محمد اسد اللہ
محمد اسد اللہ، وروڈ ضلع امراؤتی، میں ۱۶؍ جون ۱۹۵۸ کو پیدا ہوئے۔ ایم اے کے علاوہ اردو انشائیوں کا تاریخی و تنقیدی جائزہ کے موضوع پر تحقیق کر کے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ ناگپور کے ایک جونیر کالج میں تدریسی خدمات انجام دے کر سبک دوش ہوئے۔
محمد اسد اللہ بنیادی طور پر انشائیہ نگار ہیں لیکن انھوں نے ظریفانہ مضامین بھی لکھے ہیں۔ ’’پر پرزے‘‘ اور ’’ہوائیاں‘‘ ان کے طنزیہ و مزاحیہ مضامین کے مجموعے ہیں۔ انشائیوں کی تنقید اور تحقیق سے متعلق ان کی کتابیں، انشائیہ کی روایت، مشرق و مغرب کے تناظر میں‘‘ ، انشائیہ شناسی اور یہ ہے انشائیہ شائع ہو چکی ہیں۔ ان کی چند نگارشات درسی کتابوں میں شامل ہیں۔
مہمانوں کا سیلاب
محمد اسد اللہ
مہمان نوازی کی روایت بہت پرانی ہے۔ صدیوں کے اس سفر میں مہمان بننے اور بگڑ نے کے کئی مراحل سے گزر چکا ہے۔ اس دوران اس نے میزبان کو سبق سکھایا ہو نہ ہو اس سے نمٹنے کا گر ضرور سیکھ لیا ہے۔ اب مہمان یہ اچھی طرح جانتا ہے کہ کب کس میزبان کو فون پر اطلاع دے کر اسے اس کے گھر میں پا بہ زنجیر کرنا ضروری ہے اور کہاں اچانک بارش کی طرح جا دھمکنا چاہئے کہ میز بان کو نہ بھاگنے کی مہلت ملے نہ رستہ۔
بعض لوگ گھر میں قدم رکھتے ہی یہ جان لیتے ہیں کہ گھر میں کس قسم کا نظامِ حکومت رائج ہے۔ شوہر کے جہانِ دل پر بیگم کی حکومت ہو تو چائے اور کھانوں کی لگا تار تعریف میزبان کے دل اور گھر دونوں میں جگہ بنانے کے لئے کافی ہے۔ گھر میں میاں کا سکہ چلتا ہو تو اس کے بچوں یا کتوں (جو بھی زیادہ عزیز ہو) کو سراہنا گھر میں ٹکے رہنے کے لئے ضروری ہے۔ مہمان بارش کے قطرہ کی طرح تنہا نہیں آتا۔ بھلا بارش اپنے قطروں کو کسی اور مقام پر چھوڑ کر کیسے آسکتی ہے۔ مہمان جب آتا ہے تو میزبان مرزا غالبؔ کی زبان میں کاتبِ تقدیر سے ایک چھوٹا سا سوال پوچھتا رہ جاتا ہے۔
کس کے گھر جائے گا سیلابِ بلا میرے بعد؟
گرمیوں کی تعطیلات میں پانی کی قلت اور شادیوں کی کثرت عام ہے۔ ہمارے علاقے میں شادی کے دعوت ناموں پر یہ شعر بھی لکھا جاتا ہے۔
اے بادِ صبا کچھ تو نے سنا مہمان جو آنے والے ہیں
کلیاں نہ بچھانا راہوں میں ہم پلکیں بچھانے والے ہیں
بس اس شعر کو پڑھ کو مہمانوں کا سیلاب امڈ پڑتا ہے۔ عزیز و اقارب کو شادی میں مدعو کرنا میزبان کی مجبوری ہے کہ اسی رسمِ دنیا کو عزت سپلائی کرنے کا ٹھیکا سماج کی جانب سے ودیعت ہوا ہے۔ وہ غریب دل ہی دل میں ڈرتا ہے کہ تمام مہمانوں کو دعوت دی گئی اور سب شریک ہو گئے تو مہمانوں کا یہ سیلاب دیکھ کر اس آنکھیں مارے حیرت کے کتنی ہی کیوں نہ پھیل جائیں، پلکیں اس قدر ہر گز وسیع نہیں ہو سکتیں کہ ان پر تمام لوگ سما سکیں۔ بعض میز بان اس صورتِ حال کو ٹالنے کے لئے دعوت نامے اس خوبصورتی سے پوسٹ کرتے ہیں کہ نکاح ۳۱ مارچ کو ہے تو دعوت نامہ ایک اپریل کو مہمان کے ہاتھ لگے تاکہ مہمان بن کر میزبان کے سینے پر مونگ دلنے کی خواہش کے باوجود مہمان اس قابل نہیں رہ پاتا کہ وہاں پہنچ سکے۔ اس صورت میں رقعے پر درج شعر کا مقصد مہمانوں کو مدعو کرنا نہیں بلکہ بادِ صبا کو اطلاع دینا ہے کہ اے بادِ صبا! ہم نے مہمانوں کا معقول بندوبست کر دیا ہے تم خواہ مخواہ راہوں میں کلیاں بچھا نے کی زحمت کیوں کرو؟
مہمان سیلاب کی طرح آتے ہیں یا نہیں اس میں دو رائیں ہو سکتی ہیں لیکن اس سے کون انکار کرے گا کہ سیلاب مہمان کی طرح آتا ہے اور شرعی مہمان یا معمولی بخار کی طرح تین دنوں میں اتر بھی جاتا ہے البتہ وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ مہمانوں کی طرح آنے والا سیلاب زیادہ تباہی پھیلاتا ہے یا سیلاب کی طرح آنے والے مہمان۔
ہم اپنی روح کی گہرائیوں میں جھانک کر دیکھیں تو محسوس کریں گے کہ مہمانوں کی خاطر مدارات سے ہمیں ہزار دقتوں کے باوجود ایک عجیب سی روحانی خوشی ضرور ہوتی ہے۔ مہمانوں کے قدر داں نکاح کے رقعوں پر مذکورہ شعر لکھوائے بغیر بھی مہمانوں کی راہ میں پلکیں بچھائے رہتے ہیں۔ مہمان شکم سیر ہو جائے تو میز بان کی روح سیراب ہو جاتی ہے۔ البتہ ان دنوں یہ ہونے لگا ہے کہ مہمان کے رخصت ہوتے وقت میزبان کے ہونٹوں پر سہما سہما سا ایک جملہ لڑکھڑاتا ہے۔ ’شام کا کھانا کھا کر جاتے تو اچھا تھا۔ ‘اندر ہی اندر دل لرزتا رہتا ہے کہ اس کی یہ رسمی پیش کش شرفِ قبولیت سے نواز دی گئی تو یہ بلا ایک دن اور قہر برپا کرے گی۔ اسی لئے وہ مہمان کے انکار کرتے ہی اسے گلے لگا کر خدا حافظ کہتا ہے اور سکھ کا سانس لیتا ہے یا پھولتی ہوئی سانس درست کرتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ اب ہمیں مہمانوں کی آمد سے مسرت کیوں نہیں ہو تی۔ اس کا سیدھا سا جواب یہ ہے کہ اس مادّہ پر ستی کے زمانے میں روحانی مسرتوں کا کیا کام؟ کیا مادی ترقی کے اس عہدِ زرین میں بھی روح کا وجود باقی ہے۔ جی ہاں! روحانیت اب بھی زندہ ہے اور ثبوت اس کا یہ ہے کہ اپنے گھر کی دہلیز پر مہمانوں کا امڈتا ہوا سیلاب دیکھ کر جو چیز ہمارے اندر فنا ہونے لگتی ہے وہ ہماری روح ہی ہے۔
سنا ہے مادّہ فنا ہو جاتا ہے اور روح باقی رہ جاتی ہے، سو یہ بھی سچ ہے۔ روح کے بقا اور جہد للبقا کے مناظر ہمیں مہمانوں کی آمد کے بعد نظر آتے ہیں۔ ایثار، قربانی (جو کبھی جھٹکے کی شکل بھی اختیار کر لیتی ہے)اور صبر و تحمل وغیرہ اخلاقی قدروں کو مہمانوں کی آمد کے بعد ہی فروغ حاصل ہوتا ہے۔ مثلاً کسی دن آپ کے مہمان کا لائق فرزند جب دبئی سے آپ کے کسی عزیز کے بھجوائے ہوئے ٹی سیٹ کو لے کر، جیک اینڈ جِل، وینٹ اپ د ہل، کہہ کر سیڑھیوں پر چڑھتا جاتا ہے تو آپ کا دل دہل جاتا ہے اور آپ جل تو جلال تو کا ورد کرنے لگتے ہیں، پھر اچانک اس ٹی سیٹ کو کمرے کی فرش پر پوری قوت سے دے مارتا ہے، تب اسے خبر ہی نہیں ہوتی کہ وہ ٹی سیٹ نہیں آپ کا پیمانہ صبر ہے جو چھلکنے سے پہلے ہی چور چور ہو گیا۔ آپ اپنے چہرہ سے تلخی کو رفع دفع کرنے کی ناکام سی کوشش کر کے اس پر کھسیانی ہنسی کا ملمع چڑھاتے ہیں اور یہ کہہ کر رہ جاتے ہیں، ’ کوئی بات نہیں بچہ ہی تو ہے۔ ‘اور بچے کے والدین آپ کی زبان سے نکلی ہوئی اس ابدی سچائی کو صدقِ دل سے قبول کر لیتے ہیں۔
سیلاب کے آنے کا دن اور تاریخ بھلے ہی مقرر نہ ہو، موسم تو متعین ہے۔ مہمان اس قید سے آزاد ہے۔ جس مخلوق کے آنے کا وقت مقرر نہ ہو اس کے جانے کا دن کون طے کر سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب میز بان اپنے مہمانوں کا استقبال پھول جیسے ان دو سوالوں سے کرتے ہیں۔ (ان دونوں سوالوں کے درمیان سانس لینے کا وقفہ تو قطعی نہیں ہوتا)
سوال نمبر ایک: آئیے آئیے! کب تشریف لائے آپ؟
میزبان اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوتا ہے کہ وہ غریب ابھی ابھی ٹیکسی سے اتر کر اپنے حواس درست کر رہا ہے۔ (یہ سوال شاید اس لئے کیا جاتا ہے کہ میز بان کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آتا کہ اتنی بڑی مصیبت اس کے گھر وارد ہو چکی ہے)
دوسرا سوال: کب تک قیام رہے گا؟
پہلے سوال کا جواب تو اس کے روبرو ہوتا ہے لیکن جس طرح طلسمی کہانیوں والے جادوگر کی روح طوطے کے جسم میں چھپی ہوتی ہے، میزبان اس سوال میں پھنسا رہتا ہے۔ یہ سوال لازمی ہوتا ہے تاہم مہمان کچھ اس قسم کا گول مول قسم کا جواب دے کر اپنا راستہ اور میزبان کی طبیعت صاف کرتا ہے:
’جنابِ عالی! جب تک ہمارا دانہ پانی اس گھر میں ہے، ہم یہیں رہیں گے بلکہ آپ بھگانا بھی چاہیں تب بھی نہ جائیں گے۔ سمجھے؟‘
ایسا شاندار جواب پا کر میز بان کے ہاتھوں کے طوطے اڑ جاتے ہیں۔ یہ اس لحاظ سے اچھا ہے کہ اس سے کفِ افسوس ملنے میں آسانی ہوتی ہے۔ رہی بات دانے پانی کی تو اب ہمارے زمانے میں دانے اور پانی میں وغیرہ وغیرہ کی خاصی لمبی دم لگی ہوئی ہے۔ عام آدمی اس دم کو جتنا سیدھا کرنا چاہتا ہے یہ اتنی ہی ٹیڑھی ہوتی جاتی ہے۔ بن بلایا مہمان بے چارہ اس بات سے بے خبر ہوتا ہے کہ وہ کب اپنے دانے پانی کی سر حد پھلانگ کر صاحب خانہ کی مملکت میں بلا پاسپورٹ داخل ہو گیا ہے۔
اس دنیا میں انسان بذاتِ خود ایک بن بلایا مہمان ہے اور وہ بھی اس بات پر اڑا ہوا ہے کہ جب تک اس کا دانہ پانی اس دنیا میں موجود ہے وہ یہاں سے ٹلنے والا نہیں، خواہ اسے دھکے مار کر ہی کیوں نہ نکالا جائے۔ چنانچہ اب آدمی تلاش روزگار میں لوکل ٹرین اور سٹی بس کے دھکے کھاتا ہے اور بے تکان جیتا ہے۔ آج کل دانے دانے ہی پر نہیں بس اور ٹرین کے دھکّوں پر بھی ہمارا نام لکھا ہوا ہے۔
(پر پرزے۔ ۱۹۹۲)