ایک خوبصورت پہاڑی سلسلے میں گاڑی چلتے ہوئے آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہی تھی ارے مونا بیٹی اٹھ جاؤ کتنا سونا ہے تم نے آنکھیں کھول لو اب کتنا دن چڑھ آیا ہے
دادا جی کی نظر جونہی بے سدھ سوئی ہوئی مونا پہ پڑی تو وہ اسے آوازیں دینے لگے
مونا سستی سے آنکھیں ملتے ہوئی اٹھ بیٹھی حلق خشک ہو رہا تھا پہاڑی آب و ہوا اسے ہمیشہ سے عجیب سی لگتی تھی اس کا ایسے ہی یہاں آکسیجن کی کمی کی وجہ سے ان بلند پہاڑوں پہ آ کے حلق خشک اور دم گھٹنے لگتا تھا مونا نے جلدی سے پانی کی بوتل کھولی اور دو چار لمبے لمبے گھونٹ بھرے ابھی بوتل منہ سے اتاری ہی تھی کہ گاڑی کو ایک زور دار جھٹکا لگا اور بوتل کا باقی پانی ساتھ بیٹھے علی کے سر پہ جا گرا
اففف یہ کیا بدتمیزی ہے علی ہڑ بڑا کے اٹھ بیٹھا
دونوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا علی کا نیند خراب ہونے کی وجہ سے موڈ شدید خراب تھا اور مونا کا اسے یوں بلا اجازت اپنے ساتھ سیٹ پہ بیٹھا دیکھ کے پارہ ہائی ہو گیا
آپ کو پانی پینے کی بھی تمیز نہیں ہے محترمہ ؟
علی نے غصے سے سر جھاڑتے ہوئے کہا
تمیز تو میں بعد میں دیکھاتی ہوں پہلے یہ بتائیں کہ آپ میری گاڑی میں بغیر میری اجازت کے کیسے آ کے بیٹھ گئے اور اوپر سے رعب جھاڑ رہے ہیں
مونا نے اسی لہجے میں جواب دیا
سنیے محترمہ بولنے کی تمیز تو پہلے ہی تم میں تھوڑی کم تھی اور جو تھوڑی بہت تھی مجھے لگتا ہے اب وہ بھی ختم ہو گئی ہے
علی بھی مونا کی اس حرکت پہ جل بھن کے بیٹھا
مائنڈ یور لینگوئج مسٹر
اس سے پہلے کہ یہ زبان کی جنگ دست بدست شروع ہوتی بڑے بزرگوں نے درمیان میں کود کر دونوں کو ٹھنڈا کیا
مونا اس سیٹ سے اٹھ کر پیچھے چلی آئی
ارے سوہا تم مونا کی نظر اچانک سوہا پہ پڑی جو اسے نجانے کب سے حیران ہو کے دیکھ رہی تھی
برسوں کی بچھڑی ہوئی دوست ملی تھی اس لیے پھر باقی کے سارے راستے دونوں کی زبان ایک منٹ کے لیے بھی بند نہیں ہوئی تھی
سفر جتنا بھی طویل اور تھکا دینے والا ہو منزل اگر شاندار ہو تو ساری تھکاوٹ دور ہو جاتی ہے
ملک سخاوت کا گھر بے حد نفیس بہت شاندار تھا پہاڑی چوٹیوں کے بیچوں بیچ وہ ایک سیاہ رنگ کے گیٹ پہ رک گئے اندر داخل ہوتے ہی گلابی سفید پھولوں سے ڈھکے درختوں نے ان سب کا استقبال کیا یوں لگتا تھا جیسے ان کی آمد کی خوشی میں درختوں سے ہر طرف پھول برس رہے ہوں وہ اس خوابناک سے منظر کو حیرت سے تکتے آگے بڑھے سامنے شیشے سے بنی خوبصورت عمارت سورج کی روشنی میں جگمگا کر اپنے نایاب ہونے کا اعلان کر رہی تھی
گل خان نے سب مہمانوں کا سامان ان کے کمروں تک پہنچا دیا
گل خان کی بیوی مرجان نے بہت مزے کا ناشتہ بنایا تھا جو کہ سب کے کمروں میں پہنچا دیا گیا تھا
باقی کا دن اور رات سب نے خوب سوکر تھکاوٹ اتارتے گزار دیا
دوسرے دن صبح ہی صبح سب اس خوبصورت علاقے کی سیر کے لیے نکل پڑے اونچے نیچے پہاڑی راستوں پہ مارننگ واک کرتے ہوئے سوہا کی نظر اچانک مونا پہ جا پڑی جو کہ اپنے دادا جان کے ساتھ واک کر رہی تھی
علی وہ دیکھو مونا
سوہا نے کہنی مارتے ہوئے کہا
علی کی بے اختیار ان پہ نظریں اٹھ گئیں
چلو ملتے ہیں ان سے سوہا نے علی کے کان میں سرگوشی کی سب واک کرتے ہوئے کافی آگے نکل گئے علی اور سوہا نے جان بوجھ کر سپیڈ کم کر دی
ہائے مونا سوہا نے ان کے نزدیک جا کے کہا
کیسی ہو ڈئیر مونا نے سوہا کے گلے لگتے ہوئے کہا
اف میرے خدا ہم پہلے ہی لیٹ ہو چکے ہیں اور تم دونوں پھر یہاں رک گئی ہو
اچانک سے ان دونوں کو پیچھے سے احسان کی آواز سنائی دی
اوہ سوری احسان میں تعارف کروانا ہی بھول گئی ان سے ملو یہ ہے میری دوست سوہا
اور سوہا یہ ہے میرا فیانسی احسان میرے تایا ابو کا بیٹا
مونا نے جان بوجھ کر بلند آواز میں تعارف کروایا تاکہ آواز تھوڑی دور کھڑے علی تک پہنچ جائے
اوہ نائس ٹو میٹ یو
سوہا نے اس سے ہاتھ ملایا
اور واپس مڑ آئی
علی اس نے تو منگنی بھی کروا لی ہے اور عنقریب شادی بھی کروا لے گی تو تم ایسا کرو بیٹا کسی اچھی سی بوتیک سے شیروانی کا آرڈر بک کروا لو تاکہ اپنی محبوبہ کی شادی پہ پہن کر بارات کے آگے بھنگڑا ڈال سکو
سوہا نے علی کی طرف غصے سے دیکھتے ہوئے کہا
بھابھی دفع کریں اب اسے ایسی نک چڑھی لڑکیاں تو ویسے بھی صحت کے لیے نقصان دہ ہوتی ہیں غصے میں شوہر کی پٹائی کرنے سے بھی باز نہیں آتیں اور اکثر اپنے شوہروں کی ہڈی وڈی توڑ کے بستر پہ بٹھا دیتی ہیں آپ میری مانیں تو اپنے اکلوتے دیور کے لیے اس کرشمہ کپور کی چھوٹی سسٹر عالیہ کے بارے میں سوچیں
علی نے سوہا کو چھیڑتے ہوئے کہا
علی کے بچے ایک بات تم میری کان کھول کے سن لو اس چھپکلی کی بچی سے تو میں تیری شادی ہر گز نہیں ہونے دوں گی اور اگر تو نے ایسا کیا بھی تو میں اپنی جان دے دوں گی اور پھر تم ساری عمر میری بیٹی پالتے رہنا
اور دوسری بات بھی سن لو اگر تم چاہتے ہو کہ میں زندہ رہوں تو جیسا بھی کر کے مونا کو اپنے ساتھ شادی کے لیے رضامند کریں
یہ میرا آخری فیصلہ ہے کان کھول کے سن لو تم
سوہا نے اپنی سنائیں اور علی کا جواب سننے سے پہلے ہی یہ جا وہ جا
ارے ہم تو کب سے ان کے لیے مریں بیٹھے ہیں وہ تھوڑی سی اپنے شکستہ دل میں گھسنے گنجائش تو دیں
اس کے بعد باقی کی عمارت ہم خود تعمیر کر لیں گے
مگر محترمہ کے تو پہلے ہی نخرے کم تھے جو ساتھ ایک عدد مینگیتر بھی کہانی میں شامل کر لیا ہے اب اس بندر کے بچے کے بھی نخرے اٹھانے پڑیں گے
علی تو گیا کام سے چھوکری ہاتھ سے پھسلتی ہوئی محسوس ہو رہی ہے
علی نے ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے کہا
دن بھر کے مصروف ترین دن کے بعد رات کے وقت سب بڑے ہال کمرے میں بیٹھے گرما گرم چائے کا مزہ لے رہے تھے
سب مرد حضرات نے تو تاش کی بازی لگائی ہوئی تھی جبکہ خواتین اپنی باتوں میں مگن تھیں
مونا کا اس شور شرابے میں دل گھبرانے لگا وہ چائے کا مگ ہاتھ میں لے کر باہر گارڈن میں رکھے بنچ کی طرف چل دی
کتنی خوبصورت رات تھی آسمان پہ ستارے ہی ستارے نظر آ رہے تھے اور اتنے نزدیک لگ رہے تھے جیسے ابھی ہاتھ بڑھا کر انھیں پکڑ لو
مونا آسمان کی طرف دیکھ کر سوچنے لگی
تم نے مجھ سے پوچھے بغیر منگنی بھی کروا لی کم سے کم ایک بار رائے تو لے لیتی
اچانک علی مونا کے مقابل بیٹھ کے بولا
کیوں آپ سے پوچھنے اور رائے لینے کی کوئی خاص وجہ تھی یا آ پ میرے بڑے بزرگ ہیں جن سے میں مشورے لیتی پھروں کہ جناب میں احسان سے شادی کرنا چاہتی ہوں اگر آپ کی اجازت ہو تو میں یہ شادی کر لوں
مونا نے طنز سے کہا
ہاں بالکل ایسے ہی مجھ سے اجازت لینی چاہیے تھی تمھیں اور میں تم سے کہتا بیٹا اس ریچھ کی شکل دیکھ اور اپنی عقل دیکھ تم دونوں کی جوڑی یوں لگے گی جیسے حور کے ساتھ لنگور اگر واقعی تمھیں شادی کرنی ہے تو پھر میرے جیسا ہنڈسم اور سمارٹ بندہ تلاش کرنا چاہیے تھا تمھیں نہ کہ یہ نمونیا
علی نے اتراتے ہوئے کہا
علی یہ نمونہ تمھارے مقابلے میں ہزار گنا بہتر ہے کیونکہ یہ مجھے تمھاری طرح بیچ منجھدار کے تڑپتا ہوا چھوڑ کے بھاگ نہیں جائے گا
یاد ہے تمھیں یا سب بھول گئے
وہ وقت جب مجھے سب سے زیادہ تمھاری ضرورت تھی اور تم بزدلوں کی طرح بھاگ گئے
کہاں گئے تمھارے محبت کے وعدے ساتھ نبھانے کی قسمیں ایک منٹ میں عشق کا بھوت سر سے اتر گیا اور تم نے سوچا کہ اس بدنام لڑکی سے تعلق رکھنے کی بجائے چپ چاپ ہےکہ گلی سے نکل جاؤں
مجھ پہ کیا بیتی کیا ہوا میرے ساتھ ایک بار بھی جاننے کی کوشش نہیں کی اور بڑے آرام سے یہاں شادی کر کے اپنی بیوی کے ساتھ عیش مناتے رہے
واہ علی حسن عثمانی واہ یہ تھی تمھارا شرافت کے نقاب کے پیچھے چھپا اصل چہرہ جسے میں پہچان نہ سکی
دھوکے باز بزدل اپنے وعدوں سے مکرنے والا
علی آج پھر کتنی ڈھٹائی سے مجھے کہہ رہا ہے کہ میں اس سے شادی کے بارے میں سوچوں
مجھے نفرت ہے تم سے تمھارے وجود سے تمھارے نام سے
اتنی نفرت کہ تم سوچ بھی نہیں سکتے
اور آئندہ میرے ساتھ اس ٹاپک پہ کوئی بات مت کرنا
مونا نے سانس لیے بغیر سب کہا اور علی کا جواب سننے بغیر ہی تیزی سے کمرے میں بھاگ آئی
پتہ نہیں کتنی دیر تک وہ تکیے میں منہ چھپا کے روتی رہی
علی جب بھی اس سے بات کرنے کے لیے نمبر ڈائل کرنے کی کوشش کرتا تو اس کے کانوں میں یہ آواز گونجنے لگتی
مجھے نفرت ہے تم سے شدید نفرت
اور مونا کے یہ الفاظ اندر سے اسے ذرہ ذرہ کر کے توڑ رہے تھے
اس کا وجود بکھرتا جا رہا تھا وہ کوشش کے باوجود خود کو سمیٹ نہیں پا رہا تھا
نہیں تم مجھ سے نفرت نہیں کر سکتی کبھی نہیں کبھی نہیں
علی نے زور سے موبائل دیوار پہ مارتے ہوئے چلا کے کہا
مجھے تم سے محبت تھی ہے اور ہمیشہ رہے گی یہ بات میں تمھیں بتا کے رہوں گا چاہے تم مانو یا نہ مانو
علی نے خود کلامی کی
_____________________
احسان بیٹا وہ جو تمھاری وہ ہے جاپان والی بیوی ریٹا میٹا وہ تمھارے پیچھے پاکستان آ گئی ہے میں نے بڑی مشکل سے اسے دوسرے گھر میں چھپایا ہوا ہے مگر وہ وہاں ٹک ہی نہیں رہی روز فون کر کے تمھارے بارے میں پوچھتی ہے مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے کہیں یہ کمینی ہمارے سارے پلان پہ پانی نہ پھیر دے اگر کسی کے کانوں میں بھنک پڑ گئی کہ تم نے چھپ کر شادی کر رکھی ہے تو پھر مونا سے شادی کا تو تم بھول ہی جاؤ
ثمینہ۔ بیگم نے احسان کو فون کر کے بتایا
تو پھر آپ ہی مشورہ دیں کہ میں کیا کروں ؟
احسان نے پریشانی سے پوچھا
تو رک میں تیرے دادا جان سے بات کرتی ہوں کہ بچوں کا نکاح کروا دیتے ہیں رخصتی چاہے تھوڑی دیر بعد رکھ لیں گے ایک بار نکاح ہو جائے پھر سمجھو یہ سونے کی چڑیا پنجرے میں قید ہو گئی بڑی ہی سعادت مند ہے چاہے تم چار شادیاں کرنا ہنس کے اجازت دے گی تجھے
ثمینہ بیگم نے احسان کو مشورہ دیا
مگر دادا جان اتنی جلدی نکاح کے لیے مان جائیں گے
ارے تم اپنی ماں کو جانتے نہیں ہو دیکھو تم میں کیسا چکر چلاتی ہوں دادا جان کل ہی تمھارا مونا سے نکاح پڑھوا دیں گے
میں تمھاری چچی شاہدہ بیگم کو ساتھ لے کر ساری تیاریاں کر کے یہیں پہنچ جائیں گے
اور بیٹا اگر لڑکی رخصتی کے لیے بھی راضی ہو گئی تو ادھر ہی ہنی مون بھی منا لینا بعد میں
ثمینہ نے ہنستے ہوئے کہا
مونا بیٹا تمھاری تائی کا فون آیا تھا وہ کہہ رہی تھیں کہ آج شام کو تمھارے نکاح کی رسم ادا کر لی جائے
تمھارا کیا خیال ہے اس بارے میں ؟
دادا جان نے ثمینہ بیگم سے فون پہ سارے معاملات طے کر کے مونا کو کمرے میں بلا کے پوچھا
اتنی جلدی کیا ہے داد جان ابھی میں نے اس بارے میں سوچا نہیں ہے
مونا نے پریشان ہوتے ہوئے کہا
ارے بیٹا تم کیوں پریشان ہو رہی ہو صرف نکاح ہی ہونا ہے اور جب تم بالکل تمھاری رضامندی ہو گی اس وقت ہی رخصتی کریں گے
دادا جان نے سمجھاتے ہوئے کہا
مونا لاجواب ہو گئی منع کرنے کا کوئی جواز بھی تو نہیں تھا
کمرے میں پہنچ کر یہ خبر اسے بری طرح بے چین کر رہی تھی
یااللہ میں کیا کروں میں کیسے سمجھاؤں دادا جان کو کہ ابھی میں اس کے لیے تیار نہیں ہوں
یا پھر دل کسی اور کے لیے ضد پہ اڑا بیٹھا تھا
علی مونا کو خیال آیا
اتنا ہی میرا خیال ہوتا تو ایک بار فون کر کے حال تو پوچھ لیتا اگر میں نے غصے میں اول فول بک دیا تھا میرا دماغ خراب ہو گیا تھا تم تو عقلمند تھے مجھے منا لیتے کہ سوری مجھ سے غلطی ہو گئی مجھے معاف کر دو
مگر نہیں مرتے مر جانا ہے پر اکڑ نہیں کم کرنی
ٹھیک ہے مت بلاؤ اب میں بھی شام کو تمھیں اپنے نکاح کا سرپرائز دے کر تمھاری بولتی بند کروں گی
اگر تم میرے بغیر رہ سکتے ہو تو میں بھی تمھارے بغیر جی لوں گی
مونا نے آخری فیصلہ کیا
اور دادا جان کے حکم کے مطابق شاپنگ کرنے چلی گئی