“کیسا گزرا تمہارا دن؟” شاہ نے عمیر سے پوچھا۔
“بہت اچھا گزرا ہے میں دو دن لیٹ ہوں ویسے۔” عمیر نے شاہ یعنی میر یوسفزئی کو کہا۔
“اچھا اور سناؤ دوست بنے کہ نہیں۔” شاہ نے پوچھا
“نہیں آج تو نہیں بنے۔ ویسے دو دن میں ہی ایک لڑکی نے سب پروفیسرز کو متاثر کیا ہے۔ آج وہ نہیں آئی تو سب پوچھ رہے تھے اسکا۔ مجھے بہت حیرانی ہوئی کہ ایسا کیا ہے اس میں لیکن واقعی میں اسکا تعلیمی ریکارڈ شاندار ہے۔” عمیر نے پرجوش انداز میں کہا۔
” کون ہے وہ اور کیا ریکارڈ ہے؟” اس کا شاہ نے ٹی وی آن کرتے ہوئے کہا۔
“لالہ وہ میٹرک اور انٹر میں فیڈرل بورڈ کی ٹاپر ہے اسکے علاوہ کئی سرٹیفکیٹس ہیں اسکے پاس۔ باقی آج تو وہ آئی نہیں اس لئے زیادہ نہیں معلوم۔ لیکن مہمل خان نام ہے۔” اسکا عمیر نے شاہ کے سر پر بم پھوڑا تھا۔
” کیا؟؟ مہمل خان ؟” شاہ چونکا تھا۔
“لالہ آپ جانتے ہیں اسے؟” عمیر نے متجسس ہو کر پوچھا۔
” نہیں نام سنا ہے لیکن تم اس سے دور رہنا۔” شاہ نے اسے نصیحت کی۔
” لیکن کیوں لالہ؟ کیا مسئلہ ہے؟” عمیر نے پوچھا۔
” بس وہ لڑکی کردار میں اچھی نہیں ہے۔” شاہ نے آج پہلی بار کسی کی بیٹی کے بارے میں ایسا کہا تھا۔
اسے شرمندگی بھی ہو رہی تھی لیکن وہ عمیر کو ماضی بتانا نہیں چاہتا تھا اور اسے مہمل سے دور بھی رکھنا تھا۔
“لالہ پلیز وہ ایسی ویسی لڑکی نہیں ہے اسکے بارے میں سب اچھا بتاتے ہیں۔”
عمیر نے شاہ کی بات کی نفی کی تو شاہ پلٹا اور بولا “عمیر تمہیں میری ایک بار کہی ہوئی بات سمجھ نہیں آتی اور تم تو ایک سنجیدہ طبیعت کے انسان ہو تو پھر آج کیوں اتنے خوش ہو رہے ہو۔ اپنے کام سے کام رکھنا ہے تمہیں! سمجھے؟” شاہ نے اسے اچھی خاصی سنائیں تھیں۔
” جی لالہ!” عمیر نے کہا اور اٹھ کر باہر چلا گیا۔
– – – – – – – – – – – – – – – – –
– – – – – – – – – – – – – – – – –
مہمل رکشے کے انتظار میں کھڑی تھی کہ اسکے سامنے مشوانی کی گاڑی رکی اور اسکے ماتھے پر بل پڑے تھے کیونکہ یہ مشوانی کی پرانی عادت تھی۔
جب سے مشوانی کراچی میں آیا تھا تب سے وہ اسکی ہر خبر رکھتا تھا۔
“تم آج پھر پیچھا کر رہے ہو میرا؟” مہمل نے غصے سے کہا جس پر وہ مسکراتا گاڑی کا دروازہ کھول کر بولا۔
“بیٹھو پھر بتاتا ہوں۔”
مہمل بیٹھی تو وہ بولا “نہیں آج تو تمہارے اس نام نہاد منگیتر سے ملنے آیا تھا۔ اور تم بھی یہیں آ گئی تو بس ملاقات ہو گئی۔”
“رہنے دو جانتی ہوں تمہیں اور تم ہی ہو اسکا مطلب جو حماد کو بھڑکا کر آئے ہو۔” مہمل نے اس سے پوچھا۔
“ارے وہ بھڑک گیا؟ حیرانی کی بات ہے کسی کی باتوں میں آ کر وہ تم پر بھڑک گیا۔ نکما انسان!” مشوانی نے افسوس کرتے ہوئے کہا۔
“بکواس بند کرو کیا کہا ہے تم نے اسے؟” مہمل نے اس سے پوچھا۔
” کچھ نہیں بس بتایا ہے کہ شاہ اس سے ملنا چاہتا ہے۔ شاہ کو تو جانتی ہو نا وہی ہے نا میر یوسفزئی تمہارا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔” مشوانی مسکرا کر بولا تو مہمل تپ کر بولی تھی
“کچھ نہیں ہے وہ میرا اور تم حماد سے دور رہو تو بہتر ہوگا۔ حسد کا شکار مت ہو تم۔”
کیا؟؟ کیا کہا؟ حسد؟؟ اور بھی مجھے ہوگا بھلا بتاؤ تو کس سے ہوگا مجھے حسد؟ مشوانی نے مذاق اڑاتے لہجے میں کہا۔
” حماد سے حسد ہے تمہیں۔” مہمل نے جواب دیا تھا۔ جس پر مشوانی کا قہقہہ گونجا تھا لیکن جیسے اس نے گاڑی کی سپیڈ بڑھائی تھی اس سے یہ صاف ظاہر تھا کہ اسے غصہ آ رہا ہے لیکن وہ مہمل پر اپنا غصہ کبھی بھی نہیں نکال سکتا تھا۔
“بھلا کس چیز کی کمی ہے میرے پاس اس سے زیادہ ہینڈسم ہوں، پیسہ ہے، طاقت ہے، قبیلے کے سردار کا بیٹا ہوں۔ ہر چیز ہے میرے پاس تو تم بتاؤ ایسے میں مجھے اس سے حسد کیوں ہوگا ہے کیا ایسا اسکے پاس جو میرے پاس نہیں؟ کچھ ایسا جو مجھے اس سے حسد پر مجبور کرے۔” مشوانی نے طنزیہ لہجے میں کہا۔
” کیا خاص چیز ہے اسکے پاس یہ جاننا ہے نا تمہیں۔ تو سنو اسکے پاس مہمل خان ہے۔” مہمل نے زہر خند لہجے میں کہا لیکن اس بات کو سنتے ہی مشوانی نے فوراً بریک لگائی تھی جس پر مہمل کا سر سیدھا ڈیش بورڈ سے ٹکرایا تھا اور خون کی ایک لکیر اسکے ماتھے سے نکلی تھی جبکہ مشوانی اپنی جگہ پر ساکت بیٹھا تھا۔
پیچھے موجود گارڈز کی گاڑی بھی انہی گاڑی سے ٹکرائی تھی۔
“تم دیکھ کر نہیں چلا سکتے اگر چلانا نہیں آتی تو پھر کیوں چلاتے ہو۔” مہمل نے اپنے ماتھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا جس سے خون بہہ رہا تھا۔
“اوہ مہمل تمہارا خون بہہ رہا ہے۔” مشوانی کو ایک دم جیسے ہوش آیا تھا اس نے فوراً گاڑی سٹارٹ کی اور ہسپتال لے گیا اور مہمل کی بینڈیج کروا کر اسے گھر چھوڑا۔
– – – – – – – – – – – – – – – –
– – – – – – – – – – – – – – – –
“شاہ میں انتہائی بدتمیز انسان ہوں۔” مشوانی نے اس سے کہا۔
فون کی دوسری طرف سے شاہ بولا “چل تو نے آج مان لیا اور یقینا یہ مہمل نے منوایا ہوگا تجھ سے۔”
“ہاں اسی نے منوایا ہے۔” مشوانی نے سگریٹ سلگاتے ہوئے کہا۔
“کیا ہوا ہے تو ٹھیک ہے نا۔” شاہ نے اسکے غیر معمولی لہجے کو محسوس کرتے ہوئے کہا۔
” منہیں یار کچھ ٹھیک نہیں ہے اتوار کو اسکی منگنی ہے اور نکاح بھی ہو جائے گا۔ مجھ سے برداشت نہیں ہو رہا۔ میرا دل کر رہا ہے آگ لگا دوں میں دنیا کو۔” مشوانی غصے سے چیخا تھا۔
“یار سنبھالو خود کو میں آتا ہوں دیکھ لیں گے نا اس حماد کو پریشان نہ ہو۔” شاہ نے اسے کہا اور گاڑی کی طرف بھاگا تھا۔
” شاہ اس نے بھی آج مجھے کہہ دیا کہ میرے پاس مہمل خان نہیں ہے یہی کمی ہے میرے پاس اور تو جانتا ہے کہ ساری کمیاں برداشت ہیں مجھے مگر یہ گھاٹا مجھے منظور نہیں۔” مشوانی نے کہا اور فون دیوار پر مارا تھا۔
اس وقت وہ غصے میں تھا اسکی آنکھیں لال ہو رہیں تھیں۔
کوئی پندرہواں سگریٹ اس نے لگایا تھا جسے وہ اپنی ہتھیلی پر رگڑ رہا تھا۔ اسے اس وقت ہاتھ کے جلنے کا بھی احساس نہیں تھا۔
– – – – – – – – – – – – – – – – –
– – – – – – – – – – – – – – – – –
داؤد یہ کیا حالت بنائی ہوئی ہے تم نے۔” شاہ جب اسکے کمرے میں پہنچا تو کمرے کی حالت دیکھ کر سوال کر بیٹھا۔
پورا کمرا بکھرا پڑا تھا ڈریسنگ ٹیبل کا شیشہ تک توڑ دیا گیا تھا اور ہر چیز کی حالت خراب تھی۔
“کیا حالت ہے؟ ہاں اب تو کوئی حالت ہی نہیں ہے۔ کیوں کیا تھا اسکے ساتھ برا یوسفزئی خاندان نے اگر ایسا نہ ہوا ہوتا تو آج وہ اس حماد لغاری سے شادی نہ کرتی۔” مشوانی چیخا تھا۔
“تم غصہ مت کرو آرام سے بات کرو۔” شاہ نے اسے بیڈ پہ بٹھانا چاہا مگر وہ ہاتھ چھڑا کر بولا۔
” کیوں نہ کروں میں غصہ؟”
“یار تم غلط کر رہے ہو اگر یوسفزئی خاندان اسکے ساتھ برا نہ کرتا اسے اپنا حصہ مان لیتا تو پھر پتہ کیا ہوتا؟ یہ ہوتا کہ اسے بچپن میں ہی کسی یوسفزئی لڑکے کے پلے باندھ دیا جاتا اور تو خالی ہاتھ ہی رہتا کیونکہ یوسفزئی قبیلے کی لڑکی مشوانی قبیلے میں تو جانی نہیں تھی۔” شاہ نے اسے آرام سے سمجھایا تو اسکے اعصاب کا تناؤ کچھ کم ہوا تھا مگر غصہ باقی تھا۔
” ہممم مگر اس حماد کو تو نہیں چھوڑوں گا میں۔” مشوانی کمرے کے چکر پہ چکر لگا رہا تھا۔
” اچھا بیٹھو تو سہی بتاؤ کل وہ آئے گا آفس تمہارے؟” شاہ نے اسے پاس بٹھایا۔
” ہاں اسنے کہا ہے کہ وہ۔۔۔۔۔” مشوانی بول رہا تھا کہ شاہ نے اسکی بات کاٹی۔
“یہ تمہارے ہاتھ کو کیا ہوا ہے؟ تم نے اس کے پیچھے ہاتھ جلانے کا ٹھیکا لے رکھا ہے کیا میں بتا رہا ہوں آئندہ ایسا ہوا تو۔۔۔۔۔۔”
“تو کیا مہمل کو مار دوگے؟” مشوانی نے پوچھا۔
“نہیں تمہیں مار دونگا۔اٹھو آج میری طرف رکنا تم۔” شاہ نے اسے اٹھایا اور لے کر گھر چلا گیا۔
– – – – – – – – – – – – – – – –
– – – – – – – – – – – – – – – –
مہمل آج کالج گئی تھی اور آگے پیچھے دیکھ کر عمیر یوسفزئی کو ڈھونڈ رہی تھی۔
” ہیلو عینی بات سنو۔” مہمل نے اسے روکا وہ اسے سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگی۔
“تم نے نئے آئے ہوئے لڑکے کو دیکھا ہے مجھے سر نے اسکی مدد کا کہا ہے۔” مہمل نے بات بنائی۔
“اوہ عمیر وہ تمہارے گروپ کے ساتھ ہی ہے ویسے دو دن ہی لیٹ ہے ایسی کیا مدد؟” عینی نے اسے تیکھی نظروں سے دیکھا۔
“میڈیکل کی پڑھائی میں پانچ منٹ کا لیکچر بھی مس نہیں ہونا چاہیے۔” مہمل نے اسکی لاپرواہی پر چوٹ کی اور وہاں سے آگے بڑھ گئی۔
” چلو اچھا ہوا کہ اسکی دوستی میرے ہی گروپ سے ہوئی ہے کام آسان رہے گا۔” مہمل سوچتی ہوئی جا رہی تھی جب اسکی ٹکر ہوئی تھی۔
مہمل نے غصے سے سامنے دیکھا تو عمیر کھڑا تھا۔ مگر وہ کچھ نہیں بولی کیونکہ اسے اپنے پلان پر کام کرنا تھا۔
“ارے مہمل اس سے ملو ہمارے گروپ کا نیا ممبر عمیر اور عمیر یہی ہے مہمل خان۔” عاکف نے تعارف کروایا۔ جبکہ پیچھ رمشا اور ملیحہ کھڑی تھیں۔
“اوکے!” م مہمل نے کہا اور پھر انکے ساتھ ہی کینٹین گئی مگر وہ چپ رہی کیونکہ اب اسکے پلان پر عمل کرنے کا وقت تھا۔ جس میں کچھ عرصہ محنت کر کے اسے عمیر کا اعتماد جیتنا تھا م۔
– – – – – – – – – – – – – – – – – – –
– – – – – – – – – – – – – – – – – – –
“آ رہا ہے وہ!” مشوانی نے شاہ کو کہا جو اسکے سامنے بیٹھا تھا ۔
“چلو دیکھ لیتے کسے پسند کیا ہے مہمل خان نے۔” شاہ مسکرایا مگر داؤد کے ماتھے پر بل پڑے تھے۔
“السلام علیکم!” حماد اندر داخل ہوا اور شاہ سے ہاتھ ملایا اور داؤد کے آگے ہاتھ کیا مگر اسنے ہاتھ تھاما نہیں اور بیٹھنے کا اشارہ کیا۔
“میں ڈاکٹر شاہ یعنی میر یوسفزئی!” شاہ نے اپنا تعارف کروایا۔
” جانتا ہوں۔ مجھے کیوں بلایا ہے؟” حماد نے رکھائی سے کہا۔
“بس ایسے ہی سوچا منگنی کی مبارکباد دے دیں۔” شاہ مسکرایا۔
“اوہ تو یہ ڈر ہے آپ کو کہیں وہ آپ کو ہرا نہ دے۔” حماد ابکی بار مسکرایا تھا۔
“نہیں میں کسی سے نہیں ڈرتا کہنا صرف اتنا تھا کہ تم شاید شادی اس لئے کر رہے کہ وہ یوسفزئی خاندان کے خلاف تمہارا ساتھ دے مگر۔۔۔۔۔ ” شاہ رکا۔
” مگر شاید تم یہ بات نہیں جانتے کہ مہمل خان خود یوسفزئی قبیلے کی لڑکی ہے۔ وہ تمہیں اپنا کام ہونے کے بعد چھوڑ دیگی اور آرام سے یوسفزئی قبیلے میں رہے گی۔” مشوانی نے سرد انداز میں حماد کے سامنے دھماکہ کیا تھا۔
“نہیں اسکے خاندان کے ساتھ یوسفزئی نے برا کیا لیکن وہ خود یوسفزئی کیسے ہو سکتی ہے؟” حماد چونکا۔
” آپ جا سکتے ہیں اب!” مشوانی نے ناگواری سے کہا تو وہ غصے سے اٹھا تھا کہ پیچھے سے شاہ بولا۔
” ماور ہاں یوسفزئی قبیلہ اپنی لڑکیوں کی شادی یونہی نہیں ہونے دیتا بغیر اپنی مرضی کے۔”
حماد نے رک کر دونوں کو گھورا اور چلا گیا جبکہ مشوانی کے ماتھے پر بل تھے۔
– – – – – – – – – – – – – – – – – – –
– – – – – – – – – – – – – – – – – – –
“اسلام علیکم!” نور نے حسب معمول خالی گھر میں داخل ہوتے ہوئے سلام کیا مگر شاید اسے نہیں معلوم تھا کہ آج گھر میں کوئی موجود ہے۔
“وعلیکم السلام! مس یوسفزئی کافی پینی ہے؟” اگلے نے نچلا لب دبا کر مسکراہٹ دبائی تھی۔
“تم پھر آ گئے ہو تو اب کافی تو نہیں لیکن ملک شیک بنا دو۔” نور نے تھکے ہوئے لہجے میں کہا۔
“میں جانتا تھا کہ تم مجھ سے ملک شیک بنوانے کیلئے غصہ نہیں کر پاؤ گی۔” وہ ہنسا تھا۔
” ہممم لیکن آخری بار ہے یہ اگر شاہ تمہیں دیکھ لیتا تو۔۔۔۔” نور کی بات اسنے کاٹی اور بولا
” تو یہ سمجھتا کہ میں تمہیں ڈرا رہا ہوں اور تم سے فوراً نکاح کر لیتا اور تمہارا کام آسان ہوتا۔” وہ مسکرایا۔
” نہیں ایسا نہیں ہوتا۔” نور حیران ہوئی۔
” ایسا ہی ہوتا میں جانتا ہوں شاہ کو وہ فوراً نکاح کر لیتا کیونکہ اسے تم سے محبت ہو چکی ہے۔” اسنے چبا کر کہا تو نور بولی “نہیں!”
” نور ڈرامہ نہیں کرو تم بھی اسے پسند کرتی ہو۔ تمہیں تم سے زیادہ اگر کوئی جانتا ہے تو وہ میں ہوں۔” اسنے ناگواری سے کہا اور باہر جانے لگا تو وہ بولی۔
” تم پھر کیوں راستہ آسان کر رہے ہو نکاح کا؟ تم تو مجھ سے محبت کرتے ہو؟”
“کیونکہ میں تمہاری خوشی میں خوش ہوں۔” اسنے کہا اور ہڈی پہن کر باہر نکل گیا جبکہ وہ ڈھے سی گئی تھی۔ اس کے لئے ہر دن انتخاب مشکل ہو رہا تھا۔
– – – – – – – – – – – – –
– – – – – – – – – – – – –
حماد نے ان دونوں کی باتوں کو سیریس نہیں لیا تھا۔ کیونکہ اسکے خیال میں وہ دونوں صرف اسکی شادی روکنا چاہتے تھے۔
وہ مہمل کو سب بتانے آیا تھا ۔
اسنے دروازے پر دستک دینے کے لئے ہاتھ بڑھایا کہ پیچھے سے اسکا ہاتھ پکڑ لیا گیا جو کہ مشوانی نے پکڑا تھا۔
مشوانی نے اسے روکا اور پھر اپنی پستول سے چار فائر کئے۔
حماد کے گارڈز آگے بڑھنے لگے تو مشوانی کے گارڈز نے انھیں روک لیا۔
“کیا چاہتے ہو تم؟” حماد نے دانت پیستے ہوئے کہا جسکے جواب میں مشوانی نے الگ ہی جواب دیا۔
“جانتے ہو ان چار فائر کا مطلب کیا ہے؟ بات یہ ہے کہ ہم پٹھانوں کو اگر کوئی پسند ہو تو ہم اسکے گھر کے سامنے چار فائر کر دیتے ہیں جنکا مطلب ہوتا ہے کہ اگر یہاں کوئی رشتہ کرنے کی کوشش کریگا تو وہ جان سے جائے گا۔” مشوانی مسکرایا۔
“سمجھ تو گئے ہوگے چلتا ہوں۔”مشوانی نے اسکا کندھا تھپتھپایا اور گاڑی میں بیٹھ کر چلا گیا ۔
مہمل فوراً گھر سے باہر نکلی تاکہ دیکھے کہ کسنے فائر کئے تو اسے مشوانی کی گاڑی نظر آئی۔
” تم بتاؤ میں کیا کروں ان چار فائروں کا مطلب تو تم جانتی ہو۔” حماد نے اس سے پوچھا تو وہ بولی “کچھ نہیں ہوگا کل نکاح ہوگا اور میں دیکھتی ہوں کون روکتا ہے اسے۔” اور حماد کو لے کر اندر چلی گئی۔
– – – – – – – – – – – – – – – – – – –
– – – – – – – – – – – – – – – – – – –
مہمل مشوانی کے آفس میں موجود تھی جسکا اسے اندازہ تھا کہ محترمہ ادھر کا رخ ضرور کریں گی۔
” کیا یہ سچ ہے کہ تم حماد کو کل نکاح کے وقت مار دوگے؟ جواب دو مشوانی میں کچھ پوچھ رہی ہوں؟”
مہمل نے اسکی چپ کو دیکھ کر کہا۔
“ویسے مشوانی کچھ بتاتا تو نہیں مگر پھر بھی بتا دیتا ہوں کہ تم بلکل ٹھیک کہہ رہی ہو۔”
مشوانی مسکرایا تھا۔
“تم میری زندگی میں سکون کیوں نہیں ہونے دیتے؟ چلے جاؤ تم کہیں دور پیچھا چھوڑ دو۔” مہمل نے کہا۔
“فکر مت کرو تمہاری زندگی پرسکون ہی تو کرنا چاہتا ہوں اور یہ کام کرنے کے بعد یقین کرو میں تم سے بہت دور چلا جاؤں گا۔” اسنے گھمبیر لہجے میں جواب دیا۔
“نہیں چاہیے یہ احسان اور ہاں خبردار جو تم نے کل کچھ کیا مجھے یقین ہے کہ کل داؤد مشوانی کسی کا خون نہیں بہائے گا۔” مہمل نے انگلی اٹھا کر کہا۔
“تمہیں اتنا یقین کیوں ہے کہ میں اس فضول آدمی یعنی حماد لغاری کو چھوڑ دونگا۔” مشوانی نے سوال کیا۔
“کیونکہ بقول مشوانی کے وہ مہمل کی خوشیوں کو قتل نہیں کر سکتا اور کل کا دن تو میری خوشی کا ہے اس کا مطلب تو یہی ہے کہ کل تم میری خوشی مناؤ گے؟” مہمل کے چہرے پہ طنزیہ مسکراہٹ تھی۔
اسکی بات پر مشوانی کا قہقہہ آفس میں گونجا تھا۔ مشوانی نے اسے دیکھا اور پھر بولا “یقیناً میں تمہاری خوشیوں کا قاتل نہیں ہو سکتا مگر خوشیوں کا جاؤ خوشی مناؤ۔”
مہمل اسکی بات سے کچھ مطمئن ہوتی باہر نکلی تھی مگر آگے کیا ہونا تھا یہ اللہ ہی جانتا تھا۔
– – – – – – – – – – – – – – – – – – – –
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...