اسے وہاں بیٹھے آدھا گھنٹا ہو گیا جب ایک بچہ بھاگتے ہوے آیا اور حریم کی بیساکھی سے ٹکرا گیا ۔ جس سے وہ کافی دور جاگری ۔ حریم اسے اٹھانے کیلیے اٹھی ہی تھی کہ توازن برقرار نہ رکھ سکی اور گرنے لگی کہ یکدم کسی کی مظبوط گرفت نے اسے گرنے سےبچا لیا ۔ حریم نے اپنے بازو پر پر مردانہ ہاتھ دیکھے اور ان پر موجود وردی جس کو وہ لاکھوں میں پہچان سکتی تھی وہ کوئ اور نہی بلکہ پاکستان آرمی کی وردی تھی ۔ اچانک حریم کے زہن میں ماضی کا ایک منظر ٹھر گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ “اللہ اللہ حریم حد ہے جلدی چلو ہم پہلے ہی لیٹ ہو گئے ہیں اور میم مریم کی ڈانٹ پکی ہے آج” ثنا جو کے پہلے ہی دیر ہو جانے کی وجہ سے پریشان تھی اچانک حریم کے رک جانے پر غصے میں آ گئ ” ثنا ! وہ دیکھو آرمی کی گاڑھی ” ثنا تو رکنے کے اس جواز پر جھنجھلا گئی ” تو کیا میں ناچو ” حریم نے کھا جانے والی نظروں سے اسے دیکھا جو اسے کھینچتے ہوے لیکے جا رہی تھی ۔ اتنے میں وہ گاڑ ھی بھی پاس سے گزری گئ ۔
“ثنا ”
“ہاں بولو ”
” تمکو پتا ہے کہ جب میں آرمی سے مطلق کوئی بھی چیز دیکھ لوں تو کیسا فیل کرتی ہوں ؟ ”
” نہیں ” کچھ لمحے رکی پھر پوچھا “کیسا فیل کرتی ہو ؟ ”
” ایسے جیسے ساری دنیا تھم جاتی ہے اور تمہے پتا ہے کہ میرا دل 500 سے 600 کی سیپیڈ پر دوڑتا ہے ۔” “ہاہاہاہاہا ” ثنا کا قہقہا بے اختیار تھا ۔ حریم نے صرف اسے گھورنے پر کام چلایا کیا اور بات جاری رکھی ” اور ایسا لگتا ہے کہ دنیا کی ہر چیز ان کے لئے دعاگو ہے یہ ہمارے محافظ ہیں اصلی والے ہیروز ” اور پھر وہ کچھ سوچ کر پرعزم ہو کر بولی ” ثنا میرا خواب ہے کہ مجھے بھی میرے بازو پر پاکستان کا جھنڈا ملے اور میں اپنے سینے پر اپنا نام کماوں ”
“اللہ تمہارا یے خواب پورا کرے گا انشاءاللہ اب جلدی چلو کالج بس آہی گیا ہے “۔۔۔۔۔۔۔۔
“مس آپ ٹھیک ہیں ؟ ”
یہ وہ بھاری آواز تھی جو اسے ماضی سے حال میں لے آئ ۔ اب اس کی نظر وردی میں کھڑے شخص کے نام پر پڑی “حسن ” ( لیکن آج نا ہی حریم کے دل کی دھڑکن تیز ہوئی اور ناہی اسکی حالت میں کوئی تبدیلی آئ )
“مس حریم ڈاکٹر صاحبہ آپ کا ویٹ کر رہی ہیں ” اسسٹینٹ کی اس آواز پر حریم نے اپنے بازو کو آزاد کروانا چاہا ۔ لیکن کیپٹن حسن نے گرفت ڈھیلی نہی کی ۔ ” اگر آپ کو ڈاکٹر مریم کے روم میں جانا ہے تو آیے میں آپ کو چھور دوں وہاں تک ”
حریم کے لیے یہ آفر غیر متوقع تھی اسے لگا کہ سامنے کھڑے جوان کی نظر اس کی بیساکھی پر نہیںگئ جو کہ درست تھا
“نہی اس کی ضرورت نہی ۔ میں چلی جاوں گی خود ” یہ کہتے ہوے حریم نے اپنا بازہ چھرانے کی کوشش جاری رکھی جسے وہ جوان ہنوز جکڑے ہوے تھا ۔
“دیکھیے میں بھی وہیں جا رہا ہوں ‘ تکلف والی کوئ بات نہیں ” اب کی بار کیپٹین حسن نے کافی مسکرا کر جواب دیا ۔ حریم نے اس بار بھی اس آفر کو خاطر میںنہ لاتے ہوے کہا کہ ” سر دیکھیے اگر آپ کو خدمت خلق کا اتنا شوق ہے تو میری سٹک مجھے پکڑا دیں بس ” نہ چاہتے ہوے بھی حریم کا لہجہ سرد تھا ۔ اب کی بار کیپٹین حسن نے بغیر کسی اعتراض کے وہ سٹک پکڑا دی ۔ حریم نے اسے تھامااور توازن برقرار رکھتے ہوے ڈاکٹر مریم کے روم کی طرف بڑھ گئ ۔ اور حسن پیچھے سے اس کے سکارف کو دیکھتا رہا ۔
“مے آی کم ان ڈاکٹر ” دروازہ ناک کر کے حریم نے اندر آنے کی اجازت چاہی ۔ ” ییس پلیز ِ ِ ہیو آ سیٹ مس حریم ۔ آئ ایم سوری مجھے آپریشن تھیٹر میں زیادہ وقت لگ گیا ” ڈاکٹر مریم نے اپنا کوٹ دوبارہ پہنا اور اپنی نشست پر بیٹھ کر مصاحفہ کے لیے ہا تھ آگے بڑھایا جسے حریم نے نرمی سے تھام لیا ۔
“ڈاکٹر اقبال از ماے ہزبینڈ ان کو ضروری کام سے ملک سے باہر جانا پڑا لیکن انہوں نے مجھے یہ کید handover کر کے تاکید کی ہے کہ اب آپ کے کیس میں مزید دیر نہ کی جاےاور آپ کو جلد از جلد پروستیٹھک فٹ پرووایڈ کیاجاے ” ڈاکاٹر مریم نے شائستہ سی مسکراہٹ کے ساتھ وضاحت دی ۔ ابھی حریم نے کچھ کہنے کے لیے لب کھولے ہی تھے کہ دروازہ کھلا اور آواز سنائ دی ۔
“ڈاکٹر مریم یو آر انوائٹڈ آن ٹوڈیز ڈنر شارپ ایٹ 8 وینیو از اقبال ولا ” حریم نے ڈاکٹر مریم کو دیکھا جو کہ مسکرا رہی تھیں ۔اس نے بے اختیار مڑ کر دروازے کی طرف دیکھا تو وہاں کیپٹین حسن تھا ۔ جس نے حریم کے اس طرح دیکھنے پر مسکرا کر سر خم کیا اور حریم گھبرا کر واپس سامنے دیکھنے لگی ۔ ” جی ٹھیک ہے حسن آپ مجھے آٹھ بجے وہیں پائیں گے ”
“ٹھیک آٹھ بجے ”
” جی ٹھیک آٹھ بجے ۔ اب اگر آپ کی اجازت ہو تو میںاپنی پیشنٹ کو دیکھ لوں ”
“اوہ۔۔۔۔۔۔۔ جی ضرور اللہ حافظ ”
جیسے ہی ڈاکٹر مریم نے خدا حافظ مریم نے خدا حافظ کہا دروازہ بند ہونے کی آواز آیئط” ہی از ماے سن کیپٹین حسن ۔ آج ہی چھٹی پر سے واپس آیا ہے ” ڈاکٹر مریم نے مسکرا کر اپنا اس جوان سے رشتہ بتایا ۔ جس کے جواب میں حریم فقط ” جی ” کہ پائ ۔
“تو ہم کہاں تھے ؟ ” ڈاکٹر مریم نے یاد کرنے کی کوشش کی
“آپ میرے Prosthetic foot کی با ت کر رہی تھیں ” اور حریم کے انداز میں اعتماد کو اس نے بھی محسوس کیا ۔
” جی ۔ لیکن مجھے پہلے آپ کو کچھ ڈیٹیلز دینی ہیں ”
” میں سن رہی ہوں ”
” جب ڈاکٹر اقبال نے مجھے یہ کیس دیا تو وہ اس نتیجے پر تھے کہ آپ کے پروستھیٹک پاوں کے لیے پہلے آپ کی ٹانگ کی سرجری کی جاے اور ود دا انسرشن آف میٹل آپ کی بون کو اس قابل بنایا جاے کہ وہ زیادہ دیر تک کارآمد رہے ” حریم نے سرجری کے ذکر پر جھرجھری لی ۔ لیکن غور سے سنتی رہی ” لیکن میں ہیومن بونز میں میٹل انسرشن کے حق میں نہیں ہوں میں نے خود آپ کی ریپورٹس دیکھیں اور ان کو پشاور بھی بھیجا اینڈیو نو وآٹ آئ گاٹ پوزیٹیو ریسپونس وہاں ڈاکٹر شاہ زیب میرے کافی اچھے دوست ہیں اور یہاںCMH میں بھی آتے رہتے ہیں انہوں نے نہ صرف میرے ساتھ اتفاق کیا بلکہ آپ کیلیے Socket وہی بنوا کر بھجوایں گے۔پشاورمیں ان کےہسپتال میں ذرائع زیادہ ہیں ” ڈاکٹر مریم کی مسکراہٹ گہری سے گہری ترین ہوتی جا رہی تھی اور حریم کی آنکھوں میں بار بار نمی آرہی تھی جس کو وہ بہت ضبط سے قابو میں رکھے ہوے تھی ۔ ” میں اگلے ایک دو دنوں میں یہاں پر انتظام مکمل کر کے آپ کو بلواوں گی ۔ آپ کی ٹانگ کی کاسٹنگ کی جاے گی اور پھر وہ ماڈل پشاور بھجواوں گی ۔ اور انشاءاللہ تھورے سے عرصے میں آپ دوبارہ اپنے دونو پاووں پر کھڑی ہو جایں گی ” اس مرطبہ حریم کی آنکھ سے باقاعدہ ایک آنسو نکل آیا ۔
“حریم آپ تو بہت بہادر ہیں پھر رو کیوں رہی ہیں ۔ ” ” جی جی میں بہت بہادر ہوں ” انہیں لگا جیسے حریم خود کو باور کروا رہی ہے ۔ ” حریم مجھے آپ سے ایک ریکویسٹ کرنی ہے ” “جی کہیے ڈاکٹر ”
“کیا آپ مجھے اپنی سٹوری بتانا پسند کریں گی ۔ آئ مین یہ سب کیسے ہوا ۔ ؟ ” اور حریم کا چہرا ایک دم بالکل سپاٹ سا ہو گیا ۔ ” امممممم۔ آگر آپ مناسب سمجھیں ۔ اور ابھی نہیں نیکسٹ ٹایم جب آپ آیں تب ”
” جی ضرور ڈاکٹر ۔” اور اتنا کہ کر وہ اٹھی اپنی بیساکھی اٹھائ اور باہر کی جانب چلی گئ ۔ ڈاکٹر مریم کو ناجانے کیوں وہ ان کے دل کے بہت قریب لگی ۔
گھر آتے ہوے اس کے دماغمیں بس ایک ہی فقرہ تھا اور وہ تھا ” تھوڑے ہی عرصے میں آپ دوبارہ اپنے پاووں پر کھڑی ہو جائیں گی ” ” دوبارہ اپنے پاووں پر ” “اپنے پاووں پر ” یہ فقرہ اسے ماضی میں لے گیا
“ابو جان میں اپنے پاووں پر کھڑا ہونا چاہتی ہوں ”
تو میرا بیٹا ابھی کس کے پاووں پر کھڑا یے ” ضمان آفندی محفوظ ہوے ۔ ” ابو جان میں مزاق نہیں کر رہی ۔ امی جان آپ ہی کچھ کہیں نہ ۔۔۔۔۔ میں ۔۔۔۔۔۔میں پڑھ لکھ کر میرے ملک کے لیے کچھ کرنا چاہتی ہوں ” اب وہ بالکل رونے کے قریب تھی ۔ ضمان صاحب نے انگلی کے اچارے سے حریم کو ان کے سامنے رکھی کرسی پر بیٹھنے کا کہا ۔ وہ ان کے سامنے آکر بیٹھ گئ ۔
“اب بتایں میں سن رہا ہوں ” ضمان صاحب نے چاے کا آخری گھونٹ لیا اور اور اپنی ساری توجہ اپنی بیٹی کی طرف کر دی جس نے دسویں میں سکول ٹاپ کیا تھا اور اس وقت حریم کے مستقبل کو لے کر ان کے ۔ عائشہ آفندی کے اور حریم کے درمیان بحث ہو رہی تھی
“انو جان میں سٹڈی کمپلیٹ کر کے پاکستان آرمی جوائن کرنا چاہتی ہوں ”
” ایز ؟ ”
” ایز آ ڈاکٹر ۔ انشاءاللہ ”
“انشاءاللہ ۔ اور یہ کیوں سوچا آپ نے ؟ ” حریم نے ناسمجھی سے ان کی طرف دیکھا ۔
“میرا مطلب ہے کہ آپ آرمی ہی کیوں جوائن کرنا چاہتی ہیں کوئ اور فیلڈ کیوں نہیں ؟ “ضمان صاحب نے اس کےلیے سوقل آسان کر دیا ۔
“ابو جان میں پاکستان آرمی جوائن کر کہ ان لوگوں کی خدمت کرنا چاہتی ہوں جو ہماری خدمت میں اپنی جان ہتھیلی پر رکھے سرحدوں کی حفاظت میں مگن ہیں ۔ ابو جان میں ان جوانوں کو سرو کرنا چاہتی ہوں جو مسلسل 63 سالوں سے ہمیں سرو کر رہے ہیں میں ان کیلیے محنت کرنا چاہتی ہوں ابو جان جو اپنی نیندیں قربان کرتے ہیں تب ہی ہم یہاں سکون سے سو پاتے ہیں ۔ ابو جان میں اپنے پاکستان سے محبت کا ثبوت دینا چاہتی ہوں جس نے ہمیں آذادی جیسی نعمت دی ہے ” وہ لمحے بھر کو رکی ” ابو جان امی جان میں آگے FSC اور پھر آرمی میڈیکل کالج سے MBBS کرنا چاہتی ہوں ۔ تو کیا مجھے اجازت ہے ؟ ” اور ضمان صاحب نے حریم کی آنکھوں کی چمک فیکھتے ہوے اثبات میں سر ہلا دیا ۔ بھلا ان کی اس بیٹی سے کہ جس سے آج تک کوئ کسی بھی تقریری مقابلے میں ہرا نہیں سکا تھا وہ بحث کیسے جیت جاتے ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
“حریم بی بی گھر آگیا ” غفور چچا نے جب گھر آجانے کے باوجود اسے کوئ حرکت کرتے نا دیکھا تو بتا دینا مناسب سمجھا کیونکہ پچھلے دو سالوں سے وہ اسی طرح گاڑاھی میں بیٹھی بیٹھی کھو سی جاتی تھی اور اس کی آنکھوں میں آنسو آجاتے تھے لیکن آج انہوں نے دیکھا کہ حریم کی آنکھوں میں آنسو نہیں تھے ” جی چچا ” اور اندر آگئ ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ضمان آفندی اور فرقان آفندی دو ہی بھا ئ تھے جن کا امپورٹ اکسپورٹ کا بزنس لاہور اور اسلام آباد میں تھا ۔ اسلام آباد کا زیادہ تر کام ضمان دیکھتے تھے ۔ ان کے گھر ایک ہی اخاطے میں تھے جس کا مین گیٹ ایک تھا اور اندر ایک ہی طرز کے بنے دو خوبصورت سے گھر تھے ۔ جن میں دونو بھائ بمع فیملی رہتے تھے ۔
فرقان کی وائف روما آفندی اور دو بچے حیدر جو کہ نو سال کا تھا اور طوبہ جو کہ پانچ سال کی تھی وہ دایں گھر جبکہ ضمان آفندی ان کی وائف عائشہ آفندی اور دو بیٹیاں حریم اور حورعین بایں گھر میں ۔ روما اور عائشہ دونوں ہی بہنوں کی طرح تھیں ۔ اسی لیے آج سے چار سال پہلے جب عائشہ کا کار ایکسیڈنٹ میں انتقال ہواتو روما نے ہر ممکن کوشش کی کہ حریم اور حورعین ان کے ساتھ رہیں کیونکہ ضمان صاحب کا زیادہ تر وقت اسلام آباد میں گزرتا تھا ۔
” چچی جان ہم کیسے وہاں رہیں یہاں ہماری امی جان کی خوشبو ہے ۔ ” روما نے اس کے آنسو پونچھے اور کہا ” دیکھو بیٹا ضمان بھائ بزنس کے سلسلے میں زیادہ تر اسلام آباد میں ہوتے ہیں آپ دونو کس طرح ریو گی یہاں ۔ اور پھر ساتھ ہی تو گھر ہے جب دل کرے آجائے گا ” ” چچی جان دل نہیں مانتا اور پھر آپ بھی تو ہمارے ساتھ ہی ہیں نہ کون سا دور ہیں اور ویسے بھی خالہ بی بھی یہیں رہیں گی نا ” ( خالہ بی ان کے گھر پچھلے 8 سالوں سے تھیں اور با لکل فیملی جیسی تھیں بہت محبت کرنے والی ) اور پھر اس بحث کا نتیجہ یہ ہوا کہ روما کو ہار ماننا پڑی لیکن پھر بھی انہوں نے حریم اور حورعین کا ساتھ نہیں چھوڑا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“اسلام علیکم ” حریم نے گھر میں داخل ہوتے سلام لی ۔ ” وعلیکم السلام حریم بیٹا آپ بیٹھو میں پانی لے آوں ” خالہ بی اسے بٹھا کر اس کیلیے پانی لینے چلی گئیں اتنے میں حورعین دوڑتی ہوئ آئ اور آکر اس سے لپٹ گئ ” آپی آپی کیا کہا ڈاکٹر نے ؟ ”
ارے ارے حورعین بیٹا حریم کو پانی تو پی لینے دو ” اتنے میں خالہ بی پانی لے آئیں ۔ حریم نے گلاس لے کر ایک دو گھونٹ بھرے اور گہرا سانس لیا ( وہ صرف ان دونوں کے صبر کو آزما رہی تھی )
“ڈاکٹر نے بہت امید دلائ ہے کہ سرجری کئے بغیر ہی ساکٹ اور پروستھیٹک فٹ سے کام بہترین چل جاے گا ۔ اور تو اور کاسٹنگ یہاں ڈاکٹر کر دیں گی اور پازیٹو ماڈل کو وہ پشاور بھجوائیں گی ۔ ساکٹ پشاور میں بنے گا ۔ ” حورعین کی خوشی دیدنی تھی حریم نے اسے اپنے ساتھ لگا لیا اور کہا ” میں کچھ ہی دنوں میں دوبارہ اپنے پاووں پر کھڑی ہو جاوں گی ” اب کی بار حورعین نے خوشی سے حریم کے دونوں گال چومے اور کہا ” میں ابھی چچی جان کو بتا کر آتی ہوں ” حریم نے مسکرا کر اجازت دے دی ۔ حورعین ابھی دروازے تک پہنچی تھی کہ رک گئ اور پلٹ کر کہا ” حریم آپی آپ کیلیے میم مریم کی کال آئ تھی ۔ پوچھ رہیں تھی آپ کا ۔ ان کو کال بیک کر لیجیے گا ” حریم نے سر اثبات میں ہلا دیا ۔
“حریم بیٹا آپ کی چچی کہ رہیں تھی کہ آج کھانا ان کی طرف ہے ” ۔ ” جی ٹھیک ہے خالہ بی میں تھوری دیر ریسٹ کر لوں آپ جا کر ان کا ہاتھ بٹا دیجئے ” یہ کہ کر حریم اپنے کمرے میں آگئ ۔ نفاست سے سجایا ہوا کمرہ تھا ۔ بیڈ کہ ایک طرف سٹڈی ٹیبل اور دوسری طرف سنگھار میز تھی ۔ کپڑوں کی الماری باتھ روم کے ساتھ اٹیچڈ ڈریسنگ روم میں تھی ۔ بیڈ کی با لکل سامنے والی دیوار پر ایک خوبصورت سی پینٹنگ تھی جس میں پاکستان آرمی کی وردی جیسے رنگ تھے اور اوپر خطاطی کر کے خوبصورت سے انداز میں ” خواب ” لکھا ہوا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سیکنڈ ایر کے سینڈاپس کا لاسٹ پیپر تھا جب میم مریم پیپر واپس لےچکیں تو کلاس کو اپنی طرف متوجہ کر کے ایک سوال پوچھ ڈالا ” کلاس آج سب لڑکیاں اپنا اپنا مقصد حیات بتائیں گی ؟ ” یہ کہ کر میم چیر پر بیٹھ گئیں ۔ ہاتھ کے اشارے سے دائیں طرف کونے میں بیٹھی طیبہ کو کھڑا کیا ” میم میں اپنی زندگی میں ایک NGO کھولنا چاہتی ہوں ”
میم مریم نے اس کو سراہا اور کہا ” اللّه آپ کا مددگار ثابت ہو ۔ آمین ” ” آمین ” ساری کلاس نے بھی آمین کہا ۔ پھر رامین کھڑی ہوئی اور کہا ” میم میں ڈاکٹر بننا چاہتی ہوں ”
“لیکچر ر ”
” ڈاکٹر ”
” آرٹسٹ ”
پھر حریم کھڑی ہوئی ” میم میں پاکستان آرمی جون کرنا چاہتی ہوں یہی میرا خواب اور مقصد حیات ہے ” میم مریم نے مسکرا کر سر خم کیا ” حریم اللّه آپ کا مددگار ثابت ہو آمین ”
آمین ”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ ۔ ۔
حریم نے ماضی کی یادوں سے سر جھٹکا اور میم مریم کو کال کی ۔ دوسری ہی بیل پر فون اٹھا لیا گیا ۔
” واعلیکم السلام ” دوسری جانب سلام کیا گیا جس کا حریم نے جوابدیا ۔
” جی میم میں بالکل ٹھیک ہوں ” اب حال پوچھا گیا تھا
” میم ڈاکٹر کہ رہی ہیں کہ بہت جلد پروستھیٹک فٹ اور سوکٹ مل جایئں گے ۔ ”
اب کی بار وہاں الله کا شکر ادا کیا گیا
” جی اللہ کا بہت شکر ”
اب وہاں سے ایک سوال پوچھا گیا جس کے جواب میں حریم ایک دو پل خاموش رہی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
” جی میم میں اپنے خواب پر کام کر رہی ہوں ان شاء اللہ بہت جلد اس کا نتیجہ بھی آنے والا ہے ” پھر ایک دو معمول کی باتوں کے بعد حریم نے فونر بینڈ کیا اور بیڈ پر لیٹ کر آنکھیں بند کر لیں ۔
(تو کیا حریم نے اپنا خواب بدل دیا تھا یا چھوڑ دیا تھا یا ووہ جھوٹ بول رہی تھی یا حقیقت کچھ اور ہی تھی
حریم کی آنکھ کھلی تو اس وقت وہ بیڈ پر تھی ۔ ٹائم دیکھا تو ابھی مغرب میں وقت تھا ۔ وضو کے لئے باتھ روم میں آئ ۔ وہاں سنک کی اونچائی زیادہ نہیں تھی اور ساتھ میں ایک چیر تھی جو کہ حریم کی ہی آسانی کے لئے تھی ۔ حریم اس پر بیٹھی اور اپنے پاجامہ کو پاؤں پر سے اوپر اٹھایا ۔ ایکسیڈنٹ کے با عث حریم کی ٹانگ کاٹنی پڑی تھی ۔ دایئں ٹانگ جو کہ پاوں سے 5 انچ اوپر تک کٹی ہوئی تھی ۔ حریم نے بغور اپنی ٹانگ کا جائزہ لیا ۔ اور پھر پاجامہ نیچے کر دیا ۔ وضو کر کے باہر آئ ۔ نماز پڑھی اور دعا کی لئے ہاتھ اٹھا ے ” اللّه میں نہیں جانتی میرے لئے کیا بہتر ہے ۔ آپ جانتے ہیں ۔ آپ میرے لئے وہ کر دیں جو میرے حق میں بہتر ہے ۔ اللّه میں نہیں جانتی کے اگلے کچھ دنوں میں کیا ہونے والا ہے ۔ آپ جانتے ہیں ۔ آپ please وہ کردیجئے جو میرے لئے اچھا ہو ” اور ساتھ ہی ایک آنسو نکل آیا ۔ ” اللّه میں جانتی ہوں آپ جو کرتے ہیں اس میں کوئی نا کوئی مصلحت ہوتی ہے ۔ میرے ساتھ جو کچھ ہوا اس میں بھی ہو گی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔لیکن ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لیکن ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لیکن اللّه میں اب واقعی بہت تھک گئی ہوں ۔ اللّه میری آخری امید prosthetic فوٹ ہے ۔ آپ پلیز میری اس امید کو مکمل کر دیں ۔ پلیز اللّه ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پلیز ” اب کی بار دونو آنکھوں سے آنسو بہ رہے تھے ۔ “آمین ” پھر وہ اٹھی اور کپڑے بدلنے کے لیے چلی گئ کیونکہ رات میں روما چچی کی طرف ڈنر تھا ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
گلبرگ کے ایک خوبصورت سے گھر کے اخاطےمیں ڈنر کا اہتمام کیا گیا تھا ۔ ٹیبل پر 2-3 کھانے کی ڈشز اور ساتھ میں سویٹ تھی اور بالکل درمیان میں ایک candle تھی ۔ حسن نے اب کی بار مریم کو پاستہ پاس آن کیا ۔ ” تھنکس ” مریم نے تھوڑا سا اپنی پلیٹ میں لیا ۔
” سو مما آپ کے دن کیسے گزر رہے ہیں ۔ آئ مین پاپا کے بغیر ؟ ” حسن نے آنکھ ماری ۔
” ہا ہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سچی بتاؤں حسن تو میں بہت زیادہ بور ہو جاتی ہوں آپ کے پاپا ہیں کہ ہر مہینے ہی کسی نا کسی کنٹری کا وزٹ کرنے کے لئے تیار بیٹھے ہوتے ہیں ۔ اور اوپر سے آپ کی پوسٹنگ بھی ہر سال چینج ہو تی رہتی ہے ۔ بچی میں اکیلی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہونہ ” مریم نے گلہ کیا ۔ ” واقعی مما بات تو غلط ہے ۔ ” حسن نے بھی تائد کر دی ۔
اس بار مریم کو لگا کہ لوہا گرم ہے ” بس حسن میں نے ایک فیصلہ کر لیا ہے کہ اس دفع میں آپ کے لئے لڑکی دیکھ رہی ہوں ” اور یہ لوہے پر وار بھی کر دیا ۔ حسن نے گڑبڑا کر ان کی طرف دیکھا ۔ ” ایک منٹ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لڑکی ” اور اپنی شہادت کی انگلی اپنی طرف کی ” میرے لئے ” مریم نے محفوظ ہوتے ہوے اثبات میں سر ہلا دیا ۔ “وہ کیوں ؟ ”
” obviously آپ کی شادی کے لئے بیٹا اور کس لئے ۔ ”
” یعنی کہ پاپا کی وجہ ” مریم نے حسن کی جانب اشارہ کیا ” اور ہاں ہاں میری وجہ سے آپ یہاں اکیلی بور ہوتی ہیں تو اس میں میری شادی کہاں سے آگی بیچ میں ” حسن کونفو ز ہوا ۔ ” توبہ ہے حسن بیٹا آپ کی وائف آئین گی تو ہی میں تھوڑی مصروف ہوں گی نا ”
“تو آپ پاپا کے ساتھ بھی گھوم پھر کر مصروف رہ سکتی ہیں ”
” حسن آپ کو پتا بھی ہے کہ مجھے ان کا سر کل بوہت بورنگ لگتا ہے ۔ اور ویسے بھی آپ اب نہیں تو پھر کب کریں گے شادی ” مریم نے یر ممکن کوشش کرنا چاہی۔ ” مما اس کا مطلب ہے کہ آپ لڑ کی دیکھ چکی ہیں ”
” دیکھی ہے یا نہیں ابھی کنفرم نہیں ہے لیکن کم از کم وہ ڈاکٹر نہیں ہو گی ” مریم نے جھرجھری لی ۔ ” ہاہاہاہاہا ۔ ۔ ۔ ۔ ڈاکٹر نہیں تو کیا ۔ ۔ ۔ پیشنٹ ہو گی ” جسن کی زبان پھسلی ۔ وہ صبح سے لاشعوری طور پر حریم کو سوچ رہا تھا ۔ ” ویسے حسن آیڈیا برا نہیں ہے ۔ ” مریم بھی محفوظ ہوئیں ۔ دونوں کا ذہن ایک ہی لڑکی کو سوچ رہا تھا ۔ حسن نے جب ان کی معنی خیز مسکراہٹ کے پیچھے کا مطلب جانا تو کہا ” نو وے مما ۔ آپ کو پتا ہے آج مس حریم کی ہلپ کرنے کی کوشش کی میں نے ۔ اینڈ شی واز لایک ۔ ۔ اف ۔ ۔ ۔ ۔ اتنا غصہ ۔ ۔ ۔ ۔ ”
” لیکن مجھے تو وہ بہت سویٹ سی لگی ۔ شی از آ نایس گرل حسن ۔ اور ویسے بھی میں نے تو عام بات کی تھی نہ کے حریم کی ” مریم ہسنے لگیں ۔ اور حسن صحیح معنوں میں کنفیوز ہو گیا ” مما میرا مطلب تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ” مریم نے حسن کی بات کاٹی اور کہا ” حسن فار می فرسٹ امپریشن از ناٹ دا لاسٹ ون ” مریم نے اپنے بیٹے کی سرزنش کی ۔ ” جی ٹھیک مما ۔ آپ سویٹ لیں نا ” باقی ڈنر خاموشی سے کیا گیا ۔
*************
“مما ” حسن نے صبح صبح ہی دروازہ ناک کیا اس وقت مریم ہسپتال جانے کیلیے تیار ہو رہی تھیں ۔ ” جی حسن ۔ حیریت ” حسن اس وقت بہت ہی خوشگوار موڈ میں بلیک پینٹ پر سفید شرٹ پہنے ہوے تھا ۔
” بالکل حیریت ہے ۔ آپ بتایئں کہ مس حریم کا ساکٹ کب بنایئں گی آپ ؟ ” مریم مسکرا دیں ۔ ” آج ہی ”
” چلیں پھر میں اسے پک کر کے ہاسپیٹل لے آوں گا ۔ کوئ پروبلم تو نہیں نا ۔ ” حسن بے اتنی صبح آنے کا مقصد بتایا ۔ ” آپ کو پتا ہے وہ کہاں ہیں ؟ ” مریم نے پوچھا ۔
” مما کیپٹین حسن کیلیے کچھ پتا کروانا مشکل نہیں ہے ۔ شی از آ لیکچرآر ان پرائیوٹ کالج ۔ اینڈ شی ول بی فری ٹل 12 ” حسن نے دل جیت لینے والی مسکراہٹ سے جواب دیا ۔ ” حسن مجھے نا دال میں کچھ کالا لگ رہا ہے ” مریم نے مسکراہٹ دبا کر کہا تو حسن جھینپ گیا ۔ ” وہ کیا ہے مما میں نے سوچا کہ جو لڑکی میری مما کو اتنی سویٹ لگی ہے مجھے اس کے مطعلق راے بدلنی چاہیے ۔ کیوں صحیح کہا نا۔
” ہاہاہاہا ۔ ۔ ۔ ۔ بالکل صحیح کہا ۔” مریم نے پہلی مرتبہ اپنے بیٹے کو کسی لڑکی کو پک کرتے خوشی کا اظہار کرتے ہوے دیکھا ۔ ” مما اگر اس نے آپ کو کال کی تو سنبھال لیجیے گا ” یہ کہ کر حسن باہر چلا گیا ۔
پیچھے سے مریم بھی ہاسپٹل کیلیے نکل گیں
****************
حسن دس منٹ پہلے ہی کالج پہنچ گیا ۔ وہاں کے پرنسپل اس کے ایک دوست کے والد تھے انہوں نے کالج کے اندر جانے کی اجازت دے دی ۔ وہ مطلوبہ کلاس کی جانب جا رہا تھا اور اس نے محسوس کیا کہ بہت سی ٹیچرز اور سٹوڈنٹس بھی مڑمڑ کر اسے دیکھ رہی ہیں ۔ ایسا ہمیشہ ہی ہوتا تھا لیکن آج حسن کو اچھا نہیں لگ رہا تھا ۔ ایک جگہ رک کر اس نے دو فی میل ٹیچرز سے پوچھا ” ایکسکیوز می ۔ کیا آپ بتا سکتی ہیں کہ مس حریم کی کلاس کس طرف ہے ؟ ” وہ دونوں جو مسکرا کر اسے دیکھ رہی تھیں اس سوال پر لہجہ سرد ہو گیا اور پوچھا ۔ کالج میں دو حریم ہیں آپ کس کا پوچھ رہے ہیں ؟ ” حسن نے ذہن پر دباو ڈال کر یاد کرنے کی کوشش کی ۔ ” آفندی ۔ ۔ ۔ ۔ جی حریم آفندی کی کلاس کس طرف ہے ؟ ” ان میں سے ایک کا تو باقاعدہ منہ بن گیا اور رکھائ سے بولی ” وہ ہی جن کا پاوں ایکسیڈنٹ میں کٹ گیا ” حسن کو اس ٹیچر کا انداز بہت برا لگا تو کہا ” جی وہی جن کو جلد ہی ان کا پروستھیٹک فٹ مل جاے گا اور اسی سلسلے میں میں ان کو لینے آیا ہوں اور چند ہی دنوں میں وہ اپنے دونوں پاوں پر کھڑی ہو جایئں گی ۔ با لکل آپ کی طرح ” ان ٹیچر کو بھی یہ جواب کچھ خاص پسند نہیں آیا تو بس راستہ بتا دینے پر ہی اکتفا کیا ۔
حسن بھی بتاے ہوے رستے کی جانب چل دیا ۔ جب اسے مطلوبہ کلاس نظر آئتو اتنے میں چھٹی کیلیے بیل ہو گئ ۔ تو اس نے باہر ہی انتظار کرنے کو ترجیح دی ۔ حریم کی بیساکھی کی آواز پر وہ متوجہ ہوا اور اسے دیکھا ۔ آج اس نے بلیک ڈریس پہن رکھا تھا اور ساتھ میں بلیک ہی سکارف ۔ حسن آگے برھنے ہی لگا تھا کہ اتنے میں کلاس میں سے ایک لڑکا باہر آیا اور حریم کو آواز دے کر روکا ۔
” میم ! ”
” جی مراد ”
حریم کی پشت حسن کی جانب تھی لیکن حسن ان دونوں کے درمیان ہونے والی گفتگو سن سکتا تھا ۔ ” میم مجھے ایک بات پوچھنی تھی ۔ ”
” جی ”
” میم ایک آدمی کس طرح اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر ملک کےلیے نکل سکتا ہے ؟ انسان کے لیے اس کی جان ہی تو سب کچھ ہوتی ہے ۔ وہ کیسے شہید ہونے کی خواہش کر سکتا ہے ؟ ” حسن بھی چونکہ ایک سپاہی تھا اس لئے حریم کا جواب سننے کیلئے متوجہ ہو گیا
مراد آپ کالج اپنی پرسنل کار میں آتے ہیں ۔ رایٹ ؟ ” مریم نے مسکرا کر سوال کیا ۔ نہ صرف مراد بلکہ حسن بھی اس سوال پر حیران ہوا ۔
” ییس میم ۔ میں اپنی کار میں آتا ہوں ۔ ”
” ہممم اور آجکل بارشوں کا سیزن بھی ہے ”
” جی میم ہے ”
” اچھا مراد کبھی آپ نے راستے میں جب پانی کھڑا ہو جاے تو دیکھا ہو گا کہ لوگوں کو گزرنے میں تکلیف ہوتی ہے ۔ ” حریم نے سوال کیا ۔
” ییس میم ایک دو جگہیں ہیں ایسی ”
” تو کیا کبھی آپ نے اپنے تھوڑے سے وقت کی قربانی دی اور وہاں راستہ ہموار کیا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جیسے ایک دو اینٹیں اٹھا کر رکھ دیں جس سے وہاں سے گزرنے والوں کیلیے آسانی ہو ۔ کبھی کیا آپ نے ؟ ”
” نو میم ” مراد نے شرمندہ ہوتے ہوے جواب دیا ۔
” ارے میرا مطلب بالکل بھی آپ کو شرمندہ کرنا نہیں تھا ۔ بلکہ یہ کہنا تھا کہ آپ اب اپنے ملک کے لوگوں کیلیے اپنے وقت کی قربانی دیں ۔ تو آپ کو پتا چل جاے گا کہ کس طرح ایک جوان اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر ملک کیلیے نکلتا ہے ۔ ” جب حریم نے جواب دیا تو حسن بخوبی اس کا مطلب سمجھ گیا کیونکہ وہ خود ایک رکھوالا تھا ۔ لیکن مراد کو سمجھ نہیں آئ تو اس نے دوبارہ پوچھا ۔ ” میم میں سمجھا نہیں ۔ ایک اینٹ رکھ دینے سے مجھے کیسے معلوم ہو گا ۔ ”
اب کی بار حریم کے جواب دینے سے پہلے حسن بول پڑا ” بھئ مراد یہاں بات اینٹ رکھنے کی نہیں اپنا تھوڑا سا وقت قربان کرنےکی ہے ۔ جب آپ یہ چھوٹی سی قربانی دیں گے تو ہی ہماری قربانیوں کو سمجھ سکیں گے ” حریم اور مراد نے حیرت سے اسے دیکھا جو کہ مراد کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے اس کو سمجھا رہا تھا ۔
مراد کی سوالیہ نظروں کا جواب دیتے ہوے حسن نے اپنا تعارف کرایا ” آئ ایم کیپٹین حسن ۔ آپ کی میم کی ڈاکٹر کا بیٹا” جواب پا کر مراد وہاں سے چلا گیا تو حسن حریم کی طرف مڑا ۔
“حسن ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آئ مین کیپٹین حسن ۔ ۔ ۔ ۔ آپ یہاں ؟ ” حریم پر تو جیسے حیرت کا پہاڑ ٹوٹ گیا ۔ ” اممم وہ ایکچوالی مجھے مما ۔ ۔ ۔ اممم ڈاکٹر مریم نے بھیجا ہے ۔ شی واز سیینگ کہ آج آپ کا ساکٹ بنایا جاے گا ۔ ” حسن نے دایئنے ہاتھ سے سر کی پشت پر ہاتھ پھیرتے ہوے کہا ۔ ” اور میں جا کے آپ کو لے آوں ۔ ” اب کی بار معصومیت کے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے ۔ ” لیکن ڈاکٹر مریم نے تو ایسا کچھ نہیں کہا تھا ۔ ” حریم نے حیرت کا اظہار کیا ۔
” ایکچوئلی کاسٹنگ کیلئے وہ ریڈی تھیں اس لیے مجھے بھیج دیا ۔ ” حسن مے جیسے اپنی صفائ دی ۔ ” میں ڈاکٹر کو کال کر کے کنفرم کر لوں ۔
10 منٹ بعد حریم کیپٹین حسن کی گاڑھی میں ان کے ساتھ تھی ۔ حسن ابھی تک حیران تھا کہ معاملہ صرف دس مینٹ میں حل ہو گیا ہے ۔
گاڑی میں مکمل خاموشی تھی جسے حسن نے توڑنے کی کوشش کی ۔ ” تو مس آفندی ۔ ۔ ۔ ” حریم نے بات کاٹی ” حریم ۔ ۔ ۔ آپ مجھے صرف حریم کہ سکتے ہیں ۔” ( یہی تو میں کیلوانا چاہ رہا تھا ) حسن نے سوچا حریم نے بات جاری رکھی ” اور ایک اور بات ۔ مجھے اپنے اس دن ہاسپیٹل والے ایٹیٹیوٹ کیلیے سوری کہنا ہے ۔ میں اس وقت زیادہ ویٹ کرنے کی وجہ سے غصے میں آ گئ تھی ۔ آئ ایم سوری ”
اور دوسری جانب حسن پر تو غیر معمولی خوشی طاری ہو گئ ۔ بہت مشکل سے اپنے جزبات پر قابو پا کر بول پایا ” نہیں اٹس اوکے میں نے ماینڈ نہیں کیا ” ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خاموشی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حریم آس پاس گزرنے والے لوگوں کو دیکھنے لگ گئ جبکہ حسن یہ سوچنے کہ اب کیا کہنا ہے کیونکہ یہ لڑکی اس پر ایک کے بعد ایک حیرت انگیز انکشاف کر رہی تھی ۔ کچھ دیر بعد حریم کی نظر حسن کے بازو پر پڑی ۔ شرٹ کے بازو ہاف فولڈ تھے اور کلائ میں راڈو کی گھڑی تھی ۔ حریم نے ہمت کر کے بات شروع کی ۔ ” کیپٹین حسن ایک بات پوچھ سکتی ہوں ؟ ” حسن نے سر کو اثبات میں ہلا دیا ۔ ” کیپٹین حسن ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ” حسن نے بات کاٹتے ہوے کہا ” حسن ۔ ۔ ۔ آپ مجھے حسن کہ سکتی ہیں ۔ ” حریم جھیینپ گئ ۔ ” جی تو حسن آپ آرمی میں کیوں ہیں ؟ ” حسن نے قدرے حیرت سے اسے دیکھا کیونکہ اس کے تو فرشتے بھی اس سوال کو ایکسپیکٹ نہیں کر رہے تھے ۔ حریم نے اس کی طرف سے خاموشی کو محسوس کرتے ہوے دوبارہ سوال کیا “میرا مطلب تھا کہ کیا یہ آپ کا فیصلہ تھا یا اس لیے کہ آپ کے پیرنٹس آرمی میں ہیں اور آپ کو آرمی جوائن کرنے کیلیے فورس کیا گیا ہے ؟ ” اب کی بار حسن نے سوال کو آسان جانا اور کہا ” نہیں حریم آرمی جوائن کرنا میرا فیصلہ اور میری ترجیح تھی ۔ آج سے پانچ سال پہلے مجھے آرمی یا بزنس میں سے ایک کو چننا تھا ۔ اور میں نے آرمی کو چنا ۔ ”
” کوئ خاص وجہ ؟ ”
” میں اگر وجہ بتانے پر آیا تو وضاحت کرتے ہوے رات ہو جاے گی اور میں اپنے جزبات کوالفاظ کا روپ تو دے ہی نہیں سکتا مختصر کہہ سکتے ہیں کہ مجھے آرمی سے محبت ہے ۔ “اور وہ گہری سانس لے کر خاموش ہو گیا ۔
” تو ہم کہہ سکتے ہیں حریم کہ چند دنوں میں آپ اپنی سٹیک سے پیچھا چھڑا لیں گی ” حسن نے گاڑھی موڑتے ہوے کہا ۔ ” شاید ” بغیر کسی تاثر کے جواب دیا گیا ۔ ” کیوں آپ کو میری مما کی قابلیت پر شک ہے کیا ؟ ” حسن نے بات کو مزاق کا رخ دینا چاہا ۔ ” مما کا خواب تھا کہ وہ آرمی ڈاکٹر بنیں اور جب ان کا خواب پورا ہوا تو اپنے کام سے سنسیئر ہیں اور آج ان کی کامیابیوں کی تعریفیں سینئر ڈاکٹرز کرتے ہیں ” حسن کو واقعی اپنی مما پر رشک تھا ۔ اور حریم یہ سوچ کر رہ گئ کہ اس کاپہلا خواب بھی تو یہ ہی تھا ۔ پھر بولی ” نہیں ایسی بات بالکل بھی نہیں ہے کہ مجھے ڈاکٹر مریم کی قابلیت پر شک ہے ۔ میں بس اب اپنی زندگی میں کسی بھی چیز کو احتتام نہیں مانتی میرے ساتھ اتنے مس حیپس ہو چکے ہیں کہ میں خود کو ہر طرح کے حالات کیلیے پہلے سے ہی تیار رکھتی ہوں ۔ مجھے اگر یہ امید ہے کہ ان سٹیکس سے جان چھڑوا لوں گی تو ایک طرف میں خود کو ساری زندگی ان کے ساتھ گزارنے پر بھی مطمعین کر چکی ہوں ” اور حسن دل میں اس کیلیے شدت سے دعا کر بیٹھا کہ اس کی مثبت سوچ سچ ثابت ہو جاے ۔ وہ اسے امید دلانا چاہتا تھا کہ سب ٹھیک ہو جاے گاوہ اپنے ذہن میں الفاظ ترتیب دے رہا تھا لیکن اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتا ہسپتال آگیا ۔ ” شکریہ حسن ۔ آپ اچھے انسان ہیں ” یہ کہہ کر وہ گاڑھی سے اتری اور اندر چلی گئ ۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...