رات بھر وہ صوفے پر بے چین رہا تھا پتہ نہیں کب آنکھ لگی تھی سورج کی روشنی چھن چھن کر کمرے میں آرہی تھی وہ انگڑائی لیتے ہوئے اٹھا گھڑی میں وقت دیکھا تو دن کے بارہ بج چکے تھے وہ تیزی سے کھڑا ہوا سامنے ہی بیڈ پر سویرا ابھی تک سو رہی تھی وہ ایک اچٹتی سی نظر اس پر ڈالتے ہوئے واش روم چلا گیا ۔۔
وہ سو کر اٹھی تو اس کا سر گھوم رہا تھا کافی دیر تک وہ خالی دماغ لئیے بیٹھی رہی تبھی واش روم کا دروازہ کھلا اور شہریار تولیہ سے منھ پونچھتا ہوا اندر داخل ہوا اس نے ایک کڑی نگاہ اپنے بیڈ پر بیٹھی ہوئی سویرا پر ڈالی جو بھی تھا لیکن یہ بھی ایک تلخ حقیقت تھی کہ انہیں کچھ عرصے تک یہ بیڈروم شئیر کرنا تھا اس لئیے بہتر تھا کہ وہ اپنی حدود طے کر لیتے
” سنو لڑکی !! ” وہ پرسوچ نظروں سے اسے دیکھتا ہوا بیڈ کے پاس آکر رکا اور چونک گیا
سویرا کے گلابی چہرے پر انگلیوں کے نشانات تھے چمکتی پیشانی پر نیل کا نشان تھا دن کی روشنی میں اس کی چوٹیں واضح نظر آرہی تھیں
کل جب اس نے اسے دلہن بنے دیکھا تھا اس وقت ایسے کوئی نشانات اس کے چہرے پر نہیں تھے
” یہ تمہیں کیا ہوا ہے ؟؟ ” وہ حیرت سے پوچھ رہا تھا
سویرا نے گڑبڑا کر دوپٹہ کھینچ کر سر پر ڈالا اور ایک جھٹکے سے اٹھ کر کھڑی ہو گئی
” میں تم سے کچھ پوچھ رہا ہوں …” اس نے جاتی ہوئی سویرا کو کلائی سے پکڑ کر روکا
تکلیف کی شدت سے سویرا کے حلق سے سسکی سی ابھری وہ حیرت سے اس کی آنکھوں میں امنڈتی ہوئی نمی کو دیکھ رہا تھا
” کچھ نہیں !! ہاتھ چھوڑیں پلیز مجھے جانا ہے ۔۔۔” وہ بھیگی ہوئی آواز میں بولی
اس کے انداز پر شہریار کا دماغ گھوم گیا
” لگتا ہے تمہیں کسی نے تمیز نہیں سکھائی ہے لیکن ایک بات کان کھول کر سن لو چاہے غلطی سے ہی سہی پر جب تک تم میرے ساتھ ہو تمہیں تمیز دار بننا پڑیگا اور میرے ہر سوال کا جواب مجھے ملنا چاہئے انڈر اسٹینڈ؟؟ ” وہ غرایا
” وہ وہ کل پھپھو ۔۔۔۔۔” سویرا کی سمجھ میں نہیں آیا وہ کیا جواب دے
تبھی دروازہ ناک ہوا شہریار نے سویرا کی کلائی اپنی مضبوط گرفت سے آزاد کی اور اسے گھورتا ہوا دروازے کے سمت بڑھا
“آسلام علیکم رخسار آپی !! آپ تو اسپتال گئی تھیں نا ؟؟ ” وہ دروازے پر رخسار کو دیکھ کر حیران رہ گیا
” ہاں میرے بھائی فجر پڑھ کر گئی تھی اللہ کا شکر ہے تمہارے بھائی بہت بہتر ہیں بس ابھی واپس آئی ہوں چلو نیچے چلو شاہ بی بی بلا رہی ہیں ۔۔۔اور سویرا کی طبیعت اب کیسی ہے ۔۔” وہ اطمینان سی بات کرتی ہوئی اندر داخل ہوئیں
سویرا نے انہیں دیکھتے ہی سلام کیا اور وہ بھی جواب دیتے ہوئے پاس آئیں اور اس کے ماتھے کو چھو کر دیکھا پھر آستین پلٹ کر اس کی کلائی کا زخم چیک کیا ۔۔
شہریار حیرت سے یہ ساری کاروائی دیکھ رہا تھا جب وہ سویرا کا ہاتھ تھامے اس کے پاس آئیں۔۔
” چلو ساتھ ہی چلتے ہیں شاہ بی بی نے تم دونوں کے لئے اسپیشل ناشتہ تیار کروایا ہے ویسے اب وقت تو لنچ کا ہے لیکن نئے دولہا دلہن عموماً اسی ٹائم ناشتہ کرتے ہیں ۔۔۔” وہ شرارت سے چھیڑتے ہوئے بولیں
” آپی آپ ایک منٹ رکیں !! سنو لڑکی تم نیچے چلو ہم ابھی آرہے ہیں ۔۔۔” وہ رخسار کو روکتے ہوئے سویرا کو آگے جانے کا اشارہ کرتے ہوئے بولا
” کیا بات ہے شاہو مجھے کیوں روکا ؟؟ وہ ایک دن کی دلہن اکیلی جاتی اچھی لگے گی کیا ؟؟ ابھی بھی حویلی میں مہمان ٹہرے ہوئے ہیں ۔۔سب کیا سوچیں گے ؟؟ ” رخسار نے ٹوکا
” یا وحشت آپی !! تھوڑا بریک لگائیں مجھے بتائیں سویرا کو کیا ہوا ہے ۔۔۔” اس نے ٹوکتے ہوئے پوچھا
” سویرا تم رکو !! ” رخسار نے جاتی ہوئی سویرا کو روکا اور خود وارڈ روب کی جانب بڑھ کر اس کے لئیے ہلکے سے کام کا فیروزی سوٹ نکالا
” ایسے اجاڑ حلیہ میں باہر جاؤ گی ؟ چلو جلدی سے فریش ہو لو اور یہ لباس بدلو پھر ساتھ نیچے چلیں گئے ۔۔”
سویرا بیدلی سے لباس تھام کر واش روم چلی گئی تو رخسار نے اپنا رخ شہریار کی جانب کیا
” ہاں تو تم کیا کہہ رہے تھے ؟؟ ”
” سویرا کو کیا ہوا ہے ؟ اس کے چہرے پر یہ نشانات کیسے ہیں ؟ ”
” کیوں تم کیوں پوچھ رہے ہو ؟ وہ جئیے یا مرے تمہیں کیا ؟ تم بھی تو اسے چھوڑ کر دوسری شادی پلان کئیے بیٹھے ہو ”
” آپی میں !! میں بھی انسانیت رکھتا ہوں ،ضروری نہیں ہے کہ انسان کی ساری ہمدردی صرف اپنی بیوی کے ساتھ ہی ہوں ، اس کے ساتھ میرا کزن کا رشتہ بھی ہے میں اسی رشتے کے حق سے پوچھ رہا ہوں ۔۔” وہ سنجیدگی سے بولا
رخسار اسے سنجیدگی سے دیکھتے ہوئے پھپھو کی سویرا سے بلاجواز دشمنی اور کل کی مار پیٹ کا بتانے لگی
__________________________________________
سفر مِیں دھوپ تو ہوگی، جو چَل سکو تو چَلو
سبھی ہی بھیڑ مِیں تُم بھی نِکل سکو تو چَلو
کِسی کے واسطے رَاہیں کہاں بَدلتی ہیں
تُم اَپنے آپ کو خُود ہی بَدل سکو تو چَلو
یہاں کِسی کو کو ِئی رَاستہ نہیں دِیتا
مُجھے گِرا کے اگر تُم سَنبھل سکو تو چَلو
یہی ہے زِندگی، کُچھ خواب، چَند اُمّیدیں
اِنھی کھلونوں سے تُم بھی بہل سکو تو چَلو
سویرا لباس تبدیل کر کے باہر آچکی تھی فیروزی رنگ میں اس کی رنگت مزید نکھر آئی تھی رخسار نے اسے سنگھار میز کے سامنے بٹھایا اور دوپٹہ اتار کر اس کے لمبے سیاہ بال سلجھانے لگیں ۔
“آپی میں جارہا ہوں آپ یہ فضول کام جاری رکھیں ۔۔۔”شہریار کوفت سے ان دونوں کو دیکھتے ہوئے بولا اور تیزی سے باہر نکل گیا
“سویرا ابھی وقت کم ہے بال بعد میں باندھ لینا اور سنو چہرے پر یہ بیس لگا لو ۔۔۔”
سویرا اثبات میں سر ہلاتی ہوئی ان کے مشورے پر عمل کرتی تیار ہو چکی تھی رخسار سویرا کو لیکر کمرے سے باہر نکلی ابھی وہ دونوں سیڑھیوں پر ہی تھیں کہ انہیں زاہدہ تائی پاس آتی نظر آئیں
” اسلام علیکم تائی امی ۔۔۔”سویرا نے سلام کیا
” وعلیکم السلام ۔۔۔ماشااللہ چشم بدور ۔۔” انہوں نے پیار سے اس کی پیشانی چومی
” چلو تم دونوں شاہ بی بی کے کمرے میں چلو شاہو اور تمہارے تایا بھی ادھر ہی ہیں ۔۔۔ ” وہ انہیں ہدایات دیتی ہوئی کچن میں چلی گئیں صبح سے پہلے اسپتال پھر رات کے ٹہرے ہوئے رشتے داروں کے ناشتے پانی کے بعد روانگی نے انہیں گھن چکر بنایا ہوا تھا
______________________________________
شاہ بی بی کے کمرے میں سلیم صاحب ور شہریار دونوں ہی موجود تھے سویرا جھجھکتے ہوئے سب کو سلام کرتی ہوئی شاہ بی بی کے پاس جا کر بیٹھ گئی ۔۔۔
” کیسی طبعیت ہے اب تمہاری !! رات تو تم نے ہم سب کو ڈرا دیا تھا ۔۔۔” شاہ بی بی اس کے چہرے کو بغور دیکھتے ہوئے بولیں
اسی وقت دروازہ کھلا اور رخسار اور زاہدہ ملازمہ کے ساتھ چائے جوس اور حلوہ پوری ابلے انڈے گاجر کا حلوہ لیکر اندر داخل ہوئیں اور میز درمیان میں رکھ کر سیٹ کرنے لگیں
اسی وقت شہریار کا فون بجنے لگا اس نے فون چیک کیا تو آفس سے اس کی سیکریٹری کال کررہی تھی وہ فون اٹھا کر شاہ بی بی سے معذرت کرتا ہوا تیزی سے فون کو کانوں سے لگاتا ہوا باہر نکل گیا ۔۔
“رخسار بیٹی تم ناشتہ سرو کرو شاہو بھی کچھ دیر میں آجائیگا ۔۔۔” شاہ بی بی نے کہا
سلیم صاحب زاہدہ بیگم رخسار شاہ بی بی اور سویرا ناشتہ کررہے تھے برتنوں کے کھنکنے کی آوازیں سنائی دے رہی تھی جب ایک جھٹکے سے دروازہ کھلا اور فرزانہ اندر داخل ہوئیں ۔۔
” واہ شاہ بی بی واہ ادھر میرا اکرم اسپتال میں پڑا ہے اور یہاں خوشیاں منائی جارہی ہیں دعوتِ اڑائی جا رہی ہے ۔۔” وہ اندر کا ماحول دیکھ کر زہر خند لہجہ میں پھنکاریں
” آئیے پھپھو بیٹھیں ناشتہ کریں ۔۔۔۔” رخسار نے فوراً اٹھ کر ادب سے کہا
” بس بی بی بس !! ادھر تمہارے سر کا سائیں اسپتال میں پڑا ہے اور تم ادھر بیفکری سے خوشیاں منا رہی ہوں یا یوں کہوں کہ آزادی کے خواب دیکھ رہی ہو ؟ ”
رخسار کا چہرہ ان کی بات سن کر فق پڑگیا یہ تو وہی جانتی تھی کہ کتنی مشکل سے خود کو سنبھال کر وہ یہ سب کچھ دیکھ رہی تھی
” فرزانہ آپا !! یہ آپ کس لہجہ میں بات کررہی ہیں ؟؟ ” سلیم صاحب سے رخسار کا اترا ہوا چہرہ برداشت نہیں ہوا
” سلیم میاں !! تم تو بیچ میں مت بولو ۔۔۔” وہ انہیں ٹوک ہی رہی تھیں کہ ان کی نگاہ شاہ بی بی سے چمٹی ہوئی سویرا پر پڑی
” شاہ بی بی !!! مجھے یقین نہیں آتا کہ آپ میری سگی ماں ہیں ؟؟ اس لڑکی کی ماں کی وجہ سے میری نند کا وٹہ سٹہ والا رشتہ ٹوٹا تھا میرا گھر اجڑتے اجڑتے بچا تھا اتنی بدنامی ہوئی تھی کہ وہ برداشت نہیں کر سکی اور مر گئی چھوڑ گئی ہم سب کو اور آپ اسی ناگن کی بیٹی کو سینے سے لگائے بیٹھی ہیں ؟؟ ”
فرزانہ چلتی ہوئی پاس آئی اور ایک جھٹکے سے سویرا کو بازو سے پکڑ کر شاہ بی بی کے پاس سے اٹھا کر اپنے سامنے کھڑا کیا
” تیری ماں بھی بے غیرت تھی جو گھر سے بھاگ کر آئی تھی اور تو تو اس سے بھی بڑی بے غیرت ہے اتنی ذلالت اٹھا کر بھی زندہ ہے !! ” انہوں نے اسے ایک زوردار جھٹکا دیا
” فرزانہ !! بچی کو چھوڑ دو !! ” شاہ بی بی اٹھتے ہوئے بولیں
” تیرے ہوتے سوتے مر چکے ہیں تجھے کوئی نہیں پوچھتا شہریار بھی تیری شکل تک نہیں دیکھنا چاہتا ہے پھر بھی تو سمجھ نہیں رہی دیکھ سویرا اس گھر کا شہریار کا پیچھا چھوڑ دے اپنا منحوس وجود لےکر چلی جا جہاں سے ۔۔۔” انہوں نے سویرا کو جھنجھوڑا
” یہ کیا ہو رہا ہے ؟؟ پھپھو آپ سویرا سے کس طرح بات کررہی ہیں ۔۔۔” فون بند کرکے اندر آتے شہریار نے سارا منظر تاسف سے دیکھا اور تیزی سے اندر آکر سویرا کو ان کی گرفت سے آزاد کروایا
” واہ بیٹا واہ !! ایک ہی رات میں اس منحوس کا جادو تمہارے سر چڑھ گیا ہے ۔۔۔”
” آپی آپ سویرا کو کمرے میں لے جائیں۔۔” وہ سویرا کے خوف سے پھیکے پڑتے چہرے سے نظر چراتے ہوئے بولا
رخسار تیزی سے آگے بڑھیں اور سویرا کو لیکر کمرے سے نکل گئیں
” پھپھو آپ بیٹھیں !! بیٹھ کر آرام سے بات کریں ۔۔۔” وہ انہیں شانوں سے تھام کر بٹھاتے ہوئے رسان سے بولا
” فرزانہ نے بلاوجہ کا بیر پال رکھا ہے اس معصوم سے کل تو اسے مارا پیٹا بھی ہے حالانکہ وہ ہمارے پیارے چھوٹے بیٹے کی نشانی ہے جسے وہ بڑے اطمینان سے تمہارے حوالے کر کے مرا تھا ۔۔۔” شاہ بی بی افسردگی سے بولیں
” پھپھو آپ بتائیں آپ کیا چاہتی ہیں ؟؟ ” شہریار نے پوچھا
” اس منحوس لڑکی کے وجود کو اس حویلی سے نکال باہر کرو ورنہ اب مجھے یہاں سے جانے سے کوئی نہیں روک سکتا !! اس کی منحوسیت میری بہنوں سی نند پھر میرے بھائی کو کھا چکی ہے اور اب دیکھو میرا اکرم بھی اسپتال میں ہے ۔۔۔” وہ بگڑے ہوئے انداز میں گویا ہوئیں
شہریار نے پرسوچ نظروں سے فرزانہ پھوپھو کے بگڑے ہوئے انداز کو ، سلیم صاحب کے پرتفکر چہرے کو ، اپنی ماں زاہدہ اور شاہ بی بی کی آنکھوں کی نمی کو بغور دیکھا وہ ایک مضبوط مرد تھا منٹوں میں فیصلے کرنے والا
” ٹھیک ہے پھپھو آپ نے جہاں اتنے دن گزار لئیے ہیں بس دو دن اور گزار لیں میں کچھ بندوبست کرتا ہوں ۔۔” وہ سنجیدگی سے بولا
” ہونہہ بندوبست کرتا ہوں !!! بیٹا جی تمہاری زن مریدی کے آثار تو ابھی سے نظر آرہے ہیں ظاہر ہے مرد ہو حسن کا جادو تو سر چڑھ کر بولے گا ہی !! افسوس تو اس بات کا ہے کہ تم بھی ایک عام مرد نکلے حسن کے آگے پگھل جانے والے ۔۔۔” انہوں نے اسے بھڑکایا
” پھپھو !!! ” شہریار کا ضبط جواب دے گیا
” کیا پھپھو ؟؟؟ کل تک رٹ لگائے بیٹھے تھے کہ شادی نہیں کرنی گھر بار چھوڑ گئے اور اب تم خود اس دو ٹکے کی لڑکی کیلئے مجھ سے بحث کررہے ہو ۔۔”
” میں صرف انسانیت کے ناطے اس کا ساتھ دےرہا تھا آپ مجھے بہت غلط سمجھ رہی ہیں اور اب یہ وقت بتائے گا کہ میں کیا ہوں…”
” ٹھیک ہے میاں !! اب تم مجھ سے اور اپنی بہن رخسار جو میری بہو ہے اس وقت بات کرنا جب اس بلا سے پیچھا چھڑا لو اور اگر رخسار نے تم سے بات کی تو میں اسے طلاق دلوا دونگی ویسے بھی اتنے سال ہوگئے اس کی گود بھی خالی ہے ۔۔۔” وہ ترپ کا پتہ پھینک کر کمرے سے باہر نکل گئیں
“شہریار بیٹا !! تم فکر مت کرو تمہاری پھپھو ابھی غصہ میں ہے ۔۔۔” شاہ بی بی نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا
“شاہ بی بی !!کیا ہم سویرا کو ادھر ہی کسی ہاسٹل میں داخل نہیں کروا سکتے ؟؟ وہ پڑھ لکھ کر اپنے پیروں پر کھڑی ہو سکے گی اور رخسار آپی کا گھر بھی خراب نہیں ہوگا ۔۔” شہریار نے پوچھا
” نہیں شہریار اکیلی عورت اس دنیا میں کوئی وقعت نہیں رکھتی اور تم کیا سمجھتے ہو یہ لوگ اسے پڑھنے دینگے ؟؟ ذرا سوچو اگر تم بھی اس یتیم کو چھوڑ دوگے تو اس کا کیا ہوگا ؟؟ ” شاہ بی بی نے اسے ٹوکا
وہ کچھ دیر چپ چاپ خاموش کھڑا رہا پھر شاہ بی بی کی طرف مڑا اس کے وجیہہ چہرے پر چھائیاں سنجیدگی بتا رہی تھی کہ وہ فیصلہ لے چکا ہے۔۔۔
” بابا سائیں ، شاہ بی بی آپ مجھے سویرا کا پاسپورٹ اور ویزا دیں میں پرسوں شام اسے لیکر یہاں سے نکل جاؤنگا ۔۔۔”
______________________________________
وہ سارے مسئلہ نبٹاتا ہوا اپنی اور سویرا کے ٹکٹ سیٹ بک کروا کر اسپتال کا ایک چکر لگانے کے بعد رات گئے تھکا ہارا حویلی میں داخل ہوا اور سیدھا اپنے کمرے کی جانب بڑھا ارادہ آرام کرنے کا تھا اندر داخل ہوا تو سامنے ہی سویرا بیڈ پر ٹیک لگائے بیٹھی ہوئی تھی ۔۔۔
” تم !! تم یہاں کیوں بیٹھی ہو ؟؟ اٹھو یہاں سے اور صوفہ پر مرو اور خیال رکھنا آئندہ مجھ سے میرے بیڈ سے حتی کہ میری پرچھائی سے بھی دور رہنا ۔۔۔” وہ اسے تنبیہ کرتا ہوا لائٹ آف کر کے بستر پر ڈھیر ہو گیا
وہ خاموشی سے آنسو ضبط کرتی ہوئی صوفہ پر لیٹ گئی مگر نیند اس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی دوپہر سے اس نے رخسار آپی کو بھی نہیں دیکھا تھا اوپر سے زاہدہ تائی نے اسے کمرے سے باہر نکلنے سے منع کردیا تھا پتا نہیں اب زندگی کیا رنگ بدلنے والی تھی ۔۔
_______________________________________
رخسار جلے پیر کی بلی کی طرح کمرے میں ٹہل رہی تھی اسے فرزانہ پھوپھو نے سختی سے شہریار اور سویرا دور رہنے کا حکم دے دیا تھا اکرم بھی اسپتال میں تھے ورنہ وہ ان سے مدد طلب کرتی لیکن اس وقت وہ اپنے بیمار شوہر کو مزید۔ پریشان نہیں کرنا چاہ رہی تھی تبھی اس کے کمرے کا دروازہ کھلا اور زاہدہ بیگم اندر داخل ہوئیں ۔۔
” رخسار بیٹی ! کیا بات ہے آج تم ناشتہ پر نہیں آئیں ؟ فرزانہ خود باورچی خانے کو دیکھ رہی ہیں ۔۔۔”
” اماں !! مجھے پھپھو نے سختی سے کمرے سے باہر نکلنے سے منع کردیا ہے وہ کہتی ہیں اگر میری جھلک بھی شاہو نے دیکھی تو وہ اکرم کی دوسری شادی کروا دینگی ۔۔۔”
” فرزانہ آپا بھی بس !! خیر تم فکر مت کرو شہریار کل شام لندن جارہا ہے سویرا بھی ساتھ جا رہی ہے ۔۔۔”
” اماں کیا میں واقعی شیرو اور سویرا سے نہیں ملو ؟ پھر پتہ نہیں ان کا کب آنا ہو !!آپ پلیز پھپھو کو سمجھائیں ۔۔۔”
” رخسار بیٹی تم تو بہت سمجھدار لڑکی ہو !! خیر چھوڑو یہ سب ۔۔بیٹی یہ کچھ رقم رکھو ۔۔” وہ لفافے میں رکھی ایک کثیر رقم اس کے ہاتھ میں رکھتی ہوئی بولیں
” آج بازار جا کر سویرا کیلیئے ولایت کے لحاظ سے چند جوڑے لے آؤ اور کرنسی تبدیل کروا لاؤ ۔۔”
” مگر اماں اگر پھپھو کو پتہ چل گیا تو وہ خفا ہونگی ۔۔” رخسار پریشان ہوئی
” یہ بھلا کیا بات ہوئی ؟ تم اپنے باپ کے ساتھ جاؤ گی اور اس میں خفا ہونے والی کون سی بات ہے ؟ ”
” اماں آپ اچھی طرح سے جانتی ہیں کہ پھپھو سویرا سے کتنی نفرت کرتی ہیں وہ ہرگز بھی برداشت نہیں کرینگی کہ ان کی بہو اس کی شاپنگ کرے آپ نے کل پھپھو کی باتیں نہیں سنیں وہ مجھے صاف کہہ گئی ہیں کہ میں اگر شاہو سے ملی تو وہ اکرم کی دوسری شادی کروا دینگی یہ سوچ سوچ کر میرا دماغ پھٹ رہا ہے انہوں نے مجھے بےاولادی کا طعنہ بھی دیا ہے ۔۔۔”
” بیٹی تم فکر مت کرو ابھی جیسا تمہاری پھپھو کہہ رہی ہیں ویسا ہی کرو ۔۔”
” تو کیا اپنے اکلوتے بھائی بھاوج کو چھوڑ دوں ؟؟ یہ مجھ سے نہیں ہوگا ”
” اتنا پریشان مت ہو ابھی مشکل وقت ہے گزار لو دیکھنا اللہ پاک کوئی بہتر سبب بنا دیگا ۔۔”
” ٹھیک ہے اماں میں صبر کرتی ہوں لیکن اکرم ٹھیک ہو جائیں تو ان سے بات ضرور کرونگی ۔۔”
” اچھا ضرور کرنا دیکھو بھلا میں کس کام سے آئی تھی اور تم نے مجھے کن باتوں میں لگا دیا تمہاری پھپھو تو سدا سے ایسی ہی ہیں ان کی بات کی ٹینشن مت کیا کرو ۔۔۔”
” آپ فکر مت کریں میں ابھی اسپتال کے لئیے نکلوں گئی تو اکرم سے اجازت لیکر وہی سے مارکیٹ چلی جاؤ گئی ۔۔” رخسار بھاری رقم کا بنڈل اٹھا کر پرس میں رکھتی ہوئی بولی
________________________________________
تنہائی آخری رشتہ ہے
جو میں محسوس کرتی ہوں
میری اکیلی دنیا میں
غم وہ آخری جذبہ ہے
جس میں قید رہتی ہوں
موت وہ آخری لمحہ ہے جو
مسرت بن کے آۓگا
اڑا لے جاۓگا مجھ کو
اس سفاک دنیا سے
ان بے درد رشتوں سے
میرے ٹوٹے ہوۓ دل کو
لہو رستی آنکھوں کو
جو سکون دے کے جاۓگا
موت وہ آخری لمحہ ہے
جو آزادی دلاۓ گا
میری بے چین روح کو
دنیا کے روابط سے
لوگوں کی چبھتی نگاہوں سے
موت وہ آخری لمحہ ہے
(شزا خان )
صبح فجر کے وقت معمول کے مطابق سویرا کی آنکھ کھلی وہ کچھ دیر چپ چاپ صوفے پر لیٹی رہی پھر نماز کا ارادہ کر کے اٹھی سامنے ہی بیڈ پر وہ ستمگر سو رہا تھا وہ بنا آواز کئیے وضو کرنے کے لیے واش روم کی طرف بڑھی ۔
نماز پڑھ کر وہ اے سی کی کولنگ کم کرتی ہوئی کمرے سے باہر نکل آئی اور اپنے معمول کے مطابق شاہ بی بی کو وضو کروانے ان کے کمرے کی جانب بڑھ گئی ۔۔
شاہ بی بی نماز کیلئے اٹھی ہی تھی کہ سویرا ان کے کمرے میں داخل ہوئی
“اسلام علیکم شاہ بی بی ۔۔” سلام کرکے اس نے ہمیشہ کی طرح اپنا سر ان کے آگے جھکایا
“وعلیکم اسلام !! ” انہوں نے اس کے سر پر ہاتھ پھیر کر دعا دی
” تم اتنی سویرے ۔۔۔۔” وہ حیران تھیں
” شاہ بی بی میں تو روز ہی سویرے اٹھتی ہوں ۔۔”
” میرا مطلب آج تو تمہاری شادی کا تیسرا دن ہے اور بیٹھ نئی نویلی دلہن کمرے سے باہر اکیلی نہیں آتی اپنے سر کے سائیں کے ساتھ ہی نکلتی ہے ۔۔۔۔”
” شاہ بی بی !! میں کہاں سے دلہن ہو گئی آپ سب جانتی تو ہیں ۔۔۔”
“اچھا سب چھوڑو اور میں جب تک نماز پڑھ رہی ہوں تم ذرا مائی سے کہہ کر چائے بنوا لو اور ہاں خبردار خود کسی کام میں نہیں لگنا ۔۔”
” پر شاہ بی بی آپ تو میرے ہاتھ کا ناشتہ پسند کرتی ہیں پھر روک کیوں رہی ہیں ۔۔”
” بچی ہمارے یہاں نئی دلہن سے مہندی اترنے تک کوئی کام نہیں کرواتے ۔اب تم جاؤ اور مائی کو چائے کا بول دو ۔۔” وہ دو ٹوک لہجے میں بولتی ہوئی نماز کے لیے کھڑی ہو گئیں
سویرا دھیرے سے چلتی ہوئی باورچی خانے میں داخل ہوئی تو ادھر مائی اور ان کی بیٹی پہلے سے ہی موجود تھے ۔۔۔
” مائی !!! فارغ ہو کر شاہ بی بی کی ادرک والی چائے بنا دیں ۔۔” اس نے پراٹھوں کا آٹا گوندھتی ہوئی مائی سے کہا
” واہ بنو واہ !! تم تو دو راتوں میں اپنی اوقات بھول گئی ہوں ۔۔۔”
سویرا چونک کر مڑی تو سامنے ہی نماز کے انداز میں دوپٹہ اوڑھے فرزانہ پھوپھو کھڑی ہوئی تھیں
” اب کھڑی میرا منھ کیا دیکھ رہی ہے ؟؟ چل چائے بنا اور سب کا ناشتہ آج تیری ذمہ داری ہے۔۔” انہوں نے اسے جھڑک کر کام سے لگایا
” بی بی جی ناشتہ میں بنا لونگی ۔۔۔” مائی نے ڈرتے ڈرتے کہا
” مائی تم سے جتنا کہا جائے بس اتنا ہی کرو ۔۔۔” فرزانہ حکم دیتی ہوئی کرسی گھسیٹ کر بیٹھ گئیں
چائے بن چکی تھی سویرا نے شاہ بی بی کی چائے مائی کے ہاتھ بھجوائی اور خود آستین چڑھا کر آملیٹ پراٹھے کی تیاریوں میں لگ گئی
________________________________________
شاہ بی بی نماز پڑھ کر فارغ ہوئی ہی تھیں کہ مائی اجازت لیکر چائے کی ٹرے ہاتھوں میں تھامے ہوئے اندر داخل ہوئی
” مائی تم ؟سویرا بیٹی کدھر ہے ۔۔”
” شاہ بی بی جی وہ ادھر کچن میں ناشتہ بنا رہی ہیں ۔۔۔”
“مائی تمہیں تو سارے رسم و رواج پتا ہیں وہ تو بچی ہے پر تم تو سمجھدار ہو ! اسے روکا کیوں نہیں ۔۔۔”
” جی میں نے تو روکا تھا ہر ادھر فرزانہ بی بی نے انہیں کام پر لگا دیا ہے ۔۔ ” مائی نے ڈرتے ہوئے بتایا
شاہ بی بی کا غصہ سے برا حال تھا وہ چائے تپائی پر رکھ کر کھڑی ہوئیں اور سیدھی باورچی خانے کی طرف بڑھیں
اندر فرزانہ بڑے کروفر سے بیٹھی ہوئی تھیں اور سویرا چولہے پر لگی ہوئی تھی انہوں نے تاسف سے یہ منظر دیکھا اور اندر داخل ہوئیں
” یہ کیا ہو رہا ہے ؟؟” ان کی دبنگ آواز پر سویرا اور فرزانہ دونوں چونک اٹھیں
“شاہ بی بی سب کا ناشتہ تیار کروایا جارہا ہے آخر صبح کا وقت ہے ۔۔۔” فرزانہ نے کھڑے ہوتے ہوئے کہا
” رخسار کدھر ہے ؟؟ ” انہوں نے سوال کیا
” میری بہو اس وقت تک اپنے کمرے سے نہیں
نکلے گی جب تک اس منحوس سویرا کا وجود اس گھر سے دفعان نہیں ہو جاتا ۔۔ ”
” سویرا بیٹی تم اپنا اور شہریار کا ناشتہ لیکر اپنے کمرے میں چلو اور مائی تم ناشتہ بنا کر سب کے کمروں میں پہنچا دو ۔۔۔” وہ حکم دیتی ہوئی فرزانہ کو تنبیہہ کرتی نظروں سے گھورتی ہوئی باہر نکل گئیں
________________________________________
سویرا خاموشی سے ٹرے میں ناشتے کے لوازمات رکھنے لگی پھر فریش اورنج جوس نکال کر ٹرے اٹھاتی ہوئی باہر نکل گئی
شہریار سویرا کے کمرے سے نکلتے ہی اٹھ گیا تھا اور ابھی باہر سے جاگنگ کرکے آنے کے بعد نہا کر باہر نکلا ہی تھا کہ سویرا ہاتھوں میں بھاری ٹرے اٹھائے اندر داخل ہوئی اور اسے بنا شرٹ کے دیکھ کر سٹپٹا گئی اور رخ موڑ کر کھڑی ہو گئی
” کیا بدتمیزی ہے تمہیں اتنی بھی تمیز نہیں کے کسی کے کمرے میں اجازت لیکر آتے ہیں ۔۔۔” وہ اسے دیکھ کر تپ گیا
” وہ وہ ۔۔۔وہ ۔۔۔” سویرا ٹھیک ٹھاک گھبرا گئی
“وہ وہ کیا ؟؟ ” وہ اس کے قریب آیا اور ٹرے سے جوس کا گلاس اٹھاتے ہوئے اس کے گھبرائے ہوئے وجود کو بغور دیکھا وہ نظریں جھکائے ہوئے کھڑی تھی ماتھے پر پسینہ چمک رہا تھا وہ اس سے گھبرا رہی تھی
” شاہ بی بی نے ناشتہ بھیجا ہے ۔۔۔” وہ بمشکل بولی
” ٹھیک ہے تو اب کیا میں کھڑے کھڑے ناشتہ کرونگا ؟؟ ”
وہ بوکھلا کر نفی میں سر ہلاتی ہوئی میز کی طرف بڑھی ناشتے کی ٹرے کمرے کے وسط میں بچھی شیشے کی میز پر رکھ کر وہ برتن سیٹ کرنے لگی مجال ہے جو اس نے نظریں اٹھائیں ہوں
” ہونہہ دبو ٹیپیکل اعتماد سے عاری ۔۔۔” وہ بڑبڑایا
” آپ کا ناشتہ ۔۔۔” اس نے نظریں جھکا کر کہا
وہ آرام سے ٹی شرٹ پہنتا ہوا آکر صوفہ پر بیٹھا اور پلیٹ اٹھائی
” سنو لڑکی !! کل شام روانگی ہے پیکنگ کر لینا اب تم جا سکتی ہو ۔ ۔۔”
سویرا نا سمجھی سے اسے دیکھتی ہوئی باہر نکل گئی اس کو سمجھ نہیں آئی تھیں کہ وہ کس کی پیکنگ کی بات کررہا تھا ۔۔۔
شہریار ناشتے سے فارغ ہونے کے بعد تیار ہو کر باہر نکلا اس کا ارادہ اسپتال میں اکرم بھائی کی عیادت کے بعد شاپنگ کا تھا وہ عروہ کے لئیے کچھ شاپنگ کرنا چاہ رہا تھا ابھی وہ کمرے سے باہر نکلا ہی تھا کہ مائی اس کے پاس آئی
” سرکار آپ کو شاہ بی بی یاد کررہی ہیں ۔ ”
وہ سر ہلاتے ہوئے شاہ بی بی کے کمرے میں آیا جہاں اس وقت بابا سائیں اماں اور سویرا سب موجود تھے چائے کا دور چل رہا تھا وہ سلام کرتے ہوئے شاہ بی بی کے پاس آکر بیٹھ گیا
” اماں رخسار آپی کدھر ہیں آج صبح بسے نظر نہیں آئیں ؟ ” اس نے کمرے میں نظر دوڑائیں
” شیرو وہ رخسار اسپتال گئی ہے اکرم کے پاس ۔۔۔” زاہدہ نے بات سنبھالتے ہوئے کہا
” شہریار بیٹا !! ” شاہ بی بی نے سنجیدگی سے اسے مخاطب کیا
” جی شاہ بی بی حکم ۔۔۔۔” وہ سینے پر ہاتھ رکھتے ہوئے شرارت سے ان کی طرف جھکا
” بیٹا تم نے اپنی دلہن کو رونمائی میں کیا دیا ؟ ” انہوں نے سوال کیا
شہریار چپ سا ہوگیا اس کے جبڑے بھینچے ہوئے تھے جیسے غصہ برداشت کررہا ہوں
” خیر تمہیں رسموں رواجوں کا کیا پتہ !! زاہدہ میرے الماری سے کنگن نکالو اور سویرا بیٹی ادھر آؤ ۔۔ ” انہوں نے سویرا کو بلا کر شہریار کے ساتھ بٹھایا
زاہدہ نے ان کی الماری سے بیش قیمت جڑاؤ کنگن نکال کر شاہ بی بی کے ہاتھ میں دئیے
” یہ لو اپنی دلہن کو گفٹ کرو ۔۔ ” شاہ بی بی نے کنگن اس کی جانب بڑھائے
شہریار نے خاموشی سے کنگن تھامے اور سویرا کی جانب بڑھائے ہی تھے کہ شاہ بی بی نے اسے ٹوکا
” شیرو دلہن کو ایسے تحفہ نہیں دیا جاتا تم یہ کنگن اپنی دلہن کو اپنے ہاتھوں سے پہناؤ اس سے محبت بڑھتی ہے ۔۔۔”
اس نے ایک گہرا سانس لیکر بڑی کوفت سے اپنے ہاتھوں میں موجود کنگن دیکھے اور پھر تیزی سے سویرا کی گود میں رکھا ہوا اس کا دودھیا حنائی ہاتھ تھام کر کنگن پہنا دئیے
” ذرا دیکھو تو تمہاری دلہن کا ہاتھ تو ماشاءاللہ سے سج سا گیا ہے ۔۔۔” زاہدہ نے پیار سے کہا
شہریار نے ایک اچٹتی سی نظر اس کے ہاتھ پر ڈالی مہندی کے گل بوٹوں سے سجا نازک سا ہاتھ جس میں اس کے پہنائے کنگن آب و تاب سے جگمگا رہے تھے
” سویرا بیٹی !! یہ کنگن تمہارے سر کے سائیں نے پہنائے ہیں اب مرتے دم تک ان کو مت اتارنا یہ تمہارے سہاگ کی نشانی ہیں ۔۔ ” شاہ بی بی نے اسے حکم دیا ۔۔
” شاہ بی بی اب میں چلوں ؟ اکرم بھائی سے ملنا ہے ، کچھ کام نبٹانے ہیں پھر کل کی فلائٹ ہے ۔۔۔” وہ کھڑا ہوا
” چلو ٹھیک ہے تم آرام سے بے فکر ہو کر اپنے کام کروں رات کے کھانے تک ضرور آجانا ۔۔۔” شاہ بی بی نے اسے پیار سے کہا
________________________________________