فاطمہ کو ہوش آگیا تھا اور اب اس نے عمر کا نام پکارنا بھی بند کر دیا تھا۔ وہ یوں ہی بستر پر لیٹی چھت کو گھور رہی تھی جب اس کی والدہ کمرے کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئیں۔ اس نے نظر گھما کر اپنی والدہ کو دیکھا تھا جو اس کی حالت دیکھ کر ایک دم رو پڑی تھیں۔ “کیسی پھول جیسی بچی تھی میری اور اب کیسے مرجھا سی گئی ہے۔” وہ اس کی آنکھوں کے گرد بڑھتے حلقوں کو چھوتے ہوئے کہہ رہی تھیں۔ ان کی بات پر بے اختیار ہی اس کے بھی آنسو بہہ نکلے۔
“امی آپ ایسے مت روئیں پلیز۔” وہ انہیں چپ کرواتے کرواتے خود بھی سسکیاں لے رہی تھی۔
“نہ بیٹا ناں۔ تو بھی مت رو۔” امی بمشکل خود پر ضبط کرتے ہوئے اب اس کے آنسو پونچھ رہی تھیں۔
“امی! مجھے پتا نہیں کیا ہوگیا تھا اس وقت۔۔۔۔۔” چند لمحے یوں ہی وہ دونوں ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے بیٹھی رہیں اور پھر اچانک فاطمہ نے کہنا شروع کیا۔
“مجھے ایسا لگا اس وقت بائیک پر عمر ہے۔ میرے سامنے عمر آگیا تھا اماں اور وہ میری نظروں کے سامنے موت کے منہ میں جاتا دکھائی دے رہا تھا۔ میرا دل کیسے نہ تڑپتا۔ میں نے اس وقت جتنا خود کو بے بس محسوس کیا زندگی میں کبھی نہیں کیا۔ میرا دل چاہ رہا تھا میں احد کو دھکا دے کر اس کے پاس بھیج دوں تاکہ وہ اسے بچا لے۔ اس وقت مجھے یاد ہی نہیں رہا اماں کہ عمر اس وقت نہیں مررہا تھا بلکہ وہ مر چکا تھا۔ سات ماہ پہلے۔۔۔” بولتے بولتے ایک دم اس کی آواز رندھ گئی تھی اور وہ خاموش ہوگئی تھی۔ امی نے دیکھا وہ بے آواز رو رہی تھی۔ آنسو اس کی آنکھوں سے گرتے ہوئے تکیے میں جذب ہونے لگے تھے۔
“بیٹا ایسا۔۔۔”
وہ ان کی بات کاٹ کر ایک بار پھر کہنا شروع ہوئی۔
“اماں۔۔۔” ان کے ہاتھ پر اس کی گرفت ذرا اور سخت ہوئی۔
“اماں وہ مجھے بہت یاد آتا ہے۔ میں کیا کروں اماں؟ وہ مجھے کیوں یاد آتا ہے اتنا؟ میں اکثر احد کو دیکھتی ہوں تو سوچتی ہوں کاش اس شخص کا چہرہ بدل جائے اور ایک بار صرف ایک بار اس کی جگہ عمر سامنے آجائے تو میں اسے سینے سے لگا لوں اور اس سے پوچھوں کہ اپنی فاطمہ کو چھوڑ کر کیوں چلے گئے؟ اسے ایک آخری بار بتائوں کہ فاطمہ عمر اس کے بغیر نہیں رہ سکتی۔ نہ اس کے بغیر رہ سکتی ہے نہ کسی اور کے ساتھ۔۔۔ اور نہ۔۔۔” وہ بولتے بولتے ایک دم خاموش ہوئی تھی۔ اس کی نگاہ دروازے پر ایستادہ احد پر پڑی تھی جو سر جھکائے کھڑا شاید یہ فیصلہ نہیں کر پارہا تھا کہ اسے مزید وہاں کھڑے رہنا چاہئیے یا خاموشی سے پلٹ جانا چاہیئے۔ اس کے خاموش ہونے پر اس نے ایک نظر بیڈ پر لیٹی فاطمہ کو دیکھا تھا جو شرمندگی سے نظریں جھکائے ہوئے تھی۔
اسے بیک وقت بیڈ پر دراز اپنی بیوی پر رحم بھی آیا اور اپںی زندگی پر ہنسی بھی۔ کیسی قسمت تھی دونوں کی۔ ایک طرف وہ اتنی پابند ہوگئی تھی کہ اب آزادی سے اپنے دکھ پر رو بھی نہیں سکتی تھی اور دوسری طرف وہ تھا جس کا رقیب اس کا اپنا جان سے پیارا بھائی تھا۔ فاطمہ کی والدہ جو اسے دیکھ کر بوکھلا گئی تھیں اسے باہر جاتا دیکھ کر ایک دم اس کے پیچھے لپکیں۔
فاطمہ نے ایک دم آنکھیں موند لیں۔ جو ہوا اسے اس پر کوئی خاص پچھتاوا نہ تھا۔ وہ خود بھی یہی چاہتی تھی کہ احد سب کچھ اپنے کانوں سے سن لے کہ وہ اب بھی عمر کو یاد کرتی تھی اور احد کے ساتھ گزارا کرنا محض جبری تھا۔ وہ جانتی تھی اس طرح خود پر خول چڑھائے رکھ کر ساری زندگی نہیں کٹ سکتی تھی۔
_______________
“احد بیٹا! رکو میری بات سنو۔”
وہ جو باہر کی طرف بڑھ رہا تھا فاطمہ کہ والدہ کی آواز سن کر ایک دم رک گیا۔
اس کے رکنے پر وہ تیزی سے چلتی ہوئی اس کے قریب آئیں۔
“دیکھو بیٹا! فاطمہ اپنے حواس میں نہیں ہے۔ مجھے لگتا ہے اس نے یہ سب ایسے ہی کہہ دیا ہے۔ تم بیٹا پلیز دل پر نہ لگانا بیٹا۔ میں اسے سمجھاوں گی۔ وہ آئیندہ ایسی بات منہ سے ہرگز نہیں نکالے گی۔”
وہ اسے بہلانے کے لئے کہہ رہی تھیں مگر احد بچہ نہیں تھا۔ وہ لہجوں کو بھی پہچانتا تھا اور لہجوں میں چھپے درد کو بھی۔ وہ۔جانتا تھا فاطمہ نے یہ بات اپنے پورے ہوش و حواس میں کہی ہے۔ وہ ان کی جھوٹی تسلیوں میں آکر خود کو دھوکا نہیں دے سکتا تھا۔
“نہیں آنٹی! آپ فاطمہ کو کچھ نہیں سمجھائیں گی۔ وہ جو فیصلہ کرے گی ہم اسے قبول کریں گے کیونکہ ابھی اس کی ذہنی حالت ایسی نہیں ہے کہ اس کو کسی بھی چیز کے لئے زبردستی کی جائے۔” وہ ان کو نرم مگر دو ٹوک انداز میں کہہ رہا تھا۔ اس کی بات کے آگے وہ بھی خاموش ہوگئیں۔ اس کا انداز ہی ایسا اٹل تھا کہ وہ آگے سے کچھ کہہ ہی نہ پائیں۔
________
احد نے یہ سب فاطمہ کی والدہ سے کہہ تو دیا تھا مگر اب دل ایک دم خالی سا ہوگیا تھا۔ یوں لگتا تھا کہ جیسے ایک بار پھر سب لٹ گیا ہو۔ وہ جانتا تھا فاطمہ کیا فیصلہ کرے گی اور اس کا یہ فیصلہ اسے اندر سے توڑ رہا تھا۔ کیا واقعی وہ اسے چھوڑ کر چلی جائے گی؟ کیا واقعی عمر کی محبت اس طرح اس کے دل میں بستی ہے کہ وہ اسے تھوڑی سی بھی جگہ نہیں دے پاتی؟ اس نے بے اختیار ہی آنکھیں موند کر بینچ پرسر ٹکا لیا۔ ہسپتال کی راہداری میں اس وقت اس بینچ پر بیٹھے ہوئے وہ اپنے تاریک مستقبل۔کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ کیا تھی اس کی زندگی سوائے اندھیرے کے؟ کیا اس کی زندگی میں کبھی مکمل خوشی پانا لکها تھا؟ کیا اس کے ہاتھوں کی لکیروں میں کوئی محبت کی لکیر بھی تھی؟ وہ اس وقت بےحد اداس ، مایوسی کی انتہا پر پہنچا ہوا تھا۔
_________________
فاطمہ کی حالت اب سنبھل چکی تھی اور ڈاکٹرز نے اسے گھر جانے کی بھی اجازت دے دی تھی۔
“احد ہسپتال کے کمرے میں داخل ہوا تو وہ بیڈ پر بیٹھی اپنے بال سمیٹ رہی تھی۔ اس کی والدہ اس کے ساتھ ہی اس کا چھوٹا سا ہینڈ بیگ تھامے ہوئے تھیں جس میں اس کی ضرورت کا سامان تھا۔ احد کے اندر داخل ہونے پر اس نے اسے نظر اٹھا کر دیکھا۔ اس کی آنکھیں سوجی ہوئی تھیں۔ ایسا لگتا تھا وہ کب سے روتی رہی ہے۔ احد بے اختیار نظریں چرا گیا۔ نجانے کیوں اس کی روئی روئی آنکھیں دیکھ کر اسے تکلیف ہوئی تھی۔
“وہ میں چند دن کے لئے امی کے گھر آرام کرنا چاہتی ہوں.” وہ اسے دیکھتے ہوئے کہہ رہی تھی جس پر اس نے صرف سر ہلانے پر اکتفا کیا تھا۔
وہ اسے روک نہیں سکتا تھا یہ جاننے کے باوجود بھی کہ وہ صرف چند دن کے لئے نہیں جارہی بلکہ ساری زندگی کے لئے جدا ہونے جارہی ہے۔
__________________
فاطمہ کو گئے دو دن گزر چکے تھے اور گھر ایک بار پھر ویران ہوگیا تھا۔ ان دو دنوں میں اسے احساس ہوا تھا کہ جو زندگی کی رمق اس گھر میں بچی تھی وہ اسی کے دم سے ہی تھی اور اب وہ بھی چلی گئی تھی ایک بار پھر اس گھر کو ویران کر کے۔ وہ پھر سے جیسے پچھلی زندگی پر لوٹ آیا تھا۔ سارا دن آفس پر گزارنا ، گھر آ کر خان بابا کے ہاتھ کا پھیکا سیٹا کھانا کھانا اور پھر سوجانا۔
ان دو دنوں میں خالہ ایک بار اس کے پاس آئی تھیں تو اسے تھوڑا دوسراہٹ کا احساس ہوا تھا۔ ایسا لگا تھا جیسے کوئی بات کرنے والا ہے۔ وہ دونوں خالہ بھانجے کتنی ہی دیر بیٹھ کر بیتے دنوں کو یاد کرتے رہے تھے۔ کتنی ہی دیر باتیں کرنے کے بعد اچانک خالہ نے اس سے پوچھ لیا کہ کیا وہ فاطمہ کو یاد کرتا ہے۔ ان کے اس طرح براہِ راست سوال پر وہ ایک دم نظریں چرا گیا۔ خالہ کے سامنے وہ فاطمہ سے اچانک ہو جانے والی محبت کا یوں برملا اعتراف کرنے سے تھوڑا جھجھک رہا تھا مگر وہ بھی ان کے بیٹے کی جگہ تھا۔ وہ بہت پہلے ہی اس کے دل کا حال سمجھ گئی تھیں۔
“بیٹا! میں جانتی ہوں تم اس سے محبت کرنے لگے ہو اور اسے یاد بھی کرتے ہو۔ تمہارا یہ رویہ بلکل فطری ہے۔ جب وہ ہسپتال میں تھی تو ہمہ وقت اس کے لئے تمہارے چہرے سے جھلکتی پریشانی اور اس کے کھو جانے کا خوف مجھے ساری بات سمجھا گیا تھا۔”
خالہ کی بات سن کر وہ عجیب شرمندہ سا ہوگیا تھا۔ کیا اس کے دل کا حال اس کے چہرے پر یوں عیاں تھا؟ اور اگر ایسا تھا ہی تو فاطمہ کو یہ سب نظر کیوں نہیں آیا۔
“تم فاطمہ کو لے آئو بیٹا! وہ دیکھنا ضرور آجائے گی۔ وہ کون سا تم سے کوئی ناراض ہو کر گئی ہے۔ تم ایک بار پیار سے اسے آنے کا تو کہو۔ دیکھنا وہ کیسے بھاگی چلی آتی ہے۔” خالہ اس کے چہرے کو محبت سے دیکھتے ہوئے کہہ رہی تھیں۔
“میں جانتا ہوں خالہ وہ مجھ سے ناراض ہو کر نہیں گئی۔ مگر میں اسے کچھ وقت دینا چاہتا ہوں تاکہ وہ بہتر فیصلہ کرسکے اور وہ جو فیصلہ کرے گی وہ مجھے منظور ہوگا۔”
خالہ اس کے اٹل لہجے کو دیکھتے ہوئے مایوسی سے خاموش ہوگئیں۔ وہ جانتی تھیں احد ان کی نہیں سننے والا۔ وہ اسے یہ نہیں سمجھا سکتی تھیں کہ وہ فاطمہ کو جو وقت دے رہا ہے اگر وہی وقت وہ اس کے ساتھ بتائے گی تو خود بخود احد کی محبت اس کے دل میں جگہ بنا لے گی اور پھر وہ اس کے ساتھ رہ کر ہی خوش رہ پائے گی۔
____________
فاطمہ یہاں آ تو گئی تھی مگر ایک عجیب سی بیچینی سی تھی جو ہر وقت اس کے ذہن پر سوار رہتی تھی۔ اس نے اس واقعے کے بعد ہسپتال میں ہی احد سے علیحدگی کا فیصلہ کرلیا تھا کیونکہ وہ جانتی تھی کہ عمر کی یادوں سے نکلنا اس کے لئے ممکن نہیں تھا اور اسی طرح احد کے ساتھ زندگی بتانا خود احد کے ساتھ زیادتی تھی۔ وہ بہت اچھا انسان تھا اور اس سے کئی زیادہ اچھی لڑکی ڈیزرو کرتا تھا مگر نجانے کیوں وہ اپنے اس فیصلے پر ہرسکون نہیں ہو پارہی تھی۔ وہ جب جب اپنے ماں باپ کا چہرہ دیکھتی اور بے چین ہوجاتی۔ وہ کیسے انہیں یہ فیصلہ سنائے گی؟ کیا وہ ایک بار پھر انہیں اسی دکھ سے دوچار کرے گی؟
آج بھی وہ اپنے کمرے میں بیٹھی بیڈ سے سر ٹکائے اپنے اس فیصلے کے بارے میں غور کررہی تھی۔ اس نے ایک بار آنکھیں بند کر کے خود کو احد سے علیحدہ ہو کر زندگی گزارتے ہوئے تصور کیا اور حیرت انگیز طور پر وہ مطمئین نہیں تھی۔ اسے ایسا صرف سوچ کر ہی عجیب سا محسوس ہونے لگا تھا۔ ایسا لگا جیسے دل و دماغ میں ہر جگہ ایک خالی پن سا اتر آیا ہو۔
(نہیں میں یہ سب کیا سوچنے لگی ہوں۔ مجھے احد سے الگ ہونا ہی ہے اور اگر الگ نہ بھی ہو پائی تو بھی اس سے محبت کرنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ میں عمر کے علاوہ کسی سے بھی محبت کر ہی نہیں سکتی۔) وہ آنکھیں کھول کر خود کو پرسکون کرتے ہوئے جیسے ایک فیصلے پر پہنچ گئی تھی۔ بیڈ سائیڈ ٹیبل پررکھا اپںا فون اٹھایا اور چند بٹن دبا کر فون کان سے لگا لیا۔ چند لمحوں بعد احد کی آواز گونجی تھی۔
“السلام علیکم”
“وعلیکم االسلام! کیسے ہیں؟”
“ٹھیک اللحمدللہ! تم کیسی ہو؟”
“میں ٹھیک ہوں۔ کیا آپ مجھے کل لینے آسکتے ہیں؟” اس نے اس سے تیزی سے کہا تھا اور ایک دم زبان دانتوں تلے دبا لی۔ وہ یہ کیا کہہ گئی تھی۔ اسے تو یہ نہیں کہنا تھا۔ مگر اس کی آواز سنتے ہی وہ اس سے یہ سب کیوں کہہ گئی۔ وہ کیوں نہیں کہا جو وہ کہنا چاہتی۔تھی؟ احد نے فوراً ہاں کہہ دیا تھا اور اب وہ فون ہاتھ میں تھامے خود کے رویے پر ہی متعجب تھی۔
_____________
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...