سدرہ تم شہریار کا پتہ کرنے گئی تھی تو ہمیں بھی بتاتی، ہم بھی جاتے تمھارے ساتھ” راشد صاحب نے سیب کھاتی سدرہ سے کہا
” اب وہاں جانے کا کوئی فائدہ نہیں” سدرہ نے سیب کاٹنے کے بعد چھڑی پلیٹ پر رکھتے ہوئے کہا
” کیا مطلب، فائدہ نہیں، ہونے والا شوہر ہے تمھارا، اور تم کہہ رہی ہو کہ فائدہ نہیں ” راشد صاحب نے سوالیہ نظروں سے سدرہ کس دیکھا
” ہونے والا تھا، ہے نہیں، اب شاید یہ بھول چکے ہیں کہ اب وہ معذور ہو چکا ہے اور میں کسی معذور کے ساتھ شادی نہیں کرسکتی” سدرہ نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے کہا
” یہ کیا کہہ رہی ہو تم، تم مت بھولو کہ تمھارا باپ کسی معذور انسان سے کم نہیں ” راشد صاحب نے آواز اونچی کرتے ہوئے کہا
” صحیح تو کہہ رہی ہے سدرہ، اب ضروری تو نہیں ہے کہ میں اپنی بیٹی کی شادی بھی اُس کے باپ کو دیکھتے ہوئے کسی معذور انسان کے ساتھ کروا دوں ” نسرین بیگم نے سدرہ کا ساتھ دیتے ہوئے کہا
” شرم کرو نسرین بیگم، بجائے بچی کو سمجھانے کے تم اُس کو غلط بات سیکھا رہی ہو، فرض کرو اگر شادی کے بعد، شہریار معذور ہو جاتا تو کیا کرتی پھر یہ” راشد صاحب نے اپنی اونچی آواز برقرار رکھی
” پھر بابا میں اس کو نصیب کا لکھا سمجھ کر سمجھوتہ کرلیتی مگر ابھی میری قسمت میرے ہاتھوں میں ہے اور میں اسے جزبات میں آکر تباہ نہیں کرنا چاہتی، میں شہریار سے شادی نہیں کروں گی، یہ میرا آخری فیصلہ ہے”
” بہت پچھتاؤ گی تم” راشد صاحب نے اپنے فالج جسم کو بےبسی سے دیکھتے ہوئے کہا
” کیا خاک پچھتائی گی، اب دوسروں کے لیے میری بچی اپنی زندگی داؤ پر تو نہیں لگا سکتی، تم جاؤ باہر، اپنے باپ کی نہ سننا، ویسے ہی بولتا رہتا ہے، اپنے بیٹی کے مقدر بھی اپنی بیوی جیسے ہی بنانا چاہتا ہے” نسرین بیگم نے سدرہ کو باہر جانے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا
***********************
شام چار بجے کا وقت تھا جب روم میں ہلکی سی دستک ہوئی۔کچی نیند ہونے کی وجہ سے شہریار پہلی دفعہ کھٹکھٹانے پر ہی جاگ گیا۔آنکھیں کھولنے سے پہلے اُس نے کسی معصوم بچے کی طرح اللہ سے دعا کی کہ اُس کے ساتھ گزشتہ دن جو بھی ہوا ہو وہ خواب ہو مگر آنکھیں کھونے کے بعد اپنے آپ کو ہسپتال میں پاکر ایک بار پھر وہ مایوسی کے سمندر میں ڈوب گیا۔لیکن جونہی اُس نے روم میں آنے والے انسان کی طرف دیکھا، اُسے نظریں چرانے میں دیر نہیں لگی۔کیونکہ سامنے حیا جو تھی۔
” حیا، تم یہاں، ماما بابا کہاں ہیں” شہریار نے تھوک نگلتے ہوئے کہا
” وہ کچھ دیر آرام کرنے کے لیے گھر گے ہیں، ویسے فکر نہ کرو، تم بھی کل ہسپتال سے ڈسچارج ہوجاؤں گے” حیا نے مسکراتے ہوئے کہا
” تم کیوں نہیں گئی” شہریار نے سوالیہ نظروں سے حیا کو دیکھا۔ ایکسیڈنٹ ہونے کے بعد یہ پہلا لمحہ تھا جب اُس نے حیا کی آنکھوں میں دیکھ کر بات کی۔
” اگر میں چلی جاتی تو تمھارے ساتھ کون رُکتا” حیا نے اپنی مسکراہٹ برقرار رکھی
شہریار کو حیا کا ملنسار رویہ بہت پسند آیا. حیا کے اس اچھے سلوک کی وجہ سے اُس کے دل میں حیا کے لیے عزت اور بھی بڑھ گئی. ورنہ وہ کم ازکم حیا سے اچھے سلوک کی امید نہیں رکھتا تھا۔ بلکہ جاگنے کے بعد تو اُسے سب سے پہلا خیال بھی یہ آیا تھا کہ حیا اُس کا مزاق اڑائیے گی اور سدرہ کے ساتھ تو وہ پتا نہیں کیا کرۓ گی، اُسے اپنے سے زیادہ سدرہ کی فکر تھی کہ کہیں حیا، سدرہ کی شکایت نہ لگا دے، کتنا معصوم اور وفادار سمجھتا تھا وہ، سدرہ کو مگر وہ تب غلط ثابت ہوا جب سدرہ نے اُسے ٹھکرا دیا۔ہم ہمیشہ لوگوں کو ویسا سمجھتے ہیں جو لوگ ہمیں دکھاتے ہیں۔ مگر لوگوں کے اصلی چہرے تب سامنے آتے ہیں جب ہم پر برا وقت آتا ہے۔
” کیا سوچ رہے ہو شہریار” حیا نے صوفے پر بیٹھتے ہوۓ کہا
” ککککک….. کچھ نہیں” شہریار نے بوکھلا کر جواب دیا کیونکہ حیا کا سوال جو اُسے خوابوں کی دنیا سے واپس لے آیا تھا۔
” حیا، تم اتنی اچھی کیوں ہو، میں نے تو تمھارے ساتھ اتنا برا کیا ہے پھر تم کیوں میرا ساتھ اتنا اچھا برتاؤ کررہی ہو” شہریار سے رہا نہیں گیا اور وہ سوال حیا سے پوچھ بیٹھا جو اُس کے ضمیر کو کب سے تنگ کر رہا تھا۔
” کیونکہ میں شہریار خان یا سدرہ راشد نہیں بلکہ میں حیا سیلم ہوں، میں اُس باپ کی بیٹی ہوں جس کو دوسروں کی عزت کرنی آتی یے۔اگر میں بھی تم لوگوں کی طرح بدلہ لینے بیٹھ جاؤ تو کیا فرق رہے گا، مجھ میں اور تم لوگوں میں ، کیا میرے لیے یہ کافی نہیں ہے کہ میرا اللہ دیکھ رہا کہ کون میرے ساتھ ناانصافی کر رہا ہے۔ اور جہاں تک معاف کرنے کی بات ہے تو میں اُس ماں کی بیٹی ہوں جس نے مجھے بچپن سے درگزر کرنا سکھایا تو پھر میں کیونکر برائی کا راستہ چن کر تمھارے ساتھ برا سلوک کروں” حیا نے گہری سانس لیتے ہوئے کہا
” حیا، پلیز مجھے معاف کردو” شہریار نے حیا کے آگے ہاتھ جوڑتے ہوۓ کہا
” اسکی ضرورت نہیں، تم نے میرے ساتھ جو کیا، اُس کی سزا تم بھگت چکے ہو شہریار، اب میں کون ہوتی ہوں، تمھیں نہ معاف کرنے والی” حیا نے شہریار کو ٹشو پکڑاتے ہوۓ کہا کیونکہ شہریار ندامت کے آنسوؤں میں بھیگ چکا تھا۔
” حیا، مجھ سے پیار سے بات مت کرو، میں اس پیار کے لائقِ نہیں، میں سدرہ کی باتوں میں آگیا تھا۔ اور نجانے اُس کی باتوں میں آکر تمھارے ساتھ کیا کچھ کرنے کا سوچ رہا تھا۔مت کرو تم مجھے معاف، بلکہ بدعا دو مجھے، جس کے قابل ہوں میں، مجھے نہیں یاد کہ میں نے کبھی سدرہ کو کسی بات سے انکار کیا ہو بلکہ میں نے تو سدرہ کی ہر جائز ناجائز فرمائش آنکھیں بند کر کے پوری کی اور انہی چکروں میں اللہ سے دور ہوگیا۔ میں بھول گیا تھا کہ اللہ بہترین انصاف کرنے والا ہے، میں بھول گیا تھا کہ مکافات سے کوئی انسان نہیں بچ سکتا، نامحرم کی محبت میں اندھا ہوکر میں نے رب کو ناراض کردیا تھا۔جس کی وجہ سے میں صحیح غلط کی پہچان بھول گیا۔ میں بھول گیا تھا کہ جو ہم کرتے ہیں وہی ہمارے آگے آتا ہے، میں بھول گیا تھا کہ اگر میں کسی کی عزت سے کھیلوں گا تو کل کو کوئی میری بھی عزت سے کھیل سکتا ہے اور پھر ان سب گناہوں کا نتیجہ ایسا نکلا جس کا میں خواب میں بھی نہیں سوچ سکتا تھا، میری سدرہ، وہ سدرہ جس کی وجہ سے میں اللہ سے دور ہوا، جس کو خوش کرنے کے لیے نجانے کتنی لڑکیوں پر بہتان لگاۓ، آخر میں وہی مجھے چھوڑ کرچلی گئی۔ حیا میں تمھارا مجرم ہوں نہ تو پلیز دعا کرو کہ میں مر جاؤں، کیونکہ میرے اعمال مجھے چین سے جینے نہیں دیتے، میں نے سدرہ کو پانے کے لیے سب کو چھوڑ دیا تھا، یہاں تک کہ اپنے ماں باپ کو بھی، کیونکہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ میری سدرہ سے شادی ہو، شاید اس لیے کہ وہ تجربکار تھے، لوگوں کی پہچان اُن کو آتی تھی، مگر میں نے اُن کی بھی نہیں سنی، صرف اپنے مردہ دل کی سنی جس کی وجہ سے آج میں ہسپتال میں ہوں۔ میں بھول گیا تھا کہ دوسروں کی زندگی تباہ کرکے آپ خود بھی کبھی خوش نہیں رہ سکتے، میں دوسروں کا گھر اُجاڑ کر سدرہ سے شادی کرنا چاہتا تھا ، مگر میں بھول گیا تھا کہ اللہ سب دیکھ رہا ہے”
” شہریار تمھیں اپنی غلطی کا احساس ہوگیا، میرے لیے یہی کافی ہے، اور جہاں تک سدرہ کی جانے کی بات ہے تو سدرہ جیسے لوگ ہر کشتی کے عارضی مسافر ہی ہوتے ہیں، جو ہوا، اُسے بھول جاؤ، ہم ویسے بھی تو اچھے دوست ہیں، اور دوست تو آپس میں ناراض نہیں ہوتے، اس لیے اپنا پھولا ہوا منہ جلدی جلدی ٹھیک کرو، تاکہ میرے نکاح پر ہینڈسم لگ سکو” حیا نے مسکراتے ہوۓ ٹاپک چینچ کرتے ہوۓ کہا
وہ جانتی تھی کہ شہریار سدرہ کے جانے پر پہلی ہی بہت دکھی ہے اس لیے اُس نے شہریار کا موڈ خوشگوار کرنے کے لیے اپنی شادی کی بات چھیڑی
” ماشااللہ، کب ہے تمھارا نکاح، مجھے تو نہیں پتا تھا” شہریار نے دل میں ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے کہا، اُسے آہستہ آہستہ احساس ہورہا تھا کہ اُس نے سدرہ جیسا کھوٹا سکا نہیں بلکہ حیا جیسا ہیرا کھویا ہے۔
” اگلے مہینے، تمھارے آپریشن کے بعد” حیا نے مسکراتے ہوئے کہا
” ہمممم اچھا ہے” شہریار نے صرف اتنا کہنا ہی ضروری سمجھا۔
**************************
” کیا کر رہی ہو فاطمہ، جانا نہیں ہے کیا، جلدی کرو، اُن کو ہم نے چار بجے کا وقت بتایا ہوا ہے، تم نے یہی پانچ بجوا دیے ہیں” سالار نے کہا جس کے مطابق اُس نے فاطمہ کے کمرے کے تین چار چکر مار لیے تھے مگر میڈم تیار نہیں ہوئی تھی۔
” اففف، بھائی آرہی ہوں، تیار تو ہونے دیں، اب شادی بار بار تو نہیں آتی ” فاطمہ نے حجاب سیٹ کرتے ہوئے کہا
” تیار ہونے کا تو میڈم ایسے بول رہی ہیں جیسے فیشن شو پر جارہی ہوں ” سالار نے فاطمہ کو غصہ دلاتے ہوئے کہا
” اب، آپ کی طرح تو نہیں ہوں، کہ منہ دھوۓ بغیر ہی چلی جاؤں ” فاطمہ نے منہ بناتے ہوئے کہا
” فاطمہ، تم ادھر ہی رہ جاؤ، ہم بہت لیٹ چکے ہیں، باہر زوہیب گاڑی پر بیٹھا بار بار ہارن بجا رہا ہے ” ارم نے اپنی لپسٹک ٹھیک کرتے ہوئے کہا
” واؤ، ارم آپی، آپ تو سسرال جاتے ہی بدل گئی ہیں ” فاطمہ نے معصومیت سے کہا
” نہیں بدلی میں، تمھیں جانا یے تو جلدی تیار ہو کر باہر آؤ” ارم نے باہر جاتے ہوئے کہا
” سالار بھائی مجھے ایک بات سمجھ نہیں آئی کہ زوہیب بھائی کو اچانک رانیہ کسیے پسند آگئی” ارم کے جاتے ہی فاطمہ شروع ہوگئی
” رانیہ، زوہیب کی نہیں، تائی امی کی پسند ہے” سالار نے کہہ تو دیا تھا مگر وہ بھی جانتا تھا کہ سچ کیا ہے
” شکر ہے کہ تائی امی کو بھی کوئی پسند آیا ” فاطمہ نے ہنستے ہوئے کہا
” ہاں یہ تو ہے، اب چلو باہر، ہم لیٹ ہوگے ہیں ” سالار نے مسکراتے ہوئے کہا
*************************
“کب سے دروازے پر دستک ہورہی ہے، مجال ہے جو کوئی دروازہ کھولے، نسرین بیگم کہاں ہو، دروازے پر کوئی آیا ہے” راشد صاحب نے نسرین بیگم کو آواز دیتے ہوئے کہا
” تم بس آوازیں ہی دیتے رہنا، دروازے کے پاس بیٹھے ہو پر مجال ہے کہ دروازہ کھول” نسرین بیگم نے راشد صاحب کے الفاظ ہی انھیں واپس لوٹاۓ اور دروازہ کھولنے چلی گئی مگر دروازہ کھولنے پر انجان شخص کو دیکھ کر حیران رہ گئیں۔
” جی کس سے ملنا ہے آپ کو؟” نسرین بیگم نے سنجیدگی سے کہا
” آنٹی، یہ سدرہ کا گھر ہے، میں سدرہ کا فرینڈ، زین شیخ ”
” او بیٹا آپ، تو باہر دھوپ میں کیوں کھڑے ہو، آؤ اندر آؤ، اسے اپنا ہی گھر سمجھو” نسرین بیگم نے مسکراتے ہوئے کہا
” ہیلو انکل” زین نے راشد صاحب کے ساتھ ہاتھ ملاتے ہوۓ کہا
” آنٹی سدرہ کہاں ہے، نظر نہیں آرہی “زین نے نسرین بیگم ست پوچھا کیونکہ راشد صاحب تو سلام کرنے کے فوراً بعد کمرے میں چلے گے تھے۔
” بیٹا، وہ یونیورسٹی گئی ہوئی ہے” نسرین بیگم نے جواب دیا
” دراصل آنٹی، میں آپ سے سدرہ کا ہاتھ مانگنے آیا تھا، میں چاہتا ہوں کہ میں اور سدرہ اگلے مہینے نکاح کرلیں کیونکہ پھر میں انگلینڈ شفٹ ہوجاؤں گا”
” ہاں یہ تو بہت بہتر رہے گا، بیٹا مجھے تو کوئی اعتراض نہیں مگر آپ کے گھر میں کوئی بڑا نہیں ہے جو آکر شادی کی بات کرسکے ” نسرین بیگم نے افسوس کے ساتھ زین کے بڑے ہوۓ بالوں کو دیکھا
” نہیں آنٹی، میری ایک ہی بہن ہے، وہ بھی انگلینڈ ہی رہتی ہے مگر آپ بےفکر رہیں حق مہر، بری، سب آپ کی مرضی کا ہوگا ”
” یہ تو اچھی بات ہے، جب سدرہ کو کوئی اعتراض نہیں تو ہم کیا کہہ سکتے ہیں ”
” اچھا آنٹی میں چلتا ہوں ” زین نے اٹھتے ہوئے کہا
” بیٹا، کہاں جاری ہو،ابھی تو آۓ ہو بیٹھو ابھی تھوڑی دیر، میں آپ کے لیے چاۓ لے کر آتی ہوں” نسرین بیگم نے مسکراتے ہوئے کہا
” نہیں آنٹی پھر کبھی”
یہ کہہ کر زین گھر سے باہر نکل جاتا ہے۔
*************************
” بی بی جی، مہمان آگے ہیں” ملازمہ نے سحرش بیگم سے کہا
” اچھا تم اُن کو ڈرائنگ روم میں بیٹھاؤ، میں آتی ہوں” سحرش بیگم نے ٹیبل سے موبائل اُٹھاتے ہوئے کہا
” چلیں شیخ صاحب” سحرش بیگم نے ارشد صاحب کو کہا
” ہممم، چلو” ارشد صاحب نے جواب دیا
” السلام علیکم” ارشد صاحب اور سحرش بیگم نے ڈرائنگ روم میں داخل ہوتے سلام کیا
” وعلیکم السلام ” سب نے بیک وقت کہا اور احتراماً کھڑے ہوگے
” نہیں، نہیں آپ سب کو کھڑے ہونے کی ضرورت نہیں ہے ” ارشد صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا
” مجھے بات کو طول دینا کچھ خاص پسند نہیں اس لیے میں آپ کو صاف صاف بتانا چاہتا ہوں کہ میں ایک پریکٹیکل انسان ہوں، میرے خیال سے لڑکیاں جتنی جلدی اپنے گھر کی ہو جائیں اُتنا ہی اچھا ہوتا ہے، اس لیے میں چاہتا ہوں کہ میں رانیہ کی شادی جلد ہی کردوں” ارشد صاحب نے فرقان صاحب کی طرف دیکھتے ہوئے کہا
” ہمارا بھی یہی خیال ہے کہ زوہیب اور رانیہ کی شادی جلدی ہوجانی چاہیے، ویسے بھی اب ماشاءاللہ سے زوہیب کا بزنس بھی سیٹ ہوگیا ہے، مگر ہم چاہتے ہے کہ ابھی صرف نکاح ہو اور رانیہ کی پڑھائی کے بعد رخصتی ہو، آپ کو کوئی اعتراض تو نہیں ہے” فرقان صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا
” ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے بلکہ یہ تو بہت بہتر رہے گا” سحرش بیگم نے مسکراتے ہوئے کہا
” دراصل ہم اپنے بڑے بیٹے سالار کا نکاح حیا سے اگلے مہینے کو کر رہے ہیں، اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ زوہیب اور رانیہ کا نکاح بھی اُن کے ساتھ ہی ہو، اس بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ ” سعدیہ بیگم نے مسکراتے ہوئے سحرش بیگم سے پوچھا
” یہ تو بہت بہتر رہے گا، ویسے بھی رانیہ اور حیا بچپن کی سہیلیاں ہیں، چلیں پھر اگلے مہینے کی نو تاریخ کیسی رہے گی ” سحرش بیگم نے مسکراتے ہوئے کہا
” بہتر رہے گی” فرقان صاحب نے جواب دیا
زوہیب اور رانیہ کے نکاح کی تاریخ طے ہونے کے بعد سحرش بیگم نے تابش کے حق میں بولنے کا فیصلہ کیا۔
” رانیہ اور زوہیب کی شادی کے ساتھ ساتھ ہم اپنے بیٹے تابش کی شادی آپ کی بیٹی فاطمہ سے کروانے چاہتے ہیں”
” فاطمہ سے” عالیہ بیگم کو جیسے اپنے کانوں پر یقین نہیں آیا جبکہ فاطمہ کی قسمت اچھی تھی کہ وہ اس وقت رانیہ کے کمرے میں تھی۔
” جی، آپ کو کوئی اعتراض تو نہیں ہے” ارشد صاحب نے پوچھا
” نہیں مسئلہ تو کوئی نہیں ہے، بلکہ تابش تو بہت اچھا لڑکا ہے” آفتاب صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا
” چلیں پھر طے ہوگیا کہ اگلے مہینے کی نو تاریخ کو تین نکاح ہونگے” سحرش بیگم نے مسکراتے ہوئے کہا
” انشااللہ” سب نے ایک ساتھ کہا
**********************
ایک ماہ بعد
آج شیخ ہاؤس، خلافِ معمول لوگوں سے بھرا پڑا تھا. ورنہ تو شاید چڑیاں بھی شیخ ہاؤس کا رخ کرنا کچھ خاص پسند نہیں کرتی تھیں. مگر آج کی تو بات ہی الگ تھی. آج تو ارشد صاحب بھی اپنی روزمرہ کی زندگی سے وقت نکال کر لوگوں سے خوش گپوں میں مصروف تھے. پاکستان کے نامور بزنس مین اپنی فیملی کے ساتھ یہاں موجود تھے. سب ہاتھوں میں جوسز پکڑے باتوں میں مصروف تھے. یہ سب اختتام سالار اور حیا، تابش اور فاطمہ، زوہیب اور رانیہ کے نکاح کے لیے کیا گیا تھا. نکاح کی تقریب گارڈن میں رکھی گئی تھی. گارڈن کو بہت اچھی طرح سے ڈیکوریٹ کیا گیا تھا. گارڈن میں ہر طرف ریڈ اور وائٹ کلر کے پھول سجاۓ ہوئے تھے. سٹیچ اور انٹریس میں ریڈ کلر کے غبارے سجاۓ ہوۓ تھے. سب سے زیادہ شامت تو یہاں کام کرنے والوں کی آئی ہوئی تھی. گارڈن میں ملازموں کی ایک فوج لوگوں کی خدمت کرنے کے لیے تیار کھڑی تھی. کچھ ویٹر ہاتھوں میں جوسز کی ٹرے پکڑے پورے ہال کا چکر لگا تھے. جبکہ کچھ صوفوں پر بیٹھ کر مفت کی روٹیاں توڑ رہے تھے. سحرش بیگم پرپل کلر کی ساڑھی پہنے مہمانوں سے مل رہی تھی.
” فرزانہ، ذرا جا کر دیکھو کہ رانیہ تیار ہوئی ہے کہ نہیں” سحرش بیگم نے فرزانہ سے کہا
” جی بی بی” فرزانہ یہ کہہ کر گھر کے اندر چلی گئی
” چھوٹی، بی بی، اور کتنا وقت لگے گا آپ کو، بیگم صاحبہ آپ کو بلا رہی ہیں ”
” میں تو تیار ہوگئی ہوں مگر حیا ابھی تیار نہیں ہوئی، آپ مام کو بولیں کہ حیا تیار ہوجائے تو ہم آتے ہیں ”
” جی اچھا” فرزانہ نے کہا اور کمرے سے باہر نکل گئی
” حیا اور رانیہ مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے” فاطمہ نے معصومیت سے کہا
” ڈر کس بات کا، ہم ہیں نہ تمھارے ساتھ” رانیہ نے حیا کی طرف دیکھتے ہوئے کہا جو کہ بیوٹیشن سے میک اپ کروانے میں مصروف تھی۔
” تو تم لوگ میرے ساتھ تھوڑے ہی رہو گے، یہ تو تم دونوں کے مزے ہیں کہ دونوں ایک ہی گھر میں رہو گے” فاطمہ نے منہ بناتے ہوئے کہا
” اچھا کچھ نہیں ہوتا، ہم تم سے ملنے آتے رہیں گے، ویسے بھی یہ تو میرا اپنا گھر ہے” رانیہ نے مسکراتے ہوئے کہا
” پھر بھی میں ابھی بہت نروس ہورہی ہوں ” فاطمہ نے ایک بار پھر سرجھکاتے ہوئے کہا
” یار کچھ نہیں ہوتا، صرف نکاح ہی تو ہے، ابھی رخصتی تو نہیں ہے”
” ہاں، بس اسی بات کا سہارا ہے” فاطمہ نے مسکراتے ہوئے کہا
” میڈم یہ تیار ہوگئی، آپ ایک بار ان کا میک اپ چیک کرلیں تاکہ جہاں سے بھی خرابی ہو، میں ٹھیک کرلوں” بیوٹیشن نے رانیہ سے کہا
” نہیں میک اپ ٹھیک ہے، آپ جاسکتی ہیں ” رانیہ نے مسکراتے ہوئے حیا کی طرف دیکھا جس نے آج سلور کلر کا لہنگا پہنا ہوا تھا جو کہ دیکھنے میں کافی نفیس دکھائی دے رہا تھا۔خود رانیہ نے ریڈ کلر کا لہنگا پہنا ہوا تھا۔رانیہ اور حیا نے بیوٹیشن کے لاکھ اصرار کرنے کے باوجود کھلے چھوڑے ہوئے تھے۔ جبکہ فاطمہ نے کسی معصوم بچے کی طرح بیٹویشن کی بات مانتے ہوئے بالوں کا جُوڑا بنایا ہوا تھا۔ فاطمہ نے لہنگا کریمی کلر کلر کا پہنا ہوا تھا۔ وہ تینوں ہی آج بہت پیاری لگ رہی تھی، تینوں میں سب سے پیارا کون لگ رہا ہے، اس بات کا اندازہ لگانا ناممکن تھا۔تیار ہونے کے بعد وہ تینوں باہر چلی گئی جہاں سے اُن کی نئی زندگی کا آغاز ہونا تھا۔
سالار، زوہیب اور تابش بھی تیاری میں کسی سے کم نہیں لگ رہے تھے۔زوہیب نے وائٹ کلر کی قمیض اور شلوار کے ساتھ ریڈ کلر کی واسکٹ پہنی ہوئی تھی۔تابش نے کریمی کلر کا تھری پیس سوٹ پہنا ہوا تھا جبکہ سالار نے بلیک کلر کا تھری پیس سوٹ پہنا ہوا تھا۔
**************************
نکاح کچھ دیر میں ہونے ہی والا تھا کہ سٹیچ پر بیٹھی رانیہ زور سے چلائی۔اُس کے یوں چلانے پر گارڈن میں موجود سب لوگ اُس کی طرف دیکھنے لگے۔
” کیا ہوا رانیہ ، کچھ تو شرم کرلو، ابھی کچھ ہی دیر میں تمھارا نکاح ہونے والا ہے” پاس بیٹھی حیا نے کہا
” حیا وہ دیکھو، شہریار” رانیہ نے انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے کہا
رانیہ کے کہنے کی دیر تھی کہ حیا نے ایک دم اپنی نظریں گارڈن میں موجود لوگوں پر دوڑائی۔ ذرا سی کوشش کے بعد اُسے شہریار نظر آگیا۔وہ گارڈن کے ایک کونے میں کھڑا اُسے دیکھ کر مسکرا رہا تھا۔حیا نے اُسے ہاتھ کے اشارے سے سٹیچ پر بلایا۔ لیکن جو بات حیا کو حیران کر گئی تھی وہ یہ تھی شہریار بغیر کسی چیز کا سہارا لیا اکیلے کھڑا ہے
” بہت بہت مبارک ہو آپ سب کو، اللہ آپ سب کو خوش رکھے” شہریار نے مسکراتے ہوئے سٹیچ پر رکھے گے صوفے ہر بیٹھتے ہوئے کہا
” شکریہ” تینوں نے ایک ساتھ کہا
” شہریار تم کہاں غائب ہوگے تھے” حیا نے شہریار سے کہا
” حیا، میں کل ہی انگلینڈ سے واپس آیا ہوں، ایک ہفتہ پہلے میرا آپریشن تھا تو اسی کے سلسلے میں انگلینڈ گیا ہوا تھا”
” ماشااللہ، تمھیں بہت بہت مبارک ہو” حیا نے مسکراتے ہوئے کہا
” شہریار، تمھیں پتا ہے کہ سدرہ نے نکاح کرلیا ہے، اب وہ اپنے شوہر کے ساتھ انگلینڈ چلی گئی ہے” رانیہ نے حقیقت سے پردہ اٹھاتے ہوئے کہا
حالانکہ حیا بالکل نہیں چاہتی تھی کہ شہریار کو یہ بات پتا چلے۔
” یہ تو اچھی بات ہے، اللہ اُسے خوشیاں دے” شہریار نے مسکراتے ہوئے کہا
شہریار کی بات سن کر وہ تینوں حیران رہ گئی، کم ازکم وہ شہریار سے ایسی باتوں کی امید نہیں رکھتی تھیں۔
**************************
چار ماہ بعد
” کیا یہ صباحت کا گھر ہے” شہریار نے دروازہ کھولنے والے سے پوچھا
” جی مگر آپ کون”
” میں اُس کا کلاس فیلو ہوں، آگر آپ برا نہ مانیں تو میں آپ سے دو منٹ بات کر سکتا ہوں” شہریار نے کہا
” آجاؤ اندر”
شہریار گھر کی حالت دیکھ کر حیران رہ گیا، وہ لوگ گھر کے نام پر جھونپڑی میں رہ رہے تھے۔ بیٹھنے کے لیے صحن میں ٹوٹی پھوٹی سی چارپائی رکھی ہوئی تھی۔ ابھی شہریار گھر کا اندازہ ہی لے رہا تھا کہ کمرے سے صباحت باہر نکلی
” امی کون آیا ہے” صباحت نے کہہ تو دیا تھا مگر سامنے چارپائی پر بیٹھے شخص کو دیکھ کر حیران رہ گئی، اُس کا مجرم اُس کے سامنے کھڑا تھا۔مگر مجرم کو بجاۓ سزا دینے کے وہ ڈر کر کمرے میں بھاگ گئی۔
” آنٹی، انکل نظر نہیں آرہے، انکل کہاں ہیں”
شہریار کی بات نے تو ثمینہ بیگم کے پرانے زخم ہرے کردیئے۔
” بیٹا، تمھارے انکل تو آج سے دو سال پہلے اللہ کو پیارے ہوگے تھے”
شہریار کو مرنے کی وجہ پوچھنے کی ہمت نہ ہوئی کیونکہ وہ جانتا تھا کہ قصوروار وہ خود ہے۔
” آنٹی، میں صباحت سے نکاح کرنا چاہتا ہوں ” شہریار نے آخرکار ہمت کرکے بول ہی دیا
” یہ کیا کہہ رہے ہو بیٹا” ثمینہ بیگم نے شہریار سے ایسے پوچھا جیسے اٗن کو اپنے کانوں پر یقین نہ آیا ہو۔
” جی آنٹی ، میں صباحت سے نکاح کرنا چاہتا ہوں، اور اگر آپ کی اجازت ہو تو میں اپنے گھروالوں کو آپ سے ملوانے کے لیے ادھر لاسکتا ہوں”
” مگر پھر بھی بیٹا، تم کہاں، ہم کہاں، یہ رشتہ بے مول ہوگا، تمھارے گھر والے نہیں مانیں گے ”
” آنٹی، میرے گھر والوں کے نزدیک پیسوں سے زیادہ انسان کی اہمیت ہے، اس لیے آپ بےفکر ہوجائیں، میں ذرا صباحت سے تھوڑی دیر بات کرنا چاہتا ہوں ”
” اچھا تم رکوں، میں اُس کو بلاتی ہوں” اس کے بعد ثمینہ بیگم صباحت کو آوازیں دینے لگی۔