مہک کمرے میں آ کر دیر تک روتی رہی۔ اس کا دل عورت کی مظلومیت پر کڑھ رہا تھا۔
آج اسے منال یاد آ رہی تھی۔ اس کی گول مٹول سنہری کانچ سی آنکھوں والی بہن۔
وہ اس سے چھ سال بڑی تھی۔ در نایاب سے اس کی گہری دوستی تھی۔ دونوں ہر وقت اودھم مچائے رکھتیں۔ ان کے نقرئی قہقہے سارا دن حویلی میں گونجا کرتے تھے۔
وہ سیدھے بالوں کی مانگ نکال کر لمبی سی چٹیابنایا کرتی تھی۔ اسے فراک اور پاجامے پہننے کا بڑا شوق تھا۔ کانوں میں جھمکے، کلائیوں میں چوڑیاں پہنے وہ ہر وقت نک سک سے تیار تتلی کی مانند اڑتی پھرتی تھی۔ لائبریری میں رکھی بھاری بھر کم کتابیں اس نے بچپن ہی میں چاٹ لی تھیں۔ اسے اسکالر بننے کا بہت شوق تھا۔ اماں بی کی عینک لگا کر وہ بچوں کو قطار میں بٹھا کر کہانیاں سنایا کرتی۔
کبھی گڑیاں کی شادی کرتی تو کبھی درختوں پر جھولا ڈالتی اور کبھی انجو کے ساتھ کچن کا حشر بگاڑ رہی ہوتی۔ مہک زریاب اور شایان کو کرکٹ کھیلنا، سائیکل چلانا اور ہتھیلیوں کے بل پر جمپ لگانا اس نے سیکھایا تھا۔ وہ گھر بھر کی لاڈلی تھی۔ بچوں سے لے کر بڑوں تک کے لبوں پر ہر وقت اس کے نام کی پکار ہوا کرتی تھی۔
اور جس روز وہ حویلی سے دولہن بن کر گئی، اس دن حویلی میں شادیانوں کی بجائے ماتم ہوا تھا۔
نہر والی زمین پر تنازعے کے دوران مجتبیٰ کمال سے مخالف قبیلے کے سردار حشمت علی کے بیٹے کا قتل ہو گیا تھا۔ انہوں نے خون بہا میں لڑکی مانگی تھی اور جرگے کے فیصلے کے مطابق منال کو ونی کر دیا گیا تھا۔
لیکن ان کا انتقام ابھی پورا نہیں ہوا تھا۔
ڈیڑھ سال بعد انہوں نے مجتبیٰ کمال اور ان کی بیگم نیرہ کو جو اپنی جیپ میں شہر سے واپس آ رہے تھے، راستے میں روک کر گولیوں کا نشانہ بنایا۔ بروقت طبی امداد ملنے کے باوجود بھی دونوں جانبر نہ ہو سکے تھے۔ زریاب ان دنوں ہاسٹل میں تھا۔
احمد کمال نے جرگے میں منال کو واپس مانگنے کے سوا کوئی ڈیمانڈ نہیں کی تھی۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ وراثت میں ان کے بچوں کو دشمنیاں ملیں۔
یوں منال واپس تو آ گئی تھی۔ لیکن اس کی حالت دیکھ کر کوئی فرد بھی اپنی سسکیاں نہیں روک پایا تھا۔ کمزوری، نقاہت اور ٹی بی کا مرض۔ بہت علاج کروایا۔ لیکن کامیابی نہ ہو سکی۔ اس کی جواں مرگ نے ہر کسی کو سوگوار کر دیا تھا۔ تب شایان نے اس سے کہا تھا۔
’’مجھے نفرت ہے اس سسٹم سے جس نے میری بہن کو نگل لیا۔‘‘ اور اسے جانے کیوں یقین ہوا چلا تھا کہ وہ آئے گا تو ابا کو منالے گا۔ وہ ان روایات کو، اس سسٹم کو بدل دے گا۔
٭٭٭
’’کیتھرین پلیز یار! اسے سمجھاؤ الٹی سیدھی کتابوں اور ویب سائیٹ سے ریسرچ کے بعد اس نے میرا جینا محال کر رکھا ہے۔ ایسا کرو۔ ویسا نہ کرو۔ یہ کھاؤ۔ وہ نہ کھاؤ۔ جانے کیا الم غلم اٹھا کر لے آتا ہےا اور پھر زبردستی مجھے کھلا کر ہی دم لیتا ہے۔ اب میں نہیں جانے والی واک پر۔ باہر اتنی ٹھنڈ ہے اور مجھے نیند آ رہی ہے۔‘‘ اپنی اور مانیک کی تکرار سے تنگ آ کر اس نے کیتھرین کو اندر گھسیٹا تو اسے لب کھولتے دیکھ کر ہی مانیک نے ٹوک دیا۔
’’تم نہیں جانتیں کیتھی! اس کے لیے واک کتنی ضروری ہے۔‘‘ وہ بات کیتھرین سے کر رہا تھا لیکن دیکھ بیلا کو رہا تھا۔ تب ہی اس کے چہرے کی بدلتی رنگت دیکھ کر ٹھٹکا۔
’’بیلا! تم ٹھیک ہو۔‘‘ وہ لپک کر اس کے قریب آیا۔
’’مانیک! گاڑی نکالو۔ اسے اسپتال لے جانا ہو گا۔‘‘
کیتھرین نے سہارا دے کر اسے اٹھانے کی کوشش کی۔ مانیک تب تک گاڑی نکال چکا تھا۔
اگلے پندرہ منٹ بعد وہ دونوں لیبر روم کے باہر بے چینی سے ٹہل رہے تھے۔
دو گھنٹے بعد ڈاکٹر نے خوشخبری سنائی۔
’’مبارک ہو مانیک! بیٹا ہوا ہے۔‘‘
’’یس۔‘‘ وہ خوشی سے اچھل پڑا۔
اگلے آدھ گھنٹے میں اسے پرائیویٹ روم میں شفٹ کر دیا گیا۔ وہ تینوں اس ننھے سے وجود کے اوپر جھکے ہوئے تھے، جو اپنی بڑی بڑی آنکھیں کھولے انہیں دیکھ رہا تھا۔ کیتھرین نے اس کے گال کو نرمی سے چھوا۔
’’کتنا کیوٹ ہے۔ اب تو میں تمہارے اپارٹمنٹ سے جانے والی نہیں۔ بس ہر وقت اس ننھے سے کھلونے کے ساتھ کھیلوں گی اور تم دیکھ لینا! یہ تمہیں ممی کہنے سے قبل مجھے آنی کہے گا۔‘‘ کیتھرین کو اس پہ بہت پیار آ رہا تھا۔
’’جی نہیں ! پہلے یہ مجھے ڈیڈ کہے گا۔‘‘ مانیک نے اس کا منا سا ہاتھ پکڑ کر ہلایا۔
بیلا ان دونوں کی نوک جھونک پر مسکراتے ہوئے اس روئی کے گڈے کو ہی دیکھے جا رہی تھی۔ جب اچانک اسے کسی غیر معمولی پن کا احساس ہوا۔
’’مانیک! اس نے آنکھیں بند کر لی ہیں۔‘‘ وہ بچے کو زور زور سے ہلانے لگی۔ کیتھرین نے اس کے ہاتھ پکڑ لیے۔
’’ارے ! سورہا ہے۔‘‘
’’نہیں …‘‘ کسی انہونی کے احساس نے اس کی پلکوں کو نم کر دیا تھا ’’مانیک! ڈاکٹرکو بلاؤ۔‘‘ وہ روتے ہوئے بولی۔
مانیک جا کر ڈاکٹر کو لے آیا تھا اور ڈاکٹر نے آ کر اس کے بدترین خدشے کی تصدیق کر دی تھی۔
’’سوری! ہی از نومور۔‘‘ اس کا چہرہ سفید چادر سے ڈھانپ دیا گیا۔
’’یہ کیسے ہو سکتا ہے۔‘‘ وہ شدید صدماتی کیفیت کے زیر اثر بچے کو زور زور سے ہلانے لگی۔ مانیک نے آگے بڑھ کر روکنے کی کوشش کی تو وہ اس کے بازوؤں میں مچل اٹھی۔
’’تم سب جھوٹ بولتے ہو۔ اس نے ابھی تو پلکیں اٹھا کر مجھے دیکھا تھا۔ اس کی آنکھوں کا رنگ ہیزل گرین تھا۔ وہ ہمیں دیکھ کر مسکرایا بھی تھا۔ اس نے ہاتھ اٹھا کر میرے بازو کو چھوا تھا۔ وہ کیسے مر سکتا ہے۔ وہ زندہ ہے۔‘‘ وہ زور زور سے چلا رہی تھی۔
’’ڈاکٹر نے اسے سکون آور انجکشن دیا تھا۔ ایک ہفتہ مسکن دواؤں کے زیر اثر رکھنے کے بعد اسے ڈسچارج کر دیا گیا۔
اس بات کو دو ماہ کا عرصہ گزر چکا تھا۔ مگر وہ ابھی تک سنبھل نہیں پائی تھی۔ سٹف بھالو، مکی ماؤس، باربی ڈولز اور دیواروں پہ لگے پوسٹرز، ریک میں رکھے کھلونے ہر چیز اس نے تہس نہس کر دی تھی۔ مانیک کے ساتھ بھی آج کل اس کا رویہ بہت خراب ہو چکا تھا۔ اس کا دل چاہتا تھا، وہ یہاں سے کہیں دور چلی جائے۔ ہر چیز میں اس کی دلچسپی صفر ہو چکی تھی۔ بس روز پارک میں بیٹھ کر بچوں کو دیکھتے ہوئے کئی کئی گھنٹے گزار دیتی۔
اس وقت بھی اس کی نظریں دو ماہ کے بچے پر جمی ہوئی تھی۔ وہ پرام میں لیٹا ہوا تھا۔ اس نے دونوں ہاتھ منہ میں ڈال رکھے تھے اور اپنی نیلی آنکھوں سے اوپر اڑتی چڑیا کو دیکھ کر خوش ہو رہا تھا۔
’’بیلا۔‘‘ آہٹ پر اس نے مڑ کر دیکھا۔ شایان تھا۔
’’کیسی ہو؟‘‘ وہ اس روز کے بعد آج نظر آیا تھا۔
’’اچھی ہوں۔‘‘ وہ پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ بولی۔ جبکہ شایان اس کے عقب میں نظریں دوڑا رہا تھا۔
’’بے بی کو ساتھ نہیں لائیں ؟‘‘ اس نے اشتیاق سے پوچھا تو بیلا کی آنکھوں میں جمی برف پگھلنے لگی۔
ٹپ … ٹپ … ٹپ۔
’’بیلا کیا ہوا؟ سب ٹھیک تو ہے نا؟‘‘ اس کے آنسوؤں سے پریشان ہو گیا تھا۔
’’مائی بے بی از نو مور۔‘‘ وہ بمشکل آنسوؤں کے درمیان بولی۔ شایان کے دل پر جیسے گھونسا سا پڑا۔ وہ لب بھینچے کچھ دیر خاموش بیٹھا رہا۔ پھر ہمت کر کے بولا۔
’’بہت دکھ ہوا بیلا! میرے چند لفظ تمہارے غم کا مداوا نہیں کر سکتے … مگر پلیز! اس طرح اپنی حالت خراب مت کرو۔ اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہوتے۔ جو ہوا، اس پر صبر کر لو اور زندگی کی سمت واپس لوٹ آؤ۔ مجھے ہنستی ہوئی بیلا اچھی لگتی ہے۔‘‘ شایان نے اس کے شانوں کے گرد بازوو پھیلا کر اس کا سر اپنے سینے سے لگا لیا۔
وہ کچھ دیر رونے کے بعد اب نارمل ہو چکی تھی۔ اس کا سر ابھی تک شایان کے سینے پر رکھا ہوا تھا۔ وہ اس کے بازوؤں کے حصار میں تھی۔ لیکن اس حصار میں اتنا تقدس اور احترام تھا۔ جیسے کوئی بہت ہی معتبر رشتہ گلے مل رہا ہو۔
’’آج مجھے کافی نہیں پلاؤ گی؟‘‘ اس نے ماحول کی سوگواری کو کچھ کم کرنے کے لیے اس سے پوچھا تو وہ اسے گھورتے ہوئے بولی۔
’’تم اس روز کی طرح بھاگو گے تو نہیں ؟‘‘ جواب میں اس نے سر تسلیم خم کر دیا۔
دونوں ساتھ چلتے ہوئے اپارٹمنٹ تک چلے آئے۔ بیلا اسے لاؤنج میں بٹھا کر خود کافی بنانے چلی گئی اور جب واپس آئی تو وہ اس کی مما اور ڈیڈ کی تصویر کے سامنے کھڑا تھا۔
’’بیلا یہ تصویر؟‘‘ اس کا انداز سرسری ضرور تھا۔ مگر لہجے میں عجیب سی کھوج تھی۔
’’مائی مام اینڈ ڈیڈ۔‘‘ وہ کہہ کر کشن درست کرنے لگی۔ شایان اس کے سامنے آن بیٹھا۔
’’جانتی ہو، میں کون ہوں ؟ اس کے انداز میں دبا دبا سا جوش تھا۔
’’میں شایان احمد کمال شاہ ہوں۔‘‘
’’تو … ؟‘‘ اس نے استفہامیہ نظروں سے اسے دیکھا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ اسے اپنا لمبا چوڑا نام کیوں بتا رہا ہے اور اتنا خوش کیوں ہو رہا ہے۔
’’احمق لڑکی! ہی از مائی فادر۔‘‘ اس نے تصویر کی سمت اشارہ کیا اور بیلا کے تاثرات ناقابل بیان حد تک سپاٹ ہو گئے تھے۔ یہ لڑکا اس کا بھائی تھا۔ وہ عجیب سی اس لڑکے کا اپنے بھائی ہونے پر نہیں ہوئی تھی۔ بلکہ اس بات پر ہوئی تھی کہ اس کا بھائی عمر میں اس سے بڑا تھا۔
تو کیا اس کے ڈیڈ پہلے سے میرڈ تھے اور ستر فیصد ایشین مردوں کی طرح انہوں نے ممی کو جسٹ اپنے کسی مفاد کی خاطر سیڑھی بنایا تھا اور ایک وہ عورت تھی، جو عمر بھر ایک دھوکے باز اور بے وفا شخص کی خاطر خود کو روگ لگائے بیٹھی رہی۔
’’تمہیں خوشی نہیں ہوئی؟‘‘ وہ مایوس ہوا۔
’’نائس ٹومیٹ یو۔‘‘ وہ طنزیہ لہجے میں کہتی اٹھ کر بالکونی میں چلی آئی۔
باہر کا موسم بھی اس کے تاثرات کی مانند تھا۔ سرد اور سپاٹ۔ ابھی چند روز قبل وہ سوچ رہی تھی کہ کاش! ایک بار وہ شخص اسے مل جائے۔ ایک بار وہ اسے دیکھ سکے۔ چھوسکے۔ محسوس کر سکے اور اب جب ملنے کا یقین ہوچلا تھا تو دل چاہتا تھا کہ وہ ان سے کبھی نہ ملے۔
’’بیلا۔‘‘ وہ اٹھ کر اس کے پیچھے ہی چلا آیا تھا۔
’’ہم پاکستان جا رہے ہیں۔‘‘ وہ اسے دیکھ کر بولی اور پھر خود بھی حیران رہ گئی۔ یہ فیصلہ کس کا تھا۔ حالانکہ وہ ہرگز ایسا نہیں چاہ رہی تھی۔ پھر کیوں اس نے ایسا کہا تھا۔ اسے لگ رہا تھا، جیسے اسے وہاں سے کچھ اور بھی ملنے والا تھا۔ کچھ ایسا جس کی تلاش میں وہ کب سے بھٹک رہی تھی۔
٭٭٭
مانیک کو منانا تھوڑا مشکل تھا۔ لیکن اس کی خوشی کی خاطر وہ مان گیا۔ ویسے بھی وہ چاہ رہا تھا کہ بیلا کچھ دنوں کے لیے یہاں سے دور چلی جائے۔ شاید آب و ہوا کی تبدیلی اس کے مزاج پر اچھے اثرات مرتب کر دے۔
لیکن اس سب کے باوجود وہ اندر سے بہت اداس تھا اور اس کے اندر کے وہم اور خدشات ایک بار پھر امڈ کر سامنے آن کھڑے ہوئے تھے۔ وہی خوف پھر دل کو جھنجھوڑ رہا تھا کہ جیسے وہ ہمیشہ کے لیے دور جا رہی ہو۔ لیکن وہ یہ سب اسے بتا کر پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اسی لیے ہلکی پھلکی باتوں کے دوران اس کی پیکنگ کروا رہا تھا۔
’’بیلا! تم خوش ہو؟‘‘
’’خوش تو ہوں گی ہی۔ میری دیرینہ خواہش جو پوری ہو رہی ہے۔‘‘ وہ کپڑے تہہ کرتے ہوئے ہلکا سا مسکرائی۔ اپنے اندر کی بدلتی کیفیات کا اس نے مانیک سے ذکر نہیں کیا تھا۔ ویسے بھی اس خوشی کے معاملے میں ابھی تک وہ خود بھی بے یقین تھی۔
’’بیلا کیا تم کبھی کسی کے کہنے پر مجھے چھوڑ سکتی ہو؟‘‘ وہ ٹھوڑی پر ہاتھ جما کر بولا۔
’’کیا ہے مانیک! اب تنگ تو نہ کرو۔‘‘ وہ جھنجھلا گئی۔
’’بتاؤنا! میری تسلی کے لیے۔‘‘
’’نہیں ! میں کبھی بھی، کسی کے بھی کہنے پر تمہیں نہیں چھوڑ سکتی۔‘‘ وہ ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے دانت پیس کر بولی۔ وہ اس کے انداز پر ہنس پڑا۔
تب ہی شایان چلا آیا تھا۔
’’ہو گئی تیاری۔‘‘
’’سب کچھ تو پیک کر لیا ہے پھر بھی لگتا ہے، کچھ مسنگ ہے۔‘‘ وہ سر پہ ہاتھ رکھے سوچ رہی تھی۔ تب ہی اس کے تصور میں وہ سیاہ جلد والی کتاب چلی آئی۔ جسے شادی کے بعد وہ مکمل طور پر فراموش کر چکی تھی۔ اس کے ڈیڈ کی ایک ہی تو نشانی تھی اس کے پاس۔ پھر ابھی اس میں سے بہت کچھ جاننا باقی تھا۔ ترجمہ کیے ہوئے چند ورق بھی اس نے نہیں پڑھے تھے۔ مانیک جب سے زندگی میں آیا تھا اس نے مانیک سے محبت کے سوا اور کوئی کام نہ کیا تھا۔ اس کے اندر امڈتے سوال جیسے اپنی موت آپ مر گئے تھے۔ تحقیق کا عمل رک گیا تھا۔ اس کی بے چین روح مانیک کی سنگت میں سرشار ہو چکی تھی۔ مگر اب یوں لگتا تھا جیسے پورے مدارک اچکر کاٹ کر وہ پھر سے مرکز پر لوٹ آئی ہے۔
کتاب اسے بک شلیف میں ملی گئی۔
’’بیلا! تم واپس آؤ گی نا؟‘‘ ایئر پورٹ پر مانیک نے اداسی سے پوچھا۔
’’ہاں ! بس ایک ہفتے کی بات ہے۔ ٹیکسٹ فرائیڈے ہم ساتھ ہوں گے۔ میرے لیے بہت سارے فرنچ فرائز بنا کر رکھنا۔‘‘ وہ کہہ کر ڈیپارچر لاؤنج کی سمت بڑھ گئی۔
مانیک اس کے جہاز کے پرواز کرنے تک ادھر ہی کھڑا رہا۔
٭٭٭