(Last Updated On: )
مہرماہ شدت سے دعا مانگنے میں مصروف تھی جب دروازے پر دستک ہوئی
“بی بی جی!! آپ کے لیے کپڑے بھیجے ہیں چھوٹے صاحب نے”ملازمہ نے کہا اور بیڈ پر شاپنگ بیکس رکھ کر چلی گئی
مہرماہ ابھی تک عروسی رنگ کے کامدار لہنگہ زیب تن کیے ہوئے تھی لیکن اسے ہوش ہی کہاں تھا وہ تو بس اپنے جان سے پیارے بابا کی زندگی کی دعائیں مانگ رہی تھی
“پیشنٹ کو ہوش آ گیا ہے ان کے سامنے ایسی کوئی بات نا کی جائے جس سے انہیں ٹینشن ہو”ڈاکٹر ہدایت دیتے ہوئے وہاں سے چلا گیا
سب کی جان میں جان آئی
عباد تحمینہ بیگم کو لے کر گھر چلا گیا
فائزہ بیگم زوہیب صاحب کے پاس ہی بیٹھی ہوئی تھی جبکہ حمنہ شکرانے کے نفل ادا کررہی تھی
عباد بےمقصد روڈ پر گاڑی گھما رہا تھا
مہرماہ کی باتیں مسلسل اس کی سماعت سے ٹکرا رہی تھی
“عباد تم جاؤ یہاں سے میں یہاں بہت خوش ہوں “
“مجھے تم سے کوئی بحث نہیں کرنی جاؤ یہاں سے”
اس نے جھٹکے سے گاڑی روکی اور زور سے اپنا ہاتھ اسٹیرنگ پر مارا
“بی بی جی چھوٹے صاحب نے آپ کے لیے کپڑے بھیجے ہیں”ملازمہ نے کہا اور شاپنگ بیکس بیڈ پر رکھ دیئے
“کیسی ہو مہرماہ شاہ زین؟”شاہ زین نے اسے اپنی نظروں کے حصار میں لیتے ہوئے کہا
“خبردار میرے نام کے ساتھ اپنا نام لگایا تو”مہرماہ نے انگلی دیکھاتے ہوئے وارن کیا
“اپنی اوقات میں رہو سمجھی”شاہ زین نے اس کے انگلی کو پکڑتے ہوئے غصے سے کہا
“احسان مانو میرا میں نے تمہیں سر ڈھانپنے کے لیے اپنے گھر کی چھت تو میسر کی ہے تمہارے باپ نے تو تمہارے لیے اپنے گھر کے دروازے ہی بند کردیئے ہیں”شاہ زین نے غصے سے کہا
“کونسا احسان؟تمہاری وجہ سے میری شادی ٹوٹ گئی______!! تم نے مجھے سب می نظروں میں گرا دیا______!! میرے بابا نے پہلے بار مجھ پر ہاتھ اٹھایا______!! میرے بابا ہاسپٹل میں ہیں صرف تمہاری وجہ سے”مہرماہ نے غصے سے کہا
“تمہارا بابا صحیح ہیں اب”شاپ زین نے بیزاری سے کہا
“تم سچ کہہ رہے ہو”مہرماہ نے یقین دہانی چاہی
“جھوٹ بول کر مجھے کونسا انعام ملنا ہے______!! مجھے لگا تھا شاید قدرت نے انصاف کردیا جن کی وجہ سے دوسرے یتیم ہوئے تھے آج وہ خود بھی یتیم ہو گئے لیکن_____!! نہیں بلکہ صحیح کہتے ہیں برے لوگ اتنی جلدی نہیں مرتے”شاہ زین نے اسے دیکھتے ہوئے سختی سے کہا اور چلا گیا مہرماہ ناسمجھی سے اسے دیکھ رہی تھی
اسے شاہ زین کی بات کا مطلب سمجھ نہیں آیا تھا اور نا ہی وہ سمجھنا چاہتی تھی اسے تو بس اس بات کی خوشی تھی کہ ﷲ پاک نا اس کی دعائیں سن لی اور اس کے جان سے پیارے بابا کو زندگی بخش دی
آج مہرماہ اور شاہ زین کا ولیمہ تھا گھر میں کسی کو بھی کوئی خاص دلچسپی نہیں تھی دلچسپی تو مہرماہ اور شاہزین کو بھی نہیں تھی
“یہ سامان شاہ زین صاحب نے بھیجوایا ہے اور کہہ رہے ہیں تھوڑی دیر بعد میک اپ آرٹسٹ آکر آپ کا میک اپ کردیں گی”ملازمہ شاہ زین کا پیغام دے کر چلی گئی
مہرماہ نے بےدلی سے سامنے پڑی میکسی اور جیولری کو دیکھا اور آنکھیں موند لی
شاہ زین سارے انتظامات کا جائزہ لینے کے بعد کمرے میں آیا تو مہرماہ کو خیالوں کی دنیا میں کھوئے ہوئے دیکھ کر غصے سے اس کے پاس آیا
“اب تمہیں الگ سے کہنا پڑے گا جاؤ جاکر تیار ہو”شاہ زین نے غصے سے کہا تو مہرماہ چار و ناچار تیار ہونے چلی گئی
میک اپ آرٹسٹ اس کا میک اپ کرکے جا چکی تھی وہ آئینے کے سامنے کھڑی بغور اپنا جائزہ لے رہی تھی
اسکین کلر کی موتیوں کا کام ہوئی میکسی زیب تن کیے ہوئے باریک سی ڈیزائن کا ڈائمنڈ سیٹ پہنے بالوں کو نفاست سے جوڑے میں قید کئے ہوئے تھا
ڈریس کی مناسبت سے کیا ہوا میک اپ اس کے نازک سے وجود کو اور بھی پرکشش بنا رہا تھا
لیکن اسے اس بات سے کوئی غرض نہیں تھی کہ وہ کتنی حسین لگ رہی ہے اس کی آنکھوں میں نمی تیرنے لگی
کتنے خواب تھے اس کے عباد کے ساتھ منسوب____!! لیکن_____!!
پل بھر میں سب کچھ بدل گیا تھا_____!!
اب وہ کسی اور کے نام کے ساتھ منسوب ہوچکی تھی_____!! ایک ایسے شخص کے ساتھ اسے اپنی پوری زندگی گزارنی تھی جس کے لئے صرف اس کی انا اہم تھی_____!!
کتنے خود پرست ہو تماشہ زین_____!!
تکنے اپنی انا کی تسکین کے لئے میری زندگی برباد کردی میں تمہیں کبھی معاف نہیں کروں گی______!!
مجھے نفرت ہے تم سے شدید نفرت______!!
ﷲ کرے تم مرجاؤ شاہ زین تم مرجاؤ”وہ شاہ زین کو تصور میں مخاطب کئے ہوئے تھی
زوہیب صاحب کو گھر آئے ایک ہفتہ گزر چکا تھا وہ بلکل خاموش رہتے تھے
حمنہ تحمینہ بیگم کے ساتھ ان سے ملنے آئی تھی
“اسلام علیکم بابا”حمنہ نے کمرے داخل ہوتے ہوئے پوچھا
“کیوں آئی ہو یہاں چلی جاؤ میری نظروں سے دور”زوہیب صاحب نے غصے سے کہا
حمنہ انہیں حیرت سے دیکھ رہی تھی
“سنا نہیں جاؤ یہاں سے”وہ غصے سے چلائے
“حمنہ بیٹا باہر جاؤ”ان کی آواز سن کر فورا فائزہ بیگم کمرے میں آئی انہوں نے نرمی سے حمنہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا
حمنہ بناء کچھ کہے کمرے سے نکل گئی آنکھوں میں بے اختیار آنسو آمڈ آئے
“پھپھو گھر چلتے ہیں”حمنہ نے تحمینہ بیگم نے کہا
“ابھی تو آئے تھے,میں تو ملی ہی نہیں بھائی صاحب سے میں ابھی مل کر آتی ہوں”تحمینہ بیگم نے صوفے سے اٹھتے ہوئے کہا
“بابا ابھی سو رہے ہیں ہم بعد میں آکر مل لیں گے”حمنہ نے جلدی سے کہا
“ہاں تو جب آٹھ جائیں گے پھر مل کر چکوں گی گھر”وہ کہتی ہوئی دوبارہ بیٹھ گئی
“پھپھو عباد کو کل جانا ہے ان کی پیکنگ کرنی ہے اور بھی بہت سارے کام ہیں”حمنہ نے جلدی سے بہانہ بنایا
“اچھا چلو”انہوں نے منہ بناتے ہوئے کہا
“ﷲ حافظ امی”حمنہ نے ان کے گلے لگتے ہوئے کہا
“ﷲ حافظ سب صحیح ہو جائے گا تم فکر مت کرنا”فائزہ بیگم نے اسے پیار کرتے ہوئے کہا
“کیا ہوگیا آپ کو؟”حمنہ اور کے جانے کے بعد فائزہ بیگم نے زوہیب صاحب سے پوچھا
“مہرماہ میرا غرور تھی______!!”
“میرا غرور ٹوٹ گیا_______!!”
“میں ٹوٹ گیا_______!!”
انہوں نے شکستہ لہجے میں کہا
شاہ زین آفس سے آیا تو وہ اپنا کوٹ پر موبائل صوفے پر رکھ کر فریش ہونے چلا گیا
مہرماہ نے آس پاس دیکھا اور جلدی سے موبائل کی طرف لپکی
اس نے موبائل اٹھاتے ہی جلدی سے عباد کا نمبر ڈائل کیا کیونکہ وہ جانتی تھی اس دنیا میں عباد ہی وہ واحد شخص ہے جو اسے اس قید سے رہائی حاصل کروا سکتا ہے
رنگ جارہی تھی لیکن کوئی کال رسیو نہیں کررہا تھا مہرماہ کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا اے سی آون ہونے کے باوجود اسے ٹھنڈے پسینے رہے تھے
“ہیلو_____!!”کال رسیو ہو گئی تھی
“عباد میں مہ______!!”مہرماہ کے الفاظ منہ میں ہی رہ گئے تھے شاہ زین نے اس سے موبائل چھین کر خود کے کان سے لگایا
“ہیلو مہرماہ_______!! مہرماہ تم بات کررہی ہو نا________!! کچھ تو بولو”فون میں سے عباد کی آواز ابھری
عباد کی آواز سنتے ہی شاہ زین نے غصے سے موبائل دیوار پر دے مارا
“تمہاری ہمت کیسے ہوئی میری اجازت کے بناء اپنے محبوب سے بات کرنے کی”شاہ زین نے مضبوطی سے اس کا گلا پکڑ کر اسے دیوار کے ساتھ لگایا تھا اور غصے میں کہہ رہا تھا اس کی آنکھیں شعولے برسا رہی تھی مہرماہ کا وجود خوف سے کپکپا رہا تھا
شاہ زین کی گرفت اتنی مضبوط تھی کہ مہرماہ کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے وہ شاہ زین کی گرفت ڈھیلی کرنے کی سعی کرنے لگی
“میرا سانس گ ھوٹ رہہہ رہا ہے”مہرماہ نے بمشکل الفاظ ادا کیے
“پہلی اور آخری غلطی ہے تمہاری”شاہ زین غصے سے کہتا ہوا وہاں سے چلا گیا
مہرماہ دیوار کا سہارا لیتی ہوئی وہی بیٹھ گئی