں کیا۔اجنبیوں کی مانند ہی یہاں آیا ہے۔دکھ کی ایک شدید لہر اس کے سینے میں اتر گئی ۔اسیدادی اماں کے خیال پر بھی تاسف ہوا۔وہ جو سوچ رہی ہیں ،اس پر اگر وہ چاہے بھی تو اب نا ممکن ہے ،اس کا جو رویہ ہے وہ خود ہی واضح کر رہا ہے ۔اس سے پہلے کہدادی اماں کوئی بات کریں ،اظہار کریں تو فرح کا دل دکھے۔انہیں منہ سے بات نکالنے ہی سے روک دیا جائے۔انہی سوچوں میں غلطاں و پیچاں ،وہ اپنے لیے مخصوص کمرے میں چلی گئی۔
ان دونوں کے درمیاں شیشے کی دیوار تھی۔نادیہ جو اس وقت بی بی سائیں کے مقام پر فائز تھیں۔وہ اسے ایک ٹک دیکھے چلے جا رہی تھی۔جبکہ دوسری طرف شعیب پر اشتیاق انداز میں منتظر تھا کہ بی بی سائیں اس سے بات کرے۔نادیہ کی ہمت نہیں پڑ رہی تھی کہ وہ اس سے بات کرے۔کیا نادیہ کو اس سے شکوہ یا شکایت کرنی چاہیے کہ اس نے خود کو عام لوگوں کی سطح پر کیوں رکھا ،یہاں کیوں آئے،بلکہ براہ راست حویلی کیوں نہیں آیا۔ممکن ہے وہ اس کے سامنے آ کر اپنا آپ کھول دیتی۔خاندان کا فرد سمجھ کر اور حویلی کا ایک حصہ جان کریا پھر لب بستہ خاموش رہے۔جس طرح کا رویہ شعیب اپنائے ہوئے ہے۔اسی کی رضا میں خوش رہ کر اپنا ردعمل دے،کیا کرے ۔؟ یہی سوچ کر لرز رہی تھی اور وہ اس کا منتظر بیٹھا ہوا تھا ۔پھر اس نے زیادہ دیر تک انتظار کروانا مناسب خیال نہیں کیا۔انٹر کام کے بزر پر اس نے ریسور اٹھا لیا۔
’’جی بی بی سائیں فرمائیں۔‘‘شعیب کی آواز اس کے کانوں میں رس گھول گئی۔دور کہیں اختر رومانوی انگڑائی لے کر بیدا ہو گیا ۔لمحہ بھر وہ ماضی کی پھسلن میں پھسل چلی تھی کہ ڈگمگاتے ہوئے اس نے فوراً ہی خود کو سنبھال لیا۔اور بڑے نرم لہجے میں بولی۔
’’کیسے ہیں آپ؟‘‘
’’میں بالکل ٹھیک ہوں۔فرمائیں؟‘‘اس نے جواب دیتے ہوئے ،بلانے کے مقصد میں اپنی بے تابی دکھائی۔تب اس نے بھی تمہید وغیرہ میں اپنا وقت ضائع کرنا مناسب خیال نہیں کیا ۔اس لیے براہ راست بولی۔
’’شعیب ۔!آپ یہاں سلامت نگر میں آفیسر ہیں۔اور آپ کو یہاں کے اداروں کے بارے میں پوری معلومات ہو گی۔خاص طور پر تعلیم اور صحت کے معاملے میں۔‘‘
’’جی،جانتا ہوں۔ان کی حالت کچھ اتنی اچھی نہیں رہی۔‘‘وہ اختصار سے بولا۔
’’اس کی وجہ جو بھی رہی ہو۔میں چاہتی ہوں کہ ان کی حالت بہتر ہو جائے۔اور اس کے ساتھ ساتھ خصوصی طور پر بچیوں کے لیے کوئی تعلیمی ادارہ بنا لیا جائے ۔جہاں وہ دینی اور دنیاوی دونوں طرح کی تعلیم حاصل کر سکیں۔اس کے فنڈز یہاں حویلی سے جائیں گے۔کیا ایسا ادارہ بنانے میں آپ میری مدد کریں گے۔‘‘
’’آپ یہ حکم دیں کہ مجھے کرنا کیا ہے۔‘‘وہ پھر اسی اختصار سے بولا
’’سارا کچھ کرنا ہی آپ نے ہے۔پیپر ورک سے لے کر ادارہ بنانے تک۔۔میرا خیال ہے کہ اس کے بعد ایک ہسپتال بھی بناؤں۔۔دونوں پراجیکٹ اگر اکٹھے چلا سکتے ہیں تو۔۔یہ کیسے ہو گا۔۔کس طرح ہو گا۔ یہ سب آپ نے کرنا ہے۔۔‘‘
’’میری صرف ایک شرط ۔۔نہیں۔بلکہ استدعا ہے۔۔۔‘‘وہ بولا۔
’’جی،وہ کیا ہے؟‘‘اس نے تیزی سے پوچھا۔
’’میں سارا کام کروں گا۔ایک ہی وقت میں ایک پراجیکٹ زیادہ اچھے انداز میں ممکن ہو گا۔استدعا میری یہ ہے کہ مجھے مالی معاملات میں نہ لایا جائے۔وہ کسی اور کے ذمے ہو۔باقی میں سب دیکھ لوں گا۔‘‘ اس نے کہا تو نادیہ کے دل پر یوں چوٹ لگی جیسے کسی نے تیر مار دیا ہو۔تبھی اس نے دل گرفتہ سے انداز میں کہا۔
’’شعیب یہ آپ کیسی باتیں کر رہے ہیں۔میں نے اگر آپ سے یہ استدعا کی ہے تو نہ صرف اپنا سمجھ کر بلکہ مجھے سب سے زیادہ اعتماد آپ پر ہی ہے۔آپ ایسا اجنبیوں والا رویہ کیوں رکھے ہوئے ہیں۔؟‘‘شاید لفظوں سے زیادہ لہجہ اثر کر گیا تھا ۔شعیب کے چہرے پر ایک رنگ آ کر گذر گیا۔چند لمحے خاموش رہنے کے بعد بولا۔
’’بی بی سائیں۔!آپ یہ مت سمجھیں کہ میں نے یہ اجنبیوں والا رویہ رکھا ہے۔دراصل یہ جو دولت ہوتی ہے نا۔یہ خونی رشتوں میں بھی شک کا زہر گھول دیتی ہے۔پھر مالیات کا یہ معاملہ میرے ذہن کو بانٹ دے گا۔۔۔اور۔۔۔‘‘
’’تو پھر بتائیں ۔کس پر اعتماد کروں،کون سنبھالے گا یہ پیسوں کا معاملہ۔۔میں اس کے سپرد کر دیتی ہوں؟‘‘نادیہ نے خود پر قابو پاتے ہوئے اعتماد بھرے لہجے میں کہا۔
’’دیوان ہیں،بہت بھروسے کے آدمی ہیں۔‘‘اس نے کہا تو نادیہ تیزی سے بولی۔
’’تو یہ کام ہی اس کے ذمے ہی لگا دیتی ہوں۔آپ بہر حال مصروف ہیں۔یہ میری غلطی تھی کہ میں نے آپ سے یہ مشورہ کیا ۔مجھے تو آپ سے مشورہ بھی نہیں کرنا چاہیے۔میں یہ سارا معاملہ دیکھ لوں گی۔‘‘
’’آپ تو ناراض ہو گئیں۔میرا مقصد یہ نہیں تھا ،میں تو چاہتا ہوں کہ ۔۔۔۔‘‘ اس نے کہنا چاہا تو نادیہ نے اس کی بات قطع کرتے ہوئے کہا۔
’’شاید آپ مجھے یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ میں اس دنیا میں اکیلی ہوں،میرا اس دنیا میں کوئی نہیں ہے۔کوئی ایسا شخص نہیں جو میرے اعتبار کے قابل ہو۔میں یہ نہیں کہتی کہ آپ اپنی اہمیت جتانا چاہتے ہیں ۔ کیونکہ آپ ہمارے لیے اہم ہیں۔مگر شاید آپ اپنے ذہن میں کچھ اور لیے بیٹھے ہیں۔آپ شاید سمجھتے ہیں کہ میں عورت ذات ہوں،حویلی کی روایات کی پاسداری کرنے والی ایک مجبور عورت تو میں یہ مجبوری بھری روایات والی زنجیر بھی ختم کردوں گی۔آپ کا مشورہ صاب ہے کہ ایک ہی وقت میں ایک پراجیکٹ پر کام کرنا چاہیے۔میں تو آپ کی بات مانوں گی۔آپ کا بہت شکریہ کہ آپ نے وقت دیا ۔اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو۔۔۔‘‘نادیہ نے یہ ساری بات بڑے ٹھہرے ہوئے لہجے میں کہی اور انٹر کام کا ریسور رکھ دیا۔شیشے کے پار شعیب کا چہرہ اس کی نگاہ کے سامنے تھا۔جبکہ اس نے اپنے گلے میں کڑواہٹ بھرنے لگی تھی۔اگروہ فقط نادیہ ہوتی تو شاید اب تک آہ بھرتے ہوئے چیخ پڑتی۔لیکن اب وہ بی بی سائیں تھی،اس لیے ،اپنے دکھ کو اندر ہی اندر رکھنے پر مجبور تھی۔شکوہ شکایت تو دور کی بات وہ اپنا ردعمل بھی نہیں کہہ سکتی تھی۔ وہ خاموشی سے شعیب کے چہرے پر دیکھ رہی تھی۔جہاں ندامت یا شرمندگی کا کوئی تاثر نہیں تھا۔وہی سپاٹ ،جذبات سے عاری چہرہ ،جس سے کسی بھی تاثر کا اندازہ تک نہیں لگایا جا سکتا تھا۔وہ چند لمحے دیکھتی رہی ،پھر اٹھ کر چل دی۔اس نے پلٹ کر بھی نہیں دیکھا کہ وہ اس پر کچھ کہنا بھی چاہتا ہے یا نہیں۔وہ صرف اور فقطدادی اماں کو باور کرانے جا رہی تھی کہ آپ کا خیال غلط ہو گیا ہے۔
***
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...