کچھ سال پہلے ایک ریسٹورنٹ میں جانے کا اتفاق ہوا۔ مینو میں شہد، مٹھائیاں، شیرا جیسے سیکشن تھے۔ میں نے پوچھا کہ کیا یہاں پر مکمل کھانا نہیں ملتا؟ مالک نے کہا کہ یہ دنیا میں اپنی طرز کا واحد ریسٹورنٹ ہے۔ یہاں صرف میٹھی چیزیں ہوتی ہیں۔ آپ دنیا کے بتیس ممالک سے لائی گئی میٹھی چیزیں کھا سکتے ہیں۔ اس نے بتایا کہ وہ ایک بائیولوجسٹ ہے جس کی مہارت ذائقے میں ہے۔ اس نے کہا کہ زبان پانچ طرح کے ذائقے چکھ سکتی ہے۔ میٹھا، نمکین، کڑوا، کھٹا اور اومامی۔ اور اس کی تحقیق نے بتایا کہ میٹھا ذائقہ دماغ میں ڈوپامین کثرت سے پیدا کرتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان مٹھاس کو باقی چاروں ذائقوں سے ترجیح دیتے ہیں۔ منطق یہ بتاتی ہے کہ کھانے میں فی کیلوری سب سے زیادہ لطف اٹھانے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ صرف میٹھی چیزیں کھائی جائیں اور اس وجہ سے اس کے ذہن میں یہ ریسٹورنٹ کھولنے کا خیال آیا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ بزنس کیسا جا رہا ہے۔ اس نے کہا کہ بہت ہی برا۔ لیکن کم از کم اس سے بہتر ہے جس نے اگلی مارکیٹ میں کھٹی چیزوں کا ریسٹورنٹ کھولا ہے۔
نہیں، نہیں، ایسا اصل میں نہیں ہوا لیکن یہ کہانی ایک استعارہ ہے۔ اخلاقی فلسفے اور نفسیات کی بہت سی کتابیں اسی ریسٹورنٹ کی طرح ہیں۔ اخلاقیات بہت پیچیدہ اور زرخیز مضمون ہے۔ بہت سی جہتیں ہیں اور ان کے آپس میں اندرونی تضادات ہیں۔ چند پلورلسٹ ایسے ہیں جو کسی کلچر میں اور الگ کلچرز میں اس کے تنوع کی وضاحت کرتے ہیں لیکن عام طور پر لکھنے والے اس کو صرف ایک اصول کی بنیاد پر دیکھتے ہیں۔ فلاح کو زیادہ سے زیادہ کرنا (لوگوں کی مدد کی جائے اور تکلیف نہ پہنچائی جائے) یا کبھی موضوع انصاف، حقوق، آزادی ہوتے ہیں۔ لیکن اخلاقیات پیچہدہ اور وسیع ہیں۔
اس کا یہ مطلب نہیں فلاح، انصاف، حقوق اہم نہیں یا پھر یہ کہ اس میں سب چلتا ہے یا یہ کہ ہر قسم کی اخلاقیات برابر ہیں۔ اس میں برتر یا کمتر نہیں ہو سکتا۔ لیکن تمام اخلاقیات کو کسی ایک اصول کے گراونڈ پر لانے کی کوشش کرنے کا مطلب ایسا معاشرہ بنا سکتا ہے جو زیادہ تر لوگوں کے لئے غیرتسلی بخش ہو اور غیرانسانی ہو کیونکہ یہ کئی دوسرے اخلاقی اصول نظرانداز کر جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تمام انسانوں کے پاس ذائقے کے پانچ ریسپٹر تو ایک ہی ہیں لیکن ہم سب کے لئے کھانوں میں ذوق جدا ہیں۔ اس سب کو بیان کرنے کے لئے ہم ارتقائی وضاحت سے شروع کر سکتے ہیں۔ میٹھے پھلوں اور چربی والے جانوروں کے بطورِ خوراک مفید ہونے سے۔ لیکن ہمیں ہر کلچر کی تاریخ کا جائزہ بھی لینا پڑے گا۔ ہمیں ہر فرد کے بچپن کی عادات کو بھی دیکھنا پڑے گا۔ یہ معلوم کر لینے سے کہ ہر ایک کے پاس مٹھاس کے لئے ریسپٹر ہے، یہ بالکل بھی معلوم نہیں کیا جا سکتا کہ کسے لسی پسند ہے اور کس کو کوکا کولا۔ یا پھر ایسا کیوں ہے کہ کوئی بھی آملیٹ پر چینی ڈال کر کیوں نہیں کھاتا۔ ذائقے کے ریسپٹر یونیورسل ہیں لیکن اس سے ایک شخص کی خورد و نوش میں ترجیحات تک آنے کے لئے بہت سا اضافی کام درکار ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اخلاقی ججمنٹ کے لئے بھی ایسا ہی ہے۔ لوگ اخلاقی ایشوز پر اتنے منقسم کیوں ہیں؟ اس کو سمجھنے کے لئے مشترک ارتقائی وراثت سے شروع کیا جا سکتا ہے لیکن ہمیں ہر کلچر کی تاریخ کا جائزہ بھی لینا پڑے گا۔ اور پھر کسی فرد کے بچپن کی سوشلائزیشن کا بھی۔ صرف یہ جاننا کہ ہم سب یہ پرواہ کرتے ہیں کہ دوسروں کی مدد کی جائے اور تکلیف نہ دی جائے، اس بات کی کوئی وضاحت نہیں کر سکے گا کہ کوئی شخص شکار کرنے کو بیڈمنٹن کھیلے پر ترجیح کیوں دیتا ہے یا پھر شاذ ہی کوئی ایسا شخص ہے جو اپنا تمام وقت غریبوں کی خدمت میں گزار دیتا ہے۔ اخلاقیات کے ذائقوں کے یونیورسل ریسپٹر سے لے کر ایک شخص کے خاص اخلاقی ججمنٹ تک آنے کے لئے بہت سا اضافی کام درکار ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اخلاقیات بھی ایسے دسترخوان کی طرح ہے۔ یہ کلچرل تعمیر ہے۔ اس پر ماحول اور تاریخ کا اثر ہوتا ہے۔ لیکن یہ اتنی لچک دار نہیں کہ یہاں سب چلتا ہے۔ جس طرح کسی بھی علاقے کے پکوانوں میں درخت کی چھال نہیں ہوتی یا پھر ایسا نہیں کہ کڑوا ذائقہ تمام دسترخوان میں مرکزی حیثیت رکھتا ہو۔ ان میں تنوع تو ہے، لیکن ان سب کو بنیادی طور پر زبان کے پانچ ریسپٹر سے ہی لذت لینی ہے۔ اسی طرح ہمارے اخلاقی ذہن میں نیکی کے یونیورسل سوشل ریسپٹر ہیں۔ اخلاقی دسترخوان انہی کی بنیاد پر ہے۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...