مذہبی حکومت
بابل میں نہ صرف شخصی حکومت قائم تھی بلکہ یہ مذہبی حکومت تھی اور بادشاہ کا یہ نظریہ تھا کہ بادشاہ زمین پر ظل الہی ہے اور اسکو تمام حقوق و اختیارات براہ راست دیوتاوں سے ملے ہیں
حموربی اپنے قانون کی تمہید یا خاتمے میں یہ دعوی’ کرتا ہیکہ مجھے الو اور بعل نے مخلوق کا حکمران بنایا اور مردوخ نے مجھے بابل کی سرادری سپرد کی اور شمس نے مجھے قانون عطا کیا اس میں حموربی خودستائی نہیں کررہا بلکہ یہ ان لوگوں کا بنیادی عقیدہ تھا کہ بادشاہی کے تمام شعبے سے مختلف دیوتاوں سے ملے ہیں
مذہبی حکومت کا یہ نظریہ صرف بابل میں نہیں بلکہ قدیم مصریوں کا بھی عقیدہ ایسا ہی تھا وہاں بھی خدائی حکومت ہی قائم تھی فرق صرف اتنا تھا کہ مصر میں فرعون خدا یا الہ’ کا اوتار تصور کیا جاتا تھا اسلیے لوگوں پر یہ لازم تھا کہ وہ بادشاہ کے ہر حکم کی تعمیل بے چون و چرا کریں جبکہ بابل میں بادشاہ کسی مخصوص دیوتا یا معبود کا نمائندہ نہیں مانا جاتا تھا بابلی عقیدے کے مطابق دیوی دیوتاوں کی دنیا اور عام انسانوں کی دنیا الگ اتھلگ ہیں ان کے ڈانڈے آپس میں نہیں ملتے اسکے باوجود بابل میں یہ عقیدہ عام تھا کہ کوئی خاص دیوتا شہر اور اسکے باشندوں کا آقا اور انکا نگہبان ہے
صوباِئی نظام
تاریخ کے اوراق سے یہ معلوم تو نہیں ہوتا کہ بادشاہ کے مشورے کے لیے وزیروں کی کوئی مجلس تھی یا نہیں البتہ یہ یقینی امر ہے کہ تمام بڑے بڑے شہر جو کسی زمانے میں آزاد اور مستقل ریاستیں تھیں حموربی کے عہد میں انکی حثیت مقامی یا صوبائی حکومت کی ہو گئی تھی اور یہاں پر مرکز کی جانب سے عامل یا گورنر مقرر کیے جاتے تھے انھیں تمام دیوانی اور فوجداری اختیارات حاصل وہ اپنے علاقوں میں امن و امان کے بھی ذمہ دار تھے انھیں انتظامی امور کے لیے بادشاہ سے احکامات متواتر ملتے رہتے تھے
گورنروں بہت سارے فرائض ادا کرنے کے ذمہ دار تھے
شاہی فوج جس علاقے سے گزرے اسکی نقل و حرکت اور خوردونوش کی ذمہ داری صوبائی حکومت کی ہوتی تھی
صوبے کو کچھ رقم ہر ماہ بطور خراج یا مالیہ مرکز کو بھیجنا پڑتی تھی یہ رقم پوری کرنے کے لیے لوگوں سے ٹیکس وصول کرتے تھے جسکی ذمہ داری مندر یا کسی نچلی سطح کی انتظامیہ کے پاس تھی
ٹیکس نقد اور جنس دونوں صورتوں میں جمع کیا جاتا تھا اور صوبائی حکومت کا فرض تھا کہ وہ مقررہ وقت پر اسے وصول کرے اور مرکز کے حساب میں اپنے ہاں جمع رکھے
سلطنت کے مختلف حصوں میں کھجوروں کے وسیع باغ اور جاگیریں مرکزی حکومت کی ملکیت تھیں انکی دیکھ بحال کا ذمہ متعلقہ صوبائی حکومت کا تھا فصل کے موقع پر تمام غلہ ، اناج اور کھجوریں جمع کر لی جاتیں جنھیں محفوظ رکھنے کے تمام بڑے شہروں میں گودام تعمیر کیے گئے تھے
جب مرکز سے طلب ہوتی تو نجومیوں سے شبھ گھڑی پوچھ کہ یہ محصول وغیرہ وہاں بھیج دیا جاتا
شاہی خزانے کی ایک بڑی مد بھیڑ بکریوں کے ریوڑ اور جانوروں کے گلے تھے ملک کے اطراف میں جہاں کہیں سر سبز چراگائیں ہوتیں وہاں انکی پرورش کی جاتی مختلف مندروں کی جاگیروں پر بھی جانوروں کی بڑی تعداد کی پرورش ہوتی تھی ان سب کی دیکھ بھال اور انکی تعداد میں اضافے کی ذمہ دار صوبائی حکومتیں تھیں مرکز سے وقتا” فوقتا” جانوروں کے معائنے کے لیے افسر بھیجے جاتے تھے جو بادشاہ کی خدمت میں انکی صحت ، تعداد ، خوراک اور دیگر امور سے متعلق رپورٹ پیش کرتے تھے
شاہی آمدنی کا ایک اہم ذریعہ وہ اون تھی جو ان بھیڑوں سے حاصل ہوتی تھی یہ صوبائی حکومت کی ذمہ داری تھی کہ وہ مناسب وقت پر آدمی مہیا کرے اور ان بھیڑوں کو مونڈوا کر اون دارلخلافہ میں پہنچائے
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...