مجھے پہلے ہی اندازہ تھا کہ تم اپنے اپارٹمنٹ پر ہی ہو گے، صرف تم نے جان بوجھ کر answer phone لگا دیا ہو گا۔”
سعد اگلےب دن دس بجے سالار کے اپارٹمنٹ پر موجود تھا۔ سالار نے نیند میں اٹھ کر دروازہ کھولا تھا۔
“تم اس طرح بغیر بتائے بھاگ کیوں آئے میرے اپارٹمنٹ سے۔” سعد نے اندر آتے ہوئے جھاڑا۔
“بھاگا تو نہیں، تم سو رہے تھے، میں نے تمہیں جگانا مناسب نہیں سمجھا۔” سالار نے آنکھیں مسلتے ہوئے کہا۔
“کس وقت آئے تھے تم؟”
“شاید چار پانچ بجے۔”
“یہ جانے کا کون سا وقت تھا؟” سعد نے تنک کر کہا۔
“اور تم اس طرح آئے کیوں؟” سالار کچھ کہنے کے بجائے لونگ روم کے صوفہ پرجا کر اوندھے منہ لیٹ گیا۔
“شاید میری باتوں سے تم ناراض ہو گئے تھے، میں اسی لئےا یکسکیوز کرنے آیا ہوں۔” سعد نے دوسرے صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا۔
“کون سی باتوں سے؟” سالار نے گردن کو ہلکا سا ترچھا کرتے ہوئے اسی طرح لیٹے سعد سے پوچھا۔
“وہی سب کچھ جو میں نے کچھ غصے میں آ کر رات کو تم سے کہہ دیا۔” سعد نے معذرت خواہانہ انداز میں کہا۔
“نہیں ، میں ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں پر تو ناراض نہیں ہو سکتا۔ تم نے ایسی کوئی بات نہیں کی جس پر تمہیں ایکسکیوز کرنے کے لئے یہاں آنا پڑتا۔” سالار نے اسی کے انداز میں کہا۔
“پھر تم اس طرح اچانک میرے اپارٹمنٹ سے کیوں آ گئے؟” سعد بضد ہوا۔
“بس میرا دل گھبرایا اور میں یہاں آ گیا اور چونکہ سونا چاہتا تھا اس لئے answer phone لگا دیا۔”
سالار نے پرسکون انداز میں کہا۔”پھر بھی میں یہ محسوس کر رہا تھا کہ مجھے تم سے اس طرح سے بات نہیں کرنی چاہئیے تھی۔ میں صبح سے بہت پچھتا رہا ہوں۔”
“جانے دو اسے۔” اس نے اسی طرح چہرہ صوفے پر چھپائے کہا۔
“سالار! تمہارے ساتھ آج کل کیا پرابلم ہے؟”
“کچھ نہیں۔”
“نہیں، کچھ نہ کچھ تو ہے۔ کچھ عجیب سے ہوتے جا رہے ہو تم۔”
اس بار سالار یک دم کروٹ بدلتے ہوئے سیدھا ہو گیا۔ چت لیٹے سعد کی طرف دیکھتے ہوئے اس نے پوچھا۔
“مثلاً کون سی بات عجیب سی ہوتی جا رہی ہے مجھ میں۔”
“بہت ساری ہیں، تم بہت چپ چپ رہنے لگے ہو، چھوٹی چھوٹی باتوں پر الجھنے لگے ہو۔ عباد مجھے بتا رہا تھا کہ یونیورسٹی جانا بھی چھوڑا ہوا ہے تم نے اور سب سے بڑی بات کہ مذہب میں دلچسپی لے رہے ہو۔” اس کے آخری جملے سے سالار کے ماتھے پر تیوریاں آ گئیں۔
“مذہب میں دلچسپی؟ یہ تمہیں غلط فہمی ہے۔ میں مذہب میں دلچسپی لینے کی کوشش نہیں کر رہا، میں صرف سکون حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہوں کیونکہ میں بہت ڈپریس ہوں۔ مجھے زندگی میں کبھی اس طرح کا۔۔۔۔۔ اور اس حد تک ڈپریشن نہیں ہوا جس کا شکار میں آج کل ہوں اور میں صرف اس ڈپریشن سے نجات حاصل کرنے کے لئے رات نماز پڑھنے کے لئے گیا تھا۔” اس نے بہت ترشی سے کہا۔
“ڈپریشن کیوں ہے تمہیں؟” سعد نے پوچھا۔
“اگر یہ مجھے پرا ہوتا تو مجھے یقیناً ڈپریشن نہ ہوتا۔ میں اب تک اس کا کچھ نہ کچھ کر چکا ہوتا۔”
“پھر بھی کوئی نہ کوئی وجہ تو ہو گی، یوں بیٹھے بٹھائے ڈپریشن تو نہیں ہو جاتا۔” سعد نے تبصرہ کیا۔
سالار جانتا تھا، وہ ٹھیک کہہ رہا ہے، مگر اسے وجہ بتا کر خود پر ہنسنے کا موقع فراہم نہیں کرنا چاہتا تھا۔
“کسی دوسرے کے بارے میں تو مجھے پتا نہیں، مگر مجھے تو بیٹھے بٹھائے ہی ہو جاتا ہے۔” سالار نے کہا۔
“تم کوئی اینٹی ڈیپریسنٹ لے لیتے۔” سعد نے کہا۔
“میں ان کا ڈھیر کھا چکا ہوں، مجھے کوئی فرق نہیں پڑا۔”
“تو تم کسی سائیکاٹرسٹ سے مل لیتے۔”
“میں یہ کام تو کبھی نہیں کروں گا، میں تنگ آ چکا ہوں ان لوگوں سے ملتے ملتے۔ کم از کم اب تو میں نہیں ملوں گا۔” سالار نے بے اختیار کہا۔
“پہلے کس سلسلے میں ملتے رہے ہو تم؟” سعد نے کچھ چونک کر تجسس کے عالم میں پوچھا۔” بہت سی باتیں تھیں، تم انہیں رہنے دو۔” وہ اب چت لیٹا چھت کو گھور رہا تھا۔
“تو پھر تم ایسا کیا کرو کہ عبادت کیا کرو، نماز پڑھا کرو۔”
“میں نے کوشش کی تھی مگر میں نماز نہیں پڑھ سکتا نہ تو مجھے وہاں کوئی سکون ملا نہ ہی میں یہ جانتا تھا کہ میں جو پڑھ رہا ہوں وہ کیا ہے، کیوں پڑھ رہا ہوں۔”
“تو تم یہ جاننے کی کوشش کرو کہ۔۔۔۔۔”
سالار نے اس کی بات کاٹ دی۔” اب پھر رات والی بحث شروع ہو جائے گی، صراطِ مستقیم والی اور پھر تمہیں غصہ آئے گا۔”
“نہیں، مجھے غصہ نہیں آئے گا۔” سعد نے کہا۔
“جب مجھے یہ ہی نہیں پتا کہ صراطِ مستقیم کیا ہے تو پھر میں نماز کیسے پڑھ سکتا ہوں۔”
“تم نماز پڑھنا شروع کرو گے تو تمہیں خود ہی پتا چل جائے گا کہ صراطِ مستقیم کیا ہے۔”
“کیسے؟”
“تم خود ہی غلط کاموں سے بچنے لگو گے، اچھے کام کرنے لگو گے۔” سعد نے وضاحت کرنے کی کوشش کی۔
“مگر میں کوئی غلط کام نہیں کرتا اور نہ ہی مجھے اچھے کام کرنے کی خواہش ہے۔ میری زندگی نارمل ہے۔”
“تمہیں یہ احساس ہو بھی نہیں سکتا کہ تمہارا کون سا کام صحیح ہے اور کون سا غلط۔ جب تک کہ۔۔۔۔۔”سالار نے اس کی بات کاٹ دی۔
“صحیح اور غلط کام میرا مسئلہ نہیں ہے۔۔۔۔۔ ابھی تو مجھے بس بے سکونی رہتی ہے اور اس کا تعلق میرے کاموں سے نہیں ہے۔”
“تم وہ تمام کام کرتے ہو جو انسان کی زندگی کو بے سکون کر دیتے ہیں۔”
“مثلاً۔” سالار نے چبھتے ہوئے لہجے میں کہا۔
“تم پورک کھاتے ہو۔”
“کم آن۔” وہ بے اختیار بلبلایا۔” پورک یہاں کہاں آ گیا، تم مجھے ایک بات بتاؤ۔” سالار اٹھ کر بیٹھ گیا۔”تم تو بڑی باقاعدگی سے نماز پڑھتے ہو، بڑی عبادت کرتے ہو، نماز نے تمہاری زندگی میں کون سی تبدیلیاں کر دیں؟”
“مجھے بے سکونی نہیں ہے۔”
“حالانکہ تمہارے فارمولے کے مطابق تمہیں بھی بے سکونی ہونی چاہئیے، کیونکہ تم بھی بہت سے غلط کام کرتے ہو۔” سالار نے ترکی بہ ترکی جواب دیا۔
“مثلاً۔۔۔۔۔ میں کیا غلط کام کرتا ہوں؟”
“تم جانتے ہو، میرے دہرانے کی ضرورت نہیں ہے۔”
“میں۔۔۔۔۔ میں نہیں جانتا، تم دہراؤ۔” سعد نے جیسے اسے چیلنج کیا۔
سالار اسے کچھ دیر دیکھتا رہا پھر اس نے کہا۔” میں نہیں سمجھتا سعد کہ صرف عبادت کرنے سے زندگی میں کوئی بہت نمایاں تبدیلی لائی جا سکتی ہے، اچھے کاموں یا کردار کا تعلق عبادت کرنے یا نہ کرنے سے نہیں ہو تا۔”
سعد نے اس کی بات کاٹ دی۔” میں اسی لئے تم سے کہتا ہوں کہ اپنے مذہب میں کچھ دلچسپی لو اور اسلام کے بارے میں کچھ علم حاصل کرو تاکہ اپنی اس غلط قسم کی فلاسفی اور سوچ کو بدل سکو۔”
“میری سوچ غلط نہیں ہے، میں نےمذہبی لوگوں سے زیادہ چھوٹا، منافق اور دھوکے بار کسی کو نہیں پایا۔ میں امید کرتا ہوں تم برا نہیں مانو گے، مگر میں سچ کہہ رہا ہوں۔ ابھی تک مجھے تین ایسے لوگوں سے واسطہ پڑا جو بہت مسلمان بنتے ہیں اور اسلام کی بات کرتے ہیں اور تینوں fake(منافق) ہیں۔” وہ بڑی تلخی سے کہہ رہا تھا۔
“سب سے پہلے میں ایک لڑکی سے ملا، وہ بھی بڑی مذہبی بنتی تھی، پردہ کرتی تھی، بڑی پارسا اور پاک باز ہونے کا ڈرامہ کرتی تھی اور ساتھ میں ایک لڑکے کے ساتھ افئیر چلا رہی تھی، اپنے منگیتر کے ہوتے ہوئے اس کے لئے گھر سے بھاگ بھی گئی۔ اسے ضرورت پڑی تو اس نے ایک ایسے شخص کی بھی مدد لی جسے وہ برا سمجھتی تھی یعنی اسے اپنے فائدے کے لئے استعمال کرنے میں کوئی عار نہیں سمجھا، ان محترمہ پارسا خاتون نے۔” اس کے لبوں پر استہزائیہ مسکراہٹ تھی۔
“اس کے بعد میں ایک اور آدمی سے ملا جس نے داڑھی رکھی ہوئی تھی۔ بڑا پکا اور سچا قسم کا مسلمان تھا وہ بھی لیکن اس نے اس لڑکی کی مدد نہیں کی، جس نے اس سے بھیک مانگنے کی حد تک مدد مانگی تھی۔ اس نے اس لڑکی سے شادی نہیں کی جسے وہ محبت کے نام پر بے وقوف بناتا رہا اور ابھی کچھ عرصہ پہلے میں یہاں امریکہ میں اس سے ملا تو اس کی داڑھی بھی غائب ہو چکی تھی، شاید اس کے اسلام کے ساتھ۔”
وہ ہنسا۔” اور تیسرے تم ہو۔۔۔۔۔ تم پورک نہیں کھاتے صرف یہ ایک حرام کام ہے جو تم نہیں کرتے، باقی سب تمہارے لئے جائز ہے۔ جھوٹ بولنا، شراب پینا، زنا کرنا، کلب میں جانا۔۔۔۔۔ غیبت کرنا، دوسروں کا مذاق اڑانا، حالانکہ ویسے تم بڑے نیک ہو، تم نے داڑھی رکھی ہوئی ہے، تم ہمارا دماغ کھا جاتے ہو اسلام کی باتیں کر کر کے۔ زبردستی نماز پڑھانے پر تلے رہتے ہو، ہر بات میں مذاہب کا حوالہ لے آتے ہو۔ یہ آیت اور وہ حدیث۔۔۔۔۔ وہ آیت اور یہ حدیث۔۔۔۔۔ اس کے علاوہ تمہاری زبان پر اور کچھ ہوتا ہی نہیں اور جب میں تمہارا عمل دیکھتا ہوں تو میں ذرہ بھر بھی تم سے متاثر نہیں ہوتا۔ کتنا مشکل ہوتا ہے اسلام کے بارے میں تمہارا لیکچر سننا، میں تمہیں بتا نہیں سکتا۔ مجھ میں اور تم میں زیادہ فرق تو نہیں ہے۔ تم داڑھی رکھ کر اور اسلام کر کر کے وہ سارے کام کرتے ہو جو میں ڈارھی کے اور اسلام کی بات کئے بغیر کرتا ہوں۔ عبادت نے کیا انقلاب برپا کیا ہے تمہاری زندگی میں، سوائے اس کے کہ تمہیں ایک خوش فہمی ہو گئی ہے کہ تم تو سیدھے جنت میں جاؤ گے اور ہم سارے دوزخ میں۔ تمہارے قول اور فعل میں اگر یہ تضاد نہ ہو تو میں کبھی تم سے یہ سب نہ کہتا مگر میں ریکویسٹ کرتا ہوں کہ تم دوسروں کو مذہب کی طرف راغب کرنے کی کوشش نہ کیا کرو، کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ تم خود بھی مذہب کے صحیح مفہوم سے واقف نہیں ہو۔ اب میری ان ساری باتوں کو مائنڈ مت کرنا۔”
سالار اب ٹیبل پر پڑا ایک سگریٹ سلگا رہا تھا۔ سعد تقریباً گونگا ہو گیا تھا۔
“ٹھیک ہے، مجھ سے کچھ غلطیاں ہو جاتی ہیں، مگر اللہ انسان کو معاف کر دیتا ہے اور میں نے کبھی یہ تو نہیں کہا کہ میں بہت ہی اچھا مسلمان ہوں اور میں ضرور جنت میں جاؤں گا لیکن میں اگر ایک اچھا کام کرتا ہوں اور دوسروں کو اس کی ہدایت کرتا ہوں تو یہ اللہ کی طرف سے مجھ پر فرض ہے۔”
سعد نے کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد اس سے کہا۔
“سعد! تم خواہ مخواہ دوسروں کی ذمہ داری اپنے سر پر مت لو۔ پہلے اپنے آپ کو ٹھیک کرو، پھر دوسروں کو ٹھیک کرنے کی کوشش کرو تاکہ کوئی تمہیں منافق نہ کہہ سکے اور جہاں تک اللہ کے معاف کر دینے کا تعلق ہے تو اگر تمہارا یہ خیال ہے کہ وہ تمہاری غلطیوں کو معاف کر سکتا ہے تو پھر وہ ہمیں بھی معاف کر سکتا ہے۔ ہمارے گناہوں کے لئے تم اگر یہ سمجھتے ہو کہ لوگوں کو اسلام کی طرف راغب کرنے سے تمہاری نیکیوں میں اضافہ ہو گا اور تم اپنے گناہوں سمیت اللہ کے قریب ہو جاؤ گے تو ایسا نہیں ہو گا۔ بہتر ہے تم اپنا ٹریک ریکارڈ ٹھیک کرو، صرف اپنے آپ کو دیکھو، دوسروں کو نیک بنانے کی کوشش نہ کرو،ہمیں برا ہی رہنے دو۔”
اس نے ترشی سے کہا۔ اس لمحے اس کے دل میں جو آیا اس نے سعد سے کہہ دیا۔ جب وہ خاموش ہوا تو سعد اٹھ کر چلا گیا۔
اس دن کے بعد اس نے دوبارہ کبھی سالار کے سامنے اسلام کی بات نہیں کی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ اس ویک اینڈ پر بہت دنوں کے بعد کسی ریسٹورنٹ گیا تھا۔ اپنا آرڈر ویٹر کو نوٹ کروانے کے بعد وہ ریسٹورنٹ کے شیشوں سے باہر سڑک کو دیکھنے لگا۔ وہ جس میز پر بیٹھا تھا وہ کھڑکی کے قریب تھی اور قد آدام کھڑکیوں کے شیشوں کے پاس بیٹھ کر اسے یونہی محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ باہر فٹ پاتھ پر بیٹھا ہوا تھا۔
کسی لڑکی کی سسکیوں نے اس کی محویت کو توڑا تھا، اس نے بے اختیار مڑ کر دیکھا۔ اس سے پچھلی میز پر ایک لڑکا اور لڑکی بیٹھے ہوئے تھے۔ لڑکی کسی بات پر روتے ہوئے سسکیاں لے رہی تھی اور ٹشو کے ساتھ اپنے آنسو پونچھ رہی تھی۔ لڑکا اس کےہاتھ کو تھپتھپاتے ہوئے شاید اسے تسلی دے رہا تھا۔ ریسٹورنٹ اتنا چھوٹا اور ٹیبلز اتنی قریب قریب تھیں کہ وہ بڑی آسانی سے ان کی گفتگو سن سکتا تھا مگر وہ وہاں اس کام کے لئے نہیں آیا تھا، وہ سیدھا ہو گیا۔ ناگواری کی ایک لہر سی اس کے اندر سے اٹھی تھی۔ اسے اس طرح کے تماشے اچھے نہیں لگتے تھے۔ اس کا موڈ خراب ہو رہا تھا، وہ وہاں سکون سے کچھ وقت گزارنے آیا تھا اور یہ سب کچھ۔ اس کا دل اچاٹ ہونے لگا۔ وہ دونوں رشین تھے اور اسی زبان میں ایک دوسرے سے باتیں کر رہے تھے۔ وہ ایک بار پھر کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا مگر غیر محسوس طور پر اس کی سماعتیں ابھی بھی ان ہی سسکیوں کی طرف مرکوز تھیں۔ اس نے کچھ دیر بعد مڑ کر ایک بار پھر اس لڑکی کو دیکھا۔ اس بار اس کے مڑنے پر لڑکی نے بھی انظریں اٹھا کر اسے دیکھا۔ چند لمحوں کے لئے ان دونوں کی نظریں مل تھیں اور وہ چند لمحے اس پر بہت بھاری گزرے تھے۔ اس کی آنکھیں متورم اور سرخ ہو رہی تھیں۔ اسے یک دم ایک اور چہرہ یاد آیا۔ امامہ ہاشم کا چہرہ، اس کی متورم آنکھیں۔
ویٹر اس کا آرڈر لے کر آ چکا تھا اور وہ اسے سرو کرنے لگا۔ اس نے پانی کے چند گھونٹ پیتے ہوئے اپنے ذہن سے اس چہرے کو جھٹکنے کی کوشش کی۔ اس نے چند گہرے سانس لئے۔ ویٹر نے اپنا کام کرتے کرتے اسے غور سے دیکھا مگر سالار کھڑکی سے باہر دیکھنے میں مصروف تھا۔
“آج موسم بہت اچھا ہے اور میں یہاں اچھے لمحے گزارنے آیا ہوں، ایک اچھا کھانا کھانے آیا ہوں، اس کے بعد میں یہاں سے ایک فلم دیکھنے جاؤں گا، مجھے اس لڑکی کے بارے میں نہیں سوچنا چاہئیے، کسی بھی طرح نہیں۔ وہ پاگل تھی، وہ بکواس کرتی تھی اور مجھے اس کے حوالے سے کسی قسم کا کوئی پچھتاوا نہیں ہونا چاہئیے۔ مجھے کیا پتا وہ کہاں گئی، کہاں مری، یہ سب اس نے خود کیا تھا۔ میں نے صرف مذاق کیا تھا اس کے ساتھ۔ وہ مجھ سے رابطہ کرتی تو میں اسے طلاق دے دیتا۔”
لاشعوری طور پر خود کو سمجھاتے سمجھاتے ایک بار پھر اس کا پچھتاوا اس کے سامنے آنے لگا تھا۔ پیچھے بیٹی ہوئی لڑکی کی سسکیاں اب اس کے دماغ میں نیزے کی انی کی طرح چبھ رہی تھیں۔
“میں اپنی ٹیبل تبدیل کرنا چاہتا ہوں۔” اس نے بہت کھردرے انداز میں ویٹر کو مخاطب کیا۔ ویٹر حیران ہو گیا۔
“کس لئے سر؟”
“یا تو ان دونوں کی ٹیبل تبدیل کر دو یا میری۔” اس نے ہاتھ کے اشارے سے کہا۔ ویٹر نے ایک نظر اس جوڑے کو دیکھا پھر وہ سالار کا مسئلہ سمجھا یا نہیں مگر اس نے کونے میں لگی ہوئی ایک ٹیبل پر سالار کو بٹھا دیا۔ سالار کو چند لمحوں کے لئے وہاں آ کر واقعی سکون ملا تھا۔ سسکیوں کی آواز اب وہاں نہیں آ رہی تھی مگر اب اس لڑکی اک چہرہ بالکل اس کے سامنے تھا۔ چالوں کا پہلا چمچ منہ میں ڈالتے ہی اس کی نظر اس لڑکی پر دوبارہ پڑی۔
وہ ایک بار پھر بدمزہ ہو گیا اسے ہر چیز یک دم بے ذائقہ لگنے لگی۔یہ یقیناً اس کی ذہنی کیفیت تھی، ورنہ وہاں کا کھانا بہت اچھا ہوتا تھا۔
“انسان نعمتوں کا شکر ادا کر ہی نہیں سکتا۔ یہ میری زبان پر ذائقہ چکھنے کی حس ہے، یہ کتنی بڑی نعمت ہے کہ میں اگر کوئی چیز کھاتی ہوں تو اس میں اس کا ذائقہ محسوس کر سکتی ہوں۔ اچھا کھانا کھا کر خوشی محسوس کر سکتی ہوں۔ بہت سے لوگ اس نعمت سے بھی محروم ہوتے ہیں۔”
اس کے کانوں میں ایک آواز گونجی تھی اور یہ شاید انتہا ثابت ہوئی۔ وہ کسی آتش فشاں کی طرح پھٹ پڑا۔ اس نے پوری قوت سے چمچ اپنی پلیٹ میں پٹخا اور بلند آواز میں دھاڑا۔
“شٹ اپ، جسٹ شٹ اپ۔” ریسٹورنٹ میں یک دم خاموشی چھا گئی۔
“یو بچ۔۔۔۔۔ باسٹرڈ، جسٹ شٹ اپ۔” وہ اب اپنی سیٹ سے کھڑا ہو گیا تھا۔ اس کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا۔
“تم میرے ذہن سے نکل کیوں نہیں جاتیں؟”
دونوں کنپٹیوں پر ہاتھ رکھے ہوئے وہ چلایا۔
“میں تمہیں مار ڈالوں گا، اگر تم مجھے دوبارہ نظر آئیں۔”
وہ ایک بار پھر چلایا اور پھر اس نے پانی کا گلاس اٹھا کر پانی پیا اور اس وقت پہلی بار اسے ریسٹورنٹ میں بیٹھے ہوئے لوگوں، ان کی نظروں کا احسا س ہوا، وہ سب اسے دیکھ رہے تھے۔ ایک ویٹر اس کی طرف آ رہا تھا، اس کے چہرے پر تشویش تھی۔
“آپ کی طبیعت ٹھیک ہے سر!”
سالار نے کچھ بھی کہے بغیر اپنا والٹ نکالا اور چند کرنسی نوٹ ٹیبل پر رکھ دئیے۔ ایک لفظ بھی مزید کہے بغیر وہ ریسٹورنٹ سے نکل گیا۔
وہ امامہ نہیں تھی، ایک بھوت تھا جو اسے چمٹ گیا تھا۔ وہ جہاں جاتا وہ وہاں ہوتی۔ کہیں اس کا چہرہ، کہیں اس کی آواز اور جہاں یہ دونوں چیزیں نہ ہوتیں وہاں سالار کا پچھتاوا ہوتا۔ وہ ایک چیز بھولنے کی کوشش کرتا تو دوسری چیز اس کے سامنے آ کر کھڑی ہو جاتی، بعض دفعہ وہ اتنا مشتعل ہو جاتا کہ اس کا دل چاہتا وہ اسے دوبارہ ملے تو وہ اس کا گلا دبا دے یا اسے شوٹ کر دے۔ اسے اس کی ہر بات سے نفرت تھی۔ اس رات اس کے ساتھ سفر میں گزارے ہوئے چند گھنٹے اس کی پوری زندگی کو تباہ کر رہے تھے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
“مگر آپ کیوں آ رہے ہیں؟” وہ دونوں فون پر بات کر رہے تھے اور اس نے سالار کو چند دنوں بعد نیو ہیون آنے کی اطلاع دی تھی۔ سالار اس قت روٹین کی زندگی گزار رہا ہوتا تو وہ اس اطلاع پر یقیناً خوش ہوتا مگر وہ اس وقت ذہنی ابتری کے جس دور سے گزر رہا تھا اس میں کامران کا آنا اسے بے حد ناگوار گزر رہا تھا اور وہ یہ ناگواری چھپا بھی نہیں سکا۔
“کیا مطلب ہے تمہارا، کیوں آ رہے ہیں۔ تم سے ملنے کے لئے آ رہا ہوں۔” کامران اس کے لہجے پر کچھ حیران ہوا۔” اور پاپا نے بھی کہا ہے کہ میں تم سے ملنے کے لئے جاؤں۔” وہ ہونٹ بھینچے اس کی بات سنتا رہا۔
“تم مجھے ائیر پورٹ سے پک کر لینا، میں تمہیں ایک دن پہلے اپنی فلائٹ کی ٹائمنگ کے بارے میں بتا دوں گا۔”
کچھ دیر اِدھر اُدھر کی باتیں کرتے رہنے کے بعد اس نے فون بند کر دیا۔
چار دن کے بعد اس نے کامران کو ائیر پورٹ سے ریسیو کیا۔ وہ سالار کو دیکھ کر حیران رہ گیا۔
“تم بیمار ہو؟” اس نے چھوٹتے ہی سالار سے پوچھا۔
“نہیں، میں بالکل ٹھیک ہوں۔” سالار نے مسکرانے کی کوشش کی۔
“لگ تو نہیں رہے ہو۔” کامران کی تشویش میں کچھ اور اضافہ ہونے لگا۔ وہ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کیا کرتا تھا، آج خلاف معمول وہ آنکھیں چرا رہا تھا۔
گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے بھی وہ بہت غور سے سالار کو دیکھتا رہا۔ وہ بے حدا حتیاط سے ڈرائیو کر رہا تھا۔ کامران کو حیرانی ہوئی وہ اس قدر ریش ڈرائیو کرتا تھا کہ اس کے ساتھ بیٹھے ہوئے بڑے سے بڑا جی دار آدمی ڈرتا تھا۔ کامران کو یہ ا یک مثبت تبدیلی لگی تھی مگر یہ واحد مثبت تبدیلی تھی جو اس نے محسوس کی تھی، باقی تبدیلیاں اس کو پریشان کر رہی تھیں۔
“اسٹڈیز کیسی جا رہی ہیں تمہاری؟”
“ٹھیک ہیں۔”
اسے سفر کے دوران بھی اسی طرح کے جواب ملتے رہے تھے۔ یہ اس کے اپارٹمنٹ کی حالت تھی جس نے کامران کے اضطراب کو اتنا بڑھایا تھا کہ وہ کچھ مشتعل ہو گیا تھا۔
“یہ تمہارا اپارٹمنٹ ہے سالار۔۔۔۔۔ مائی گاڈ۔”سالار کے پیچھے اس کے اپارٹمنٹ میں داخل ہوتے ہی وہ چلا اٹھا تھا۔ سالار اپنی چیزوں کو جس طرح منظم رکھنے کا عادی تھا وہ نظم و ضبط وہاں نظر نہیں آ رہا تھا۔ وہاں ہر چیز ابتر حالت میں نظر آ رہی تھی۔ جگہ جگہ اس کے کپڑے، جرابیں اور جوتے بکھرے پڑے تھے۔ کتابوں ، اخباروں اور میگزینز کا بھی یہی حال تھا۔ کچن کی حالت سب سے بری تھی اور باتھ روم کی اس سے بھی زیادہ۔ کامران نے کچھ شاک کی حالت میں پورے اپارٹمنٹ کا جائزہ لیا۔
“کتنے ماہ سے تم نے صفائی نہیں کی ہے؟”
“میں ابھی کر دیتا ہوں۔” سالار نے سردمہری کے عالم میں چیزیں اٹھاتے ہوئے کہا۔
“تم اس طرح رہنے کے عادی تو نہیں تھے اب کیا ہوا ہے؟”کامران بہت پریشان تھا۔ کامران نے اچانک ایک میز پر سگریٹ کے ٹکڑوں سے بھری ایش ٹرے کے پاس جا کر سگریٹ کو ٹکڑوں کو سونگھنا شروع کر دیا۔ سالار نے چبھتی ہوئی تیز نظروں سے اپنے بڑے بھائی کو دیکھا مگر کچھ کہا نہیں۔ کامران نے چند لمحوں کے بعد وہ ایش ٹرے نیچے پٹخ دیا۔
“Salar! What are you up to this time? ”
“مجھے صاف صفاف بتاؤ، مسئلہ کیا ہے۔ ڈرگز استعمال کر رہے ہو تم؟”
“نہیں، میں کچھ استعمال نہیں کر رہا۔” اس کے جواب نے کامران کو خاصا مشتعل کر دیا۔ وہ اسے کندھے سے پکڑ کر تقریباً کھینچتے ہوئے باتھ روم کے آئینے کے سامنے لے آیا۔
“شکل دیکھو اپنی، ڈرگ ایڈکٹ والی شکل ہے یا نہیں اور حرکتیں تو بالکل ویسی ہی ہیں۔ دیکھو، نظریں اٹھاؤ اپنی، چہرہ دیکھو اپنا۔”
وہ اب اسے کالر سے کھینچتے ہوئے کہہ رہا تھا۔ سالار آئینے میں اپنے آپ کو دیکھے بغٖیر بھی جانتا تھا کہ وہ اس وقت کیسا نظر آ رہا ہو گا۔ گہرے حلقوں اور بڑھی ہوئی شیو کے ساتھ وہ کیسا نظر آ سکتا تھا۔ رہی سہی کسر ان مہاسوں اور ہونٹوں پر جمی ہوئی پٹریوں نے پوری کر دی تھی جو بے تحاشا کافی اور سگریٹ پینے کا نتیجہ تھے۔ مہاسوں کی وجہ سے اس نے روز شیو کرنی بند کر دی تھی۔ کچھ ناراضی کےعالم میں اس نے کامران سے اپنا کالر چھڑایا اور آئینے پر نظریں دوڑائے بغیر باتھ روم سے نکلنے کی کوشش کی۔
“لعنت برس رہی ہے تمہاری شکل پر۔”
لعنت وہ لفظ تھا جو کامران اکثر استعمال کیا کرتا تھا سالار نے پہلے کبھی اس لفظ کو محسوس نہیں کیا تھا مگر اس وقت کامران کے منہ سے یہ جملہ سن کر وہ جیسے بھڑک اٹھا تھا۔
“ہاں، لعنت برس رہی ہے میری شکل پر تو؟” وہ قدرے بھپرے ہوئے انداز میں کامران کے سامنے تن کر کھڑا ہو گیا۔
“جب میں کہہ رہا ہوں کہ میں ڈرگز نہیں لے رہا تو میں نہیں لے رہا۔ آپ کو میرا یقین کرنا چاہئیے۔”
“تم پر یقین۔۔۔۔۔”
کامران نے طنزیہ لہجے میں اس کے پیچھے باتھ روم سے باہر آتے ہوئے کہا۔ اس نے ہونٹ بھینچ لئے اور کمرے کی چیزیں سمیٹنے کا کام جا ری رکھا۔
“یونیورسٹی جا رہے ہو تم؟” سعد کو اچانک ایک اور اندیشہ ہوا۔
“جا رہا ہوں۔” وہ چیزیں اٹھاتا رہا، کامران کو تسلی نہیں ہوئی۔
“میرے ساتھ ہاسپٹل چلو، میں تمہارا چیک اپ کروانا چاہتا ہوں۔”
“اگر آپ یہ سب کرنے آئے ہیں تو بہتر ہے واپس چلے جائیں میں کوئی کنڈر گارٹن کا بچہ نہیں ہوں۔ میں اپنا خیال رکھ سکتا ہوں۔” کامران نے اس بار کچھ کہنے کے بجائے اس کے ساتھ مل کر چیزیں اٹھانی شروع کر دیں۔ سالار نے اطمینان کا سانس لیا۔ اس کا خیال تھا کہ اب وہ اس معاملے پر دوبارہ بحث نہیں کرے گا مگر اس کا یہ اندازہ غلط تھا۔ کامران نے اس کے پاس اپنے قیام کو لمبا کر دیا۔ دو تین دن کے بجائے وہ پورا ایک ہفتہ وہاں رہا۔ سالار اس کے قیام کے دوران باقاعدگی سے یونیورسٹی جاتا رہا مگر کامران اس دوران اس کے دوستوں اور پروفیسرز سے ملتا رہا۔ سمسٹر میں فیل ہونے کی خبر بھی اسے سالار کے دوستوں سے ہی ملی تھی اور کامران کے لئے یہ ایک شاک تھا۔ سالار سے کچھ بھی توقع کی جا سکتی تھی، مگر سمسٹر میں فیل ہونا وہ بھی اس بری طرح سے جبکہ وہ کچھ عرصہ پہلے تک یونیورسٹی کے پچھلے ریکارڈ بریک کرتے ہوئے ٹاپ کر رہا تھا۔
اس بار اس نے سالار سے اس معاملے کو ڈسکس نہیں کیا بلکہ پاکستان سکندر عثمان کو فون کر کے اس سارے معاملے سے آگاہ کر دیا۔ سکندر عثمان کے پیروں تلے سے ایک بار پھر زمین نکل گئی تھی۔ سالار نے اپنا سابقہ ریکارڈ برقرار رکھا تھا۔ وہ ایک ڈیڑھ سال کے بعد ان کے لئے کوئی نہ کوئی نیا مسئلہ کھڑا کرتا رہتا تھا اور ہاشم مبین والے معاملے کو بھی اتنا ہی عرصہ ہونے والا تھا۔
“آپ ابھی اس سے اس معاملے پر بات نہ کریں۔ یونیورسٹی میں کچھ چھٹیاں ہونے والی ہیں، آپ اسے پاکستان بلا لیں، کچھ عرصے کے لئے وہاں رکھیں پھر ممی سے کہیں کہ وہ اس کے ساتھ واپسی پر یہاں آ جائیں اور جب تک اس کی تعلیم ختم نہیں ہوتی اس کے ساتھ رہیں۔” کامران نے سکندر عثمان کو سمجھایا۔
سکندر نے اس بار ایسا ہی کیا تھا۔ وہ بغیر بتائے چھٹیاں شروع ہونے سے پہلے نیو ہیون پہنچ گئے۔
اس کا حلیہ دیکھ کر سکندر عثمان کے پیٹ میں گرہیں پڑنے لگی تھیں مگر انہوں نے کامران کی طرح اس سے بحث نہیں کی۔ انہوں نے اسے اپنے ساتھ پاکستان چلنے کے لئے کہا۔ اس کے احتجاج اور تعلیمی مصروفیات کے بہانے کو نظر انداز کرتے ہوئے انہوں نے زبردستی اس کی سیٹ بک کرا دی اور اسے پاکستان لے آئے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ رات ایک بجے پاکستان پہنچے۔ سکندر اور طیبہ سونے کے لئے چلے گئے۔ وہ اپنے کمرے میں آ گیا۔ وہ تقریباً ڈیڑھ سال کے بعد اپنے کمرے کو دیکھ رہا تھا۔ سب کچھ ویسا ہی تھا جیسے وہ چھوڑ کر گیا تھا۔ کپڑے تبدیل کرنے کے بعد وہ لائٹ آف کر کے اپنے بیڈ پر لیٹ گیا۔ وہ فلائٹ کے دوران سوتا رہا تھا، اس لئے اس وقت اسے نیند محسوس ہو رہی تھی۔ شاید یہ جغرافیائی تبدیلی تھی جس کی وجہ سے وہ سو نہیں پا رہا تھا۔
“میں واقعی آہستہ آہستہ بے خوابی کا شکار ہو جاؤں گا۔”
اس نے تاریکی میں کمرے کی چھت کو گھورتے ہوئے کہا۔ کچھ دیر اسی طرح بیڈ پر کروٹیں بدلتے رہنے کے بعد وہ اٹھ بیٹھا۔ کمرے کی کھڑکیوں کی طرف جاتے ہوئے اس نے پردوں کو ہٹا دیا۔ اس کی کھڑکیوں کے پار وسیع سائیڈ لان کے دوسرے طرف ہاشم مبین کا گھر نظر آ رہا تھا۔ اس نے اتنے سالوں اس کھڑکی کے پردے آگے پیچھے کرتے کبھی ہاشم مبین کے گھر پر غور نہیں کیا تھا، مگر اس وقت وہ بہت دیر تک تاریکی میں اس گھر کے اوپر والے فلور کی لائٹس میں نظر آنے والی اس عمارت کو دیکھتا رہا۔ بہت ساری باتیں اسے یک دم یاد آنے لگی تھیں۔ اس نے پردے ایک بار پھر برابر کر دئیے۔
“وسیم کے گھر والوں کو امامہ کا پتا چلا؟”
اس نے اگلے دن ناصرہ کو بلا کر پوچھا۔ ناصرہ نے اسے کچھ عجیب سی نظروں سے دیکھا۔
“نہیں جی، کہاں پتا چلا۔ انہوں نے تو ایک ایک جگہ چھان ماری ہے، مگر کہیں سے کچھ پتا نہیں چلا۔ انہیں شک ابھی بھی آپ پر ہی ہے۔ سلمیٰ بی بی تو بہت گالیاں دیتی ہیں آپ کو۔” سالار اسے دیکھتا رہا۔
“گھر کے نوکروں سے بھی پولیس نے بڑی پوچھ گچھ کی تھی مگر میں نے تو مجال ہے ذرا بھی کچھ بتایا ہو۔ انہوں نے مجھے کام سے بھی نکال دیا تھا۔ مجھے بھی، میری بیٹی کوبھی، پھر بعد میں دوبارہ رکھ لیا۔ آپ کے بارے میں، مجھ سے پوچھتے رہتے ہیں۔ شاید رکھا بھی ان لوگوں نے دوبارہ اسی لئے ہے کہ یہاں کی خبریں میں وہاں دیتی رہوں۔ میں بھی آئیں بائیں شائیں کر کے ٹال دیتی ہوں۔” وہ بات کو کہاں سے کہاں لے جا رہی تھی۔
سالار نے فوراً مداخلت کی۔” پولیس ابھی بھی ڈھونڈ رہی ہے؟”
“ہاں جی، ابھی بھی تلاش کر رہے ہیں۔ مجھے زیادہ تو پتا نہیں، وہ لوگ ہر چیز چھپاتے ہیں نوکروں سے۔ امامہ بی بی کی بات بھی نہیں کرتے ہمارے سامنے مگر پھر بھی کبھی کبھار کوئی اڑتی اڑتی خبر مل جاتی ہے ہمیں۔ سالار صاحب! کیا آپ کو بھی امامہ بی بی کا پتا نہیں ہے؟”
ناصرہ نے بات کرتے کرتے اچانک اس سے پوچھا۔
“مجھے کیسے پتا ہو سکتا ہے؟” سالار نے ناصرہ کو گھورا۔
“ایسے ہی پوچھ رہی ہوں جی! آپ کے ساتھ ان کی دوستی تھی، اس لئےمیں نے سوچا شاید آپ کو پتا ہو۔ وہ جو ایک بار آپ نے میرے ہاتھ کچھ کاغذات بھجوائے تھے، وہ کس لئے تھے؟” اس کا تجسس اب تشویش ناک حد تک بڑھ چکا تھا۔
“اس گھر کے کاغذات تھے، میں نے یہ گھر اس کے نام کر دیا تھا۔” ناصرہ کامنہ کھلے کاکھلا رہ گیا پھر وہ کچھ سنبھلی۔
“پر جی! یہ گھر تو سکندر صاحب کے نام پر ہے۔”
“ہاں، مگر یہ مجھے تب پتا نہیں تھا۔ یہ بات تم نے ان لوگوں کو بتائی ہے کہ تم یہاں سے کوئی کاغذ لے کے اس کے پاس گئی تھی۔” ناصرہ نے کانوں کو ہاتھ لگائے۔
“توبہ کریں جی! میں نے کیوں بتانا تھا۔ میں نے تو سکندر صاحب کو نہیں بتایا۔”
“اور یہ ہی بہتر ہے کہ تم اپنا منہ اسی طرح ہمیشہ کے لئے بند رکھو، اگر یہ بات ان کو پتا چلی تو پاپا تمہیں سامان سمیت اٹھا کر گھر سے باہر پھینک دیں گے۔ تم ان کے غصے کو جانتی ہو، جاؤ اب یہاں سے۔”
سالار نے ترشی سے کہا۔ ناصرہ خاموشی سے اس کے کمرے سے نکل گئی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ ویک اینڈ پر کبھی کبھار ہائکنگ کے لئے مارگلہ کی پہاڑیوں پر جایا کرتا تھا۔ وہ ویک اینڈ نہیں تھا مگر اچانک ہی اس کا موڈ وہاں جانے کا بن گیا۔
ہمیشہ کی طرح گاڑی نیچے پارک کر کے وہ ایک بیگ اپنی پشت پر ڈالے ہائکنگ کرتا رہا۔ واپسی کا سفر اس نے تب شروع کیا جب سائے لمبے ہونے لگے۔ وہ اندازہ کر سکتا تھا کہ اسے اپنی گاڑی تک پہنچنے میں دو گھنٹے لگیں گے۔ واپسی کے سفر کو کچھ تیزی سے طے کرنے کے لئے وہ سڑک پر آ گیا جہاں سے عام طور پر لوگ گزرتے تھے۔ اس نے ابھی کچھ فاصلہ ہی طے کیا تھا جب اسے اپنے پیچھے تیز قدموں کی آواز سنائی دی۔ سالار نے ایک نظر مڑ کر دیکھا۔ وہ دو لڑکے تھے جو اس سے کافی پیچھے تھے، مگر بہت تیزی سے آگے آ رہے تھے۔
سالار نے گردن واپس موڑ لی اور اسی طرح اپنا نیچے کا سفر جا ری رکھا۔ اسے اپنے حلیے سے وہ لڑکے مشکوک نہیں لگے تھے۔ جینز اور شرٹس میں ملبوس ان کا حلیہ عام لڑکوں جیسا تھا مگر پھر چلتے چلتے اسے یک دم کوئی اپنے بالکل عقب میں محسوس ہوا۔ وہ برق رفتاری سے پلٹا اور ساکت ہو گیا۔ ان دونوں لڑکوں کے ہاتھ میں ریوالور تھے اور وہ اس کے بالکل سامنے تھے۔
“اپنے ہاتھ اوپر کرو ورنہ ہم تمہیں شوٹ کر دیں گے۔”
ان میں سے ایک نے بلند آواز میں کہا۔ سالار نے بے اختیار اپنے ہاتھ اوپر اٹھا دئیے۔ ان میں سے ایک اس کے پیچھے گیا اور بہت تیزی سے اس نے اسے کھینچتے ہوئے دھکا دیا۔ سالار لڑکھڑایا مگر سنبھل گیا۔
“ادھر چلو۔” سالار نے کسی قسم کی مزاحمت کئے بغیر اس طرف جانا شروع کر دیا جہاں وہ اسے سڑک سے ہٹانا چاہتے تھے، تاکہ کوئی یک دم وہاں نہ آ جائے۔ ان میں سے ایک تقریباً اسے دھکیلتے ہوئے اس راستے سے ہٹا کر جھاڑیوں اور درختوں کے بہت اندر تک لے گیا۔
“گھٹنوں کے بل بیٹھو۔” ایک نے درشتی سے اس سے کہا۔
سالار نے خاموشی سے اس کے حکم پر عمل کیا۔ وہ جانتا تھا کہ وہ لوگ اس کی چیزیں چھینیں گے اور پھر اسے چھوڑ دیں گے اور وہ ایسا کوئی کام نہیں کرنا چاہتا تھا، جس پر وہ دونوں مشتعل ہو کر اسے نقصان پہنچاتے۔ ان میں سے ایک اس کے پیچھے گیا اور اس نے اس کی پشت پر لٹکا ہوا چھوٹا سا بیگ اتار لیا۔ اس بیگ میں ایک کیمرہ، چند فلم رول، بیٹری ، ٹیلی اسکوپ، فرسٹ ایڈکٹ، والٹ، پانی کی بوتل اور چند کھانے کی چیزیں تھیں جس لڑکے نے بیگ اتارا تھا وہ بیگ کھول کر اندر موجود چیزوں کا جائزہ لیتا رہا پھر اس نے والٹ کھول کر اس کے اندر موجود کرنسی نوٹ اور کریڈٹ کاررڈز کا جائزہ لیا۔ اس کے بعد اس نے بیگ میں سے ٹشو کا پیکٹ نکال لیا اور پھر فرسٹ ایڈکٹ بھی نکال لی۔
“اب تم کھڑے ہو جاؤ۔” اس لڑکے نے تحکمانہ انداز میں کہا۔ سالار اس طرح ہاتھ سر سے اوپر اٹھائے کھڑا ہو گیا۔ اس لڑکے نے اس کی پشت پر جا کر اس کی شارٹس کی جیبوں میں ہاتھ ڈال کر انہیں ٹٹولا اور اس میں موجود گاڑی کی چابی نکال لی۔
“گڈ! کار ہے؟” سالار کو پہلی بار کچھ تشویش ہوئی۔
“تم لوگ میرا بیگ لے جاؤ مگر کار کو رہنے دو۔” سالار نے پہلی بار انہیں مخاطب کیا۔
“کیوں؟ کار کو کیوں رہنے دیں۔ تم ہماری خالہ کے بیٹے ہو کہ کار کو رہنے دیں۔” اس لڑکے نے درشت لہجے میں کہا۔
“تم لوگ اگر کار لے جانے کی کوشش کرو گے تو تمہیں بہت سے پرابلمز ہوں گے۔ صرف کار کی چابی مل جانے سے تم کار نہیں لے جا سکو گے۔ اس میں اور بھی بہت سے لاکس ہیں۔” سالار نے ان سے کہا۔
“وہ ہمارا مسئلہ ہے، تمہارا نہیں۔” اس لڑکے نے اس سے کہا اور پھر آگے بڑھ کر اس کی آنکھوں سے گلاسز کھینچ لئے۔
“اپنے جاگرز اتار دو۔”سالار نے حیرانی سے اسے دیکھا۔
“جاگرز کس لئے؟” اس بار اس لڑکے نے جواب دینے کے بجائے پوری وقت سے ایک تھپڑ سالار کے منہ پر مارا۔ وہ لڑکھڑا گیا، چند لمحوں کے لئے اس کی آنکھوں کے سامنے تارے ناچ گئے۔
“دوبارہ کوئی سوال مت کرنا، جاگرز اتارو۔”
سالار خشمگیں نظروں سے اسے دیکھنے لگا۔ دوسرے لڑکے نے اس پر تانے ہوئے ریوالور کے چیمبر کو ایک بار جتانے والے انداز میں حرکت دی۔ پہلے لڑکے نے ایک اور تھپڑ اس بار سالار کے دوسرے گال پر دے مارا۔
“اب دیکھو اس طرح۔۔۔۔۔ جاگرز اتارو۔” اس نے سختی سے کہا۔ سالار نے اس بار اس کی طرف دیکھے بغیر نیچے جھک کر آہستہ آہستہ اپنے دونوں جاگرز اتار دئیے۔ اب اس کے پیروں میں صرف جرابیں رہ گئی تھیں۔
“اپنی شرٹ اتارو۔” سالار ایک بار پھر اعتراض کرنا چاہتا تھا مگر وہ دوبارہ تھپڑ کھانا نہیں چاہتا تھا۔ اگر ان دونوں کے پاس ریوالور نہ ہوتے تو وہ جسمانی طور پر ان سے بہت بہتر تھا اور یقیناً اس وقت ان کی ٹھکائی کر رہا ہوتا، مگر ان کے پاس ریوالور کی موجودگی نے یک دم ہی اسے ان کے سامنے بے بس کر دیا تھا۔ اس نے اپنی شرٹ اتار کر اس لڑکے کی طرف بڑھائی۔
“نیچے پھینکو۔” اس لڑکے نے تحکمانہ انداز میں کہا۔ سالار نے شرٹ نیچے پھینک دی۔ اس لڑنے نے اپنے بائیں ہاتھ کو جیب میں ڈال کر کوئی چیز نکالی۔ وہ پلاسٹک کی باریک ڈوری کا ایک گچھا تھا۔ اسے دیکھتے ہی سالار کی سمجھ میں آ گیا کہ وہ کیا کرنا چاہتے ہیں۔ وہ بے اختیار پریشان ہوا، شام ہو رہی تھی، کچھ ہی دیر میں وہاں اندھیرا چھا جاتا اور وہ وہاں سے رہائی کس طرح حاصل کرتا۔
“دیکھو، مجھے باندھو مت، میں کسی کو کچھ نہیں بتاؤں گا۔ تم میرا بیگ اور میری کار لے جاؤ۔” اس بار اس نے مدافعانہ انداز میں کہا۔
اس لڑکے نے کچھ بھی کہے بغیر پوری قوت سے اس کے پیٹ میں ایک گھونسہ مارا۔ سالار درد سے دہرا ہو گیا۔ اس کے منہ سے ایک چیخ نکلی تھی۔
“کوئی مشورہ نہیں۔”
اس لڑنے نے جیسے اسے یاد کروایا اور زور سے ایک طرف دھکیلا۔ درد سے بلبلاتے ہوئے سالار نے اندھوں کی طرح اس کی پیروی کی۔ ایک درخت کے تنے کے ساتھ بٹھا کر اس لڑکے نے بڑی مہارت کے ساتھ اس کے دونوں بازوؤں کو پتلے سے تنے کے پیچھے لے جا کر اس کی کلائیوں پر وہ ڈوری لپیٹنا شروع کر دی۔ دوسرا لڑکا سالار سے ذرا فاصلے پر اِدھر اُدھر نظریں دوڑاتے ہوئے سالار پر ریوالور تانے رہا۔
اس کے ہاتھوں کو اچھی طرح باندھنے کے بعد اس لڑکے نے سامنے آ کر اس کے پیروں کی جرابیں اتاریں اور پھر فرسٹ ایڈکٹ میں موجود قینچی سے اس نے سالار کی شرٹ کی پٹیاں کاٹنی شروع کر دیں۔ ان میں سے کچھ پٹیوں کو اس نے ایک بار پھر بڑی مہارت کے ساتھ اس کے ٹخنوں کے گرد لپیٹ کر گرہ لگا دی پھر اس نے ٹشو کا پیکٹ کھولا اور اس میں موجود سارے ٹشو باہر نکال لئے۔
منہ کھولو۔”سالار جانتا تھا، وہ اب کیا کرنے والا ہے۔ وہ جتنی گالیاں اسے دل میں دے سکتا تھا اس وقت دے رہا تھا ۔ اس لڑکے نے یکے بعد دیگرے وہ سارے ٹشو اس کے منہ میں ٹھونس دئیے اور پھر شرٹ کی واحد بچ جانے والی پٹی کو گھوڑے کی لگام کی طرح اس کے منہ میں ڈالتے ہوئے درخت کے تنے کے پیچھے اسے باندھ دیا۔
دوسرا لڑکا اب اطمینان سے بیگ بند کر رہا تھا، پھر چند منٹوں کے بعد وہ دونوں وہاں سے غائب ہو چکے تھے۔ ان کے وہاں سے جاتے ہی سالار نے اپنے آپ کو آزاد کرنے کی کوشش شروع کر دی، مگر جلد ہی اسے اندازہ ہو گیا کہ وہ ایک بہت بڑی مصیبت میں گرفتار ہو چکا ہے۔ اس لڑکے نے بڑی مہارت کے ساتھ اسے باندھا تھا، وہ صرف ہلنے جلنے کی کوشش سے خود کو آزاد نہیں کر سکتا تھا، نہ ہی ڈوری ڈھیلی کر سکتا تھا۔ وہ ڈوری اس کے حرکت کرنے پر اس کے گوشت کے اندر گھستی ہوئی محسوس ہو رہی تھی۔ اس کی حالت اس وقت بے حد خراب تھی۔ وہ نہ کسی کو آواز دے سکتا تھا نہ دوسرے طریقے سے خود اپنی طرف کسی کو متوجہ کر سکتا تھا۔
اس کے اردگرد قد آدم جھاڑیاں تھیں اور شام کے ڈھلتے سایوں میں ان جھاڑیوں میں اس کی طرف کسی کا متوجہ ہو جانا کوئی معجزہ ہی ہو سکتا تھا۔ اس کے جسم پر اس وقت لباس کے نام پر صرف گھٹنوں سے کچھ نیچے تک لٹکنے والی برمودا شارٹس کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں تھا اور شام ہونے کے ساتھ ساتھ خنکی بڑھ رہی تھی۔ گھر میں کوئی یہ نہیں جانتا تھا کہ وہ ہائکنگ کے لئے آیا ہوا ہے اور جب گھر نہ پہنچنے پر اس کی تلاش شروع ہو گی تب بھی یہاں اس تاریکی میں درختوں اور جھاڑیوں کے درمیان بندھے ہوئے اس کے وجود تک نہیں پہنچ سکتے تھے۔
آدھے گھنٹے کی جدوجہد کے بعد جب اپنے پیروں کے گرد موجود پٹیوں کو ڈھیلا کرنے اور پھر انہیں کھولنے میں کامیاب ہوا، اس وقت سورج مکمل غروب ہو چکا تھا اگر چاند نہ نکلا ہوتا تو شاید وہ اپنے ہاتھ پاؤں اور اردگرد کے ماحول کو بھی نہ دیکھ پاتا۔اِکا دُکا گزرنے والی گاڑیوں اور لوگوں کا شور اب نہ ہونے کے برابر تھا۔ اس کے اردگرد جھینگروں کی آوازیں گونج رہی تھیں اور وہ گردن سے کمر تک اپنی پشت پر درخت کے تنے کی وجہ سے آنے والی رگڑ اور خراشوں کو بخوبی محسوس کر سکتا تھا۔ درخت کے دوسری طرف اس کےہاتھوں کی کلائیوں میں موجود ڈوری اب اس کے گوشت میں اتری ہوئی تھی۔ وہ ہاتھوں کو مزید حرکت دینے کے قابل نہیں رہا تھا۔ وہ کلائیوں سے اٹھتی ٹیسیں برداشت نہیں کر پا رہا تھا۔ اس کے منہ کے اندر موجود ٹشوز اب گل چکے تھے اور ان کے گلنے کی وجہ سے وہ منہ میں لگام کی طرح کسی ہوئی پٹی کو حرکت دینے لگا تھا مگر وہ گلے سے آواز نکالنے میں اب بھی بری طرح ناکام تھا کیونکہ وہ ان گلے ہوئے ٹشوز کو نہ نگل سکتا تھا، نہ اگل سکتا تھا۔ وہ اتنے زیادہ تھے کہ وہ انہیں چیونگم کی طرح چبانے میں بھی ناکام تھا۔
اس کے جسم پر کپکپی طاری ہو رہی تھی۔ وہ صبح تک اس حالت میں وہاں یقیناً ٹھٹھر کر مر جاتا اگر خوف یا کسی زہریلے کیڑے کے کاٹنے سے نہ مرتا تو۔ اس کے جسم پر اب چھوٹے چھوٹے کیڑے رینگ رہے تھے اور بار بار وہ اسے کاٹ رہے تھے۔ وہ اپنی برہنہ ٹانگوں پر چلنے اور کاٹنے والے کیڑوں کو جھٹک رہا تھا مگر باقی جسم پر رینگنے والے کیڑوں کو جھٹکنے میں ناکام تھا اور وہ نہیں جانتا تھا کہ ان چھوٹے کیڑوں کے بعد اسے اور کن کیڑوں کا سامنا کرنا پڑے گا اور اگر وہاں بچھو اور سانپ ہوتے تو۔۔۔۔۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی حالت مزید خراب ہو رہی تھی۔” آخر یہ سب میرے ساتھ کیوں ہوا ہے؟ آخر میں نے کیا کیا ہے؟” وہ بے چارگی سے سوچنے میں مصروف تھا۔” اور میں یہاں مر گیا تو۔۔۔۔۔ تو میری لاش تک دوبارہ کسی کو نہیں ملے گی۔ کیڑے مکوڑے اور جانور مجھے کھا جائیں گے۔”
اس کی حالت غیر ہونے لگی۔ ایک عجیب طرح کے خوف نے اسے اپنی گرفت میں لے لیا۔ تو کیا میں اس طرح مروں گا، یہاں۔۔۔۔۔ اس حالت میں۔۔۔۔۔ بے لباس۔۔۔۔۔ بے نشان۔۔۔۔۔ گھر والوں کو پتا تک نہیں ہو گا میرے بارے میں۔ کیا میرا انجام یہ ہونا ہے۔۔۔۔۔ اس کے دل کی دھڑکن رکنے لگی۔ اسے اپنی موت سے یک دم خوف آیا اتنا خوف کہ اسے سانس لینا مشکل لگنے لگا۔ اسے یوں لگا جیسے موت اس کے سامنے اس سے چند قدم کے فاصلے پر کھڑی ہو۔ اس کے انتظار میں۔ یہ دیکھنے کہ وہ کس طرح سسک سسک کر مرتا ہے۔
وہ درد کی پرواہ کئے بغیر ایک بار پھر اپنی کائیوں کی ڈوری کو توڑنے یا ڈھیلی کرنے کی کوشش کرنے لگا، اس کے بازو شل ہونے لگے۔
پندرہ منٹ بعد اس نے ایک بار پھر اپنی جدوجہد چھوڑ دی اور اس وقت اسے احساس ہوا کہ اس کے منہ کی پٹی ڈھیلی ہو گئی تھی، وہ گردن کو ہلاتے ہوئے اسے منہ سے نکال سکتا تھا۔ اس کے بعد اس نے ٹشوز نکال دئیے تھے۔ اگلے کئی منٹ وہ گہرے سانس لیتا رہا پھر وہ بلند آواز میں اپنی مدد کے لئے آوازیں دینے لگا۔ اتنی بلند آواز میں جتنی وہ کوشش کر سکتا تھا۔
اس کا انداز بالکل ہذیانی تھا۔ آدھے گھنٹے تک مسلسل آوازیں دیتے رہنے کے بعد اس کی ہمت اور گلا دونوں جواب دے گئے۔ اس کا سانس پھول رہا تھا، یوں جیسے وہ کئی میل دوڑتا رہا ہو مگر اب بھی کوئی اس کی مدد کے لئے نہیں آیا تھا۔ کلائی کے زخم اب اس کے لئے ناقابل برداشت ہو رہے تھے اور کیڑے اب اس کے چہرے اور گردن پر بھی کاٹ رہے تھے۔ وہ نہیں جانتا تھا یک دم اسے کیا ہوا، بس وہ بلند آواز میں بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔
وہ زندگی میں پہلی بار بری طرح رو رہا تھا۔ شاید زندگی میں پہلی بار اسے اپنی بے بسی کا احساس ہو رہا تھا اور اس وقت درخت کے اس تنے کے ساتھ بندھے سسکتے ہوئے اسے احساس ہوا کہ وہ مرنا نہیں چاہتا ہے۔ وہ موت سے اسی طرح خوف زدہ ہو رہا تھا جس طرح، نیو ہیون میں ہوا تھا۔ وہ نہیں جانتا تھا وہ کتنی دیر اسی طرح بے بسی کے عالم میں بلند آواز میں روتا رہا پھر اس کے آنسو خشک ہونے لگے۔ شاید وہ اتنا تھک چکا تھا کہ اب رونا بھی اس کے لئے ممکن نہیں رہا تھا۔ نڈھال سا ہو کر اس نے درخت کے تنے سےسر ٹکاتے ہوئے آنکھیں بند کر لیں۔ اس کے کندھوں اور بازوؤں میں اتنا درد ہو رہا تھا کہ اسے لگ رہا تھا وہ کچھ دیر میں مفلوج ہو جائیں گے پھر وہ کبھی انہیں حرکت نہیں دے سکے گا۔
“میں نے کبھی کسی کے ساتھ اس طرح نہیں کیا پھر میرے ساتھ یہ سب کیوں ہوا؟” اس کی آنکھوں سے ایک بار پھر آنسو بہنے لگے۔
“سالار! میرے لئے پہلے ہی بہت پرابلمز ہیں، تم اس میں اضافہ نہ کرو، میری زندگی پہلے بہت مشکل ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ اور مشکل ہوتی جا رہی ہے۔ کم از کم تم تو میری سچویشن کو سمجھو، میری مشکلات کو مت بڑھاؤ۔” درخت کے تنے کے ساتھ ٹیک لگائے سالار نے اپنی آنکھیں کھول دیں۔ اس کا حلق خشک ہو رہا تھا۔نیچے، بہت نیچے، بہت دور۔۔۔۔۔اسلام آباد کی روشنیاں نظر آ رہی تھیں۔
“میں تمہارے مسائل میں اضافہ کرنے کی کوشش کر رہا ہوں؟میں۔۔۔۔ مائی ڈئیر امامہ ! میں تو تمہاری مدد میں گھل رہا ہوں۔ تمہارے مسائل ختم کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ تم خود سوچو، میرے ساتھ رہ کر تم کتنی اچھی اور محفوظ زندگی گزار سکتی ہو۔” سالار نے اپنے ہونٹ بھینچ لئے۔
“سالار! مجھے طلاق دے دو۔”بھرائی ہوئی لجاجت آمیز آواز۔
“سویٹ ہارٹ! تم کورٹ میں جا کر لے لو۔ جیسا کہ تم کہہ چکی ہو۔”
وہ اب چپ چاپ خود سے بہت دور نظر آنے والی روشنیوں کو دیکھ رہا تھا۔ کوئی اس کے سامنے جیسے آئینہ لے کر کھڑا ہو گیا تھا جس میں وہ اپنا عکس دیکھ سکتا تھا اور اپنے ساتھ ساتھ کسی اور کا بھی۔
“میں نے امامہ کے ساتھ صرف مذاق کیا تھا۔” وہ بڑ بڑایا۔
“میں۔۔۔۔ میں اسے کوئی تکلیف پہنچانے کا ارادہ نہیں رکھتا تھا۔” اسے اپنے الفاظ کھوکھلے لگے۔
وہ پتا نہیں کس کو وضاحت دینے کی کوشش کر رہا تھا۔ بہت دیر تک وہ اسی طرح اسلام آباد کی روشنیوں کو دیکھتا رہا پھر اس کی آنکھیں دھندلانے لگیں۔
“میں مانتا ہوں، مجھ سے کچھ غلطیاں ہو گئیں۔”
اس بار اس کی آواز بھرائی ہوئی سرگوشی تھی۔” میں نے جانتے بوجھتے اس کے لئے مسائل کھڑے کرنے کی کوشش کی۔ میں نے اسے دھوکا دیا مگر مجھ سے غلطی ہو گئی اور مجھے پچھتاوا بھی ہے۔ میں جانتا ہوں میرے طلاق نہ دینے سے اور جلال کے بارے میں جھوٹ بول دینے سے اسے بہت زیادہ پریشانی کا سامنا کرنا پڑا ہو گا۔ مجھے واقعی پچھتاوا ہے اس سب کے لئے مگر اس کے علاوہ تو میں نے کسی اور کو کبھی دھوکا نہیں دیا، کسی کے لئے پریشانی کھڑی نہیں کی۔”
وہ ایک بار پھر رونے لگا۔
“میرے خدا۔۔۔۔۔ اگر ایک بار میں یہاں سے بچ گیا، میں یہاں سے نکل گیا تو میں امامہ کو ڈھونڈوں گا، میں اسے طلاق دے دوں گا، میں جلال کے بارے میں بھی اسے سچ بتا دوں گا۔ بس ایک بار آپ مجھے یہاں سے جانے دیں۔”
وہ اب پھوٹ پھوٹ کر رو رہا تھا۔ پہلی بار اسے احساس ہو رہا تھا کہ امامہ نے اس کے طلاق دینے سے انکار پر کیا محسوس کیا ہو گا۔ شاید اسی طرح اس نے بھی اپنے ہاتھ بندھے ہوئے محسوس کئے ہوں گے جس طرح وہ کر رہا تھا۔
وہاں بیٹھے ہوئے پہلی بار وہ امامہ کی بے بسی، خوف اور تکلیف کو محسوس کر سکتا تھا۔ اس نے جلال انصر کی شادی کے بارے میں اس سے جھوٹ بولا تھا اور اس کے جھوٹ پر امامہ کے چہرے کا تاثر اسے اب بھی یاد تھا۔ اس وقت وہ اس تاثر سے بے حد محظوظ ہوا تھا۔ وہ اسلام آباد سے لاہور تک تقریباً پوری رات روتی رہی تھی اور وہ بے حد مسرور تھا۔
وہ اس وقت اس کی ذہنی اور جذباتی کیفیت کا اندازہ کر سکتا تھا۔ اس اندھیری رات میں اس گاڑی میں سفر کرتے ہوئے اسے اپنے آگے اور پیچھے کچھ بھی نظر نہیں آ رہا ہو گا۔ واحد پناہ گاہ، جس کا وہ سوچ کر نکلی تھی وہ جلال انصر کا گھر تھا اور سالار سکندر نے اسے وہاں جانے نہیں دیا تھا۔ وہ رات کے اس پہر وہاں اعصاب میں اترنے والی تاریکی میں بیٹھ کر ان اندیشوں اور خوف کا اندازہ کر سکتا تھا جو اس رات امامہ کو رلا رہے تھے۔
“مجھے افسوس ہے، مجھے واقعی افسوس ہے لیکن۔۔۔۔۔لیکن میں کیا کر سکتا ہوں۔اگر۔۔۔۔۔ اگر وہ مجھے دوبارہ ملی تو میں اس سے ایکسکیوز کر لوں گا۔ میں جس حد تک ممکن ہوا اس کی مدد کروں گا مگر اس وقت۔۔۔۔۔ اس وقت تو میں کچھ بھی نہیں کر سکتا۔ اگر۔۔۔۔ اگر میں نے کبھی۔۔۔۔۔۔ کبھی کوئی نیکی کی ہے تو اس کے بدلے رہائی دلا دے۔ اوہ گاڈ پلیز۔۔۔۔۔ پلیز۔۔۔۔۔ پلیز۔” اس نے بہتے ہوئے آنسوؤں کے ساتھ اپنی نیکیاں گننے کی کوشش کی جنہیں کو گنوا سکے۔ اس وقت پہلی بار اس پر یہ ہولناک انکشاف ہوا کہ اس نے زندگی میں اب تک کوئی نیکی نہیں کی تھی۔ کوئی نیکی جسے وہ اس وقت اللہ کے سامنے پیش کر کے اس کے بدلے میں رہائی مانگتا۔ ایک اور خوف نے پھر اس کو اپنی گرفت میں لے لیا تھا۔ اس نے زندگی میں کبھی خیرات نہیں کی تھی اور وہ اس پر یقین نہیں رکھتا تھا۔ وہ ہوٹلز اور ریسٹورنٹس میں ٹپ خوش دلی سے دیا کرتا تھا، مگر کبھی کسی فقیر کے ہاتھ پھیلانے پر اس نے اسے کچھ نہیں دیا تھا۔
اسکول کالج میں مختلف کاموں کے لئے جب فنڈ جمع ہوتے تب بھی وہ ٹکٹس خریدنے یا بیچنے سے صاف انکار کر دیتا۔
“میں چیریٹی پر یقین نہیں رکھتا۔” اس کی زبان پر روکھے انداز میں صرف ایک ہی جملہ ہوتا۔
“میرے پاس اتنی فالتو رقم نہیں ہے کہ میں ہر جگہ لٹاتا پھروں۔” اس کا یہ رویہ نیو ہیون میں بھی جاری رہا تھا۔ یہ سب صرف چیریٹی تک ہی محدود نہیں تھا۔ وہ چیریٹی کے علاوہ بھی کسی کی مدد کرنے پر یقین نہیں رکھتا تھا۔ اسے کوئی ایسا لمحہ یاد نہیں آیا، جب اس نے کسی کی مدد کی ہو، صرف امامہ کی مدد کی تھی اور اس مدد کے بعد اس نے جو کچھ کیا تھا اس کے بعد وہ اسے نیکی نہیں سمجھ سکتا تھا۔ وہ عبادت کرنے کا بھی عادی نہیں تھا۔ شاید بچپن میں اس نے چند بار سکندر کے ساتھ عید کی نماز پڑھی ہو مگر وہ بھی عبادت سے زیادہ ایک رسم تھی۔ اسے نیو ہیون میں وہ رات یاد آئی جب وہ عشاء کی نماز ادھوری چھوڑ کر بھاگ آیا تھا اور اس کے ساتھ اسے اس hooker کو دئے ہوئے 50 ڈالرز بھی یاد آئے۔ شاید وہ واحد موقع تھا جب اسے کسی پر ترس آیا تھا۔ وہ مستقل اپنے ذہن کو اپنی کسی نیکی کی تلاش میں کھنگالتا رہا مگر ناکام رہا۔
اور پھر اسے اپنے گناہ یاد آنے لگے۔ کیا تھا جو وہ نہیں کر چکا تھا۔ اس کے آنسو ، گڑگڑانا، رونا سب کچھ یک دم ختم ہو گیا۔ حساب کتاب بالکل صاف تھا۔ وہ اگر آج اس حالت میں مر جاتا تو اس کے ساتھ کوئی زیادتی نہ ہوتی۔ بائیس سال کی عمر میں وہاں بیٹھے کئی گھنٹے صرف کرنے پر بھی جس شخص کو اپنی کوئی نیکی یاد نہ آئے جبکہ اس شخص کا آئی کیو لیول 150 ہو اور اس کی میموری فوٹوگرافک۔۔۔۔۔ وہ شخص اللہ سے یہ چاہتا ہو کہ اسے اس کی کسی نیکی کے بدلے اس آزمائش سے رہا کر دیا جائے جس میں وہ پھنس گیا ہے۔
“What is next to ecstasy?”
اس نے ٹین ایج میں کوکین پیتے ہوئے ایک بار اپنے دوست سے پوچھا تھا، وہ بھی کوکین لے رہا تھا۔
“more ecstasy” اس نے کہا تھا۔ اس نے کوکین لیتے ہوئے اسے دیکھا۔
There is no end to ecstasy, it is preceded by pleasure and followed by more ecstasy.
وہ نشے کی حالت میں اس سے کہہ رہا تھا۔ سالار مطمئن نہیں ہوا۔
No, it does end. What happens when it ends? When it really ends?
اس کے دوست نے عجیب سی نظروں سے اسے دیکھا۔
You know it yourself, don’t you? You have been through it off and on.
سالار جواب دینے کے بجائے دوبارہ کوکین لینے لگا تھا۔
اس کی کلائیوں کے گوشت میں اترتی ڈوری اسے اب جواب دے رہی تھی۔”Pain” (درد)
What is next to pain?
اس نے مضحکہ خیز لہجے میں اس رات امامہ ہاشم سے پوچھا تھا۔
Nothingness
رسی نما کوئی چیز لہراتے ہوئے اس کے جسم پر گری تھی۔ اس کے سر، چہرے،گردن، سینے، پیٹ۔۔۔۔۔اور وہاں سے تیز رفتاری سے رینگتی ہوئی اتر گئی۔ سالار نے کانپتے جسم کے ساتھ اپنی چیخ روکی تھی۔ وہ کوئی سانپ تھا جو اسے کاٹے بغیر چلا گیا تھا۔ اس کا جسم پسینے میں نہا گیا تھا۔ اس کا جسم اب جاڑے کے مریض کی طرح تھرتھر کانپ رہا تھا۔
“Nothingness” آواز بالکل صاف تھی۔
“And what is next to nothingness?”
تحقیر آمیز آواز اور مسکراہٹ اس کی تھی۔
“Hell”
اس نے یہی کہا تھا۔ وہ پچھلے آٹھ گھنٹے سے وہاں بندھا ہوا تھا۔ اس ویرانے، اس تاریکی ، اس وحشت ناک تنہائی میں۔ وہ پورا ایک گھنٹہ حلق کے بل پوری وقت سے مدد کے لئے پکارتا رہا تھا۔ یہاں تک کہ اس کا حلق آواز نکالنے کے قابل نہیں رہا تھا۔
Nothingness سے Hell وہ ان دونوں کے بیچ کہیں معلق تھا یا شاید Nothingness میں داخل ہونے والا تھا اور Hell تک پہنچنے والا تھا۔
“تمہیں خوف نہیں آتا یہ پوچھتے ہوئے کہ Hell کہ بعد کیا آئے گا؟ دوزخ کے بعد آگے کیا آ سکتا ہے؟ انسان کے معتوب اور مغضوب ہوجانے کے بعد باقی بچتا ہی کیا ہے جسے جاننے کا تمہیں اشتیاق ہے؟”
سالار نے وحشت بھری نظروں سے اردگرد دیکھا۔ وہ کیا تھا قبر یا دوزخ یا زندگی میں اس کا ایک منظر۔۔۔۔۔بھوک ، پیاس، بےبسی، بے یاری ومددگاری، جسم پر چلتے کیڑے جنہیں وہ خود کو کاٹنے سے روک تک نہیں پا رہا تھا۔ مفلوج ہوتے ہوئے ہاتھ پاؤں، پشت اور ہاتھوں کی کلائیوں پر لمحہ بہ لمحہ بڑھتے ہوئے زخم۔۔۔۔ خوف تھا یا دہشت، پتا نہیں کیا تھا مگر وہ بلند آواز میں پاگلوں کی طرح چیخیں مارنے لگا تھا۔ اس کی چیخیں دور دور تک فضا میں گونج رہی تھیں۔ ہذیانی اور جنونی انداز میں بلند کی جانے والی بے مقصد اور خوفناک چیخیں۔ اس نے زندگی میں اس طرح کا خوف کبھی محسوس نہیں کیا تھا۔ کبھی بھی نہیں۔ اسے اپنے اردگرد وعجیب سے بھوت چلتے پھرتے نظر آنے لگے تھے۔
اسے لگا رہا تھا اس کے دماغ کی رگ پھٹنے والی ہے یا پھر نروس بریک ڈاون، پھر اس کی چیخیں آہستہ آہستہ دم توڑتی گئیں۔ اس کا گلا پھر بند ہو گیا تھا۔ اب صرف سرسراہٹیں تھیں جو اسے سنائی دے رہی تھیں۔ اسے یقین ہو چکا تھا کہ وہ اب مر رہا ہے۔ اس کا ہارٹ فیل ہو رہا ہے یا پھر وہ اپنا ذہنی توازن کھو دینے والا ہے اور اسی وقت اچانک تنے کے پیچھے بندھی ہوئی کلائیوں کی ڈوری ڈھیلی ہو گئی۔ ہوش و حواس کھوتے ہوئے اس کے اعصاب نے ایک بار پھر جھٹکا لیا۔
اس نے نچلا ہونٹ دانتوں میں دباتے ہوئے اپنے ہاتھوں کو حرکت دی۔ ڈوری اور ڈھیلی ہوتی گئی۔ شاید مسلسل تنے کی رگڑ لگتے لگتے درمیان سے ٹوٹ گئی تھی۔ اس نے ہاتھوں کو کچھ اور حرکت دی اور تب اسے احساس ہوا کہ وہ درخت کے تنے سے آزاد ہو چکا تھا۔
اس نے بے یقینی کے عالم میں اپنے ہاتھوں کو سیدھا کیا۔ درد کی تیز لہریں سے کے بازوؤں سے گزریں۔
“کیا میں، میں بچ گیا ہوں؟”
“کیوں؟ کس لئے؟”ماؤف ہوتے ہوئے ذہن کے ساتھاس نے اپنی گردن کے گرد موجود اس پٹی کو اتارا جو پہلے اس کے منہ کے گرد باندھی گئی تھی، بازوؤں کو دی گئی معمولی حرکت سے اس کے منہ سے کراہ نکلی تھی۔ اس کے بازوؤں میں شدید تکلیف ہو رہی تھی۔ اتنی تکلیف کہ اسے لگ رہا تھا وہ دوبارہ کبھی اپنے بازو استعمال نہیں کر سکے گا۔ اس کی ٹانگیں بھی سن ہو رہی تھیں۔ اس نے کھڑے ہونے کی کوشش کی۔ وہ لڑکھڑا کر بازوؤں کے بل زمین پر گرا۔ ہلکی سی چیخ اس کے منہ سے نکلی۔ اس نے دوسری کوشش ہاتھوں اور گھٹنوں کے بل کی۔ اس بار وہ کھڑا ہونے میں کامیاب ہو گیا۔
وہ دونوں لڑکے اس کے جاگرز اور گھڑی بھی لے جا چکے تھے۔ اس کی جرابیں وہیں کہیں پڑی تھیں۔ وہ اندھیرے میں انہیں ٹٹول کر پہن سکتا تھا مگر بازوؤں اور ہاتھوں کو استعمال میں لانا پڑتا اور وہ اس وقت یہ کام کرنے کے قابل نہیں تھا نہ جسمانی طور پر، نہ ذہنی طور پر۔
وہ اس وقت صرف وہاں سے نکل جانا چاہتا تھا۔ ہر قیمت پر، اندھیرے میں ٹھوکریں کھاتا، جھاڑیوں سے الجھتا، خراشیں لیتا وہ کسی نہ کسی طرح اس راستے پر آ گیا تھا جس راستے سے وہ دونوں ہٹا کر اسے وہاں لے آئے تھے اور پھر ننگے پاؤں اس نے نیچے کا سفر طے کیا۔ اس کے پیروں میں پتھر اور کنکریاں چبھ رہی تھیں مگر وہ جس ذہنی اور جسمانی اذیت کا شکا تھا اس کے سامنے یہ کچھ بھی نہیں تھا۔ وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ وقت کیا ہوا تھا مگر اسے یہ اندازہ تھا کہ آدھی رات سے زیادہ گزر چکی ہے۔ اسے نیچے آنے میں کتنا وقت لگا اور اس نے یہ سفر کس طرح طے کیا۔ وہ نہیں جانتا۔۔۔۔۔ اسے صرف یہ یاد تھا کہ وہ پورے راستے بلند آواز سے روتا رہا تھا۔
اسلام آباد کی سڑکوں پر آ کر اسٹریٹ لائٹس کی روشنی میں بھی اس نے اپنے حلیے کو دیکھنے کی کوشش نہیں کی۔ نہ ہی کہیں رکنے کی خواہش کی نہ ہی کسی کی مدد لینے کی۔ وہ اسی طرح روتا ہوا لڑکھڑاتے قدموں کے ساتھ اس سڑک کے کنارے فٹ پاتھ پر چلتا رہا۔
وہ پولیس کی ایک پٹرولنگ کار کی جس نے سب سے پہلے اسے دیکھا تھا اور اس کے پاس آ کر رک گئی۔ اندر موجود کانسٹیبل اس کے سامنے نیچے اترے اور اسے روک لیا۔ وہ پہلی بار حوش و حواس میں آیا تھا مگر اس وقت بھی وہ اپنی آنکھوں سے بہتے ہوئے آنسوؤں پر قابو پانے میں ناکام ہو رہا تھا وہ لوگ اب اس سے کچھ پوچھ رہے تھے، مگر وہ کیا جواب دیتا۔
اگلے پندرہ منٹ میں وہ ایک ہاسپٹل میں تھا جہاں اسے فرسٹ ایڈ دی گئی۔ وہ اس سے اس کے گھر کا پتا پوچھ رہے تھے مگر اس کا گلا بند تھا۔ وہ انہیں کچھ بھی بتانے کے قابل نہیں تھا۔ سوجے ہوئے ہاتھوں کے ساتھ اس نے ایک کاغذ پر اپنے گھر کا فون نمبر اور ایڈریس گھسیٹ دیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭