مہندی کا فنکشن شروع ہو چکا تھا سب مہمان آ گئے تھے ہر آتے مہمان کے ساتھ مہد کوئی کوئی نہ پنگہ لے رہا تھا۔ جس پر چار دفعہ وہ سمیر سے چپٹ بھی کھا چکی تھا گانے چل رہے تھا سب بہت خوش دیکھ رہے تھے بس سمیر چوہدری سمیر نظروں ادھر ادھر گھماتا لائبہ کی تلاش میں تھا جب اسکی نظر اس گرین کلتانگ پر گئی سر پر ہم رنگ ڈوپٹہ بلکل لائٹ سا میک ایپ کیے بہت ہی زیادہ حسین لگ رہی تھی سمیر نے اسے دیکھا چہرے پر مسکراہٹ آئی لائبہ جیسے ہی آخری سیڑھی اتری اسکی نظر سمیر پر گئی جو مسکراتے ہوئے اسے دیکھ رہا تھا لائبہ اس سے نظریں چراتی اسٹیج کی طرف بڑھ گئی ۔ مہندی کی رسم شروع ہوئی سب سے پہلے میں رسم ادا کروں گا میرا حق بنتا ہے۔مہد آتا کہنے لگا۔تمہارا کونسا حق میری بہن ہے میں رسم ادا کرو گی۔مہوش فوراً بولی ۔ چپ ہو جا مہوش۔ شہناز نے اسے گھورا۔لگاؤ مہد بیٹا آپ لگاؤ۔انہوں نے پیار سے کہا مہد نے اسے لگائی اور ساتھ ساتھ کچھ ایسی حرکتیں جس سے لائبہ مسکرادی ۔ اور مہد نے جواد کو بہت غصے سے کھلایا جس سے اسکے منہ میں درد بھی ہوا تھا مہندی کا فنکشن بہت اچھے سے ہو گیا تھا سب مہمان بھی جا چکے تھے صرف ندا سمیر اور مہد موجود تھے لائبہ بہت تھک گئی تھی مہوش اسکے ڈوپٹہ پر لگی لگی ہنس اتار رہی تھی اور سمیر اسے دیکھنے میں مگن تھا لائبہ اسکی نظروں سے کنفیوز ہورہی تھی اور اسے دیکھ بھی نہیں سک رہی تھی۔ مہوش نے اسے جوس دیا اس نے مسکراتے ہوئے تھام لیا۔ بہت پیاری لگ رہی تھی اللہ نظر نہ لگائے۔ ندا نے اسے کہا۔بہت شکریہ دادی اور آنے کے لیے بھی ۔لائبہ مسکراتے ہوئے کہا ۔ آمین اللہ اسکے نصیب اچھے کرے آمین۔شہناز نے اسے پیار کیا آج سب ٹھیک ہو گیا تھا مگر لائبہ کو رباغہ کی کمی بے حد ہورہی تھی مگر شہناز بھی اسے پیار کرتی تھی ۔ بارات کا دن تھا لائبہ مہوش کے ساتھ پارلر گئی ہوئی تھی ۔لال کلر کے لہنگے میں بہت ہی حسین لگ رہی تھی میک ایپ کیا ہوا ہونٹوں پر ڈیپ ریڈ لپسٹک جو اسے بہت حسین بنارہی تھی بارات آ چکی تھی سب مہمان بھی آ گئے تھے بھائی یہ جو آپ نے مانگا تھا۔ اس نے اسے ایک یو ایس بی دی۔شکریہ ۔ سمیر نے اسے گلے لگایا لائبہ کمرے میں بیٹھی تھی گھر میں بہت سارے لوگ تھے جسکی وجہ سے کسی کا دھیان لائبہ کی طرف نہیں گیا سمیر اسکے کمرے کی طرف بڑھا مہوش باہر کھڑی تھی اندر ہیں کے جائیں اپنی دلہنیا کو مہوش نے اسے کہا سمیر مسکرا دیا۔ اور اندر آیا جہاں لائبہ اداس بیٹھی اپنی ماں کی تصویر دیکھ غتھی لائبہ نے جیسے ہی مڑ کر دیکھا سمیر نے اسکے چہرے پر رومال رکھ دیا دو تین منٹ بعد ہی وہ بے ہوش ہو چکی تھی اور سمیر کی باہوں میں تھی۔مہوش کوئی ہے۔ اس نے پوچھا۔کوئی بھی نہیں ہے لے جائیں۔مہوس نے اسے بتایا باہر مہد کھڑا پیرا دے رہا تھا سمیر اسے اپنی گود میں اٹھاتا بیک ڈور سے نکل کر باہر آیا کوئی خطرہ تو نہیں ہے۔ اس نے مہد سے پوچھا۔نہیں بھائی جلدی لے جائیں۔مہد نے کہا۔اوکے مہوش کو شکریہ کہ دی میرا وہ نہ ہوتی تو شاید میں کچھ بھی نہ کر سکتا۔ سمیر نے کہتے ساتھ اسے گاڑی میں بٹھایا اور خود ڈرائیونگ سیٹ سنبھالی۔۔نکاح کا وقت ہو گیا ہے مہوش لائبہ کو لے آؤ۔شہناز نے اسے کہا مہوش کو پسینے آنے لگے دل گھبرانے لگا۔کیا ہوا۔ انہوں نے پوچھا۔ وہ وہ باجی کوئی کیڈنیپ کرکے لے گیا ہے میں بہت کوشش کی مگر نہیں بجا سکی آپ کے پاس آرہی تھی۔ مہوش نے فوراً جھوٹ بولا شہناز کو پریشانی ہونا شروع ہوئی۔یہ کیا ہو گیا اللہ تعالیٰ۔ شہناز پریشان ہوئی۔ کیا ہوا ۔فیاض صاحب آئے انہوں نے سب بتایا فیاض صاحب بھی پریشان ہوئے کافی دیر ہو گئی ہے اب لائبہ کو لے بھی آئے مولوی صاحب کہیں اور بھی جانا ہے جواد کی ماں نے کہا ۔ شہناز بلکل خاموش تھی کوئی جواب جو نہ تھا ندا بھی پریشانی سے انہیں دیکھنے لگی تبھی مہد انہیں کھینچ کر سائیڈ پر سب اسے بتایا ندا بہت خوش ہوئی مگر ایک طرف سے پریشان ہوئی اب کیا ہوگا سب تو لائبہ کو باکردار سمجھے گے۔انہوں نے اداسی سے کہا۔ لوگوں کو چھوڑ دیں انکے حال میں آپ بے فکر رہیں بھائی ان سے نکاح بھی کرلیں گے ۔ امی سمیر مہد کہاں ہیں۔قیصر صاحب پوچھنے لگے۔ پتہ نہیں کوئی لائبہ نامی لڑکی ہے اسکی شادی کر گئے ہیں۔سمائیا نے بتایا اچھا۔ سمیر اسے ایک چھوٹے سے گھر میں لے آیا جہاں صرف ایک کمرا تھا اور اس میں بھی صرف ایک کرسی تھی سمیر اسے باہوں میں اٹھاتا کے آیا اور کرسی پر بٹھایا اور خود زمین پر بیٹھ گیا ۔ بےشرم لڑکی چلو یہاں سے جواد وہ تمہارے قابل تھی بھی نہیں۔ جواد کی ماں غصے سے کہنے لگی۔ آپ کا بیٹا میری دوست لائبہ کے قابل نہیں تھا دیکھیں ذرا فون کھول کے چار پانچ گرل فرینڈز ہیں اور جنہیں یہی کہتا ہے کہ وہ جلدی رشتہ لے کر آئے گا۔ مہد کو بے حد غصہ آیا جواد چپ ہو گیا ۔چلوں۔جواد کی اماں کھینچ کر لے گئی سب مہمان باتیں کرتے چلے گئے فیاض اور شہناز پریشان بیٹھے تھے کہ ناجانے کس نے انکی بیٹی کو اگواہ کر لیا ہے۔ بدکردار بھی ہو گئی ہے وہ اللہ کریں لائبہ ٹھیک ہو ۔ شہناز پریشانی سے کہنے لگی۔ باجی بلکل ٹھیک ہو گی آپ پریشان نہ ہو سمیر بھائی ڈھونڈنے گئے ہیں۔ اس نے بتایا مگر پریشانی کم ہونے کا نام ہی نہیں کے رہی تھی سمیر کو اب نیند آنے لگی تھی اگر میں نے اسے ایسے چھوڑ دیا مس تیکھی مرچ فوراً یہاں سے بھاگ جائے گی مگر میں ایسا نہیں کرنے دے سکتا بسمیر نے اس چھوٹے سے کمرے میں نظرگھمائی رسی اٹھائی اور اسکے بازوؤں کو باندھ دیا اور خود زمین پر لیٹ گیا۔
وہ سب پریشانی سے پوری رات نہ سو سکے تھے ندا اور مہد گھر آئے تھے تو سمائیا اور قیصر سو چکے تھے ۔ فیاض اور شہناز بہت پریشان تھے مہوش کو اب برا لگ رہا تھا وہ کیا کرتی اسکی بہن خوش نہیں تھی جواد کیساتھ تو اسی یہی ٹھیک لگا اور اگر سمیر بھائی نے بھی چھوڑ دیا نہیں نہیں۔ اسنے نفی میں سر ہلایا۔
وہ بے ہوش حالت پر کرسی میں بیٹھی تھی اور وہ زمین پر لیٹا ہوا تھا لائبہ کے جسم میں حرکت ہوئی اور آنکھوں کو کھولنی کی کوشش کرنے لگی پلکوں پر جبنش کی اور آہستہ آہستہ آنکھیں اور نظر پوری جگہ میں گھمائی جو ایک کمرے کی طرف بنا ہوا تھا اور پھر نظر زمین پر لیٹے سمیر چوہدری پر گئی لائبہ سر پر زور دے گے کر یاد کرنے لگی تو اسے یاد آیا کسی نے اسے کیڈنیپ کیا تھا لائبہ نے غصے سے سمیر کو گھورا
۔سمیر چوہدری۔لائبہ چیخی سمیر جسکی آنکھ ابھی لگی تھی اپنا نام سن کر فوراً اٹھا اور اسے دیکھنے لگا۔کیا ہوا۔سمیر نے پریشان ہوتے ہوئے پوچھا۔ کھولوں مجھے۔لائبہ نے کہا تو وہ جلدی سے اسکی طرف بڑھا اور اسکے ہاتھوں سے رسی آزاد کی۔ایم سوری میں یہ نہیں کرنا چاہتا تھا بس اس ڈر سے تمہارے ہاتھ باندھے کہیں تم بھاگ نہ جاؤ۔سمیر نے بتایا لائبہ نے اسے غصے سے دیکھا۔ میرا دل میں جو تمہارے لیے اتنی اچھائی آئی تھی وہ اب ختم ہو چکی ہے تمہیں ذرا شرم نہیں آئی یہ حرکت کرتے ہوئے۔لائبہ نے غصے سے اس کا گریبان پکڑا۔ آئی مگر مجھے اور کچھ سمجھ نہیں آیا وہ لڑکا تمہارے لیے ٹھیک نہیں تھا یہ بات دس دفعہ بتا چکا تھا تمہیں مگر تم سن ہی نہیں رہی تھی اور سمیر چوہدری تمہیں کسی اور لڑکے کے ساتھ کبھی نہیں دیکھ سکتا تم صرف میری ہو۔سمیر نے اس کے ہاتھ اپنے گریبان سے ہٹا کر اس کے ہاتھوں میں گھسائی لائبہ تھوڑا کنفیوز ہوئی لائبہ نے اپنے ہاتھ اسکے ہاتھ سے نکالے اور اسے دھکا دیا سمیر ویسا سٹل کھڑا رہا
تم مجھ سے پیار کر ہی نہیں سکتے تمہیں جب میری عزت کی ہی پرواہ نہیں ہے تو پیار کیسا شادی والے دن تم لڑکی کو کیڈنیپ کر کے اس کو شادی کے جوڑے میں لے آؤں گے تو لوگ کیا بولوں گے اب اگر میں اس گھر میں واپس گئی تو مجھے دھکے دے کر نکالاجائیں گا سب سمجھیں میں کسی کے ساتھ بھاگ گئی۔لائبہ کی آنکھوں سے آنسو سمیر اسکی طرف بڑھا اور اس کی آنکھوں سے آنسو صاف کیے۔ کوئی کچھ بھی نہیں کہے گا۔سمیر نے اسکے چہرے پر نرمی سے ہاتھ رکھ کر پیار سے کہا لائبہ اسے دیکھنے لگی۔تم اتنے یقینڈے کیسے کہ سکتے ہو میرے ماں باپ پر اس وقت کیا بیت رہی ہوگی صرف میں جانتی ہوں مجھے ابھی لے کر جاؤں انکے پاس ۔لائبہ فوراً پیچھے ہوئی۔چلتے ہیں لیکن ایک شرط پر تم مجھ سے نکاح کرکے جاؤ گی۔ سمیر نے شرط رکھی۔میں نہیں کروں گی تم سے تم پاگل ہو ایسا کچھ نہیں ہوگا۔ لائبہ نے غصے سے کہا۔ پھر یہی بیٹھ جاتے ہیں ہم دونوں کیونکہ نکاح کے بغیر تو اب تمہیں جانے دوں گا پھر کوئی جواد آجائے گا۔سمیر کہتے ساتھ بیٹھ گئی لائبہ اسے دیکھنے لگی
۔سمیر پلیز مجھے جہاں سے لے جاؤ پلیز۔ لائبہ اداسی سے کہنے لگی۔ کہ تو رہا ہوں مولوی صاحب سب چیزوں کا انتظام ہوگیا ہے مہد اور دادو بھی آتی ہوں گی نکاح کرلیتے ہیں پھر تمہیں گھر لے جاؤ گا۔ سمیر لاپرواہی سے کہنے لگا۔ تم کیوں۔ کررہے ہو ایسے تم کیوں خودغرض ہورہے ہو۔ لائبہ پریشانی سے پوچھنے لگی۔ کیونکہ پیار کرتا ہوں ایک دفعہ اپنے پیار کو کسی کا ہاتھ تھاما چکا تھا مگر اب میں کچھ ایسا نہیں کروں گا خودغرص بن گیا ہوں ۔ سمیر کے چہرے پر سنجیدگی تھی غصہ تھا لائبہ لب بھینچ گئی۔ تم بھی کرتی ہوں مجھ سے پیار آئی نو۔ سمیر نے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا لائبہ نے ایک نظر اس پر ڈالی ہارٹ بیٹ مس ہوئی۔
ہم دونوں ایک نہیں ہوسکتے۔ لائبہ چہرہ دوسری طرف کر گئی۔ہو سکتے ہیں اگر تم مان جاؤں پلیز مان جاؤں پہلی دفعہ میں کسی کو پلیز کہ رہی ہوں۔ سمیرنے اسے پیار سے کہا ۔ لائبہ چپ رہی ۔ مطلب ہاں ہے میں ابھی فون کرتا ہوں مہد اور دادو کو۔ سمیر خوشی سے کہتا جانے لگا۔ نہیں ایسا نہیں ہے میں نے تمہیں کب کہا جھوٹ مت بولو۔ لائبہ فوراً بولو۔ تم نے کچھ نہیں کہا مجھے لگا ہاں کردی سمیر نے اسے کہا۔میں نہیں کروں گی ہاں۔ لائبہ نے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔ تمہیں کرنی ہوگی۔ سمیر نے اسے کہا۔نہیں۔ لائبہ نے نہ کی ہاں۔سمیر نے ہاں کہا۔ میں نے کہا نہ نہیں نہیں نہیں لائبہ غصہ ہوئی۔ ۔ٹھیک ہے پھر نہیں۔سمیر نے معصومیت سے کہا۔مجں کہوں گی ہاں جی۔لائبہ اسکے نہ کو ہاں کر گئی اور پھر اپنے منہ پر ہاتھ رکھ دیا۔ اب تو کردیا ہے ہاں ۔ سمیر مسکراتے ہوئے کہنے لگا۔ لائبہ قسے گھورتی رہ گئی۔
نکاح کے لیے مہد اور ندا آئے تھے اور اپنے ساتھ مولوی بھی لائے تھے۔ میں نہیں کروں گی ۔ لائبہ نے منع کیا۔ لائبہ میری جان ابھی تو تم نے ہاں کی پھر کیوں انکار کر رہی ہو۔ ندا نے اس سے پوچھا۔ نہیں میں نے نہیں زبردستی ہاں کیا ہے اسنے۔ لائبہ نے بتایا۔ بیٹا کر لو نکاح بہت چاہے گا تمہیں یقین کرو آج سے پہلی کبھی کسی لڑکی میں انٹرسٹ نہیں لیا اور بچپن سے ہی ایسا ہے جسے ایک دفعہ چاہتا ہے اسے بے حد پیار دیتا ہے۔ اسنے پیار سے کہا لائبہ لب بھینچ گئی۔ میں جانتی ہوں تو بھی پسند کرتی ہے۔ ندا نے اسے دیکھتے ہوئے کہا لائبہ نے فوراً نفی میں سر ہلایا۔ جھوٹ نہ بول شادی پر تیری نظر بار بار سمیر پر جارہی تھی۔ ندا نے کہا لائبہ چپ ہو گئی مولوی آ گئے ہیں سر پر ڈوپٹہ کرلے نکاح ہوجائے گا۔ انہوں نے پیار سے کہا۔ اور اسکے سر پر دوپٹہ کیا تبھی مولوی صاحب آئے
۔ لائبہ فیاض بلوچ ولد فیاض بلوچ آپکا نکاح سمیر قیصر چوہدری ولد قیصر چوہدری آپکا نکاح کیا جاتا ہے آپ کو قبول ہے۔ مولوی نے پوچھا۔ لائبہ نے ایک نظر ندا کو دیکھا جو مسکرا کر دیکھ رہی تھی۔ میں۔ بھی تو یہی چاہتی ہوں اس میں غلط کیا ہے۔ لائبہ دل میں سوچنے لگی۔ قبول ہے۔ لائبہ نے جواب دیا مولوی صاحب نے دو دفعہ اور پوچھا اور سمیر نے بھی ہاں کردی آج سے وہ دونوں ایک دوسرے کے نکاح میں تھے۔۔ مجھے گھر جانا ہے جلدی چلیں۔ لائبہ نے فوراً کہا۔ ہاں جی بیٹا چلتے ہیں مہد گاڑی نکالو۔ ندا نے اسے کہا اسنے گاڑی نکالی ندا آگے بیٹھی سمیر اور لائبہ پیچھے بیٹھے لائبہ پریشانی سے باہر دیکھ رہی تھی
اور سمیر اسے دیکھ رہا تھا سمیر نے اسکے ہاتھ ہاتھ رکھا ہی تھا کہ لائبہ نے ایک زور کا تھپڑ مارا دور کرو۔ لائبہ نے گھورا۔ یار ۔ سمیر منہ بنا گیا۔ میں اس نکاح کا بدلہ بعد میں لوں گی مسٹر سمیر ابھی مجھے گھر جانا ہے۔ لائبہ گھورتے ہوئے کہنے لگی۔ اچھا مگر محبت والا بدلے لینا۔ سمیر اسکے قریب ہوکر کہنے لگا۔ لائبہ بس گھور سکی۔
وہ لوگ گھر پہنچے مہوش کی نظر اس پر گئی تو اسے گلے لگایا۔ باجی ٹھیک ہیں آپ۔ مہوش پوچھنے لگی۔ ہاں میں ٹھیک ہوں مجھے امی اور ابو سے ملنا ہے۔ وہ کہتے ساتھ اندر آئی جہاں شہناز سر پکڑ کر بیٹھی اور فیاض چپ بیٹھا تھا نظر لائبہ پر گئی ۔ لائبہ۔ وہ اسے دیکھنے لگے۔ ابو۔ لائبہ کہتے ساتھ اسکے گلے لگی شہناز اسے دیکھنے لگی۔ کہاں تھی تم۔ شہناز نے اس سے پوچھا لائبہ خاموشی سے اسے دیکھنے لگی۔ میرے ساتھ۔ سمیر پیچھے سے آتا کہنے لگا۔ شہناز اور لائبہ نے اسے دیکھا۔ میں لائبہ کو کافی پسند کرتا مگر وقت ہی نہیں ملا آپ سب کو بتانا کا مجھے ایک یہی راستہ ملا کیونکہ جواد ایک ٹھیک لڑکا نہیں تھا میں نے کیڈنیپ کیا تھا۔ سمیر نے ساری بات صاف لفظوں میں بتایا۔ تم نے غلط کیا ہے۔شہناز کو غصہ آیا۔ جی کیا ہے مگر میں لائبہ کو کسی اور کا ہوتا دیکھ بھی نہیں سکتا مجھے معاف کردیں لائبہ کا کوئی قصور نہیں ہے۔ سمیر نے اسے بتایا۔ شہناز خاموش ہو گئی۔ تم کمرے میں جاؤ۔ فیاض نے اسے کہا۔ یہ اب یہاں نہیں رہے گی۔سمیر نے فیاض کو دیکھا۔ کیوں۔ فیاض دیکھنے لگا۔ یہ اب لائبہ فیاض بلوچ نہیں لائبہ سمیر چوہدری ہے بیوی ہے میری۔ کہتے ساتھ سمیر نے لائبہ کا ہاتھ تھاما لائبہ نے ایک نظر سمیر پر ڈالی ایک فیاض پر۔ یہ سچ بول رہا ہے۔ لائبہ نے بتایا۔ سچی۔ مہوش نے لائبہ کو پھر گلے لگایا۔ کیا اس نے زبردستی نکاح کیا ہے تمہارے ساتھ فیاض نے پوچھا۔ نہیں زبردستی نہیں کیا بس منایا ہے کافی دیر۔ لائبہ نے بتایا
۔ جاؤں تم گھر اور رخصتی رات کو ہوگی تم دونوں کی ابھی تم گھر جاؤں اور رات کو آنا ۔ فیاض صاحب نے اسے کہا لائبہ ہلکا سا مسکرائی مہوش بھی خوش ہوئی سمیر منہ بنا گیا لیکن کر بھی کیا سکتا تھا ورنہ اسکے سسر نے آج رات بھی لائبہ کو اسکے ساتھ نہ بھیجنا تھا وہ خاموشی سے چلا گیا۔۔
وہ گھر آیا تو ندا اور مہد جو پہلے پہنچ گئے تھے لائبہ کو نہ دیکھ کر اسکے پاس آئے۔ لائبہ بھابہ۔۔مہد نے پوچھا۔ رات کو رخصتی ہے تبھی آئے گی۔ سمیر نے بتایا۔ کیا واقع ان کے ماں باپ مان گئے۔ مہد کو یقین نہ آیا سمیر نے اثبات میں سر ہلایا۔ سمیر کہاں تھے تم ۔ سمائیا اس سے پوچھنے لگی۔ کام تھا رات کو ایک سرپرائز بھی دینا ہے۔ اسنے بتایا۔ سمائیا خاموش ہو گئی۔لائبہ کمرے میں آئی ت مہوش بھی اسکے پیچھے آئے۔ مہوش تم نے ساتھ دیا تھا نہ سمیر کا۔ لائبہ اس سے پوچھنے لگی۔ جی آپی آپ کو بہت چاہنے لگے تھے۔ مہوش نے بتایا۔ تمہیں ذرا شرم نہ آئی یہ کرتے ہوئے۔ لائبہ نے اس سے کہا۔ کیوں شرم آتی جب سب ٹھیک ہو گیا ہے دیکھیں امی ابو کو کیسے تیاریاں کررہے ہیں۔۔مہوش نے بتایا لائبہ مسکرادی۔۔ دیکھنا کچھ دنوں بعد تمہاری بھی ہوجائے گی۔ لائبہ نے مہوش کو تنگ کیا۔ اللہ نہ کرے اور اگر ہونے بھی چاہیے تو سمیر بھائی جیسا لائف پارٹنر ہو۔ مہوش نے اسے بتایا سمیر چوہدری میں کونسی ایسی بات ہے ذرا بتانا پسند کریں گی مجھے۔۔لائبہ نے پوچھا م کتنا چاہتے ہیں آپ کو کتنی کئیر کرتے ہیں آپکی اور ابو کے سامنے کیسے سب بول دیا۔۔مہوش نے بتایا۔ تو لائبہ خاموش ہو گئی۔۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...