زرک معاذ اور داٶد حویلی کی پچھلی طرف لان میں بیٹھے گپیں ہانک رہے تھے۔
داٶد کے مہمانوں کو حویلی کے پچھلے حصے میں ٹھہرایا تھا۔
مجھے بھوک لگ رہی ہے. معاذ پیٹ پہ ہاتھ پھیرتا بولا۔
تمہیں کب بھوک نہیں لگتی لالے۔ زرک کے اسکے کندھے پہ ہاتھ مارا۔
ہاں تو داٶد اب کیا تم اپنی شادی میں مجھے بھوکا مارو گے۔ معاذ نے رخ داٶد کی طرف موڑا۔
ارے میں نے کب منع کیا ہے تجھے۔ داٶد اس الزام پہ تڑپ ہی گیا۔
زرک اسے دے کچھ کھانے کو ایسا نہ ہو میری شادی میں مر جاۓ اور میری بے چاری شادی ڈی لے ہو جاۓ۔ داٶد پریشان شکل بنا کر بولا۔
سالے کتنا کمینہ ہے توُ۔ معاذ نے بھی زوردار مکا مار کر حساب برابر کیا۔
میں تو بالکل نہیں جانے والا معاذ ایسا کرو تم خود جاٶ اور جا کے اپنی مرضی کا کچھ بھی لے کر آٶ۔ اور ہاں چوری چھپے جانا سب کو جگا مت دینا۔
ورنہ گھر والے دیکھیں گے بعد میں مار مار کر حشر پہلے کریں گے۔
معاذ ان کے مذاق پہ منہ بناتا چل دیا۔
اور جو بھی لانا تین لانا۔ زرک اور داٶد نے پیچھے سے ہانک لگاٸ۔
معاذ انہیں ٹھینگا دکھاتا اندر کی جانب بڑھ گیا۔
*-*-*-*-*-*-*-*-*
عالی اب بس بھی کرو یار کتنی دیر لگاٶ گی۔ اسکی خوشبو کی وجہ سے تو بالکل بھی مجھ سے صبر نہیں ہو رہا ہے۔
زارا سلیب پہ چڑھی مسلسل بھوک کا راگ الاپ رہی تھی۔
اوہ اچھا تو یہاں یہ کارنامہ ہو رہا ہے۔
کچھ خود غرض لوگ مہندی کی دلہن سے کام کروا رہے ہیں۔ بھٸ یہ تو بریکنگ نیوز ہے ڈھنڈورا تو پیٹنا چاہیے۔
معاذ ویڈیو بناتے ہوۓ بولا۔
وہ جیسے ہی اندر داخل ہوا پیزا کی خوشبو اسکے نتھنوں سے ٹکراٸ۔اسکی تو مانو عید ہی ہو گٸ۔
رات کے اس پہر تو اس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ اسے پیزا کھانے کو ملے گا۔
کچن میں داخل ہوا تو اسےزارا سلیب پہ بیٹھی نظر آٸ۔
علیشہ کو بھوک کا کہتی۔۔۔ علیشہ سے کام کراتے دیکھ معاذ کی رگِ شرارت پھڑکی تھی سو اس نے ویڈیو بنا لی۔
زارا جو مگن سی بیٹھی تھی معاذ کو ویڈیو بناتے دیکھ کر فوراً نیچے اتری۔
یہ کیا طریقہ ہے معاذ؟؟؟ وہ بظاہر غصے سے بولی۔
اوہ اچھا اور مہندی کی دلہن سے کام کروانا یہ کونسا طریقہ ہے ہممم۔۔۔
ہاں تو میری بہن ہے میری مرضی۔ وہ نڈر انداز سے بولی۔
جی آپکی مرضی تو ہے مگر شاید یہ اسکے شوہر کو پسند نہیں آۓ گا کیوں ہے نہ۔
معاذ کا انداز سراسر دھمکی آمیز تھا۔
اور داٶد کا سن کر سچ مچ زارا کا رنگ اڑا تھا۔ کل اس نے دونوں طرف سے رسمیں کر کے خوب سارا نیگ بٹورنا تھا۔
اور اب اس ڈھیٹ انسان نے اسکی ویڈیو بنا ڈالی تھی۔
دیکھو معاذ ویڈیو ڈیلیٹ کرو ورنہ میں زرک ادا کو شکایت لگاٶں گی۔
اوہ اچھا پھر تو مجھے بھی ڈھنڈورا پیٹنا چاہیے۔ معاذ نے سوچتے ہوۓ جواب دیا۔
زارا نے مٹھیاں بھینچی۔
امممم ایک ڈیل کرتے ہیں۔ معاذ ماتھا مسلتا ہوا بولا۔
ایسا کرو پیزا مجھے دے دو میں نہیں بتاٶں گا کسی کو بھی اوکے۔
مگر۔۔۔ زارا بولنے ہی لگی کہ اس نے خاموش کروا دیا۔
اگر مگر نہیں بھابھی پیزا مجھے دے دیں آپکی زارووو کی یقیناً بھوک مر گٸ ہو گی۔
معاذ اسے آگ لگاتا اسکی نظروں کے سامنے سے پیزا اٹھا لے گیا۔ اور وہ افسوس سے ہاتھ ملتی رہ گٸ۔
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*
زارا بیوٹیشن کے آتے ہی پہلے تیار ہو کر داٶد کی طرف چل دی۔
ٹی پنک پیروں کو چھوتا فراک اس پہ خوب جچ رہا تھا۔
داٶد کی کوٸ بہن نہ ہونے کے باعث وہ داٶد کی سہرا بندی کے لیے آٸ تھی۔
اسکے بعد اس نے ساری رسمیں عالی کی طرف سے کرنی تھیں۔
رسم کر کے خوب بھاری سا نیگ لینے کے بعد وہ بارات کے استقبال کے لیے جا رہی تھی کہ معاذ نے روک لیا۔
اسکا سجا سنورا روپ اس کے دل کو چھو رہا تھا۔ دل کی حالت پہ قابو پا کر وہ زارا کا راستہ روکے کھڑا تھا۔
تم نیگ کے پیسوں سے مجھے شاپنگ کرواٶ گی۔
کس خوشی میں۔ زارا کو آگ ہی لگ گٸ۔ رات کا غصہ بھی تو باقی تھا۔
ارے ماٸ پاسٹ باڈی گارڈ ویڈیو۔۔۔ وہ فون لہراتا کہہ رہا تھا۔زارا ضبط کرتی وہاں سے چل دی جبکہ معاذ اسکی حالت خوب انجواۓ کر رہا تھا۔
جانے کیوں اس لڑکی کو اسے شرمانے گھبرانے کے بجاۓ چڑانے میں ذیادہ مزہ آتا تھا۔
وہ جب جب غصے سے گھورتی اور پیر پٹختی چلی جاتی اسکو اور اس پہ پیار آتا۔
کل رات اس نے ان دونوں کو یہی کہا کہ ملازمہ پیزا بنا رہی تھی تو وہ اٹھا لایا۔ مگر زارا کو بلیک میل کرنے کا اسے اچھا موقع مل گیا تھا۔
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*
زارا بارات کے استقبال کے لیے راستہ روکے کھڑی تھی۔
بیس ہزار۔۔۔ اس سے کم بالکل نہیں۔
وہ بحث کر رہی تھی جبکہ معاذ اسے چڑا رہا تھا۔
وہ اسے اگنور کیے دوبارہ مطالبہ کر رہی تھی۔
یار داٶد مجھے تو لگتا ہے یہ اپنے میک اپ کے پیسے تجھ سے مانگ رہی ہے۔ بیچاری نے خوبصورت لگنے کے لیے اتنے پیسے جو دیے۔
زارا نے غصے سے اسے گھورا بالآخر طویل بحث کے بعد اسے پیسے ملے۔
وہ ابھی خوش بھی نہ ہونے پاٸ تھی کہ معاذ نے اس پر سنو سپرے کر دیا۔
اسکے بال چہرہ کپڑے سب سپرے سے بھر گۓ۔ اتنے لوگوں کی موجودگی میں وہ بمشکل ضبط کر کے رہ گٸ۔
معاذ پتا نہیں کیا الا بلا خریدتا رہا۔زارا نے غور ہی نہ کیا۔
تم میرے ساتھ کیوں آٸ ہو؟؟؟ معاذ مڑتے ہوۓ بولا۔
کیونکہ آپ مجھے ساتھ لے کر آۓ ہیں مسٹر معاذ چوہدری۔۔۔ زارا نے دانت پیستے ہوۓ کہا۔
ہاں تو اگر میں لے کر آیا ہوں تو بندہ مروتاً ہی ہیلپ کر دیتا ہے۔
اور میں کیا ہیلپ کروں۔۔ وہ بازو لپیٹے آنکھیں چھوٹی کیے اسے دیکھ رہی تھی۔
کر دی نہ جاہلوں والی بات۔ اب یہ بھی میں بتاٶں یہ یہ پکڑو ذرا۔۔۔ معاذ نے سارے شاپنگ بیگز اسے پکڑاۓ۔
زارا کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا جبکہ معاذ شانِ بے نیازی سے آگے بڑھ گیا۔
ہیے بڈی۔۔۔۔ معاذ شاپنگ کر رہا تھا کہ آواز پہ رک گیا۔
خرم یزدانی اسکے اچھے دوستوں میں شمار ہوتا تھا۔
ہیلو یزدانی ہاٶ آر یو۔۔ معاذ اسکے گلے لگتا بولتا۔
میں بالکل فٹ تُو کدھر گم ہے؟؟
اوہو ہُو از شی۔۔؟؟؟ خرم سٹی بجاتا زارا کو گھور کر دیکھنے لگا۔
اوہ یہ۔۔۔ شی از ماٸ باڈی گارڈ۔۔ معاذ مسکراہٹ چھپاتا زارا کو غصہ دلا گیا۔
واٶ یار باڈی گارڈ تو بہت ہی پریٹی گرل ہے۔ ویسے اگر ہمیں بھی ایسی حسین باڈی گارڈ مل جاۓ تو بندہ دل و جان سے خود پہ حولے کروانے کو تیار ہے۔
خرم آگے کو جھکتا شرارتاً بولا۔
اوہ رٸیلی تو پہلی گولی آپ کو میں مارنا پسند کروں گی۔
زارا چبا چبا کر بولی۔
یزدانی ذرا بچ کر جنگلی بلیاں اکثر خوبصورت ہوتی ہیں اور پھر وہ تو سنا ہی ہو گا نہ بیوٹی وِد ڈینجر۔۔۔۔
معاذ اسے خوب ہی چڑا رہا تھا۔
ہاہاہا ڈینجرس بیوٹی۔۔۔ خرم دل کھول کر ہنسا۔
اوکے یار تُو سنبھال اپنی بیوٹی بندہ ابھی ڈیوٹی پر ہے۔
خرم ہاتھ ہلاتا چل دیا۔ جبکہ زارا میڈم بھی شاپنگ بیگز نیچے گراۓ کھڑی تھیں۔
یہ یہ کیا کیا تم نے۔ معاذ کو توصدمہ ہی لگ گیا اپنی شاپنگ کا یہ حال دیکھ کر۔ ابھی تو بِل بھی پے نہ کیا تھا اور پہلے ہی زارا نے بیڑا غرق کر دیا۔
اپنے کام خود کرو۔ زارا ہاتھ جھاڑتی اوپر سے گزر گٸ۔
زارا کی بچی تمہیں تو میں دیکھ لوں گا۔
مت دیکھنا مجھے نظر لگ جاۓ گی۔
زارا میڈم مزے سے آگے بڑھ گٸیں۔
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...