“اسلام و علیکم! کیا آپ مجھے میٹنگ روم کے بارے میں بتا سکتے ہیں“ یوسف نے آفس میں آتے ایک لڑکے سے پوچھا جس پر اس نے اسے کاونٹر کی طرف جانے کا کہا۔ اس آفس کے بارے میں تو یوسف کچھ بھی نہ جانتا تھا۔
رات کو نعمان صاحب کی کال آئی تھی اور انہوں نے آفس کا بتایا اور کہا کہ کل یہاں جا کر انٹرویو دیے آنا۔ نعمان صاحب کو بھی نمرہ نے ارشیہ کے کہنے پر انہیں بتائے بغیر رضا مند کیا تھا۔
نعمان صاحب کو نمرہ نے صرف یہ کہا تھا کہ ارشیہ نے اسے بتایا ہے کہ حیدر صاحب کو ایک قابلِ بھروسہ اور نیک آدمی ملازمت کے لیے چاہیے اور اگر آپ کی نظر میں کوئی ایسا شخص ہو تو بتائیں گا۔ اسی لیے نعمان صاحب نے یوسف کو کال کرکے ان کے آفس جا کر انٹرویو دینے کا کہا۔
یہاں تو زیادہ تر لڑکیاں ہی تھی۔ یوسف کو اس ماحول سے الجھن ہونے لگی۔ کچھ لڑکیاں شورٹ ڈریس ڈالے بے باکی سے لڑکوں سے ہنس ہنس کے باتیں کر رہیں تھیں۔ اس نے کھبی ایسا ماحول نہ دیکھا تھا۔
شروع سے ہی وہ ایک بوائز سکول و کالج میں پڑھا اور پھر ایم اے ایڈ بھی اس نے اوپن کی طرف سے کیا۔ وہ زیرِ لب کچھ بڑبڑاتا آگئے بڑھ رہا تھا۔
کاؤنٹر سے جلدی سے پوچھنے کے بعد وہ میٹنگ روم کی طرف چلا گیا۔ کاونٹر پر پوچھنے پر اسے بتایا گیا کہ میٹنگ روم میں اسی کا ویٹ کیا جا رہا ہے۔ میٹنگ روم کے اندر جاتے اس کے قدم کسی لڑکی کی آواز پر ٹھٹک کر رکے۔
“دیکھو یہ وہی پارسا ہے نہ جس کا ارشیہ میڈیم نے بتایا تھا“ ایک لڑکی نے اپنی ساتھی سے یوسف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
“ہاں چھوڑوں اسے۔۔۔ ابھی زیادہ پیسے والی جاب آفر کی جائے گئی تو دیکھنا کیسے روبوٹ کی طرح ہاں میں سر ہلاتا“ دوسری لڑکی نے سر جھٹکتے ہوئے کہا۔
“ہاں اور پھر ایسے لوگوں کی ہی ویڈیوز وائرل ہوتی ہیں۔۔ دیکھنا جب یہ پوسٹ مل جائے گئی تو کیسے نیک بننے کا ڈھونگ بھی اترتا۔۔ ویسے ایسے نیک بن رہا ہے۔۔ جیسے واقعی کوئی نیک پارسا ہوں“ پاس کھڑی لڑکی نے نحوست سے یوسف کی ذات پر طنز کے تیر برسائے جو کہ اسے اپنی روح کو چھلنی کرتے محسوس ہوئے۔
“اللّٰہ کی پناہ“ یوسف نے نم آنکھوں سے الفاظ دہرائے اور بوجھل قدموں سے میٹنگ روم کے اندر کی طرف بڑھ گیا۔ جہاں سامنے ارشیہ خوبصورتی سے اسے حسن کو دو آتشہ کیے سربراہی کرسی پر براجمان تھی۔
“ہیلو۔۔۔ آئی ایم ارشیہ حیدر ملک“ ارشیہ نے اپنا ہاتھ آگے بڑھا کر اپنا تعارف کروایا۔
“اسلام و علیکم میم“ یوسف نے اس کے ہاتھ اور ہیلو دونوں کو یک سر نظر انداز کرتے ہوئے سلام کیا۔ ارشیہ اپنی کھلی تضحیک پر دل مسوس کے رہ گئی۔ اس وقت میٹنگ روم میں ارشیہ اور یوسف کے علاوہ ارشیہ کے پیچھے عزیز کھڑا تھا۔
“آئیے مسٹر یوسف…. ہیو آ سیٹ( Have a set )“ ارشیہ نے چہرے پر زبردستی مسکراہٹ سجائے اسے بیٹھنے کا کہا اور اشارے سے عزیز کو وہاں سے جانے کا کہا جس پر وہ فوراً سے پیش تر وہاں سے نکلا تھا۔ یوسف اپنی آنکھوں کی نمی کو اپنے اندر دھکیلتا زمین پر نظریں جھکائے کرسی پر بیٹھ گیا۔
“سو مسٹر یوسف۔۔ آپ کی سی وی“ ارشیہ نے سی وی کے لیے ہاتھ آگے بڑھایا جس پر یوسف نے اپنی سی وی اس کی طرف بڑھا دی۔ ارشیہ کے مسکراتے ہوئے لب سمٹے۔
“تو مسٹر یوسف احمد۔۔۔ آپ کی سی وی دیکھی میں نے۔۔ آپ کو ہم یہ جاب دیے سکتے ہیں اگر۔۔۔ اگر آپ نارمل ایکٹ کرے“ ارشیہ نے اس کی سی وی پڑھتے ہوئے عام سے لہجے میں کہا۔ جس پر یوسف پھیکا سا مسکرایا۔
“سوری میم! لیکن میں نارمل ایکٹ کر رہا ہوں۔۔۔ آپ بتا سکتی ہیں کہ میرا کونسا ایکٹ ابنارمل ہے“ یوسف نے تحمل سے اسے جواب دیا تھا۔ ارشیہ ایک دفعہ تو اسے دیکھتی رہ گئی۔
“آپ کو کیا لگتا ہے کہ صرف آپ ہی نیک مسلمان ہیں… باقی سب گنہگار ہیں“ ارشیہ نے سینے پر ہاتھ باندھتے ہوئے کرسی پر ٹیک لگاتے ہوئے اس سے پوچھا۔
“معزرت چاہتا ہوں اگر آپ کو ایسا لگا۔۔ لیکن میں صرف خود کو جہنم کی آگ سے بچانے کی ادنیٰ سی کوشش کر رہا ہوں“ یوسف نے تحمل سے اس کے سوال کا جواب دیا لیکن ان لڑکیوں کی باتوں کی وجہ سے دل میں ابھی بھی چھبن سی ہو رہی تھی۔
“اگر آپ خود کو یہاں کے ماحول کے مطابق ڈھال لیتے ہیں تو میں آپ کو جاب پر رکھ سکتی ہوں۔۔۔ ہم آپ کو بہت اچھا سیلری پیکج بھی دیں گئے “ ارشیہ نے اسے آزمانے کے لیے سیلری کا کہا۔ جس پر یوسف کے لب مسکرائے۔
میٹنگ روم کے باہر بھی جو لڑکیوں نے کہا وہ سب بھی ارشیہ نے انہیں کہنے کا کہا تھا۔ انہوں نے ارشیہ کے حکم کی پیروی کی تھی۔ اکرام صاحب اور حیدر صاحب اس شہر میں نہیں تھے۔اکرام صاحب میٹنگ کے سلسلے میں رات کو ہی کسی ملک گئے تھے جبکہ حیدر صاحب کو بھی ہنگامی میٹنگ کے سلسلے میں دوسرے شہر جانا پڑا تھا۔ جس پر وہ صبح ہی نکل گئے۔
” سوری میم! لیکن میں خود کو آپ کی جاب کے لیے یا آپ کی سیلری کے لیے بدل نہیں سکتا۔۔۔ شکریہ آپ کے وقت کا۔۔۔ ہیو آ نائس ڈے ( Have a nice day)“ یوسف نے کہتے ہوئے اپنی سی وی پکڑی اور میٹنگ روم سے باہر آ گیا۔یوسف نے آفس سے باہر آ کر رکشہ لیا اور گھر کی راہ لی۔
اسے جاتا دیکھ ارشیہ کو کچھ ہوا۔ اس کے دل میں یوسف کے لیے نرم جزبہ پیدا ہوا تھا۔ اس کی آنکھوں کی نمی بھی ارشیہ سے چھپی نہیں تھی۔ انٹرویو کے دوران ارشیہ کی نظریں اس کے چہرے سے ہٹنے سے انکاری تھیں۔ یوسف کے جانے کے تھوڑی دیر بعد میٹنگ روم میں زوہیب داخل ہوا۔ جس پر ارشیہ کے چہرے پر جو نرمی کے تاثرات تھے وہ فوراً سمٹے۔
“مبارک ہوں“ زوہیب نے میٹنگ روم میں داخل ہوتے ہوئے چہرے پر مسکراہٹ سجائے کہا تھا جس پر ارشیہ کے چہرے پر ناسمجھی کے تاثرات ابھرے۔ اس نے ابرو اچکا کر زوہیب سے مبارک باد کی وجہ دریافت کی۔
“ارے بھئی ارشیہ حیدر۔۔ سمیر حسن کے پرپوزل کو بھی قبول کر چکی ہے۔۔ جبکہ اگلے ہفتے ارشیہ حیدر کی منگنی زوہیب اکرام ملک سے بھی ہے۔۔۔ واہ بھئی واہ“ زوہیب نے کرسی پر بیٹھتے ہوئے داد دینے کے سے انداز میں ارشیہ کے سر پر بم پھوڑا۔ ارشیہ نے خود کو کمپوز کرتے ہوئے سر خم کر کے داد وصول کی۔ اس کی یہ حرکت زوہیب کو سلگا گئی۔
“ہممم۔۔۔ سنا ہے دائیں گال پر تھپڑ بڑی زور سے لگتا ہے۔۔ کھبی ایکسپرینس ( Experience ) ہوا ہے۔۔۔ کہ نہی؟ “ ارشیہ نے اپنی کرسی سے اٹھ کر زوہیب کے کان کے قریب جا کر راز داری سے پوچھا۔ جس پر اپنی تذلیل یاد کرکے زوہیب کی آنکھوں میں خون اترا۔
“کام کی بات کرو۔۔۔ کیوں بلوایا ہے؟“ زوہیب نے سپاٹ لہجے میں کہا تھا۔ جس پر ارشیہ کے لب مسکراہٹ میں ڈھلے۔ ارشیہ نے ایک طنز بھری مسکراہٹ زوہیب کی طرف اچھالی۔
””””””””””””””””””””””””””””””””
گھر پہنچ کر یوسف سیدھا اپنے کمرے کی طرف چلا گیا۔ عبیرہ حائقہ کے گھر گئی ہوئی تھی۔ آج حائقہ کے گھر میلاد تھا اسی لیے وہ آج دیر سے انے والی تھی۔ یوسف نے چارپائی پر لیٹ کر اپنا بازو آنکھوں پر رکھا۔ ماضی کی یادیں چھن سے یاد کے پردے پر لہرائی تھیں۔
“بابا۔۔۔ بابا۔۔۔ بابا“ یوسف نے گھر میں داخل ہوتے ہی احمد صاحب کو اونچی اونچی آواز دینا شروع کر دی۔ سارے گھر میں چھ سالہ یوسف کی آواز گونج رہی تھی۔ یونیفارم میں ملبوس یوسف بہت پیارا لگ رہا تھا۔ لیکن یونیفارم جگہ جگہ سے مٹی سے گندی ہوئی تھی۔
“آہستہ یوسف۔۔۔بہنا سو رہی ہے۔۔۔کیا ہوا ہے یوسف“ احمد صاحب نے ایک کمرے سے باہر نکلتے ہوئے یوسف کو آواز آہستہ کرنے کا کہا اور پھر اس کی گندی یونیفارم دیکھ اس سے پوچھا۔
“بابا۔۔۔ مجھے ماما کے پاس جانا ہے۔۔ یہاں سب لوگ گندے ہیں۔۔۔ بابا مجھے آج عمر اور عثمان نے مارا“ یوسف نے احمد صاحب کے ساتھ لپٹتے ہوئے نم آواز میں کہا۔
“ایسے نہیں کہتے یوسف… بابا کو بھی چھوڑ جاؤں گئے“ احمد صاحب نے اس کے بالوں میں پیار سے ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔ احمد صاحب کی بیوی کی وفات کو سال ہو چکا تھا۔ اب عبیرہ بھی دو سال کی ہو چکی تھی۔
“نہیں بابا مجھے اللّٰہ تعالیٰ کے پاس جانا ہے۔۔ ماما سے آپ کہوں نہ مجھے بھی اپنے پاس بلا لے۔۔۔ یہ دنیا والے بہت گندے ہیں۔۔۔ میں نے نہیں رہنا یہاں“ یوسف نے احمد صاحب کی آغوش سے نکل کر ان سے کہا جس پر احمد صاحب نے نفی میں سر ہلایا۔
“بیٹا یہ دنیا ایک کوئلے کی کان ہے۔۔۔ اور تم اس میں ہیرے ہوں۔۔ میرے ہیرے“ یوسف صاحب نے یوسف کو اپنی گود میں بیٹھاتے ہوئے اس کے سر پر بوسہ دہے کر کہا۔
“لیکن بابا میں ہیرا کیسے بنوں گا“ یوسف نے ناسمجھی سے پوچھا۔ اب وہ پہلی بات کو بھول چکا تھا۔
“بیٹا یہ دنیا ایک کوئلے کی کَان ہے۔۔ اس میں ہیرا تمہیں خود بننا پڑے گا۔۔۔ ایک کوئلے کی کان میں ہیرا خود بنتا ہے۔۔ وہاں کی سختی برداشت کر کے۔۔ کوئلے کی کالک سے زرا زرا جمع ہوتا ہے۔۔ پھر وہ زرے مل کر ایک ہیرے کی شکل اختیار کرتے ہیں۔۔۔ دیکھو کوئلے کی اتنی وقعت کی نہیں ہوتی لیکن اس کوئلے کی کان سے نکلے ہیرے کی کتنی وقعت ہوتی ہے۔ بس خود کی ذات پر اور اللّٰہ کی مدد پر کامل یقین رکھنا “ احمد صاحب نے کھوئے کھوئے سے لہجے میں یوسف کو سمجھایا جس پر اس نے سمجھتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا۔
“چلو شاباش اب اٹھو اور منہ ہاتھ دھو کے آؤں۔۔ میں اپنے بیٹے کو کھانا کھلاؤ“ احمد صاحب نے پیار سے اس کے بال بگاڑتے ہوئے کہا جس پر یوسف مسکرا کر ہاتھ منہ دھونے چلا گیا۔
“اب بابا کو چھوڑنے کی بات نہ کرنا“ کھانا کھلاتے ہوئے احمد صاحب نے یوسف سے کہا جس پر اس نے مسکراتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا اور پھر آگے بڑھ کر احمد صاحب کے گال پر بوسہ دیا تو احمد صاحب مسکرا دیے جبکہ یوسف کھلکھلا دیا۔
ماضی کی باتیں یاد کرتے یوسف کی آنکھیں نم ہوئیں تھیں۔ یوسف نے آنکھوں کی نمی صاف کی اور اٹھ کر وضو بنانے چلا گیا۔ تھوڑی دیر بعد وضو کرکے کمرے میں آ کر سورۃ الانعام کی تلاوت کرنی شروع کر دی۔
بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
ترجمہ:
شروع اللہ کے نام سے جو سب پر مہربان ہے ، بہت مہربان ہے
#1
اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ الَّذِیۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ وَ جَعَلَ الظُّلُمٰتِ وَ النُّوۡرَ ۬ ؕ ثُمَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا بِرَبِّہِمۡ یَعۡدِلُوۡنَ ﴿۱﴾
ترجمہ:
“تمام تعریفیں اللہ کی ہیں جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ، اور اندھیریاں اور روشنی بنائی ۔ پھر بھی جن لوگوں نے کفر اپنا لیا ہے وہ دوسروں کو ( خدائی میں ) اپنے پروردگار کے برابر قرار دے رہے ہیں ۔”
#2
ہُوَ الَّذِیۡ خَلَقَکُمۡ مِّنۡ طِیۡنٍ ثُمَّ قَضٰۤی اَجَلًا ؕ وَ اَجَلٌ مُّسَمًّی عِنۡدَہٗ ثُمَّ اَنۡتُمۡ تَمۡتَرُوۡنَ ﴿۲﴾
ترجمہ:
وہی ذات ہے جس نے تم کو گیلی مٹی سے پیدا کیا ، پھر ( تمہاری زندگی کی ) ایک میعاد مقرر کردی ۔ اور ( دوبارہ زندہ ہونے کی ) ایک متعین میعاد اسی کے پاس ہے ۔ ( ١ ) پھر بھی تم شک میں پڑے ہوئے ہو ۔
#3
وَ ہُوَ اللّٰہُ فِی السَّمٰوٰتِ وَ فِی الۡاَرۡضِ ؕ یَعۡلَمُ سِرَّکُمۡ وَ جَہۡرَکُمۡ وَ یَعۡلَمُ مَا تَکۡسِبُوۡنَ ﴿۳﴾
ترجمہ:
اور وہی اللہ آسمانوں میں بھی ہے ، اور زمین میں بھی ۔ وہ تمہارے چھپے ہوئے بھید بھی جانتا ہے ، اور کھلے ہوئے حالات بھی ، اور جو کچھ کمائی تم کر رہے ہو ، اس سے بھی واقف ہے ۔
#4
وَ مَا تَاۡتِیۡہِمۡ مِّنۡ اٰیَۃٍ مِّنۡ اٰیٰتِ رَبِّہِمۡ اِلَّا کَانُوۡا عَنۡہَا مُعۡرِضِیۡنَ ﴿۴﴾
ترجمہ:
اور ( ان کافروں کا حال یہ ہے کہ ) ان کے پاس ان کے پروردگار کی نشانیوں میں سے جب بھی کوئی نشانی آتی ہے ، تو یہ لوگ اس سے منہ موڑ لیتے ہیں ۔
#5
فَقَدۡ کَذَّبُوۡا بِالۡحَقِّ لَمَّا جَآءَہُمۡ ؕ فَسَوۡفَ یَاۡتِیۡہِمۡ اَنۡۢبٰٓؤُا مَا کَانُوۡا بِہٖ یَسۡتَہۡزِءُوۡنَ ﴿۵﴾
ترجمہ:
چنانچہ جب حق ان کے پاس آگیا تو ان لوگوں نے اسے جھٹلا دیا ۔ نتیجہ یہ کہ جس بات کا یہ مذاق اڑاتے رہے ہیں ، جلد ہی ان کو اس کی خبریں پہنچ جائیں گی ۔ ( ٢ )
تلاوت کرتے ہوئے اس کی آنکھوں سے آنسوں رواں تھے۔ اللّٰہ کی محبت میں اس کی آنکھوں بھر آئی تھیں۔ اس مشکل وقت میں بھی اللّٰہ تعالیٰ کی مدد ایک یقینی امر تھی۔ اسے اپنے رب سے عشق تھا۔ اس کی آنکھیں اپنے نادیدہِ عشق کی وجہ سے بھیگ رہیں تھیں۔ ہاں لیکن اس کے آنسوں اللّٰہ کے سامنے بے مول نہیں تھے۔ وہ آنسوں انمول تھے۔ شاید یوسف اس کوئلے کی کان میں پڑا ہیرا تھا۔ لیکن کون جانے سوائے خدا تعالیٰ کے۔۔
””””””””””””””””””””””””””””””””””
“ارشیہ کیا تم آج میرے فارم ہاؤس پر آ سکتی ہوں“ سمیر نے ارشیہ کو کال کر کےفارم ہاؤس پر بلایا تھا۔ اس وقت وہ کسی کھنڈر نما گھر میں موجود تھا جو کہ شاید پچھلے کچھ سالوں سے بند تھا۔
“کیوں کیا ہوا سمیر“ آفس سے نکلتے ارشیہ نے پریشانی سے پوچھا۔ ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی وہ زوہیب سے بات کرکے باہر واپس گھر جا رہی تھی کہ اچانک سمیر کی کال آئی۔
“کچھ نہیں۔۔ وہ تھوڑا سا کام تھا۔۔ آگر تم آ جاتی تو“ سمیر نے اس کے لہجے کی پریشانی بھانپ کر جلدی سے کہا۔ جس پر ارشیہ نے ہاں میں جواب دیا اور گاڑی میں بیٹھ کر گاڑی سمیر کے فارم ہاوس کی طرف بھگا لی۔
“ہیلو ہاں وہ آ رہی ہے۔۔ تیار رہنا“ ارشیہ کی طرف سے کال کاٹ کر سمیر نے اپنے آدمیوں کو کال ملا کر اطلاع دی تھی۔ جس پر دوسری طرف کا جواب سن کر سمیر کے چہرے پر مسکراہٹ در آئی۔
فون بند کر کے سمیر نے بازو اپنے سر کے پیچھے ٹکائے اور آرام دہ انداز میں کرسی پر دراز ہو گیا۔کچھ دیر بعد سمیر کے موبائل پر کال آئی تو اس نے موبائل اٹھا کر دیکھا تو اس کی مسکراہٹ گہری ہوئی تھی۔
کچھ ہی پل گزرتے تھے کہ سمیر کے آدمی ارشیہ کو لیے اس کھنڈر میں داخل ہوئے اور وہاں دوسرے کمرے میں لے جا کر انہوں نے ارشیہ کو کرسی پر رسیوں کی مدد سے باندھ دیا۔
“سر دو گھنٹے بعد ہوش آ جائے گا“ ان میں سے ایک آدمی نے آ کر سمیر کو اطلاع دی۔ جس پر سمیر نے کچھ سوچتے ہوئے ہاں میں سر ہلایا اور اسے جانے کا کہا اور خود اٹھ کر باہر چلا گیا اور گاڑی میں بیٹھ کے گاڑی فارم ہاؤس کی جانب بھگالی۔
ارشیہ کے جانے کے بعد زوہیب کافی دیر تک اس کی باتوں پر غور کرتا رہا اور پھر کچھ یاد آنے پر موبائل نکال کر آفس سے باہر نکالا اور چلتے چلتے اپنے خاص ملازم عدیل کو کال کی۔
“ہاں عدیل کہاں ہوں؟“ زوہیب نے آفس سے نکلتے ہوئے دوسری طرف سے فون اٹھانے پر پوچھا جس پر فوراً سے عدیل نے جواب دیا تھا۔
“ہاں وہ ایک کام تھا۔۔ کل رات جس کی ڈیٹیلز تم نے نکلوائی تھی۔۔ زرا اسے اپنے فارم ہاوس کی سیر تو کرواؤ یار“ زوہیب نے گاڑی میں بیٹھتے ہنستے ہوئے عدیل سے کہا۔ جس پر دوسری طرف سے عدیل نے کچھ کہا تو زوہیب کی مسکراہٹ سمٹی اور ماتھے پر بل واضح ہوئے تھے۔
“جو کہا ہے وہ کرو۔۔۔۔ کل شام تک کا وقت ہے تمہارے پاس جو کرنا ہے کرو۔۔ لیکن وہ لڑکی مجھے میرے فارم ہاوس پر چاہیے سمجھے تم “ زوہیب نے غصے سے کہہ کر فون کھٹاک سے بند کیا اور گاڑی بھگالی۔
“اب اس لڑکی کو پتہ چلے گا کہ زوہیب اکرام ملک کے تھپڑ مارنے کا کیا انجام ہوتا ہے “ زوہیب نے غصے سے سٹرینگ پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا۔
”””””””””””””””””””””””””””
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...