مہدی بن منصور کی ولی عہدی:
عبداللہ سفاح نے مرتے وقت منصور کو اپنا ولی عہد مقرر کیا تھا اور منصور کے بعد عیسیٰ بن موسیٰ کو ولی عہد بنایا تھا۔ اب اس وصیت کے موافق منصور کے بعد عیسیٰ بن موسیٰ خلیفہ ہونے والا تھا۔ منصور جب محمد مہدی اور ابراہیم کے خطرات سے مطمئن ہو گیا اور عیسیٰ بن موسیٰ کی امداد کا زیادہ محتاج نہ رہا تو اس نے چاہا کہ بجائے عیسیٰ کے اپنے بیٹے مہدی کو ولی عہد بنائے۔ اول اس کا ذکر عیسیٰ سے کیا۔ عیسیٰ نے اس کو قبول و منظور کرنے سے انکار کیا۔
منصور نے خالد بن برمک اور دوسرے عجمی سرداروں کو شریک مشورہ اور اپنی رائے کا مؤید بنا کر سنہ ۱۴۷ھ میں عیسیٰ بن موسیٰ کو جو سفاح کے زمانے سے کوفہ کا گورنر چلا آتا تھا، کوفہ کی حکومت سے معزول کر کے محمد بن سلیمان کو کوفہ کا گورنر بنا دیا۔ کوفہ کی گورنری سے معزول ہو کر عیسیٰ کی تمام قوت زائل ہو گئی اور اس کو منصور کی مرضی کے خلاف اظہار رائے کی غلطی محسوس ہوئی۔ غرض عیسیٰ کو بے دست و پا کر کے منصور نے چالاکی و فریب اور دل جوئی و منافقت سے کام لے کر لوگوں سے مہدی کی ولی عہدی کی بیعت لے لی اور مہدی کے بعد عیسیٰ بن موسیٰ کو ولی عہد بنا کر اس کے بھی آنسو پونچھنے کی کوشش کی۔
خالد بن برمک نے یہ شہرت کر دی کہ میرے سامنے عیسیٰ نے ولی عہدی سے دست برداری کا اظہار کیا تھا۔ اس لیے امیرالمؤمنین نے اپنے بیٹے مہدی کو ولی عہد بنایا ہے۔ اس کام کے لیے منصور نے خلاف عادت روپیہ بھی بہت صرف کیا اور لوگوں کو اس تقریب میں انعام واکرام دے کر خوش کیا۔ عیسیٰ بن موسیٰ نے منصور کی حکومت کو مضبوط و مستحکم بنانے اور قائم رکھنے میں سب سے زیادہ خدمات انجام دی تھیں۔ اسی نے محمد مہدی اور ابراہیم کو شکستیں دے کر قتل کرایا اور منصور کو ایک بہت بڑی مصیبت سے بچایا تھا۔
ان خدمات جلیلہ کا اس کو یہ الٹا صلہ ملا کہ وہ ولی عہدی سے بھی معزول کر دیا گیا اور مہدی بن منصور اس پر سابق ہو گیا۔ عیسیٰ بن موسیٰ گورنری کوفہ سے معزول ہونے کے بعد موضع رحبہ علاقہ کوفہ میں سکونت پذیر ہو کر خاموش زندگی بسر کرنے لگا۔
رفتہ رفتہ منصور کے راستے کی تمام مشکلات دور ہو گئیں اور سوائے ایک ملک اندلس کے تمام ممالک اسلامیہ میں سنہ ۱۴۸ھ کے اندر منصور کی حکومت مستحکم طور پر قائم ہو گئی۔ سنہ ۱۴۹ھ میں شہر بغداد کی تعمیر بھی تکمیل کو پہنچ گئی۔
مذکورہ بالا واقعات و حادثات کے سبب سے رومیوں پر جہاد کرنے کا موقع مسلمانوں کو نہ ملا تھا۔ سنہ ۱۴۹ھ میں عباس بن محمد حسن بن قحطبہ اور محمد بن اشعث نے رومیوں پر چڑھائی کی اور دور تک قتل و غارت کرتے ہوئے چلے گئے۔
خروج استاد سیس:
سنہ ۱۵۰ھ میں استاد سیس نامی ایک شخص خراسان میں مدعیٔ نبوت ہوا۔ خراسان میں ہزار ہا اشخاص نے فوراً اس کی نبوت کو تسلیم کر لیا۔ ہرات، بادغیس اور سیستان وغیرہ کے لوگ اس کے جھنڈے کے نیچے جمع ہو گئے اور خراسان کے اکثرحصہ پر اس نے قبضہ کرلیا۔ یہ خبر سن کر منصور بہت فکر مند ہوا۔ مرورود کا حاکم مسمی جثم یہ حالت دیکھ کر استاد سیس پر اپنے پورے لشکر کے ساتھ حملہ آور ہوا اور شکست فاش کھا کر مقتول ہوا۔
اس کے بعد خازم بن خزیمہ نے خدعہ حرب سے کام لے کر استاد سیس کی فوج کو بیچ میں لے کر دو طرف سے حملہ کیا۔ استاد سیس کے ستر ہزار ہمراہی میدان جنگ میں قتل ہوئے اور وہ ۱۴ ہزار ہمراہیوں کے ساتھ ایک پہاڑ میں محصور کر لیا گیا۔ عرصہ تک محاصرہ جاری رہنے کے بعد استاد سیس نے اپنے آپ کو مع ہمراہیوں کے خازم بن خزیمہ کے سپرد کر دیا۔ استاد سیس کی گرفتاری کے بعد منصور کو اطلاع دی گئی۔
==================
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...