مجھے مذہب اور سائنس کے اس پہلو سے دلچسپی ہے جہاں سائنس آزادانہ طور پرکائنات اور اس کے بھیدوں کی نقاب کشائی کا کوئی مرحلہ سرکرتی ہے اور لا الہ ۔۔کا منظر دکھاتی ہے اور وہیں کہیں آس پاس سے مذہب کی بخشی ہوئی کوئی روحانی کیفیت یا کوئی مابعد الطبیعاتی لہر مجھے اس نفی میں سے اثبات کا جلوہ دکھاتی ہے اور الا اللہ کی صدائیں آنے لگتی ہیں۔اور یہ سارا سائنسی اور مابعد الطبیعاتی آہنگ میری ادبی جمالیات میں میری ادبی استطاعت کے مطابق اپنے رنگ دکھانے لگتا ہے۔کمپیوٹر کے چِپ کی کارکردگی منکر نکیر اور یومِ حساب پر ایمان پختہ کرتی ہے تو کلوننگ کا تجربہ حیات بعد الموت کا سائنسی ثبوت دے کر اس عقیدہ پر مجھے مزید راسخ کرتا ہے۔خلا کو نکال دینے سے ساری کائنات کا مادہ سوئی کی نوک پر سما جانے ،اور پھر کسی اینٹی میٹر کے اس سے ٹکرانے کے نتیجہ میں اس کے بھی غائب ہوجانے کا سائنسی دعویٰ مجھے اس قیامت پر پکا یقین دلاتا ہے جس میں ساری کائنات فنا ہو جائے گی اور صرف خدا کی ہستی باقی رہے گی۔ میر ا شروع سے یہی خیال رہا ہے کہ سائنس خدا کی نفی کرتے ہوئے اسی کی طرف جارہی ہے،مذہب روحانی طور پر اسی کی طرف سفر کراتا ہے اور ادب بھی جمالیاتی سطح پر اسی حقیقتِ عظمیٰ کی طرف سفر کرتا ہے۔اور بس۔۔۔
(میری کتاب ’’کھٹی میٹھی یادیں‘‘کے باب’’رہے نام اللہ کا!‘‘ سے اقتباس)