اب کیا ہو گا زاروو۔۔۔ علیشہ پھر سے ناخن چبا رہی تھی۔
اوفوہ پہلے یہ گندی حرکتیں کرنا بند کرو مجھے کچھ سوچنے دو۔ اور تمہیں کس نے کہا تھا کہ معاذ چوہدری کو دیکھ کر چیخنا شروع کر دو۔
آہا ہاں جیسے کہ تم تو چپ شاہ کا روزہ رکھے ہوۓ تھی نہ۔
تم بھی تو چیخی تھی۔ علیشہ نے زور سے اس کے بازو پہ دھموکہ جڑا۔
زارا بی بی علیشہ بی بی آپکو زرک صاحب بلا رہے ہیں۔
اچھا ہم آتے ہیں۔
زاروو زارووو اب کیا ہو گا۔ ادا تو ہمیں نہیں چھوڑنے والے۔
عالی اوور ری ایکٹ مت کرو۔
چلو اب نیچے۔۔۔
زارا علیشہ رکو۔۔۔ وہ دونوں چپکے سے کچن میں جا رہی تھیں کہ زرک کی آواز پہ رک گٸیں۔
جج جی ادا۔!!!!!
یہ کیا حرکت تھی ہمم۔۔۔
سس سوری ادا وہ ہہ ہم نے چھپکلی دیکھی تھی تو ہم ڈر گٸ تھیں۔
اوہ اچھا تو چھپکلی کا نام کیا معاذ چوہدری تھا جو تم لوگ اس کا نام لے کر چیخ رہی تھی۔
سس سوری ادا اب اگر ہم اتنے بڑے سٹار کو اپنے گھر میں دیکھیں گے تو ایسے ری ایکٹ تو کریں گے ہی نہ اور پھر آپ نے ہمیں بتایا بھی تو نہیں تھا نہ کہ آپ کے فرینڈ سپر سٹار ہیں۔
اور علیشہ تو اس کی ایکٹنگ پہ خوب داد دے رہی تھی۔
ورنہ زارا اور معاذ کے لیے اس طرح کہے ناممکن۔
ضرورت کے وقت گدھے کو باپ بنانے والی مثال زارا بی بی پہ بالکل صادق آتی تھی۔
میں تم لوگوں کو وارن کر رہا ہوں مزید کوٸ ایسی حرکت میں برداشت نہیں کروں گا اورجوس لے کر آٶ۔
جی ادا۔۔۔زرک واپس ڈراٸنگ روم میں چلا گیا۔
شکر الحَمْدُ ِلله اللہ پاک نے بچا لیا۔
ویسے عالی بچایا تو میں نے بھی ہے پر تم ہو بہت احسان فراموش۔۔۔۔۔۔
تمہیں تو میں بتاتی ہوں۔
بعد میں بتانا سنا نہیں ادا نے کیا کہا ہے جوس لے کر آٶ۔ زارا کہہ کر چلتی بنی۔
مجھے نہیں کہا ادا نے۔۔۔۔ علیشہ پیچھے سے چیختی رہ گٸ۔ مگر زارااسے ٹھینگا دکھاتی وہاں سے بھاگ گٸ تھی۔
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*
علیشہ جوس لیے ڈراٸنگ روم میں آٸ تھی۔
اماں اور تاٸ اماں ان سے مل کر چلی گٸ تھیں انہیں زرک کے سسرال جانا تھا۔
علیشہ نے معاذ اور زرک کو جوس سرو کیا اب وہ دںسری طرف بیٹھے زرک کے دوست کو جوس سرو کر رہی تھی۔
تبھی اس نے فون سے اپنا سر اٹھایا تھا علیشہ کی اب اس پہ نظر پڑی تھی۔
اس کے ہاتھ میں ٹرے کانپی تھی اور سنبھلتے سنبھلتے بھی جوس اس کے کپڑوں پہ گر گیا تھا۔
وہ فوراً کھڑا ہوا تھا۔
اور علیشہ کا دل چاہا تھا کہ وہ وہاں سے غاٸب ہو جاۓ۔
آآ آٸ ایم سو سوری غلطی سے گرا وہ میں۔۔۔
علیشہ رونے والی ہو گٸ تھی اس کی آنکھیں بھر آٸ تھیں۔
اٹس اوکے۔
اس نے ایک نظر اسے دیکھا تھا اور پھر توجہ اپنے کپڑوں پہ کر لی تھی۔
اسے الجھن تھی گندے کپڑوں سے اور اب یہ لڑکی اس کو جوس سے نہلا چکی تھی۔
آٸ ایم سوری ادا وہ میں۔۔۔غلطی۔۔۔
وہ فوراً وہاں سے بھاگ آٸ تھی۔
اور ضبط کرتا داٶد اسے دیکھ کر رہ گیا تھا۔
دوسری بار یہ لڑکی اس کے کپڑوں کو خراب کر چکی تھی۔
ام سوری داٶدوہ ۔۔۔
اٹس اوکے زرک کوٸ بات نہیں میں چینج کر لیتا ہوں۔
ہاں چلو میں تمہیں روم تک چھوڑ دوں۔
اوکے۔
زرک غصہ دباتا اس کے ساتھ چل دیا۔
وہ ابھی تھوڑے سے آگے گۓ تھے کہ زرک بولا ایسا کرتا ہوں معاذ کو بھی بلا لیتا ہوں روم میں ہی باتیں کرتے ہیں۔
اوکے۔۔۔
تم ایسا کرو آگے لیفٹ سے سیکنڈ روم میں چلے جانا۔
زرک واپس چلا گیا جبکہ داٶد آگے چل دیا۔
وہ روم کی طرف جا رہا تھا کہ اسے رونے کی آواز آٸ۔
زاروو سچ میں میں نے جان بوجھ کر نہیں کیا۔ ادا تو پکا مجھے جان سے مار دیں گے۔
تمہیں پتا ہے یہ وہی ہے جس پر یونیورسٹی میں میں نے چاۓ گرا دی تھی۔ بٹ آٸ سوٸیر وہ بھی غلطی سے گری تھی۔ میری غلطی نہیں تھی۔
علیشہ بھاں بھاں کر کے روۓ جا رہی تھی۔
ٹشو سے ناک رگڑنے کی وجہ سے اس کی ناک سرخ اور مسلسل رونے سے کاجل بہ کر اس کا چہرہ کالا کر رہا تھا۔
دیکھو عالی۔۔۔
زارا نے اسکی طرف دیکھا اور ڈر کے دوسری ساٸیڈ مڑ گٸ۔
عالی اوکے غلطی ہو گٸ کوئی بات نہیں ایسا سب کے ساتھ ہی ہو جاتا ہے۔
اور تم زرک ادا کو مت بتانا نہ کہ تم ان کے فرینڈ پہ چاۓ بھی گرا چکی ہو۔
اور ایک بات اور یہ گناہ تم پہ نہیں آ سکتا کیونکہ جب تم نے چاۓ گراٸ تھی تب تو تمہیں نہیں پتا تھا نہ کہ وہ زرک ادا کے فرینڈ ہیں۔
اب ریلیکس ہو جاٶ اور تھوڑی سی ڈھیٹ بھی کیونکہ ابھی تمہاری کتے والی ہونی ہے۔
اور ٹینشن نہ لو میں نے ایک بار اپنے باس پر کافی گرا دی تھی بٹ اٹس نارمل یار یو جسٹ چِل۔۔
ہاں یہ نارمل ہے اسی لیے تمہارا سڑا ہوا باس اب تمہیں چھٹی بھی نہیں دیتا اور یار میرا کیا ہو گا۔
جو بھی ہو گا بعد میں ہو گا پر پلیز ابھی منہ دھو لو بالکل کالی ماتا لگ رہی ہو۔
زاروووو۔۔۔۔
اس نے روتے ہوۓ اس پہ کشن اچھالا تھا۔
اور دروازے میں کھڑا داٶد مسکرا کر آگے بڑھ گیا تھا۔
وہ جو بھی کوٸی تھی بولتی بہت اچھا تھی۔
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*
زرک معاذ اور داٶد بیسٹ فرینڈز تھے۔ یہ لوگ کالج میں ایک دوسرے کے دوست بنے تھے اور پھر وقت نے انکی دوستی مزید مضبوط کی تھی۔
داٶد کے والدین ایک کار ایکسیڈنٹ میں مارے گۓ تھے۔
تب سے وہ اکیلا ہی تھا زندگی سے روٹھا ہوا خوشیوں سے دور لوگوں سے ملتا جلتا بھی کم تھا ۔ اس کی صرف دو ہی لوگوں سے بات چیت تھی۔ وہ تھے معاذ اور زرک۔
ان ہی کی کوششوں سے وہ زندگی کی طرف آیا تھا۔
پڑھاٸ کے بعد یہ تینوں ہی الگ الگ فیلڈ میں چلے گۓ تھے۔
زرک انجینٸیر معاذ سنگر جبکہ داٶد پروفیسر تھا۔
تینوں ہی اپنی اپنی فیلڈ کے کامیاب لوگ تھے۔
مگر ان میں خوش اور مطمٸن صرف زرک ہی تھا اپنی فیملی کی وجہ سے۔
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*
زرک نے دونوں کی ہی خوب کلاس لی تھی۔
مگر پھر علیشہ کے رونے کی وجہ سے وہ نرم پڑ گیا تھا۔
اسے اپنی یہ کزن اپنی بہن کی طرح ہی عزیز تھی۔
زارا علیشہ سے دو سال چھوٹی تھی سو دو سال تک زرک کی محبت اکیلی علیشہ نے ہی سمیٹی تھی۔
وہ دونوں بہنوں کے لیے ہی ٹچی تھا تبھی کچھ کہہ نہ پاتا تھا۔
رات کے کھانے پہ معاذ اور داٶد کی ملاقات سب سے ہوٸ تھی اور سارے عرصے میں علیشہ نظریں جھکاۓ خاموش بیٹھی رہی تھی۔
معاذ اور داٶد نے اگلے دن سے سارا کام سنبھال لیا تھا۔ لگ ہی نہیں رہا تھا کہ وہ کوٸ مہمان آۓ ہیں۔ سب کے ساتھ گھلتے ملتے انہی کی فیملی کا حصہ بن گۓ تھے۔
معاذ نے ڈیکوریشن وغیرہ کا سارا ذمہ خود پہ لیا تھا۔
جبکہ عالی زارا اور اماں چچی کو بازار لانا لے جانا داٶد کی ذمہ داری تھی۔
زرک بابا اور چچا کے ساتھ کارڈز بانٹ رہا تھا۔
معاذ کو کام کرتے گھلتے ملتے دیکھ کر زارا حیران تھی کہ یہ وہی بندہ ہے جو ہر وقت ایٹیٹیوڈ میں رہتا ہے۔
خیر معاذ کے سامنے زارا بالکل علیشہ ہی کی طرح بی ہیو کر رہی تھی۔
ہر چیز میں چوزی اور نخریلی۔
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*
دن کے سارے کاموں سے تھک ہار کر وہ لوگ ڈھولک بجانے لگ جاتے تھے۔
گھر کے بڑے سب سونے چلے جاتے تھے جبکہ ینگ پارٹی وِد مازمین کے گانے گاتے ڈھولک بجاتے رہتے تھے۔
معاذ ظاہر ہے سنگر تھا سو ذیادہ تر گانے وہی گاتا تھا اور مسلسل پانچ دنوں سے گانا کا نتیجہ یہ نکلا تھا کہ آج اسکا گلا خراب ہو گیا تھا۔
زرک اور داٶد دونوں ہی بے سُرے تھے تو ڈھولک زارا نے سنبھال لی۔
چلو عالی آج تم اپنی فیورٹ غزل سناٶ۔
نہیں مجھے نہیں آتی۔
کم آن عالی، ادا آپ کہیں نہ عالی کو۔
اچھا زارا تم تو پیچھے ہی پڑ جاتی ہو۔
چلو عالی آج زری کی فرماٸش پوری کر دو۔
اچھا سناتی ہوں۔۔۔
سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں
سو اس کے شہر میں کچھ دن ٹھہر کے دیکھتے ہیں
سناہے ربط ہے اسکو خراب حالوں سے
سو اپنے آپ کو برباد کر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے غم کی گھاک ہے چشمِ ناز اسکی
سو ہم بھی اسکی گلی سے گزر کر دیکھتے ہیں
سنا ہے اسکو بھی ہے شعر و شاعری سے شغف
سو ہم بھی معجزے اپنے ہنر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے بات کرے تو پھول جھڑتے ہیں
اگر ایسی بات ہے تو چلو بات کر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے رات اسے چاند تکتا رہتا ہے
ستارے بامِ فلک سے اتر کر دیکھتے ہیں
وہ غزل ختم کر چکی تھی اور کوٸ اسے سن کر مسمراٸز ہو چکا تھا۔
اس نے اتنا خوبصورت انداز کبھی کسی کا نہ دیکھا تھا۔
واٶ عالی جتنی تم نخریلی بددماغ اوربرینڈ کانشس ہو تمہیں دیکھ کر لگتا نہیں کہ تمہیں شاعری بھی آتی ہے۔
زارا یہ کونسا انداز تھا تعریف کرنے کا۔
اس نے گھورتے ہوۓ پوچھا۔
اٹس آ زاراسٹاٸل۔
اب چو مجھے نیند آ رہی ہے۔
زارا اسے زبردستی اٹھا کر لے گٸ تھی۔
کسی کی نظروں نے دور تک اسکا پیچھا کیا تھا۔
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*
اماں اماں ادا کہاں پر ہیں۔۔؟؟؟
وہ باہر گیا ہے کیا کام ہے۔۔؟؟
وہ اماں اوپر تاروں ایک بلی پھنس گٸ ہے آپ غفور کو کہیں یا پھر اسد کو کہ اسے نکالے۔
وہ مصروف ہیں تم رہنے دو وہ نکل جاۓ گی خود ہی۔
مگر اماں۔۔۔۔
زری تنگ نہیں کرو۔
اوکے۔
زارا پیر پٹختی وہاں سے چلی گٸ۔
داٶد زارا کو ڈھونڈ رہا تھا اسے کچھ کام تھا مگر اب وہ مل ہی نہیں رہی تھی۔
وہ باہر لان کی طرف نکل آیا۔
ایکسیوز می۔۔۔۔
یس۔۔۔ پانی کا پاٸپ اٹھاۓ علیشہ پیچھے مڑی تھی اور ایک بار پھر داٶد کو پورا بھگو چکی تھی۔
آٸ ایم سو سوری پلیز سوری مجھے پتا نہیں تھا آپ میرے پیچھے کھڑے ہیں۔
یا اللہ آپ پلیز ۔۔میں ابھی آپ کے کپڑے پریس کروا دیتی ہوں۔
آپ رہنے دیں۔۔۔۔
داٶد پیچھے ہٹتے بولا۔ یہ تو طے تھا کہ اسے جب بھی علیشہ سے ملنا تھا علیشہ نے اسے بھگونا ہی تھا۔
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*
زارا مشکل سے چڑھتی ہوٸ کبوتر کو نکال رہی تھی۔
اسکی ٹریننگ آج اسکے کام آرہی تھی۔
وہ ہاتھ بڑھا کے اسے اٹھانا چاہ رہی تھی مگر بلی ڈر کے مارے اور ہی الجھتی جا رہی تھی۔
زارا تھوڑی اور آگے کو ہوٸ اب وہ گرل میں پاٶں پھنساۓ آگے لگی تاروں کو پکڑ چکی تھی۔
شکر تھا کہ وہ تاریں کٹی ہوٸی تھیں اور درخت پہ الجھی ہوٸ تھیں۔
پندرہ بیس تاریں ہونے کی وجہ سے وہ باآسانی ان پر چڑھ سکتی تھی مگر اس کا کچھ اندازہ نہ تھا تاریں دونوں طرف سے ہی درختوں میں الجھی تھیں اور اسکے وزن سے گر سکتی تھیں۔
معاذ کسی کام سے اوپر آیا تو زارا کو لٹکتا ہوا پایا۔
زارااا یہ کیا کر رہی ہو؟؟؟؟
اوہ معاذ شکر ہے آپ آ گۓ۔ پلیز ذرا یہ بلی کو پکڑیں۔ اس نے لٹکتے ہوۓ ہی بلی کو پکڑا اور معاذ کے ہاتھ میں دیا۔
معاذ نے دیوار پہ بیٹھ کر بلی کو پکڑا۔
زارا کو لٹکتا دیکھ کر معاذ کا سانس اوپر کا نیچے اور نیچے کا اوپر ہو گیا تھا۔
زارا تم گر جاٶ گی۔
آپ کہیں گے نہیں تو میں گروں گی نہیں۔
وہ تاریں پکڑے ہوۓ دیوار کی ساٸیڈ ہو رہی تھی کو تاریں درخت سے نیچے گری تھیں۔
اس سے پہلے کہ زارا گر جاتی معاذ نے فوراً اس کا ہاتھ پکڑ لیا تھا۔
میں نے کہا تو تھا کہ گر جاٶ گی۔
میں نے بھی تو کہا تھا کہ آپ نہیں کہیں گے تو نہیں گروں گی۔
زارا پھولی سانسوں کے درمیان بولی۔
اب مدد کر ہی رہے ہیں تو گھر والوں کی نظر پڑنے سے پہلے اوپر کھینچ بھی لیں۔
اوہ سوری۔۔۔۔
معاذ نے ایک جھٹکے سے اسے اوپر کھینچ لیا۔
وہ فوراً نیچے بیٹھ کر بلی کا جاٸزہ لینے لگی اسے کچھ چوٹ تو نہیں لگی۔
معاذ حیرت سے اسے دیکھ رہا تھا ابھی وہ گرتے گرتے بچی تھی۔ اور دیکھ وہ بلی کو رہی تھی۔
وہ کندھے اچکا کر نیچے چلا گیا۔
عالی تم نے منہ بنانے کا کیا ریکارڈ بنانا ہے؟؟؟
زارا کمرے میں آٸ تو عالی پھر سے منہ بنا کے بیٹھی تھی۔
اچھا بتاٶ اب کیا ہوا۔۔؟؟؟
عالی نے پر شکوہ نظروں سے دیکھا تو زارا اسکے پاس بیٹھ گٸ۔
کیا ہوا عالی کسی نے کچھ کہا ہے کیا؟؟؟
زاروو میں نے پھر سے ادا کے دوست پہ پانی گرا دیا اور وہ بھی پاٸپ سے۔۔۔
علیشہ منہ بنا کے بولی۔
اوہ تو یہ بات ہے۔
دیکھو عالی وہ اچھے خاصے بڑے ہو چکے ہیں وہ خود نہا سکتے ہیں تمہیں ان پہ پاٸپ لگا کر پانی ڈالنے کی کیا ضرورت تھی۔۔۔ زارا سنجیدگی سے بولی۔
مگر میں تو۔۔۔۔۔ زارا کی بچی دفع ہو جاٶ تم۔۔
اسے جب اسکی بات کی سمجھ آٸ تو زور سے کشن مارا اسکو۔
ہاہاہا تو تمہیں کون کہتا ہے کہ تم سارے گھر والوں کو چھوڑ کر اس بیچارے کے پیچھے پڑ جاٶ۔ یار وہ مہمان آیا ہے واپس چلا جاۓ گا تم بھگانا کیوں چاہتی ہو ہممم۔
زارا تم مر جاٶ گی میرے ہاتھوں۔۔۔
اوکے تم خوابوں میں قتل کرو میں تو چلی۔۔۔
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...