نیند سے بیدار ہو کر بھی وہ کچھ دیر تک بے سدھ اوندھا پڑا رہا تھا ۔۔۔
اور پڑے رہنے کا نتیجہ تھا کہ دماغ پھر سے نیند میں ڈوبنے لگا تھا ۔۔۔
بند ہوتی آنکھیں پٹ سے کھلی تھیں جب کچھ گرنے کی آواز کانوں سے ٹکرائی تھی ۔۔۔
زمان خان نے گردن موڑ کر دیکھا ۔۔ کمرے کا دروازہ کھلا ہوا تھا ۔۔۔
ورنہ اس کا کمرہ سائونڈ پروف تھا ۔۔۔
شرٹ پہن کر جب وہ باہر نکلا تو سامنے ہی اوپن کچن میں سونیا اسے ناشتے کی لوازمات ٹرے میں سجاتی نظر آئی تھی ۔۔۔۔
اس کی کشادہ پیشانی پر بے شمار بل نمایاں ہوئے ۔۔
چونک کر سونیا نے اسے دیکھا تھا جو شدید غصے کی کیفیت میں اسی کی طرف بڑھ رہا تھا ۔۔۔۔
بازو سے پکڑ کر اس نے ایک جھٹکے سے اسے کچن کی حدود سے باہر نکالا تھا ۔۔۔۔
صوفے سے ٹکراتی وہ گرتے گرتے بچی تھی ۔۔۔
درد کرتا بازو سہلاتے ہوئے وہ نم نظروں سے اسے اپنا بنایا ناشتہ ڈسٹبن میں ڈالتے دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔
“کتنی بار سمجھایا یے تمہیں !
جس کام کے لیئے بلواتا ہوں وہ کیا کرو اور دفعہ ہو جایا کرو ۔۔۔
اپنے گندے وجود کو لے کر خاص طور پر کچن میں مت گھسا کرو ۔۔۔
سمجھ نہیں آتی ہے تمہیں ؟”
“میرا وجود سے اتنی گھن ۔۔ کہ میرا کچن میں گھسنا برا لگتا ہے ۔۔۔۔
میں نے کچھ بنا لیا تو اسے کچرے میں پھینک دیا ۔۔۔
اور اسی وجود کو جب دل چاہتا خود اپنے قریب بھی کرتے ہو ۔۔”
“تم جیسیوں کے ساتھ ایسا ہی کیا جاتا ہے ۔۔ ٹسوے مت بہائو ۔۔
اور ہاں یہ کیا کل سارے جہاں کامیک اپ تھوپ کر آ گئی تھیں ؟
آخری درجہ کی خواجہ سرا لگ رہی تھیں ۔۔۔
آئندہ جب بلوائوں تو چہرے کا یہ حال نہیں ہونا چاہیے ۔۔۔!!!”
سرد مہری سے کہتے ہوئے زمان خان نے ٹوکری سے سیب اٹھایا تھا ۔۔۔
“اتنا دل دکھاتے ہو ۔۔۔
تمہیں بد دعائیں دینے کا دل کرتا ہے ۔۔۔
مگر پتہ نہیں کیوں دے نہیں پاتی ۔۔۔”
وہ زخمی مسکراہٹ چہرے پر سجا کر بولی تھی ۔۔
“اتنا پیسہ دیتا ہوں تمہیں ۔۔۔ اس کے باوجود بھی اگر تمہارے دل سے میرے لیئے بد دعا نکلتی ہے تو بڑی ہی احسان فراموش ہوں گی تم ۔۔۔۔”
صوفے پر بیٹھ کر ٹیوی آن کرتے ہوئے وہ طنز سے بولا تھا پھر یکدم اٹھ کر اس کے سامنے جا کھڑا ہوا ۔۔۔۔
“بہت سے لوگ بد دعا دیتے ہیں مجھے ۔۔۔
ناجانے اس وقت بھی کتنے لوگ دے رہے ہوں گے ۔۔
تم سے تو خاص الخاص تعلق ہے ۔۔
تم بھی دے لو ۔۔۔ دل کچھ ہلکا کر لو ۔۔۔۔۔
میرا کیا بگڑ جائے گا ؟۔۔۔
کیا مجھ پر آسمانی بجلی آ گرے گی اور مجھے بھسم کر دے گی ؟
یا اچانک ہی میرے قدموں تلے سے زمین سرک جائے گی اور نگل لے گی مجھے ؟؟؟
چپ کیوں ہو ؟ دے لو بد دعا ۔۔۔
کچھ بھی کہ لو ۔۔۔
کہو نہ !”
“میں تمہیں بددعا نہیں دے سکتی لیکن میرا آہوں پر کوئی زور نہیں ۔۔۔
شائد میری کوئی آہ لگ جائے ۔۔
چلو میں تو خود گنہگار ہوں ۔۔۔
کسی مظلوم کی ہی بد دعا یا آہ تمہیں لگے گی زمان خان ۔!
تمہاری رسی بہت دراز کر دی ہے خدا نے ایک دن کھنچے گی ضرور ۔۔”
وہ جا چکی تھی لیکن زمان خان بہت دیر تک وہیں خاموش کھڑا رہا تھا ۔۔۔
کچھ دیر بعد لائونج میں اس کا فلک شگاف قہقہ گونجا تھا ۔۔۔
****************************
وہ اس مردانہ حلیہ میں باہر ضرور نکلتی تھی لیکن مستقل باہر رہنے کا یہ اس کا پہلا تجربہ تھا ۔۔۔
وہ پہلے بھی اس بارے میں سوچ چکی تھی لیکن زمان خان کی دھمکی پر اس نے بالاخر کوئی کام دھام کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا ۔۔۔۔
اس جیسے لڑکے کو کوئی کیا کام دے سکتا تھا سوائے کسی ہوٹل میں بیرے کے ۔۔۔
یہ علاقے کا سب سے چلتا پھرتا ہوٹل تھا ۔۔
وجہ کھانے کی لذت تھی ۔۔۔۔۔
اور شکر تھا کہ اس کے گھر سے زیادہ دور بھی نہیں تھا ۔۔
شکر مناتی جاناں کام شروع کر چکی تھی ۔۔۔
وہ کوشش کررہی تھی کہ لوگوں سے کم سے کم بات چیت کرے ۔۔
مستقل اتنے لوگوں میں رہنے کی وجہ سے وہ کچھ بے اعتماد ہو رہی تھی ۔۔۔
اسے دو دن میں کھانے کے پیسے لوٹانے تھے جو بہت زیادہ تو نہیں تھے لیکن اس جیسی کنگلی کے لیئے بہت تھے ۔۔
ٹیبل صاف کرتے ہوئے اسے ماحول میں کچھ غیر معمولی ہلچل محسوس ہوئی تو چونک کر مڑی ۔۔
سگرٹ کے کش لگاتا ہوا زمان خان اپنے کچھ ساتھیوں سمیت ایک ٹیبل کے گرد بیٹھ گیا تھا ۔۔۔
تیوری چڑھا کر اس نے ہوٹل میں بیٹھے باقی لوگوں پر گھوری ڈالی تھی ۔۔۔
سب کے سب یوں الرٹ سے ہو رہے تھے جیسے صدر مملکت تشریف لائے ہوں ۔۔۔۔
سر جھٹک کر جاناں نے ایک بار پھر زمان خان کی طرف دیکھا تھا اور اسے اپنی ہی طرف ہی متوجہ پا کر خود بھی کچھ سیدھی ہو گئی ۔۔۔
ہاتھ کے اشارے سے زمان خان نے اسے اپنی طرف بلایا تھا ۔۔۔
گہری سانس بھر کر وہ کپڑا کندھے پر ڈالتی اس کی طرف بڑھی تھی ۔۔۔
جبکہ اس کے روایتی بیرے والے انداز پر زمان خان کے لب بے ساختہ مسکرائے تھے ۔۔۔
“جی صاحب ؟”
“اتنی بری شکل کیوں بنا لی ہے مجھے دیکھ کر ؟”
زمان خان کے دوستانہ انداز پر اس کے ساتھ آئے حوالداروں نے حیرت سے ایک دوسرے کو دیکھا تھا ۔۔۔۔
“کیوں کہ آپ نے کچھ ذیادہ ہی اچھی شکل بنا لی ہے مجھے دیکھ کر ۔۔۔”
اس کی مسکراہٹ پر طنز کرتی جاناں اسے قہقہ لگانے پر مجبور کر گئی تھی ۔۔
“دراصل تمہیں حلال کی کمائی کرتا دیکھ کر بہت خوشی ہو رہی ہے ۔۔۔”
“کبھی ہمیں بھی اس بات پر خوش ہونے کا موقح دیں ۔۔۔”
اس کے دوبدو جواب دینے پر داد دیتی نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے زمان خان نے ہاتھ سے ٹیبل بھی بجائی تھی ۔۔۔
جبکہ حوالدار ظفر جاناں کو پہچانتا اچھل پڑا تھا ۔۔۔
“صاحب ! یہ وہی ہے ۔۔۔ وہی لڑکا ۔۔”
“ہاں میں جانتا ہوں ۔۔۔ وہی دبلا پتلا سا لڑکا جس نے تم جیسے سانڈ کے سانڈ کو پیٹ ڈالا تھا ۔۔۔۔”
زمان خان کے غرا کر کہنے پر ظفر تو ظفر ، جاناں کی پیشانی بھی چمک اٹھی تھی ۔۔۔
زمان خان کے تیور دیکھ کر جھاگ کی طرح ظفر کا غصہ بیٹھا تھا ۔۔
جبکہ جاناں جلد از جلد وہاں سے کھسک جانا چاہتی تھی ۔۔۔
“صاحب آڈر بتائیں ۔۔۔”
***************************
کھانا کھاتے ہوئے بھی زمان خان کی نظریں بلا ارادہ ہی جاناں کی طرف اٹھ جاتیں ۔۔۔
اس نے واقعی خود کو اچھی طرح کور کر رکھا تھا ۔۔۔
اگر وہ سچائی جانتا نہ ہوتا تو یقیناً دھوکا کھا جاتا ۔۔۔۔
بل کے ساتھ بھاری بھرکم ٹپ اس کے حوالے کرتے ہوئے وہ بڑا بھرپور مسکرایا تھا جس پر جاناں نے توجہ نہیں دی تھی ۔۔۔
وہ تو ہاتھ میں آئے تین ہزار روپوں میں ہی گم ہو چکی تھی ۔۔۔
***************************
“چچ ! یہ خیال مجھے پہلے کیوں نہیں آیا ۔۔۔۔۔”
افسوس سے اس نے اپنا ہاتھ سر پر مارا تھا ۔۔۔
“وہی پیسے دے دیتی اس حرام خور کو ۔۔ تقریباً اتنا ہی تو بل تھا ۔۔۔۔
اب تو خرچ بھی کر لیئے میں نے ۔۔۔”
منہ بنا کر ابھی ابھی لا کر رکھے راشن کی طرف دیکھا ۔۔۔
“اب کیا کیا جا سکتا ہے ۔۔۔”
جیکٹ کھونٹی پر ٹنگا کر وہ بیٹھی ہی تھی جب بری طرح دروازہ پیٹا گیا تھا ۔۔۔۔
جیکٹ پھر سے پہن کر اس نے دروازہ کھولا تھا ۔۔۔
سامنے ہی اس کا باپ کھڑے کھڑے جھول رہا تھا ۔۔۔۔
ڈیڑھ ہفتے بعد باپ نظر آیا تھا مگر ۔۔۔
سائڈ ہو کر اس نے باپ کو اندر آنے کا راستہ دیا تھا ۔۔۔
مگر جمیل نے اندر پہلا قدم رکھتے کے ساتھ ہی اس کے بالوں کو مٹھی میں لیا تھا ۔۔۔
لیکن ارے یہ کیا ۔۔۔ بال تو بس ایسے تھے جنہیں چٹکی سے پکڑا جا سکتا تھا ۔۔۔
سو بال پکڑنے کی خواہش دبا کے اس نے جاناں کے سر پر ایک زور دار تھپڑ رسید کیا تھا ۔۔۔
انداز ایسا جاہلانہ تھا جیسے وہ خود بھی بھول چکا تھا کہ وہ لڑکی تھی ۔۔۔
صحن سے کمرے میں جانے تک کے سفر میں ایسی کون سی گالی تھی جو اس نے جاناں کو نہیں دی تھی ۔۔۔
جاناں کے چہرے پر کسی قسم کا تاثر نہیں ابھرا تھا ۔۔۔
یہ تو ہر اس دن کا معمول تھا جب جمیل گھر میں آتا ۔۔۔
چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی وہ جب تک کمرے میں پہنچی جمیل کمرے میں موجود مختصر سے سامان کو تلپٹ کر چکا تھا ۔۔۔۔
“ابے ۔۔۔۔۔۔۔۔ !”
جمیل نے اسے دیکھتے کے ساتھ ہی ایسے گندے نام سے مخاطب کیا تھا جسے سن کر اس کا چہرہ سفید پڑ گیا تھا ۔۔۔۔
اتنے سالوں میں اسے مار کھانے کی ، گالیاں سننے کی عادت تو ہو چکی تھی لیکن جانے کیوں ایسے لفظوں کی وہ ابھی تک عادی نہیں ہو سکی تھی ۔۔۔
“تُو تو کہ رہی تھی تیرے پاس ایک روپیہ نہیں ۔۔۔۔ پھر دکان پر کھڑی سامان کیسے لے رہی تھی !”
“ابا میں نے کام شروع کر دیا ہے ۔۔۔
اور پیسے کوئی بہت زیادہ نہیں تھے ۔۔ بس چند روپے تھے جن سے میں راشن لے آئی ۔۔۔”
“واہ کتیا واہ ! باپ مانگے تو پیسے نہیں اپنی بھوک کی بڑی فکر ہے ۔۔۔”
“کیوں ؟ تم نہیں کھاتے ہو کھانا ؟”
“کب کھاتا ہوں میں گھر میں کھانا ؟”
“تو کھایا کرو نہ ۔۔۔ روکا کس نے ہے ؟
شراب پیتے رہتے ہو ، کبھی جب بھوک لگتی ہے تو میرا دماغ کھانے آ جاتے ہو ۔۔”
“باپ کے آگے زبان چلاتی ہے ۔۔۔ تیری تو !”
وہ جوتی اتار کر اس کی طرف اڑا چکا تھا
جس سے بچتی وہ چھت پر بھاگی تھی ۔۔ نیچے سے اب بھی جمیل کے چلانے کی آواز آ رہی تھی ۔۔
“دیکھتا ہوں مجھے پیسے نہ دے کر تو خود کیسے عیش کرتی ہے ”
اس وقت تو وہ کچھ سمجھے بغیر کان بند کر کے چھت پر پڑے اپنے جھلنگا سے پلنگ پر لیٹ گئی تھی لیکن صبح اٹھ کر اسے احساس ہوا اسے باپ کی بات پر دھیان دینا چاہیے تھا ۔۔۔
آٹا ، چاول ، اور دال زمین پر بکھرے ہوئے تھے اور ان پر پانی بھی رج کر ڈالا گیا تھا ۔۔۔۔
آٹا تو اب کسی کام کا نہیں رہا تھا ۔۔
باقی سب چیزیں وہ صاف کر کے استعمال کر سکتی تھی ۔۔۔
“آلو ؟ آلو کہاں گئے ؟”
یہاں وہاں نظریں دوڑاتے اسے ایک آلو نظر آ ہی گیا ۔۔۔
سارے آلو ادھر ادھر بکھرے تھے جنہیں سمیٹتی وہ مسلسل بڑبڑا رہی تھی ۔۔۔
***************************
اطراف کا جائزہ لیتے ہوئے اس نے چونک کر زمان خان کو دیکھا تھا جو بڑی بھرپور مسکراہٹ لبوں پر سجائے کسی سوٹڈ بوٹڈ شخص کے ساتھ آفس سے باہر نکلا تھا ۔۔۔
اس شخص کو اس کی بڑی سی گاڑی تک چھوڑتے ہوئے اس نے ترچھی نظروں سے جاناں کو بھی دیکھا تھا ۔۔۔
“جی جواد صاحب کیسے آنا ہوا ؟”
اس کے کندھے پر زور دار ہاتھ مار کر زمان خان نے اسے ہلا کر رکھ دیا تھا ۔۔۔
شانہ سہلاتے ہوئے جاناں نے اس پر ایک زبردستی گھوری ڈالی تھی
پھر جیکٹ کی جیب سے پیسے نکال کر اس کی طرف بڑھا دیئے ۔۔۔
آئی تو وہ یہاں کچھ مزید دن کی مہلت مانگنے تھی جب ایک بھری ہوئی جیب دیکھ کر نظریں نہیں چرا سکی تھی ۔۔۔
“کیا بات ہے ؟ کیا شرافت ہے !”
بے جھجک اس سے پیسے لیتے ہوئے زمان خان نے داد دیتی نظروں سے اس کے جیکٹ کے کالر اور کیپ میں چھپے چہرے کو دیکھنے کی کوشش کی تھی ۔۔۔
“شرافت تو نظر آئے گی ہی صاحب !
غریب ہیں بیغیرت نہیں ۔۔۔”
بیغرت کہتے ہوئے جاناں نے ایک اچٹتی سی نظر زمان خان کے دھوپ میں چمکتے چہرے پر ڈالی تھی ۔۔
جسے نوٹ کرتا وہ ہنس دیا تھا ۔۔۔
“بہت آگے جائیں گے آپ جواد صاحب ۔۔۔ لکھوا لیں مجھ سے ۔۔!!
ویسے کیا کسی کی جیب ماری ہے ؟”
مشکوک نظروں سے اسے گھورتا ہوا زمان خان دو قدم آگے بڑھا تھا ۔۔۔
جبکہ کوفت سے اسے دیکھتی جاناں تین قدم پیچھے ہونا چاہتی تھی ۔۔
لیکن ۔۔
“افو !!!”
اس لمحہ بھر کی قربت میں جاناں نے اس کی ہی جیب پر ہاتھ صاف کرنا چاہا تھا ۔۔۔۔
مگر دوسری طرف زمان خان تھا ۔۔۔
اب صورتحال کچھ یوں تھی کہ جاناں کا ہاتھ زمان خان کی جیب سے جھانکتے بٹوے پر تھا اور زمان خان کا ہاتھ اس کے ہاتھ پر ۔۔۔
ابرو اچکا کر گھورتا زمان خان اس کا خون خشک کر چکا تھا ۔۔۔۔
حلق تر کرتے ہوئے اس نے زمان خان کے چہرے کی طرف اٹھا سر جھکایا تھا ۔۔۔۔
“جیسا کہ میں کہ چکا ہوں آپ بہت آگے جائیں گے ۔۔ لیکن اتنا آگے ؟
آپ تو کھڑے کھڑے مجھے حیران
کر دیتے ہیں جواد صاحب ۔۔۔۔
اگر چہ کوشش ناکام رہی لیکن ہمت کہیں یا “بیغیرتی” جو بھی ہے بہت پسند آئی مجھے ۔۔
سو اس پر سلامی قبول کیجیئے ۔۔”
اپنے بٹوے سے کچھ ہرے لال نوٹ نکال کر اس نے جاناں کی طرف بڑھائے تھے ۔۔۔۔
خفت سے سرخ پڑتے چہرے کے ساتھ جاناں وہاں سے گم ہو جانا چاہتی تھی ۔۔
“ارے لے لیجیئے ۔۔ واپس نہیں مانگوں گا ۔۔۔۔ کوئی چال نہیں ہے ۔۔ سلامی ہے !”
اس کی شکل دیکھتا زمان خان بہت مشکل سے اپنا قہقہ روک سکا تھا ۔۔۔
ہچکچاتے ہوئے نوٹ لے کر جاناں وہاں سے بھاگتی چلی گئی تھی ۔۔۔
“خدا مجھے کبھی دوبارہ اس شخص سے نہ ملائے”
دل نے بیساختہ دعا کی تھی ۔۔۔
جبکہ زمان خان ایک بار پھر اس ہوٹل میں جانے کا ارادہ کر چکا تھا ۔۔۔
وہ بڑے بڑے ریستورانس میں جاتا تھا ۔۔ ہوٹل میں کبھی کبھار ہی شغل کے لیئے نکل پڑتا ۔۔۔
یا ہوٹلوں میں بیٹھے لوگوں کی جھکی گردنوں سے اپنے اندر کے خود پسند شخص کو تسکین پہنچانے چلا جاتا ۔۔۔
زمان خان کو خوبصورتی نہیں انفرادیت متاثر کرتی تھی ۔۔۔
اور جو انفرادیت اسے جاناں میں نظر آئی تھی وہ ابھی تک کسی میں نظر نہیں آئی تھی ۔۔۔۔
*****************************
“جواد نمک لے کر آئو ۔۔ یہ کیا پھیکا ملغوبہ ہے ؟
جواد ٹھنڈا پانی لائو یار !
جواد !!! یہ ٹیبل پر زرا کپڑا مارو ۔۔
کچھ گر گیا ہے ۔۔۔
جواد !!
جواد !!!
جواد !!!!”
زمان خان نے کب سے اسے تگنی کا ناچ نچا رکھا تھا ۔۔۔
ہوٹل میں موجود سب ہی لوگ یہ تماشہ دیکھ رہے تھے ۔۔۔
جاناں کے چہرے پر بھاگ دوڑ کی وجہ سے تھکان بھی نمایاں نظر آ رہی تھی ۔۔
لیکن زمان خان کو ٹوکنے کی ہمت کسی میں نہیں تھی ۔۔۔
“جواد مجھے ۔۔۔”
“صاحب !! کس بات کا بدلہ لے رہے ہیں آپ ؟”
بالاخر جاناں اس کے سر پر آ کر دھیمی آواز میں پھٹ پڑی ۔۔
“یہ جو میرے دھڑ کے نیچے ٹانگیں ہیں ۔۔۔ یہ مشینی نہیں ہیں انسانی ہیں ۔۔ جو اب بہت بری طرح تھک چکی ہیں ۔۔۔۔
خیر کہیئے ! کیوں بلوایا ہے ؟”
زمان خان کی چڑھتی تیوری نے جاناں کو یاد دلا دیا تھا کہ وہ کون تھا ۔۔۔
“میں تمہیں صرف ذہنی طور پر تیار کر رہا تھا ۔۔
ایسے حالات کا سامنا تمہیں بعد میں بھی کبھی کرنا پڑ سکتا ہے ۔۔۔
ویسے میرے پاس تمہارے لیئے ایک کم محنت اور ذیادہ سیلری والی جاب ہے ۔۔”
“ہرگز نہیں ۔۔
کبھی نہیں ۔۔۔
مر کر بھی نہیں ۔۔
بھلے سے یہ منحوس مجھے سوتے رہنے کے ایک لاکھ روپے دے ۔۔ میں تب بھی اس کی دی ملازمت نہیں کروں گی ۔۔۔
اس کی دی ملازمت کرنے لا مطلب ہے اس کی جاگیری میں آ جانا ۔۔
جو مجھے ہرگز منظور نہیں ۔۔۔”
دل ہی دل میں فیصلہ کرتی وہ زمان خان کی آواز پر ہوش میں آئی تھی ۔۔۔
“میں جب بھی تم سے بات کرتا ہوں تم کن خیالوں میں کھو جاتے ہو ؟
اس پر یہ بھارتی ڈراموں والے عجیب و غریب ایکسپریشنز ”
“نہ ۔۔ نہیں صاحب جی کچھ نہیں سوچتا ۔۔۔۔۔
کیا سوچوں گا ؟
آپ کی بڑی مہربانی ۔۔
لیکن بس یہ کام ہی ٹھیک ہے ۔۔۔
پھر میرے گھر سے بھی نزدیک ہے !
اور یہ “اسپرشن” والی کیا بات کی آپ نے ؟
کیا آپ بھی پڑوس والوں کے ڈرامے دیکھتے ہیں؟
تُلسی والا دیکھا ہے آپ نے ؟
اور پاروتی والا ؟
میرا نہیں خیال کسی پاکستانی بچے کا بچپن ان گھٹیا ڈراموں کو دیکھے بغیر گزرا ہوگا ۔۔ ”
“آہم !! بکواس بند کرو ۔۔”
گلا کھنکھار کر زمان خان نے اسے ڈپٹہ تھا ۔۔۔
“اور زرا یہ بتائو کہ مجھ سے اس طرح بات کرنے کی ہمت کہاں سے لاتے ہو ۔۔؟؟”
“سچ کہوں تو یہ ہمت مجھے آپ کا رویہ ہی دیتا ہے لیکن اس بات کا اظہار کر کے میں آپ کو اپنے سر پر نہیں بٹھانا چاہتی ۔۔۔”
وہ ایک بار پھر سے دل میں خود مخاطب ہوئی تھی لیکن اس بار اپنے چہرے کے تاثرات پر کنٹرول رکھنے کی کوشش کی تھی ۔۔۔
پھر بتیسی نکال کر بولی ۔۔
“بس صاحب جی ۔۔۔۔ ضمیر پر ایسا کوئی بوجھ نہیں جو آپ جیسوں کے سامنے جھجھکنے پر مجبور کرے”
“اس آپ جیسوں سے کیا مراد ہے تمہاری ؟”
عادتاً ایک ابرو اٹھا کر گھور کے پوچھتا وہ ٹیبل پر پڑے اپنے گنگناتے فون کی طرف متوجہ ہوا تھا ۔۔۔
اور کال کرنے والے کا نام پڑھ کر اسے جانے کا اشارہ دیا ۔۔۔
اور جاناں ۔۔
جس کا رنگ اڑ چکا تھا ۔۔۔
جلدی سے وہاں سے کھسکتی کال کرنے والے کو دعائیں دیتی زیر لب بڑبڑائی تھی ۔۔۔
“آپ جیسو سے مراد ۔۔۔
بغیرت ، منحوس ، الو کے پٹھے ، حرام خور ، بااثر لوگوں سے ہے صاحب جی !!!”
دور سے اسے اپنے آپ میں مسکراتے
عجیب عجیب سے تاثرات دیتے دیکھ کر زمان خان سر ہلا کر رہ گیا ۔۔۔
*****************************
“بس بہت ہو گیا ۔۔۔
ہر دوسرے دن کا ڈرامہ بنا رکھا ہے سڑیل منحوس نے ۔۔۔
افسر ہے تو خود کو سمجھ کیا رہا ہے ؟
باپ نہیں ہے میرا جو میں سب چپ چاپ برداشت کر لوں گی ۔۔۔
کام کرنا عذاب بنا رکھا ہے ۔۔
میں اس ہوٹل میں ملازم ہوں یا اس کتے کی ملازمہ ۔۔۔!!”
دکھتی ٹانگوں پر مکے رسید کرتے ہوئے وہ باقاعدہ چلا رہی تھی ۔۔۔
ایک بار تو اس نے صبر کر لیا تھا لیکن زمان خان کو شائد اس کا صبر کرنا کچھ خاص پسند نہیں آیا تھا جو ہر دوسرے دن ہوٹل چلا آتا اور اس کی ناک میں دم کر کے رکھ دیتا ۔۔۔
“بس تھوڑا پیسہ جمح ہو جائے ۔۔۔
گھر میں ہی برگر بنا بنا کر بیچوں گی ۔۔
محلے کے بچوں کو بڑی پسند بھی ہیں ایسی چیزیں ۔۔۔
یا اسکول والوں سے بات کروں گی ۔۔
ہاں بس اب یہی کروں گی ۔۔۔
اب زیادہ عرصے تک میرا تماشہ نہیں لگا سکتا اب وہ کمینہ افسر !!!”
صرف فیصلہ کر کے ہی وہ خود کو بڑا ہلکا پھلکا محسوس کرنے لگی تھی ۔۔
لیکن ساری پلاننگ الٹ پلٹ ہو گئی جب گلی کے بچے نے بہتی ناک کے ساتھ آ کر بتایا ۔۔
“تیرے ابا کا جھگڑا ہو گیا اے ادھر جدھر وہ ہوتا اے ۔۔۔
پولیس پکڑ کے لے گئی اس کو ”
اور اب وہ ایک بار پھر زمان خان کے سامنے تھی ۔۔۔
جو کرسی آہستہ آہستہ اِدھر اُدھر ہلاتا ایک بار پھر اس اتفاقی ملاقات پر سرشار سا لگ رہا تھا ۔۔۔
*******
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...