نصرت ظہیر اردو کے واحد ایسے طنز و مزاح نگار ہیں جو موجودہ عہد میں یونان کے ارسٹوفینز اور اینگلوآئرش جوناتھن سوفٹ کی روایت کی توسیع کر رہے ہیں اور پولیٹکل سٹائر کا علم بلند کیے ہوئے ہیں۔ ان کے سیاسی طنزیے ان کی قوت ادراک کا مکمل ثبوت ہیں۔
نصرت ظہیر کے سیاسی طنزیے پر گفتگو سے پہلے طنز کے آفاق اور اس کے متعلقہ اطراف پر نگاہ ڈالنا ضروری ہے کہ اس کے بغیر نصرت ظہیر کے طنز و مزاح کی معنویت منکشف نہیں ہوسکتی۔طنز Satireکا مترادف لفظ ہے جو Satura Lanx Latinسے ماخوذ ہے۔Latin Satura Lanxکا معنی رنگین پھلوں کی طشتری ہے۔ یہ لفظ پہلے خالص ادبی معنوں میں استعمال ہوتا تھا لیکن فوراً ہی اپنے اصل مفہوم کے دائرے سے نکل کر وسیع معنوں میں استعمال ہونے لگا کیوں کہ یہ لفظ اسم ہے اور بقول Robert Elliottجیسے ہی کوئی اسم، استعارہ کے Domainمیں آتا ہے یا استعارہ کے طور پر استعمال ہونے لگتا ہے تو اس کے مفہوم میں وسعت پیدا ہو جاتی ہے،اس طرح Satireکے کئی پہلو وجود میں آ گئے۔
قدیم انگریزی لفظ Satireکا تعلق Latin Satura Lanxسے تھا لیکن “Satirize” اور”Satiric” وغیرہ Greekزبان کے الفاظ ہیں۔ چوتھی صدی کے قریب Satireکے مصنف کو Satyricusکہا جاتا تھا۔مثلاً اسی صدی میں St.Jeromکے حریفوں میں سے ایک انہیں Satyricus Scriptor in Prosa(A Satirist in Prose) کہتا تھا۔بعد ازاں Latin satura Laxnعلم ہجہ میں ترمیم ہو کر Satireبن گیا۔اس جدید لفظ satireکااستعمال کئی formsمیں ہونے لگا۔مثلاً ڈرامائی، میڈیائی اور نشریاتی وغیرہ۔Satireکا استعمال رفتہ رفتہ کئی مقاصد کے لئے بھی ہونے لگا۔،مثلاً ایتھنز میں سیاسی رائے عامہ بحال کرنے میں سیاسی طنز نگار Aristophanesکی شاعری اور ڈراموں نے غیر معمولی رول ادا کیا۔
طنز کے ابتدائی نمونے قدیم 2nd Millennium BC میں مصر میں ملتے ہیں جس کا استعمال ان طالب علموں کے لئے کیا جاتا تھا جو پڑھتے پڑھتے تھک جاتے تھے۔Papyrus Anastasis 1اس وقت کا مشہور طنز نگار تھا۔
مشرق وسطی میں عربی اور فارسی کے طنز نگار بہت مشہور تھے۔عربی شاعری میں طنز کو ہجو کہا جاتا تھا۔نویں صدی میں الجاحظ نے عربی نثر میں طنزیہ اسلوب ایجاد کیا تھا۔ان کے طنز کے موضوعات سماجیات، بشریات اورنفسیات وغیرہ تھے۔ارسطو کی شعریات کو جب عربی میں ترجمہ کیا گیا تو عربی کے طنز کو ComedyاورSatireکے مترادف تسلیم کر لیا گیا۔چودہویں صدی میں عبید زاکانی نے طنز کو فارسی میں متعارف کرایا۔اس کے طنز زیادہ تر سیاسی اورHomosexualityسے تعلق رکھتے تھے۔
The Elizabethanدور میں طنز عام طور پرPamphlet formمیں ہوتا تھا جس میں نشتریت کے بجائے سیدھی گالی ہوتی تھی۔لیکن فرنچ مصنف Huguenot Issac Casaubonنے 1605 میں طنز کو پہلے سے زیادہ مہذب تصور کیا اور civilisedاسلوب میں پیش کیا۔اینگلو آئیرِش مصنّفین میں Jonathan Swiftپہلا شخص تھا جس نے جدید Journalistic satireلکھنا شروع کیا۔
The Sot Weed Factorکے مصنف Ebenzer Cookeان لوگوں میں سے تھا جنہوں نے برطانوی نوآبادیات میں طنز کو متعارف کرایا۔اس کے ہم عصر طنز نگاروں کے طنز کا استعمال ملک کے ظہور پذیر تہذیب کو بہتر صورت میں ڈھالنے کے لئے اور اخلاقی قدروں کو بحال کرنے کے لئے کیا گیا تھا۔وکٹوریائی دور میں طنزیہ ناول نگار Charles Dickensوغیرہ نے اپنے طنزیہ عبارتوں کے ذریعہ سماجی مسئلوں کو پیش کیا۔
بیسویں صدی میں جارج آرویل اورالڈوس ہکسے جیسے مشہور مصنفوں نے طنز کا استعمال یوروپ اور امریکہ میں خطرناک اور خاموشی سے ہونے والی سماجی تبدیلی پر تشویش ناک اور ڈراؤنی نشریات پر کیا۔Joseph Hellerکی مشہور تخلیقCatch-22, Satirize bureaucracyاس دور کا بہت بڑا ادبی کارنامہ ہے۔Sinclair Lewisکی کہانیاں ہم عصر امریکی قدروں پر گہرا طنز کرتی ہیں۔
مزاح، ظرافت، طنز، ہجو اور پیروڈی کی روایت بہت قدیم ہے۔ عربی، فارسی اور انگریزی ادب کے وسیلے سے اردو ادب میں آئی۔ اردو شاعری کے ابتدائی دور سے آج تک اردو کا شاید ہی کوئی ایسا شاعر ہو گا جس نے واعظ و ناصح اور اس طرح کے دوسرے افراد کو طنز و مزاح کا نشانہ نہ بنایا ہو لیکن اس کا باقاعدہ آغاز سترھویں صدی میں عہد عالمگیری کے ایک بے باک اور بے لگام شاعر اور ہجو نگار جعفر زٹلی کے ہاتھوں ہوا ہے اس نے ہر خاص و عام کو اپنے طنز و تضحیک کا نشانہ بنایا لیکن زٹلی کی ہجویہ شاعری میں عامیانہ پن، پھکڑ پن اور ابتذال کی زیادتی حد سے زیادہ ہے لہٰذا ان کی طنزیہ شاعری کی اہمیت کم تر ہو گئی ہے۔ جعفر زٹلی کے بعد سودا بہ حیثیت ظرافت نگار خاص اہمیت کے حامل ہیں۔ سوداؔ کی ظرافت نگاری کا بڑا حصہ ان کی ہجویہ شاعری میں نمایا ں ہے۔ ہجو نگاری اس عہد کی سماجی نا انصافیوں اور بے اعتدالیوں کے ردِّ عمل کا نتیجہ ہے لیکن اس سے اصلاحی مقصد پورا نہیں ہوتا کیوں کہ ہجو یہ شاعری میں ہمدردی و غمخواری کے بجائے حقارت و نفرت زیادہ ہوتی ہے۔ سوداؔکے بعد انشاء کی شاعری میں بھی ظرافت بہت پائی جاتی ہے۔ قدیم شعراء میں غالبؔ اور نظیر اکبر آبادی کے یہاں بھی طنز و مزاح کے عمدہ نمونے ملتے ہیں۔ غالبؔ کے مقابلے میں نظیرؔ کی شاعری میں طنز کم ہے لیکن ظرافت و مزاح زیادہ ہے۔ غالبؔ کی شاعری میں ظرافت کے ساتھ ساتھ طنزیہ شاعری کے نادر اور لطیف نمونے پائے جاتے ہیں پھر بھی غالبؔ کو طنز و مزاح کا شاعر ہرگز قرار نہیں دیا جاسکتا ہے کیوں کہ ان کی شاعری میں طنز و مزاح کی حیثیت جزوی ہے۔ اردو شاعری کی تاریخ میں اکبرؔسے بڑا حیوانِ ظریف آج تک پیدا نہیں ہو سکا۔ اکبر کے مزاج کو طنز و مزاح سے ایک خاص مناسبت تھی۔ اتفاق سے انھیں طنزیہ شاعری کے لیے سازگار ماحول بھی ملا۔ اکبرؔ کی طنزیہ شاعری سے اقبالؔ جیسا عظیم مفکر اور قادر الکلام شاعر بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکا کیونکہ شاعری کی مدد سے سماج کی بے اعتدالیوں اور کمزوریوں کو دور کرنا اور قوم کی اصلاح کرنا آسان کام ہے۔ اکبرؔ کے بعد سے آج تک متعدد شاعروں نے اکبرؔ کی تقلید کر نے کی کوشش کی لیکن کسی کو بھی اکبرؔ جیسا بلند مرتبہ نہیں ملا۔ ویسے اکبرؔ کے بعد طنز و مزاح کے شاعروں میں ظریفؔ لکھنوی،بومؔ میرٹھی، شوقؔ بہرائچوی، احمقؔ پھپھوندوی، فرقتؔ کاکوروی، ظریفؔ دہلوی، راجہ مہدی علی خان سے لے کر شیخ نذیر، ضمیر جعفری، مجید لاہوری، واہی، سید محمد جعفری، دلاور فگار اور شہبازؔ امرو ہوی وغیرہ بھی شامل ہیں۔ اودھ پنچ میں لکھنے والے مزاحیہ طنزیہ نثرنگاروں میں منشی سجادحسین، احمد علی شوق،سید محمد آزاد،رتن ناتھ سرشار،تربھون ناتھ ہجر،جوالا پرشاد برق، عبدالغفور شہباز، مچھو بیگ ستم ظریف،احمد علی کسمنڈوی، محفوظ علی بدایونی اور امید علی امیٹھیوی وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔ طنز و مزاح کا استعمال شاعری اور ادبی نثر کے علاوہ صحافتی نثر و نظم میں بھی کیا گیا اور ادبی رسالوں، ہفت روزہ پرچوں اور روزناموں میں فکاہیہ کالم لکھے گئے جو بے حد مشہور ہوئے۔ان فکاہیہ نگاروں میں ریاض خیر آبادی، سند باد جہازی، حاجی لق لق، مجید لاہوری، سالک بٹالوی، شاہد صدیقی وغیرہ خاص تھے۔آزادی کے پیشتر طنز و مزاح نگاروں کی ایک جماعت جن کے یہاں مزاح کے مقابلے میں طنز کا عنصر زیادہ تھا ایسے مصنفوں میں فرحت اﷲ بیگ،سجّاد انصاری، سلطان حیدر جوش،ظفر علی خان،رشید احمد صدیقی،کنہیا لال کپور وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ ایک دوسری جماعت جو محض تفریح کے لئے مزاحیہ نثر لکھتی تھی ان میں ملّا رموزی،عظیم بیگ چغتائی، شوکت تھانوی، امتیاز علی تاج،شفیق الرحمٰن اور پطرس بخاری وغیرہ خاص تھے۔ان طنز و مزاح نگاروں میں فکرتونسوی، دلیپ سنگھ،مولانا ابوالکلام آزاد اس اعتبار سے مختلف تھے کہ ان کے یہاں خالص طنز ہے۔
آزادی کے بعد کے نثری طنز و مزاح نگاروں میں ظ انصاری، ابراہیم جلیس، یوسف ناظم، احمد جمال پاشا،مشفق خواجہ اور تخلص بھوپالی، کرنل محمد خان، مشتاق احمد یوسفی، وجاہت علی سندیلوی،بھارت چند کھنّہ،مجتبیٰ حسین اور خواجہ عبدالغفور وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ ان میں ہر ایک کی اپنی الگ حیثیت اور جداگانہ مقام ہے۔موجودہ دور میں اردو نظم و نثر کے طنز و مزاح نگاروں میں ساغر خیامی، انورسدید، خالد اختر،نرندر لوتھر،رحمٰن اکولوی، شکیل اعجاز،پرویز یداللہ مہدی،عظیم اختر،اسد رضا اور نصرت ظہیر وغیرہ کے یہاں اس فن کے روشن امکانات ہیں۔
طنزسے زیادہ Enlightedکرنے، گدگدانے یا پھر غصّہ دلانے والی چیز شاید ہی کوئی اور ہو۔ یہی وجہ ہے کہ ہزاروں برس پرانی ہونے کے بعد بھی طنز کے تاب و توانائی میں کوئی کمی نہیں آئی۔طنز و مزاح نگار، اس فن کا استعمال عام طور پر سماج میں ایک خاص قدر(Value) پیدا کرنے کے لئے کرتا ہے یا محض مزاح پیدا کرنے کے لئے بھی کر سکتا ہے۔ زندگی کی مضحک کیفیت یا ظاہری روئداد کا معائنہ یا مشاہدہ کر کے اس کا مذاق اڑانا ’’مزاح‘‘ ہے۔ صنف مزاح اپنے محدود دائرہ یعنی وقتی خوش طبعی اور بے ضرر دل لگی سے باہر نکلتی ہے اور اس کی تہ میں زندگی اور اس کے متعلقات کی مضحک اور ناہموار صورتوں سے دل آزاری، نفریں اور برہمی کا اظہار ہو تو اسے طنز کہتے ہیں۔ زندگی کی بیشتر ناہمواریاں اور کمزوریاں ایک عام انسان کی نظر سے اوجھل رہتی ہیں لیکن ایک حساس طبع اور دور بیں ادیب ان ناہمواریوں اور کمزوریوں کو بے حد قریب سے دیکھتا ہے اور پھر اپنے فقروں سے ان کا اس طرح مذاق اڑاتا ہے کہ اس کا مذاق تخلیقی پیرایہ اختیار کر لیتا ہے۔ مزاح کی خوبی یہ ہے کہ اس سے کسی کی تضحیک، دل شکنی یا تعریض نہیں ہوتی اور اگر ہوتی بھی ہے تو جس کا مذاق اڑایا جاتا ہے وہ اس مذاق سے لطف اندوز ہوتا ہے۔ طنز میں اصلاحی مقصد بھی پوشیدہ رہتا ہے۔ طنز کی خوبی یہ بھی ہے کہ جس شخص کو طنز کا نشانہ بنایا جاتا ہے وہ بظاہر ہنستا ہے لیکن اندر ہی اندر خجالت محسوس کر تا ہے۔طنز میں اس قدر میٹھی نشتریت ہوتی ہے کہ سننے والے کے دل میں اترتی چلی جاتی ہے۔ لیکن وہ آہ بھی نہیں کرتا بلکہ مسکراتا رہتا ہے۔ طنز کو مزاح پر فوقیت حاصل ہے کیونکہ مزاح کے مقابلے میں طنز کا اثر دیر پا ہوتا ہے۔ مزاح وقتی خوشی ومسرت دیتا ہے لیکن طنز خوشی ومسرت کے ساتھ ساتھ حالات کو بدل دینے کی ترغیب دیتا ہے۔
موجودہ دور میں نصرت ظہیر اپنے ہمعصروں سے اس لئے مختلف ہیں کہ ان کے یہاں سیاسی طنز سب سے زیادہ ہے۔ویسے ان کے کالم میں سماجی اور اخلاقی قدروں پر بھی طنز ملتا ہے لیکن وہ سیاسی طنزیہ کالم نگار کی حیثیت سے زیادہ مشہور ہو رہے ہیں کیوں کہ ان کے سیاسی کالم قاری کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ وہ ایک ایسے طنز و مزاح نگار ہیں جو ہمارے سماج میں ہونے والے واقعات و حادثات کے تمام پہلوؤں کو ایک خاص Aesthetic Distanceسے دیکھتے ہیں اور ان میں چھپے منفی پہلوؤں کو طنز و مزاح کے پیرائے میں اس طرح بیان کرتے ہیں کہ قاری ان کی تحریروں سے لطف اندوز بھی ہوتا ہے اور سماجی، سیاسی و معاشی ناہمواریوں، کمزوریوں، برائیوں اور شاطرانہ چالوں سے باخبر بھی۔
نشتریت طنز کا جوہر ہے۔نشتریت کی دو قسمیں ہوتی ہیں، لفظی نشتریت اور واقعاتی نشتریت۔جب کچھ کہا جائے لیکن وہ بے معنی ہو تو اسے لفظی نشتریت کہتے ہیں لیکن جب کوئی واقعہ یا Situationپیدا ہو لیکنLogicalنہیں ہو تو اسے واقعاتی یا Situationalنشتریت کہتے ہیں نشتریت ہی دراصل طنز میں مزاحیہ عناصر پیدا کرتی ہے۔نصرت ظہیر کے مضامین میں نشتریت کی یہ دونوں شکلیں پائی جاتی ہیں۔ وہ اپنے جملوں، فقروں اور لفظوں کے برمحل استعمال سے بھی بلا کا طنز و مزاح پیدا کرتے ہیں۔ ان کے مزاحیہ مضمون کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ طنز و مزاح کے حسن کو وہ برہنہ کر کے نہیں دکھاتے ہیں بلکہ روزن سے دکھاتے ہیں جس سے طنز و مزاح کا حسن دوبالا ہو جاتا ہے جبکہ بعض مزاح نگار طنز و مزاح کے جسم سے کپڑے اتار دیتے ہیں لیکن نصرت ظہیر آہستہ آہستہ دبیز تہوں کو اتارتے ہیں کچھ اس طرح کہ قاری کا تجسس قائم رہتا ہے اور قاری آگے کی عبارت پڑھنے کے لئے بے قرار ہو جاتا ہے۔مثلاً راشٹریہ سہارا میں شائع مضمون ’’یہ ووٹ کس کو دوں ؟‘‘میں انہوں نے لفظ ’عوام‘ کا اپنے لئے صیغہ واحد میں غلط استعمال کرنے کے بعد اس کوjustifyکرنے کے لئے یہ لکھا ’’جمہوریت میں لوگ جیتے جاگتے عوام کوہی غلط استعمال کر جاتے ہیں ‘‘۔اس جملے کو پڑھنے کے بعد قاری کی حسِ مزاح بیدار ہو تی ہی ہے کہ اس جملے پر پہنچتا ہے ’’اکثر عوام کو پتہ ہی نہیں چلتا کہ کوئی انہیں استعمال کر گیا‘‘۔یہاں پہنچ کر قاری پوری طرح مزاح سے محظوظ ہونے لگتا ہے۔ لیکن پہلے کوٹ کئے ہوئے جملے سے دوسرے کوٹ کئے ہوئے جملے تک پہنچنے میں جو وقت لگتا ہے اس سے قاری کی بے چینی بڑھتی ہے کیوں کہ ان کا خاص اندازِ بیان قاری کو فوراً محظوظ نہیں ہونے دیتا جبکہ قاری فوراً لطف اندوز ہونا چاہتا ہے۔
اپنے مقبول کالم ’نمی دانم‘ کے ایک مضمون ’جوتوں کا عالمی بھائی چارہ‘(19اپریل2009)میں چاروں طرف ملک و بیرونِ ملک میں بڑے بڑے لیڈروں پر جوتے، چپل اور کھڑاؤں چلا کر عوام اپنی ناراضگی اور لیڈروں کے تئیں بیزاری کا اظہار کر رہے ہیں وہیں نصرت ظہیر نے جوتوں، چپلوں اور کھڑاؤں کے درمیان عالمی بھائی چارہ قائم ہو جانے کی بات کہہ کر نہ صرف مزاح پیدا کیا ہے بلکہ عوام کو بھی ان جوتوں اور چپلوں سے سبق سیکھنے کی ترغیب دے ڈالی ہے جس میں غیر متحد سماج پر بہت بڑا طنز بھی ہے۔ نصرت ظہیر نے جوتے چپل کی واردات کو امریکی افسانہ جو فنٹاسی سے بھر پور ہے سے جوڑ کر اس پورے مسئلے کو سنجیدہ بنانے کی کوشش کی ہے لیکن اس سنجیدگی میں طنز و مزاح کی بے شمار لہریں موجود ہیں جو بُش کی شخصیت پر طنز کا وار کرتی ہیں۔ مثلاً انہوں نے ایک جگہ لکھا ہے کہ’’اس کہانی پر اگرچہ کسی صحیح العقل آدمی کو یقین نہیں آئے گا، لیکن مجھے نہ جانے کیوں یقین ہو چلا کہ کاروں کی طرح جوتوں میں بھی ایک خاموش عالم گیر اتحاد قائم ہو چکا ہے اور وہ کسی ایک بوڑھے کے نہیں، بلکہ بہت سے بزرگوں کے پیچھے پڑ گئے ہیں۔ کچھ عجب نہیں کہ جوتا برادری کے کسی لیڈر نے کال دے دی ہو کہ ’’دنیا بھر کے جوتو، ایک ہو جاؤ‘‘ اور ہو سکتا ہے جوتوں کی اس انسان دشمنی کی وجہ یہ ہو کہ بش کے انتظامیہ نے اُن جوتوں کو جلا کر راکھ کر دیا تھا، جو منتظر زیدی نے ان پر پھینک کر مارا تھا۔ایک مجاہد اور غازی جوتے کے ساتھ اس سلوک نے یقیناً جوتا برادری کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی ہو گی‘‘۔ نصرت ظہیر کے ان جملوں میں بُش کو اس بڈھے سے تعبیر کیا گیا ہے جس نے امریکی کہانی میں کار کو نقصان پہونچا یا تھا جس سے بعد میں تمام گاڑیوں نے اس کی ہڈی پسلی توڑ کر ایک پہاڑی پر تنہا زندگی گذارنے کے لئے مجبور کر دیا تھا۔اسی طرح منتظر زیدی کے جوتے متحد طاقت کی علامت ہیں جو ایسے تمام ظالم لیڈروں کو نیست و نابود کرنے کے لئے کافی ہے۔ نصرت ظہیر کے ایک کالم ’’جوتے کی جمالیات‘‘ میں بُش تمام ظالم سیاست دانوں کی جبکہ جوتے سماج کے دبے کچلے لوگوں کی علامت ہے۔26 اپریل کے کالم میں لکھتے ہیں ’’میرا ادب سے کیا لینا دینا۔ مجھے تو سب سے زیادہ بے ادب سمجھا جاتا ہے۔آخر جوتا ہوں۔ پسماندہ غریب، دلت اور شیڈولڈ کاسٹ مخلوق کی طرح‘‘ لیکن اب یہ قوم متحد ہو گئی ہے۔ایک دوسرے کی مدد کے لئے ہر فرد فوراً آگے رہا ہے۔میڈیا والے بھی ان کی طاقت کو محسوس کر کے انہیں ترجیح دے رہے ہیں۔ اس لئے سیاست دانوں کے کان کھڑے ہو گئے ہیں اور اپنے بچاؤ کے لئے ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔ نصرت ظہیر نے ’’جوتے کی جمالیات ‘‘میں نریندر مودی کو کس طرح اپنے طنز کا نشانہ بنایا ہے قابلِ تعریف ہے۔وہ لکھتے ہیں :’’میری برادری کا تو طرۂ امتیاز ہی یہ ہے کہ اس کے یہاں ترسیل فوراً ہوتی ہے۔ خود جوتا آپ کے سر تک پہنچے نہ پہنچے اس کی بات ضرور سب تک پہنچ جاتی ہے…اب نریندر مودی کو ہی دیکھ لو۔ میں ابھی اُس تک نہیں پہنچ پایا ہوں، لیکن میری خبریں پہنچ گئی ہیں۔ یہاں تک کہ اب وہ صرف اُسی اسٹیج سے تقریر کرتا ہے، جس پر جوتوں سے بچنے کا جال لگا ہوا ہو۔آہ! بے چارے کے اعصاب پہ جوتا ہے سوار۔‘‘ نصرت ظہیر نے طنز و مزاح کے پیرائے میں جس طرح سیاستدانوں کے اعصاب پر جوتے سوار کر دیا ہے اس کا کوئی جواب نہیں۔ نصرت ظہیر نے اڈوانی اور مودی جیسے لیڈروں کو بھی اپنے طنز کا نشانہ بنایا ہے کیوں کہ جوتے ان پر بھی چلے ہیں اور جوتوں سے یہ بھی خو ف زدہ ہیں۔ جوتے چلنے والے واقعات و واردات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے نام نہاد ’’لوہ پُرش‘‘ کہلانے والے اڈوانی کی پوری شخصیت کو یہ کہہ کر غارت کر دیا ہے کہ’’اسپورٹ شو کی تقلید میں دوسری طرح کے جوتے اور چپّل کے بعد کھڑاؤں تک آگے آ گئی ہے، جو اڈوانی صاحب کے سر کو نشانہ بنا کر ایک طرح سے خود کش حملے پر بھیجی گئی تھی۔خود کش یوں کہ خدا نخواستہ وہ اڈوانی صاحب کے سرِ عزیز سے ٹکرا جاتی تو سر کا تو کچھ نہ بگڑتا مگر کھڑاؤں یقیناً پاش پاش ہو جاتی۔ظاہر ہے کھڑاؤں عام طور پر لکڑی سے بنتی ہے، جب کہ جناب اڈوانی ہماری قوم کے لوہ پُروش، یعنی مردِ آہن ہیں اور لوہے کے بنے ہوئے ہیں۔ چوب و آہن کا بھلا کیا مقابلہ؟‘‘
اسی طرح3مئی2009 راشڑیہ سہارا میں نصرت ظہیر کا مضمون ’’ایک اور پی ایم اِن ویٹنگ‘‘ کا عنوان بھی قاری کے تجسس کو بڑھا دیتا ہے کہ پی ایم کے لئے جن ناموں کو اخباروں میں اچھالا جا رہا ہے ان کے علاوہ ایک اور کون سا نام ہے جو نصرت ظہیر کی نگاہ میں ویٹنگ میں ہے۔کیوں کہ ایک مزاح نگار جب پی ایم اِن ویٹنگ کی بات کرتا ہے تو وہ کوئی معمولی نام نہیں ہو گا بلکہ غیر معمولی نام ہو گا وہ بھی ایسے حالات میں جب جوتے اس قدر مشہور اور طاقتور ہو چکے ہوں اور پی ایم کے ناموں کے اُچھالے جانے کے ساتھ ساتھ جوتے بھی اُچھالے جانے کا بازار گرم ہو۔ لہٰذا قاری یہ سوچنے لگتا ہے کہ کہیں ’’پی ایم اِن ویٹنگ‘‘ جوتا ہی تو نہیں ہے۔ آخر میں جب نصرت ظہیر پی ایم کے لئے جوتے کا نام پیش کرتے ہیں تو قاری اس سے اور محظوظ ہوتا ہے کیوں کہ قاری کو بھی یہی امید تھی ساتھ ہی طنزو مزاح کا یہ نقطۂ عروج ہے۔ د ر اصل نصرت ظہیر نے لفظ ’’اچھالنے ‘‘سے بڑا کام لیا ہے اور پی ایم کے نام اور جوتے کے اچھالے جانے میں مناسبت پیدا کر کے عجیب و غریب مزاح کے ساتھ طنز پیدا کر کے پی ایم کی پوسٹ کو غارت کر دیا ہے اور یہ کہہ کر :
’’یقین کرو…اس ملک کو نہ پنجے کی ضرورت ہے نہ کمل کی، نہ ہاتھی کی نہ سائیکل کی، نہ ہنسیا کی نہ ہتھوڑے کی…ملک میں اتنے مسائل، اتنی الجھنیں، اتنی افراتفری اور اتنی بے راہ روی ہے کہ اسے کوئی جوتا ہی ٹھیک طرح چلا سکتا ہے…‘‘
جوتا اپنی شان میں زمین آسمان کے قلابے ملائے جا رہا تھا اور میرا جی چاہتا تھا کہ ایک جوتا اس کے منھ پر کھینچ ماروں۔ آخر ایک جوتا ہی جوتے کے گھمنڈ کو توڑ سکتا تھا!‘‘۔
ان جملوں میں ظہیر نے تمام سیاسی پارٹیوں پر طنز کیا ہے اور اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ ہندوستان کے مسائل لا علاج ہیں۔
نصرت ظہیر نے لال کرشن اڈوانی اور مودی جیسے لیڈروں کے جذبۂ خدمتِ عوام الناس سے عجیب و غریب طنز پیدا کیا ہے۔انہوں نے لیڈروں کے خدمتِ عوام الناس کے اس جذبے کے مفہوم کو بالکل بدل دیا ہے اور اس ایک لفظ میں ظلم و ستم کی پوری داستان رقم کر دی ہے۔ خاص کر یہ فقرہ لکھ کر ’’ابھی تک تو جو ہوا وہ صرف ٹریلر تھا‘‘فسادات کے تمام خوفناک منظر کو پیش کر دیا ہے اور آگے ہونے والے خطرات سے بھی قاری کو آگاہ کر دیا ہے۔
نصرت ظہیر نے ایک جگہ اور یہ لکھ کر ’’پھر میرے ساتھ تو ایک اور مصیبت ہے اور وہ یہ کہ کہنے کو تو میں خالص عوام ہوں، مگر ہوں ذرا خاص قسم کا۔اور خاص قسم کا یہ کہ میں جب بھی جسے بھی ووٹ دیتا ہوں، وہی ہار جاتا ہے۔‘‘غیر متحد مسلم قوم پر طنز بھی کیا ہے اور اسے متحد ہونے کی ترغیب بھی دے دی ہے۔
نصرت ظہیر نے بعض الفاظ، فقرے اور جملوں کے برمحل استعمال سے بھی طنز و مزاح میں عجیب و غریب کیفیت پیدا کی ہے۔مثلاً چُناوی ہنگاموں کے لئے اُچھل کود، دھمال،چوکڑی اور ہڑبونگ وغیرہ۔ اسی طرح ان کے یہ جملے ’’آپ ہمیں خدمت سے نہیں روک سکتے۔یہ ہمارا پیدائشی اور آئینی حق ہے ‘‘اور ’’سب کے سب ہماری خدمت کے لئے اتنے ہی پریشان ہیں، ورنہ آرام سے بیچارے گھر بیٹھ کر بیوی اور ٹی وی نہ دیکھتے‘‘جیسے جملے لا جواب ہیں۔ ان میں بلا کا طنز و مزاح چھپا ہوا ہے۔اسی طرح انہوں نے اپنے ایک کالم ’’عدلیہ کا عمل دخل‘‘ میں لفظوں کے استعمال سے بلا کا مزاح پیدا کیا ہے۔مثلاً وکیلوں کی جیب کی جگہ دوزخ،پیسوں کی جگہ ایندھن کا استعمال کیا ہے۔بعض جگہ ہم قافیہ عدالتی الفاظ کے استعمال سے مزاح پیدا کیا ہے۔مثلاً یہ جملے دیکھئے:’’عدلیہ کے اختیارات، زندگی کے مشکلات اور انسانی مسئلوں کے حل کے امکانات پر تبادلۂ خیالات کی شروعات کی تو انہوں نے اپنے مخصوص انداز بیان میں ‘‘اسی طرح انہوں نے نقلی وکیل صاحب کے مخصوص تکیہ کلام اور املے کی اغلاط سے مزاحیہ پیرائے میں عدلیہ اور وکیلوں کا مذاق اُڑایا ہے۔۔مثلاً برخوردار کی جگہ خربردار، سپریم کورٹ کی جگہ پکریم سورٹ، سکریم پورٹ، رٹ پیٹیشن کی جگہ پٹ پیٹیشن، ماحولیاتی آلودگی کی جگہ لاحولیاتی مالودگی، عدلیہ کی عمل دخل کی جگہ عدلیہ کی عمل و خلل،عملیہ کا خلل، ادل بدل، غلط ملط وغیرہ۔
نصرت ظہیر اپنے آس پاس کے ماحول اور ہر خاص و عام پر نظر رکھتے ہیں اور ان کے درمیان ہونے والے مکالموں کا تجزیہ بھی کرتے ہیں اور اپنے کالم میں انہیں طنز و مزاح کی شکل میں پیش کرتے ہیں۔ 10 مئی2009 کو شائع کالم ’’مئی کی گرمی سیاست کی سر گرمی‘‘ میں الیکشن کے چوتھے مرحلے کے ختم ہونے کے بعد ہر خاص و عام چاہے وہ سبزی فروش یا گوشت فروش یا نائی کوسیاست اور سیاسی جوڑ توڑ کے مسئلے پر گفتگو کرتے ہوئے دکھایا ہے۔ مثلاً لالو پرشاد یادو کے کانگریس پارٹی سے رشتہ خراب ہونے اور بہار میں امید سے کم سیٹیں حاصل کرنے کے فرسٹریشن کا اثر اخباری نامہ نگاروں پر غصّہ اتارنے کی صورت میں دیکھا گیا تھا۔نصرت ظہیر نے اس پورے واقعہ کو طنز و مزاح کی شکل میں پیش کرنے کے لئے لالو کا ہم قافیہ سبزی آلو کی گھٹتی بڑھتی قیمتوں کی تشبیہہ لالو جی کے بدلتے ہوئے بیانات سے دے کر ان کا مذاق اُڑا یا کیوں کہ جس طرح آلو کی قیمت اور ممبئی کے سنسکس کے اترنے اور چڑھنے کا کوئی بھروسہ نہیں ہے اسی طرح لالو کے سیاسی قول فعل کا کوئی بھروسہ نہیں ہے۔نصرت ظہیر آلو فروش کے مکالمے کو اس طرح پیش کرتے ہیں :
’’میرے باپ کے زمانے میں آلو ڈھائی روپے من تھا اور ایک مہینہ پہلے تک لالو پرساد سونیا اور راہل کا گن گان کرتے نہیں تھکتے تھے۔آج آلو کا بھاؤ اور لالو کا سوبھاؤ دیکھ لیجئے کہ جو شخص لوگوں کو بات بات پر ہنسا دیتا تھا، آج ذرا ذرا سی بات خود تاؤ کھا جاتا ہے!16 مئی کے بعد دیکھ لینا کہاں تو پردھان منتری بننے کے سپنے دیکھ رہے تھے، اب کے کانگریس پھر حکومت میں آ گئی تو منتری منڈل میں بھی جگہ نہیں ملے گی۔‘‘
نصرت ظہیر نے ان خیالات کا اظہار لالو کے لئے کیا ہے لیکن اس کا اطلاق تمام لیڈروں پر ہوتا ہے کیوں کہ کم و بیش یہی حال تمام سیاسی پارٹیوں کا ہے۔ الیکشن سے پہلے کچھ کہتے ہیں اور الیکشن کے بعد کچھ اور کہنے لگتے ہیں۔ نصرت ظہیر نے سیاسی رہنماؤں کے بدلتے ہوئے رنگ کو سبزیوں کی گھٹتی بڑھتی قیمتوں سے اس لئے مشابہ قرار دیا کہ آج کل کے رہنماؤں کی قیمت سبزیوں کی قیمت سے زیادہ نہیں ہے۔ دو کوڑی کی سیاست پر تنقیدو گفتگو کرنے کے لئے سبزی فروش، گوشت فروش اور نائی ہی کافی ہیں۔ اس لئے نصرت ظہیر نے باربروں کی مناسبت سے اس کی چلتی ہوئی قینچیوں کی تشبیہ سیاست دانوں کی چرب زبانی سے دے کر نیتاؤں پر کس خوبصورتی اور Perfectionکے ساتھ مزاح کے پیرائے میں طنز کیا ہے۔سیلون کے اندر کی منظر کشی ذرا ملاحظہ کیجئے:
’’آئینے کے سامنے کرسیوں میں بندھے ہوئے عوام کے سروں پر باربروں کی قینچیاں لیڈروں کی زبان کی طرح کتر کتر چل رہی تھیں ‘‘
نیتاؤں پر طنز کا سلسلہ یہیں ختم نہیں ہوتا ہے بلکہ آگے بڑھتا رہتا ہے۔مثلاً ورون گاندھی کا حالیہ بیان جس میں اس نے کسی خاص فرقے کے ہاتھ کاٹنے کی بات کی تھی جس کی تمام لوگوں نے مذمت کی تھی۔اسی بیان کو اپنے طنز کا نشانہ بناتے ہوئے نصرت ظہیر نے اسی کالم میں ایک قصائی کے ذریعہ یہ سوال قائم کیا کہ کیا ورون کو قصائیوں کام آتا ہے؟ پھر کورٹ میں اس کے دئے گئے حلفیہ بیان کے متعلق یہ سوال کہ کیا اب اسے ویجیٹیرین سیاست کرنے کا ارادہ ہے، انتہائی معنی خیز ہے۔ذرا یہ گفتگو بھی ملاحظہ کیجئے:
’’ویسے یہ تو بتائیے ورون گاندھی کس قوم کے ہاتھ پاؤں کاٹنے کی بات کر رہا تھا۔۔۔۔کیا اسے قصائیوں کا کام آتا ہے؟۔۔۔۔اور اب جو اس نے عدالت کو حلفیہ بیان دے دیا ہے کہ آئندہ کبھی کسی ہاتھ پاؤں کاٹنے جیسی باتیں نہیں کرے گا تو کیا اب اس کا صرف ویجیٹیرین سیاست کرنے کا ارادہ ہے؟‘‘
ان جملوں میں بلا کا طنز ہے اور اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ آج کل گاندھی و ادی سیاست ناپید ہو گئی ہے۔
نصرت ظہیر نے 4 جنوری2009 کو شائع اپنے کالم ’’گیا سال، نیاسال!‘‘ میں اس بات کی طرف قاری کو متوجہہ کیا ہے کہ کوئی بھی سال نہ اچھا ہوتا ہے اور نہ برا۔انسان اپنی غلطیوں پر پردہ ڈالنے کے لئے گذرے ہوئے سال کو ذمہ دار مانتا ہے۔اسی لئے پرانے سال کو لعنت ملامت کرتا ہے اور آنے والے نئے سال کا خیرمقدم کرتا ہے لیکن اس سال کے خاتمے پر اس کے ساتھ بھی وہی سلوک کرتا ہے اس سے پہلے والے سال کے ساتھ کر چکا ہوتا ہے۔یہ سلسلہ سالہاسال چلتا رہتا ہے۔اسی لئے نصرت ظہیر نے سماج کے اس غلط رواج پر طنز کیا ہے کیوں کہ کسی خاص سال میں جو اچھے یا برے واقعات و حادثات ہوتے رہتے ہیں اس سے اس سال کا کوئی لینا دینا نہیں ہوتا ہے۔ لہٰذا سال کے گزرنے یا نئے سال کی آمد سے ماتم یا خوشی منانے کا کوئی صحیح جواز نہیں۔ انہیں خیالات کا اظہار کرتے ہوئے نصرت ظہیر نے دہلی میں ہونے والے قتل و غارت گری، عصمت دری کی تفصیل پیش کرتے ہوئے طنزیہ و مزاحیہ انداز میں سوال اٹھا یا ہے کہ کیا ان سب کا ذمہ دار گزرا ہوا سال ہی ہے۔ وہ لکھتے ہیں :
’’دہلی میں پانچ سو سے زیادہ قتل ہوئے تو گویا وہ 2008 نے انجام دیئے، اس سے بھی زیادہ لوگ سڑک حادثوں میں مرے تو موٹر گاڑیوں اور بلولائن بسوں کی ڈرائیونگ سیٹ پر شاید2008بیٹھا ہوا تھا، سیکڑوں عورتوں کی عصمت دری ہوئی تو اس کے لئے2008کو سنگسار کر دینا چاہئے،میں یہ نہیں کہتا کہ ہم ہر بری بات کے لئے گزرے ہوئے سال کو سیدھے طور پر ذمہ دار قرار دیتے ہیں، لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ہم کسی بھی سال کے محاسبے کو آد م زاد کا محاسبہ بنا کر سامنے نہیں رکھتے، اسے خود سے الگ رکھ کر کچھ اس انداز سے سامنے لاتے ہیں، جیسے ہم تو بیچ میں ہیں ہی نہیں۔ ‘‘
اگر کسی متن کے اصل اسلوب سے جارحانہ پن کا اظہار ہو تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مصنف سماج کے کسی نامعقول عقیدے کی طرف طنز کے ذریعہ قاری کو متوجہ کرنا چاہتا ہے۔نئے سال کے متعلق لوگوں کا یہ عقیدہ کہ گذرا ہوا سال منحوس ہے، یقیناً نا معقول ہے۔
نصرت ظہیر نے سماج میں پھیلی ہوئی برائیوں اور مختلف علوم و فنون میں اصل جوہر کی عدم موجودگی کی طرف بھی طنزیہ انداز میں اشارہ کرتے ہوئے سال2009میں بہتری کی امید ظاہر کی ہے۔مثلاً وہ لکھتے ہیں :
’’دوستو جی چاہتا ہے کہ نئے سال سے کچھ نئی امیدیں قائم کر لوں، مثلاً یہ امید کہ اس سال آدمی بالآخر حیوانی حرکتوں سے بور ہو کر انسان بننے پر مجبور ہو جائے گا، اردو کے ادیب نثر کی طرف زیادہ توجہ دینے لگیں گے، پورے سال کوئی نیا شعری مجموعہ شائع نہیں ہو گا، مشاعروں میں ترنم سے شعر پڑھنے پر پابندی لگ جائے گی، شمس الرحمٰن فاروقی جدیدیت کے بعد شاعری سے بھی باز آئیں گے! شاہ رخ خان تھوڑی سی اداکاری سیکھ لے گا، نئے فلمی گلوکاروں کے لئے سُر میں گانا لازمی ہو جائے گا، ہیروئینوں سے کہا جائے گا بی بیو کبھی کبھار سین میں تھوڑے سے کپڑے بھی پہن لیا کرو اور پھر بھی باز نہ آئیں تو سنسر بورڈ ان کے لئے کم سے کم کپڑے پہننے کی بلحاظِ عمر زیادہ سے زیادہ حد مقرر کر دے گا۔ ‘‘
اس عبارت کے پہلے جملے یعنی’’اس سال آدمی بالآخر حیوانی حرکتوں سے بور ہو کر انسان بننے پر مجبور ہو جائے گا‘‘ میں لفظ ’بور ‘ سے نصرت ظہیر نے عجیب و غریب طنز و مزاح کی کیفیت پیدا کی ہے۔اس میں اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ سماج میں حیوانگی کس قدر بڑھی ہوئی ہے۔اس حیوانگی کو دور کرنے کے لئے نہ پولس کارگر ہوسکتی ہے اور نہ کسی ناصح کی نصیحت۔یہ تبھی ختم ہو گی جب درندگی سے درندے بور ہو جائیں گے۔ ظہیر نے وزن و بحر سے مبرّا اور یکسانیت کی شکار اردو شاعری، مشاعروں کے بے سرے شاعروں اور فلمی ہیروئینوں کے ننگا پن پر بھی مزاح کے پیرائے میں طنز کیا ہے۔
22فروری2009 کو شائع کالم ’’عدلیہ کا عمل دخل‘‘ میں نصرت ظہیر نے عدلیہ، وکیلوں، سرکاری محکموں، کرمچاریوں، پولس والوں اور خاص کر سیاست دانوں پر طنز کیا ہے تاکہ عوام بیدار ہو جائیں اور غلط اور صحیح کی پہچان کر کے زندگی کے ہر موڑ پر مناسب قدم اٹھائیں۔ اس کالم میں انہوں نے وکیلوں کا مذاق اڑانے کے لئے ایک ایسے شخص کو وکیل بنا کر پیش کیا ہے جس کی وکالت کے غبارہ سے ہوا یہ کہہ کر نکال دی ہے کہ وہ خط و کتابت کے ذریعے وکالت کیا کرتا تھا :
’’جوانی کے کسی دورِ علالت میں وکالت بھی بذریعہ خط و کتابت کر چکے تھے۔گو وکالت کے بعد وہ عدالت سے حتی الامکان دور اور اور شہر کے بہت سے موکل ان سے محفوظ رہے، لیکن قانونی مشورے ہر کسی کو دیتے رہتے تھے اور وہ بھی مفت!بس ایک تازہ غزل برداشت کرنی پڑتی تھی۔ ‘‘
نصرت ظہیر نے جس وکیل کی تصویر پیش کی ہے اس سے یہ قول سچ معلوم ہوتا ہے کہ’ ہندوستان کا ہر شخص ڈاکٹر اور وکیل ہے‘۔متذکرہ جملوں میں ان بے تکے شاعروں پر بھی طنز کیا ہے جنہیں اپنی غزلیں سنانے کی بیماری ہوتی ہے۔
اس کالم میں سیاست دانوں کی اس سوچ پر بھی طنز کیا گیا ہے جس کی بدولت وہ کہتے ہیں عدلیہ کا عمل دخل ہر کام کے لئے مناسب نہیں ہے۔لہٰذا ایسے قانون بنانے کی ضرورت ہے جس کے تحت عدالتیں مفادِ عامہ کی درخواستیں منظور نہ کریں۔ بات بات کے لئے مفاد عامہ کی درخواستیں منظور کرنے پر سیاست دانوں کے تبصرے پر طنز کرتے ہوئے لکھتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’عدالت نہیں !جسے دیکھئے مسئلوں کا پلندہ بغل میں دبائے اور مفادِ عامہ کی اپیل ہاتھ میں اٹھائے عدالت چلا آ رہا ہے۔گویا عدالتیں نہ ہوئیں نوشیرواں اور جہانگیر بادشاہ کا دربار ہو گئیں کہ جو چاہے انساف کی زنجیر کھینچ لے اور انصاف مانگ لے!میاں انصاف بھی کوئی بھیل پوری ہے کہ جس نے جب چاہا چوپاٹی پر جا کر بھوک مٹا لی۔‘‘
نصرت ظہیر نے طنز و مزاح کے پیرائے میں سیاست دانوں اس حربے کو بے نقاب کیا ہے جس کی بدولت عوام کو گمراہ کرتے ہیں اور ترقی راستے سے بھٹکا کر مذہبی جذبات، ذات پات اور اُونچ نیچ، دھرنے، مظاہرے کے بھنور میں ڈال کر افیمچی کی سی حالت بنا دیتے ہیں اور انہیں اس لائق نہیں چھوڑتے کہ وہ ہندوستان کی،اپنی فیملی کی یا خود کی بہتری کے لئے سوچ سکیں۔ سیاست دانوں پر طنز کا وار کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’میاں، یہ ہم ہیں، جو عوام کے دکھ درد کو سمجھتے ہیں۔ یہ ہم ہیں جو انہیں سمجھاتے ہیں کہ بھیا جب تک ایودھیا میں مندر نہیں بنے گا، تب تک ہندو کو آتم سمّان نہیں مل سکتا۔جب تک پچھڑی ذات کو کو ریزرویشن نہیں ملے گا تب تک وہ عزت سے نہیں جی سکے گی۔جب تک مسلم پرسنل لا کو محفوظ نہیں رکھا جائے گا تب تک مسلمانوں کے گھروں سے ٹاٹ کے پردے نہیں ہٹیں گے۔……اس کے علاوہ وہ ہم ہی ہیں جو انہیں دھرنے، مظاہرے، چکا جام، جلسہ، ووٹ اور الیکشن کے چکر میں الجھا کر دوسری تمام فکروں سے آزاد رکھتے ہیں۔ انہیں اپنے ٹھنڈے چولھے کی پرواہ نہیں رہتی ہے،نہ بھوک اور غریبی کی، نہ انہیں بے روزگاری کا غم ستاتا ہے، نہ غیر ملکی کمپنیوں کے ہاتھوں دیش کی دولت لٹنے کا دکھ ہوتا ہے۔اگر ہم نہ ہوں تو یہ تمام دکھ انہیں پاگل کر دیں اور یہ لوگ مرنے مارنے پر اتر آئیں۔ چنانچہ یہ ہم ہی ہیں جو انہیں چین سے جینے اور مرنے میں مدد کرتے ہیں ورنہ یہ عدالتیں تو ان کا دماغ خراب کر کے رکھ دیں !آپ ہی بتائیے دیش میں کس کا عمل دخل ہونا چاہئے؟ہم عوامی نمائندوں کا یا عدالت کا۔ ‘‘
نصرت ظہیر کی متذکرہ عبارت میں کس قدر سچائی،عوام کے تئیں محبت کا جذبہ ہے اور عوام کی آنکھیں کھولنے کے لئے کس قدر طنز کے تیز دھار کا استعمال کیا ہے۔ لگتا ہے کہ سیاست داں طبقہ عوام کا رہنما نہیں بلکہ ان کو تاریکی میں دھکیلنے والی کوئی جماعت ہے۔
ہندوستان میں چوبیسوں گھنٹے دکھائی جانے والے ٹی وی چینلوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے لئے مدعوں کی کمی ہو گئی ہے۔اس لئے میڈیا والے معمولی سے معمولی واقعات کو بھی غیر معمولی بنا کر پیش کرتے ہیں۔ کچھ دنوں کی بات ہے جب فلم’’سلم داگ ملینیئر‘‘ کو آٹھ آسکر ایوارڈ ملے تھے جس کی دھوم پورے ہندوستان میں تھی۔میڈیا والوں نے بھی آسکر ایوارڈ کو ٹی وی چینلوں پراس قدر اُچھالا کہ گندی بستیوں اور غریبی Conceptاور مفہوم ہی بدل دیا۔گندی بستیوں میں جا جا کر وہاں کے رہنے والوں کا ایسے انٹرویو لے نے لگے جیسے وہ راتوں رات سچ مچ کروڑپتی بن گئے ہوں۔ نصرت ظہیر نے میڈیا والوں کی اچھی طرح خبر لی اور اپنے کالم ’’جے ہو غریبی کی‘‘ میں انہیں اپنے طنز کا نشانہ بنایا۔میڈیا والے ہر موقع پر ایک ہی طرح کے سوالات پوچھتے ہیں جو نہایت مضحکہ خیز ہوتے ہیں، جس کی منظر کشی نصرت ظہیر نے اس طرح کی ہے:
’’چاچا آپ کا نام کیا ہے…گھ گھ گھ…گھسیٹا…سلم ڈاگ ملینیئر آٹھ آسکر ملنے کے بعد کیسا لگ رہا ہے؟…آپ جانتے ہیں آسکر کیا ہوتا ہے؟…نہیں ہم نہیں جانتے …مگر اچھا ہے…بہت اچھا ہے…دیکھا ناظرین آپ نے، یہ شہر کی سب سے گندی بستی میں رہنے والا گھسیٹا، بالکل نہیں جانتا کہ آسکر کس چڑیا کا نام ہے، اس کے باوجود یہ خوش ہے،اسے فخر ہے اپنے دیش پر ناز ہے اپنے فلم سازوں کی صلاحیتوں پر ٹیکنیشین پر، موسیقاروں پر، گیت کاروں اور ادا کاروں پر…کیوں ٹھیک ہے نہ گھسیٹا…نہیں نہیں …پتہ نہیں …لیکن اچھا ہے…سب اچھا ہے…یہ ڈنڈا بھی …بندوق بھی…سب اچھا ہے‘‘
نصرت ظہیر نے گھسیٹا کے کردار میں ایک ایسے شخص کا انٹرویو دکھایا ہے جو مائکروفون کو ڈنڈا اور ویڈیو کیمرا کو بندوق سمجھتا ہے اس سے آسکر ایوارڈ کے متعلق اس کے خیالات جاننے کی کوشش کرنا کس قدر مضحکہ خیز ہے اور پھر اس انٹرویو میں گھسیٹا کے خیالات کو ناظرین کے سامنے پیش کرتے ہوئے یہ کہہ کر میڈیا پر بہت بڑا طنز کیا ہے کہ ’’اسے فخر ہے اپنے دیش پر ناز ہے اپنے فلم سازوں کی صلاحیتوں پر ٹیکنیشین پر، موسیقاروں پر، گیت کاروں اور ادا کاروں پر۔‘‘
نصرت ظہیر نے آسکر ایوارڈ ملنے کے بعد گندی بستیوں اور ان بستیوں کے رہنے والوں پر فخر محسوس کرنے والوں پر بھی طنز کیا ہے کیوں کہ ایسے لوگ Fool’s Paradiseمیں جیتے ہیں۔ وہ ایک جگہ لکھتے ہیں :
’’اگر یہ سرمایۂ افلاس اسی طرح آسکر دلاتا رہا تو شاید دنیا کے سب سے بڑے سرمایہ دار بھی ہم ہی نکلیں، بھلے ہی وہ مفلسی کی سرمایہ داری کیوں نہ ہو۔تو آئیے عہد کرتے ہیں کہ ہم جھگی جھونپڑیوں اور گندی بستیوں کو خوب ترقی دیں گے، انہیں اور پھیلائیں گے، ان میں زندگی کو اور مشکل بنائیں گے اور ہر شہر میں کم سے کم ایک بڑی …بلکہ ہوسکے تو بہت بری اور گندی بستی ضرور بسائیں گے۔ ‘‘
ان الفاظ میں غریبی کی بدولت ملنے والے آسکر ایوارڈ پر خوش ہونے والوں پر نصرت ظہیر نے تیکھا طنز کیا ہے۔انہوں نے ا پنے عہد نامے میں بھی بلا کا طنز و مزاح پیدا کیا ہے۔
نصرت ظہیر نے سیاسی پارٹیوں کے سیاسی ہتھکنڈوں پر طنز کرتے ہوئے اپنے ایک کالم ’’نئی نئی سیاست کا نیا قاعدہ‘‘ میں بچوں کے لئے ایسے قاعدے تیار کرنے کی بات کی ہے جس میں حروف تہجی سکھانے کے لئے پھلوں یا اﷲ کے ناموں کے استعمال کرنے کے بجائے سیاسی پارٹیوں کے ناموں کا استعمال کیا جائے مثلاً الف سے اﷲ کے بجائے انا ڈی ایم کے یا اکالی کا استعمال کیا جائے۔اور جملوں میں استعمال کر نے لئے ان پارٹیوں سے دور رہنے کی بات کی گئی ہے۔اسی کالم میں سیاسی اور مذہبی لیڈروں کے علاوہ خاص علاقوں میں رہنے والوں پر بھی طنز کیا ہے مثلاً یکم جون 2009کے کالم میں لکھتے ہیں :
’’وہ اکالی ہے۔یہ آدمی ہے۔اکالی سے مل۔انا ڈی ایم کے سے مت مل۔سرکار مت گرا۔آلو نہ بن۔آدمی بن۔آلو لے کر آ۔لالو کو آلو دے۔یہ آم کچّے ہیں۔ عوام بچے ہیں۔ آلو بخارا کھا۔۔۔۔’ب‘سے بی ایس پی۔’ب‘سے بہن جی۔’ب‘سے بی جے پی۔’ب‘سے بال ٹھاکرے۔’ب‘ سے بم۔’ب‘سے بہاری۔’ب‘سے بے وقت کی راگنی۔‘‘
ان جملوں میں انہوں نے جو سبق بنایا ہے اس سے تخریبی پارٹیوں پر طنز کرنے کے ساتھ ساتھ مایا وتی، بال ٹھاکرے اور لالو پر طنز کیا ہے۔ ساتھ ہی لالو کی رعایت سے بہاریوں پر بھی طنز کیا ہے۔کئی دفعہ طنز اتنا باریک ہوتا ہے کہ اس کی نزاکت کو سمجھنے میں قاری غلطی کر بیٹھتا ہے اور اسے ذاتی، ریسیل اور سماجی مدعا بنا دیتے ہیں جو بعد میں ایجی ٹیشن کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔مثلاً ہزاروں سال پہلے مہا بھارت کی عظیم جنگ کے ہونے کی وجوہات میں ایک خاص وجہ یہ بھی تھی کہ دروپدی نے دریودھن کو ’’اندھے کا بیٹا اندھا ‘‘کہہ کر اس پر طنز کیا اور اس کا مذاق اڑایا تھا۔حال ہی میں 27 مارچ2009کوایچ کے میگزین میں کالم نگار Chip Tsaoکا ایک مضمون شائع ہوا تھا جس میں چین اور فلی پائن کے درمیان متنازعہ خطہ’’Spratly islands‘‘ کو لے کر چینی حکومت اور چینی وطن پرستوں کو چھیڑنے کے لئے ایک مضمون لکھا تھا جس میں اس نے اپنے آپ کو ہانگ کانگ کا ایک وطن پرست ملازم ہونے کی بات چھپاتے ہوئے Spratly islands‘‘ پر چین کی حاکمیت کو ظاہر کرنے کے لئے فلپائنی ملازمہ کو اپنے طنز کا نشانہ بنایا اور اس کی بے حرمتی کی۔اس نے لکھا ہے :
“As a nation of servants, you don’t flex your muscles at your master, from whom you earn most of your bread and butter.”
Tsaoنے اپنے مضمون میں ملازمہ کو سخت طریقے سے ڈانٹ پھٹکار لگائی یہاں تک کہ اسے ملازمت سے برخاست کرنے کی دھمکی بھی دی۔اس مضمون میں Tsaoنے دراصل چینی وطن پرستوں پر طنز کرنے کی کوشش کی ہے۔لیکن اس طنز کوفلی پائینوں پرRacist attackسمجھا گیا اور اس مضمون کی چاروں طرف سے اس قدر مذمت ہوئی کہ اسے فوراً ویب سائٹ سے ہٹا دیا گیا اور HKمیگزین نے بعد میں معذرت پیش کرتے ہوئے ایک بیان جاری کر کے بتا یا کہ یہ محض ایک طنز تھا اس کا مقصد کسی قوم کی دل آزاری نہیں تھا۔
نصرت ظہیر کے طنز کا مقصد بھی کسی کی شخصیت یا کسی قوم یا کسی خاص خطہ میں رہنے والوں کا دل دکھانا نہیں ہے بلکہ یہ صرف طنز و مزاح ہے۔ بہر حال طنز و مزاح کا یہ کمال ہے کہ جس شخص یا قوم یا کسی خاص خطہ کے رہنے والوں پر طنز کیا جاتا ہے تو اسے صحیح سمجھنے کے بعد قاری کے ذہن میں ایک ہلچل پیدا ہو جاتی ہے وہ چاہ کر بھی Reactنہیں ہوتا لیکن اس کے چہرے کے تاثرات میں Reactionموجزن رہتا ہے اور جب اسے ٹھیک طرح سے سمجھا نہیں جاتا ہے تو قاری کا ردّ عمل احتجاج اور غصّے کی صورت میں عیاں ہوتا ہے۔مختصر یہ کہ طنز قاری کے اندر ایک عجیب و غریب کشیدگی پیدا کر دیتا ہے جس کی وجہ سے دوسرے تمام اصناف میں اس کو فوقیت حاصل ہے۔سنسکرت کے اچاریوں نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ وہ ادب، ادب کہلانے کا مستحق نہیں ہے جس میں طنز کا عنصر نہ ہو۔سنسکرت کے اچاریہ ممٹ نے کہا ہے کہ :
اس کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ طنز کے ذریعہ سماج پر مصنف کا لطیف ضرب قاری کے مطالعاتی تجربے کو کارآمد اور مفید بناتا ہے۔
نصرت ظہیر کی تحریروں میں طنز و مزاح کی تمام تر خوبیاں بدرجۂ اتم موجود ہیں۔ ان کے کالم پڑھنے کے بعد طنز کے متعلق سنسکرت اچاریوں کا متذکرہ قول صحیح معلوم ہوتا ہے۔نصرت ظہیر اسی طرح آب و تاب کے ساتھ لکھتے رہے تو طنز و مزاح کا یہ فن مزید ترقی کی منزلیں طے کرتا رہے گا اور ان کے کالم سے قوموں کی زندگی میں تلاطم بھی پیدا ہوتا رہے گا۔
زندہ باد نصرت ظہیر،پائندہ باد نصرت ظہیر!!!