محبوب راہی(اکولہ)
رِستے ہوئے زخموں کے وہی گھاؤ،وہی ہم
ہر لمحہ لہو کا وہی چھڑکاؤ ،وہی ہم
طوفاں کا بہر سُو وہی بپھراؤ وہی ہم
ٹوٹی ہوئی بوسیدہ وہی ناؤ، وہی ہم
بے ربط سے رشتے،وہی بے نام سے جذبے
احباب کا ہم سے وہی برتاؤ ،وہی ہم
احساس کی شدت،وہی جذبات کی حدت
سوچوں کا مسلسل وہی بکھراؤ،وہی ہم
نفرت کی بہر سمت وہی گرمیٔ بازار
چاہت کے وہی گرتے ہوئے بھاؤ،وہی ہم
سیرابیٔ احساس وہی ذہن میں بیدار
بیتی ہوئی یادوں کے وہی پیاؤ وہی ہم
حالات کی دیمک نے کیا کھوکھلا لیکن
مونچھوں کا ہمارے ہے وہی تاؤ،وہی ہم
اے زندگی! تو قابلِ نفرت ہے اگرچہ
رکھتے ہیں مگر اب بھی ترے چاؤ وہی ہم
یاروں کو ریاکاری میں حاصل ہے مہارت
کس طرح چلیں ان سے مگر داؤ وہی ہم
اک پَل بھی مقدر میں نہیں چین و سکوں کا
ہر پَل وہی فکروں کا ہے گھیراؤ وہی ہم
وہ گیت جنہیں گایا ہے اسلاف نے راہیؔ
پھر گائیں مساوات کے گیت آؤ وہی ہم
وہ جس کا سیاست میں چلن عام ہے راہیؔ
کرنے لگے شعروں میں بھی ہُو ہاؤ وہی ہم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نہ چاندی ہی ضروری ہے،نہ کچھ سونا ضروری ہے
قناعت لازمی ہے،صبر کا ہونا ضروری ہے
جو پانا چاہتے ہو،پہلے کچھ کھونا ضروری ہے
عزیزو کاٹنے کے واسطے بونا ضروری ہے
ذرا جو ابر چھٹ جائے،ستارے جھلملاتے ہیں
اگر ہنسنے کی خواہش ہے تو کچھ رونا ضروری ہے
کمال اس میں ہے کیا جو آپ اپنا بوجھ ڈھوتے ہو
میاں!کچھ بوجھ تو اوروں کا بھی ڈھونا ضروری ہے
بڑھاپے میں اگر دیواریں گھر کی تنگ پڑتی ہوں
محلے کی کسی مسجد کا اک کونا ضروری ہے
اگر ہو دامنِ کردار کچھ عصیاں سے آلودہ
تو پھر اشکِ ندامت سے اسے دھونا ضروری ہے
ضروری ہے کہ کچھ ابہام بھی ہو شعر میں راہیؔ
وضاحت بھی شعوری طور پر ہونا ضروری ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آنکھیں جھوٹی،باتیں جھوٹی،ہر ہر تیور جھوٹ
پھر بھی یقیں کرنا پڑتا ہے جو ہے سراسر جھوٹ
پورب، پچھم، اتر، دکن، نیچے، اوپر جھوٹ
سمتوں، سمتوں جھلک رہا ہے منظر منظر جھوٹ
کوئی تناسب تو ہو آخر کوئی حد تو ہو
اک چلّو بھر سچ کے اندر سات سمندر جھوٹ
سچائی میں قدم قدم پر سو سو رکاوٹیں
سب سے آساں،سب سے سستا،سب سے بہتر جھوٹ
رات رات بھر جاگ جاگ کر توبہ استغفار
لین دین میں دن دن بھر قسمیں کھا کھا کر جھوٹ
سب سے بڑی اور اکلوتی سچائی مال و منال
پیار،محبت،رشتے ناطے،دوست برادر جھوٹ
راہی چلنا اور مسلسل چلنا ہے اک سچ
منزل،ونزل،رستہ وستہ،رہبر وہبر جھوٹ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اک شخص ذہن سے جو بھلایا ہوا سا ہے
لگتا ہے جیسے دل میں سمایا ہوا ساہے
ہم رشتگی کا ہم میں تناسب ہے اس طرح
کھویا ہوا سا میں ہوں،وہ پایا ہوا سا ہے
تبدیل ہوں گے جانے یہ حالات کس طرح
ہر شخص جن کے ہاتھوں ستایا ہوا ساہے
جس کی کوئی مثال نہ جس کا کوئی جواز
وہ ظلم ہم پہ وقت نے ڈھایا ہوا سا ہے
یہ خلد،ربِ خلدِ بریں،یہ مقام تو
دیکھا ہوا سا اور دکھایا ہوا سا ہے
کیا کیا نہ جانے اب یہ تہوں سے نکال لائے
بھونچال سا جو ذہن میں آیا ہوا سا ہے
راہیؔ کدھر کروں میں نئے راستے تلاش
ہر راستہ تو دیکھا،دکھایا ہوا سا ہے