(ڈاکٹر رشید امجد کا پی ایچ ڈی کا مقالہ)
ادبی دنیا میں آنے سے پہلے اپنی ٹین ایج میں میرے پسندیدہ شاعر وہی شعراءتھے جو ٹین ایجرز کے سدا بہار شاعر ہیں۔لیکن انہیں شاعروں میں ،اُن شاعروں سے یکسر مختلف میراجی بھی شامل تھے جنہیں میں نے ٹین ایج میں ہی حیرت کے ساتھ پڑھا تھا۔ان کا شعری مجموعہ” تین رنگ“ مجھے کہیں سے ملا تھا اور میں نے اس کی نظمیں،گیت اور غزلیںاسی عمر میں پڑھ لی تھیں۔یہ غالباً ۱۹۶۹ء کا سال تھا۔(عمر ۱۷سال)جب میں نے میرا جی کو کچھ سمجھا ،کچھ نہیں سمجھا مگر کوئی انوکھا سا شعری ذائقہ ضرور محسوس کیا۔تب جہاں میں نوکری کرتا تھا، اس ملز میں لیبارٹری کے دوستوں کا بیت بازی کا مقابلہ ہوا تھا اور اس میں سب سے زیادہ میرا جی کے شعر پڑھے گئے ۔بیت بازی کا فیصلہ میرا جی کی ایک غزل نے کرایا۔
گناہوں سے نشوونما پا گیا دل درِ پختہ کاری پہ پہنچا گیا دل
لام سے شروع ہونے والے اشعار ختم ہو گئے اور میرا جی کی اس غزل کے شعر ابھی باقی تھے۔اسی کتاب میں ایک نظم غالباً ”خلا “کے عنوان سے تھی۔
خدا نے الاؤ جلایا ہوا ہے
اسے کچھ دکھائی نہیں دے رہا ہے
ٹین ایج،خام ذہن اور ایسی بات۔۔۔اس کے بعد میرا جی کو مربوط طور پر پڑھنے کا موقعہ تو نہیں ملا لیکن ادبی رسائل کے ذریعے کافی کچھ پڑھنے کو ملتا رہا، تعارف بڑھتا رہا۔یوں جدید نظم کے حوالے سے ان کی اہمیت کا احساس بھی ہوتا گیا۔
میرا جی پر اب تک کافی کام ہو چکا ہے۔ایم اے اردو کا تحقیقی مقالہ انوار انجم نے لکھا ،متعدد اہم ادبی رسائل نے میرا جی سے متعلق دستیاب یادگار مواد کو محفوظ کیا۔اور اب زیرِ نظر کتاب ڈاکٹر رشید امجد کا تحقیقی مقالہ ہے جس پر انہیں پی ایچ دی کی ڈگری دی گئی ہے۔ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا اس مقالہ میں ان کے نگران تھے۔میں سمجھتا ہوں جدید نظم میں میرا جی جتنی اہم شخصیت ہیں ،رشید امجد جدید افسانے میں لگ بھگ اتنی ہی اہم شخصیت ہیں۔لگ بھگ اس لیے لکھا ہے کہ ہلکے سے تقدم و تاخر کی گنجائش موجود ہے لیکن اس کے باوجودرشید امجد کا جدید افسانے کے حوالے سے جو کام ہے وہ میرا جی کے جدید نظم والے کام جتنا ہی اہم ہے۔شاید اسی لیے رشید امجد نے نہ صرف دستیاب معلومات سے استفادہ کیا ہے بلکہ میرا جی کو جدید ادب کے باطنی حوالوں سے بھی عمدگی سے دریافت کیا ہے۔
اس مقالہ کے سات ابواب ہیں۔پہلا باب خاندانی،سوانحی اور شخصی حالات پر مشتمل ہے اور یہ باب اس مقالہ کا اہم ترین حصہ ہے۔اس باب میں میرا جی کے بارے میں جو اہم معلومات یکجا ہوئی ہے اسے اختصار کے ساتھ بیان کیے دیتا ہوں۔
میرا جی کا اصل نام ثناءاللہ ڈار تھا۔۲۵مئی ۱۹۱۲ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔(ایک روایت میں گجرات بھی مذکور ہے)ان کے والد منشی محمد مہتاب الدین کی پہلی بیوی فوت ہوئیں تو انہوں نے میرا جی کی والدہ سے شادی کر لی جو عمر میں منشی صاحب سے بہت چھوٹی تھیں۔عمروں کے اس تفاوت نے بھی میرا جی کے ذہن پر گہرا اثر ڈالا۔ان کے والد کو ریلوے کی ملازمت کی وجہ سے مختلف شہروں میں قیام کرنا پڑا۔گجرات کا ٹھیا واڑ سے لے کر بوستان ، بلوچستان تک انہوں نے سکھر،جیکب آباد،ڈھابے جی،جیسے مقامات گھوم لیے۔بنگال کے حسن کے جادو نے انہیں لاہور میں اپنا اسیر کیا ۔۱۹۳۲ء میں انھوں نے ایک بنگالی لڑکی میرا سین کو دیکھا اور پھر اسی کے ہو رہے۔یہ سراسر داخلی نوعیت کا یکطرفہ عشق تھا۔ میرا سین کو اس کی کلاس فیلوز میرا جی کہتی تھیں،چنانچہ ثناءاللہ ڈار نے اپنا نام میرا جی رکھ لیا اور رانجھا رانجھا کردی نی میں آپے رانجھا ہوئی کی زندہ مثال بن گئے۔اس عشق میں میٹرک پاس نہ کر سکے۔ہومیو پیتھک ڈاکٹری سیکھ لی لیکن نہ اس کی بنیاد پر ڈاکٹر کہلوانا مناسب سمجھا اور نہ ہی اس مہارت سے کوئی تجارتی فائدہ اٹھایا ۔ بال بڑھا لیے، ملنگوں جیسا حلیہ اختیار کر لیا۔پھر اس میں تدریجاً ترقی کرتے گئے،لوہے کے تین گولے،گلے کی مالا،لمبا اور بھاری بھر کم اوور کوٹ،بغیر استر کے پتلون کی جیبیں اور ہاتھ عام طور پر جیب کے اندر،بے تحاشہ شراب نوشی،سماجی ذمہ داریوں سے یکسر بے گانگی۔۔۔یہ سارے نشان میرا جی کی ظاہری شخصیت کی پہچان بنتے گئے۔بقول محمد حسن عسکری :
”جب انہوں نے دیکھا کہ دوست انہیں افسانہ بنا دینا چاہتے ہیں تو بے تامل افسانہ بن گئے،اس کے بعد ان کی ساری عمر اس افسانے کو نبھاتے گزری“۔
میرا سین سے میرا جی کی پہلی ملاقات یا پہلی باردیکھنا ۲۰مارچ ۱۹۳۲ء کا واقعہ ہے۔وہ اپنی تعلیم مکمل کرنا تو کیا میٹرک بھی نہ کر سکے۔اس کے باوجود انگریزی زبان اور ادب پر ان کی گہری نظر تھی۔جدید نظم کا تجربہ انگریزی ادب سے ہی آیا تھا میرا جی نے اسے ہندوستان کی مقامیت میں گوندھ کر اردو کی مستقل اور جاندار صنف بنادیا۔ان کے کئے ہوئے سارے تراجم بھی انگریزی سے ہوئے ہیں۔پھر ان کی تنقیدی بصیرت میں مغربی علوم سے مثبت استفادہ کے ساتھ اسے اپنے ادب کے تناظر میں دیکھنے کا رویہ بھی موجود ہے۔یوں میٹرک فیل میرا جی ،جو ظاہری زندگی میں ایک ملنگ سا شاعر ہے ادب کے معاملہ میں بہت ذمہ دار دکھائی دیتا ہے۔۲۹اپریل ۹۱۳۶ء کو بزم داستاں گویاں کے نام سے لاہور میں ایک ادبی تنظیم قائم ہوئی جو بعد میں حلقہ ارباب ذوق بن گئی۔۵۲اگست ۰۴۹۱ءکو میرا جی پہلی مرتبہ حلقہ کے اجلاس میں شریک ہوئے،ان کی آمد نے حلقہ میں ایک نئی روح پھونک دی۔
میرا جی کے والد نے ریٹائرمنٹ کے بعد ملنے والی رقم سے مولانا صلاح الدین احمد کے ساتھ مل کر ایک ایڈورٹائزنگ ایجنسی کھولی ۔لیکن ایجنسی گھاٹے کا شکار ہوئی۔نوبت مقدمہ بازی تک پہنچی۔ایسی فضا میں میرا جی نے مولانا صلاح الدین احمد کے ادبی رسالہ ”ادبی دنیا“میں شمولیت اختیار کر لی۔والد نے برا منایا تو انہیں سمجھا بجھا دیا۔ ”ادبی دنیا“ میں ان کی شمولیت سے جدید ادبی رویوں کو فروغ ملنے لگا۔ ۱۹۴۲ء میں ”ادبی دنیا“ کو چھوڑ کردہلی گئے۔جون ۱۹۴۷ء کو بمبئی گئے لیکن اپنے مخصوص مزاج کے باعث دنیا داری میں کہیں بھی کامیاب نہ ہو سکے۔لاہور کے زمانہ سے لے کر دہلی کے دور تک طوائفوں کے پاس بھی جاتے رہے اور لاہور کی ایک طوائف سے آتشک کا موذی تحفہ لے کر آئے۔دہلی میں ریڈیو کی ملازمت کے دوران دو اناؤنسرز کو کچھ پسند کرنے لگے لیکن ایک اناؤنسر کی پھٹکار کے بعد میرا سین کی مستی میں واپس چلے گئے۔بمبئی کی فلمی دنیا میں پاؤں جمانے کی کوشش کی۔مگر کامیاب نہ ہوئے۔اس دوران ماں سے ملنے کی خواہش لاہور جانے پر اکساتی رہی ،لاہور تو نہ جا سکے البتہ ”سمندر کا بلاوا“ جیسی خوبصورت نظم تخلیق ہو گئی۔ایک بار والدہ سے ملنے کے لیے معقول رقم جمع کر لی تھی کہ ایک تانگے والے نے اپنا مسئلہ بتایا کہ رقم نہ ہونے کی وجہ سے شادی نہیں ہو رہی۔میرا جی نے ساری رقم اٹھا کر تانگے والے کو دے دی اور والدہ سے ملنے کا پروگرام موخرکر دیا جوتادمِ مرگ موخر ہی رہا۔ایک اور موقعہ پر ایک ترقی پسند شاعرکی درد بھری داستان سن کر ساری جمع پونجی اس کے حوالے کر دی۔بمبئی میں سخت غربت،بھیک مانگنے جیسی حالت ،دن میںچالیس سے پچاس تک پان کھانے کی عادت، کثرت شراب نوشی ،استمنا بالیداورآتشک کے نتیجہ میں ۳نومبر ۱۹۴۹ء کو میرا جی بمبئی کے ایک ہسپتال میں ساڑھے ۳۷سال کی عمر میں وفات پا گئے۔الطاف گوہر کی تحریر کے مطابق ”مرنے سے چند دن پہلے جب ایک پادری نے ان سے پوچھا ۔۔’آپ یہاں کب سے ہیں ؟ ‘
تو میرا جی نے بڑی متانت سے کہا۔۔’ازل سے‘۔“
اخترالایمان نے بڑی وضاحت سے لکھا ہے کہ چونکہ تقسیم بر صغیر کے معاً بعد کا زمانہ تھا ۔اس لیے میرا جی جیسا شاعرجو زندگی بھر قدیم ہندوستان کی رُوح کا پرستاررہا ،اس کا مسلمان اور پاکستانی ہونا تعصب کا موجب بن گیا۔اخترالایمان نے خود اخبارات کے دفاتر میں فون کر کے خبر دی۔دوسرے دن خود جا کر میرا جی کی وفات کی خبر دی لیکن کسی اخبار نے ان کی وفات کی خبر چھاپنا گوارا نہیں کیا۔میرا جی کو بمبئی کے میری لائن قبرستان میں دفن کیا گیا۔جنازے میں صرف پانچ افراد شامل ہوئے۔اخترالایمان،نجم نقوی،مدھو سودن،مہندرناتھ اور آنند بھوشن۔
میرا جی کی داستان کے اس مقام پر ڈاکٹررشید امجد نے میرا جی کی ایک غزل کا ایک مصرعہ بڑا ہی برجستہ درج کیا ہے نگری نگری پھرا مسافر گھر کا رستہ بھول گیا
میرا جی اپنی زندگی کے مختصر دور میں دہلی،لاہور،بمبئی،پونہ تک جن مختلف ادیبوں کے کسی نہ کسی رنگ میں قریب رہے ، ان میں سے چند نام یہ ہیں۔مولانا صلاح الدین احمد،شاہد احمد دہلوی،منٹو،یوسف ظفر،قیوم نظر، الطاف گوہر،مختار صدیقی،ن۔م۔راشد،اخترالایمان،راجہ مہدی علی خان،کرشن چندر،احمد بشیر،محمود نظامی،و دیگر۔
مقالہ کے دوسرے باب میں میرا جی کی نظم نگاری پر بات کی گئی ہے۔تیسرے باب میں میرا جی کے گیتوں اور غزلوں کا جائزہ لیا گیا ہے۔چوتھے باب میں ان کی تنقید کے حوالے سے بات کی گئی ہے۔پانچویں باب میں میرا جی کے تراجم کا احوال بیان کیا گیا ہے ۔چھٹے باب میں میرا جی کی نثر کا ذکر کیا گیا ہے۔یہاں کم از کم مجھے پہلی بار علم ہوا کہ اپنی عام ظاہری ہیئت کے بر عکس انہوں نے حالاتِ حاضرہ کے حوالے سے اور سماجی موضوعات پر بھی بعض فکر انگیز مضامین تحریر کیے تھے اور علم فلکیات میں بھی انہیں دلچسپی تھی ۔ساتویں باب میں مذکورہ تمام حوالوں سے میرا جی کے ادبی مقام کا تعین کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر رشید امجد نے میرا جی کی ذاتی زندگی سے لے کر ان کے ادبی مقام تک مقالہ لکھتے ہوئے انتہائی محنت اور عرق ریزی سے کام لیا ہے۔تحقیق کے تقاضوں کو پوری طرح ملحوظ رکھا ہے۔مختلف اور متضاد آراءکو بھی یکجا کیا ہے اور اپنی طرف سے اپنا تجزیہ بھی پیش کیا ہے۔
یہاں ڈاکٹر رشید امجد کے ایسے تجزیوں کے چند اقتباس پیش کر دینا مناسب سمجھتا ہوں۔
”میرا جی خود کو تکلیف دے کر ایک طرح کی خوشی محسوس کرتے تھے۔ان کا کچھ تعلق ملامتی فرقے سے بھی بنتا ہے۔ملامتی خود کو برا بھلا کہہ کر ایک قسم کی روحانی بالیدگی حاصل کرتے ہیں۔میرا جی کے یہاں کچھ ملامتی اور کچھ بھگتی تحریک کے اثرات نے ایک ملی جلی کیفیت پیدا کر دی تھی لیکن مکمل طور پر انہیں کسی خانے یا خاص اثر کے تحت نہیں دیکھا جا سکتا۔بہت سے اثرات سے مل کر جو کچھ بنا وہ خالصتاً”میرا جیت“ تھی“(ص ۹۵)
”یہ ان کا بہت سوچا سمجھا فیصلہ تھا کہ وہ ثناءاللہ ڈار کی حیثیت سے نہیں بلکہ میرا جی کی حیثیت سے زندہ رہیں گے۔انہوں نے اپنی شخصیت کی یہMythممکنہ رنج و غم سہہ کر بنائی تھی اور یہ محض ڈرامہ نہیں تھا کیونکہ ساری زندگی دکھوں کی نگری میں مارا مارا پھرنے والا مسافر اتنا طویل ڈرامہ نہیں کر سکتا۔یہ تو ایک شخصیت کیMythکی تعمیر تھی جس کے لیے انہوں نے ثناءاللہ ڈار ہی کی قربانی نہیں دی بلکہ تمام ظاہری آرام و آسائش اور معمولات سے بھی کنارہ کشی کی۔زندگی کا جہنم بھوگ کر وہ میرا جی کو زندہ کر گئے۔یہی ان کا مقصد بھی تھا اوریہی ان کا ثمر بھی ہے۔(ص۱۰۵)
میرا جی کی نظم نگاری کے حوالے سے ڈاکٹر رشید امجد لکھتے ہیں:
”میرا جی کی شاعری میں تنوع ہے ہی ایسا کہ اس کی کئی جہتیں وا ہوتی چلی جاتی ہیں“(ص۱۵۸)
”میرا جی کی نظموں کا منظر نامہ اتنا پھیلا ہوا اور متنوع ہے کہ اس میں داخلیت پسندی کا گزر ہی نہیں ہو سکتا۔ہاں یہ ضرور ہے کہ انہوں نے اس خارجی منظر نامے اور وسیع کینوس کو اپنی ذات کے حوالے سے دیکھا اور بیان کیا ہے۔
داخلیت پسندی اور بیمار ذہنیت کے الزامات میرا جی پر ان لوگوں نے لگائے تھے جو ان کی نظموں کی تہہ تک نہیں پہنچ سکے۔“(ص ۱۵۹)
میرا جی کی گیت نگاری اور غزل گوئی کے بارے میں ڈاکٹر رشید امجد اپنی رائے کا اظہار یوں کرتے ہیں:
”میرا جی کے گیتوں میں جو کرب اور دکھ ہے وہ ان کی ذات کے ایوان سے چھن چھن کر وہاں آرہا ہے اور خاص طور پر سنجوگ کی ایک کیفیت،تمناؤں کی مستقل کسک،اور آشاؤں کی ایک بے انت دنیا،یہ سب ان کی ذات کے وہ گوشے ہیں جو ان کے مزاج کو گیت کے قریب لاتے ہیں اور گیت بطور صنف ان کے اس مزاج سے ایسا تال میل کھاتا ہے کہ میرا جی کے گیت نہ صرف یہ کہ ایک انفرادی حیثیت حاصل کرتے ہیں بلکہ ان کی ایک پہچان بھی بنتے ہیں“(ص ۱۷۱۔۱۷۲)
”میرا جی کی یہ غزلیں اسلوب اور اظہار کے حوالے سے ایک منفرد حیثیت رکھتی ہیں۔ان کی لفظیات بھی وہی ہیں جو میرا جی کی نظموں اور گیتوں کی ہیں۔گویا انہوں نے اپنے گیتوں کے مزاج کو غزل کے مزاج سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی ہے،اس لیے یہ غزلیں نظم کا رنگ بھی لیے ہوئے ہیں“(ص۱۸۷)
یہاں میں اپنی طرف سے یہ بات ایزاد کرنا چاہوں گا کہ میرا جی اپنے عہد کے نظم نگاروں میں بھی اور بعد میں آنے والے بیشتر اہم نظم نگاروں میں بھی اس لحاظ سے منفرد مثال ہیں کہ تخلیقی لحاظ سے جتنی ان کی نظمیں اعلیٰ پائے کی ہیں،اتنی ہی ان کی غزلیں بھی اعلیٰ پائے کی ہیں۔یہ الگ بات کہ انہوں نے غزلیں بہت کم کہی ہیں۔ان کے برعکس ہمارے بیشتراچھے نظم نگار (بہ استثنائے چند)جب غزل کہتے ہیں تو بہت ہی کمزور غزل کہہ پاتے ہیں۔
میرا جی کی تنقیدی بصیرت ان کی تنقیدی آراءسے عیاں ہے۔ایم ڈی تاثیر کی ایک نظم میں تخلص کے استعمال پر میرا جی نے اپنی رائے کا اظہار یوں کیا:
”تخلص غزل کی پیداوار ہے اور غزل تک ہی اسے محدود رہنا چاہیے کیونکہ غزل میں اس کی کھپت بہت خوبی سے ہو جاتی ہے۔نظم میں اس کے استعمال سے تسلسل میں فرق پڑتا ہے۔خصوصاََ اس نظم میں جس کی خوبی اس کے تصورات کا بہاؤ ہے۔ایسی نظم میں موضوع سے قرب ہر لمحہ ضروری تھا اور تخلص موضوع کی بجائے شاعر کے قریب لے جاتا ہے۔“(ص۲۰۰)
ڈاکٹررشید امجد نے میرا جی کی تنقید نگاری کے سلسلے میں کئی اہم نکات کی طرف توجہ دلائی ہے۔ان کے بقول:
”میرا جی کا رجحان نفسیاتی تنقید کی طرف تھا لیکن انہوں نے نظموں کا تجزیہ کرتے ہوئے اسے ایک فریم کے طور پر استعمال نہیں کیا۔انہوں نے مختلف شاعروں کی نظموں کا تجزیہ کیا ہے،ان میں ترقی پسند بھی شامل ہیں،جن کے نظریات سے ان کا بنیادی اختلاف تھا،لیکن انہوں نے ان کی نظموں کو ان کے نظریے کی روشنی میں رکھ کر ان کا فنی تجزیہ کیا ہے،اس کا مطلب یہ ہے کہ میرا جی فن پارے کو کسی مخصوص نظریے سے دیکھنے کی بجائے اس کی فنی حیثیت کو سامنے رکھتے تھے“(ص۲۰۲)
”نظم کے بنیادی خیال کی تلاش میرا جی کی تنقید کا مرکزی نقطہ ہے اور اس مرکزی نقطہ کو وہ اکثر نفسیاتی توجیہات سے واضح کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں“(۲۰۴)
”میرا جی کی تنقید میں ایک تحقیقی ذائقہ بھی شامل ہے۔یہ در اصل ان کے وسیع مطالعہ کی عطا ہے“(۲۰۹)
میرا جی کی ایک خوبصورت نظم ”میں ڈرتا ہوں مسرت سے“دیکھیے:
میں ڈرتا ہوں مسرت سے
کہیں یہ میری ہستی کو
پریشاں کائناتی نغمۂ مبہم میں الجھا دے
کہیں یہ میری ہستی کو بنا دے خواب کی صورت
مِری ہستی ہے اک ذرہ
کہیں یہ میری ہستی کو چکھا دے کہر عالم تاب کا نشہ
ستاروں کا علمبردار کر دے گی،مسرت میری ہستی کو
اگر پھر سے اسی پہلی بلندی سے ملا دے گی
تو میں ڈرتا ہوں۔۔۔ڈرتا ہوں
کہیں یہ میری ہستی کو بنادے خواب کی صورت
میں ڈرتا ہوں مسرت سیکہیں یہ میری ہستی کو
بھلا کر تلخیاں ساری
بنا دے دیوتاؤں سا
تو پھر میں خواب ہی بن کر گزاروں گا
زمانہ اپنی ہستی کا
اس نظم کے حوالے سے ڈاکٹر رشید امجد نے میرا جی کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ہے :
”ان کے نزدیک اگر انسانی زندگی سے درد کی میراث چھِن جائے تو آدمی محض دیوتا بن جاتا ہے،یا محض خواب۔میرا جی کے نزدیک تلخیوں سے بھرا ہوا انسان مسرت کے ان لمحوں سے زیادہ قیمتی ہے جہاں آدمی دیوتا بن جاتا ہے یا خواب۔دونوں کیفیتیں میرا جی کے یہاں ایک ہیں۔دنیا کے دکھوں سے بھرے لوگ ان کے نزدیک معراج انسانیت ہیں،اسی لیے انہیں وہ لوگ بھی عزیز ہیں جو دکھوں کی دلدل میں ہمیشہ پھنسے رہتے ہیں۔اس سے یہ بھی نہ سمجھا جائے کہ وہ دکھوں کے حامی ہیں۔اصل بات یہ ہے کہ ان کے نزدیک انسان کا مقدر دکھوں سے عبارت ہے اور خوشیاں اس کے مقابلے میں نا پائیدار ہیں“
(ص۱۵۰ )
اپنے تجزیے میں آگے چل کر ڈاکٹر رشید امجد نے مہابھارت کے حوالے سے ایک بڑی عمدہ مثال پیش کی ہے۔جنگ کے خاتمہ پر جب کرشن جی مہاراج دوارکا جانے لگے تو تو انہوں نے مہارانی کنتی سے کہا کہ اے ماتا ! میں واپس جانے لگا ہوں تم کوئی ور مانگ لو۔اس پر مہارانی کنتی نے پوچھا مہاراج آپ واپس کب آئیں گے؟
اس پر کرشن جی نے کہا کہ جب تم دکھ اور تکلیف میں ہو گی تب واپس آجاؤں گا۔اس پر ماتا کنتی نے ور مانگا کہ سدا دکھ اور تکلیف میں رہوں۔اس قصہ کو بیان کرنے کے بعد ڈاکٹر رشید امجد لکھتے ہیں:
”کنتی اور میرا جی نے ایک ہی ور مانگا ہے یعنی دکھ اور تکلیف کا ور، لیکن کنتی اور میرا جی کے ور میں فرق یہ ہے کہ ماتا کنتی نے یہ ور کرشن جی کے درشنوں کے لیے مانگاتھا مگر میرا جی نے یہ خواہش بھی نہیں کی،انہوں نے ایک طرف تو دکھ اور تکلیف کا انتخاب کیا اور میرا سین کی واپسی کی خواہش کی بجائے خود میرا سین بن کر اسے ہمیشہ کے لیے اپنے اندرسمو لیا۔رانجھا رانجھا کردی نی میں آپ ای رانجھا ہوئی“(ص۱۵۱)
اپنے مقالہ کے صفحہ ۱۶۰تا ۱۶۱پر انہوں نے میرا جی کی نظم کی انفرادیت کے جو گیارہ نکات بیان کیے ہیں،وہ سب اپنی جگہ اہمیت کے حامل ہیں ۔ ڈاکٹررشید امجدکی تحقیقی و تنقیدی بصیرت یہاں کمال کو پہنچی ہوئی ہے۔
ڈاکٹر رشید امجد کی یہ رائے میرا جی کی شخصیت کے ایک مخفی پہلو کو روشن کرتی ہے:
”جنس کا حوالہ میرا جی کے ساتھ اس طرح چپک گیا ہے کہ عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ میرا جی کا سارا مسئلہ جنس ہی ہے اور انہوں نے دوسرے مسائل کی طرف بالکل توجہ نہیں دی۔در اصل میرا جی کے شخصی افسانے نے ان کے گرد ایک ایسا ہالہ بنا دیا ہے کہ اس سے باہر نکلنے کی دوسروں نے کو ئی کو شش ہی نہیں کی اور عام لوگ میرا جی کو ان افسانوں اور ان کی شاعری پر ہونے والے سطحی اعتراضات ہی کے حوالے سے جانتے ہیں۔یہ بات بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ میرا جی نے اپنے مضامین میں جس سیاسی اور سماجی شعور کا اظہار کیا ہے اور ان کے مضامین جس طرح بر صغیر کی سیاسی،سماجی اور اقتصادی صورت حال کا احاطہ کرتے ہیں وہ شعور ان کے بہت کم ہم عصروں کو حاصل تھا۔عام طور پر میرا جی کو اینٹی ترقی پسند سمجھا جاتا ہے لیکن میرا جی نے اپنے مضامین میں بر صغیر کی اقتصادی صورتحال کے جو تجزیے کیے ہیں وہ ان کے عہد کا بڑے سے بڑا ترقی ترقی پسندبھی نہیں کرتا“(ص۲۸۷)
آج کل مابعد جدیدیت کے نام پر، قاری (در حقیقت غیر تخلیقی نقاد) کی قرات کو غیر ضروری بلکہ ناجائزاہمیت دلانے کا کھیل چل رہا ہے۔ یوںقاری کی اہمیت کے جو” راز“ کھولے جارہے ہیں میرا جی نے کسی لسانی گورکھ دھندے کے بغیر آج سے ساٹھ ستر سال پہلے اس بات کا معقول پہلو آسان لفظوں میں بیان کر دیا تھا اور نا معقول پہلو آج کے مابعد جدید نقاد کے لیے چھوڑ دیا تھا۔ان کے ایک مضمون کا یہ اقتباس دیکھیے :
”ہر لفظ ایک تصور یا خیال کا حاصل ہے اور اس تصور یا خیال کے ساتھ ساتھ ہی اس کے لوازم بھی ایک ہالے کی مانند موجود ہوتے ہیں۔لوازم کا یہ ہالہ انفرادی انداز نظر کا پابند ہے،یعنی ایک ہی لفظ زیدکے لیے اور تلازم خیال ہے اور بکر کے لیے اور۔لیکن ایک ہی زبان سے بہت سے افراد کا مانوس ہونا مختلف افراد کے لیے الفاظ میں قریباََ قریباََ یکساں تلازم خیال پیدا کر دیتا ہے۔جب کوئی لفظ ہمارے فہم وادراک کے دائرے میں آتا ہے تو یہ تلازم خیال کا ہالہ ذہن میں ایک خاص ہیئت اختیار کرتا ہے اور جب اس پہلے لفظ کے ساتھ کوئی دوسرا لفظ ملایا جائے تو ہالہ اپنی ہیئت کو دوسرے لفظ کی مناسبت سے تبدیل کر لیتا ہے“(ص۲۰۶)
میرا جی کے ادبی مقام کے تعین میں ڈاکٹر رشید امجد لکھتے ہیں:
”میرا جی کے یہاں مادیت اور ماورائیت کا جو امتزاج نظر آتا ہے وہ انہیں اپنے عہد کے دوسرے شعراءسے منفرد و ممتاز بناتا ہے۔اپنے عہد کے مجموعی انتشار اور مختلف نظریات اور فلسفوں کی یلغار کے باوجود میرا جی کی شخصیت میں ایک روایتی عنصر بھی موجود تھا۔یہ عنصر ایک ایسی باطنی یا روحانی تنہائی ہے جس کے ڈانڈے صوفیانہ درد و غم سے جا ملتے ہیں۔یہ ایک ایسا رویہ ہے جو انسان کو اپنے آس پاس کی الجھنوں سے بے نیاز کر دیتا ہے“ (ص۳۰۲)
”یہ حقیقت ہے کہ میرا جی بیسویں صدی کے اردو ادب میں ایک اہم اور منفرد حیثیت رکھتے ہیں۔انہوں نے اپنی شاعری خصوصاََ نظموں کے ذریعے جدید اردو کی بنیاد رکھی اور اپنی تنقید کے توسط سے اردو شاعری کی تفہیم کی اور نئے تنقیدی پہلوؤں کو اجاگر کیا۔ان کا کام ان کی عظمت کی سند ہے کہ میرا جی اپنے عہد ہی میں نہیں،آج بھی ایک اہم ادبی شخصیت کی حیثیت رکھتے ہیں“(۳۲۵)
ڈاکٹر رشید امجد نے اپنے مقالہ میں تحقیق کے تمام تقاضے پورے کرنے کے ساتھ اپنی تخلیقی اور تنقیدی بصیرت سے کام لیتے ہوئے میرا جی کی ادبی حیثیت پر دستاویزی نوعیت کا اہم اور یاد گار کام کر دیاہے۔
اس کتاب(مقالہ)کا مطالعہ کرتے ہوئے میں نے میرا جی سے بھر پور ملاقات کی ہے۔
(مطبوعہ جدید ادب جرمنی شمارہ: جولائی تا دسمبر ۲۰۰۵ء)