تو پھر کیا فیصلہ کیا بابا آپ نے ؟؟؟
کچھ گھنٹے پہلے ہونے والے واقعے کا شائبہ تک نہ تھا اسکے چہرے پر ۔۔ تقریبا سب ہی نے ایک بار رک کر اسے دیکھا ۔۔ نوال کا منہ حلق تک کڑوا ہوگیا اسکی بات پر ۔۔۔
میرا فیصلہ سیدھا اور صاف ہے ۔۔ نوال کی شادی تم سے نہیں ہوگی ۔۔۔ شاہین صاحب کی ضد برقرار تھی۔۔
فاتح کے لبوں مسکراہٹ ابھر کر معدوم ہوئی ۔۔
پوچھ سکتا ہوں کہ ایسے کونسے سرخاب کے پر لگے ہوئے ہیں محترمہ نوال صاحبہ میں جن کی میں حفاظت نہیں کرسکتا ؟؟ وہ اچٹتی نگاہ نوال پر ڈال کر طمانیت سے شاہین صاحب کی طرف متوجہ ہوا ۔۔
نوال سر تا پا سلگ گئی ۔۔۔
تم اپنی حرکتیں ٹھیک کرلو پہلے ۔۔ باقی باتیں تو دور کی بات ہے ! شاہین صاحب گھور کر بولے۔۔
اوکے میں اپنی حرکتیں ٹھیک کرنے کے لئے تیار ہوں ۔۔ اور کچھ؟؟ ۔۔ وہ جیسے آج انہیں منانے کےموڈ میں تھا ۔۔
نوال سمیت سب لوگ کھانا چھوڑ کر اس بدلائو پر عجب نظروں سے دیکھنے لگے ۔۔
جیسے صبح اٹھ کر معمول کے کام کرنا ۔۔ آفس جانا ۔۔ گھر والوں کی ضروریات کا خیال رکھنا لیکن تمہیں اس نامراد فٹبال سے فرست ملے تب نا ۔۔
منظور ہے بابا ۔۔۔
وہ دوبدو بولا ۔۔
شاہین صاحب حیران رہ گئے۔۔۔ اسکی چہرے پر چھائی سنجیدگی اور لہجے کی پختگی پر وہ چونکے تھے ۔۔ یعنی تھپڑ نے اثر دکھا دیا ۔۔ وہ دل ہی دل مسکرائے ۔۔
مجھے ایسا لگ رہا ہے جیسے میں کسی آفس میں جاب انٹرویو کے لئے بیٹھا ہوں ۔۔۔ اور آپ شرطوں پر کھیلنے والے کھڑوس باس کی طرح بی ہیو کر رہے ہیں بابا ۔۔ میں ساری باتیں مان تو رہا ہو ۔۔ کچھ تو بولیں ؟؟
انتہائی سادہ لہجہ اور ملتجی نگاہیں ۔۔۔
نوال پر حیرت کے پہاڑ ٹوٹ پڑے تھے۔۔ وہ بس اسے دیکھے گئی ۔۔ یہ وہی مغرور فاتح تھا ؟؟
شاہین صاحب اسکے انداز پر ہلکا سا ہنسے ۔۔
بھئی میں کیا کہہ سکتا ہوں آخری فیصلہ نصیبہ کا ہی ہوگا ۔۔۔ وہ جو بے تابی سے فیصلے کا منتظر تھا انکا جواب سن کر لمبی سانس کھینچ کر خود کو ڈھیلا چھوڑ دیا
اب آپ بھی اُسی آفس میں سیکریٹری کے عہدے پر فائز ہوں گی ۔۔ جو معاملہ لٹکانا فرض سمجھتی ہیں ۔۔۔
وہ اپنے مخصوص انداز میں بولا ۔۔۔ وہ ہنس پڑیں
بھلا میں کیوں معاملہ لٹکائوگی بیٹا ۔۔ اگر شاہین بھائی راضی ہیں تو میں میں انکی رضامندی سے خوش ہوں ۔۔ نصیبہ پھپھو سادگی سے گویا ہوئیں ۔۔
لیکن مجھے فاتح سے شادی نہیں کرنی اماں! وہ ہمت جٹاتی آخر کار بول پڑی ۔۔
فاتح کی گفتگو انجوائے کرتے نفوس اچانک سے سنجیدہ ہوکر اسے دیکھے گئے ۔۔ تاشا کا دل کیا اس بات پر نوال کا سر پھوڑ ڈالے ۔۔ بیوقوف لڑکی۔۔
تم چپ رہو نوال ۔۔ میں پھپھو سے بات کر رہا ہوں ۔۔
کیا شانِ نیازی تھی ۔۔ اس پر نگاہ غلط ڈالے بغیر بولا ۔۔ گویا جتا دیا گیا کہ اسکی بات کی کوئی وقعت نہیں ہے ۔۔۔
نوال کے تن بدن میں آگ لگ گئی ۔۔۔
اماں میں نے کہا نا مجھے ۔۔ اس نے بولنا چاہا ۔۔
تم چپ رہو نوال ۔۔ اگر بھائی کو کوئی اعتراض نہیں تو مجھے بھی نہیں ۔۔ وہ قطعی لہجے میں بولیں ۔۔ بس پھر کیا تھا ۔۔ فاتح کے خوبصورت چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ تیرنے لگی ۔۔۔
وہ اب بولو؟ والی نگاہوں سے بغور اسکا چہرہ دیکھنے لگا ۔۔۔ جس پر چھائی مایوسی اور بے بسی اسے مزا دے گئی ۔۔۔
بھئی نوال کو بھی تو بولنے دیا جائے ۔۔ شاہین ماموں کی آواز پر وہ متوجہ ہوئی لیکن اماں کی گھورتی نگاہوں نے اسکی زبان پر تالے لگادیئے تھے ۔۔ وہ آنسو دباتی کرسی دھکیل وہاں سے نکلتی چلی گئی ۔۔۔
فاتح کی مسرور کن نظروں نے بہت دور تک اسکا پیچھا کیا ۔۔
چلیں ۔۔ تو پھر کل ہی نکاح رکھتے ہیں ؟؟؟ اس نے سب کے سروں پر دھماکہ کیا ۔۔
کیا؟؟؟ فاتح بھائی ایسی بھی کیا بے صبری ۔۔ شادی کے بھی کچھ اصول ہوتے ہیں ۔۔۔ کچھ تیاریاں کرنی ہوتی ہیں !
تاشا پھٹ پڑی ۔۔
نوال سہی کہہ رہی ۔۔ اس گھر میں صدیوں بعد شہنائی بجنے والی ہے بھئی کوئی جلد بازی نہیں ہوگی۔۔ ہم اپنی نوال کو دھوم دھام سے رخصت کریں گے ۔۔ تصور بھائی خوشدلی سے گویا ہوئے ۔۔
آپ تو بڑے ہی بے وفا نکلے تصور بھائی۔۔ پارٹی بدل لی ! تاشا کو صدمہ ہوا ۔۔
میں اور ہبا اب لڑکی والے ہیں ! تصور بھائی نے جتایا ۔۔
تو بس پھر نصیبہ پھپھو ،اماں ،یوسف بھائی ، بابا ہم سب لڑکے والے ہیں ! وہ بھی دوبود بولی ۔۔
پہلے پوچھ تو لو ۔۔ وہ تمہاری طرف ہیں بھی یا نہیں !
وہ میری طرف ہیں ۔۔ بھئی بتائیں آپ لوگ؟؟
ان کی باتیں فاتح کے علاوہ سب ہی انجوائے کر رہے تھے ۔۔ فاتح کی طبیعت پر یہ گفتگو گراں گزر رہی تھی سو وہ خاموشی سے اٹھ کر کمرے میں آگیا ۔۔ کسی سوچ کے تحت اس نے فون پر نمبر ملا کر کان سے لگالیا ۔۔
کیسے ہیں ابراہیم بھائی ؟؟؟
میں ہینڈسم ۔۔ آپ بتائیں اگر مصروف نہیں ہیں تو مل سکتے ہیں ؟ آپ کو ایک خوشخبری سنانی تھی ۔۔
اس کی خوشی لہجے سے عیاں تھی ۔۔
ٹھیک ہے میں کچھ دیر تک آتا ہوں ۔۔ فون کان سے ہٹا کر وہ جست لگا بیڈ پر گر گیا ۔۔ جیسے بہت بڑا معرکہ سر کرنے کے بعد جشن کا خواہشمند ہو ۔۔۔
___________________________________________
کتنی بڑی ہوگئی ہے ماشااللہ سے ۔۔ جب میں نے اسے دیکھا تھا تو بہت چھوٹی تھی ۔۔
وہ سکرین سے نظریں ہٹا کر فاتح سے بولا ۔۔
خود تو بڑھ گئی ہے مگر اس کی عقل وہیں کی وہیں ہے !
فاتح زیر لب بڑبڑایا ۔۔
مجھے تو یقین نہیں آرہا کہ تم دونوں کہ شادی ہورہی ہے ۔۔۔تمہاری اور نوال کی تو بلکل نہیں بنتی تھی بچپن میں کہاں تم اکڑو اور کہاں وہ حساس سی نوال ۔۔
ابراہیم ہنوز بے یقین تھا ۔۔
بس بھائی ۔۔۔ میں نے سوچا کیوں نہ اب بنا لیں بچپن میں نہیں بنی تو ۔۔ویسے بھی شادی تو کرنی ہی تھی ۔۔ کسی اور سے یا نوال سے کیا فرق پڑتا ہے ۔۔ اکڑ ہنوز قائم تھی
مطلب تم اپنی زمہ داریوں سے بھاگ کر نوال کے پیچھے چھپ رہے ہو ۔۔ ابراہیم نے ابرو اٹھایا ۔۔
ایسی کوئی بات نہیں بھائی ۔۔ اس نے ناک سے مکھی اڑائی
امید کرتا ہوں کہ نوال کی حق تلفی نہیں ہوگی کسی بھی لحاظ سے ۔۔
بس کریں بھائی ۔۔ یہی سب سن کر آرہا ہوں گھر سے ۔۔ میرے بارے میں توکسی نے ایک لفظ نہیں کہا ۔۔ خیر چھوڑیں ساری باتیں آپ آرہے ہیں نا میری شادی پر ؟
قدرے اکتاہٹ بھرے لہجے میں بولتا بات بدل گیا ۔۔
مشکل ہے فاتح ۔۔ میں مشن پر ہوں کسی بھی وقت طلبی ہو سکتی ہے ۔۔ ابراہیم نے دامن بچالیا ۔۔
بھائی بس چند گھنٹے کی تو بات ہے دل مت توڑیں چھوٹے بھائی کا ۔۔ فاتح منہ بسورنے لگا
ابراہیم ہلکا سا ہنس دیا ۔
ٹھیک ہے میں کوشش کروں گا ۔۔ وعدہ نہیں کر سکتا ۔۔ وہ کہہ کرسی دھکیلتا اٹھ کھڑا ہوا
بیٹھیں تو سہی میں نے کھانا آرڈر کیا ہے بس آتا ہی ہوگا ۔۔
نہیں یار ۔۔ بس چلتا ہوں چند ضروری کام نپٹانے ہیں ۔۔
وہ ٹال گیا ۔۔
فاتح نے ہلکی سی مایوسی سے اسے الوداع کہا ۔۔
وہ ریسٹورنٹ سے باہر آیا ۔۔۔
جانے وہ گھر جانے سے کیوں کترا رہا تھا ؟ کیوں وہ لامحدود وسوسوں کی زد میں تھا ۔۔ پچھلے کئی سالوں سے ۔۔ پتا نہیں اماں اسے یاد کرتی ہوں گی یا نہیں ؟ ہبا کے بچے کہیں پہچاننے سے انکار ہی نہ کردیں ؟ تاشا اسے دیکھ کر کیا رد عمل دے گی ! اسکا کمرہ ابھی بھی ‘اسکا’ تھا کہ کسی اور کے استعمال میں تھا ۔۔۔ گھر کے مکین اسے زندہ سلامت سامنے پاکر ہوسکتا ہے خوشی کا اظہار نہ کریں ۔۔ یہ سوچیں اسے دیمک کی طرح اندر ہی اندر کھائے جارہی تھیں ۔۔اس نے کئی بار گھر کی چوکھٹ لانگھنے کی کوشش کی مگر ہر بار سب کو زندگی سے بھرپور ہنستا بستا دیکھ کر واپس چلا آتا ۔۔ شاید ان لوگوں اب اسکی ضرورت نہیں رہی تھی ۔۔ سب نے اسکے بغیر جینا سیکھ لیا تھا ۔۔۔ جب وہ شدید زخمی حالت میں تھا ۔۔ تب اسے یکے دیگرے ہفتے بعد ہوش آیا ۔۔ اس کی آنکھ ہسپتال کے بستر پر کھلی ۔۔ کرنل جاوید سے اسے معلوم پڑا کہ وہ انکے بیٹے (میجر عون) کو آپریشن کے دوران ملا تھا ۔۔ اس نے کوئی دوسرا سوال نہیں کیا تھا ۔۔ نہ ہی جاننے کی کوشش کی ۔۔ وہ کب ؟ کیوں ؟ کیسے ؟ یہاں تک پہنچا ۔۔ انکوائری بٹھائی گئی تو کرنل جاوید کو معلوم پڑا کہ وہ نامور کاروباری شخصیت شاہین سہگل کا بیٹا ہے۔۔۔ انہوں نے اسے اسکے خاندان کے سپرد کرنا چاہا ۔۔ مگر تب شاید دیر ہوچکی تھی۔۔ شاید مہینوں بیت گئے تھے ۔۔۔ اسے مکمل ریکور ہونے میں ۔۔ تب تک وہ کرنل جاوید کے ہاں رہائش پذیر تھا ۔۔انکے بیٹے میجر عون سے اسکی خاصی دوستی ہوگئی تھی ۔۔
وہ بے رنگ زندگی خالی الذہنی ۔۔ لامعدود خدشات کے چلتے کئی بار قبرستان کے چکر لگا آیا ۔۔ اسے کئی بار اماں وہاں یوسف کے ہمراہ اپنی قبر پر روتی ہوئی ملتی۔۔۔ کئی بار تو اسکا دل چاہا کہ ان کے سامنے چلا جائے ۔۔انہیں سینے لگا لے ۔۔انہیں بتائے کہ انہی کہ دعائوں کا اثر تھا کہ وہ اتنا بڑا حادثہ ہونے کے بعد بھی زندہ تھا ۔۔۔ اک ان دیکھی سی دیوار درمیان میں حائل ہوچکی تھی۔۔ وہ اپنی بیوی کی تلاش میں بھی کئی بار وہاں گیا۔۔ لیکن وہ شاید موو آن کر چکی تھی ۔۔ جسے اس نے ٹوٹ کر چاہا تھا وہ اسکی موت پر رسماً بھی آنسو نہیں بہا سکی ۔۔۔ اسکا دل شدت سے چاہا دھڑکن ساکت ہوجائے ۔۔کم از کم بے مقصد سے چھٹکارا تو مل جاتا
عون نے اسکی حالت سے شدید خائف تھا۔۔۔
وہ بارہا اسے اپنے یونٹ میں بھرتی ہونے کا کہہ چکا تھا۔۔ اس نے بہت سوچ بچار کرنے کے بعد حامی بھرلی تھی ۔۔۔ ٹریننگ کے دروان خاصا عرصہ گزر گیا ۔۔وہ چاہنے کے باوجود گھر نہیں جا پایا تھا۔۔ لیکن عمارا کی محبت سے اسکے دل میں شدید جڑیں پکڑ چکی تھی ۔۔ اسکی گریجویشن پارٹی ، برتھڈے پارٹی ، وقت بے وقت کی آئوٹنگ ، یونیورسٹی میں ڈاکٹرز (ساتھی) کے اٹھنا بیٹھنا ابراہیم کو سخت ناپسند تھا ۔۔ وہ ہرگز ہرگز اس سے غافل نہیں تھا۔۔اسکے اندر نئی جنگ چھڑ چکی تھی ۔۔۔ ابراہیم جس قدر شدت سے اسے چاہتا تھا وہ اتنا ہی اس سے دور بھاگتی تھی ۔۔ اسے آج بھی یاد تھا ۔۔۔وہ بچپن والی عمارہ اسکے جانے کے بعد ایک انچ بھی نہیں بدلی تھی اور شاید اسکے مرنے پر زیادہ خوشی عمارا ہی کو ہوئی ہوگی ۔۔وہ کبھی کبھی سوچتا تھا ۔۔۔
اسے دو سال لگے تھے خود کو بنانے میں ۔۔بہت سی جوڑ توڑ ، جمع تفریق کرنے کے بعد بلاخر وہ زندگی کی طرف لوٹ تو آیا تھا مگر جینا بھول گیا ۔۔
کچھ وقت اور آگے سرکا تو ملٹری سے وہ ملٹری انٹیلجنس میں جاسوس بھرتی ہوگیا ۔۔ زندگی کٹ رہی تھی ۔۔ گھر کی زیادہ یاد آتی تو وہ کبھی کبھار چوری چھپے انہیں دیکھنے چلا آتا ۔۔۔ پھر اچانک زندگی رومانچک موڑ پر آگئی ۔۔ کئی برسوں بعد اسے لگا کہ وہ پھر ایک بار اسی مقام پر کھڑا ہے. ۔۔ جہاں سے چلا تھا۔۔
انہیی رستوں کا سفر کر رہا تھا جس پر اسکا داخلہ ممنوع کردیا گیا ۔۔۔
کمانڈر کے ہاں اپنی اصل شناخت چھپائے وہ دو مہینے پہلے ہی آیا تھا ۔۔ اچانک ایک دن گولی لگنے پر حاکم اسے ہاسپٹل لے آیا ۔۔ اسے اندازہ نہیں تھا اسکی ملاقات یوں عمارا سے ہوجائے گی ۔۔۔ لیکن اس سے بھی شدید صدمہ اسے تب ہوا جب عمارا نے اسے پہچانا تک نہیں ۔۔۔
دل کیا اسی لمحے موت واقع ہوجائے ۔۔۔
اس نے باتوں ہی باتوں میں اسے جاننے کی کوشش کی ۔۔۔اسکے گلے میں اپنے نام کا لاکٹ دیکھ کر اس نے تنز بھی کیا تھا۔۔۔ مگر عمارہ نے کوئی خاص تاثر نہیں دیا ۔۔ اسکا دل اسے جھنجھنوڑ ڈالے ۔۔ کیا اسکا وجود اتنی بھی وسعت نہیں رکھتا تھا کہ اسکے دل میں اپنی جگہ بنا پاتا ۔۔۔ اسکے دل کو بہت بری طرح ٹھیس پہنچی تھی۔۔
وہ جیسے تیسے وہاں سے نکل آیا ۔۔ آتے وقت اس نے یونہی ہلکی سی سزا کے طور پر ڈرادیا تھا ۔۔ پل بھر کو ہی سہی وہ اسکے بارے سوچے گی تو ضرور۔۔
چند دن گزرنے کے بعد قاسم پکڑا گیا تھا ۔۔۔مگر کمانڈر پر قاسم کو چھڑانے کا بھوت سوار ہوگیا تھا ۔۔۔ مطعلقہ ایجنٹس کو اطلاعی پیغام پہنچاتے وقت حاکم کو اس پر شک ہوگیا تھا ۔۔۔ اس لئے اسے بھی راستے سے ہٹانا پڑا ۔۔ کمانڈر کے خرافاتی سے دماغ میں چلتے منصوبے سے وہ قطعی لاعلم تھا ۔۔ ہاسپٹل کے باہر جب اسے معلوم پڑا وہ ڈاکٹرز سے بھری بس کو اغوا کرکے بندی بنانے والے ہیں ۔۔ اسے بہت غصہ آیا دل کیا کمانڈر کے ٹکڑے ٹکڑے کردے ۔۔۔ لیکن اسے خاموش تماشائی بننا پڑا ۔۔کیونکہ اس وقت وہ درباس تھا ابراہیم نہیں۔۔
عمارا کو ان ڈاکٹرز میں موجود دیکھ اسکی تکلیف اذیت میں بدل گئی۔۔ وہ چاہ کر بھی اسکے لئے کچھ نہیں کر پارہا تھا ۔۔۔ اس نے جنرل کو سگنل دے دیا ۔۔ انہی کی جانب سے اسے امداد کا انتظار تھا ۔۔ لیکن ڈاکٹر ماہین کو لگنے والی کمانڈر کی گولی نے سب بدل دیا ۔۔ وہ جب اسکی لاش کو اٹھا کر دفنانے کے لئے گئے تو وہ سانس لے رہی تھی ۔۔۔ ابراہیم کو نہ چاہتے ہوئے کمانڈر کے ساتھی کو مارنا پڑا ۔۔۔ماہین کو اس نے اپنے ساتھیوں کے حوالے کردیا تھا ۔۔۔ مجبوراً ایک گولی اسے خود کو بھی مارنی پڑی ۔۔ تاکے اسکے جواز کے پر سوال نہ اٹھے ۔۔ کمانڈر نے اسکی بات پر یقین کرلیا تھا کہ پہلے گولی دوسری جانب سے ہی چلی ہوگی ۔۔۔ لیکن پھر الگ مسلہ کھڑا ہوگیا تھا ۔۔ عمارا نے اسکا چہرہ دیکھ لیا تھا ۔۔ اگر وہ واپس جا کر ملٹری کو اپنا بیان دے دیتی تو اسکی خفیہ سرگرمیاں عیاں ہوجاتی ۔۔ جو وہ ہونے نہیں دے سکتا تھا ۔۔۔ اسلئے اس نے جنرل سے بات کرکے اسے اپنے ساتھ رکھنے کا فیصلہ کیا ۔۔ جو وہ کچھ توقف کے بعد مان گئے ۔۔۔ آرم-فورسز کے میجر-جنرل نے عمارا کے والد کو سب سچ بتا کر مطمئن کردیا تھا ۔۔ اور یقین دہانی بھی کروائی تھی کہ اسکا شوہر اپنی بیوی کی حفاظت جی جان سے کر سکتا ہے ۔۔ اسی لئے وہ خاموش ہوگئے تھے ۔۔۔ ڈاکٹرز کی بازیابی کے بعد عمارا کو وہ اپنے ساتھ لے آیا تھا ۔۔ لیکن کمانڈر پھر کسی منصوبہ کے تحت اس سے باتیں چھپانے لگا تھا. ۔۔۔اس نے جنرل سے بات کی تو پتا چلا وہ ھانی کے حکم پر افغان سفیر کی بیٹی شزانہ عظمی کو دوبارہ ھانی کے حوالے کرنا چاہتا ہے ۔۔۔ لیکن شدید جھٹکا اسے تب لگا جب جنرل معلوم پڑا شزانہ انکے ہاں رہائش پذیر ہے ۔۔ اسکے چھکے چھوٹ گئے ۔۔۔ اسکی فیملی خطرے میں تھی ۔۔
ابھی اس نے منصوبہ ترتیب بھی نہیں دیا تھا کہ کمانڈر اور اسکے دو ساتھیوں نے نوال اور تاشا کو اغوا کروالیا ۔۔ ابراہیم کا بس چلتا تو اسے بیچ چوراہے میں لٹکا دیتا ۔۔۔ لیکن وہ یہ نہیں کر سکتا تھا ۔۔۔ مہینوں کی محنت برباد ہوجاتی ۔۔ وہ اپنے مشن پر کسی چیز کو حاوی نہیں ہونے دے سکتا تھا اسے کچھ ایسا کرنا تھا کہ سانپ بھی مرجاتا اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹتی ۔۔۔ عمارا کو میجر عون کے ایک آئوٹ ہائوس میں منتقل کرنے کے بعد اس نے میجر عون ہی کی مدد سے نہ صرف انہیں چھڑایا بلکے فاتح کو بھی اس میں ملوث کرلیا ۔۔ فاتح اسے دیکھ کر شدید شاکڈ میں تھا ۔۔۔ کئی لمحے اسے گلے لگا رہا ۔۔ گلے شکوے بھی کیئے برا بھلا بھی کہا ۔۔ ابراہیم تو اسکی محبت پر نحال ہی ہوگیا تھا ۔۔ اسے اب احساس ہونے لگا تھا کہ اس نے اتنا عرصہ خود کو پوشیدہ رکھ کر خود پر اور اپنے خونی رشتوں پر ظلم کیا تھا ۔۔ نوال نے تو اسے نوٹ نہیں کیا مگر تاشا اسکی آواز سن کر شک میں پڑ گئی تھی ۔۔۔ فاتح نے اسے بتایا تھا کہ وہ کئی بار پوچھ چکی تھی کہ “اس آرمی افسر کی آواز ابراہیم بھائی جیسی تھی ‘ ابراہیم کا سیروں خون بڑھ گیا تھا سن کر ۔۔ لیکن اس نے ابھی سب کو بتانے سے منع کردیا تھا ۔۔۔ چند دن اور گزرے تو مطلوبہ زمہ داریاں ختم ہو چکی تھی ۔۔۔ شزانہ کو بھی اس نے یوسف کے سامنے سے اغوا کرکے جنرل بخشی کے حوالے کردیا تھا ۔۔۔ کمانڈر بھی پکڑا جاچکا تھا ۔۔ چند کے لئے وہ چھٹی پر تھا ۔۔ جب تک ان کے ساتھی ایجنٹس اسرائیل اور شام میں سرگرم عمل تھے ۔۔۔ جنرل نے یہاں اسکا کام ختم ہونے پر آرام کی تاکید کی تھی ۔۔۔جسکا آج دوسرا دن تھا ۔۔۔
اس نے سر جھٹک کر ماضی کی تلخیوں سے پیچھا چھڑا کر اگنیشن میں چابی گھمائی ۔۔ دل بھٹک بھٹک کر اس دشمن جاں کے خیالوں میں سفر کر رہا تھا ۔۔ وہ اسے کل بنا بتائے ہی آگیا تھا ۔۔۔ کیا پتا وہ اسکی منتظر ہو ۔۔۔! اس نے دل ہی دل میں سوچا اور حتمی انداز میں گاڑی اسکے گھر کے راستے پر ڈال دی ۔۔
___________________________________________
اگلے روز ہی وہ اسرائیل کو پیچھے چھوڑ کر شام کی سرزمین پر مشن کو اگلا رخ دینے پہنچ گئے تھے ۔۔ ھانی بھی افغانستان سے لوٹ آیا تھا۔۔ اور(صوبہ) ادلب میں رہائش پذیر تھا ۔۔ انہیں اب اس سے نپٹنا تھا ۔۔۔ اسی شناخت کے ساتھ جس کے ساتھ ان لوگوں نے مشن کی شروعات کی تھی ۔۔۔ ھانی کی رہائش پر آج رات ایک بہت بڑی دعوت رکھی تھی ۔۔ جس میں ملکی اور غیر ملکی شخصیات شامل تھیں ۔۔ بس وہ بھی بن بلائے مہمان بن کر جانے کے لئے تیار تھے ۔۔۔ دائم پرڈیوسر+ڈاریکٹر (مسٹر وِل) بلیک تھری پیس میں ملبوس بے حد وجیہہ لگ رہا تھا۔۔نایا اسکی چلبلی سی اسسٹنٹ جبکے فیصل فوٹوگرافر ڈھیلی ڈھائی شرٹ پر عجب طریقے سے بال کھڑے کیئے وہ اپنے معمولی حلئیے سے بے حد مختلف نظر آرہا تھا ۔۔۔
حالات چاہے جتنے بھی غیر معمولی کیوں نہ ہوں لڑکیوں کو ہمیشہ ہی تیاری کے لئے ایک عرصہ درکار ہوتا ہے ۔۔
وہ ستے ہوئے چہرہ لئے بڑبڑاتا گھڑی دیکھنے لگے ۔۔۔
دونوں کی انتظار کرتی نگاہیں دروازے پر ٹکیں ہوئی تھیں ۔۔۔ اور پھر چاند کی چاندنی میں جگمگ کرتا سراپہ لئے سہج سہج کر چلتی کوئی اپسرا ان کی طرف چلی آرہی تھی ۔۔۔ دائم تو دائم فیصل بھی پل بھر کے لئے مبہوت رہ گیا ۔۔ وہ اپنے جذبات گھبرا کر رخ موڑ گیا ۔۔
شاید میری بات ہورہی تھی ۔۔۔؟؟؟ وہ کیا ہے نا کے حالات چاہے جیسے بھی ہوں خوبصورت دکھنا لڑکیوں کی اولین ترجیع ہے ۔۔۔اور پھر حالاتوں کا کیا ہے وہ تو ہمیں اپنے حق موڑنا اچھے سے آتے ہیں کیوں فیصل میں اچھی نہیں لگ رہی کیا ؟؟؟
فیصل نے ہڑبڑا کر سر ہلایا ۔۔
معافی چاہتی ہوں آپ کو انتظار کرنا پڑا کیپٹن ۔۔۔
سرخ لبوں تلے سفید موتیوں جیسے چمکتی لڑی اسکی نظروں کو خیرہ کرنے لگی۔۔۔
کوئی کافر ہی ہوتا جو اس انداز بیاں پر بھی نہ پگھلتا۔۔۔ وہ آنکھوں میں ہلکی سی خفگی لئے گاڑی اسٹارٹ کرنے لگا ۔۔۔ فیصل کو چونکے ان سے الگ جانا تھا سو وہ وہاں رکا رہا ۔۔ ان کے جانے کے بعد وہ اندر گیا ۔۔ نل کھولی اور تیزی سے پانی کے چھینٹے منہ پر مارنے لگا ۔۔۔ عجب کشمکش میں مبتلا تھا ۔۔۔ آفیسر کو اس نے ہمیشہ احترام کی نگاہ سے دیکھا تھا جواباً نایا نے بھی اسے اپنے سے چھوٹے دوست کی طرح ٹریٹ کیا تھا۔۔ وہ اچانک پننپنے والے جذبات سے گھبرا گیا تھا ۔۔ اگر وہ ان سے اپنے جذبات پوشیدہ نہ رکھ پایا تو۔۔ کیا ہو اگر اس نے بوجھ لیا کہ وہ اسے کسی اور نگاہ سے دیکھ رہا تھا ۔۔۔
افففف اسکی رگیں پھٹنے کو تھیں سوچ سوچ کر ۔۔۔کئی لمحے وہ واشروم کی دیوار سے لگا رہا ۔۔۔ نل سے پانی زور شور کے ساتھ بہتا چلا جا رہا تھا ۔۔ اس میں اتنی سکت نہیں تھی کہ وہ ہاتھ مار پانی کو بہنے سے روک دیتا ۔۔ ابھی تک شاکڈ کی سی کیفیت میں تھا ۔۔۔
فیصل تم کہاں ہو؟؟ پہنچے یا نہیں ؟؟ کسی نے جیسے اسے نیند سے جگایا ۔۔ وہ ہڑبڑا کر سیدھا ہوا ۔۔
بس پہنچ گیا کیپٹن ۔۔ وہ اپنا چہرہ تھپتھپانے لگا ۔۔ جیسے یہ تاثر مٹا دینا چاہتا ہو۔۔۔
آپ کی بیوی اور آپ کے بیچ تو زبردست معرکہ ہوتا ہوگا گا نہیں وقت کو لے کر؟؟؟ وہ ببل گم چباتی مزے سے بولی ۔۔۔ کار میں سناٹا چھایا ہوا تھا اور دائم کے حواسوں پر بھی ۔۔۔ اس نے پہلی بار کسی صنف نازک کے لئے اپنے دل میں ہلچل محسوس کی تھی ۔۔۔ وہ ابھی تک یہی سوچ رہا تھا کہ اس کی سابقہ بیوی کے ہوتے ہوئے بھی ایسا کبھی محسوس نہیں کیا تھا ۔۔
تم واقعی حد سے زیادہ بورنگ ہو
نایا جواب نہ پاکر تلملا کر بولی ۔۔اسکی جگہ اگر کوئی اور ہوتا تو یقیننا غصے سے پیر پٹخ کر جا چکا ہوتا ۔۔۔
کیا ۔۔۔ کیا کہہ رہی تھی تم؟؟؟ وہ الجھ کر اسے دیکھنے لگا ۔۔
کس کے خیالوں میں مگن ہیں کیپٹن میں کب سے بولے جارہی ہو ؟ کوئی جواب نہیں ؟ وہ براہراست اسکی آنکھوں میں جھانکتی ہوئی پوچھنے لگی ۔۔۔ دائم بس اسے دیکھے گیا ۔۔۔وہ بے حد خوبصورت تھی ۔۔۔ اس نے لاشعوری طور پر تسلیم کرلیا تھا ۔۔۔
کیپٹن؟؟؟ اب کی بار وہ تفکر بھرے انداز میں دو انگلیاں اسکے ماتھے پر رکھنے لگی ۔۔۔
دائم نے نرمی سے اسکا ہاتھ ہٹایا ۔۔۔
نایا کو وہ بے حد الجھا ہوا لگ رہا تھا ۔۔۔
فیصل انتظار کر رہا ہوگا۔۔ ہمیں چلنا چاپیئے ۔۔۔
وہ جھنجھلا کر گاڑی سے نکل آئی ۔۔ فیصل پندرہ منٹ پہلے ہی داخل ہو چکا تھا ۔۔ تاکہ ان لوگوں پر شک نہ گزر سکے ۔۔ فیصل کو محل کے بائیومیٹرک سسٹم کا معائنہ کرنا تھا۔۔ تاہم وہ دونوں آج کی دعوت کا اصل مقصد جاننے کی فراق میں تھے ۔۔۔ پارٹی بھانت بھانت کے لوگوں سے رواں دواں تھی ۔۔۔ ہندو ، مسلمان ، یہودی جن کا مختلف شعبوں سے تعلق تھا ۔۔ ۔۔۔
ھانی کی نظر لاشعوری طور پر ان پر پڑ ہی گئی ۔۔۔
آپ کی تعریف ؟؟؟ وہ ایک توقف کے بعد ان دونوں کا جائزہ لیتے ہوئے بولا ۔۔۔
یہ برطانیہ کے مشہور فلم میکر مسٹر ول سمتھ ہیں اور میں ان کی اسسٹنٹ ۔۔۔ نایا فورا درمیان میں کودی تھی ۔۔۔ اور اسکے ساتھ لگ کر کھڑی ہوگئی ۔۔۔
ڈارلنگ کیا تم مجھے اور مسٹر ھانی کو اکیلا چھوڑ دو گی کچھ دیر کے لئے ۔۔۔
دائم نے لب بھینچتے ہوئے ضبط سے کہا ۔۔۔
شیور مسٹر ول ۔۔ وہ دانت دکھا کہتی ھانی کے بے حد قریب سے گزرتے ہوئے اسکے لباس سے کچھ چپکا گئی ۔۔۔
یہ تھوڑی سی بے وقوف ہے۔۔
ھانی نے مڑ کر اس پر ایک نگاہ ضرور ڈالی تھی ۔۔ اس لمحے دائم کا دل کیا اسکی گردن مروڈ دے ۔۔۔
کہاں چھپے بیٹھے تھے آپ ھانی صاحب ۔۔ ہم کب سے آپ کی تلاش میں بھٹک رہے ہیں ۔۔ اسکا لہجہ عجیب تر ہوگیا ۔۔ ھانی ایک لمحے کے سٹپٹا کر اسے دیکھنے لگا جہاں مسکراہٹ کے علاوہ نہیں تھا ۔۔۔
کسی کے بلانے پر وہ معزرت کرتا وہاں سے چلا گیا ۔۔
یہ کیا طریقہ تھا آفیسر ؟ اگر اسے شک ہوجاتا تو؟
اسکے جاتے ہی وہ نایا پر گرم ہونے لگا ۔۔۔
بھئی آپ کو پسند آئے یا نہ آئے مگر ہمارا یہی طریقہ ہے کیپٹن … اسکا انداز قطعی تھا ۔۔۔
ڈیوائس کو فون کے زریعے آن کرکے اس نے ایک لاشعوری طور پر دائم کو دیکھا ۔۔۔وہ اسے ہی دیکھ رہا تھا
کیا بات ہے کیپٹن؟؟ میں نوٹ کررہی ہو آپ خاصے بدلے بدلے سے لگ رہے ہیں؟؟؟ وہ اس سے کچھ دوری پر کھڑی تھی ۔۔ اس کے باوجود وہ نوٹ کر سکتا تھا وہ اسے چھیڑ رہی تھی ۔۔۔
کوئی عورت آپ کی طرف آرہی ہے ۔۔ وہ رخ موڑ کر بولی ۔۔۔ کونسی عورت ؟؟؟ وہ چونک کر مڑا اور دنگ رہ گیا ۔۔۔
سبین۔۔۔؟؟؟ اسکے لب پھڑپھڑائے
___________________________________
لائونج میں گھپ اندھیرا کیئے ملگجے سے حلیے میں وہ صوفے پر پیر اوپر کیئے سمٹ کر بیٹھی تھی ۔۔۔ابراہیم نے لمبی سانس کھینچ کر خود کو پرسکون کیا
احسان صاحب کب تک آئیں گے ؟؟؟ لٹھ مار انداز میں پوچھا۔۔
کئی لمحے تو عمارہ کو اعتبار ہی نہ آیا کہ وہ واپس آگیا ہے ۔۔۔ وہ بہت بدل گیا تھا ۔۔ ہیئر کٹنگ بھی بدل لی تھی ۔۔پہلے وہ گھڑی نہیں پہنتا تھا ۔۔ نہ ہی بولنے کا انداز پہلے جیسا تھا ۔۔ جس میں عمارا کے لئے ہمیشہ نرمی اور وارفتگی کا تاثر ہوتا تھا ۔۔۔
ابراہیم جواب نہ پاکر خاموشی سے بیٹھ گیا ۔۔۔
عمارا نے بغور اسکا جذبات سے عاری چہرہ دیکھا۔۔اسکا دل بری طرح سے ٹوٹ گیا ۔۔۔ وہ اسے بتانا چاہتی تھی کہ وہ اس سے کتنی محبت کرتی تھی ۔۔۔ اسے کتنا یاد کیا تھا ۔۔۔ لیکن اسکے پتھریلے تاثرات دیکھ کر زبان گنگ ہوگئی ۔۔۔ ابراہیم نے دوسری کوئی بات کرنے کی زحمت نہیں کی تھی ۔۔۔
تم کل بنا بتائے کیوں چلے گئے تھے ۔۔۔ مجھے تم سے کتنی باتیں کرنی تھی ۔۔ کتنا کچھ بتانا تھا تمہیں ۔۔۔
آنسوئون کے ہیجان سے اسکی آواز غیر متوازن ہونے لگی ۔۔ وہ اسکے کندھے سے لگ کر آنسو بہانے لگی ۔۔
ابراہیم نے کوئی پیش قدمی نہیں کی ۔۔ اسکے آنسو اسے تکلیف پہنچا رہے تھے ۔۔ مگر وہ ماضی میں اتنا باریک بینی سے اسکے انداز و اطوار جان چکا تھا جو حد سے زیادہ تلخی کا باعث بنے تھے ۔۔۔
تم نے میرے ساتھ ہی ایسا کیوں کیا ؟؟ کوئی ایسے بھی کرتا ہے بھلا ۔۔۔ تم تو مجھے سے محبت کرتے تھے ۔۔ پھر کیوں ملنے نہیں آئے ۔۔ تمہیں میری ایک بار بھی یاد نہیں آئی کیا ۔۔۔ ؟
اس کا رونا شدت اختیار گیا ۔۔۔
وہی بے تاثر اور دیمک زدہ محبت جو تمہارے دل میں ہمدردی تک کا احساس نہ جگا سکی کہ تم میری موت پر دو آنسو ہی بہہ دیتی ۔۔
اس کا لہجہ حد درجے تلخ اور زہریلا تھا ۔۔۔
عمارا دنگ رہ گئی ۔۔۔
تم بہت بدل گئے ہو ابراہیم ۔۔۔ تم بہت پتھر دل ہوگئے ہو ! اسکی سسکیاں عروج پر تھیں ۔۔ وہ خود بھی نہیں جانتی اسے اتنا رونا کس پر آرہا تھا ۔۔ ناراضگی اور بدگمانیوں میں لپٹا ابراہیم اسے بہت اذیت پہنچا رہا تھا ۔۔ اسکے دل و دماغ پر تو وہی پرانا ابراہیم نقش تھا جو اس سے بے پناہ محبت کرتا تھا ۔۔۔
احسان صاحب آئیں تو مجھے انفارم کرنا مجھے ان سے بہت ضروری بات کرنی ہے ۔۔ اسکا انداز قطعی دو ٹوک تھا ۔۔۔اسکے آنسوئوں سے وہ اب خائف ہونے لگا تھا
پلیزز تھوڑی اور رک جائو ۔۔ وہ بھیگی آواز میں التجا کرنے لگی ۔۔۔ وہ اسکی محبت سے کبھی بھی منہ موڑنا نہیں چاہتا تھا ۔۔ لیکن سالوں سے پلتی بدگمانیاں شدت اختیار کر گئیں تھی ۔۔ ابراہیم نے اسکے آنسوئوں کے سامنے کمزور نہ پڑنے کی قسم کھالی تھی۔۔۔ اسکی نظر میں وہ سزا کی حقدار تھی۔۔
میرے پاس وقت نہیں ہے۔۔وہ لاتعلقی سے کہتا نرمی سے اپنا بازو اسکی قید سے چھڑانے لگا ۔۔۔
تم کیوں کر رہے ہو میرے ساتھ ایسا ؟ آخر میری غلطی تو بتائو ؟؟؟ اسکا بازو نہیں چھوڑو تھا البتہ گرفت مضبوط کرلی تھی ۔۔
یک دم بھڑک اٹھا ۔۔۔ بے دردی سے اپنا بازو چھڑالیا ۔۔
رونا بند کرو عمارا ۔۔ آنسو مت بہائو میرے سامنے ۔۔ تمہارے یہ آنسو مجھ پر اب کوئی اثر نہیں رکھتے ۔۔ عمارا اس ہتک بھرے سخت لہجے پر ازیت بھری نگاہوں سے اسکو دیکھے گئی ۔۔
تم کیا سمجھتی ہو ایسے رو دھو کر میرے سامنے سچی بن جائو گی ۔۔ کیا میں نہیں جانتا کہ تم نے ایک بار بھی مجھے یاد نہیں کیا ہوگا ۔۔ یا میری یاد میں آنسو بہائے ہوں گے ۔۔۔ تم تو میری ماں کا غم بانٹنے تک نہیں گئیں ۔۔آخر کو تمہاری بھی خالہ تھی۔۔ تم نے عمارا بی بی ایک مہینے کے اندر اندر موو آن کرلیا ۔۔۔ پھر کون ابراہیم ۔۔کیا نکاح
اور کیسا شوہر ۔۔ تم دن رات کبھی ہاسپٹل تو کبھی یونیورسٹی اپنے ساتھیوں کے ساتھ ہنستی کھیلتی نظر آتی ۔۔۔ میرے دل پر کیا گزری اس لمحے اندازہ ہے تمہیں ۔۔۔ میں نے اپنی زندگی کے تمام سال جس سے شدید محبت کی ۔۔ جسے ٹوٹ کر چاہا ۔۔۔ وہ مجھے مر کر بھی حاصل نہیں ہوئی ۔۔۔ میری اوقات تمہاری زندگی میں ریت کے ایک زرے برابر بھی نہیں تھی ۔۔۔ تبھی تمہارے سرکل کے نامور لوگ تمہارے گھر رشتے کے حصول کے لئے بھکاری تک بن گئے ۔۔۔ وہ کیونکر ایک شادی شدہ لڑکی کو دلہن کو بنانا چاہتے تھے ۔۔۔ کیونکہ تم نے مجھے کسی متعارف کروایا ہی نہیں ۔۔۔ تم تو میرے مرنے پر خوش تھی عمارا بی بی
پھر تو روز پارٹیاں ہوتی تھی اور ہر دن سیلیبریٹ کیا جاتا تھا۔۔ بولتے بولتے سانس پھول گیا تھا ۔۔ لیکن شکوئوں کی لسٹ بہت طویل تھی ۔۔۔ جو وہ سب گنوانا چاہتا تھا ۔۔۔ اتنے سالوں سے جو باتیں اسکے لئے ازیت کا باعث بنی تھی ۔۔ اسکا دل کیا سارے حساب بے باک کردے ۔۔۔ لیکن وہ اسکے آنسوئوں کے سامنے ٹھنڈا پڑ گیا تھا ۔۔
عمارا ٹکر ٹکر اسکی صورت دیکھتی رہ گئی ۔۔۔ وہ اتنا بدگمان تھا اس سے ؟ تبھی اس سے ملنے نہیں آیا ؟ تبھی اسے سزا دینا چاہتا تھا ؟ علی کے ہاتھ پر چائے گرائی تھی کہ کیونکہ علی نے اسے چھوا تھا ۔۔ جو اسے بھی اچھا نہیں لگا تھا ۔۔۔لیکن سب اشارے ایک بات کی پر آ ٹھہرتے تھے ۔۔ابراہیم اتنے سالوں بعد بھی ‘ابراہیم ہی تھا ‘ وہ بلکل نہیں بدلا تھا وہی جنونی محبت کرتا تھا ۔۔
وہ تھک ہار کر بیٹھ گیا تھا ۔۔ جیسے طویل مساقتیں طے کرکے آیا ہو ۔۔۔ ان دونوں کے درمیان گہری خاموشی حائل ہوگئی ۔۔۔ صرف گھڑی کی ٹک ٹک سنائی دینے لگی ۔۔ اسکے اندر کا طوفان کسی حد تک کم ہوگیا تھا ۔۔ کنپٹیوں پر ہاتھ جمائے سر جھکا لیا ۔۔۔
تم اپنی جگہ درست ہو ۔۔ لیکن وہ سب دنیا داری تھی ۔۔ جھوٹ تھا… میں نے بس کسی طرح تمہارے غم کو ہلکا کرنے کی خاطر مووآن کیا تھا اور میڈیکل کا انتخاب کیا ۔۔۔ میرا تمہیں تکلیف پہنچانے یا بھلانے کا کوئی ارادہ نہیں تھا ۔۔ پتا نہیں تم اتنے بد گمان کیوں ہوگئے ہو
وہ بے بسی سے صفائی پیش کرنے لگی ۔۔
تمہیں ابھی بھی پتا نہیں چلا میں کیوں بدگمان ہوں ؟ تم اتنی ہی بیوقوف ہو یا مجھے بنا رہی ہو عمارا
عمارا کے گلے میں آنسو کا پھندا سا لگ گیا ۔۔۔
تمہیں سب کو بتانا چائیے تھا کہ تم صرف میری محبت ہو ۔۔ میری بیوی ہو تم ۔۔ شوہر ہوں میں تمہارا ۔۔ کسی کی کیا مجال میری بیوی سے شادی کا خیال بھی اس کے دل میں آئے ۔۔ وہ پھٹ پڑا۔۔۔
لیکن نہیں تم نے سوچا ہوگا ۔۔ چلو اچھا ہے مر گیا ۔۔ خس کم جہاں پاک ۔۔ اب تم آزاد ہوگئی ہو اٙن چاہے رشتے سے ۔۔ تو کیوں نہ اس آزادی کو دھوم دھام سے منایا جائے ۔۔۔
اسکا لہجہ حد درجے کڑوا ہوگیا ۔۔۔
عمارا کو لگا وہ سانس نہیں لے پائے گی ۔۔
ہاں میں تمہیں نا پسند کرتی تھی ۔۔ لیکن تب میں نا سمجھ تھی کم عمر تھی ۔۔ کم از کم یہ بات تو سمجھو ۔۔ میں اب تم سے محبت کرنے لگی ہوں ابراہیم ۔۔۔ تمہاری ذات کے سحر سے کبھی بھی نہیں نکل پائی ۔۔ ہر لمحہ ۔۔ہر پہر مجھے گماں گزرتا کہ تم میرے آس پاس مجھے دیکھ رہے ہو ۔۔ میں تمہیں محسوس کر سکتی تھی ۔۔ لیکن تم نے صرف تصویر کا وہ رخ دیکھا جو دنیا جو سمجھتی ہے ۔۔ اور اپنی طرف سے ہی نتیجہ اخذ کرلیا ۔۔ تم کون ہوتے ہو ؟ میری محبت کی تذلیل کرنے والے ۔۔ میرے دل سے پوچھو ۔۔ تمہارے جانے کے غم سے دن رات جلتا رہتا ۔۔ تمہیں احساس تک نہیں ۔۔ تم نے دور رہ کر مجھے سزا دی ۔۔ خود کو سزا دی ۔۔۔ مجھے پرکھا ۔۔۔ مجھے آزمایا تم نے ۔۔ ایک طرح سے مجھ پر شک کر کیا ۔۔۔ کون کرتا ہے ایسا ؟ اپنی بیوی کے ساتھ ایسا سلوک کون کرتا ہے بتائو مجھے ۔۔۔ ؟؟؟ تم تو پکے جاسوس نکلے ابراہیم ۔۔اس نے جو دل میں آیا سب کہہ ڈالا ۔۔۔
رہی بات تمہیں یاد کرنے کی تو اس کمرے کے در و دیوار سے پوچھ لو ۔۔۔ جو تمہاری ہی طرف سرد اور بے ضمیر ہیں ۔۔ جن کے دل میں رحم کا احساس تک نہیں جاگا ۔۔۔ اگر ہوتا تو مجھے چپ کروانے ضرور آتے ۔۔
اسکی آنکھیں پھر سے جل تھل ہونے لگیں ۔۔۔ ابراہیم خاموشی سے اٹھا اور باہر نکل گیا اسکے لئے مزید برداشت کرنا مشکل ہوگیا تھا۔۔عمارہ پھر سے اکیلی رہ گئی تھی
__________________________________________
کیسے ہو دائم؟
مہربان سی مسکراہٹ لبوں پر سجائے وہ اس سے پوچھ رہی ۔۔۔ وہ خود کو سنبھال چکا تھا
جیسا تھا ۔۔ اسکے لہجے میں ہلکا سا تنفر کا تاثر ابھرا ۔۔۔
علیزے کیسی ہے؟؟؟؟ وہ پھر سے پوچھنے لگی ۔۔ اور دائم کو اسکی موجودگی حالات کی نوعیت سے انتہائی بے معنی لگی ۔۔۔ یعنی ؟ اسکا یہاں ہونا اتنا ضروری بھی نہیں تھا ۔۔کوئی اور وقت ہوتا تو وہ شاید اس سے بات کرلیتا..شاید
اپنے باپ جیسی ۔۔ مختصر سا جواب دیا گیا ۔۔
سبین نے نوٹ کیا تھا ۔۔ وہ مارے باندھے اسکی باتوں کا جواب دے رہا تھا ۔۔۔ ناپ تول اور اصول پرستی اسکی شخصیت میں ہمیشگی سے تھی۔۔ اسے اپنایا تو بھرپور ۔۔ چھوڑا تو مکمل چھوڑ دیا تھا ۔۔۔ پھر مڑ کر پوچھا تک نہیں نہ ہی علیزے کو اس سے کبھی ملانے لایا ۔۔۔حالانکہ وہ اپنا فون نمبر اور ایڈریس اسے دے کر آئی تھی ۔۔۔
شفق سے شادی کے بعد تم بھی خوش ہوگے اپنی زندگی میں یقننا ۔۔ وہ جانے کیا جاننا چاہتی تھی۔۔
تم سے مطلب محترمہ؟؟؟ اور تم سے کس نے کہا کہ میں نے شفق سے شادی کرلی ہے ؟؟؟ وہ کاٹدار لہجے میں پوچھنے لگا ۔۔۔
کیوں ؟؟ شفق تم سے محبت کرتی ہے ۔۔ تمہیں نہیں معلوم ؟ مجھے لگا تم دونوں نے شادی کرلی ہوگی ۔۔
سبین حیران رہ گئی ۔۔
سبین انفففف ۔۔۔ اسکے لہجے میں یک دم غصہ عود آیا ۔۔۔
اسے شفق بارے میں یہ بکواس بلکل پسند نہیں آئی تھی ۔۔۔ تمہیں برا لگا ہو تو میں معافی چاہتی ہو ۔۔ لیکن شفق تم سے محبت کرتی ہے ۔۔ اور مجھے لگتا ہے کہ اس نے بھی ابھی تک شادی نہیں کی ہوگی ۔۔۔؟ جب میں نے تم خلع کا مطالبہ کیا تو وہ بہت دکھی ہوئی تھی ۔۔ مجھے سمجھانے بھی آئی تھی میرے پاس ۔۔۔ اور مجھے اسکی باتوں سے اندازہ ہوگیا تھا کہ وہ تم سے محبت کرتی ہے ۔۔ اسی لئے میں نے تم لوگوں سے کنارہ کرلیا ۔۔ وہ مجھ سے زیادہ تمہیں ڈیزرو کرتی ہے۔۔۔ مگر دیکھو ۔۔ ایک جاسوس کی جاسوسی کرنا کتنا مشکل ہے ۔۔۔ کون جانے تمہارے دل میں کیا چھپا ہوا ہے ؟ وہ بول رہی تھی اور دائم کے چہرے کا رنگ اڑ گیا ۔۔۔ اتنا شدید انکشاف تھا کہ وہ تعین نہیں کر پارہا تھا اسے کیا کرنا چاہیے ؟؟ نایا کب سے اسے بلا رہی تھی ۔۔ اسکی سوچنے سجھنے کی صلاحیتیں سلب ہوچکی تھی ۔۔ “مجھے لگا تم اور شفق ایک ساتھ خوش رہو گے” یہ جملے بار بار اسکی سماعتوں پر ہتھوڑے کی مانند برس رہے تھے ۔۔ اتنا بڑا کھلواڑ اسکے ساتھ ۔۔ ان دونوں عورتوں نے اسے کہاں سے کہاں لاکھڑا کیا تھا ۔۔ شفق نے سوچا وہ اسکا گھر اجڑنے سے بچا لے گی ۔۔۔ سبین نے سوچا وہ دونوں ایک ساتھ خوش رہیں گے ۔۔۔ اسکی زندگی ان دونوں کی سوچوں کے بھنور میں برباد ہو کر رہ گئی تھی ۔۔۔ اسکا دل کیا سب کچھ تہس نہس کردے ۔۔
تم دونوں کام ختم کرنے کے بعد باہر ملو مجھے ۔۔
وہ بمشکل بولا اور کوٹ اتارتا ہوا باہر نکل گیا ۔۔ اسے ماحول میں شدید گھٹن کا احساس ہونے لگا ۔۔۔
____________________________________
یوسف آج اسلام آباد آفس سے گھر کے لئے نکل رہا تھا ۔۔۔جب اسکا فون تھرتھرانے لگا۔۔فاتح کالنگ جلتا بجھتا دیکھ کر اس نے کال کاٹ دی ۔۔ ویسے بھی گھر ہی جا رہا تھا ۔۔ مسلسل تین دن فرار اختیار کرنے بعد وہ کام میں الجھ کر اتنا تھک گیا تھا کہ اب سیدھا گھر پہنچ کر ہی نیند لینے کا ارادہ تھا ۔۔ اوپر سے اس لڑکی نے اسے بری طرح سے ڈسٹرب کیئے رکھا ۔۔۔ احساس جرم پچھتاوے میں بدل گیا تھا ۔۔
سر جھٹک کر راستے میں ریسٹورنٹ کے قریب گاڑی پارک کی اور کارنر والی ٹیبل پر بیٹھ گیا ۔۔
اسے ابھی آئے چند پل ہی گزرے تھے کہ نظر لاشعوری طور پر شیشے کے پار لہراتے آنچل پر پڑی ۔۔ اسے کسی کا گماں گزار ۔۔ وہ چونک کر اٹھا اور خارجی دروازہ پار کرتے وجود کو کہنی سے دبوچ کر اپنے سامنے کھڑا کیا ۔۔۔
بلاشبہ وہ وہی تھی۔۔
شزانہ ؟؟؟ تم ۔۔۔؟؟؟ تم کہاں چلی تھی گئی ۔۔ تمہیں پتا بھی ہے میں نے تمہیں کہاں کہاں ڈھونڈا ۔۔ کتنا پریشان ہوگیا تھا میں تمہارے لئے ۔۔اور تم ٹھیک تو ہو ؟؟؟ یہاں کیا کر رہی ہو ؟؟؟ اس نے جذبات میں آکر کئی سوال کر ڈالے
اتنے دنوں سے جس نے اسے بے چین کیئے رکھا ۔۔ اسکا بس نہیں چل رہا تھا وہ اسے لے کر کہیں روپوش ہوجائے ۔۔۔ شزانہ کا چہرہ کورے کاغذ کی طرح بے تاثر تھا ۔۔۔ یہ وہی شخص تھا جس نے اسکے بھروسے کے ساتھ کھلواڑ کیا تھا۔۔ اسکا دل کیا پہچاننے سے صاف مکر جائے۔۔
عون جو کار پارکنگ سے کار لینے گیا تھا ۔۔ واپس آیا تو صورت حال بہت عجیب تھی ۔۔ ایک شخص جو بولے چلے جارہا تھا ۔۔ جبکے شزانہ اسکی بات کا جواب تو دور کوئی رد عمل تک نہیں دے رہی تھی ۔۔
آپ پلیز اسکا ہاتھ چھوڑ دیں ۔۔ وہ آپ کو نہیں جانتی ۔۔ اس نے تحمل سے کہا ۔۔ یوسف چونک کر پلٹا ۔۔۔
اپنے سامنے دیوقامت وردی والے شخص کو دیکھ کر یوسف الجھا ۔۔ یہ کون ہے ؟؟ آپ کون ؟
شزانہ سے مخاطب ہوا اور پلٹ کر اسے بھی سوال جڑ دیا ۔۔ میں اسکا کزن ہوں ۔۔ یہ کچھ دن پہلے ہی یہاں آئی ہے یقینا آپ کو نہیں جانتی ہوگئی ۔۔۔ آپ اسے پریشان مت کریں ۔۔ عون نے نرمی سے اسکا ہاتھ پکڑ کر اپنے ساتھ کھڑا کرلیا ۔۔ میں اسے تنگ نہیں کر رہا ہوں ؟؟؟ اسکے لئے پریشان ہورہا ہو ۔۔ اور یہ جانتی ہے مجھے ؟
یوسف کو اسکی خاموشی پہلی بار بہت بری لگی تھی ۔۔
تم جانتی ہو اسے ۔۔ ؟؟ عون شزانہ سے مخاطب ہوا
اس نے میکانکی انداز میں سر اثبات میں ہلایا ۔۔۔
یوسف کو قدرے سکون ملا ۔۔
چلیں پھر بیٹھ کر بات کر لیتے ہیں ۔۔ ویسے بھی میری گاڑی میں کچھ مسلہ ہے اسے ٹھیک ہونے میں کچھ وقت لگے گا ۔۔۔ یوسف رضامندی سے سرہلاتا ہوا پلٹا ۔۔۔
شزانہ کہاں ملی آپ کو؟؟ وہ جاننے کے لئے بے تاب تھا
بھئی یہ ہماری کزن ہیں ۔۔ ان کی آمد بہت دیر سے متوقع تھی ۔۔ وہ تو حالات کچھ بگڑ گئے تھے جس کی وقت سے ہم نے انہیں کھو دیا وگرنہ ۔۔۔
عون نے بات ادھوری چھوڑ کر ناخنوں سے کھیلتی شزانہ کو دیکھا ۔۔ البتہ یوسف گاہےبگاہے اس پر نظر ڈال لیتا ۔۔
جس کے چہرے پر جذباتوں کی کھچڑی سی پکی ہوئی تھی ۔۔ عون کو وہ شزانہ کے لئے فکر مند نظر آرہا تھا ۔۔ ٹھیک ہے ۔۔ میں چلتا ہوں مجھے لاہور پہنچنا ہے ۔۔
وہ یک دم اٹھ کھڑا ہوا ۔۔
بیٹھیں تو سہی ۔۔ شزانہ تم ہی کچھ کہو اپنے دوست سے ۔۔ عون کو عجیب لگا ۔۔
انہوں نے تو لگتا ہے خاموش رہنے کی قسم کھا رکھی ہے ۔۔وہ دل ہی میں بولا ۔۔۔
خیر پھر ملتے ہیں ۔۔ یہ میرا کارڈ رکھ لیں ۔۔ اگر کبھی لاہور آئیں تو مجھ سے ضرور ملئیے گا ۔۔ وہ اپنا کارڈ عون کو تھمانے لگا ۔۔ جس پر سرسری سی نظر ڈالتا وہ دنگ رہ گیا ۔۔ یوسف ‘سہگل’؟ اسکا مطلب وہ ابراہیم کا بھائی تھا ۔۔ عون نے بغور اسے دیکھا جسکی آنکھیں ابراہیم کے مشابہ تھیں ۔۔۔ اور سر جھٹک کر شزانہ کو دیکھا جو ہنوز زبان دانتوں تلے دبائے بیٹھی تھی ۔۔
افففف یہ لڑکی ۔۔جب سے وہ انکے ہاں آئی تھی ۔۔ گنتی کے چند جملے ہی اسکی زبان سے ادا ہوئے تھے ۔۔۔ مما پہلے تو بھائی کے غم سے نڈھال تھی اب انہیں بھتیجی کی فکر کھائے جا رہی تھی ۔۔ اسی لئے عون آج اسے آئوٹنگ پر لے آیا تھا ۔۔ تاہم اسکے حالات میں زرا سی بھی کمی نہیں آئی تھی ۔۔۔ شاید وہ معمولات میں بھی اتنا ہی کم کم بولتی ہوگی ۔۔۔
_______________________________________
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...