’’مہک! تم سے ایک بات پوچھوں ؟‘‘ شام کی ٹھنڈی خوش گوار ہوا چل رہی تھی۔ دونوں لان میں بیٹھی چلغوزے کھا رہی تھیں۔ جب فاطمہ نے کہا۔ مہک کا دل دھک سے ہوا اب جانے وہ کیا استفسار کرنے والی تھی۔
’’پھوپھو کی کتاب میں ایک نوجوان کی تصویر دیکھی تھی میں نے۔ لگتا ہے وہ کسی کو پسند کرتی تھیں۔ کیا تم جانتی ہو؟‘‘ فاطمہ کی نظر بالکونی پر جمی ہوئی تھی۔ وہاں در نایاب ستون سے ٹیک لگائے، آسمان کی وسعتوں میں اڑتے پرندوں کو دیکھ رہی تھی۔
مہک نے ایک گہرا سانس بھرتے ہوئے اسے جہاں زیب کے متعلق بتا دیا تھا۔
’’ابا نے پھوپھو کے ساتھ اچھا نہیں کیا۔ اب انہیں تم سے پہلے ان کی شادی کرنی چاہیے۔‘‘ اسے واقعی دکھ ہوا تھا۔
’’پھوپھو کی شادی نہیں ہو سکتی۔‘‘ مہک کی آواز اتنی پست تھی کہ فاطمہ بمشکل سن پائی۔
’’کیوں ؟‘‘ حیرت کے ساتھ اس کی آنکھوں میں سوال بھی تھا۔
’’وہ شاہ میر کے ساتھ منسوب ہیں اور وہ لندن میں لیزا کے ساتھ شادی کر چکا ہے۔ اب پھوپھو تمام عمر اس کی منگ بن کر رہیں گی۔‘‘
’’واٹ ربش … کیا جہالت ہے یہ؟‘‘ پل میں اس کا چہرہ سرخ پڑ گیا۔
مہک اسے اپنی روایات، رسوم و رواج کے متعلق بتانے لگی۔ جنہیں سن کر اس کے ماتھے کی شکنوں میں اضافہ ہی ہوا تھا۔
وہ تن فن کرتی شایان کے سر پر پہنچ گئی تھی۔ جو ابھی عشاء کی نماز سے فارغ ہوا تھا۔
’’تمہیں نہیں لگتا کہ اللہ سے تمہارا تعلق محض ایک سجدے میں سمٹا ہوا ہے ؟ ایک سجدہ کیا اور گویا حق بندگی ادا ہو گیا … اور پھر باقی کے تمام معاملات زندگی میں تم اپنی مرضی چلا رہے ہوتے ہو۔ حالانکہ اللہ سے محبت کا تقاضا تو یہ ہے ناکہ ہر کام اس کی مرضی سے کیا جائے ؟‘‘ وہ بغیر کسی لاگ لپٹ کے شروع ہو چکی تھی۔ شایان نے تحمل سے اسے سنا اور پھر بولا۔
’’بات کیا ہے ؟‘‘
’’پھوپھو کو کس طرح آپ نے ایک جاہلانہ رسم کی بھینٹ چڑھا رکھا ہے۔‘‘ اس کے ابرو تن گئے۔
’’یہ برادری اور جرگوں کے فیصلے ہیں۔ تم نہیں سمجھو گی۔‘‘ اس نے ٹالنا چاہا۔ مگر وہ بھی مکمل تیاری کے ساتھ آئی تھی۔
’’آپ سمجھانے کی کوشش کریں تو ہو سکتا ہے آپ کے نادر خیالات، انمول اصول اور نایاب روایات میرے بھی اس کم عقل ذہن میں سما جائیں۔‘‘ وہ اطمینان سے کرسی گھسیٹ کر بیٹھ گئی۔
’’دیکھو فاطمہ! مجھے بھی یہ سب پسند نہیں۔ لیکن صدیوں سے چلے آئے سسٹم کو یوں ایک دم سے تو نہیں بدلا جا سکتا ناں۔‘‘
’’تبدیلی کبھی بھی سمندر میں نہیں آتی۔ پہلے دریا کا رخ موڑنا پڑتا ہے۔ تم پہلا قدم تو اٹھاؤ۔‘‘ وہ اب کے ذرا جوش سے بولی۔
’’یہ سب اتنا آسان نہیں ہو گا۔ سارا قبیلہ ہم سے منہ موڑ لے گا۔ خاندان بھر میں ہماری بدنامی ہو گی اور …‘‘
’’اللہ کے احکامات کی پیروی پر شرمندگی کیسی؟‘‘ اس کی بات کاٹتے ہوئے فاطمہ نے اسے دیکھا تو ایک پل کے لیے وہ بھی لاجواب ہو کر رہ گیا۔
’’تمہیں پتا ہے جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام شیر خوارگی میں بنی اسرائیل کو توریت پڑھ کر سنایا کرتے تھے تو سارے یہودی توریت کا کلام سنا کرتے تھے۔ لیکن جب انہوں نے اپنی قوم کو انجیل کا پیغام دیا تو بنی اسرائیل کے لوگ ان کے دشمن ہو گئے اور ان کو صلیب پر چڑھانے کی سازش تک کر ڈالی۔ ایسے ہی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی قوم کو اسلام کی دعوت دی تو طائف والوں نے ان پر پتھر برسائے۔ اللہ نے ہمیں عقل اور شعور کے ساتھ ایک مکمل ضابطہ حیات بھی دیا ہے تو ہم کیوں غور و تفکر سے کام نہیں لیتے ؟ اصل میں ہم ریجڈ ہیں وہی کریں گے جو ہم نے اپنے آباء و اجداد کو کرتے دیکھا تھا۔‘‘ اس نے تاسف سے سر ہلایا اور اپنی بات جاری رکھی۔ یہ ہمارا جاگیرانہ سسٹم بھی ایسا ہی ہے۔ بہت سے غیر انسانی رسوم و رواج اور طور طریقے ایسے بھی رائج ہیں مذہب میں جن کی کوئی گنجائش ہی نہیں۔ بلکہ بعض تو صریح گناہ ہیں۔ لیکن جب بھی کوئی ان میں تبدیلی لے کر آئے گا، وہ معتوب ٹھہرے گا۔ اس پر پتھر بھی برسائے جائیں گے اور صلیب پر بھی چڑھایا جائے گا۔‘‘
’’میں آپ کی فصیح و بلیغ گفتگو سے متاثر ہو چکا ہوں مادام! آج ابا زمینوں پر ہیں۔ کل بات کریں گے۔‘‘ اسے تو ابھی تک منال کا دکھ نہیں بھولا تھا۔ پھر در نایاب کو اس ظلم کی بھینٹ کیوں چڑھنے دیتا۔ بس ابا کے سامنے کھڑا ہونے کی ہمت نہیں تھی۔ وگرنہ ان رسموں کے وہ بھی دل سے خلاف تھا اور آج فاطمہ کی باتوں نے اسے اکسا دیا تھا وہ حق کے لیے اٹھے۔
فاطمہ بے پناہ خوش ہوئی۔ اسے اب شدت سے کل کا انتظار تھا۔
٭٭٭
اگلے روز احمد کمال زمینوں سے آ کر کھانا کھانے کے بعد اپنی اسٹڈی میں چلے گئے۔ فاطمہ ان کے فارغ ہونے کا انتظار ہی کر رہی تھی۔ وہ اٹھنے ہی والی تھی۔ جب سامنے سے زریاب چلا آیا۔
’’فاطمہ! یہ تمہاری شاپنگ ہے۔ دیکھ لو۔‘‘ اس نے دو، تین شاپنگ بیگز اس کی سمت بڑھائے۔ جنہیں فاطمہ نے لے کر سائیڈ پہ رکھ دیا۔ لاؤنج میں اب وہ اور مہک ہی تھیں۔ مہک اٹھنے کے لیے پر تولنے لگی۔ وہ خود ہی بیگز کھولنے لگا۔
’’یہ دیکھو! یہ سیٹ تو میں نے خاص تمہارے لیے خریدا تھا۔ ’’جیولری باکس کھول کر وہ اس کے بالکل برابر میں آ بیٹھا۔
فاطمہ نے اک سرسری سی نگاہ ڈالی۔
سفید یاقوت اور زمرد سے مزین وہ بہت خوب صورت نیکلس تھا۔ زریاب نے ایک جھمکا نکال کر اس کے کان میں لٹکا دیا۔
’’واؤ بیوٹی فل، تم جس چیز کو زیب تن کر لو وہ خوب صورت ہو جاتی ہے۔‘‘ وہ کچھ زیادہ ہی شوخ ہو رہا تھا۔
مہک چپکے سے اٹھ کر چلی گئی اور اس کے جانے کے بعد باقی کے شاپنگ بیگز بند ہی پڑے رہے۔
’’کاش مہک! تم میری بہن نہ ہوتیں تو میں خود تمہیں زریاب کی دولہن بناتی۔‘‘ وہ دل گرفتی سے سوچنے لگی۔ اس نئے رشتے کو نبھانے کے لیے ابھی کچھ وقت درکار تھا اور شاید یہی مجبوری زریاب کی بھی تھی۔
وہ دونوں ہی جدا جدا منزلوں کے راہی تھے۔ مگر رہ گزر شاید ایک ہی تھی سو وہ چل رہے تھے۔
’’چائے پیو گی؟‘‘ در نایاب کی آواز سے اس کے خیالوں کا تسلسل ٹوٹا۔ وہ ٹرے تھامے اس کے قریب کھڑی تھی۔ فاطمہ نے اٹھتے ہوئے دو کپ اٹھا لیے۔
’’ابا جان کے پاس بہت ضروری کام سے جا رہی ہو۔ دعا کیجئے گا، میرا کام ہو جائے۔‘‘
’’لالہ اب اتنے بھی کٹر نہیں ہیں اور تم سے تو بہت محبت کرتے ہیں۔ جس طرح تم نے ان کا مان رکھتے ہوئے زریاب سے نکاح کیا ہے، وہ بہت خوش ہیں تم سے۔ اُمید ہے کہ تمہارا کام ہو جائے گا۔‘‘ دعا کرنے کے بجائے وہ اپنے خیالات کا اظہار کرنے بیٹھ گئی تو فاطمہ نے مصنوعی خفگی سے اسے گھورا۔
’’آپ بس دعا کریں۔‘‘ وہ اپنی بات پر مصر تھی۔ در نایاب نے اثبات میں سر ہلا دیا اور جب وہ چائے لے کر اسٹڈی میں پہنچی تو وہ کرسی پہ بے ہوش پڑے تھے۔ ان کا دایاں بازو نیچے جھول رہا تھا اور گردن لڑھک کر ایک جانب کو ڈھلک چکی تھی۔
انہیں اس حالت میں دیکھ کر فاطمہ کی چیخ نکل گئی۔
اگلے ہی پل ملازموں سمیت تمام افراد خانہ اسٹڈی میں جمع ہو چکے تھے۔
’’شایان! ان کو اسپتال کے کر جاؤ۔‘‘ شایان کو دیکھ کر وہ چلائی۔ زریاب آگے بڑھ کر ان کی نبض ٹٹول رہا تھا۔
’’شایان! انہیں لاؤنج میں لے چلو۔‘‘ وہ مایوسی سے کہتا ان کے بازو اور سر سیدھا کر رہا تھا۔
سب کی آنکھوں میں بے تحاشا آنسو امڈ آئے۔ فاطمہ کا دل چیخ چیخ کے رو رہا تھا۔ وہ ہنوز بے یقینی کے عالم میں کھڑی تھی۔ در نایاب ساکت تھی اور مہک کو تو لگ رہا تھا، جیسے کسی نے بھری دنیا میں تنہا کر دیا ہو۔ مرجان بیگم کی حالت الگ خراب تھی۔ شام کے قریب انہیں سپرد خاک کر دیا گیا۔
زندگی رفتہ رفتہ معمول پر آنے لگی۔ دستار شایان کے سر پر سج چکی تھی اور زندگی میں بہت کچھ تبدیل ہو چکا تھا۔ وہ اسے در نایاب کی شادی پر رضا مند کر چکی تھی۔
٭٭٭
’’فاطمہ! شام کا وقت تھا دونوں واک پر نکلی ہوئی تھیں۔ جب در نایاب نے کسی بات کی غرض سی اسے پکارا تو وہ پلٹ کر سوالیہ نظروں سے اسے دیکھنے لگی۔
’’تمہیں اس شام لالہ سے کیا کہنا تھا؟‘‘ وہ کتنے دنوں سے یہ سوال پوچھنا چاہ رہی تھی۔ آج موقع مل گیا۔
’’آپ کی شادی کی بات کرنا تھی۔‘‘ وہ صاف گوئی سے بولی۔ پارک سامنے ہی تھا۔ فاطمہ اسے باتوں میں لگا کر منزل کے قریب لے آئی تھی۔
’’شادی۔‘‘ وہ استہزائیہ ہنسی۔
’’تم نے لاحاصل کوشش کی؟ اب تو بہت دیر ہو چکی ہے۔‘‘
’’کیوں؟ اپنی محبت پر اعتبار نہیں ہے۔‘‘
’’اعتبار کی بات نہیں ہے فاطمہ! مگر اب جانے وہ کہاں ہو گا۔ شاید اس کا اپنا ایک گھر ہو …‘‘
’’بیوی ہو اور بچے بھی ہوں اور وہ اپنی دنیا میں مگن ہو۔ جانے اسے کبھی میری یاد بھی آئی ہو گی یا نہیں۔‘‘ اس کی بات اچک کر وہ بولے جا رہا تھا۔
فاطمہ ہنستے ہوئے ایک طرف چلی گئی در نایاب کو لگ رہا تھا، جیسے وہ کوئی خواب دیکھ رہی ہے۔ خوش رنگ تتلی کے پروں جیسا خواب، چھونے سے ابھی رنگ بکھر جائیں گے۔
’’چھو کر دیکھ لو۔ یہ میں ہوں۔ کوئی خواب نہیں۔‘‘ اس نے دھیرے سے در نایاب کا ہاتھ تھاما۔
’’جہاں زیب۔‘‘ اس کے لب بے آواز ہلے اور آنکھوں سے ساون برسنے لگا۔ اس نے تو کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ وہ اس زندگی میں دوبارہ کبھی اسے دیکھ بھی سکتی ہے۔
٭٭٭
اگلے ہی ہفتے وہ پھر سے اپنی مما کے ساتھ سوالی بن کر آیا تھا اور اب حویلی میں کسی کو بھی اس رشتے پر اعتراض نہیں تھا۔ در نایاب بہت خوش تھی اور اب اس کا سر کھا رہی تھی۔
’’تمہیں کیسے پتا چلا کہ میں اور جہاں زیب ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں اور تمہیں وہ کہاں ملا؟ یہ سب یوں اچانک؟‘‘ متجسس بھی تھی۔
’’بھول گئیں آپ، جہاں زیب نے آپ سے کہا تھا کہ اگر کاتب تقدیر نے تمہیں میرے نصیب میں لکھا ہے تو دنیا کی کوئی طاقت اس فیصلے کی راہ میں حائل نہیں ہو سکتی۔ مگر ملن کا بھی تو ایک وقت مقرر تھا اور جہاں زیب بھائی آپ کو وقت سے پہلے مانگنے آئے تھے۔ اسی لیے خالی ہاتھ لوٹنا پڑا۔‘‘ وہ ہنوز غیر سنجیدہ تھی۔
’’بتاؤ نا! وہ کہاں ملے اور یہ سب کیسے ہوا؟‘‘ وہ اپنے سوال پر مصر تھی۔
’’بھئی! وہ تو آپ کے بڑے پکے عاشق نکلے۔ بس! اپنی یادوں کے ساتھ جی رہے تھے، جو آپ انہیں سونپ کر آئی تھیں۔‘‘ اس نے پھر گول مول سا جواب دیا تھا اور در نایاب اس بار ضبط نہیں کر پائی۔ کشن اٹھا کر اس کی جانب اچھالا تو وہ بمشکل اپنی مسکراہٹ دباتے ہوئے بولی۔
’’جناب! وہ اسی یونیورسٹی میں لیکچرار ہیں۔ ہم تو یونیورسٹی اسٹوڈنٹس ریکارڈ سے ان کا کوئی اتا پتا معلوم کرنے گئے تھے۔ مگر آپ کی قسمت یہ ہمیں خود مل گئے۔ ہمارا ارادہ تو حجلۂ عروسی میں آپ کو ان کا دیدار کروانے کا تھا۔ مگر مہک نے کہا اتنا ہی سرپرائز ٹھیک ہے۔ ورنہ پھوپھو کہیں مارے خوشی کے دنیا سے ہی نہ کوچ کر جائیں۔‘‘ حفظ ماتقدم کے طور پر اس نے دوسرا کشن اور تکیہ پہلے ہی اپنی تحویل میں لے لیا تھا۔
خاندان بھر کی مخالفت کے پیش نظر در نایاب کو سادگی سے ہی رخصت کیا گیا تھا۔ مگر شایان کے خدشے درست نکلے۔ تایا جلیل شاہ اگلے ہی روز آ کر کافی برہمی کا اظہار کرتے ہوئے منگنی کا سامان لوٹا گئے تھے۔
’’میری بیٹی کا اب جانے کیا ہو گا۔‘‘ مرجان بیگم کو دن رات ایک ہی فکر کھائے جا رہی تھی۔
’’اماں بی! آپ فکر کیوں کرتی ہیں۔ اللہ نے ہماری مہک کے لیے بھی کچھ اچھا ہی سوچا ہو گا۔‘‘ شایان انہیں تسلیاں دیتا اور فاطمہ خود سے نظریں چرانے لگتی۔ زریاب شاہ سے بات کرنے کا ارادہ تو وہ پہلے ہی کر چکی تھی۔
٭٭٭