ڈاکٹرشہناز نبیؔ(کولکتہ)
میر تقی میرؔ پر اب تک اتنے تنقیدی مضامین آچکے ہیں اور ان کے فن سے متعلق اتنی اہم کتابیں منظرِ عام پر آچکی ہیں کہ میرؔ پر قلم اٹھاتے ہوئے ذہن میں پہلا سوال یہ ابھرتا ہے کہ میرؔ پر کیا لکھا جائے اور کیوں۔؟ کیا واقعی میرؔ اتنا پر اسرار شاعر ہے کہ اب تک اس کی شاعری کے تمام گوشوں تک رسائی ممکن نہیں ہو سکی ہے یا پھر یہ کہ میرؔ پر کچھ لکھنا واقعی کچھ نیا اور الگ لکھ کر میریاتؔ میں اضافہ کرنا ہے یا پھر میرؔ کے متعلق کہی گئی باتوں کو دہرا کر محض خامہ فرسائی کا حق ادا کرنا ہے۔ میرے خیال میں میرؔ اردو کے ان خوش قسمت شاعروں میں سے ایک ہیں جنہیں اچھے اور بڑے ناقد میسر آئے ہیں۔ بات اگر مولوی محمد حسین آزادؔ کے تذکرے آبِ حیات سے شروع کریں تو یہ کم بڑی بات نہیں کہ آزادؔ نے میر پر تفصیلی مضمون لکھا اور اپنے تذکرے میں ان کے کلام کا وافر حصہ شامل کیا۔ گرچہ آزادؔ نے ـ’ میرؔ کا کلام آہ ہے تو سوداؔ کا واہ‘ والا مشہور فقرہ خواجہ باسطؔ کے حوالے سے شامل کیا ہے لیکن تحقیقی شواہد کی غیر موجودگی میں اسے آزادؔ کا ہی فقرہ مان لیا گیا ہے۔ آزادؔ کے اس نظریے سے ہم اختلاف کر سکتے ہیں میر کا کلام آہ ہے تو سوداؔ کا واہ ، لیکن تقریباً نصف صدی تک اگر آزادؔ کے اس جملے کی گونج سنائی دیتی رہی تو اس کی وجہہ یہ تھی کہ آزادؔ کسی معمولی شخصیت کا نام نہیں تھا۔ کلیم الدین احمدؔ آبِ حیات میں آزادؔ کی رنگیں بیانی پر لاکھ معترض ہوں اور اردو تنقید پر ایک نظر ڈالتے ہوئے تذکرہ آبِ حیات کی دھجیاں بکھیر دیں لیکن اس میں دو رائے نہیں کہ آبِ حیات نے کچھ ایسے نظریے ضرور پیش کئے ہیں جو اردو ادب کی دنیا میں تہلکہ مچانے کو کافی تھے۔ ایک طرف آزادؔ نے اردو زبان کی ابتدا سے متعلق یہ نظریہ دیا کہ اردو زبان برج بھاشا سے نکلی ہے تو دوسری طرف تو دوسری طرف خواجہ باسطؔ کے حوالے سے یہ فرما دیا کہ میرؔ کا کلام ’ آہ ‘ہے۔آزادؔ کے یہ دونوں نظریے بعد ازاں رد کر دئے گئے لیکن آزادؔ نے لسانیات اور کلاسیکی شعری جمالیات پر بحث کے نئے دروازے کھول دئے۔
ماہرینِ لسانیات نے بڑی شد و مد سے یہ ثابت کردیا کہ کہ اردو برج بھاشا سے نہیں نکلی ہے اور اردو کے ناقدین نے میرؔ کی شاعری کے سنجیدہ مطالعے کی روشنی میں یہ ثابت کر دیا کہ میرؔ کا کلام صرف آہ نہیں ہے۔ مجنوں گورکھپوریؔ کے مضمون میرؔ اور ہم‘ سے لے کر شمس الرحمٰن فاروقی کی کئی جلدوں پر محیط تنقیدی و تحقیقی کتاب شعرِ شور انگیز تک میر کی شخصیت اور شاعری کی بہت ساری پرتیں دریافت کی گئیں اور میرؔ کو یک رخا ہونے کے الزام سے بری کردیا گیا۔میرؔ کے تعلق سے یہ بات بڑی امید افزا ہے کہ میرؔ کی شاعری کے بہت سارے پہلو دریافت کر لئے گئے ہیں اور ہو سکتا ہے کہ مستقبل قریب میں کچھ مزید پہلودریافت کر لئے جائیں تاہم خواجہ باسطؔ کے اس نظریے پر دوبارہ نظر ڈالنے کی ضرورت ہے کہ میرؔ کا کلام آہ ہے۔ ہوسکتا ہے کہ کوئی اسے میرؔ کو ایک مخصوص خانے میں فٹ کرنے کی سازش قرار دے لیکن اس میں کلام نہیں کہ میرؔ کی شاعری کا اصلی رنگ یہی ہے نیز یہ کہ میرؔ کی شاعری کا غالب حصہ ’ آہ‘ پر ہی مبنی ہے۔اگر آزادؔ نے میرؔ کی شاعری کو آہ سے عبارت کردیا تو ایسی کیا غلطی کردی کہ اسے میرؔ کے ساتھ نا انصافی پرمحمول کیا جائے۔ میرؔ کے پہلے دیوان کے دوسرے شعر سے لے کر چھٹے دیوان کے آخری شعر تک دل کے اضطراب کا بیان ملتا ہے اور اس اضطراب کا سلسلہ اس ’ آہ ‘ سے ملتا ہے جو بقولِ آزادؔ ، میرؔ کی شاعری کا خاصہ ہے۔ ’ آہ ‘ کلمۂ افسوس ہے ۔ اس کے علاوہ یہ سانس، دم، نفس کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے
( فیروزا للغات۔ صفحہ ۴۶) اگر ہم آزادؔکی بات کو درست مان لیں تو میرؔ کی شاعری کلمۂ افسوس کی شاعری ہونے کے ساتھ ساتھ حیاتِ انسانی کی شاعری ہے۔ ہو سکتا ہے کچھ لوگ اسے دور کی کوڑی لانے سے مماثل کریں لیکن فی الحال اگر صرف ’ آہ ‘ والی بات پر غور کریں تو اس سے انکار کی گنجائش نظر نہیں آتی کہ میرؔ نے اپنے کلام میں زیادہ تر افسوس کا اظہار ہی کیا ہے۔میرؔ کو خود اس کا احساس تھا کہ نوحہ گری کی روایت انہی سے قائم ہے اور رہے گی۔
پھر نوحہ گری کہاں جہاں میں
ماتم زدہ میرؔ اگر نہ ہوگا
میرؔ کی شاعری میں اگردرد و غم ، گریہ و زاری ، آہ و نالہ ہے تواس وجہ سے کہ میرؔ ’ دلِ گداختہ‘ رکھتے تھے۔ وہ ایک حساس شاعر ہیں۔ انہوں نے اگر ایک طرف زمانے کے سرد و گرم پہ نگاہ رکھی، اس کے اتار چڑھاؤ کا اثر لیا تو دوسری طرف اپنے دل کی آواز پہ بھی کان دھرے بغیر نہ رہ سکے۔میرؔ کے یہاں آہ بھرنے والی کیفیت ہے تو اس لئے کہ میرؔ ہر حادثے سے متاثر ہوتے ہیں۔ چاہے وہ حکومتوں کے زوال کا واقعہ ہو یا نگروں کے اجڑنے کا ، دل کی بستی کے خراب ہونے کا معاملہ ہو یا ہستی کے بے ثبات ہونے کا، میرؔ آہ بھرے بغیر نہیں رہ سکتے۔میرکبھی عشق جیسے قیمتی جذبے کے رائیگاں جانے کا افسوس کرتے ہیں تو کبھی محبوب کی بے حسی و بے رخی اور اپنی ناقدری کا۔ کبھی یہ افسوس جوانی کے شتاب گذر جانے کا ہے تو کبھی اپنوں کے بچھڑ جانے کا۔کبھی وہ ہجرت کا غم مناتے ہیں اور کبھی قدروں کی شکست و ریخت کا۔ غرض میرؔ اس دنیا سے مطابقت کرنے سے قاصر ہیں جس میں وہ جی رہے ہیں۔شاید اس لئے وہ خود کو اکثر و بیشتر نالہ و فریاد میں مصروف دکھاتے ہیں۔ان کے یہاں ایک نہ ایک غم کا بیان ضرور ملتا ہے۔ کبھی وہ شدتِ غم سے چیخ چیخ کر روتے ہیں اور کبھی اندر اندر گھلتے ہیں، کبھی آنسوؤں کا دریا بہاتے ہیں تو کبھی سوکھے ہوئے دو آبے کا افسوس مناتے ہیں۔ کبھی دیواروں سے سر ٹکراتے ہیں ،پتھروں سے نبرد آزما ہوتے ہیں،کبھی ریگ زاروں میں خاک چھانتے ہیں تو کبھی گھر کی ویرانیوں کا شکار ہوتے رہتے ہیں۔ غرض میرؔ کے یہاں غم و الم کی مختلف کیفیتیں ہیں، تنہائی سے لڑنے اور جوجھنے کی بھرپور کوششیں ہیں۔ آہ و زاری کے نت نئے ڈھنگ، نالہ و فریاد کے الگ الگ رنگ ہمیں میرؔ کے یہاں دیکھنے کو ملتے ہیں۔کبھی ان کے نالے شورِ نشور کو شرماتے ہیں تو کبھی سینے کے اندر طوفان بپا کرتے رہتے ہیں۔ میر جب روتا ہے تو مجلسیں اس کے ساتھ رو پڑتی ہیں۔ میرؔ کی محزونی اور رقیق القلبی صرف ان کے دل تک محدود نہیں ہے بلکہ وہ ساری دنیا کو زمانے کے اتار چڑھاؤ کا احساس دلانا چاہتے ہیں اور اپنے تجربے میں ساری دنیا کو شریک کرنا چاہتے ہیں۔ میرؔ کی شاعر ی کے حزنیہ رنگ کو پیش کرنے کے لئے ناقدین نے مثال میں ان کے ایسے اشعار پیش کئے ہیں جو ان کی طبیعت کی محزونی کے غماز ہیں لیکن میرؔ کا غم اکثر ان کی طاقت بن گیا ہے۔ وہ اس غم کو ڈھال بنا کرزندگی سے مقابلہ کرتے ہیں۔ میرؔ کی زندگی میں اگر یہ غم نہ ہوتا تو میرؔ، میرؔ نہ ہوتے ’ گنجفے کا پتہ‘ ہوتے۔
’شاعرانہ صداقت اور تاریخی صداقت‘ کے ذیل میں ارسطو کا کہنا تھا کہ:
’’ شاعر کا کام یہ نہیں کہ جو کچھ حقیقت میں گذرا اس کو فی الواقعی جوں کا توں بیان کر دے بلکہ ایسی چیزوں کا بیان کرنا ہے جو ہوسکتی ہیں یعنی جو ان حالات میں ہو سکتی تھیں کیونکہ ان حالات میں یا تو ان کا ہونا ضروری ہے یا وہ قرین قیاس ہیں۔ شاعر اور مورخ میں یہ فرق نہیں ہے کہ ایک نظم میں لکھتا ہے اور دوسرا نثر میں۔۔فرق یہ ہے کہ تاریخ اس چیز کو بیان کرتی ہے جو ہوچکی ہیں جبکہ شاعری اس قسم کی چیزوں کو سامنے لاتی ہے جو ہوسکتی ہیں۔ اس وجہ سے شاعری بمقابلہ تاریخ کے زیادہ فلسفیانہ اور زیادہ توجہ کے قابل ہے۔ شاعری آفاقیصداقتوں سے سروکار رکھتی ہے جبکہ تاریخ مخصوص واقعات سے سروکار رکھتی ہے۔ــ‘‘( ارسطو سے ایلیٹ تک۔ از جمیل جالبیؔ۔ ص ۱۰۲)
میرؔ نے اپنی شاعری میں آفاقی صداقتوں اور تاریخی حقیقتوں کو ایک کر دیا ہے۔ میرؔ کو ہم مورخ نہیں کہنا چاہتے لیکن ہمیں اس بات کے ماننے سے بھی انکار ہے کہ میر کی شاعری کا ان کی زندگی سے کوئی واسطہ ہی نہیں۔میرؔ کی واقعہ نگاری ہمیں میرؔ کی شاعری میں میرؔ کے کردار کو تلاش کرنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ اردو کے معتبر ناقد شمس الرحمٰن فاروقی فرماتے ہیں کہ :
’’ واقعیت کے اس رنگ نے بہت سے نقادوں کو اس دھوکے میں مبتلا کردیا ہے کہ
کلیاتِ میرؔ میں عاشق در اصل میرؔ خود ہیں اور جو معشوق ہے وہ بھی کوئی واقعی شخص
ہے۔‘‘ ( شعرِ شور انگیز۔ جلد اول۔ صفحہ ۱۴۳)
ارسطوؔ کے نظریات کی روشنی میں میرؔ کی شاعری کا جائزہ لیں تو ہمیں یہ ماننا پڑتا ہے کہ میرؔ نے اپنی زندگی کے سارے واقعات کو ہو بہو قلمبند نہیں کیا ہوگا۔لیکن میرؔ اپنے زمانے، ماحول اور سماج سے بے خبر ہوں گے یا انہوں نے اپنی نفسیات، اپنے دل کے معاملات اوراپنے تجربات کی روشنی میں کوئی بات نہیں کہی ہوگی، اسے ذہن قبول کرنے سے انکار کرتا ہے۔ فاروقیؔ صاحب بھی آگے چل کر کہتے ہیں کہ:
’’ یہ اور بات ہے کہ ہر شاعر ( اور غزل کا شاعر عام شاعر سے زیادہ) اپنے ذاتی تجربات و مشاہدات
سے کام لیتا ہے لہذا ممکن ہے کہ میرؔ نے بھی بہت سی ایسی باتیں کہی ہوں جو پوری کی پوری یا کم و بیش
یا اس سے ملتی جلتی باتیں ، خود ان پر گذری ہوں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ آپ بیتی کو جگ بیتی
بنا کر پیش کر رہے ہیں یا اپنے دل کا دکھڑا رو رہے ہیں۔‘‘( شعرِ شور انگیز۔ جلد اول، صفحہ۔۱۴۴)
میرؔ کی شاعری سر تا سر المناک نہیں ہے ۔ خود خواجہ باسطؔ یا محمد حسین آزادؔنے بھی یہ نہیں کہا ہے کہ میرؔ کا کلام ’ صرف ‘ آہ ہے۔ لیکن ان کی شاعری کا غالب حصہ غم و الم سے ہی عبارت ہے۔ اگر ہم میرؔ کی زندگی اور ان کے عہد کے حالات سے واقفیت نہ رکھتے ہوں توبھی ہمیں یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگتی کہ یہ شاعری کسی ایسے شاعر کی ہے جو رنج و الم کے بیان میں دلچسپی رکھتا ہے۔خواجہ باسطؔ نے میرؔ کی شاعری کو ’ آہ ‘ کی شاعری ثابت کرنے کے لئے صرف ایک شعر پڑھا تھا
سرہانے میرؔ کے آہستہ بولو
ابھی ٹک روتے روتے سو گیا ہی
لیکن میرؔ کے چھ چھ دیوان اس بات کے گواہ ہیں کہ میرؔ کی شاعری کا بیش تر حصہ غم و الم، آہ وافسوس سے عبارت ہے۔ میرؔ کبھی کبھار اپنے خول سے باہر نکل کر ہنس بول لیتے ہیں یا جی بھر کر زندگی جی لیتے ہیں وگرنہ میرؔ کو واقعی غموں سے فراغ حاصل نہیں تھا۔زمین سے الجھاؤ اورآسمان سے جھگڑا رکھنے والا یہ شخص اپنے خول میں بند ہو جاتا ہے تو اس لئے کہ وہ دنیا کا خاطر خواہ تجربہ حاصل کر چکا تھا، دوستوں کو جھیل چکا تھا،رشتے داری کے مزے اس نے چکھ لئے تھے، حیاتِ انسانی کے اسرار و رموز سے وہ واقف ہو چکا تھا، اب اگر کوئی آدم بیزار ہو جائے اور ہر بات پہ کلمۂ افسوس سے کام لے تو غلط کیا ہے۔دنیا کی بے ثباتی اسے فقر و قناعت سکھاتی ہے۔ وہ اس دنیا کا ایسا مسافر ہے جو ہمہ وقت سفر میں رہتا ہے۔جہاں رات ہوتی ہے وہیں بسرام کر لیتا ہے۔
ریگستاں میں جاکے رہیں یا سنگستاں میں ہم جوگی رات ہوئی جس جاگہ ہم کو، ہم نے وہیں بسرام کیا
(کلیاتِ میر، مرتبہ احتشام حسین ۔مطبوعہ رام نرائن لال ، بینی مادھو، الہ آباد۔دیوانِ پنجم۔ ص : ۶۲۸)
رات کو جوں توں صبح اور صبح کو جوں توں شام کرنے والے اس انسان کے پاس اتنا حوصلہ کہاں تھا کہ اپنے بل بوتے تمام عمر خوش خرمی سے بسر کرتا۔ اگر محمد حسین آزادؔ کے بیاناے سے صرفِ نظر کر کے میرؔ کی شاعری کا جائزہ لیں تو بھی میرؔ کی شاعری کے المناک ماحول سے واقف ہونے میں دیر نہیں لگتی۔المناک ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ میرؔ کی المناکی ان کے منفی رویے کی غماز ہے۔ میرؔ کی المناکی کا ایک پہلو یہ بھی ہے میرؔ نے اس دنیا سے سرسری گذرنے کے باوجود ہر ’ جہانِ دیگر ‘ سے واقفیت حاصل کر لی تھی۔ آفاق کی اس کارگہِ شیشہ گری میں اگر وہ سانس آہستہ لینے کی ہدایت کرتا ہے تو محض اس لئے کہ صناعی میں فرق نہ آئے۔ اس لئے نہیں کہ وہ مجہول ہے۔میرؔ زندگی کا ایک واضح تصور رکھتے تھے۔’شاعرانہ صداقت اور تاریخی صداقت ‘ کے باب میں ارسطوؔ کا کہنا ہے کہ:
’’ جو چیز ممکن ہے وہ قابلِ یقین بھی ہوتی ہے، جبکہ ہمیں کسی ایسی چیز کے امکان کا یقین نہیں ہوتا
جو واقع نہیں ہوئی ہے۔ جو بات ہوچکی ہے وہ بالکل ممکن معلوم ہوتی ہے، کیونکہ اگر وہ ممکن نہ ہوتی
تو وہ ہوئی بھی نہ ہوتی۔‘‘ ( ارسطو سے ایلیٹ تک۔از جمیل جالبی۔ ص : ۱۰۲)
لہٰذا میرؔ کی شاعری کو ہم ان کی زندگی سے جوڑ کر دیکھیں یا نہ دیکھیں، یہ بات اپنی جگہ طے شدہ ہے کہ میرؔ نے اپنی شاعری میں جوتجربات بیان کئے ہیں، وہ ممکن ہیں اور پیش آسکتے ہیں،چاہے میرؔ کے ساتھ یا کسی اور کے ساتھ۔ ٹریجیڈی، بقول ارسطوؔ، ’ ایک مکمل عمل ہی کی نمائندگی یا نقل نہیں ہے بلکہ ایسے واقعات کی بھی جو خوف اور ترس کے جذبات پیش کرتے ہیں۔‘ ( ارسطو سے ایلیٹ تک۔ از جمیل جالبی ص: ۱۰۳)
ہو سکتا ہے کوئی یہ کہے کہ ارسطو کے ان نظریات کا اطلاق ڈرامے پر ہوتا ہے، شاعری پر نہیں۔ لیکن بات اگر شاعری میں المیہ کے پیشکش کی ہو تو ارسطو کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔بقول شمس الرحمٰن فاروقی، انتظار حسین کو نظیر اکبر آبادی میں ایک افسانہ نگار اور میرؔ میں ایک ناول نگار نظر آتا ہے( شعرِ شور انگیز۔ جلد اول۔ ص : ۵۱) لیکن سچ تو یہ ہے کہ میرؔ ناول نگار سے زیادہ اک ڈرامہ نگار ہیں۔ان کی شعری دنیا میں رنگا رنگ کردار نظر آتے ہیں۔میرؔ کو شمس الرحمٰن فاروقی کی بحث کی روشنی میں اگر ہم عاشق نہ بھی مانیں، اگر یہ فرض کر لیں کہ کوئی دوسرا ہے تو بھی یہ عاشق ، عشق کا بھرپور تجربہ رکھتا ہے۔محبوب کے ناز نخرے اٹھاتا ہے ، اس کے لئے جان دینے کو ہمہ وقت تیار رہتا ہے اور کبھی اسے راہ پر لانے کی کوشش میں جان دینے سے بھی گریز نہیں کرتا۔
ہم خاک میں ملے تو ملے لیکن اے سپہر اس شوخ کو بھی راہ پہ لانا ضرور تھا ( دیوان اول)
میرؔ یا وہ شخص جو میرؔ کی شاعری میں عاشق کا کردار نبھا رہا ہے، یا پھر وہ بہت سارے لوگ جو الگ الگ طور پر عاشق کا کردار نبھارہے ہیں، میرؔ کا ایک معشوق یا پھر وہ بہت سارے معشوق جو میرؔ کے یہاں الگ الگ روپ میں سامنے آتے ہیں، میرؔ کے سماج سے تعلق رکھنے والے یا پھر میرؔ کے متقدمین کے سماج سے تعلق رکھنے والے یا مستقبل کے سماج کا حصہ بننے والے کردار مثلاً قاصد، شیخ، واعظ،رقیب، ساقی ،ہمصفیر،ہمسفر، وغیرہ شاعر کے تجربے کا حصہ ہیں یا پھر وہ ویسے ہو سکتے ہیں جیسا کہ شاعر قیاس کر رہا ہے۔یہ میکانکی نہیں ہیں بلکہ زندگی سے بھرپور ہیں۔اگر صرف شاعر یا معشوق کے تجربے کا احاطہ کریں تو ارسطو کے مطابق اپنے تجربے بیان کر کے وہ خوف اور ترس کے جذبات پیدا کرنا چاہتا ہے۔ عشق میرؔ کے نزدیک افضل ترین جذبہ ہے
عشق ہی عشق ہے جدھر دیکھو
سارے عالم میں بھر رہا ہے عشق
اس کے باوجود دل لگانے کا تجربہ میرؔ یا ایک عاشق یا بہت سارے عاشقوں کے نزدیک، اندوہ ناک ہے ۔ وہ عشق کر کے پچھتاتے ہیں۔ محبوب کا ہجر جھیلتے ہیں، شب و روز آنسو بہاتے ہیں، وصل کی شاد کامی کو یاد کر کر کے کڑھتے ہیں،نادم ہوتے ہیں، چاہتے ہوئے بھی شکوہ نہیں کر پاتے، کبھی حیا، کبھی محبوب کی دلآزاری کاخیال زبان پر تالے ڈال دیتا ہے۔ عشق کا تلخ تجربہ شاعر کو نہ چین سے جینے دیتا ہے، نہ مرنے۔ ذیل کے اشعار سے اس بات کی وضاحت ہو سکتی ہے۔
ہوس تھی عشق کے کرنے میں لیکن بہت نادم ہوئے دل کو لگا ہم ( دیوان اول ص : ۱۱۷)
فلک نے آہ تری رہ میں ہم کو پیدا کر برنگِ سبزۂ نورستہ پائمال کیا
آگ تھے ابتدائے عشق میں ہم اب جو ہیں خاک انتہا ہے یہ ( دیوانِ اول، ص: ۱۷۱)
دل دینے کی ایسی حرکت ان نے نہیں کی جب تک جئے گا میرؔ پشیمان رہے گا ( ص ۲۲)
کیا کیا زیان میر نے کھینچے ہیں عشق میں دل ہاتھ سے دیا ہے جدا، سر جدا دیا ( دیوان دوم، ص: ۲۶۲)
لگ جاوے دل کہیں تو اسے جی میں اپنے رکھ رکھتا نہیں شگون کچھ اظہار عشق کا ( ص : ۲۶۲)
عشق نہ پو چھو آہ ہمارا، کیا کیا رنگ بدلتا ہے خون ہوا دل ، داغ ہوا پھر، درد ہوا ، پھر غم ہے اب ( ص ۶۴۳)
زخم جھیلے، داغ بھی کھائے بہت دل لگا کر ہم تو پچھتائے بہت ( دیوانِ سوم، ص: ۴۶۷)
میرؔ کی شاعری کا دوسرا اہم موضوع بے ثباتئی دنیا ہے۔اردو کے بیشتر ناقدین نے اس کے لئے اس صوفیانہ اور درویشانہ ماحول کو ذمہ دار قرار دیا ہے جس میں میرؔ کی پرورش ہوئی تھی۔ میرؔ ؍ شاعر؍عاشق دنیا کی بے ثباتی کے پیشِ نظر اس سے دل لگانے کو بے وقوفی جانتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ اس بے ثبات دنیا کے لئے اتنی تگ و دو بے کار ہے۔ زندگی کسی نہ کسی طور گذر ہی جاتی ہے لہذا مال و متاع کے پیچھے بھاگنا عبث ہے۔ درج ذیل اشعار دیکھئے:
منعم کے پاس قاقم و سنجاب ہے تو کیا اس رند کی بھی رات کٹی جو کہ عور تھا ( دیوانِ اول، ص: ۱۹)
شبنم کی سی نمود سے تھا میں عرق عرق یعنی کہ ہستی ننگِ عدم تھی، خجل گیا ( دیوانِ پنجم، ص: ۶۳۸)
کوئی نہیں شاہانِ سلف میں خالی پڑے ہیں دونوں عراق
یعنی خو د گم ا سکندر ہے ، نا پیدا ہے دارا آج ( دیوانِ پنجم، ص: ۶۴۵)
اس کارواں سرائے کے ہیں لوگ رفتنی حسرت سے ان کا کرتے ہیں نظارہ دردمند
( دیوانِ پنجم۔ص:۶۵۰)
ملا ہے خاک میں کس کس طرح کا عالم یاں نکل کے شہر سے ٹک سیر کر مزاروں کا ( دیوانِ اول ، ص:۲۰)
منعم نے بنا ظلم کی رکھ گھر تو بنایا پر آپ کوئی رات ہی مہمان رہے گا ( دیوانِ اول۔ص: ۲۲)
نام آج کوئی یاں نہیں لیتا ہے انہوں کا جن لوگوں کے کل ملک یہ سب زیرِ نگیں تھا ( دیوانِ اول، ص: ۲۰)
انوکھا تو کہ یاں فکرِ اقامت تجھ کو ہے ورنہ سب اس دل کش جگہ سے رخت اپنا بار کرتے ہیں
( دیوانِ دوم ، ص:۳۵۹)
در اصل میرؔ دنیا والوں کو یہ ہدایت دینا چاہتے ہیں کہ دنیا سے زیادہ امید لگانا فضول ہے۔زندگی اگر ہموار ڈھنگ سے گذارنی ہے تو توقعات کا حد میں رہنا ضروری ہے۔ میرؔ ایک ماہرِ نفسیات کی طرح انسان کو عشق کے نتیجے میں پیدا ہونے والے رنج و کرب سے آگاہ کرنا چاہتے ہیں۔ انسانی قدروں کی شکست و ریخت، رشتوں کی پامالی، سے باخبر کرنا چاہتے ہیں۔ارسطوؔ کے مطابق ٹریجیڈی ہمارے جذبات کو فارم عطا کرتی ہے۔ میرؔ نے اپنی حزنیہ شاعری کے ذریعہ انسانی جذبات کو ایک فارم میں لانے کی کوشش کی ہے، انہیں توازن عطا کرنے کی پہل کی ہے۔ بقول ارسطوؔ، ٹریجڈی ترس اور خوف کے جذبات کو اس حد تک ابھارتی ہے کہ وہ جذبات تھک کر ختم ہوجاتے ہیں اور ان کی جگہ نئے جذبات کا ظہور ہوتا ہے جو امید و ہمت سے عبارت ہیں۔یہ عمل، ارسطوؔ کے نزدیک اس یونانی طریقۂ علاج کی طرح ہے جس میں بیماری کو پہلے ابھارا جاتا ہے اور پھر اس کا علاج کیا جاتا ہے۔ ارسطوؔ اسے ’ کتھارسس‘ کا نام دیتا ہے۔ میرؔ کے یہاں غم و اندوہ کی یہ بہتات دراصل ایک طرح کے کتھارسس کا کام کرتی ہے۔ میرؔ انسان کو خوف میں مبتلا کر کے ایسے اعمال سے دور رکھنا چاہتے ہیں جو انسان کی زندگی کو اجیرن بنا دیتے ہیں۔وہ دنیا کی بے ثباتی کا ذکرکر کر کے انسان کو دنیا کے لہو و لعب میں گرفتار ہونے سے روکتے ہیں اور عشق کے خوفناک نتائج سے آگاہ کر کے اس سے باز رہنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ وہ ایسا عبرت ناک ماحول تیار کرتے ہیں جو ڈرامائیت سے بھرپور ہے۔
میرؔ کے یہاں رونے کے کئی ڈھنگ ہیں، یہ پہلے بھی کہا جاچکا ہے۔ میرؔ کا رونا کبھی چیخ و پکار کی صورت میں ہوتا ہے اور کبھی خاموشی سے آنسو ڈھلتے ہیں۔ کبھی وہ دکھوں کے اظہار کے لئے روتے ہیں، کبھی محبوب کو پرچانے کے لئے اور کبھی دل کا بوجھ ہلکا کرنے کے لئے۔ ان کے لئے رونے رلانے کی طرف توجہ کرنا درد مندی کی علامت ہے اور یہ ہر کسی کے بس کا روگ نہیں۔
یا روئے یا رلایا، اپنی تو یونہی گذری کیا ذکر ہم صفیراں یارانِ شادماں کا ( دیوانِ اول، ص: ۲۰)
نہ دردمندی سے یہ راہ تم چلے ورنہ قدم قدم پہ تھی یاں جائے نالہ و فریاد ( دیوانِ سوم ، ص: ۴۷۱)
سینہ چاکی بھی کام رکھتی ہے یہی کر جب تلک معطل ہے ( دیوانِ اول ، ص: ۲۴۶)
ہر گل زمین یاں کی رونے ہی کی جگہ تھی مانند ابر ہر جا میں زار زار رویا ( دیوان اول، ص: ۶۳)
دل خراشی و جگر چاکی و سینہ کاوی اپنے ناحق میں ہیں سب اور ہنر مت پوچھو ( دیوان اول،ص: ۱۶۹)
میرؔ کی نظر میں وطنِ عزیز کی بڑی اہمیت تھی۔ اپنی مٹی چھوڑنے کی کسک میرؔ کو تڑپاتی رہتی ہے۔
لکھنؤ دلی سے آیا، یاں بھی رہتاا ہے اداس میرؔ کو سر گشتگی نے بے د ل و حیراں کیا ( دیوانِ چہارم، ص: ۵۵۳)
کل دیکھتے ہمارے بستے تھے گھر برابر اب یہ کہیں کہیں جو دیوار و در رہے ہیں ( دیوانِ دوم، ص: ۳۶۲)
خرابہ دلی کا وہ چند بہتر لکھنؤ سے تھا وہیں میں کاش مر جاتاسراسیمہ نہ آتا یاں ( دیوانِ چہارم، ص: ۵۹۷)
بے وطنی اور ہجرت کا یہ درد بیان کر کے کیا میرؔ ہماری توجہہ ان حالات کی طرف نہیں موڑ دیتے جن کے نتیجے کے طور پر میرؔ کو بے وطنی کا درد جھیلنا پڑا۔جب ایتھینز میں مسلسل جنگوں کی وجہہ سے عام انسانی زندگی متاثر ہو رہی تھی تو یوریپیڈیزؔ نے المیے لکھ کر جنگ و جدل سے ایک طرح کی بیزاری اور نفرت کا اظہار کیا تھا۔ بقول فاروقیؔ:
’’ اس کے المیے میں در اصل کتھارسس اس طرح ہوتی ہے کہ وہ قاری اور ناظر کو درد مندی اور قوت
کے تجربات سے روشناس کر کے حقیقی زندگی میں جنگ بازی اور اس کے نتائج کے خلاف رجحان
کا حامل بنانے کی کوشش کرتا ہے۔‘‘
(شعریات۔ترجمہ و تعارف: شمس الرحمٰن فاروقی ( ۱۹۹۸ء ) مطبوعہ قومی کونسل، ص: ۴۳)
اسی طرح میرؔ اپنے ارد گرد پھیلی ہوئی دنیا میں ایسے بہت سے کرداردیکھتے ہیں جو اخلاقی طور پر پست ہیں۔ میرؔ ان کی برائی کرکے، ان کا مذاق اڑاکے یہ جتانا چاہتے ہیں کہ ان کرداروں کے یہ اعمال لائقِ تحسین نہیں ہیں۔ یہ کبھی بھی مثالی کردار نہیں بن سکتے۔ ان سے اتفاقاً غلطی سر زد نہیں ہو تی ہے بلکہ یہ و ہ لوگ ہیں جن کی زندگی کا مقصد ہی دوسروں کو آزار پہنچانا ہے۔منعم، شیخ، ناصح جیسے کرداروں کا شاعرمضحکہ اڑاتا رہتا ہے۔
ہزار شانہ و مسواک و غسل شیخ کرے ہمارے عندیے میں تو ہے وہ خبیث پلیت (دیوانِ سوم، ص: ۴۶۵)
یہ سر نہیں ہے شایاں شورِ قلندری کا گو شیخِ شہر باندھے زنجیر و زنگ آیا ( دیوانِ سوم ، ص: ۴۴۴)
گدھا سا لدا پھرتا ہے شیخ ہر سو کہ جبہ ہے یک بار و عمامہ سر بار ( دیوانِ اول ص : ۹۴)
کب اس عمر میں آدمی شیخ ہوگا کتابیں رکھیں ساتھ گو ایک خر بار ( دیوانِ اول ص : ۹۴)
میدانِ محبت میں اپنی اہمیت جتانے کے لئے بڑے بڑے عاشقوں کا مذاق اڑانے سے باز نہیں آتے۔
دیوانگی میں مجنوں میرے حضور کیا تھا لڑکا سا ان دنوں تھا، اس کو شعور کیا تھا ( دیوانِ چہارم، ص : ۵۵۱)
کوہِ فرہاد سے کہیں آگے سر مرا اور سنگ خارا تھا ( دیوانِ چہارم،ص: ۵۵۶)
میرؔ کو اس بات کا غم ہے کہ دنیا سے انسانیت ختم ہوگئی ہے۔ میرؔ؍شاعر؍عاشق کا کہنا ہے کہ محبت دنیا سے ختم ہو گئی ہے، وفا کا نام و نشان نہیں ہے، لیکن کم از کم مروت کو تو زندہ رہنا چاہئیے تھا۔ جب انسان انسان ہی نہیں رہے گا ، جب اس کے اندر انسانیت کی کم سے کم پہچان بھی نہیں پائی جائے گی تو پھر وہ انسان کہلائے گا کیسے؟
آدمی اب نہیں جہاں میں میرؔ اٹھ گئے اس بھی کاروان کے لوگ ( دیوان چہا رم، ص: ۵۸۳)
غرض میرؔ کی شاعری رنج و الم کی شاعری ہونے کے باوجود اپنے اندر ایک ایسی طاقت رکھتی ہے جو انسان کو دنیا کے عظیم ترین سانحوں سے باخبر کرتی۔ وہ دل کے جانے کا سانحہ ہو یا دلّی کے اجڑنے کا، میرؔ اس کا بیان ضروری سمجھتے ہیں۔ وہ ایک ماہرِ نفسیات کی طرح انسان کے شعور، لا شعور اور تحت الشعور میں اترنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کی نفسیاتی پیچیدگیوں پر نظر رکھتے ہیں۔ اسے اس کی خامیاں اور کمزوریاں یاد دلاتے رہتے ہیں۔اسے محتاج اور کمزور بنانے کے بجائے اپنے پیروں پر کھڑے رہنے کی اہمیت کا اندازہ کراتے ہیں۔ وہ انسان کی خوبیوں کے قائل اور اس کی کمزوریوں کو معاف کردینے کے حق میں ہیں۔ شعریات میں ارسطو کے کتھارسس والی بحث کا ترجمہ کرتے ہوئے فاروقیؔ صاحب فرماتے ہیں کہ
’’ المیہ کے ذریعہ ہم خوف اور دردمندی کے جذبات سے اس قدر اور اس کثرت سے دوچار
ہوتے ہیں کہ ہمارے یہ جذبات( جو ایک طرح کی کم زوری ہی ہیں)، سرد پڑ جاتے ہیں اور
اس طرح حقیقی زندگی میں ہمیں اس کمزوری کے نقصانات نہیں بھگتنے پڑتے۔۔۔۔المیے کی حدود
میں خوف اور دردمندی کے جذبات کو برت کر ہم ایک طرح کی مضبوطی حاصل کرتے ہیں اور
عملی زندگی میں جب ایسے مواقع آتے ہیں جہاں ان کی ضرورت پڑتی ہے تو ہم ان جذبات
کا شکار آسانی سے نہیں ہوتے اور اپنی جگہ پر قائم رہتے ہیں۔‘‘ (شعریات، ص: ۴۲)
مجھے نہیں پتہ کہ میرؔ ارسطوؔ کے ان نظریات سے با خبر تھے یا نہیں تھے، اور اگر باخبر تھے تو انہوں نے کس حد تک اسے اپنایا، لیکن میرؔ کی شاعری میں رنج و الم کو جس طرح پیش کیا گیا ہے اور جس طرح انسان کو زندگی کے منفی پہلوؤں سے بچنے کی ترغیب دی گئی ہے وہ ایک معلمِ اخلاق ہی کر سکتا ہے۔ فرق اتنا ہے کہ میرؔ کسی معلم اخلاق کی طرح اخلاقیات پر عالمانہ اور خشک گفتگو کرنے کے بجائے مختلف موضوعات کے ذریعہ بہتر انسان بننے اور اچھی زندگی گذارنے کا سلیقہ سکھا جاتے ہیں۔ آزادی کے معنی بتا جاتے ہیں۔ یہ وہ دیوانہ ہے جو زندگی کے عظیم حقائق سے واقف ہونے کے بعد دوسروں کو بھی ان کا احساس دلا جاتا ہے ۔میر کی ہنسی میں آنسوؤں کی نمی ہے اور آنسوؤں میں تبسم زیرِ لب:
تھا میرؔ بھی دیوانہ پر ساتھ ظرافت کے
ہم سلسلہ واروں کی زنجیر ہلا جاتا
( دیوانِ سوم، ص:۵۵۰)
میرؔ کی شاعری انسان کو زندگی جینے کا سلیقہ سکھاتی ہے، مرنے پر آمادہ نہیں کرتی۔ وہ اپنے غم کو جس طرح cherishکرتے ہیں وہ ہر کسی کے بس کی بات نہیں ۔ اس کے لئے اعلیٰ ظرفی شرط ہے۔