رات روتے روتے نہ جانے کب اس کی آنکھ لگی گئی۔کئی راتوں کی بے سکونی اور بے آرامی کی وجہ سے وہ کافی گہری نیند میں تھی۔ کسی کے جھنجھوڑنے پر اس نے اپنی أنکھیں کھولیں تو سامنے مستقیم کو پریشان صورت لئے کھڑا دیکھ کر وہ جلدی سے اٹھ بیٹھی ۔
” حریم جلدی اٹھیں پلیز! ہمیں جانا ہے کہیں۔” وہ اسے آنکھیں کھولتا دیکھ کر بولا۔
” پپ ۔۔۔۔پر کہاں جانا ہے وہ بھی اتنی صبح۔!” وہ چہرے پر حیرانی لئے بولی۔
“میری گرینڈ ماں کی طبیعت اچانک بہت خراب ہو گئی ہے ہمیں اسلامآباد جانا ہے. اب پلیز جلدی سے اٹھ کر فریش ہو جائیں اور اپنا کچھ ضروری سامان بھی پیک کر لیں پتا نہیں کتنا وقت لگ جاۓ وہاں ہمیں۔”
وہ جلدی میں اسے بتاتا کوئی اور سوال کا موقع دیے بغیر کمرے سے نکل گیا ۔
اس کے جانے کے بعد حریم بھی جلدی سے اٹھی اور فریش ہونے کی نیت سے باتھروم کی طرف بڑھ گئی۔
پندرہ منٹ میں فریش ہونے اور اپنا تھوڑا سا ضرورت کا سامان پیک کرنے کے بعد جب وہ باہر لاؤنج میں آئ تو لاؤنج خالی تھا اور کچن سے کھٹر پٹر کی آوازیں آ رہی تھیں۔ شاید مستقیم تھا کچن میں۔ وہ بیگ صوفے پر رکھ کر کچن کی میں آ گئی۔
سامنے ہی مستقیم کالی پینٹ پر سفید رنگ کی شرٹ پہنے ڈائننگ ٹیبل پر ناشتہ لگا رہا تھا۔
آہٹ پر سامنے دیکھا تو ہ حریم کھڑی انگلیاں مڑوڑ رہی ہے تھی۔
“ہو گئی ہیں ریڈی آپ؟” وہ براہ راست اس کی آنکھوں میں دیکھتا ہوا بولا۔
“جی ۔” وہ جواب دے کر پھر سر جھکا گئی۔
” چلیں جلدی سے آ جائیں پھر ناشتہ کر کے نکلتے ہیں دو گھنٹے بعد کی فلائٹ ہے ہماری اسلام آباد کی۔”
وہ کہنے کے ساتھ ساتھ اس کے لئے کرسی نکال گیا تو وہ بھی جھجکتی ہوئی بیٹھ گئی۔اس کے بیٹھنے کے بعد دونوں نے ناشتہ شروع کیا۔ وہ بریڈ کا ایک سلائس پکرے تب سے چھوٹے چھوٹے نوالے لے رہی تھی۔ جوس کا گلاس بھی جوں کا توں پڑا تھا۔
” آئ ایم سوری آج اپ کا فرسٹ ڈے تھا اور آج ہی یہ سب ہو گیا اور مجھے اندازہ نہیں تھا کہ آپ ناشتے میں کیا پسند کرتی ہیں تو جلدی جلدی میں یہی بنا سکا۔ آپ تھوڑا سا ہی کھا لیں پلیز اور یہ جوس کا گلاس ختم کریں جلدی۔”
اسے لگا کہ شاید وہ ناشتے میں یہ سب پسند نہیں کرتی اسی لئے سہی سے نہیں کھا رہی تبھی وضاحت دینے لگا۔
“نہیں ایسا ۔۔۔۔ایسا کچھ بھی نہیں میں کھا رہی ہوں۔” وہ کہتی جلدی سے ناشتہ ختم کرنے لگی تو وہ بھی اپنے ناشتے کی طرف متوجہ ہوا۔
فارغ ہو کر وہ ڈرائیور کے ساتھ ایئرپورٹ روانہ ہو گئے۔ حریم ریليكس نظر آنے کی بھرپور کوشش کر رہی تھی پر اندر سے بہت ڈری ہوئی تھی۔نہ جانے مستقیم کی فیملی کا کیا ری ایکشن ہو۔ ظاہر ہے ان کے بیٹے نے ان کی مرضی اور ان کو بتاۓ بغیر اپنے سے انتہائی نچلے درجے کی لڑکی سے شادی کر لی تھی تو ظاہر ہے اب وہ اس لڑکی کو پھولوں کے ہار تو نہیں پہنایں گے نا۔ شادی جن حالات میں بھی ہوئی اور کس بنیاد پر ہوئی یہ تو بس وہ دونوں ہی جانتے تھے مستقیم کی فیملی نہیں۔
وہ ٹھہری ایک مڈل کلاس لڑکی اور ان امیر لوگوں کے مطابق مڈل کلاس لڑکیاں ہی امیر لڑکوں کو پھنساتی ہیں۔ ان کا اپنا لڑکا تو جیسے کاکا تھا نا۔ لڑکی نے پهنسايا اور وہ پھنس بھی گیا۔ عجیب!
ابھی وہ ان سوچوں میں ہی گم تھی جب مستقیم نے اس کا ہاتھ تھاما۔ اس نے چونک کر مستقیم کی جانب دیکھا۔ ان کی فلائٹ کی انائونسمنٹ ہو رہی تھی۔ مستقیم ایک ہاتھ میں سامان اور ایک ہاتھ میں اسکا ہاتھ تھامے آگے بڑھ گیا تو وہ بھی ایک گہرا سانس بھر کر اسکے ساتھ چل دی۔
جہاز کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اچانک اسکا پاؤں پھسلہ اور وہ پیچھے کی جانب گرنے لگی جب وہ اپنا مضبوط بازو اسکی کمر کے گرد لپیٹ کر اسے اپنی جانب کھینچ گیا۔ وہ اس کے سینے پر ہاتھ جما کر اپنے اور اس کے درمیان فاصلہ قائم کر گئی۔
“دیہان سے حریم ۔”
وہ اسے اس کے پاؤں پر کھڑا کرتا بازو سے تھام گیا۔
سیٹ بیلٹ باندھنے کی باری آئ تو وہ بے بسی سے مستقیم کی طرف دیکھنے لگی۔ وہ تو اپنی زندگی میں پہلی دفع جہاز میں سفر کر رہی تھی۔ اسے کیا پتہ ان سب چیزوں کا۔ وہ اس کا مطلب سمجھتا جھک کر بیلٹ باندھنے لگا تو وہ سانس روک کر آنکھیں بند کر گئی۔ اسے یوں دیکھ کر اس پریشانی میں بھی مستقیم کے ہونٹوں پر بے ساختہ مسکراہٹ چھا گئی۔ جہاز اڑان بھرنے لگا تو مستقیم نے پھر سے اس کا ہاتھ تھام لیا۔ اس سے پہلے کہ وہ اسکا مقصد سمجھتی جہاز اڑان بھر گیا تو وہ ڈر کے مارے چیخ کر اس کے بازو کو زور سے دونوں ہاتھوں میں دبوچ کر اس پہ سر ٹکا گئی۔
حالت نارمل ہوئی تو وہ اپنے دھک دھک کرتے دل کے ساتھ پیچھے ہو گئی۔ شرمندگی ہی شرمندگی تھی۔پہلے پاؤں پھسلا پھر سیٹ بیلٹ بھی نہ باندهنا آیا اور اس پہ مزید یہ حرکت۔ اف! کیا سوچ رہے ہوں گے وہ کہ ایسی چھیچوری چھچوری لڑکی ہوں میں۔
شرمندگی سے وہ آنکھیں بند کر گئی اور پھر پورے سفر کے دوران ایک بار بھی نظر اٹھا کر مستقیم کی طرف نہ دیکھا۔ مستقیم جانتا تھا کے وہ پریشان ہے بہت ۔ پہلے ماں کی وفات اور پھر اچانک نکاح اور اب ایسے اس کی فیملی میں جانا۔ یہ سب اس کے لئے پریشان کن تھا۔ مستقیم نے کچھ دیر اس کو اس کے حال پر چھوڑ دیا تا کہ اپنا دماغ پر سکون کر سکے ۔
******
الارم کی آواز پر دعا نے اپنی آنکھیں کھولیں اور نظر گھما کر ادھر ادھر دیکھنے لگی کہ آواز کہاں سے آ رہی ہے۔ اتنے میں الارم پھر سے بج اٹھا تو اس کی نظر سائیڈ ٹیبل پر پڑی جہاں فاتح کے موبائل کا الارم زور و شور سے بج رہا تھا۔ اس نے گردن گھما کر گھڑی پر نظر ڈالی تو سات بج رہے تھے۔ فاتح نے رات اسے بتایا تھا کہ اسے صبح کالج جانا ہے۔ وہ منہ بنا کر کسلمندی سے دوبارہ بستر میں گھس گئی۔اس سے پہلے کہ وہ دوبارہ نیند کی وادی میں گم ہوتی دروازہ کھلنے کی آواز اور قدموں کی چاپ سے اسے اندازہ ہو گیا کہ ضرور وہ کھڑوس ہی اسے کالج جانے کے لئے اٹھانے آئے ہوں گے۔اس سے پہلے کہ فاتح اسے جگاتا وہ خود ہی اٹھ کر بیٹھ گئی۔
رات ناجانے کب وہ ہوش و حواس سے بیگانہ ہو کر نیند میں چلی گئی۔ فاتح تب تک کمرے میں نہیں آیا تھا۔ اس فلیٹ میں ایک ہی بیڈروم تھا اور اخھا خاصہ بڑا بھی ۔ دوسرا روم ڈرائنگ روم کے طور پر استعمال ہوتا تھا۔ وہ نہیں جانتی تھی کہ فاتح رات کمرے میں آیا تھا کہ نہیں۔ اگر آیا بھی تھا تو کہاں سویا تھا؟ کیا یہیں بیڈ پر؟ یہ سوچ کر ہی اس کا دل دھڑک اٹھا اور پیشانی نم ہو گئی۔
“گڈ مارننگ!” وہ اسے جاگتا دیکھ چلتا ہوا بیڈ کے پاس آ کر کھڑا ہو گیا اور مارننگ وش کرنے کے ساتھ ساتھ ہاتھ بڑھا کر اسکے ماتھے سے اسکا بخار چیک کرنے لگا۔
“گگ۔۔۔گڈ مارننگ۔”
وہ اسکے بھاری ہاتھ کا لمس اپنے ماتھے پر محسوس کرتی كپكپا اٹھی۔
“همم۔ بخار تو نہیں ہے بلکل بھی اب ۔ آپ اٹھ کے فریش ہو جائیں میں ناشتہ ریڈی کر رہا ہوں۔ آپکے کپڑے الماری میں رکھے ہیں اور بیگ سٹڈی ٹیبل پر۔ جلدی سے ریڈی ہو کر آ جائیں پھر میں آفس جاتے وقت آپکو چھوڑ دوں گا کالج۔”
وہ گہری نظر اس پہ ڈالتا ہوا بولا۔ کتنا خوش کن احساس تھا اسے یوں حق سے اپنی ملکیت میں دیکھنا۔ کتنا سکون تھا محرم کی محبت میں۔ اس نے کب سوچا تھا کے وہ کسی قیمتی دعا کی طرح اس کی قسمت میں لکھ دی جاۓ گی۔ اس نے تو کبھی اسے حاصل کرنے کی تمنا ہی نہ کی تھی۔ وہ تو اس کے لئے اس چاند کی طرح تھی جسے دور سے دیکھ کر ہی وہ اپنی آنکھوں کو ٹھنڈک اور قلب کو سکون پہنچاتا۔ وہ چاند آج اس کی دسترس میں تھا تو وہ کتنا بے یقین تھا۔ وہ کیسے اپنے رب کی اس نعمت کا شکریہ ادا کر پاتا۔
ایسا نہیں تھا کہ وہ اسے حاصل نہیں کر سکتا تھا ۔ پر اس نے کبھی ایسی خواہش ہی نہیں کی تھی۔ اس کی نظر میں یہ غلط تھا دعا کے ساتھ کیوں کے وہ اس سے بہت زیادہ چھوٹی تھی۔ وہ اس پر ظلم نہیں کرنا چاہتا تھا۔ پر اس سے محبت کرنا بھی نہیں چھوڑ سکتا تھا کیوں کے یہ اس کے بس میں ہی نہ تھا۔ اور محبت کہاں خود کی جاتی ہے۔ یہ تو بس خود بخود ہو جاتی ہے۔ آپ کو لگ جاتی ہے کسی لا علاج مرض کی طرح۔ اور پھر اپ کو زندہ رہنے کے لئے دوا بھی کرنی پڑتی ہے۔ اور کیا ہوتی ہے محبت کے مریض کی دوا؟ دیدار محبوب! ہاں محبوب کا دیدار ہی فقط اس مرض کی دوا ہے پر پھر بھی یہ مرض بڑھتا ہی چلا جاتا تھا اور ہماری روح سے چپک جاتا ہے عشق پیچا کی بیل کی طرح!۔ اس کا محبوب اس کے سامنے تھا۔ اس کے پاس۔ اور محبوب بھی وہ جسے اس کا محرم بنا دیا گیا تھا۔ بھلا اور کیا چاہیے تھا اسے؟ اور کس چیز کی کمی رہ گئی تھی زندگی میں؟ پر پھر بھی کچھ توتھا جو ادھورا تھا۔ کون سا ادھورا پن رہ گیا تھا زندگی میں؟ ہاں! ماں باپ کی محبت! یہی اس کی زندگی کا وہ خلا تھا جو کبھی پر نہ ہوا تھا اور نہ ہی آگے کوئی امکان تھے اس خلا کے پر ہونے کے۔
نکاح کے وقت وہ ناچاہتے ہوئے بھی اپنے باپ کو شامل کر گیا تھا۔ چاہے وہ جتنا مرضی نفرت کا پرچار کرتا پر وہ آس کا باپ تھا جس سے اس نے بے پناہ محبت کی تھی۔ وہ آئے اس کے نکاح میں شامل ہوئے آور خوشحال زندگی کی دعائیں دیتے رخصت ہو گئے۔ اور جس ایک پل کے لیے اس کے سینے سے لگے کتنا سکون تھا اس ایک پل میں! فاتح نے اپنا سر جھٹکا۔
“آپ کالج نہیں جائیں گے کیا؟” وہ خوفزدہ نظروں سے اس کی طرف دیکھتی پوچھنے لگی۔
وہ بہت ڈر رہی تھی۔ اگر کالج میں کسی کو پتا چل گیا تو؟
“آپ شاید بھول رہی ہیں تو میں یاد دلا دیتا ہوں کہ میں پہلے دو لیکچرز کے بعد کالج آتا ہوں!”
اس کے کہنے پر وہ سر ہلا گئی اور ساتھ تھوڑا حوصلہ بھی ہوا کہ وہ آے گا کالج۔
فاتح نےاسکے حسین چہرے پر نظریں گاڑ لیں۔ وہ اس کی نظروں سے پریشان ہوتی اب تک وہیں بیٹھی تھی۔ فاتح نے تھوڑا جھک کر اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے اٹھایا اور اس کا رخ باتھ روم کی طرف کیا۔وہ اپنا ہاتھ چھڑواتی تیزی سے باتھ روم میں داخل ہو کر دروازہ زور سے بند کر گئی تو وہ بھی مسکرا کر سر جھٹکتا کچن کی طرف بڑھ گیا۔
********
وہ اس کے ساتھ جانے پر ڈر رہی تھی کہ کسی نے دیکھ لیا تو شک کرے گا کہ وہ فاتح سر کے ساتھ کیوں آئ۔اس نے سوچا کہ فاتح کو کہہ دے اسے ڈرائیور کے ساتھ بھجوا دے پر اسے مخاطب کرنے کے لئے بھی کافی ہمت درکار تھی جس کا دعا میں فقدان تھا۔ ناشتے کے دوران بھی وہ پریشان سی بار بار اس کی طرف دیکھ رہی تھی پر جب بھی فاتح کی نظر اس پر اٹھتی تو وہ جلدی سے اپنا سر جھکا کر ناشتے میں مگن نظر آنے کی کوشش کرنے لگتی۔
اس کی یہ حرکتیں فاتح دیکھ بھی رہا تھا اور سمجھ بھی رہا تھا پر چپ رہا۔ وہ چاہتا تھا کہ وہ خود اسے مخاطب کرے اور اس کی یہ جھجھک ختم ہو۔ پر وہ ایک لفظ بھی نہ بولی۔
فاتح نے اس کے لئے فرنٹ دروازہ کھولا تو وہ جو پیچھے بیٹھنے کا سوچ رہی تھی نا چار آگے ہی بیٹھ گئی پر اس کی ہمت بس یہاں تک ہی تھی۔ فاتح کی بیٹھتے ہی دعا نے رونا شروع کر دیا۔
وہ اسے یوں ایک دم روتا دیکھ پریشان ہو گیا۔
“واٹ ہیپنڈ دعا؟”
وہ اسکی طرف رخ کرتا بولا تو وہ اور رونے لگی۔
“سب مجھے آپ کے ساتھ ایسے آتا دیکھیں گے تو ان کو سب کچھ پتا چل جاۓ گا۔” وہ آنکھیں رگڑتی بولی تو فاتح گہرا سانس بھر کے رہ گیا۔اس کی کانچ سی ہری آنکھوں کو سرخ پڑتا دیکھ وہ بے چین ہو اٹھا۔ اس کی آنکھوں سے ہی تو شروع ہوئی تھی فاتح ابراھیم کے عشق کی داستان!
“لسن دعا کسی کو کچھ بھی نہیں پتا اور نہ ہی پتا چلے گا۔ اس گاڑی کی کھڑکیاں ایسی ہیں کہ باہر سے کوئی اندر کا منظر نہیں دیکھ سکتا۔ اور دوسری بات! میں آپ کا اور اپنا رشتہ دنیا کی نظر سے چھپا کر نہیں رکھنا چاہتا پر میں چاہتا ہوں کے پہلے آپ سکون سے اپنا یہ سال پورا کر لیں۔ میں نہیں چاہتا پڑھائی کے دوران آپکو کوئی بھی ایسی بات سننے کو ملے جس سے آپ پریشان ہوں اور اپ کا دیہان پڑھائی سےہٹے۔ سمجھ رہی ہیں آپ ؟” اس کی بات پر وہ مشکور نظروں سے اس کی طرف دیکھتی سر ہلا گئی تو اس کی آنکھوں کو دیکھ کر فاتح کا دل پھر سے ڈولنے لگا۔ اس نے آنکھوں پر گلاسز چڑھائیں اور گاڑی آگے بڑھا دی۔
********
انھیں ائیرپورٹ سے لینے ڈرائیور کو بھیجا گیا تھا یا شاید مستقیم نے بلوایا تھا۔ وہ خفت کے مارے اب تک اس سے نظریں نہ ملا پائی تھی تو مستقیم نے بھی اسے مخاطب نہیں کیا تھا۔ اسلام آباد کے دلکش نظارے دل موہ لینے کی حد تک حسین تھے۔ کتنی حسین وادی تھی۔ پر اس وقت وہ جس پریشانی میں مبتلا تھی یہ دلکش سماں اور حسین نظارے اس کی طبیعت پر زیادہ خوشگوار اثرات مرتب نہیں کر پا رہے تھے۔ گاڑی ایک گھر کے باہر رکی تو اپنے خیالات کی دنیا سے نکل کر باہر کے منظر کو دیکھنے لگی۔ مستقیم باہر نکل کر اس کی طرف آیا اور اس کے لئے دروازہ کھولا۔ وہ دروازہ کھولے ہاتھ اس کی طرف بڑھائے اس کا منتظر تھا۔ حریم نے جھجک کر اپنا ہاتھ اس کے مضبوط ہاتھ میں دیا اور گاڑی سے باہر نکل آئ۔ وہ یونہی اس کا سرد پڑتا ہاتھ اپنے بھاری گرم ہاتھوں میں تھامے گھر کے داخلی دروازے کی طرف بڑھ گیا۔
یہ ایک چھوٹا مگر نہایت ہی خوبصورت گھر تھا جس کی چھت ڈھلوان دار تھی۔ لکڑی اور شیشے کا بنا یہ خوبصورت ترین گھر حریم کو کسی خواب جیسا ہی لگا۔ وہ اس کا ہاتھ تھامے آگے بڑھتا جا رہا تھا جب کہ وہ ادھر ادھر نظریں گھماتی گھر کی خوبصورتی دیکھنے میں مگن تھی۔ ہوش تو تب آیا جب وہ اسے لئے ایک کمرے کے سامنے رکا۔
حوش قائم ہوئے تو وہ اب حقیقی معنی میں سخت پریشان اور خوفزدہ ہوئی تھی مستقیم کے گھر والوں کے ری ایکشن کا سوچ کر۔مستقیم نے اسکا ہاتھ دبا کر گویا اسے تسلی دی تو وہ نظریں پهير کر اس کی طرف دیکھنے لگی۔ اس کی آنکھوں میں ہلکورے لیتا خوف وہ باآسانی دیکھ اور پڑھ سکتا تھا۔
“پریشان مت ہوں آپ اور مجھ پر یقین رکھیں۔”
وہ اسے تسلی دیتا ہوا بولا تو وہ خود کو پرسکون کرنے کی کوشش کرنے لگی۔ مستقیم نے دروازہ نوک کیا اور اسے لئے کمرے کے اندر داخل ہوا۔
“دی جان” وہ اندر داخل ہوتا ایک دم بولا تو کمرے میں بستر پر پرے وجود کی بند آنکھیں خوشی سے پوری وا ہوئیں ۔
“مستقیم میرا بچہ!” وہ اسے دیکھتیں خوشی سے نم آنکھیں لئے بولیں اور اپنی باہیں اس کے لئے وا کر گئیں۔ وہ آگے بڑھتا ان کی نحیف باہوں میں سما گیا۔ وہ اسے اتنے ہفتوں بعد سامنے دیکھتی آبدیدہ ہو گئیں۔
” اتنے دن بعد کیسے خیال آ گیا تمہیں اس بوڑھی جان کا۔ اب بھی نہ آتے۔” وہ روتی ہوئی بولیں تو وہ شرمندہ ہو کر رہ گیا۔ اس دفع واقعی بہت لاپرواہی کر گیا تھا وہ۔
“ارے میری پیاری دی جان میں آ گیا ہوں نا اب یہ پورا ہفتہ آپ کے نام ۔” وہ انہیں اپنے ساتھ لگاتا اپنا پروگرام بتانے لگا تو وہ اس کے سر پر تھپڑ لگا گئیں۔
“چل ہٹ شریر! دیکھ لیتے ہیں کتنا اپنی بات پر قائم رہتے ہو تم۔ ارے یہ پیاری سی لڑکی کون ہے مستقیم؟”
مستم کے پیچھے کھڑی گھبرائی بوکھلائی خوبصورت سی لڑکی دیکھ کر دی جان چونک اٹھیں۔
ان کی توجہ خود پر پڑتی دیکھ کر حریم کا رنگ فق ہو گیا۔مستقیم دی جان کے پاس سے اٹھ کر حریم کی طرف بڑھا اور اپنا مضبوط توانا بازو اس کے کندھے کے گرد لپیٹ کر اس کی ساتھ لگ کر کھڑا ہو گیا۔حریم اپنی جگہ جامد ہو چکی تھی۔ اس نے سختی سے اپنی آنکھیں میچ لیں۔ وہ آنکھیں سختی سے میچے اور دوپٹے کا پلو ہاتھوں میں دبوچے متوقع ڈانٹ پھٹکار سنے کے لئے تیار کھڑی تھی جب مستقیم کی بھاری آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی۔
” دی جان یہ محترمہ ہیں وہ شاہکار جن کا تھا آپ کو سالوں سے انتظار! ان محترمہ کو آپ کے اس لاڈلے پوتے کے دل و جان کے ساتھ ساتھ اس گھر کی دوسری مالكن ہونے کا شرف بھی حاصل ہو چکا ہے۔ پہلا حق میرے دل و جان اور اس گھر بار پر چونکہ آپکا ہے اس لئے ان محترمہ کے لئے بقيه خالی حصّہ ہی میسر تھا جہاں پر اب یہ بڑی شان سے براجمان ہو چکی ہیں۔”
اس کی باتوں پر وہ اب آنکھیں پھاڑے اس کی شکل تک رہی تھی۔ کیا یہ مستقیم تھا ؟ کیا سچ میں یہ وہ سنجیدہ سا مستقیم تھا جو بات بھی شاید ناپ تول کر کرتا تھا اور اب اس کی زبان کیسے فراٹے بھر رہی تھی۔ وہ بے یقین سی اس کے چہرے پر نظریں جمائے کھڑی تھی۔ اسے یوں حیرت سے اپنی طرف تکتا پا کر وہ اس کی طرف دیکھتا بائیں آنکھ دبا گیا۔ اس کی اس بے باک حرکت پر وہ سٹپٹا کر آنکھیں پهير گئی۔
“مستقیم جیسا میں سمجھ رہی ہوں کیا واقعی ویسا ۔۔۔۔” فرت جذبات سے ان سے آگے کچھ بولا ہی نہ گیا۔
“جی بلکل میری جان جاں آپ سہی سمجھ رہی ہیں آپ کی بہو ہیں یہ۔”
وہ اسے اپنے ساتھ گھسیٹتا دی جان کے پاس لایا تو ان کے ہاتھ بڑھانے پر حریم بے ساختہ ان کی طرف جھک گئی اور وہ اسے اپنی کمزور باہوں کے حصار میں لے گئیں۔حریم کی آنکھوں میں بے یقینی ہی بے یقینی تھی۔ اس نے کب ایسا مہربان استقبال سوچا تھا۔ وه تو ڈانٹ پھٹکار اور لعنت و ملامت کی منتظر تھی پر یہاں تو سب الٹ ہی ہوا تھا۔وہ آنکھیں موندے ان کا مہربان لمس محسوس کرنے لگی۔
“ماشاءالله میری بہو تو چاند کا ٹکرا ہے! اللّه نظر بد سے بچاے۔ آمیں!”
وہ اس کا چہرہ ہاتھوں کے پیالے میں بھر کر اس کا ماتھاچوم گئیں۔
مستقیم اب ان کے پاس بیٹھا ان سے خفا ہو رہا تھا جو بیماری کا بہانا کر کے اسے اپنے پاس بلا گئی تھیں پر وہ بھی جانتی تھیں کے ان کے اس طرح بلانے پر ہی وہ ایک ہفتے کا پروگرام بنا کر آیا تھا ورنہ ہر دفع یوں ہی ایک آدھ دن میں فرار ہو جاتا۔ اب وہ الٹا اس سے خفا ہو رہی تھیں کے انہیں بتاۓ اور شامل کے بغیر ہی شادی رچا بیٹھا پر وہ یہ کہہ کر ان کا غصہ ختم کر گیا کہ حریم کی والدہ کے انتقال کی وجہ سے انھیں اس طرح اچانک شادی کرنی پڑی ورنہ وہ کبھی ان کی شمولیت کے بغیر شادی نہ کرتا۔ اس کا تھا ہی کون اور ان کے سوا۔
“تم نہیں جانتے مستقیم تم نے میری کتنی بڑی خواہش پوری کر دی ہے۔ کتنا ارمان تھا مجھے تمہاری دلہن دیکھنے کا۔ قیامت کے دن تمھارے مرحوم ماں باپ کے سامنے سرخرو تو ہو سکوں گی نا اب کہ ان کے مرنے کے بعد ان کی اکلوتی اولاد کا حق ادا کر دیا ۔ بس اب تمہاری اولاد دیکھنے کی خواہش باقی ہے۔ اللّه جلد تمہاری جھولی بھرے۔” وہ مستقیم کے مرحوم والدین کو یاد کرتی آبدیدہ ہو کر بولتی آخر میں حریم کا ماتھا چومتی جس دعا سے نواز گئیں حریم سنتی سرخ قندهاری ہو گئی۔ مستقیم دلچسپ نظروں سے اس کے سرخ چہرے پر اٹھتی گرتی پلکوں کا رقص دیکھنے لگا۔
“میں نے تمہارا کمرہ سیٹ کروا دیا ہے تم دونوں جا کر آرام کر لو کچھ دیر سفر کی تھکن اتر جاۓ گی۔”
ان کے کہنے پر مستقیم حریم کو لئے ان کے کمرے سے نکل آیا۔ واقعی آرام کی ضرورت تھی اسے۔ وہ اسے لئے اپنے کمرے میں آیا تو وہ لجائی گھبرائی سی کمرے کے وسط میں کھڑی ہو گئی۔ یہ دی جان کی اس بے باک دعا کا ہی اثر تھا جو اب تک اس کے حواس قائم نہیں ہوئے تھے۔ مستقیم لب دبائے اس کی یہ حالت دیکھنے لگا۔
“کیا ہوا مسز اتنا گھبرا کیوں رہی ہیں؟ یقین کریں دی جان کی دعا پر اتنی جلدی عمل کرنا کا ارادہ ہرگز نہیں ابھی میرا جو آپ اس قدر گھبرا رہی ہیں۔”
وہ ہونٹوں کے گوشوں سے پھوٹتی مسکراہٹ چھپاتا اسے گہری نظروں سے دیکھتا ہوا بولا تو وہ مزید بوکھلا گئی۔
“شش۔۔۔۔شرم کریں آپ ۔”
وہ بوکھلا کر کہتی جھپاک سے باتھ روم میں گھس کر دروازہ بند کر گئی تو پیچھے وہ اس کی حالت پر قہقہہ لگا اٹھا۔
*****
دعا گھر میں اکیلی بیٹھی بور ہو رہی تھی۔ رات ہونے کو آئ تھی اور اب تک فاتح کا کچھ اتا پتا نہ تھا۔ کالج میں اپنے لیکچرز اٹینڈ کرنے کے بعد وہ وہاں سے آفس چلا گیا تھا اور چھٹی کے وقت دعا کو گھر چھوڑنے کے لئے ڈرائیور کو بھیج دیا تھا۔ وہ گھر آئ تو سارا بیگم کو پہلے سے ہی وہاں موجود پا کر وو خوشی سے چیخ اٹھی۔ کتنا مس کرتی رہی تھی رات اور صبح وہ اپنی ماں کو۔ اسے کہاں عادت تھی اپنی ماما کے بغیر کہیں رہنے کی۔ پر اب تو مجبوری تھی کہ وہ ان کے ساتھ نہیں رہ سکتی تھیں ۔ فاتح نے انھیں بہت اسرار کیا تھا کہ وہ بھی ان کے ساتھ ہی رھیں۔ دعا کی طرح فاتح بھی انکا بیٹا ہے ۔ اس کی بات پر وہ نہال ہو گئیں پر ان کا کہنا تھا کہ وہ اس گھر کو کیسے چھوڑ سکتی ہیں جہاں سے ان کے دلدار شوہر کو خوشبو آتی ہے اور ان کی شادی شدہ زندگی کا ایک ایک حسین پل قید ہے۔ فاتح نے ان کے لئے ایک قل وقتی ملاذمہ رکھ دی تھی ان کے لاکھ منع کرنے کے باوجود بھی۔ آج بھی وہ دعا کی چھٹی سے پہلے ہی ڈرائیور کو سارا بیگم کی طرف بھیج چکا تھا انھیں پک کرنے۔وہ جانتا تھا اچھی طرح کہ دعا کو عادت نہیں اپنی ماما کے بغیر اتنی دیر رہنے کی اسی لئے وہ انھیں بلا گیا تاکہ وہ بہل جاۓ۔
وہ کافی دیر دعا کے پاس رہی تھیں اور اسے پیار سے گھر سمبھالنے اور میاں بیوی کے رشتے کے متعلق دونوں کے حقوق و فرائض سے آگاہ کر کے گئی تھیں اور وہ فرمانبرداری سے سر ہلاتی ان کی گود میں سر چھپا گئی۔ اسے سب بھول کر زندگی میں آگے بڑھنا تھا اور ایک پر سکون اور خوشحال زندگی گزارنی تھی۔ یہ سب تھوڑا مشکل ضرور تھا پر نا ممکن ہرگز نہ تھا۔
وہ اسے بہت سی نصیحتیں کرتی اور دعائیں دیتی تھوڑی دیر پہلے ہی رخصت ہوئی تھیں اور وہ اب اکیلی بیٹھی بور ہو رہی تھی۔ پڑھنے کا ذرا بھی دل نہ کر رہا تھا۔
تبھی داخلی دروازہ کھلنے کی آواز آئ تو وہ چونک گئی۔ اس وقت کون ہو سکتا تھا کیوں کہ سارا بیگم کے جانے کے بعد اس نے خود دروازہ بند کیا تھا۔ پھر اچانک اس کے ذہن میں خیال آیا کہ شاید فاتح سر کے پاس چابی موجود ہو۔ بھلا ان کے علاوہ کون آ سکتا تھا یہاں۔ ابھی وہ سوچ ہی رہی تھی جب فاتح لاؤنج میں داخل ہوا۔ اسے دیکھ کر وہ جلدی سے کھڑی ہوتی سلام جھاڑ گئی۔
اسے ایسے ایک گھبراۓ ہوئے طالب علم کی طرح سلام جھاڑتے دیکھ کر فاتح کے ہونٹوں پر مسکراہٹ رینگ گئی جس پر وہ جلد ہی قابو پا گیا۔ اسے سر سے سلام کا جواب دیتا وہ کوٹ اتار کر بازو پر ڈالتا کمرے کی طرف بڑھا تو وہ بھی دھیمے قدموں سے اس کے پیچھے اندر کی طرف بڑھ گئی۔
وہ کمرے میں آ کر کوٹ ہینگ کرتا الماری کی طرف بڑھ گیا اور ایک آرامده سوٹ لے شوز اتارنے کے بعد فریش ہونے چلا گیا۔وہ اس کے باتھ روم میں بند ہونے کے بعد سوچنے لگی کہ اب کیا کرے ؟ ماما نے اسے کہا تھا کہ اچھی بیویاں شوہر کے گھر آنے کے بعد ان کی ضرورت کی چیزیں انھیں پیش کرتی ہیں اور کھانے پینے کا پوچھتی ہیں۔ وہ یہ سب باتیں پھر سے یاد کرتی سوچ میں پڑ گئی کہ کپڑے تو وہ خود نکل کر لے گئے اپنے اب وہ کیا کرے۔ کھانا اسے تھوڑا بہت بنانا تو آتا تھا پر اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیا بنائے اس لئے کچھ بنایا بھی نہ تھا۔ آخر وہ چاے لانے کا سوچتی کچن کی طرف بڑھ گئی۔ چاۓ بنا کر کمرے میں واپس آئ تو فاتح بھی فریش ہو کر آ چکا تھا اور اب شیشے کے سامنے کھڑا اپنے گیلے بالوں میں برش چلا رہا تھا۔ وہ اسے ایک نظر دیکھ کر اگے بڑھیاور چاۓ کا کپ سائیڈ ٹیبل پر رخ دیا۔
” آپ کی چاۓ!”
اس کی میٹھی آواز پر وہ پیچھے مڑ کر اس کی جانب دیکھنے لگا جو چاۓ کا کپ سائیڈ ٹیبل پر رکھے پاس کھڑی اپنے بالوں کی آوارہ لٹ کو کان کے پیچھے اڑس رہی تھی۔ اس کی اس بیویانہ قسم کی خدمات پر وہ متاثر ہوتا داد میں ابرو اچکا گیا۔ اسے کہاں اس چوٹی سی گڑیا سے اتنی عقلمندی کی امید تھی۔ وہ اپنے ننگے پاؤں قالین پر دھرتا بیڈ کے پاس آیا اور اس کے قریب جھکتا سائیڈ ٹیبل سے چاۓ کا کپ اٹھا گیا۔ اس کے پیچھے ہونے پر وہ دھڑکتے دل کے ساتھ پیچھے ہٹ گئی اور سائیڈ پر رکھے فاتح کے جوتے کے پاس گئی اور پکڑتے اس کا جوتا صاف کرنے لگی۔ بیڈ پر بیٹھ کر چاۓ پیتے فاتح کی نظر اس پر پڑی تو شدید حیران ہوا۔
“یہ کیا کر رہی ہیں آپ؟”وہ سخت حیرت زدہ تھا اسکے اس عمل سے۔
“میں آپ کے جوتے صاف کر رہی ہوں”اس نے نظر جھکاتے ہوئے اپنی ازلی معصومیت سے جواب دیا۔
“پر کیوں اور آپ کو کس نے بولا ایسا کرنے کیلئے۔ خبردار آئندہ آپ نے اگر میرے جوتوں کو ہاتھ لگایا”اس نے سختی سے خبردار کیا۔
اس کی اونچی آواز پر اس کی آنکھوں میں موٹے موٹے آنسو آگئے۔وہ ہاتھ دھو کر آئی اور کمرے سے نکلنے لگی۔
“اب کہاں جا رہی ہیں اپ؟” اس نے پیچھے سے آواز دے کر پوچھا۔
“وہ میں کھانا بنانے—” ابھی اس کی بات جاری تھی کہ وہ اس کی بات بیچ میں ہی کاٹ گیا
“نہیں آپ رہنے دیں آپ آرام سے بیٹھ کر اپنے صبح ہونے والے ٹیسٹ کی تیاری کریں میں کھانا آرڈر کر دیتا ہوں تب تک۔”وہ اب کہ نرمی سے بولا۔
“اوکے سر!” وہ کہتی ہوئی سٹڈی ٹیبل کی طرف بڑھ گئی۔جب کہ اس کے آخری الفاظ پر وہ اسے دیکھ کر رہ گیا.
********
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...