ہیلو۔۔۔ مسٹر گوپال ٹھکر۔۔؟
جی آپ کون؟
میں ڈاکٹر جہانزیب حمدانی ہوں۔ آپ کا بیٹا اجمیر یہیں انڈر ٹریٹمنٹ ہے۔ آپ جلد از جلد میرے کلینک پہنچیں۔
جتنی جلدی ممکن تھا وہ کلینک پہنچے۔
کلینک کیا تھا ایک چھوٹا سا اسپتال تھا وہ۔
باہر جہانزیب حمدانی نام کا بڑا سا بورڈ آویزاں تھا۔ گاڑی پارکنگ ایریا میں کھڑی کر کے وہ کلینک میں داخل ہوئے۔ پہلے کوریڈور تھا جس میں گھاس کے درمیان رنگ برنگے پھولوں کے امتزاج سے جہانزیب حمدانی لکھا ہوا تھا۔ glass door کھول کے وہ اندر داخل ہوئے۔ تو پہلی نظر دیوار پہ لگی سینری کی طرف گئی جس پہ لکھا تھا۔
” A thing that happened was worst but But A thing you ‘ll get coz of this worst is Precious”
In every situation…Always stay thankful to Allah
(جو ہوا وہ بہت برا تھا۔ پر اس برے سے جو چیز آپ پائو گے وہ نایاب ہو گی۔
ہر حال میں ہمیشہ الله کے شکر گزار رہیں)
مسٹر گوپال ٹھکر؟
آئے میں آپ کا ہی انتظار کر رہا تھا۔
اب وہ جہانزیب حمدانی کے ہمراہ انکے کمرے کی طرف بڑھ رہے تھے
میں اپنے بیٹے سے ملنا چاہتا ہوں پہلے
جہانزیب نے انکے کندھے پہ ہاتھ رکھا اور کہا میں آپکو اس سے ملوانے سے پہلے کچھ بتانا چاہتا ہوں تاکہ آپ پیشنٹ کے سامنے خود کو نارمل رکھ سکیں
میں سب جان چکا ہوں ڈاکٹر صاحب۔ پولیس مجھے سب بتا چکی ہے بس آپ مجھے میرے بیٹے سے ملوا دیں پلیز۔وہ جہانزیب کے سامنے ہاتھ جوڑ چکے تھے
اوکے چلیں۔ اب وہ اجمیر کے کمرے کی طرف بڑھ رہے تھے۔ گوپال کو اپنے بیٹے پہ گزری رات پھر رلانے لگی تھی
جب جہانزیب نے انکے کندھے پہ ہاتھ رکھ کہ کہا تھا
پلیز روئیں مت۔ اجمیر پہلے بھی خودکشی کی کوشش کر چکا ہے اگر آپ اس طرح ملیں گے تو اسے زندگی کی طرف واپس کیسے لایا جا سکے گا؟ ہمت رکھیں زندگی میں ایسا بہت کچھ ہو جاتا ہے جو انسان کو اسکی برداشت سے بہت زیادہ لگتا ہے پر الله انسان کو اسکی برداشت سے زیادہ نہیں آزماتا۔
مایوسی کفر ہے پلیز حوصلہ رکھیں
جہانزیب اپنی بات مکمل کرکے وہاں سے جا چکے تھے۔ گوپال نے آنسو پونچھے اور کمرے میں داخل ہوگئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انکی نظر بیڈ پہ لیٹے اجمیر پہ تھی اس کے سر پہ پٹی بندھی ہوئی تھی اور ٹانگوں پہ پلستر
انہوں نے اسکے ماتھے کو چوما اور اجمیر کو پکارا
اجمیر نے انکی طرف دیکھا اور نظریں جھکا لیں۔
وہ دونوں خاموش تھے کہنے کو کوئی لفظ نہیں مل رہا تھا صرف آنسو تھے جو مسلسل بہ رہے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اجمیر کے لئے وہ رات ایک عذاب کی سی تھی جو اروند تایا کے روپ میں اس پر اتری تھی۔
وہ f.s.c پارٹ تو کا آخری پیپر دے کے گھر آیا تھا۔ اسکے پیپر سیکنڈ شفٹ کے تھے سو واپسی میں رات ڈیرے ڈال چکی تھی۔ وہ کئی دن دوستوں کے ساتھ گروپ سٹڈی کرکے آج گھر لوٹا تھا۔ مین گیٹ کا تالا کھول کر وہ گھر میں داخل ہوا تھا۔ وہ جانتا تھا بابا کل شام تک واپس آجائیں گیں۔ وہ خود کو بہت relax محسوس کر رہا تھا۔ وہ باتھ لے کر فریش ہوا اور دھڑام سے بیڈ پر گر گیا۔ بہت دنوں کی نیند آج پوری ہو نی تھی۔
۔۔۔۔۔۔
وہ گہری نیند میں تھا جسے اچانک ہونے والے کھڑاک نے توڑا تھا۔ جو پہلی بات اسکے ذہن میں آئی وہ یہی تھی کہ وہ مین گیٹ لاک کرنا بھول گیا ہے اور اب کوئی چور ڈاکو گھر میں گھس آیا ہے۔ وہ شش و پنج میں تھا کیا کرے جب اروند تایا کا چہرہ اسکے کمرے کے دروازے پہ ابھرا تھا۔
اوئے تونے دروازہ بند نہیں کیا تھا گھر کا
کوئی چور آ جاندا فیر؟
او اروند تایا آپکے ہوتے کسی چور کی ہمت جو ہمارے گھر میں گھسے۔۔ وہ بہت پیار سے بیڈ سے اتر کر انکے گلے لگ گیا تھا۔ ان سے شراب کی بو آ رہی تھی جو اجمیر کو سخت ناپسند تھی۔ وہ مسکراتے ہوئے ان سے دور ہٹ گیا
ان کے ہاتھ میں شراب کی بوتل بھی تھی
وہ حیران اس بوتل کو دیکھ رہا تھا۔
گھڑی رات کے 12 بجا رہی تھی۔ بابا نے کبھی اروند کو شراب کے نشے میں گھر آنے کی اجازت نہیں دی تھی اور وہ باقاعدہ بوتل لے آئے تھے
پیئے گا؟
اجمیر کو بوتل کی طرف متوجہ پا کر اس نے آفر کی تھی۔
نہیں آپکو پتہ ہے میں شراب نہیں پیتا اور نہ ہی مجھے یہ پسند ہے۔
اروند کی آنکھوں میں عجیب سی شیطانیت محسوس ہوئی تھی اسے اور اس ہی لیے اسکا لہجہ سخت ہو گیا تھا
تھوڑی سی پی کے تو دیکھ دنیا بھول جائے گا نہیں اروند تایا مجھے نہیں پینی آپ جائو یہاں سے
اب کے اجمیر کے لہجے کی سختی اروند کو محسوس ہوئی تھی
اس نے ایک دم اجمیر کو بازو سے اپنی طرف کھینچا اور شراب اس کے منہ کو لگانے کی کوشش کی
اجمیر نے اپنا منہ سختی سے بند کر لیا
غصے اور نشے کے ملے جلے اثرات میں جب اروند کو کچھ سمجھ نہیں آئی تو اس نے بوتل اسکے سر پہ الٹا دی
اجمیر مکمل طور پر اسکی گرفت میں تھا اور اروند جنون کے ساتھ بوتل خالی ہوتے دیکھ رہا تھا
خالی بوتل سائڈ پہ پھینکتے اس نے اجمیر کو کندھے سے پکڑ کر بیڈ پہ گرایا تھا
اجمیر اندھا دھند ہاتھ پیر مار کر اسے خود سے دور رکھنے کی کوشش کر رہا تھا اسکا ہاتھ بیڈ کی سائیڈ ٹیبل پہ پڑی ہنومان جی کی مورتی سے ٹکرایا تھا
اروند نے اجمیر کے گلے سے چین اتار کر اس سے اسکے ہاتھ باندھ دئے تھے۔
باپ کا لاڈو پلا لڑکیوں سے بھی نازک اجمیر اسکا اور مقابلہ نہیں کر سکا تھا
اروند اب شراب کے نشے میں دھت وہیں سویا پڑا تھا
اجمیر کے پورے جسم میں شدید درد تھا
پر اسے اس درد سے کوئی فرق نہیں پڑ رہا تھا۔ اروند سے زیادہ اسے خود اپنے آپ سے گھن آ رہی تھی۔ اس نے دانتوں سے چین کی گرہ کھولی۔ اپنا لباس مکمل کیا اور بنا آہٹ کئے وہاں سے نکل آیا۔
گوپال ٹھکر نے اپنا یہ گھر رہائشی کالونی سے ہٹ کر کچھ دور بنوایا تھا کیونکہ یہ مسلمانوں کی کالونی تھی اور وہ مسلمانوں سے دور رہنا چاہتا تھا اس ہی لئے اجمیر کی چیخوں کی آواز کسی نے نہیں سنی تھی
وہ اپنے علاقے سے منسلک مین روڈ پہ نکل آیا تھا۔
رات کے 3 بج چکے تھے اس نے گھڑی پہ وقت دیکھا اور پھر چلنے لگا۔ سڑک پہ ابھی بھی کوئی کوئی گاڑی،ٹرک آتا جاتا نظر آ رہا تھا۔
وہ اس جگہ سے بہت دور جانے کی کوشش کر رہا تھا پر کتنا بھی دور چلا جائے یہ رات اسکے ساتھ کسی سائے کی طرح چپکی تھی تب اسکے ذہن میں ایک ہی ترکیب آئی تھی اور وہ سڑک کے درمیان کھڑا ہو گیا تھا
تیزی رفتار سے اپنی طرف آتی گاڑی کو دیکھ کر اس نے آنکھیں بند کر لیں تھیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اجمیییر۔۔۔اسنے چونک کر اپنے بابا کی طرف دیکھا تھا جو اسے خیالوں کی دنیا سے واپس لے آئے تھے۔
کیسے ہو بیٹا؟
اروند تایا کہاں ہیں؟
کیوں کیا انہوں نے میرے ساتھ ایسا؟
پتہ نہیں پولیس ڈھونڈ رہی ہے۔ ایک بار مل جائے بس۔۔ میں اسے زندہ نہیں چھوڑوں گا۔
گوپال نے اشتعال کے ساتھ اپنا ارادہ ظاہر کیا تھا
میرا نقصان تو پورا نہیں ہوگا تب بھی۔
اجمیر کی آنکھوں میں شدید اذیت تھی۔
میں مر جانا چاہتا ہوں ابھی اسی وقت۔
پلیز بابا میں لوگوں کو فیس نہیں کر سکتا پلیز مجھے مار دیں پلیز۔ اب وہ پھوٹ پھوٹ کے رو رہا تھا۔
انہوں نے اٹھ کر اسے گلے لگا لیا۔
اب وہ دونوں پھوٹ پھوٹ کر رو رہے تھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کلینک اپنے کولیگ ڈاکٹر سرفراز کے حوالے کر کے جہانزیب ابھی گھر پہنچے تھے۔ وہ مسلسل دو راتوں سے کلینک میں تھے۔
اب تھکن سے انکا برا حال تھا۔ وہ کچن کی طرف گئے جہاں فاطمہ اور فرشتے رات کے کھانے کی تیاری کر رہیں تھیں۔
اسلام و علیکم !
انہوں نے دونوں کو مشترکہ سلام کیا پر جواب صرف فاطمہ نے دیا۔ فرشتے کسی غیر کی طرح رخ موڑ چکی تھی۔
جہانزیب نے فرشتے کو خاص مخاطب کرکے کہا
فرشتے چائے لے کر میرے کمرے میں آو مجھے تم سے کچھ بات کرنی ہے
وہ اپنے کمرے کی طرف جا چکے تھے اور فرشتے سوالیہ نظروں سے فاطمہ کو دیکھ رہی تھی اور فاطمہ کندھے اچکا کر رہ گئی تھیں۔ انکا شریک حیات انسے بہت محبت کرتا تھا پر فرشتے کے معاملے میں انکو بھی لاتعلق رکھا تھا۔
وہ صرف اتنا جانتی تھیں کہ فرشتے یتیم خانے سے نہیں لائی گئی تھی۔
فرشتے کا وہ حلیہ انہیں آج بھی یاد تھا۔ اسکے کپڑے ہاتھ پیر منہ سب مٹی سے اٹا ہوا تھا۔ فاطمہ کے پوچھنے پر جہانزیب نے یہی کہا تھا کہ کیچڑ میں گر گئی تھی اور بس۔۔ اسکے بعد انہوں نے اسکے کسی سوال کا جواب نہیں دیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ صوفے پہ بیٹھے چائے کا سپ لیتے بغور فرشتے کو دیکھ رہے تھے جو انسے کچھ دور خود بھی صوفے پہ بیٹھی بے چینی سے انکے بولنے کی منتظر تھی۔
تم واقعی جاننا چاہتی ہو تمہارے ماں باپ کون ہیں؟
جی وہ بدقت اتنا ہی بول پائی تھی۔
آج وہ اپنے ماں باپ کے بارے میں جاننے والی ہے اس احساس سے اسکا دل عجب لے میں دھڑک رہا تھا۔
لیکن یہ کیا جہانزیب قرآن لئے اسکے سامنے آئے اور اس کے سامنے مصحف پہ ہاتھ رکھ کے بولے میں جو کہونگا الله کو حاضر ناضر جانتے سچ کہوں گا۔
ایک خیال جو فرشتے کے ذہن میں تھا کہ پاپا جھوٹ بھی بول سکتے ہیں۔
جہانزیب اسکی تردید کر چکے تھے۔
آج سے کافی سال پہلے کی بات ہے جب ہم سب دوستوں نے مل کر دیہاتی علاقوں میں ابتدائی طبی امداد کی ممعلومات فراہم کرنے اور ضروری ٹریننگ دینے کا فیصلہ کیا تھا۔
ہم سب بھینی پنڈ گئے تھے ارادہ خیمے لگانے کا تھا پر گاوں والوں نے رہائش کے لئے کمروں کا بندوبست کر دیا تھا۔
ہم دن میں باہر کیمپ لگاکر لوگوں کو معلومات فراہم کرتے اور رات کو تھک ہار کے ایسے سوتے کہ صبح گاوں والوں کی چائے ہی ہمیں اٹھاتی اور ہم پھر سے اپنے کام میں جت جاتے۔ وہاں کے لوگ بہت اچھے ملنسار تھے۔
ہم وہاں دیسی گھی کے پراٹھے وہ بھی خالص مکھن اور چائے کے ساتھ بنا انسے مانگے روز کھاتے تھے۔ انکے ہونٹوں پہ ہلکی سی مسکراہٹ ابھری تھی۔ نظریں ہاتھوں پہ ایسے جمی تھیں جیسے ابھی بھی انکے ہاتھ میں دیسی گھی کے وہی پراٹھے ہوں۔
فرشتے نے ہلکے سے کھنکارا بھر کر انکی محویت کو توڑا تھا۔ انہوں نے چونک کر اسے دیکھا اور پھر سے گویا ہوے۔
کیمپ کا آخری دن مکمل ہو چکا تھا۔ میرے سب دوست واپس چلے گئے پر میں ایک اور دن کے لئے وہیں رک گیا تھا۔ مجھے شروع سے دیہاتی علاقے پسند تھے۔ سب کو گاوں کی صبحیں پسند ہوتی ہیں پر مجھے گاوں کی رات پسند ہے۔ بڑی پر اسرار سی ہوتی ہے گاوں کی رات۔ گہری کالی خاموش جگنووں کی روشنی سے چمکتی رات۔۔ جب میں نے ایک آدمی کو کسی چیز کو کندھے سے لگائے رہائشی ایریا سے دور جاتے دیکھا۔ ایک انجانے سے احساس کے تحت میں بھی اس کے پیچھے چل پڑا
ایک لمحے کے لئے وہ رکے۔۔ٹھنڈی چائے کا ایک اور سپ لیا فرشتے کی طرف دیکھا جو بت بنی سانس روکے انکو سن رہی تھی۔
پھر۔۔؟
فرشتے کی کپکپاتی ہوئی آواز ان کی سماعت سے ٹکرائی اور بے بسی کے ساتھ وہ پھر بولنا شروع ہوئے۔۔
وہ شخص اب قبرستان میں داخل ہو چکا تھا۔ اس قبرستان کی دیواریں بمشکل 5 فٹ ہی اونچی ہونگی شائد۔ میں باہر ہی ایک دیوار سے چپکے اس شخص کی کاروائی دیکھ رہا تھا۔ اس کی منزل یہی تھی۔
اسنے اپنے کندھے سے لگی چیز اتار کر زمین پہ رکھی اور سائیڈ پہ پڑے کھرپے سے زمین کھودنے لگا۔
میں اسی سوچ میں تھا کہ وہ کسی چیز کو دفنانا چاہتا ہے جب مجھے اس چیز کے حرکت میں آنے کا احساس ہوا۔
وہ ایک بچی تھی جواٹھ کر آنکھیں رگڑ رہی تھی۔
وہ اس منظر میں کھو چکے تھے اور زبان ادھورے لفظ بڑبڑا رہی تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...