میرا جی نے لکھا تھا کہ میں صرف دو زمانوں میں جیتا ہوں، ماضی اور حال یہ عجیب سی بات ہے، کیوں کہ اس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ میرا جی کو اس بات کی کچھ پروا نہ تھی کہ مستقبل ان کے ساتھ کیا سلوک کرے گا۔ لیکن ایسے لوگ تو وہ ہوتے ہیں جنھیں اپنے ’’ شاندار ماضی‘‘ کے بارے میں افسانے تراشنے اور اپنے حال کو روشن سے روشن تر بنانے کے لیے ہر جائز اور ناجائز کوشش میں اپنا وقت صرف کرنے کے سوا کوئی اور کام نہیں آتا۔ لیکن میرا جی کی زندگی تو ان دونوں باتوں کی نفی کرتی ہے۔ انھوں نے اپنے ماضی کو کسی رومانی رنگ میں پیش نہیں کیا (پدرم سلطان بود، یا پھر یہ کہ میں بچپن سے بہت ہی حساس اور درد مند دل لے کر پیدا ہوا تھا، یا پھر یہ کہ میں نے بہت ہی کم عمر میں شعر کہنا، اور تنقید اور افسانہ لکھنا شروع کر دیا تھا، یا میں نے بچپن ہی میں ہزاروں کتابیں پڑھ ڈالی تھیں، وغیرہ۔ ) وہ اگر ماضی میں زندہ تھے تو صرف اس معنی میں کہ ماضی کی کچھ یادیں (حقیقی، یا مفروضہ) ان کی تخلیقی زندگی کا بھی حصہ تھیں۔ انھوں نے روایتی معنی میں، یا کسی بھی معنی میں، اپنے حال کو، یا اپنا حال درست کرنے کی کوشش نہ کی۔ ایک آدھ بارکو چھوڑ کر انھوں نے روپیہ کمانے، دنیاوی کامیابی حاصل کرنے، مادی خوش حالی اور دنیاوی عزت داری حاصل کرنے کا خیال نہ کیا اور نہ ان معاملوں سے کبھی کوئی عملی سروکا رہی رکھا۔ ادیب کی حیثیت سے شہرت انھیں بہت نو عمری میں حاصل ہی ہو چکی تھی، لہٰذا یہاں بھی ان کی زندگی میں کوئی ایسا دباؤ، کوئی ایسی تمنا نہ تھی کہ وہ شہرت کے پیچھے پیچھے بھاگے پھریں۔ سچ پوچھیے تو شہرت خود ان کے پیچھے پیچھے بھاگی پھرتی تھی۔ لہٰذا اگر حال ان کی زندگی کا بہت بڑا سروکار تھا تو وہ یقیناً اس معنی میں تھا کہ وہ روزمرہ کی زندگی کو احساسات اور اور جذبات، اور درد مندی کی سطح پر جینے کی کوشش کرتے تھے۔ وہ بہت پڑھے لکھے آدمی تھے۔ انھوں نے کیٹس (John Keats) کا مشہور جملہ شاید پڑھا ہو جو اس نے اپنے بھائی کے نام ایک خط میں لکھا تھا:
Oh for a life of sensations rather than thoughts!
لیکن بہر حال، انھوں نے اپنی زندگی کا معلوم حصہ روز مرہ کے احساسات اور تجربات ہی سے معاملہ کرنے، انھیں سمجھنے اور اپنی شاعر ی کا حصہ بنانے، ان کی روشنی میں اپنے ذہن اور مطالعے کو فروغ دینے میں گذارا۔
میرا جی کی شاید ہی کوئی نظم ایسی ہو جس میں حقیقی زندگی کے تجربات کو مابعد الطبیعیات کا رنگ دینے کی کوشش کی گئی ہو۔ ’’جاتری‘‘، ’’سمندر کا بلاوا‘‘، ’’مجھے گھر یاد آتا ہے ‘‘، ’’محرومی‘‘ اور ’’یگانگت‘‘ وغیرہ میں بھی، جو بظاہر کچھ ’’فلسفیانہ‘‘ اور تفکراتی قسم کی نظمیں ہیں، تجربہ اور احساس کی جگہ مجرد فکر کی کارفرمائی نہیں دکھائی دیتی۔ یہ نظمیں بے انتہا شدید احساس اوردردسے مملو ہیں، لیکن ان میں تعقل کا حصہ (اگر وہ ہے بھی تو) بہت کم ہے۔ فلم ڈائرکٹر ایم۔ اے۔ لطیف، بی۔ اے۔ کے نام ایک خود نوشت نما نوٹ (مورخہ ۱۲ اکتوبر۱۹۴۶) میں میرا جی نے لکھا ہے :
سچ ہے، سماج کے فرائض، جس طرح دنیا انھیں سمجھتی ہے، میں نے جیسا میں انھیں سمجھتا ہوں، پورے نہیں کیے۔ لیکن میں نے اپنی جسمانی زندگی سے زیادہ جس قدر ذہنی زندگی بسر کی ہے، اس کا لحاظ کسے ہو گا؟
لہٰذا میرا جی کے لیے حال اور ماضی زیادہ معتبر تھے تو اس کا مطلب یہی تھا کہ وہ ’’ذ ہنی زندگی ‘‘ بسر کرتے تھے، یہ نہیں کہ ان کی توجہ کا دائرہ بہت کم تھا اور وہ صرف لمحۂ موجود کے لیے زندہ رہتے تھے۔ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ وہ اپنی داخلی واردات اور ظاہری واردات کو ہر طرح چھان بین کر دیکھتے اور اس میں شاعری کے امکانات تلاش کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ میرا جی (اور باتوں کے علاوہ) حواس خمسہ کا تجربہ اور اظہار کرنے میں ہمارے تمام شاعروں سے آگے ہیں۔ حواس خمسہ والی بات پر بحث میں آئندہ کے لیے اٹھا رکھتا ہوں۔ لیکن یہاں اتنا ضرور کہوں گا کہ کیٹس (Keats) اور مجاز کو ملا کر اثر صاحب مرحوم نے ایک جملہ کہا تھا۔ وہ جملہ مشہور تو ہوا لیکن مقبول نہ ہوا۔ وہ اپنی بات اگر میرا جی کے باب میں کہتے (کہ اردو ادب میں ایک کیٹس پیدا ہوا تھا) تو شاید اس پر زیادہ دھیان دیا جاتا، کیونکہ وہ بات ایک طرح سے سچ بھی ہوتی۔
میرا جی پر متفرق بہت کچھ لکھا گیا ہے، ایک دو کتابیں بھی ہیں، خاص کر رشید امجد کی کتاب ’’میرا جی، شخصیت اور فن‘‘ (لاہور ۱۹۹۶) اور شافع قدوائی کی مختصر اور سرسری کتاب ’’میرا جی‘‘ (ساہتیہ اکیڈمی، نئی دہلی، ۲۰۰۱)۔ پھر ’’شعر و حکمت‘‘ کے دور دوم کی پہلی کتاب جس میں میرا جی کے بارے میں، اور خود میرا جی کی بعض نادر تحریریں شامل ہیں، اور جمیل جالبی کی مرتبہ ضخیم و حجیم ’’میرا جی، ایک مطالعہ ‘‘ (کراچی ۱۹۸۹، اور دہلی، ۱۹۹۲) کا ذکر کیا جا سکتا ہے۔ گجراتی النسل اور امریکی نژاد گیتا پٹیل کی کتاب:
Lyrical Movements, Historical Hauntings: On Gender, Colonialism, and Desire in Miraji’s Urdu Poetry (Delhi, 2005)
بھی ذکر کے لائق ہے۔ لیکن ان تمام تحریروں میں خرابی یہ ہے کہ ان میں میرا جی کی زندگی، ان کی ’’شخصیت‘‘، اور شخصیت کے ’’نا پسندیدہ‘‘ پہلوؤں پر ان کی شاعری سے زیادہ توجہ دی گئی ہے۔ کسی کی ذات کے ’’ناپسندیدہ‘‘ پہلوؤں پر بات کرنے میں مزہ بھی زیادہ آتا ہے، اور ہم اپنی ذمہ داری سے بھی آزاد ہو جاتے ہیں، یہ کہہ کر کہ میراجی کی زندگی، شخصیت، اور شاعری کو الگ الگ کر کے نہیں دیکھا جا سکتا۔
ابھی حال میں مقتدرہ قومی زبان، اسلام آباد نے ’’میرا جی صدی:منتخب مضامین‘‘ (مرتبین:رشید امجد، عابد سیال) کے نام سے ایک مجموعہ شائع کیا ہے۔ اس کے دیباچے میں افتخار عارف نے درست لکھا ہے :
ہماری کم نصیبی کہ ہم نے میراجی پر اس طرح توجہ نہیں دی جس کا وہ بجا طور پر استحقاق رکھتے تھے۔ ان کی شخصیت اور ذاتی زندگی کے بارے میں جھوٹی سچی کہانیاں تو زیر بحث آتی رہیں مگر ان کے ادبی کام پر جم کر نہیں لکھا گیا۔
افتخار عارف کے افسوس کے باوجود اس کتاب کے مشمولات کم و بیش اسی طرح کے ہیں جس کا انھوں نے شکوہ کیا ہے۔ رشید امجد کا سوانحی مضمون (بلکہ ایک چھوٹی سی کتاب ہی سمجھیے ) اس مجموعے کی جان ہے، لیکن افسوس کہ اس کا بھی بڑا حصہ میراجی کی ’’شخصیت اور ذاتی زندگی کے بارے میں جھوٹی سچی‘‘کہانیوں اور تذکرے پر مبنی ہے۔ بعض جگہ اغلاط کتابت نے مطلب بھی مسخ کر دیا ہے۔ مثلاً (ص۷۷) :
ازل کے متلاشی اس مسافر کو، جو زندگی بھر قدیم ہندوستان کی روح کا پرستار رہا، بمبئی کے ذرائع ابلاغ میں صرف اس وجہ سے جگہ نہ ملی کہ وہ مسلمان اور ’’پاکستانی‘‘ہے۔ اختر الایمان نے قدروں کو نگاہوں سے اوجھل کر دیا تھا۔
مسلمان اور پاکستانی نہ کہہ کر ’’اردو کا ادیب‘‘ کہنا چاہیے تھا۔ میرا جی کے بارے میں کبھی یہ بحث تھی ہی نہیں کہ وہ ’’مسلمان‘‘ یا ’’پاکستانی‘‘ ہیں۔ اختر الایمان اور ان کی بیگم نے جس طرح میرا جی کی آخری سانسوں تک ان کا ساتھ دیا، اس کو دیکھتے ہوئے یہ جملہ کتابت کی غلطی ہی معلوم ہوتا ہے کہ’’ اختر الایمان نے قدروں کو نگاہوں سے اوجھل کر دیا تھا۔ ‘‘اور جہاں تک ذرائع ابلاغ کی مہربانیوں کا سوال ہے، تو میرا جی کے تقریباً پچاس سال بعد خود اختر الایمان کے انتقال پر ہندوستانی انگریزی اخباروں میں خبر چھپی کہ ’’ فلمی دنیا کے مصنف اختر الایمان نہیں رہے۔ ‘‘
میرا جی کو ’’بد نام‘‘ کرنے، نا پسندیدہ شخص کی حیثیت سے ان کا اسطور قائم کرنے، ان کی ’’غیر ذمہ دار‘‘ اور منشیات میں غرق زندگی کو ان کی اصل زندگی کے طور پر ظاہر کرنے میں ان کے خاکہ نگاروں، خاص کر شاہد احمد دہلوی، منٹو، اخلاق احمد دہلوی اور محمود نظامی کا بڑا حصہ ہے۔ محمد حسن عسکری ان کے واحد خاکہ نگار ہیں جنھوں نے ان باتوں کا ذکر کم کیا ہے، بلکہ بالکل ہی نہیں کیا ہے۔ عسکری صاحب لکھتے ہیں :
ان کا تخیل اس قدر افسانوی واقع ہوا تھا کہ وہ چاہتے تھے کہ زندگی چاہے زندگی نہ رہے مگر افسانہ ضرور بن جائے، خاص کر جب کہ اس افسانے کو دیکھنے والے بھی موجود ہوں …یہ بات کچھ ان کے دوستوں اور جاننے والوں تک ہی محدود نہ تھی، بلکہ جس نے ان کی تحریر پڑھ لی، اس نے ایک افسانہ ان کے بارے میں گھڑنا شروع کر دیا۔
ذرا غور کیجیے۔ کسی معاصر کے بارے میں کسی اور ادیب نے اتنی گہری اور سچی بات کہی ہو گی؟ یہ عسکری ہی کے مزاج کی یک دردیEmpathyتھی جس نے انھیں میرا جی کی شخصیت کی گہرائی تک پہنچ جانے میں ان کی مدد کی۔ اختر الایمان نے ’’سہ آتشہ‘‘ کے عنوان سے میرا جی کے کلام کا ایک مجموعہ مرتب کیا تھا (۱۹۹۲)۔ یہ وہ نظمیں ہیں جو ان کے پاس محفوظ تھیں اور کسی گذشتہ مجموعے میں شامل نہ تھیں۔ کتاب کے پیش لفظ میں اختر الایمان لکھتے ہیں :
ابھی تک میرا جی پر جو لکھا گیا ہے وہ زیادہ تر رسمی ہے، اور تحریروں کا رنگ افسانوی ہے، انھیں ایک دھندلکے اور رومان کی چادر میں لپیٹ دینے کی کوشش۔ لمبی لمبی کٹا رسی مونچھیں، شانوں تک پڑی ہوئی زلفیں، کبھی کوٹ کے اوپر کوٹ، پتلون کے اوپر پتلون۔ بغل میں کاغذوں کا پلندہ۔ منہ میں پان، ہاتھ میں چھوٹے بڑے تین گولے۔ کچھ نے ان کی بہت شراب نوشی پر بہت زور دیا ہے۔ کچھ نے دنوں بلکہ مہینوں نہ نہانے پر۔ مگر یہ تو میراجی نہیں، ان کی ہیئت کذائی ہے۔ ان کا بہروپ ہے۔
افسو س کہ ہم لوگوں نے بہروپ پر اس قدر زور دیا کہ میراجی کا روپ سروپ ہماری آنکھوں سے اوجھل ہو گیا، اور اب تک کم و بیش اوجھل ہی ہے۔ جمیل جالبی نے ٹھیک لکھا ہے کہ ’’میرا جی کی ذات سے ایسے ایسے واقعات وابستہ ہیں کہ ان کی ذات عام آدمی کے لیے افسانہ بن گئی ہے۔ ‘‘ جمیل جالبی کو یہ بھی کہنا چاہیے تھا کہ ’’عام آدمی‘‘ سے ان کی مراد کم و بیش سبھی لوگ ہیں :۔ ان کے قاری، ان کے نقاد، ان کے افسانے کو بنانے اور اسے شہرت دینے والے۔ انھیں یہ بھی کہنا چاہیے تھا کہ یہ ’’واقعات‘‘ اگر صحیح بھی ہوں تو ان کو جان کر، یا ان کے بارے میں مزید چھان بین کر کے ہمیں میرا جی کے ادب کے بارے میں کچھ نہیں معلوم ہو سکتا۔ عسکری کا مزید بیان ملاحظہ کریں :
میرا جی کو گفتگو کا بڑا سلیقہ تھا۔ دلچسپی اور شائستگی دونوں کو بیک وقت برقرار رکھنا بہت کم لوگوں کو آتا ہے۔
…
ایک خصوصیت ان کی یہ تھی کہ کتاب ہر قسم کی پڑھتے تھے۔ ادب، نفسیات، عمرانیات وغیرہ تو خیر ایک سلسلے کے مضمون ہوئے۔ لیکن ایک زمانے میں انھیں کپڑوں کے ڈیزائن کا مطالعہ کرنے کا شوق ہوا۔ کہا کرتے تھے کہ جب شادی ہو گی تو بیوی کو مشورہ تو دے سکوں گا۔ اسی طرح، نہ معلوم کن کن موضوعات پر الم غلم کتابیں انھوں نے مجھے زبردستی پڑھوائیں …زندگی کے ہر شعبے میں انھیں متفرقات کا شوق تھا۔ اسی سلسلے میں انھوں نے پان بنانا سیکھا تھا، بلکہ اپنے مخصوص ہنر کے ساتھ ساتھ اس فن میں بھی [انھوں نے ] دو چار نئے طریقے ایجاد کیے تھے۔ اور اس میں حال یہ تھا کہ چاہے ان کی باتیں بھول جاؤں لیکن ان کا پان نہیں بھول سکتا۔ دس منٹ میں تو ان کا ایک پان بنتا تھا۔ بچارے اپنے لیے پانوں کا ایک پلندہ لے کے چلتے تھے لیکن ان کے سارے پان تبرک ہو کے بٹ جاتے تھے۔
…
ان کے جاننے والوں نے ان کی شراب نوشی کے قصے بہت بیان کیے ہیں، لیکن مجھے حسرت رہی کہ میرا جی کو نشے کی حالت میں دیکھوں۔
اب محمد حسن عسکری سے ایک بات اور سن لیجیے۔ انھوں نے ایک افسانہ لکھا اور میرا جی کو بھیجا کہ وہ اس زمانے میں ’’ادبی دنیا‘‘ کے ایڈیٹر تھے۔ لیکن عسکری نے یہ شرط بھی لگائی کہ افسانہ فرضی نام سے شائع ہو۔ ’’ہفتے بھر بعد میرا جی کا خشک سا جواب آیا، بالکل دفتری زبان میں، کہ صاحب، ہم فرضی نام سے کوئی چیز نہیں چھاپتے۔ ‘‘بالآخر عسکری نے افسانہ اپنے ہی نام سے ’’ادبی دنیا‘‘ میں چھپوا لیا۔ پھر وہ لکھتے ہیں :’’میرا جی نے مجھے افسانہ نگار بنا دیا تو ’’نیا ادب‘‘ گروپ کے بھی بعض حضرات مجھے خط لکھنے لگے، لیکن وہ مجھے صرف شاباشی دیتے تھے۔ میرا جی یہ بھی پوچھا کرتے تھے کہ آئندہ کس قسم کا افسانہ لکھو گے ؟‘‘
آپ نے غور کیا؟ میرا جی یہ نہ پوچھتے تھے (جیسا کہ کوئی عام مدیر کرتا) کہ آئندہ افسانہ کب لکھو گے، بلکہ یہ کہ تمھارا اگلا افسانہ کس قسم کا ہو گا؟ یہ ان کی ادبی فراست اور مدیرانہ سوجھ بوجھ تھی کہ انھوں نے ایک ہی افسانہ پڑھ کر سمجھ لیا کہ عسکری کوئی چلتے ہوئے طرز کے افسانہ نہیں ہیں، بلکہ وہ کئی طرح کی افسانہ نگاری کے تجربے کرنا چاہتے ہیں اور ان کے تجربے کامیاب بھی ہو سکتے ہیں۔ میرا جی کی مدیرانہ بیدار مغز شخصیت اور ادبی فراست کی ایک اور مثال اختر الایمان کے ایک بیان میں بھی ملتی ہے۔ انھوں نے بڑے اشتیاق کے ساتھ اپنی ایک نظم ’’ادبی دنیا ‘‘کو بھیجی۔ وہ لکھتے ہیں :’’کچھ دن بعد نظم واپس آ گئی۔ نظم سے متعلق میرا جی کا ایک نوٹ تھا، ’جس عالم میں نظم کہی ہے اسی عالم میں نظر ثانی کیجیے۔ ‘‘ذرا غور کیجیے، صرف نظر ثانی کے لیے تو کوئی بھی مشورہ دے سکتا ہے، لیکن جس عالم میں نظم کہی گئی ہے اسے اپنے اوپر پھر طاری کرنے کا مشورہ یہ بتاتا ہے کہ نظم پر نظر ثانی اسی وقت کامیاب ہو سکتی ہے جب آپ اس کیفیت کو پھر طاری کریں جس نے آپ سے نظم کہلائی ہے۔
میرا جی کا قول تھا کہ میں اپنے بارے میں خود ہی طرح طرح کی باتیں پھیلایا کرتا ہوں۔ اس میں کچھ انتقام یا کچھ ڈراما سازی کا جذبہ رہا ہو گا، لیکن یہ ایک کھلنڈرے نوجوان کی حس مزاح کا بھی اظہار ہو سکتا ہے۔ میراجی کے بارے میں لکھتے یا سوچتے وقت ہم لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ عمر کے زیادہ تر حصے میں وہ نوجوان ہی رہے اور جب مرے تو اس وقت کے ہندوستانی معیاروں سے بھی وہ جوان ہی تھے۔ نیاز فتح پوری نے تو فراق صاحب کو ۱۹۳۷ میں ’’ایک نوجوان ہندو شاعر‘‘ بتا یا تھا، حالاں کہ اس وقت فراق صاحب کی عمر چالیس سے متجاوز تھی (ان کا سال پیدائش ۱۸۹۶ہے )۔ لیکن ہم لوگ میرا جی کے بارے میں خیال کرتے ہیں کہ وہ قدیم رشیوں منیوں کی طرح سینکڑوں برس کے ہو کر مرے ہوں گے، حالاں کہ جب وہ مرے تو ان کی عمر سینتیس (۳۷) برس سے کچھ ہی زیادہ تھی۔
یہ بات تو بہر حال درست ہے کہ میرا جی اپنی تحریر اور عام گفتگو میں جس قسم کی فراست اور ذہن کی جس بلندی کا اظہار کرتے تھے، اس کی توقع کسی انتہائی تجربہ کار، درون بیں اور عملی اور نظری دونوں طرح کی عقل سے بہرہ ور شخص ہی سے ہو سکتی ہے۔ (اور شاید اس لیے بھی لوگ انھیں جوان کے بجائے بوڑھا تصور کرنا پسند کرتے ہیں۔ ) محمد حسن عسکری اور اختر الایمان کو جو مشورہ میرا جی نے دیا اس کا ذکر اوپر ہو چکا ہے۔ میرا جی اور امیش ماتھر کی دوستی دہلی کے ریڈیو اسٹیشن سے لے کر ممبئی تک بر قرار رہی۔ امیش ماتھر کا بیان ہے کہ میرا جی مجھ سے اکثر کہتے تھے، ’’امیش تم رائٹر کبھی نہیں بن سکتے، کیونکہ تم روز نہیں لکھتے۔ رائٹر تو وہی ہوتا ہے جو روز لکھے۔ ‘‘ایسی باتیں وہ شخص نہیں کہہ سکتا جس کا دل دماغ اور جسم سب شراب نے ماؤف کر دیا ہو۔ امیش ماتھر نے لکھا ہے، ’’میرا جی کے مزاج میں ایک عجیب طرح کا بکھراؤ تھا اور ساتھ ہی ساتھ ادب کے لیے لگاؤ بھی، ایسا لگاؤ جس کا نبھاؤ وہ بے سرو سامانی کے باوجود بھی کرتے رہے۔ ‘‘ (امیش ماتھر کا مضمون اگر چہ نہایت عمدہ ہے لیکن کسی باعث نظر انداز ہوتا رہا ہے۔ جہاں تک مجھے معلوم ہے وہ ماہنامہ ’’آج کل‘‘ دہلی (مدیر محبوب الرحمٰن فاروقی) کی اشاعت مورخہ دسمبر ۲۰۰۰ کے سوا کہیں اور شائع نہیں ہوا۔ )
میرا جی کی شاعر ی کو اکثر مبہم، یا مشکل، کہا گیا ہے۔ شاہد احمد دہلوی نے لکھا ہے کہ میں کبھی کبھی ان کی نظم کے معنی دریافت کرتا تھا۔ اپنی نظمیں ’’وہ خدا جانے کب کہتے تھے اور کس کیفیت میں کہتے تھے۔ چند نظمیں خود ان سے سمجھیں تو سمجھ میں آئیں اور بعض خود ان کی سمجھ میں بھی نہیں آئیں۔ ‘‘ممکن ہے میرا جی ٹال رہے ہوں، یا یہ اشارہ کرنا چاہتے ہوں کہ جب تم سمجھے نہیں تو میں کیا سمجھاؤں۔ بہر حال، یہ بات اتنی پھیلی (یا پھیلا ئی گئی) کہ ایک استاد قسم کے مورخ ادب نے لکھ دیا کہ میرا جی کی نظمیں کسی کی سمجھ میں نہ آتی تھیں، یہاں تک کہ انھوں نے ایک کتاب لکھی، ’’اس نظم میں ‘‘ اور اس میں اپنی نظموں کے معنی بیان کیے۔ آپ سمجھ سکتے ہیں کہ جب ’’اعلیٰ ادبی حلقوں ‘‘ میں میرا جی کے بارے میں یہ بے خبری ہو تو انھیں اچھے پڑھنے والے کہاں سے مل سکتے تھے؟
خود میرا جی اپنے بارے میں کس قدر باخبر تھے (شاعر کی حیثیت میں بھی اور عام انسان کی حیثیت میں بھی) اس کا اندازہ ایم۔ اے۔ لطیف کے نام اس تحریر سے کچھ ہو سکتا ہے جس کا ذکر میں نے ابھی کیا۔ اس میں ایک جگہ وہ کہتے ہیں :
میں دنوں، مہینوں بلکہ بعض دفعہ ایک ایک ڈیڑھ ڈیڑھ سال تک نہیں نہایا کرتا۔ دنیا کو یہ بات بری معلوم ہوتی ہے اور میں اسے سمجھتا ہوں …مگر یہ بات سوچنے کے باوجود اب تک میری سمجھ میں نہیں آئی کہ اس تمام صورت حال، اس سماج، اس نظام حیات و کائنات کا مقصد کیا ہے …میں نے یہ بھی دیکھا ہے کہ انسان کی ایک سے زیادہ خوبیاں اس کے صرف ایک عیب کی مخلصانہ پردہ پوشی نہیں کر سکتیں …میں یہ بھی کہہ سکتا ہوں کہ۔۔ لیکن پھر وہی خیال پرستی، پھر وہی جزئیات بینی، پھر وہی زمینی سطح سے ذرا اوپر کی باتیں۔ اس مسلسل تحریر میں تو آپ بیتی لکھنا چاہتا ہوں۔
ذرا ملاحظہ کیجیے، کیا یہ وہی میرا جی ہے جو ہمیں اس کی شخصیت کے نام نہاد خاکوں میں نظر آتا ہے ؟ لیکن ہمیں تو اس جنس زدہ، غلیظ میرا جی سے کام ہے جس کے ہاتھوں میں لوہے کے تین گولے ہوتے تھے اور جس نے اپنی ساری شرم و حیا اور حفظ نفس ٹھرے کے ایک گلاس کے عوض ہمیشہ کے لیے فروخت کر دی تھی۔
حقیقت تو یہ ہے کہ اقبال کے فوراً بعد شعرا کی جو غیر معمولی نسل ہمارے افق پر نمایاں ہوئی، اس کے پانچ سر بر آوردہ ناموں میں میرا جی سر فہرست ہیں۔ میں یہ بات کئی بار کہہ اور لکھ چکا ہوں، اور آج پھر کہتا ہوں کہ اقبال کے فوراً بعد آنے والے پانچ بڑے شعرا کی ترتیب میں میرا جی سب سے اوپر ہیں، پھر راشد، ان کے بعد اختر الایمان، پھر مجید امجد اور سب سے بعد میں فیض ہیں۔ میں یہ بات دو وجہوں سے کہتا ہوں :ایک معمولی وجہ تو یہ کہ میرا جی نے اپنے بعد کے شعرا اور نقادوں اور افسانہ نگاروں پر جو اثر ڈالا، وہ ان کے ساتھیوں کے اثر سے زیادہ وسیع اور پائدار تھا۔ میرا جی کے بغیر جدید ادب کو قائم اور مستحکم ہونے میں بہت دیر لگتی۔ فیض صاحب کی عظمت اور مقبولیت کا کلمہ سب پڑھتے ہیں، لیکن جو لوگ شعر کو فن اور علوئے ذہن کا اظہار سمجھتے ہیں اور شاعر کی بڑائی اس بات میں دیکھتے ہیں کہ اس کے یہاں موضوعات اور تجربات کی وسعت کتنی ہے اور اس نے شعر کی ہیئت کے نئے امکانات کو کہاں تک دریافت اور وسیع کیا، وہ بخوبی جانتے ہیں کہ میرا جی کا کارنامہ ہمارے عہد میں بے مثال ہے۔ اور یہ دوسری وجہ ہے جس کی بنا پر میں میرا جی کو اس زمانے کے بڑے شعرا میں سر فہرست رکھتا ہوں۔
پھر میرا جی کے کام کی وسعت اور تنوع ملاحظہ کریں۔ کوئی میدان ان کے لیے تنگ نہ تھا، اور ہر میدان میں انھوں نے دیرپا نقوش چھوڑے۔ میرا جی نے نظم، غزل، گیت، تنقید، نظم کا تجزیہ، ادبی رسالے کی ادارت، ترجمہ، کالم نگاری، مزاحیہ شاعری، بچوں کے ادب، سیاسی معاملات پر اظہار خیال، ہر میدان میں اپنے جوہر دکھائے اور ہر جگہ اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ ریڈیو کے لیے لکھنے میں میراجی کو جو درک کسی تربیت یا مشق کے بغیر حاصل تھا، وہ اوروں کو مدت دراز کے بعد بھی نصیب نہیں ہوتا۔ اور ریڈیو میں ان کا زمانہ وہ زمانہ تھا جب آل انڈیا ریڈیو اپنی نشریات پر بی۔ بی۔ سی۔ جیسا اہتمام کرتا تھا۔ ’’سہ آتشہ‘‘ کے دیباچے میں اختر الایمان نے صحیح لکھا ہے کہ میرا جی:
حد درجہ زیرک، بیدار مغز، ادب کے ایقان اور گیان کا مالک، اردو شاعری اور ادب کے سیاق و سباق سے واقف، وہ شخص ہے جو اردو زبان کی شاعری اور تنقید کی تاریخ کو نئی جہتیں دینا چاہتا ہے۔ اسے نئی زمین پر استوار کرنا چاہتا ہے۔
مترجم میرا جی اور مدیر میرا جی کے کارناموں پربھی مزید توجہ کی ضرورت ہے۔ خاص کر ضرورت اس بات پر دھیان دینے کی ہے کہ ان تراجم میں اور سب باتوں کے علاوہ میرا جی کے مطالعے کی غیر معمولی وسعت اور ادبی سوجھ بوجھ کا بھی اظہار ہوتا ہے۔ میراجی کے شروع کے زمانے تک عسکری صاحب نے ملارمے (Mallarme) کا نام ہمارے کانوں میں ضرور ڈال دیا تھا، لیکن وہ شخص میرا جی ہی ہو سکتا تھا جو ملارمے کی نظم کا ترجمہ پیش کرتے وقت راجر فرائی (Roger Fry) کے ترجمے کا ذکر بھی کرے اور یہ لکھے :
اس نظم کا ترجمہ میں نے آلڈس ہکسلے (Aldous Huxley) کے انگریزی نسخے سے کیا تھا جسے میں عرصے تک سنوارتا رہا۔ اسی دوران میں آرٹ کے نقاد راجر فرائی کے کیے ہوئے میلارمے کی نظموں کے ترجمے مجھے کتابی صورت میں مل گئے جن کے ساتھ فرانسیسی متن تھا۔ نیز چارلس موروں (کذا، اصل موراMaurras) نے مجموعے کو ترتیب دیتے ہوئے بعض نظموں کی وضاحتیں بھی لکھی تھیں۔ میں نے ایک طرف تو اپنے ترجمے کوراجر فرائی سے زیادہ قریب کیا، کیوں کہ وہ ترجمے ہکسلے کے ترجمے سے کہیں بہتر تھے اور ساتھ ہی چارلس موروں کی وضاحت کا ’’کتابی ترجمہ‘‘ بھی کر لیا۔
(’’باقیات میراجی‘‘، مرتبہ شیما مجید، ص ۱۷۲)
عسکری صاحب کو یورپی مصوری سے بہت اچھی واقفیت تھی، لیکن میر ا خیال ہے جس زمانے میں میراجی نے اپنا ترجمہ شائع کیا تھا، اس وقت عسکری صاحب کو انگریز مصوروں اور آرٹ کے انگریز نقادوں سے کچھ بہت دلچسپی نہ تھی۔ لیکن یہ ملارمے وہی ہے جس کے بارے میں عسکری صاحب نے بہت بعد کے زمانے میں لکھا کہ ملارمے کی صرف دو سطریں میری سمجھ میں آ سکی ہیں۔ میراجی نے ملارمے کی جس نظم کا ترجمہ کیا ہے، بلکہ یوں کہیں کہ انتہائی آزاد، نثری ترجمانی کی ہے وہ ملارمے کی مشہور طویل نظمA Faun’s Afternoonہے۔ اس انتہائی مشکل نظم کی ترجمانی میں میرا جی نے بے حد آزادیاں برتی ہیں۔ Faun کا ترجمہ انھوں نے ’’گوالا‘‘ کیا ہے جو اصل سے بالکل مختلف ہے۔ یونانی صنمیات میں Faun (فرانسیسی میں Faune) جنگلوں یا دیہاتوں کا ایک دیوتا ہے جس کے کان، سر، سینگ اور دم، بکرے کے ہیں۔ میرا جی نے اسے کم و بیش ہندوستانی، اور ملارمے کی نظم سے زیادہ ذاتی اظہار بنا دیا ہے۔ لیکن انھوں نے چارلس موروں (مورا) کے وضاحتی ترجمے کا بھی لفظی جو ترجمہ ساتھ ہی ساتھ پیش کر دیا ہے وہ اصل سے بہت قریب ہے۔ اپنے مزاج سے ایک بالکل مختلف طرح کے فرانسیسی شاعر کو میرا جی نے جس طرح گرفت میں لیا ہے وہ ان کی مہارت، تخلیقی قوت اور وسعت مطالعہ کا ثبوت ہے۔
رہی بات تنقید کی، تو میراجی کو ہمارے زمانے کا اہم نقاد ثابت کرنے کے لیے یہی بات کافی ہے کہ انھوں نے نظم کی تفہیم کا ایک بالکل نیا اور نئی نظم کی حد تک انتہائی کامیاب طریقہ ایجا د کیا۔ اس کی رو سے ہر نظم کو کسی حقیقی واقعے، یا کسی حقیقی صورت حال کے بیان کے طور پر پڑھا جاتا تھا، گویا وہ نظم نہ ہو کوئی تصویر ہو۔ یہ گفتگو ہوتی ہی نہ تھی کہ نظم کسی خود نوشت کا حکم رکھتی ہے، یا کسی ’’واقعی‘‘ اور ’’سماجی‘‘ صورت حال کو بیان کرتی تھی۔ میرا جی نے آرچیبالڈ میکلیش (Archibald Macleish) کی وہ مشہور نظم شاید پڑھی ہو، یا شاید نہ پڑھی ہو، جس کے آخری دو مصرعے ہیں :
A poem should not mean,
but be.
لیکن میرا جی کے تجزیے نظموں کے ساتھ کم و بیش اسی طرح کا معاملہ کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر راشد کی نظم ’’زنجیر‘‘ میں خود میرا جی کے الفاظ میں ’’ایک ایسے ملک کا نقشہ …بیان کیا [گیا]ہے جو سالہا سال سے غلامی کی بے بسی اور مشقت میں زندگی بسر کر رہا ہو۔۔۔ ‘‘ لیکن وہ نظم کو ہمارے سامنے شاعر اور پیلۂ ریشم (یعنی ریشم کا کوا) کے مابین مکالمے کے طور پر بیان کرتے ہیں۔ اس طرح نظم صرف بیانیہ نہ رہ کر ہمارے سامنے مجسم ہو جاتی ہے۔
تراجم کے لیے جو شعرا اور جو نظمیں میرا جی نے منتخب کیں وہ بھی ان کے گہرے تنقیدی شعور پر دلالت کرتی ہیں۔ پشکن کی ایک نظم کے ترجمے پر تعارفی نوٹ میں میرا جی نے حیرت انگیز تنقیدی فہم بلکہ وجدان (Intuition) کا ثبوت دیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں :
پشکن کی شاعری میں مشرقی جذبات اور تخیلات کو بہت دخل ہے، بلکہ بعض جگہ تو اس کی ذہنی کیفیت اتنی ملال انگیز ہوتی ہے کہ ہمیں اس کی تخلیق پر خالص مشرقی ہونے کا شبہ ہوتا ہے۔
(’’باقیات میراجی ‘‘، مرتبہ شیما مجید، ص۵۸۱)
میرا جی کے زمانے میں یہ بات عام نہ تھی، اور آج بھی بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ پشکن کے خون میں افریقی خون کی آمیزش تھی۔ اس کا پر نانا ’’ خالص افریقی نسل کا ‘‘ (Of pure African blood) تھا اور پشکن خود بھی کہا کرتا تھا کہ اس کی تخلیقی قوت میں جو شور و زور ہے وہ اس کے ’’آتشیں افریقی خون‘‘ (Fiery African blood) کی وجہ سے ہے۔
میرا جی کی جو شبیہ ان کے خاکہ نگاروں، اور ان کے ادب سے زیادہ ان کی نام نہاد شخصیت پر توجہ صرف کرنے والوں نے بنائی ہے اس میں کہیں سے بھی یہ گمان نہیں ہوتا کہ یہ شخص حس مزاح بھی رکھتا ہو گا، بچوں میں بچوں کی طرح گھل مل جاتا ہو گا۔ اختر الایمان کی پہلی بچی شہلا کی پیدائش پر جو نظم انھوں نے فی البدیہہ لکھی، وہ خوش طبع اور چلبلے ادب میں بھی، اور قادر الکلامی کے اظہار کے طور پر بھی، شاہکار کا درجہ رکھتی ہے۔ ملاحظہ ہو:
افق پہ اختر و سلطانہ کے بفضل خدا
ستارہ آج نمودار ہو گیا پہلا
ابھی تو ننھی سی ہے یہ کرن مگر اک روز
مثال ماہ چمک اٹھے گی یہی مہلا
اگر ہے دعویٰ سخن کی شناوری کا تجھے
تو مار غوطہ ذرا شعر ایک دو کہہ لا
میاں اب آج سے تم طے کرو یہ کاروبار
اب اس کو گود میں لے اور باغ میں ٹہلا
کہ اللہ آمیں کی بچی ہے نام ہے شہلا
ایمان کی قسم
قافیوں کی برجستگی، اور خاص کر ’’ماہ‘‘ کے ساتھ ’’مہلا‘‘ کا استعمال کس قدر پر لطف ہے۔ ممکن ہے یہ وہی میرا جی ہوں جو اختر الایمان کے گھر کی کھڑکی پر کھڑے ہو کر پیشاب کرتے تھے لیکن دھار ساری کی ساری کمرے میں رہ جاتی تھی۔ مندرجہ ذیل نظم/غزل شاید دہلی کے زمانے کی ہے
جتنی برف نظر آتی ہے ہم کو کنچن چنگا میں
اتنا ہی دنگاہوتا ہو گا شاید دربھنگا میں
آپ مرے توجگ پر لو اک ڈوبنے والا کہتا تھا
اپنے لیے تو فرق نہیں چاہے جمنا میں چاہے گنگا میں
کچھ تو ایک خلیج ہے اور گنگا[کنگھا؟] سردار کی زینت ہے
کچھ میں لیکن بات نہیں جو بات ہے ان کے کنگھا میں
انگے کا تو قافیہ میرے بس میں نہیں کیوں یہ بھی سنو
انگے کو گر قافیہ باندھا کہنا پڑے گا انگا میں
حضرت مہمل اک دن ننگ دھڑنگ ملنگ سے کہنے لگے
یہ تو کہو کچھ لطف بھی آتا ہے اس ننگ دھڑنگا میں
قافیوں کی یہ تازگی اور بیباک تنوع جو ظفر اقبال آج تک برت رہے ہیں، ان کی اصل یہاں نظر آتی ہے۔ پھر یہاں (جیسا کہ میرا جی نے لکھا بھی ہے ) ’’مہمل نظم‘‘ یا Nonsense Verseکا ایک تجربہ بھی ہے۔ جیسا کہ میں نے پہلے کہیں لکھا ہے، حقیقی معنی میں ’’مہمل‘‘ کلام ممکن نہیں۔ لیکن بعض لوگوں کے یہاں، خاص کر انگریزی میں لوئس کیرل (Lewis Carroll) اور ایڈورڈ لیئر (Edward Lear) کی نظموں میں، Nonsense Verse کے عمدہ تجربے نظر آتے ہیں۔ ہمارے یہاں اس میدان میں ظفر اقبال اور عادل منصوری کے تجربوں کی اصل میرا جی کے یہاں دیکھی جا سکتی ہے۔ مندرجہ غزل میر کی زمین و بحر میں ہے اور اگرچہ ’’غیر سنجیدہ‘‘ ہے، لیکن میر کے آہنگ کو حیرت انگیز قدرت کلام کے ساتھ گرفت میں لاتی ہے
ہم تو تمھیں دانا سمجھے تھے بھید کی بات بتا ہی دی
اس دن کو ہم کہتے تھے کیا فائدہ ایسے پینے میں
کوٹھا اٹاری منزل بھاری حوصلے جی کے نکالیں گے
سامنا ان سے اچانک ہو جائے جو کسی دن زینے میں
اس پر ظفر اقبال کا مطلع یا د آیا
کمرے میں ہو مڈبھیڑ کہ زینے پہ ملاقات
سہتا ہوں میں اس شوخ کی سینے پہ ملاقات
میر کی مخصوص بحر کو فانی اور فراق سے لے کر خلیل الرحمٰن اعظمی، باقر مہدی اور ابن انشا تک کئی لوگوں نے استعمال کیا ہے۔ یعنی میرا جی اس میدان میں اکیلے نہ تھے، اور نہ پہلے تھے۔ لیکن میرا جی نے جس طرح میر کے آہنگ کو اختیار کیا وہ کسی اور سے نہ بن پڑا۔ میرا جی کے بعد کے جن شعرا کا میں نے ابھی نام لیا، انھوں نے میر سے براہ راست اپنا رشتہ جوڑا اور میرا جی کا ذکر نہ کیا۔ لیکن یہ فرض کرنا مشکل ہے کہ میرا جی کی مثال سامنے ہوتے ہوئے وہ اس نکتے سے واقف نہ تھے کہ جدید زمانے میں میر کے آہنگ کو گرفتار کرنا ہو تو میرا جی کو دیکھنا لازم ہے۔ میں میر کی لفظیات کی بات نہیں کرتا، اوپر اوپر کے چند رسمی لفظوں کو برت لینے سے میر، یا کسی بھی پرانے شاعر کی لفظیات پر دسترس نہیں ہو سکتی۔ وہ الفاظ تو اکثر کچے پکے شاعر بھی حاصل کر لیتے ہیں۔ اصل بات تو آہنگ کی تھی، کہ شعر ایسا بولتا ہوا ہو کہ محسوس ہو، معنی کا وہ بسط اور وہ تہیں نہ سہی، لیکن آواز سے آواز ملتی ہے، گویا ہم ابھی ابھی میر کو سن کر اٹھے ہیں۔ میر کی وہ غزل دھیان میں لائیے جس کا مطلع ہے (دیوان چہارم)
یوں ناکام رہیں گے کب تک جی میں ہے اک کام کریں
رسوا ہو کر مارے جاویں اس کو بھی بدنام کریں
اور اب میرا جی کی یہ غزل سنیے
غم کے بھروسے کیا کچھ چھوڑا کیا اب تم سے بیان کریں
غم بھی راس نہ آیا دل کو اور ہی کچھ سامان کریں
کرنے اور کہنے کی باتیں کس نے کہیں اور کس نے کیں
کرتے کہتے دیکھیں کسی کو ہم بھی کوئی پیمان کریں
بھلی بری جیسی بھی گذری ان کے سہارے گذری ہے
حضرت دل جب ہاتھ بڑھائیں ہر مشکل آسان کریں
ایک ٹھکانا آگے آگے پیچھے پیچھے مسافر ہے
چلتے چلتے سانس جو ٹوٹے منزل کا اعلان کریں
میر ملے تھے میرا جی سے باتوں سے ہم جان گئے
فیض کا چشمہ جاری ہے حفظ ان کا بھی دیوان کریں
میر کا مقطع بھی سن لیجیے
میل گدائی طبع کو اپنی کچھ بھی نہیں ہے ورنہ میر
دو عالم کو مانگ کے لاویں ہم جو تنک ابرام کریں
ہم دیکھ سکتے ہیں کہ میر جیسی مشاقی اور میر جیسا معنی کا تنوع میرا جی کے یہاں ابھی نہیں ہے، لیکن ان کے یہاں ان چیزوں کا فقدان بھی نہیں ہے۔ میرا جی نے غزلیں بہت کم کہیں، بیماری اور موت نے انھیں وقت نہ دیا۔ جو غزل میں نے اوپر نقل کی وہ ان کے بالکل آخری زمانے کی ہے جب بقول بعض وہ رات بھر شراب پیتے اور پاس رکھی ہوئی بوتل میں قے یا شاید پیشاب کرتے رہتے تھے۔ ہو گا، یوں ہی ہو گا۔ لیکن ’’با ہوش‘‘ اور ’’متین‘‘ اور ’’سنجیدہ‘‘ کتنے شاعر ہیں جو میر کے طور میں ایسی غزل کہہ سکتے ہیں ؟ چاہے رات بھر شراب پی کر قے کریں، چاہے گیان دھیان کریں، لیکن بقول میر ع
فکر بلند سے یاروں کو ایک ایسی غزل کہہ لانے دو
میرا جی کو موقع ملتا تو جس طرح انھوں نے میر کا آہنگ پا لیا تھا، اسی طرح میر کی پوری روح کو بھی گرفت لینا ان کے لیے شاید ممکن ہو جاتا۔
میرا جی کے کلام میں اشکال اور ابہام کا شکوہ بہت کیا گیا۔ لیکن ان کی تفہیم اور تعبیر کی کوشش کسی نے نہیں کی۔ یہ ہماری ادبی تہذیب کی بد نصیبی ہے کہ میرا جی کی بنیادی قوتوں کا بھی کچھ تجزیہ نہ کیا گیا اور نہ ان کی نظموں ہی کی تفہیم کی گئی۔ سب نہیں، کچھ سہی، اس طرح یہ تو معلوم ہو جاتا کہ میرا جی کا حسن کہاں اور کس باعث ہے، اور آیا میرا جی کی شاعری واقعی ایسی ہے کہ سمجھ میں نہیں آ سکتی؟اس کی ایک وجہ شاید یہ بھی ہے کہ ہم لوگ جدید شاعری پر محنت نہیں صرف کرنا چاہتے۔ راشد صاحب کے بارے میں شکایتیں ہوئیں کہ ان کا کلام مبہم ہے، لیکن کسی نے پتہ مار کر بیٹھنے اور راشد صاحب کی نظموں کے معنی سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش نہیں کی۔ میرا جی تو شاید زیادہ توجہ نہ کرتے، لیکن راشد صاحب سے مدد مانگی جاتی تو وہ اپنی نظموں کی تفہیم کے طالب کی رہنمائی بھی کر سکتے تھے۔
’’لب جوئبارے ‘‘ جیسی سادہ اور اکہری نظموں کے علاوہ میرا جی کی جو نظم بھی پڑھیے، ذہن میں ایک کرید سی اٹھتی ہے کہ اس کا سرچشمہ کیا رہا ہو گا؟ شاعر کو یہ بات سوجھی کیونکر ہو گی؟ان کے تمام ہم چشموں کے بارے میں کم از کم مجھے کبھی یہ کرید نہیں ہوتی۔ اوروں کی ہر نظم کے بارے میں کچھ نہ کچھ مفروضہ بن سکتا ہے کہ اس کا بنیادی خیال (یا بنیادی مضمون، یا تاثر) یوں اور یوں ہاتھ آیا ہو گا۔ لیکن ’’رس کی انوکھی لہریں ‘‘کس طرح وجود میں آ سکی ہو گی؟ خاص کر جب میرا جی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انھیں اپنی ’’نفسیاتی الجھنوں ‘‘ کے باہر عورت مرد کے معاملات سے کوئی حقیقی دلچسپی نہ تھی، تو یہ سوچنا مشکل ہو جاتا ہے کہ انھوں نے کس طرح سوچا یا سمجھا ہو گا کہ کوئی نوجوان، یا شاید بالغ ہوتی ہوئی لڑکی جب اپنے اندر کچھ نئی طرح کی باتیں وجود میں آتی محسوس کرتی ہے تو پھر اپنے ہی آپ، بالکل جبلی طور پر سمجھ لیتی ہے کہ جو کچھ مجھ میں ہو رہا ہے وہ کائناتی حقیقتوں سے ہم آہنگ ہے ؟ وہ کس طرح سمجھ لیتی ہے کہ یہ تبدیلیاں زندگی کا ثبوت اور زندگی کا حصہ ہیں ؟ میرا جی کی جنسی ’’کمزوری‘‘ وغیرہ کے بارے میں باتیں کرنے والے اس بات کو خیال میں نہیں لاتے کہ میرا جی کے تخیل اور احساس میں وہ باریکی اور لطافت کہاں سے آئی کہ وہ ’’رس کی انوکھی لہریں ‘‘ جیسی نظم لکھ سکے اور کس طرح انھوں نے لڑکی کے جنسی وجود کو کائنات کا حصہ بنا کر محسوس کیا؟ نظم یوں شروع ہوتی ہے :
میں یہ چاہتی ہوں کہ دنیا کی آنکھیں مجھے دیکھتی جائیں، یوں دیکھتی جائیں جیسے کوئی نرم ٹہنی کو دیکھے،
(لچکتی ہوئی، نرم ٹہنی کو دیکھے )
مگر بوجھ پتوں کا اترے ہوئے پیرہن کی طرح سیج کے ساتھ ہی فرش پر ایک مسلا ہوا ڈھیر بن کر پڑا ہو
ذرا غور کیجیے، یہ اترا ہوا پیرہن جو سیج کے ساتھ ہی مسلا ہوا ڈھیر بن کر پڑا ہے، اترا ہوا پیرہن بھی نہیں ہے، پتیوں کا ڈھیر ہے۔ جنسی پیکر آپ سے آپ لڑکی ذہن میں آ گیا ہے، ورنہ بات بظاہر بہت سادہ تھی کہ لڑکی چاہتی ہے کہ دنیا اس کے حسن اور اس کے بدن کی نزاکت اور لطافت کا معصوم، غیر جنسی اعتراف کرے۔ ابھی اسے خود یہ خبر نہیں ہے کہ اس کے جسم میں جو نامیاتی تبدیلیاں رو نما ہو رہی ہیں ان کے امکانات اور مضمرات کیا ہیں ؟ وہ بالغ ہو رہی ہے، یا ابھی چند دن ہوئے بالغ ہوئی ہے، لیکن زندگی کا تموج اسے تخیل اور روحانی تجربے کی نئی منزلوں کی طرف لے جا رہا ہے :
اگر کوئی پنچھی سہانی صدا میں کہیں گیت گائے
تو آواز کی گرم لہریں مرے جسم سے آ کے ٹکرائیں اور لوٹ جائیں، ٹھہرنے نہ پائیں
کبھی گرم کرنیں، کبھی نرم جھونکے
کبھی میٹھی میٹھی فسوں ساز باتیں،
کبھی کچھ، کبھی کچھ، نئے سے نیا رنگ ابھر ے،
جنسی احساس، اور لمس پر مبنی پیکر گویا آپ سے آپ چلے آ رہے ہیں :گرم لہریں، جسم سے آ کے ٹکرائیں، گرم کرنیں، نرم جھونکے، اور بالآخر ’’فسوں ساز باتیں ‘‘، جو میٹھی بھی ہیں اور فسوں ساز (یعنی جھوٹی، یا موہ لینے والی، فریب دینے والی) بھی۔ متکلم لڑکی عمر کی اس منزل میں ہے جہاں جان بوجھ کر دھوکا کھانا بھی اچھا لگتا ہے۔ اور نظم یوں ختم ہوتی ہے :
میں بیٹھی ہوئی ہوں
دوپٹہ مرے سر سے ڈھلکا ہو ا ہے
مجھے دھیان آتا نہیں ہے :مرے گیسوؤں کو کوئی دیکھ لے گا،
مسرت کا گھیرا سمٹتا چلا جا رہا ہے،
بس اب اور کوئی نئی چیز میرے مسرت کے گھیرے میں آنے نہ پائے
یہاں احساس کا دائرہ مکمل ہونے کے ساتھ ہی لڑکی کا نیا وجود کائنات کی طرح بے کراں ہو جاتا ہے۔ اس کا خود بخود ڈھلکا ہو دوپٹہ اس بات کا اشارہ ہے کہ اب وہ چاہتی ہے کہ کوئی اسے بے لباس دیکھے۔ دنیا کیا کہے گی، یہ اس کے لیے اس وقت کچھ اہم نہیں۔ مسرت کا گھیرا سمٹ کر لڑکی کے بدن میں سما گیا ہے۔ اب کوئی نئی چیز اس مسرت کے گھیرے میں داخل نہیں ہو سکتی، یہاں بھی جنسی اشارہ موجود ہے، لیکن یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ جوان ہو جانے کا اہتزاز لا متناہی ہے۔ لا متناہی احساس میں کسی نئی چیز کے آنے کا امکان نہیں، کیونکہ ہر چیز وہاں پہلے ہی سے موجود ہے۔
میرا جی کی نظم’ ’بعد کی اڑان‘‘ ایک طرح سے ’’رس کی انوکھی لہریں ‘‘ کی تکمیل کرتی ہے، اس معنی میں کہ یہاں ہم بستری کے بعد کا منظر ہے اور متکلم مرد ہے۔ صبح کے وقت مرد دیکھتا ہے کہ کاجل پھیل کر لڑکی کے رخسار کی طرف جاتا ہوا سا ہے۔ اس کے ماتھے کی بندی بھی ذرا مٹ مٹا سی گئی ہے، لیکن مرد کو بندی کے بگڑ جانے کا احساس صبح ہونے کے پہلے ہی ہو چکا تھا۔ دونوں ہی باتیں اختلاط، اور اختلاط کے دوران جسمانی اور جذباتی تموج کی نشانی ہیں۔ لیکن پھیلا ہوا کاجل کسی باعث مرد کو بہت بر انگیخت کر دیتا ہے۔ اسے یہ بات اچھی نہیں لگتی کہ کاجل اتنا پھیل گیا ہے کہ لگتا ہے وہ کوئی زندہ وجود ہے اور لڑکی کو بوسہ دینے کے لیے بڑھ رہا ہے۔ ممکن ہے مرد خود سیاہ فام ہو اور اس باعث کالا کوا کاجل اسے اپنے حریف کی شکل میں نظر آتا ہے۔ لڑکی گوری ہے۔ یہ کہا نہیں گیا، لیکن اس کی بندی سرخ رنگ کی تھی، اس سے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ لڑکی کا رنگ شاید گورا ہو گا۔
اب سوال یہ ہے کہ یہ سب تفصیل، یہ سب پیچیدگی کیوں ہے ؟ شاید اس کی وجہ یہ ہے ہم بستری کا طوفان گذر چکا لیکن مرد کے ابتہاج میں کمی نہیں آئی ہے۔ وہ کاجل تک کو اپنا رقیب سمجھ لیتا ہے، یا سمجھنا چاہتا ہے۔ ضروری ہے کہ پوری نظم یہاں نقل کر دی جائے :
بعد کی اڑان
میرا جی
چوم ہی لے گا، بڑا آیا کہیں کا۔۔۔۔۔ کوا،
اڑتے اڑتے بھلا دیکھو تو کہاں آ پہنچا،
کلموا، کالا کلوٹا، کاجل۔۔۔۔۔
میں اگر مرد نہ ہوتا تو یہ کہتا تجھ سے :
دوش پر بکھرے ہوئے ہیں گیسو،
بندی دمدار ستارہ ہے مگر ساکن ہے،
چلتے چلتے کوئی رک جائے اچانک جیسے،
غسل خانے میں نظر آیا تھا انگلی پہ مجھے سرخ نشاں،
وہی دمدار ستارے کی نمائش کا پتہ دیتا تھا،
آپ نا پید ہوا ہے مگر اپنے پیچھے
کسی نقش کف پا کی صورت
رات کے راستے میں چھوڑ گیا ہے وہ کہانی جس کو
سننے والا یہ کہے گا مجھ سے
گیت میں ایسی لرزتی ہوئی اک تان کی حاجت ہی نہ تھی،
ایسی ہی ایک لرزتی ہوئی تان آئی تھی
جب پھسلتے ہوئے ملبوس لرزتے ہوئے جا پہنچے تھے
فرش پر۔ ایک مسہری پہ ہوا آویزاں
’’چھوڑ دو، رہنے دو۔۔۔۔۔ اس کو تو یہیں رہنے دو۔ ‘‘
نیم وا آنکھوں کو پھر بند کیا تھا اس نے،
ہاتھ بھی آنکھوں کے پردوں پہ رکھے تھے یکدم،
اور ا ب ایک ہی پل میں یہ اگر کھل جائیں
یہی آنکھیں جو مجھے دیکھ نہیں سکتی تھیں
دیکھتے دیکھیں مجھے،۔۔۔۔۔ ہاتھ کہاں رکھیں گی؟
وہیں رکھیں گی،۔۔۔۔۔ وہی ایک نشان منزل
جس جگہ آ کے ازل اور ابد ایک ہوئے تھے دونوں،
ایک ہی لمحہ بنے تھے مل کر،
اسی لمحے میں یہ بندی مجھے دمدار ستارہ سا نظر آئی تھی
رات کے راستے میں چھوڑ گئی تھی وہ کہانی جس کو
سننے والا یہ کہے گا مجھ سے
گیت میں ایسی لرزتی ہوئی اک تان کی حاجت ہی نہ تھی،
اب لرزتے ہوئے ملبوس نظر آتے نہیں ہیں، لیکن
وہ تو اک رات کے طوفان کا اعجاز تھا، طوفان مٹا،
کیسا طوفان تھا!۔۔۔۔۔۔ اندھا طوفان،
جس کے مٹنے پہ مجھے نوح کی یاد آتی ہے
اور پھر نوح نے بیٹوں سے کہا
کھول دو پنجرہ، اسے چھوڑ دو۔۔۔۔۔۔ اس فاختہ کو
جا کے خشکی کا پتہ لے آئے،
چند لمحوں میں ہی وہ فاختہ لوٹ آئی، مگر ناکامی
اس کی قسمت میں لکھی تھی،
اور پھر کوے کو چھوڑا، یہی خشکی کا پتہ لائے گا،
اڑتے اڑتے بھلا دیکھو تو کہاں آ پہنچا،
چوم ہی لے گا، بڑا آیا کہیں کا کوا،
کلموا، کالا کلوٹا، کاجل!
(۱۹۴۱)
نوٹ: اوقاف میں ’’میرا جی نظمیں ‘‘، اول ایڈیشن، ساقی بک ڈپو، دہلی[۱۹۴۳] کی پابندی کی گئی ہے۔
غور کرنے کی پہلی بات تو یہ ہے کہ متکلم شروع ہی میں اپنے مرد ہونے پر زور دیتا ہے :۔
میں اگر مرد نہ ہوتا تو یہ کہتا تجھ سے
لیکن جو زبان وہ استعمال کرتا ہے وہ عورتوں والی ہے (یعنی اسے عام طور پر عورتوں کی زبان کہا جاتا ہے۔ ) :
چوم ہی لے گا، بڑا آیا کہیں کا۔۔۔۔۔ کوا،
اڑتے اڑتے بھلا دیکھو تو کہاں آ پہنچا،
کلموا، کالا کلوٹا، کاجل۔۔۔۔۔
اپنی مردانگی پر یہ اصرار، اور کوے کے کالے پن پر یہ زور، ان دونوں باتوں میں یہ نکتہ پنہاں ہے کہ متکلم کسی نہ کسی سطح پر خود کو رات کی اپنی ہم بستر سے اس درجہ متحد دیکھتا ہے کہ کوے سے اس کا خطاب عورتوں کے لہجے میں ہے، اور دوسری طرف وہ کوے کو اپنا رقیب بھی تصور کرتا ہے۔ حالانکہ بات صرف اتنی ہے کہ لڑکی کی آنکھوں کا کاجل رات اختلاط اور اختلال کے باعث ذرا سا بہ نکلا ہے۔ لیکن بہے اور پھیلے ہوئے کاجل نے یہ کام بھی کیا کہ مرد کو پچھلی رات کی باتیں ٹھیک سے یاد دلا دیں۔ لڑکی کے بال بکھرے ہوئے ہیں، لیکن اس کی سرخ بندی بھی مٹی مٹی سی ہے۔ لطف یہ ہے کہ کاجل کے بہنے اور مٹنے کے پہلے، رات ہی کو کسی وقت متکلم کو بندی کے مٹے مٹے ہونے کے بارے میں معلوم ہو گیا تھا، جب وہ کسی ضرورت سے غسل خانے گیا تھا۔ سرخ بندی، انگلی پر اس کا نشان، اور غسل خانہ، یہ باتیں ازالۂ بکارت کی طرف اشارہ کرتی معلوم ہوتی ہیں۔ خود لڑکی ہمیں بمشکل ہی دکھائی (یاسنائی ) پڑتی ہے۔ جب متکلم اس کے الفاظ میں ہمیں بتاتا ہے۔ کہ جب:
پھسلتے ہوئے ملبوس
لرزتے ہوئے جا پہنچے تھے
فرش پر، ایک مسہری کے کٹہرے پہ ہوا آویزاں
(فرش پر پڑے ہوئے، یعنی اتار کر پھینکے ہوئے لباس کی میرا جی کی نظر میں خاص اہمیت معلوم ہوتی ہے۔ ’’رس کی انوکھی لہریں ‘‘ میں بھی اس کا ذکر شروع ہی میں ہے۔ )۔ موجودہ نظم میں مرد شاید اٹھ کر فرش پر گرے ہوئے کپڑوں کو اٹھا لینا چاہتا ہے، لیکن لڑکی کہتی ہے :
چھوڑ دو، رہنے دو۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کو تو یہیں رہنے دو۔۔۔۔۔
لڑکی کی طرف سے ہم صرف یہ جملہ سنتے ہیں، اور اس کے بارے میں اتنا ہی اور معلوم کرتے ہیں کہ یہ کہہ کر اس نے اپنی نیم وا آنکھیں بند کر لی تھیں۔ لیکن اس عمل میں شرم سے زیادہ تیاری، اور عجلت کا اشارہ ملتا ہے۔ یہ ضرور ہے کہ وہ پھر اپنے ہاتھ بھی اپنی آنکھوں پر رکھ لیتی ہے۔ یعنی یہ جملہ بول کر اسے خود احساس ہوا ہے کہ میری بات میں کچھ بے صبری کا شائبہ مل سکتا تھا۔ اس لیے اب وہ شرما کر اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھ لیتی ہے۔ مگر پھر فوراً ہی وہ مرد کو دیکھنے بھی لگتی ہے، کیونکہ وہ محسوس کر تی ہے کہ مرد اسے دیکھ رہا ہے :
یہی آنکھیں جو مجھے دیکھ نہیں سکتی تھیں
دیکھتے دیکھیں مجھے
لیکن متکلم کو اس عمل میں کچھ اور اشارہ بھی ملتا ہے۔ آنکھوں کو ہاتھوں سے ڈھانک لیا گیا ہے، لیکن ضرور ہے کہ ہاتھ وہاں سے ہٹیں گے ضرور، کیونکہ متکلم اسے دیکھ رہا ہے، اس کے پورے جسم کو برہنہ دیکھ رہا ہے اب وہ شرما کر اپنے ہاتھ بڑھا کر وہاں لے جانا چاہتی ہے جہاں سے تخلیق کا عمل شروع ہوتا ہے، اور وہ شاید مرد کا ہاتھ بھی اس طرف جاتا ہوا محسوس کرتی ہے :
یہی آنکھیں جو مجھے دیکھ نہیں سکتی تھیں
دیکھتے دیکھیں مجھے۔۔۔۔۔۔ ہاتھ کہاں رکھیں گی؟
وہیں رکھیں گی۔۔۔۔۔۔۔ وہی ایک نشان منزل
جس جگہ آ کے ا زل اور ابد ایک ہوئے تھے دونوں
لڑکی شاید چاہتی ہے کہ اپنے ہاتھ کے بعد مرد کے ہاتھ کو بھی وہاں لے جائے جو متکلم کے لفظوں میں نشان منزل ہے۔ اور اسی لمحے لڑکی کی ایک انگلی پر بندی کا چھوٹا سا دھبہ آ گیا اور جب اس نے متکلم کا ہاتھ پکڑا تو وہ دھبہ اس کی انگلی پر بھی گیا، یا انگلی پر منتقل ہو گیا۔ اب بندی کسی چھوٹے سے دمدار ستارے کی شکل میں ہے، لیکن یہ نشان ایسی کہانی کا بھی ہے جس میں اب وہ منزل آ گئی تھی کہ جذبے کے ارتعاش اور ابتہاج کی بھی ضرورت نہ تھی۔ دونوں ان باتوں سے ماورا ہو گئے تھے :
اسی لمحے میں یہ بندی مجھے دمدار ستارہ سا نظر آئی تھی
رات کے راستے میں چھوڑ گئی تھی وہ کہانی، جس کو
سننے والا یہ کہے گا مجھ سے
گیت میں ایک ایسی لرزتی ہوئی اک تان کی حاجت ہی نہ تھی،
اب لرزتے ہوئے ملبوس نظر آتے نہیں ہیں، لیکن
ان کی آنکھوں کو ضرورت بھی نہیں
’’آنکھوں کو ضرورت بھی نہیں ‘‘، یعنی دونوں کی آنکھوں کو۔ اب کسی کو اس کی ضرورت نہیں کہ منظر کے آغاز میں جو تھر تھری، جو سنسنی تھی، اس کی ایک رمق بھی باقی رہ جائے :
وہ تو اک رات کے اعجاز کا طوفان تھا، طوفان مٹا،
کیسا طوفان تھا!۔۔۔۔۔۔ اندھا طوفان،
جس کے مٹنے پہ مجھے نوح کی یاد آتی ہے
غور فرمائیے، میرا جی فحش گو، میرا جی، جنسی الجھنوں کا شکار، میرا جی، جسے ’’خود لذتی‘‘ کی لت نے واماندہ کر دیا تھا، میرا جی نفسیاتی کمزوریوں کا پلندہ، کیا ایسا شخص ایسی نظم لکھ سکتا تھا؟ اور اگر لکھ سکتا تھا تو پھر اس کی پس ماندگیوں اور کمزوریوں وغیرہ وغیرہ سے ہمیں کیا لینا دینا ہو سکتا ہے ؟ایسا موضوع، اور ایک لفظ بھی فحش یا عریاں نہیں، فحش اور عریاں تو الگ رہے، نظم کا اسلوب اس قدر لطیف اور لفظیات اس قدر اشاراتی ہے کہ اکثر لوگ سمجھ ہی نہ پائیں گے کہ کیا بات کہی جا رہی ہے۔ لوگ جنسی مضامین کی شاعری کے لیے لاطینی شاعر او وڈ (Ovid) اور عربی کے ابو نواس اورسنسکرت کے امارو کا نام لیتے ہیں۔ نثر کے لیے ڈی۔ ایچ۔ لارنس (D. H. Lawrence) کا ذکر کرتے ہیں۔ میں ٹھوس فحشیات (Hard Pornography) کی بات نہیں کرتا، ورنہ دنیا کے ادب میں اور مثالیں بھی تھیں۔ میں کہتا ہوں جنسی موضوعات پر ’’رس کی انوکھی لہریں ‘‘ اور ’’بعد کی اڑان‘‘ کا جواب کوئی لائے تو میں دیکھوں۔
اس نظم کے بارے میں آخری بات یہ کہنی ہے کہ قصص الا نبیا کے مطابق جب حضرت نوحؑ کو محسوس ہوا کہ طوفان تھم گیا ہے، پانی اتر گیا ہے اور زمین اب محفوظ ہے تو انھوں نے صورت حال کی خبر لانے کے لیے ایک کوے کو بھیجا۔ لیکن کوے میاں باہر گئے تو پھر واپس ہی نہ آئے۔ کچھ دیر انتظار کے بعد حضرت علیہ السلام نے ایک فاختہ سے کہا کہ تو جا، اور جلد خبر لا۔ فاختہ باہر گئی اور تھوڑی ہی دیر میں زیتون کی ایک ٹہنی کو چونچ میں دبائے ہوئے واپس آ گئی اور اس طرح حضرت علیہ السلام مطمئن ہوئے کہ طوفان فرو ہو چکا ہے۔ میرا جی نے اپنی نظم میں کاجل کی مناسبت سے کوے کو طوفان کے تھمنے کی خبر لانے والا بتایا ہے۔
نظم کے مطابق رات میں تو دونوں کو کچھ خبر نہ تھی۔ اور اس سے بڑھ کر یہ کہ رات میں کوے (کاجل) سے کسی کو کوئی ڈر تھا ہی نہیں۔ متکلم جہاں پہنچا ہوا تھا وہاں بچارا کاجل کیا پہنچتا۔ لیکن صبح کو کئی باتوں کے باعث کاجل کا مٹتا ہوا نشان متکلم کے لیے اہم بن جاتا ہے : متکلم اور کاجل میں شاید رنگ کا اشتراک ہے اور کاجل اب جو پھیل کر لڑکی کے گال کی طرف آیا چاہتا ہے تو اسے خیال آتا ہے کہ میں بھی تو کالا ہوں۔ اور یہ کالا شاید میرا رقیب بننا چاہتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ بندیا کے سرخ نشان سے تو یہ بات ثابت نہ تھی کہ رات کو اشتیاق اور ابتہاج کا کیا عالم تھا۔ کاجل کا پھیلنا اور مٹنا رات کو نظر آیا ہی نہ تھا۔ اب جو آنکھوں اور رخسار کا یہ منظر دیکھا تو متکلم کو پتہ لگا کہ رات کیا اور کس طرح گذری تھی۔ حضرت نوحؑ کے کوے نے انھیں خبر نہ دی ہو، لیکن یہ کوا مجھے بتا رہا ہے کہ رات کے طوفان کا کیا رنگ تھا۔ تیسری بات یہ کہ کوا بالآخر اڑتا اڑتا وہاں پہنچا جہاں رات شاید طوفان نوح سے بڑھ کر طوفانی رہ چکی تھی۔ لیکن کوا حضرت نوحؑ کو خبر دینے واپس کے جانے کے پہلے اپنا کام بھی پورا کرنے کے فراق میں ہے :
اڑتے اڑتے بھلا دیکھو تو کہاں آ پہنچا،
چوم ہی لے گا…
چوتھی بات یہ کہ طوفان شاید تھم گیا ہو، جیسا کہ متکلم نے ہمیں خود بتایا ہے۔ لیکن متکلم کے اشتیاق اور ہوس میں شاید کچھ زیادہ کمی نہیں آئی ہے، ورنہ وہ اس بات پر برہم نہ ہوتا کہ کاجل کا نشان یوں لگتا ہے جیسے کوئی چالاک کوا چپکے سے بڑھ کر لڑکی کے رخسارپر بوسہ دینے والا ہو۔
مضمون ختم کرنے سے پہلے یہ کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ آپ یہ نہ گمان کریں کہ میں میرا جی کی جنسی شاعری ہی کو لائق اعتنا سمجھتا ہوں، یا یہ کہ ان کی اس طرح کی نظموں میں یہی دو نظمیں قابل ذکر ہیں۔ میرا جی نے اتنی طرح کی نظمیں کہی ہیں اور اتنی کثیر تعداد میں کہی ہیں کہ دو چار نظموں کے انتخاب سے ان کی کیفیت اور کمیت کا اندازہ نہیں ہو سکتا۔ میں نے یہ صرف دو نظمیں اس لیے منتخب کیں کہ مجھے ’’رس کی انوکھی لہریں ‘‘ اور ’’بعد کی اڑان‘‘ ایک ہی نظم کے دو روپ، یا ایک ہی تصویر کے دو پہلو لگتے ہیں۔ اتنا اتحاد نہ سہی، لیکن یہ تو یقینی ہے کہ ’’رس کی انوکھی لہریں ‘‘ اگر کچھ نامکمل سی لگتی تھی تو ’’بعد کی اڑان‘‘ اسے مکمل کرتی نظر آتی ہے۔
افسوس کہ یہ دونوں نظمیں (بلکہ بدنام نظموں کے سوامیرا جی کی اکثر نظمیں ) لوگوں کی توجہ کا مرکز نہیں بن سکی ہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ گیتا پٹیل نے اپنی کتاب میں ان دونوں نظموں (’’رس کی انوکھی لہریں ‘‘ اور ’’بعد کی اڑان‘‘) کا اچھا خاصا انگریزی ترجمہ پیش کیا ہے۔ میراجی کے ایک مجموعے کا نام ’’تین رنگ‘‘ ہے۔ اختر الایمان نے جو مجموعہ مرتب اور شائع کیا تھا اس کا نام ’’سہ آتشہ‘‘ ہے۔ اگر مجھے غلط یاد نہیں تو دونوں عنوان میرا جی کے رکھے ہوئے تھے۔ کسی اور کو نہ سہی، انھیں خوب معلوم تھا کہ ان سے متنوع اور بھر پور شاعر اس وقت کوئی نہ تھا اور میں کہہ سکتا ہوں کہ آج بھی کوئی نہیں ہے۔ مجھ سے پوچھیے تو میں کہوں گا کہ میرا جی کی متعدد نظمیں دنیا کی بہترین جدید شاعری کے سامنے رکھی جائیں تو میرا جی ہیٹے نہ رہیں گے۔ تراجم، گیتوں اور غزلوں کو الگ رکھ کے میں ان کی کم از کم سولہ (۱۶) نظموں کو تمام جدید شاعری کا طرۂ امتیاز سمجھتا ہوں اور وہ حسب ذیل ہیں۔ :
(۱) آبگینے کے اس پار کی ایک شام (۲۴۰)
(۲) افتاد (۱۰۷، نظم کا پہلا مصرع ہے : اپنے اک دوست سے ملنے کے لیے آیا ہوں۔ اسی عنوان کی ایک اور نظم ہے جو میرا جی کی بیاض سے ملی تھی۔ یہ دوسری نظم جمیل جالبی کی مرتبہ کلیات میرا جی میں صفحہ ۴۵۱ پر درج ہے۔ )
(۳) انجام (۱۹۲)
(۴) بعد کی اڑان (۱۱۴)
(۵) بلمپت (۳۸۴)
(۶) جاتری (۱۳۲)
(۷) جنگل میں اتوار (۴۷۳، یہ نظم میرا جی اور یوسف ظفر نے مل کر لکھی تھی اور پہلی بار میرا جی کی مرتبہ کتاب ’’اس نظم میں ‘‘ میں نظر آئی ہے۔ )
(۸) رس کی انوکھی لہریں (۱۶۱)
(۹) ریل میں (۱۳۸)
(۱۰) سمندر کا بلاوا (۲۲۹)
(۱۱) مجھے گھر یاد آتا ہے (۳۹۴)
(۱۲) محرومی (۱۲۹)
(۱۳) ناگ سبھا کا ناچ (۵۹)
(۱۴) یگانگت (۲۳۷)
یہ نظمیں میرا جی کے مختلف مجموعوں اور جمیل جالبی کی کلیات میں شامل ہیں۔ جمیل جالبی کی کلیات کے اعتبار سے صفحات کے نمبر میں نے ہر عنوان کے آگے لکھ دیے ہیں۔ میں ان کے علاوہ شیما مجید کی کتاب ’’باقیات میرا جی‘‘ میں شامل حسب ذیل نظمیں بھی فہرست میں شامل کرتا ہوں۔ یہاں صفحات کے نمبر اسی کتاب کے ہیں :
(۱۵) آوازیں (۱۱۱)
(۱۶) تذبذب (۹۲)
’’تذبذب‘‘ ایسی عجیب و غریب نظم ہے، اور اس کا آہنگ اور ہیئت اس قدر تازہ اور دلکش ہیں کہ اس کا پہلا اور پانچواں (یعنی آخری ) بند سنائے بغیر جی نہیں مانتا، تجزیہ کسی اور وقت کے لیے اٹھا رکھتا ہوں (میں نے کتابت کے اغلاط درست کر دیے ہیں ) :
یہ بالوں میں لہروں کا سماں ہے کس کے لیے کہو کس کے لیے
گالوں پر جو سرخی ہے عیاں ہے کس کے لیے کہو کس کے لیے
یہ ماتھے پر بندی کا نشاں ہے کس کے لیے کہو کس کے لیے
یہ آنکھوں میں اک اور جہاں ہے کس کے لیے کہو کس کے لیے
لہروں کا سماں اک اور جہاں سرخی بندی سب دھوکا ہے
تم دیکھ کے گر للچاتے ہو تو تم کو کس نے روکا ہے
دکھ درد سے چھٹکارا ہے کہاں ہے کس کے لیے کہو کس کے لیے
یہ بالوں میں لہروں کا سماں ہے کس کے لیے کہو کس کے لیے
کشتی کا باقی رہا جو نشاں ہے کس کے لیے کہو کس کے لیے
اب چھوڑو نہیں اب کہہ دو ہاں ہے کس کے لیے کہو کس کے لیے
یہ ہاں یہ نہیں یہ نہیں یہ ہاں یہ دونوں باتیں دھوکا ہیں
ان دونوں میں ہے سفر پنہاں یہ دونوں باتیں دھوکا ہیں
جن لوگوں نے میرا سین اور سحاب قزلباش اور بودلی بیگم پر ایمان لانا ضروری قرار دیا ہے وہ اس نظم کو پڑھ کر دیکھیں، انشا ء اللہ نفع ہو گا۔