’’مجھے بہت دکھ، افسوس اور حیرت ہورہی ہے ثنائیلہ تم پر۔۔۔‘‘نابیہ نے بہت افسردگی سے ثنائیلہ کو دیکھا جو ایک تنکے کے ساتھ زمین پر بے معنی سی لکیریں کھینچ رہی تھی۔ اپنی دوست کی بات پر اُس نے سر اٹھا کر اُسے دیکھا ۔اُس کی آنکھوں میں آنسوؤں کی نمی تھی۔
’’کیا تم یہ گمان بھی کر سکتی ہو،کہ میں ایسا کچھ کر سکتی ہوں۔۔۔‘‘ ثنائیلہ کے رنجیدہ لہجے پر نابیہ ایک لمحے میں لاجواب ہوئی۔
’’آئی ایم سوری یار۔۔۔‘‘ وہ اب اُس کے ساتھ ہی باورچی خانے کی دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئی۔’’میں بھی حیران تھی کہ تمہیں تو ہر بات کا پتا تھا ،پھر تم نے شہیر کے پرپوزل کے لیے خالہ جان کو کیوں بھیجا۔۔۔‘‘؟؟؟
’’میں نے اس بات کے خلاف اسٹینڈ لیا اوراُس کی وجہ سے میری شہیر کے ساتھ بول چال بالکل بند ہے۔۔۔‘‘ ثنائیلہ بڑے دھیمے سے انداز سے گویا ہوئی۔
’’شہیر کا تو لگتا ہے کہ دماغ خراب ہو چکا ہے ،اُسے اتنی جرأت کیسے ہوئی۔۔۔‘‘ نابیہ کا غصّہ کسی طور بھی کم نہیں ہو پا رہا تھا۔
’’اُس کی غلط فہمیاں اور خوش فہمیاں ہی اُس کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔‘‘ ثنائیلہ کے لہجے میں طنز کی آمیزش شامل ہوئی۔
’’یعنی کہ موصوف کو لگتا ہے کہ میرے دل میں ابھی بھی اُس کے لیے کوئی سوفٹ کارنر ہے۔۔۔؟؟؟‘‘ نابیہ بے یقین ہوئی۔
’’اُس کو لگتا نہیں بلکہ بھرپور قسم کا یقین ہے مائی ڈئیر۔۔۔‘‘ ثنائیلہ مسکرائی تو نابیہ کی تیوری کے بل گہرے ہو گئے۔
’’دفع کرواُسے تم یہ بتاؤ کہ تمہارے ہیرو صاحب کا کیا حال ہے؟کب بھیجیں گے وہ اپنے گھر والوں کو۔۔۔‘‘نابیہ نے خود کو سنبھالتے ہوئے موضوع تبدیل کیا۔اُس کی بات پر ثنائیلہ کے لبوں پر ایک تلخ سی مسکراہٹ ابھری۔
’’یہاں تک آنے سے پہلے ہی بات بگڑ جاتی ہے۔۔۔‘‘ اُس کی آنکھوں میں نمی لہرائی۔
’’مائی گاڈ،کیا پھر لڑائی ہو گئی۔۔۔؟؟؟‘‘نابیہ نے دونوں ہاتھوں سے اپنا سر تھام لیا۔
’’میں کیا کروں،نہ چاہتے ہوئے بھی کوئی نہ کوئی ایسی بات ہو جاتی ہے۔۔۔‘‘ثنائیلہ کا دل بھر آیا۔
’’اب خبردار ایک بھی آنسو بہایا تو،میں ٹھیک کرتی ہوں تمہارے ہیرو کو۔۔۔‘‘نابیہ کو ایک دم ہی غصّہ آیا۔ ’’ویسے یار ہے تو وہ روڈ سا بندہ، یاد نہیں کہ اُس دن ہم لوگ آئے تو نہ تو اُس نے اٹھ کر استقبال کیا اور نہ ہی دروازے تک چھوڑنے آیا۔کم ازکم اتنی اخلاقیات تو سیکھا دو اُس کو۔۔۔‘‘ نابیہ کو اچانک ہی اُس دن والی ملاقات یاد آئی۔اُس کی بات پر ثنائیلہ نے بے ساختہ نظریں چرائیں۔
’’آئی ایم سوری نابیہ ،میں نے تمہیں ایک بات نہیں بتائی۔۔۔‘‘ثنائیلہ نے آج اُسے حقیقت بتانے کا فیصلہ کر ہی لیا۔نابیہ نے چونک کر اُسے دیکھا۔
’’تم نے میرا وہ ناول پڑھا تھا ناں ،جس میں سکندر شاہ ایک ایکسیڈنٹ میں معذور ہو جاتا ہے۔۔۔‘‘ اُس کی بات پر نابیہ کے چہرے پر الجھن کے تاثرات نمودار ہوئے۔
’’ہاں یار،وہ بھی کوئی بھولنے والا ناول ہے۔۔۔‘‘ اُس نے فورا ہی کہا۔
’’بس سمجھو ،کہ میرے ساتھ بھی حقیقت میں ایسا ہی ہوا ہے۔۔۔‘‘ ثنائیلہ کی بات اُسے بالکل سمجھ نہیں آئی۔
’’تم کہنا ،کیا چاہ رہی ہو ۔۔۔‘‘نابیہ نے سوالیہ نگاہوں سے اپنی دوست کی طرف دیکھا۔
’’میری حقیقی زندگی کا سکندر شاہ بھی سوات آپریشن میں اپنی ٹانگیں کھو چکا ہے۔۔۔‘‘ثنائیلہ کی بات پر نابیہ کو یوں لگا جیسے باورچی خانے کی چھت اُس کے سر پر آن گری ہو۔
’’واٹ۔۔۔؟؟؟؟‘‘ وہ بولی نہیں بلکہ باقاعدہ چیخی ۔اُس کی آنکھوں میں بڑی فطری سی برہمی تھی۔
’’وہ موحد رحیم، معذور ہے اور تم ایک معذور شخص کے پیچھے پاگل ہو ثنائیلہ۔۔۔؟؟؟‘‘وہ ایسے ثنائیلہ کو دیکھ رہی تھی جیسے اُس کے سامنے دنیا کا آٹھواں عجوبہ بیٹھا ہو۔
’’موحد ابراہیم معذور ہے لیکن میری محبت تو معذور نہیں ۔۔۔‘‘ وہ اُس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اُسے لاجواب کر گئی۔
’’لیکن ثنائیلہ۔۔۔‘‘اُس نے شدید حیرت سے اُس کا پراعتماد انداز دیکھا۔ ’’شہیر اور خالہ جان کیا اُس کے پرپوزل کے لیے مان جائیں گے۔۔۔‘‘ اُس نے فوراً ہی اپنا خدشہ بیان کیا۔
’’اُن کو ماننا ہوگا نابیہ،یہ میری زندگی ہے اور میں بہتر طور پر جانتی ہوں کہ مجھے اُسے کیسے بسر کرنا ہے۔‘‘ ثنائیلہ نے ہنوز سابقہ لہجے میں کہا۔
’’تم بہت عجیب ہو یار۔۔۔‘‘نابیہ کچھ لمحوں کے توقف کے بعد اتنا ہی بولی۔
’’میں عجیب نہیں ،بلکہ محبت ایک ایسا عجیب سا جذبہ ہے کہ اس کا سودا جس سر میں سما جائے وہ اپنے نفع،نقصان اور زمانے کی مصلحتوں سے بے نیاز ہو جاتا ہے۔‘‘ثنائیلہ اتنے دھیمے انداز کے ساتھ بولی کہ نابیہ نے بمشکل ہی اُس کی بات کو سنا۔
’’بیٹا، شہیر سے کہہ کر بازار سے کچھ چیزیں منگوا لو، تمہاری ممانی جان کا فون آیا ہے،وہ آ رہی ہیں۔۔۔‘‘ابھی ابھی اُس کی امّی نے کچن میں جھانکا۔ان دونوں نے چونک کر امّی کا خوشی سے جگمگاتا ہوا چہرہ دیکھا۔وہ خاصی پرجوش لگ رہی تھیں۔
’’خیریت تو ہے امّی۔۔۔؟؟؟‘‘ اُسے حیرت ہوئی کیونکہ ابھی دو دن پہلے تو ممانی جان ان کے گھر سے ہو کر گئیں تھیں۔
’’مجھے لگتا ہے کہ وہ تمہارے رشتے کے لیے آ رہی ہیں۔۔۔‘‘ امّی جان کی بات پر دونوں سہیلیوں کو کرنٹ سا لگا۔
’’میرے رشتے کے لیے۔۔۔؟؟؟آپ سے کس نے کہا۔۔۔؟؟؟‘‘ ثنائیلہ نے عجلت بھرے انداز سے انہیں دیکھا۔
’’بھئی ،ڈاریکٹ تو نہیں کہا،لیکن یہ کہہ رہی تھیں کہ آپ سے ایک خاص چیز مانگنے آ رہی ہوں،اپنے بیٹے رامس کے لیے۔۔۔‘‘ انہوں نے اپنی طرف سے دھماکہ ہی تو کیا ۔
’’میرا رشتہ رامس کے لیے۔۔۔‘‘ثنائیلہ کے منہ سے نکلنے والے الفاظ نے نابیہ کو کسی گہری کھائی میں دھکا دیا۔ اُس کا رنگ فق ہو گیا۔وہ خوفزدہ نگاہوں سے ثنائیلہ اور اُس کی امّی کو دیکھنے لگی۔
* * *
’’عائشہ تم نے ثنائیلہ کا نمبر کہاں سے لیا۔۔۔؟؟؟‘‘ وہ جو ٹی وی لاؤنج میں کسی ٹاک شو کو دیکھنے میں مگن تھی۔موحد کے سنجیدہ سے لہجے پر حیران ہوئی۔
’’کون ثنائیلہ۔۔۔؟؟؟‘‘عائشہ نے بے دھیانی میں پوچھا۔
’’کیا اب یہ بھی مجھے ہی بتانا ہوگا۔۔۔‘‘ موحد کے لہجے سے چھلکتی خفگی پر وہ مکمل طور پر اُس کی طرف متوجہ ہوئی جو چہرے کے تاثرات سے کچھ خفا خفا سا لگ رہا تھا۔
’’اچھا۔۔۔؟؟؟آپ اُس لڑکی کا پوچھ رہے ہیں۔اُس کا نام ثنائیلہ ہے،میں نے پوچھا ہی نہیں۔‘‘عائشہ کی سادگی پر وہ بُری طرح جھنجھلایا۔
’’تم نے اُس کا نمبر کہاں سے لیا ۔۔۔؟؟؟‘‘ اُس نے سپاٹ لہجے میں پوچھا۔
’’آپ کے ٹیلی فون کے بل سے۔۔۔‘‘ عائشہ تھوڑا سا شرمندہ ہوئی۔
’’کیوں۔۔۔؟؟؟؟‘‘ عائشہ کو اُس کے چہرے کی سنجیدگی سے گھبراہٹ ہوئی۔
’’کیا ہو گیا ہے بھائی آپ کو، کیا مجھے اتنا بھی حق نہیں اور میں نے ایسا کیا کہہ دیا ہے اُس سے جو آپ اتنے خفا ہو رہے ہیں۔‘‘عائشہ کی گلہ آمیز نگاہوں سے موحد کو ہمیشہ الجھن ہوتی تھی ۔
’’کیا ،تم نے اُسے کہا تھا کہ وہ اپنی ناراضگی ختم کر کے مجھے ملنے آئے۔۔۔؟؟؟‘‘ اُس کے چہرے پر نظریں جمائے موحد نے بڑا عجیب سا سوال کیا جسے سنتے ہی عائشہ کو کرنٹ لگا۔
’’میرا دماغ خراب ہے جو میں ایسی کوئی بات کروں گی۔۔۔‘‘عائشہ کو ایک دم غصّہ آگیا۔
’’پھر تم نے اُس سے کیا بات کی۔۔۔؟؟؟‘‘موحد تھوڑا سا ڈھیلا پڑ گیا۔
’’میں تو اُس سے فیملی بیک گراؤنڈ اور اُس کی امّی کی بیماری کی تفصیلات ہی پوچھتی رہی اور تو کوئی خاص بات نہیں ہوئی ۔مجھے تو اتنا بھی دھیان نہیں رہا کہ اُس کا نام پوچھ سکوں۔‘‘عائشہ نے خفا خفا سے لہجے میں ساری تفصیل بتائی۔
’’اوہ۔۔۔!!!‘‘ وہ ایک دم شرمندہ ہوا تو عائشہ چونک گئی۔ ’’کیوں،کیا ہوا۔۔۔؟؟؟‘‘
’’کچھ نہیں ،میں سمجھا کہ شاید تم نے اُسے کہا تھا کہ مجھ سے ملنے جائے۔۔۔‘‘وہ اب خفت زدہ انداز میں اصل بات بتا گیا۔
’’مجھے تو یہ بھی نہیں پتا کہ وہ آپ سے ملنے آئی تھی۔۔۔‘‘عائشہ نے ہلکا سا منہ بنایا۔ وہ اب دونوں ہاتھوں سے اپنا سر تھامے بیٹھا تھا۔
’’اب کیا کر دیا ہے آپ نے۔۔۔؟؟؟‘‘ عائشہ ہلکا سا جھنجھلائی۔
’’میں اُسے خفا کرنے کے علاوہ کر بھی کیا سکتا ہوں،پتا نہیں میں اتنا شکی مزاج کیوں ہو گیا ہوں۔۔۔‘‘ وہ حد درجہ کوفت کا شکار ہو رہا تھا۔ایسے لگتا تھا جیسے اُسے اپنے آپ پر غصّہ آرہا ہو۔
عائشہ نے ایک تاسف بھری نگاہ اُس پر ڈالی۔
’’بس میں نے فیصلہ کر لیا ہے بھائی۔۔۔‘‘ عائشہ اچانک کھڑی ہوئی ۔موحد نے سوالیہ نگاہوں سے اُسے دیکھا۔
’’آپ لوگوں نے سوائے لڑنے جھگڑنے کے کچھ نہیں کرنا،میں ماما کو لے کر اُن کے گھر جاتی ہوں۔پھر ایک ہی گھر میں ایک ہی روم میں بیٹھ کر جتنا مرضی لڑتے رہیں۔‘‘اُس کے ہلکے پھلکے انداز پر موحد زبردستی مسکرایا۔
’’وہ لوگ ایک ادھورے شخص کے ہاتھ میں اپنی بیٹی کا ہاتھ تھما دیں گے کیا۔۔۔؟؟؟‘‘موحد کا دل اندیشوں سے لبریز تھا۔
’’اگر آپ کا اور ثنائیلہ کا ساتھ اللہ سات آسمانوں کے اوپر لکھ چکا ہے تو دنیا کی کوئی طاقت اُس کو ختم نہیں کر سکتی۔۔۔‘‘عائشہ کے پراعتماد انداز نے موحد کو کچھ مطمئن کیا۔
’’پھر کب جاؤ گے آپ لوگ۔۔۔؟؟؟‘‘اُس کے منہ سے بے اختیار پھسلا،اگلے ہی لمحے وہ ہلکا سا جھینپ گیا۔عائشہ اُس کی بات پر کھلکھلا کر ہنسی اور ہنستی ہی گئی۔
* * *
وہ ایک حبس بھری سی شام تھی ایسا لگ رہا تھا جیسے ہوا کا دم گھٹ کر رہ گیا ہو۔ فضاؤں میں عجیب سی اداسی تھی ایسا لگ رہا تھا جیسے وحشت اپنے بال کھولے بین ڈال رہی ہو۔ سکینہ نے کھڑکی کھولی تو اسی لمحے بجلی کی ایک تار پر کرنٹ لگنے سے ایک معصوم فاختہ زمین پر گری اور اُس نے تڑپ تڑپ کر جان دے دی۔ سکینہ کو ایسے لگا جیسے کسی نے اُس کا دل مٹھی میں پکڑ کر مسل دیا ہو۔ اسی لمحے ڈاکٹر خاور اُس کے کمرے کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئے۔
’’ کیا ہوا سکینہ۔۔۔طبیعت ٹھیک ہے۔۔۔؟؟؟‘‘انہوں نے اُس کا پسینے سے شرابور چہرہ دیکھا ۔
’’ڈاکٹر صاحب وہ فاختہ مر گئی۔۔۔‘‘اُس نے ہاتھ کی انگلی سے باہر کی جانب اشارہ کیا۔ ڈاکٹر خاور نے اُس کی نظروں کے تعاقب میں دیکھا۔
’’اوہ،سو سیڈ۔۔۔‘‘ انہوں نے آگے بڑھ کر ہمدردی سے اُس کے کندھے کو سہلایا۔ سکینہ کی بے ربط دھڑکنوں کو تھوڑا سا سکون میّسر آیا۔ ’’آپ کے امّی اور ابّا،کہاں ہیں۔؟‘‘ انہوں نے دائیں بائیں دیکھ کر پوچھا۔
’’وہ دونوں امام بّریؒ کے مزار پر میری صحت یابی کی دعا کرنے گئے ہیں،صبح میرا آپریشن ہے ناں۔۔۔‘‘سکینہ پھیکے سے انداز سے مسکرائی تو انہیں لگا کہ وہ کچھ پریشان ہے ۔
’’نروس کیوں ہوسکینہ،اللہ بہت بہتر کرے گا۔۔۔‘‘ڈاکٹر خاور آج خصوصی طور پر وقت نکال کر اُس کے پاس آئے تھے۔تاکہ اُس کا حوصلہ بڑھا سکیں۔صبح سات بجے اُسے آپریشن تھیٹر میں لے جانا تھا۔
’’پتا نہیں۔۔۔‘‘اُس کی اُداس آنکھوں میں عجیب سی وحشت ابھری۔
’’آپ کوکچھ بھی نہیں ہوگا سکینہ،انشاء اللہ۔۔۔‘‘ انہوں نے مسکرا کر اُس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا۔سکینہ کے دل کی دھڑکن ایک لمحے کو رک سی گئی۔
’’مجھے معلوم ہے کہ یہ جسمانی بیماری میرا کچھ نہیں بگاڑے گی ،لیکن میری بد قسمتی کے جالے میں پھنسی میری محبت کسی مکڑی کی طرح زیادہ دیر سانسیں نہیں لے سکے گی۔حبس کے موسم بھلا کب کسی کو راس آتے ہیں۔۔۔‘‘ وہ پھرپھیکے سے انداز سے مسکرائی۔ ڈاکٹر خاور کو پہلی دفعہ اُس کی آنکھوں سے چھلکتے جذبوں سے خوف آیا۔
’’ایسے کیوں دیکھ رہی ہو سکینہ۔۔۔؟؟؟‘‘ انہوں نے خود کو سنبھالتے ہوئے دانستہ ہلکا پھلکا انداز اپنایا۔
’’ویسے ہی۔۔۔‘‘وہ مسکرائی۔
’’پتا ہے ڈاکٹر خاور مجھے آپ کی مسیحائی سے کوئی گلہ نہیں۔آپ نے میرا اُس وقت ساتھ دیا،جب ساری دنیا مجھے دھتکار چکی تھی۔آپ نے اُس وقت مجھے عزت و احترام بخشا، جب سب کی آنکھوں میں میرے لیے تمسخر جھلکتا تھا۔ آپ نے اُس وقت میرے ہونٹوں پر مسکراہٹ کے پھول کھلائے جب میری زندگی میں ہر طرف خزاں ڈیرے ڈالے ہوئے تھی۔ میں ٹھیک ہوتی ہوں یا نہیں ،مجھے ساری زندگی اس کوہان کے ساتھ رہنا ہوگا یا نہیں؟میرا دل ان تمام چیزوں سے بے نیاز ہو چکا ہے۔مجھے بس اس چیز پر فخر ہے کہ آپ نے مجھے کبھی مایوسی کے سمندر میں دھکیلنے کی کوشش نہیں کی۔دوسرے مسیحاؤں کی طرح مجھے کبھی نہیں کہا کہ سکینہ تمہارا مرض لا علاج ہے۔میں آپ کا احسان زندگی بھر نہیں اتار سکوں گی۔‘‘ سکینہ کی آنکھوں میں آنسو ایک لڑی کی صورت میں بہہ نکلے۔۔۔
’’دیکھو سکینہ ،میری پروفیشنل زندگی کے بارے میں لوگ کہتے ہیں کہ ڈاکٹر خاور کے لیے اُس کا ہر مریض وی آئی پی ہوتا ہے۔اس لیے کہ میں اپنی ملازمت کو ہمیشہ عبادت سمجھ کر اداکرتا ہوں۔مجھے اپنے پروفیشن سے محبت نہیں عشق ہے۔میں آخری لمحے تک جدوجہد کرنے کا قائل ہوں۔نیتوں کا حال اللہ جانتا ہے،لیکن آپ میرے لیے ہمیشہ اہم رہی ہیں اور مجھے یہ
کہنے میں بھی عار نہیں کہ نہ جانے کون سی ایسی چیز تھی جو مجھے اپنی بے تحاشا مصرفیت میں بھی آپ کے کمرے کی طرف دھکیل دیتی تھی۔میں آج بھی اُس چیز کو سمجھنے سے قاصرہوں۔‘‘ڈاکٹر خاور کی آنکھوں میں الجھن ہی الجھن تھی۔
’’وہ میری خالص محبت کے جذبے کی سچائی تھی جو آپ کے قدم یہاں روک لیتی تھی۔۔۔‘‘سکینہ نے ان کی مشکل کو آسان کیا۔وہ نظریں چُرا کر رہ گئے۔
’’ہم سادہ دل لوگ کتنی ظالم دنیا میں سانس لیتے ہیں ۔جہاں لوگ سمجھتے ہیں کہ محبت صرف خوبصورت لوگوں کی معراج ہے۔ وہ کسی عام سی شکل وصورت کے حامل مرد کے ساتھ کسی حسین لڑکی کو دیکھ کر حور کے پہلو میں لنگور کا نعرہ فوراً لگا دیتے ہیں ۔ہم ذہنی طور پر ایک مغلوب قوم ہیں جو حسن اور دولت کے آگے بڑی آسانی سے گھٹنے ٹیک دیتے ہیں۔ہم انسان ہی انسانوں کو جینے نہیں دیتے۔ہم نے اپنی زندگیاں خود اپنے لیے تنگ کر رکھی ہیں۔اپنے خود ساختہ معیار بنا رکھے ہیں۔ہم نہ صرف اپنے لیے بلکہ دوسروں کی زندگیوں کے فیصلے بھی اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کرتے ہیں۔کتنے عجیب لوگ ہیں ہم،ہے ناں۔۔۔‘‘ سکینہ کے لبوں پر ایک بے بس سی مسکراہٹ تھی۔
’’میں عائشہ سے ملنا چاہتی ہوں دوبارہ۔۔۔‘‘ اُس نے کچھ لمحے خاموش رہنے کے بعد بالکل عجیب سی فرمائش کی ۔ڈاکٹر خاور حیران ہوئے۔
’’لیکن کیوں۔۔۔؟؟؟‘‘ انہوں نے تعجب سے اُسے دیکھا۔
’’میں اُن کے خوبصورت چہرے کو دوبارہ دیکھنا چاہتی ہوں ،جسے آپ اُس دن بہت پیار سے دیکھ رہے تھے۔۔۔‘‘ سکینہ کے منہ سے لفظ ٹوٹ ٹوٹ کر نکلے۔ڈاکٹر خاور کو لگا کہ جیسے کسی نے انہیں اچانک زمین پر دھکا دے دیا ہو۔
’’کیا وہ چہرہ تمہیں اچھا نہیں لگا سکینہ۔۔۔؟؟؟‘‘انہوں نے ڈرتے ڈرتے پوچھا۔
’’یہ کیسے ہو سکتا ہے ڈاکٹر خاور کہ جو چیز آپ کو اچھی لگتی ہو ،وہ مجھے بُری لگے۔۔۔؟؟؟؟‘‘‘سکینہ نے نظر اٹھا کر ڈاکٹر خاور کی طرف دیکھا۔اُس ایک نظر میں کچھ تھا جو ڈاکٹرخاور کے دل کی دھڑکنیں پہلی دفعہ بے ربط ہوئیں۔انہیں لگا کہ زمان ومکاں کی گردشیں تھم سی گئیں ہیں۔تقدیر نے بڑا عجیب سا وار کیا تھا۔ انہیں لگا کہ اگر کچھ لمحے بھی یہاں ٹھہرے تو کوئی انہونی ہو جائے گی۔وہ خوفزدہ انداز میں اٹھے اور سکینہ کی طرف دیکھے بغیر بہت تیزی سے باہر نکل گئے۔
’’تم اپنے آپ کو سمجھتی کیا ہو۔۔۔؟؟؟؟‘‘ڈاکٹر خاور کے کمرے سے نکلتے ہی ڈاکٹر زویا بڑی تیزی سے اندر داخل ہوئی۔اُس کی آنکھوں سے نفرت کے شعلے نکل رہے تھے۔
’’تم نے کبھی آئینے میں اپنی بدصورت شکل دیکھی ہے،جس کو دیکھ کر کراہیت کا احسا س ہوتا ہے۔تم نے کبھی اپنی کمر پر اونٹ کی طرح کا کوہان دیکھا ہے۔جس سے تم ساری زندگی چھٹکارا نہیں پا سکتیں۔۔۔‘‘ڈاکٹر زویا ایک قدم اور آگے بڑھ کر بولیں ۔سکینہ نے خوفزدہ نگاہوں سے ڈاکٹر زویا کی طرف دیکھا۔
’’تم جو ڈاکٹر خاور کو پانے کے لیے اونچے اونچے خواب دیکھتی ہو۔اپنی اوقات دیکھی ہے تم نے۔۔۔؟؟؟ ڈاکٹر زویا کے زہر آلود لہجے نے سکینہ کو کسی اندھے کنویں میں گرایا۔
’’اللہ جانے کون سے تعویز گھول کر ڈاکٹر خاور کو پلا دیے ہیں جو وہ اپنی بصارت سے محروم ہو گئے ہیں اور انہیں تمہارا اتنا بڑا ’’کُب‘‘نظرنہیں آتا اور وہ پاگلوں کی طرح تمہارے کمرے کا طواف کرتے ہیں ۔ان کی ساری توانائیاں تمہارے آپریشن کی کامیابی کے لیے خرچ ہو رہی ہیں۔تم ہو کس بھول میں۔۔۔؟؟؟ ڈاکٹر زویا نے انگلی کے اشارے سے اُس کو دھمکی دی۔
’’میرے اور ڈاکٹر خاور کے درمیان آنے کی کوشش کرو گی تو میں تمہارا جینا حرام کر دوں گی۔۔۔‘‘ ڈاکٹر زویا نے اُسے مزید دھمکایا۔
’’ڈاکٹر خاور جیسے شخص سے محبت کرنے سے پہلے ایک دفعہ غور سے آئینہ دیکھ لیتیں تو ساری زندگی سر اٹھا کر ان کی طرف نہ دیکھتیں۔۔۔‘‘ ڈاکٹر زویا کا زہر آلود لہجہ سکینہ کے دماغ پر کسی بلڈوزر کی طرح برس رہا تھا۔وہ کسی وحشت زدہ ہرنی کی طرح آنکھیں کھولے ڈاکٹر زویا کی طرف دیکھ رہی تھی جو اپنی کئی دنوں کی بھڑاس نکال رہی تھی۔
’’ہر روز اس ہسپتا ل میں بے شمار لوگ مرتے ہیں لیکن تم اتنی بدصورت ہو کہ موت بھی تم سے گھبراتی ہے۔تم جیسے لوگ ہمیشہ دوسروں کی قوت برداشت کا امتحان بنے رہتے ہیں۔‘‘ ڈاکٹر زویا نے ایک نفرت انگیز نگاہ سکینہ پر ڈالی اور ایک دم مڑی ،سامنے کھڑی سسٹر ماریہ کو دیکھ کر وہ ہلکا سا گڑبڑائی اور اگلے ہی لمحے کمرے سے نکل گئی۔
’’کیا بکواس کر رہی تھیں یہ ڈاکٹر زویا۔۔۔‘‘سسٹر ماریہ نے سکینہ کا سپید ہوتا چہرہ دیکھا۔وہ ہراساں نگاہوں سے اُس دروازے کی طرف گئی تھی جہاں سے ڈاکٹر زویا باہر نکلیں تھیں۔ اُس کا چہرہ وحشت کی آماہ جگاہ بنا ہوا تھا۔وہ پتھریلی نگاہوں سے سسٹر ماریہ کو دیکھے گئی۔
’’میں بتاتی ہوں ڈاکٹر خاور کو، یہ ڈاکٹر زویا پاگل ہو گئی ہیں۔ان کو لگام ڈالیں۔۔۔‘‘سسٹر ماریہ کا غصّہ کسی طور بھی کم نہیں ہو پارہا تھاکچھ انہیں سکینہ سے خصوصی محبت تھی اور اُس کا دکھ انہیں اپنے دل پر محسوس ہوتا تھا۔وہ کمرے سے نکل گئیں۔
سکینہ کے منہ سے ایک بھی لفظ نہیں نکلا۔اُس نے سسٹر ماریہ کے کمرے سے نکلتے ہی اپنا سر تکیے پر گرا لیا۔ اُس کا دماغ ماؤف ہورہاتھا۔ڈاکٹر زویا کے زہریلے جملے پورے کمرے میں کسی مست قلندر کی طرح محو رقص تھے۔ ان کے رقص میں تیزی کے ساتھ ساتھ ایک عجیب جان لیوا ،سی دیوانگی اور وحشت آتی جا رہی تھی۔سکینہ نے اپنی کھڑکی سے باہر گری فاختہ پر ایک نگاہ ڈالی اور اُس کا ذہن اندھیروں میں ڈوبتا چلا گیا۔ اب اُس کے چہرے پر طوفان کے بعد نمودار ہونے والی خاموشی کا راج تھا۔۔۔
* * *
(صائمہ اکرم چوہدری کا یہ دلچسپ ناول ابھی جاری ہے، باقی واقعات اگلی قسط میں پڑھیے)
’ہر گز نہیں۔۔۔۔‘‘اُس نے فوراً بات قطع کی۔’’میری زندگی کی سب سے بڑی بے وقوفی تھی وہ۔۔۔‘‘اس کی بات پر عائشہ تعجب کا شکار ہوئی۔
’’ماہم جیسے لوگ کسی کی محبت کے قابل نہیں ہوتے۔وہ محض’’میں‘‘کا تمغہ گلے میں لٹکائے دوسروں کے ضبط کا امتحان لینے کے لیے پیدا ہوتے ہیں۔‘‘ موحد نے وضاحت کی۔
’’کتنی حیران کن بات ہے بھائی ،وہ میری دوست تھی اور میری ہی جڑیں کاٹتی رہی اور مجھے پتا نہیں چلا۔۔۔۔‘‘ عائشہ دکھی ہوئی۔
’’دوست ،کبھی بھی کسی دوست کی جڑیں نہیں کاٹ سکتا ،ایسا بس دوست نما دشمن لوگ ہی کرتے ہیں۔یہ بات ہمیشہ اپنے ذہن میں رکھا کرو۔‘‘موحد نے اُسے سمجھانے کی کوشش کی۔
’’پتا نہیں کیوں ،مجھے ابھی تک یقین نہیں آتا کہ وہ ایسی ہو سکتی ہے۔۔۔‘‘عائشہ ابھی بھی بے یقین تھی۔
’’وہ شروع ہی سے ایسی تھی ،بس تمہیں پتا ہی دیر سے چلا۔۔۔۔‘‘ موحد نے اُس کی تصحیح کی تو وہ زبردستی مسکرا دی۔
’’چلیں چھوڑیں ،یہ بتائیں ،آپ کی شادی کی شاپنگ ہم کب اسٹارٹ کریں گے۔۔۔‘‘ عائشہ کو اچانک ہی یاد آیا تو وہ پرجوش ہوئی۔
’’پتا نہیں کیوں عاشو ،میرا دل کرتا ہے کہ بس سب کچھ سادگی سے ہو،میں ثنائیلہ کی فیملی پر کسی قسم کا کوئی بوجھ نہیں ڈالنا چاہتا۔۔۔۔‘‘ عائشہ کو اپنے حساس سے بھائی کی یہ بات بہت اچھی لگی تبھی اُس نے فورا کہا۔ ’’ہاں تو ہم ایسا کب کر رہے ہیں ،بس ولیمہ ہم البتہ دھوم دھام سے کریں گے۔۔۔۔۔‘‘
’’ہاں ولیمے پر جو کچھ مرضی کر لینا ،اجازت ہے۔۔۔۔‘‘ موحد نے اُسے تسلی دی تو وہ فورا ہی بچوں کی طرح خوش ہوگئی۔
**************
’’ڈاکٹر صیب ، سکینہ آنکھیں کھول کر ہمیں دیکھتی کیوں نہیں۔۔۔‘‘جاجی کا رنجیدہ لہجہ ڈاکٹر خاور کو کرب میں مبتلا کر گیا۔انہوں نے نظر اٹھا کر اپنے سامنے کھڑے اس ینگ سے لڑکے کو دیکھا جس کی لال آنکھیں رتجگوں کی بھرپور غماضی کر رہی تھیں۔ملگجا سا حلیہ،بڑھی ہوئی شیو، آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے، چہرے پر پھیلی بے بسی نے اُسے قابل رحم شخصیت بنا رکھا تھا۔وہ سکینہ کے والدین کے ساتھ ساتھ تھا۔ایسا لگ رہا تھا جیسے سکینہ کی بجائے وہ ان کا سگا بیٹا ہو۔
’’بس دعا کر و اعجاز، اللہ سکینہ پر کرم کرے۔۔۔۔‘‘ڈاکٹر خاور نے اُس کی فائل چیک کرتے ہوئے سنجیدگی سے کہا۔
’’ڈاکٹر صیب، آپ کو کیا پتا، ایک ایک لمحہ بس دل کی گہرائیوں سے ایک ہی دعا نکل رہی ہے۔۔۔۔‘‘اُس نے سکینہ کے چہرے کو محبت سے دیکھا۔
’’میں جانتا ہوں اعجاز،لیکن ہم ڈاکٹرز اب سکینہ کے معاملے میں بے بس ہو چکے ہیں۔‘‘ڈاکٹر خاور کی آنکھوں سے بھی رنج چھلکا۔
’’سکینہ ہمیشہ مجھ سے لڑتی تھی، اُسے میں اچھا نہیں لگتا تھا،لیکن اب میرا دل کرتا ہے کہ وہ بس ایک دفعہ ٹھیک ہو جائے،میں ساری زندگی اُسے اپنی شکل نہیں دِکھاؤں گا۔‘‘اعجاز کے لہجے میں آنسوؤں کی آمیزش شامل ہوئی۔
’’محبت بھی انسان کو بس نرا خوار ہی کرتی ہے۔میں اُسکے پیچھے تھا ،جب کہ وہ طلب کا پیالہ اٹھائے کسی اور کے پیچھے تھی۔۔۔‘‘اعجاز کی بات پر ڈاکٹر خاور کو جھٹکا سا لگا۔انہوں نے بے ساختہ نظر اٹھا کر سامنے کھڑے عام سے لڑکے کو دیکھا جو ضبط کر کڑے مراحل سے گذر رہا تھا۔
’’یہ سب نصیبوں کے کھیل ہیں اعجاز،انسان اس معاملے میں بے بس ہے۔۔۔۔‘‘ ڈاکٹر خاور اس موضوع پر کوئی بات نہیں کرنا چاہتے تھے۔اس لیے دانستہ بات کا رخ موڑ دیا۔
’’کبھی کبھی مجھے لگتا ہے کہ ہم سب لوگ تقدیر کے ہاتھوں کٹھ پتلیاں ہیں۔دنیا کے اسٹیج پر ہمارے بس چہرے اور جسم ہوتے ہیں۔ان کٹھ پتلیوں کو کنٹرول کرنے والا تقدیر کا ہاتھ بڑاظالم ہے۔وہ سب کو اپنی مرضی اور خواہش کے تابع چلاتا ہے۔ہمارے پاس تو انگلی اٹھانے کا بھی اختیار نہیں۔۔۔‘‘ اعجاز سخت قنوطیت کا شکار تھا۔
’’ایسا نہیں کہتے پترّ۔تقدیر کا ہاتھ کبھی ظالم نہیں ہوتا۔انسان کی خواہشیں ظالم ہوتی ہیں۔اپنے دل کو اللہ کی رضا کے آگے ڈھیر کر دے۔اُس کے بعد دیکھ ،وہ تیرے لیے اپنی رحمت کے دروازے کیسے کھولتا ہے۔پہلے اُس رب کا ہونا پڑتا ہے۔آزمائشوں کی بھٹی میں جلنا پڑتا ہے تب وہ بندے پر نظر کرم ڈالتا ہے۔‘‘اللہ دتا کمہار بڑی خاموشی کے ساتھ ان کی گفتگو میں شامل ہوا۔
’’پتا نہیں چاچا،تو کیسی باتیں کرتا ہے۔ ہم انسانوں میں اتنی طاقت کہاں، اُس کی آزمائشوں کی تاب لا سکیں۔‘‘ اعجاز زہر خند لہجے میں بولا۔
’’انسانوں میں ہی تو طاقت ہوتی ہے پتر، اللہ نے اُسے ،ایسے ہی سب پر فضلیت نہیں دے رکھی۔۔۔‘‘ اللہ دتا کمہار نے اپنے بھتیجے کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اُسے دلاسا دیا۔
’’مجھے لگتا ہے چاچا ،اللہ نے تجھے بناتے ہوئے ،بس صبر اور شکر کی مٹّی سے ہی گوندھا ہو گا۔۔۔۔‘‘ اعجاز کے چہرے پر ایک پھیکی سی مسکراہٹ پھیلی۔۔
’’اللہ نے تو سبھی کو ایک ہی مٹی سے بنایا ہوگا۔یہ باقی تو سارے ایویں خود کو بہلانے کے شغل ہیں پتر۔‘‘ اللہ دتے کے چہرے پر پھیلے سکون پر ڈاکٹر خاور کو رشک آیا۔
’’ماں جی کہاں ہیں۔۔۔۔؟؟؟‘‘ ڈاکٹر خاور نے جمیلہ مائی کی غیر موجودگی کو محسوس کیا تو پوچھ بھی لیا۔
’’وہ کملی،آج اپنی دھی کا لوہے کاٹرنک کھولے بیٹھی ہے،کہتی ہے ،سکینہ کو بے ترتیبی سے چڑ ہوتی ہے، جب کمرے میں واپس آئے گی تو اپنی چیزیں بکھرے دیکھ کر رولا ڈالے گی۔‘‘اللہ دتا کمہار کی بات پر ڈاکٹر خاور کے دل کو کچھ ہوا۔وہ فورا ہی آئی سی یو سے نکلے۔ان کے قدم پرائیوٹ وارڈ میں سکینہ کے کمرے کی طرف تھے۔
’’امّاں جی ،میں اندر آ جاؤں۔۔۔‘‘انہوں نے ہلکا سا جھانک کر کہا۔۔۔
’’جی ،جی ڈاکٹر صیب، آئیں ناں۔۔۔‘‘جمیلہ مائی نے اپنی نم آنکھوں کو ہتھیلی کی پشت سے صاف کیا۔یہ منظر ڈاکٹر خاور کی زیرک نگاہوں سے چھپ نہیں سکا تھا۔انہوں نے سکینہ کے بیڈ پر پھیلی چیزوں کو دیکھا۔ سامنے ہی سیاہ رنگ کی جلد والی ایک ڈائری تھی۔وہ خود کو اُسے کھولنے سے روک نہیں پائے۔ڈائری میں تاریخ کے لحاظ سے بے شمار شاعری لکھی ہوئی تھی۔اُس کی لکھائی بچگانہ لیکن شاعری کا انتخاب بہت میچورڈ تھا۔اس کا اندازہ تو ڈاکٹر خاور کو دو چار صفحات پلٹنے پر ہی ہو گیا تھا۔مختلف صفحات پلٹتے ہوئے انہوں نے اُس تاریخ پر نظر دوڑائی،جس دن ان کی سکینہ کے ساتھ پہلی ملاقات ہوئی ۔وہاں ایک شعر درج تھا۔
کہتے ہیں لوگ ،تجھ کو مسیحا، مگر یہاں
اک شخص مر گیا ہے،تجھے دیکھنے کے بعد
’’ڈاکٹر صیب بیٹھیں ناں۔۔۔۔‘‘جمیلہ مائی نے کرسی کی طرف اشارہ کیا تو وہ چپ چاپ بیٹھ گئے۔ آج نہ جانے کیوں ان کا دل بہت اداس تھا۔
’’سکینہ کو اپنی کتابوں سے بڑا پیار تھا۔بہت سنبھال سنبھال کر رکھتی تھی انہیں۔۔۔‘‘جمیلہ مائی نے اپنے دوپٹے سے ’’عشق کا عین‘‘کتاب صاف کرتے ہوئے انہیں بتایا۔
’’سکینہ تو ہر چیز ہی بہت سنبھال کر رکھتی تھی۔۔۔‘‘ ڈاکٹر خاور نے چونک کر جمیلہ مائی کا چہرہ دیکھا۔
انہیں احساس ہوا کہ جمیلہ مائی یہاں کمرے میں اپنے دل کا بوجھ بھی ہلکا کرتی رہی ہیں۔ان کی سرخ متورم آنکھیں اس بات کی گواہ تھیں۔انہوں نے بے ساختہ نظریں چراتے ہوئے سکینہ کی ڈائری کے اُس صفحے پر نظر ڈالی،جہاں اُس نے اپنے ہاتھ سے آخری پیراگراف لکھا تھا۔
’’اور جب میں مر جاؤں تو مجھے کسی خشک پھول کی مانند محبت کی کسی کتاب میں قید کر لینا، جب زندگی میں کبھی فراغت
پاؤ تو اُس کتاب کے بوسیدہ اوراق میں بسی اُس خوشبو کو اپنی سانسوں میں اتارتے ہوئے مجھے یاد کرنا۔ یا پھر
مجھے ایسی جگہ دفن کرنا،جہاں چاروں طرف پہاڑ ہوں۔جہاں رات کو جگنوؤں کے قافلے اور دن کے وقت
تتلیاں محو رقص ہوں،جہاں کسی منہ زور پہاڑی چشمے کی آواز سماعتوں کو خوبصورت احساس بخشتی ہو۔
جہاں موت کا بدصورت احسا س ڈیرے ڈال کر نہ بیٹھا ہو۔ اگر ایسا نہ کر سکو تو مجھے کہیں گھنے جنگلوں میں دفن کر آنا
جہاں کسی پیڑ کے نیچے مسافر راستہ بھول کرآن پہنچیں اور میری قبر پر انجانے ہاتھ دعاؤں کے لیے اٹھتے رہیں۔
اگر ایسا بھی نہ کر سکو تو مجھے میرے دوست، محبت کی کسی کہانی میں دفن کر آنا،جس کے کردار مر جائیں لیکن محبت
ہمیشہ زندہ رہے۔اگر ایسا بھی نہ کر سکو تو مجھے بس اپنے دل میں دفن کر لینا کیونکہ تمہارا دل دنیا کی وہ واحد جگہ ہوگی
جہاں مرنے کے بعد بھی میں یادوں کی صورت میں ہمیشہ زندہ رہوں گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!!
ڈاکٹر خاور کے اعصاب گیلی ریت کی طرح بوجھل ہوگئے انہوں نے جھٹکے سے ڈائری کو بند کیا۔ ایک وحشت انگیز خیال نے کسی ضدی بچے کی طرح ان کا دامن پکڑا تو وہ گھبرا کر کھڑے ہوگئے۔جمیلہ مائی نے سر اٹھا کر انہیں دیکھا۔ وہ اتنی برق رفتاری سے کمرے سے نکلے تھے گویا انہوں نے کمرے میں کوئی آسیب دیکھ لیا ہو۔
*****************
’’واٹ۔۔۔۔؟؟؟‘‘ ماہم کی نظریں اُس خوبصورت انوٹیشن کارڈ پر جمی ہوئیں تھیں۔جہاں موحد رحیم کے ساتھ ثنائیلہ زبیر کا نام جگمگا رہا تھا۔یہ شادی کارڈ ابھی ابھی عائشہ کا ملازم ان کے ہاں دے کر گیا تھا۔جسے دیکھ کر ماہم کو کرنٹ لگا۔
’’موحد کو شادی کے لیے یہ دوٹکے کی رائٹر ہی ملی تھی کیا۔۔۔۔‘‘ ماہم نے ہاتھ میں پکڑا کارڈ میز پر تمسخرانہ انداز میں اچھالا۔اُس کے سامنے والے صوفے پر بیٹھیں ثمن آپی چونکیں۔’’تم جانتی ہو،اس لڑکی کو۔۔۔۔؟؟؟‘‘
’’بہت اچھی طرح۔۔۔‘‘اُس نے طنزاً مزیدکہا۔ ’’ایسا لگتا ہے،دونوں بہن بھائیوں کو نفسیاتی مریضوں کے علاوہ کوئی اور برداشت نہیں کر سکتا تھا ۔‘‘
’’کیا مطلب۔۔؟؟یہ لڑکی کیا سائیکک ہے۔۔۔۔‘‘ ثمن آپی نے پرائم ٹائم میں چلنے والے اپنے شو سے بمشکل نگاہیں ہٹا کر ماہم کی طرف دیکھا۔جس کا چہرہ خوامخواہ تناؤ کا شکار لگ رہا تھا
’’تھوڑی بہت نہیں ،اچھی خاصی۔۔۔‘‘اُس نے نزاکت سے ناک چڑھائی۔
’’تم کیسے جانتی ہو اُسے۔۔۔۔‘‘ثمن آپی کی دلچسپی میں اضافہ ہوا۔
’’میری پیشنٹ رہی ہے خیر سے، چلو، موحد بھی آدھا پاگل ہے اور یہ بھی،گذارا اچھا ہو جائے گا۔۔۔‘‘ ماہم قہقہہ لگا کر ہنسی۔
’’لیکن وہ لڑکی موحد جیسے معذورشخص سے شادی کے لیے کیسے تیار ہو گئی۔۔۔‘‘ثمن آپی الجھن کا شکار ہوئیں۔
’’بتایا تو ہے کہ پاگل ہے۔موحد کا پیسہ دیکھ کر فد ا ہو گئی ہوگی۔ویسے بھی اپنے سیٹ اپ میں تو موحد کو کوئی رشتہ ملنے سے رہا اور وہ بھی مڈل کلاس فیملی سے ہے۔اس لیے دونوں کا گذارا ہو جائے گا،موحد کو بیوی مل جائے گی اور اُسے پیسہ ۔‘‘ ماہم کے لہجے میں طنز کی آمیزش شامل ہوئی۔
’’ولیمے کا فنکش تو بڑے ٹاپ کلاس جگہ پر کر رہے ہیں وہ لوگ۔۔۔۔‘‘ ثمن آپی نے کارڈ اٹھا کر دیکھا۔
’’سو واٹ۔۔۔۔‘‘ ماہم نے ناک چڑھائی۔
’’موحد کے ساتھ ساتھ عائشہ کو بھی نبٹا دیتے یہ لوگ۔۔‘‘ ثمن آپی نے بھی تمسخرانہ لہجے میں کہتے ہوئے ٹی وی کا چینل تبدیل کیا۔
’’عائشہ تو آجکل رامس کے چکروں میں ہے۔وہ رامس علی جسے میں نے ریجیکٹ کیا تھا۔‘‘ ماہم نے نخوت زدہ لہجے میں انہیں یاد دلایا۔
’’رامس تو اچھا خاصا ہینڈسم بندہ تھاتم نے خوامخواہ اسے مس کیا۔۔۔‘‘ثمن آپی کو ابھی تک یہ دکھ نہیں بھولا تھا۔
’’دفع کریں آپی، کون اُس پھلبہری کے مریض کو دیکھ دیکھ کر اپنی طبیعت خراب کرے،عائشہ کا تو ایسا اسٹیمنا بن چکا ہے۔اُسے عادت ہے ایسے لوگوں میں رہنے کی۔‘‘ماہم کی نزاکت عروج پر تھی۔ثمن آپی اُس کی بات پر کھلکھلا کر ہنس پڑیں۔’’تم جاؤ گی موحد کی شادی پر۔۔۔؟؟؟‘‘
’’آف کورس۔۔۔۔‘‘ اُس نے اپنی راج ہنس جیسی گردن اٹھا کر بڑے تفاخر سے کہا۔ ’’آپ بھی چلیے گا۔انصر بھائی اپنی نئی نویلی بیوی کے ساتھ آئے ہونگے، چلو شغل رہے گا۔‘‘
’’ہاں ،لیکن اس سے پہلے مجھے اس فنکشن کے لیے خصوصی تیاری کرنا ہو گی۔‘‘ ثمن آپی نے ہنستے ہوئے یاد دلایا۔
’’وہ توخیر مجھے بھی کرنا پڑے گی،میں چاہتی ہوں کہ اُس فنکشن میں بس لوگ دولہا اور دلہن کو چھوڑ کر ہم دونوں بہنوں کے گرد ہی طواف کرتے رہیں۔‘‘ماہم کا لہجہ خود پسندی کے شہد میں ڈوبا ہوا تھا۔
’’وہ تو ہم بغیر تیاری کے بھی چلے جائیں تو ایسا ہی ہوگا۔۔۔‘‘ثمن آپی کی خوش فہمیاں بھی ماہم سے کم نہیں تھیں۔دونوں بہنیں اب ایک دوسرے کے ہاتھ پر ہاتھ مار کر ہنس رہی تھیں
’’ممانی جان کا دماغ ٹھیک ہے جو وہ نابیہ کے لیے منہ اٹھا کر رامس کا رشتہ مانگنے آ گئیں۔۔۔۔‘‘شہیر کو نہ جانے کیوں غصّہ آ رہا تھا۔جب کہ ثنائیلہ کے دوپٹے پر گوٹا لگاتی اُس کی والدہ نے ناگواری سے اپنے بیٹے کو دیکھا۔
’’اس میں دماغ کی خرابی کی کیا بات ہے۔ان کا بیٹا ہے،جہاں مرضی رشتہ لے کر جائیں۔‘‘ ثنائیلہ نے برہمی سے دوٹوک انداز میں جواب دیا۔
’’ان کو کچھ تو خیال کرنا چاہیے تھا،نابیہ ہمارے پڑوس میں رہتی ہے اور ہمارے خاندان کے ساتھ ان کی فیملی کے اچھے تعلقات ہیں۔اُس کے گھر والے کیا سوچیں گے۔‘‘ شہیر کی اوٹ پٹانگ منطق پر ثنائیلہ کا دماغ گھوم گیا۔
’’پہلی بات تو یہ ہے کہ ہمارے پڑوس میں رہنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کوئی نابیہ کے لیے رشتہ ہی نہیں بھیج سکتا۔دوسری بات یہ کہ اُس کی فیملی کا دماغ خراب ہے جو وہ کچھ غلط سوچیں گے،آخر کار رامس میں برائی ہی کیا ہے۔۔۔‘‘ وہ اب ماتھے پر بل ڈالے شہیر کو دیکھ رہی تھی۔
’’ممانی جان کو آپ تو نظر نہیں آئیں۔نابیہ میں کون سے ہیرے جڑے ہوئے ہیں۔‘‘ شہیر ایک دم مشتعل ہوا۔
’’نابیہ میں اب بھی وہ ہی ہیرے جڑے ہوئے ہیں جو کسی زمانے میں تمہیں بھی نظر آتے تھے۔۔۔۔‘‘ثنائیلہ نے طنز کیا۔
’’مجھے تو کوئی اور ہی چکر لگتا ہے۔۔۔۔‘‘شہیر کے مشکوک انداز پر ثنائیلہ غصّے سے کھڑی ہوئی۔ ’’ تم خود جو دوسروں کو ہر وقت چکر دینے کی کوشش میں رہتے ہو ۔اس لیے تمہارا ذہن ہی گھن چکر بن چکا ہے۔‘‘ وہ پاؤں پٹختی ہوئی کمرے سے نکلی اور چھت کے ذریعے نابیہ کے ہاں پہنچ گئی۔وہ صحن میں واشنگ مشین لگائے کپڑوں کا ڈھیردھونے میں مصروف تھی ۔اُس کے چہرے پر ایک نظر ڈالتے ہی نابیہ کو اندازہ ہو ا کہ اُس کا مزاج کچھ برہم ہے۔
’’کیا ہوا۔۔۔؟؟؟شہیر کے ساتھ منہ ماری ہو گئی کیا۔۔۔۔؟؟؟‘‘ اُس نے تار پر کپڑے پھیلاتے ہوئے ثنائیلہ کا سرخ چہرہ دلچسپی سے دیکھا۔
’’اُس کو بکواس کرنے کے علاوہ اور کوئی کام آتا بھی کب ہے۔جب سے پاکستان آیا ہے ۔کوئی نہ کوئی شگوفہ چھوڑتا ہی رہتا ہے۔‘‘ ثنائیلہ نے اُس کے ساتھ دھلے ہوئے کپڑے تار پر پھیلاتے ہوئے تلخی سے کہا۔
’’دفع کیا کرو، خالی دماغ تو ویسے بھی شیطان کا گھر ہوتا ہے۔۔۔۔‘‘نابیہ نے ہنستے ہوئے کہا اور بالٹی میں سے چادر نکال کر نچوڑنے لگی۔
’’کوشش تو بہت کرتی ہوں لیکن اُس کی باتوں میں واہیات پن اتنا عروج پر ہوتا ہے کہ خود پر ضبط کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔‘‘ثنائیلہ کی بات پر نابیہ کھلکھلا کر ہنسی۔’’غصّہ صحت کے لیے اچھا نہیں ہوتا،جان من، آجکل تو ویسے بھی تمہیں اپنا خیال رکھنا چاہیے،پیا کے گھر جو جانا ہے۔۔۔‘‘
’’پیا کے اللہ جانے کون سے ایسے کام ہیں جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے۔۔۔۔‘‘ثنائیلہ کو آجکل سبھی پر غصّہ تھا۔نابیہ حیران ہوئی۔’’کیوں ،کیا ہوا۔۔۔؟؟؟‘‘
’’کل عائشہ مجھے ولیمے کے ڈریس کی سلیکشن کے لیے لے کر گئی تھی ،موصوف پتا نہیں کہاں بزی تھے۔بندہ کم از کم ساتھ تو چل سکتا ہے ناں۔۔۔‘‘ثنائیلہ نے اپنی ناراضگی کی وجہ بتائی
’’تمہیں پتا تو ہے کہ وہ پبلک کی جگہوں پر جانے سے دانستہ گریز کرتا ہے اور تم لوگ کہاں اُسے مارکیٹ میں لیے لیے پھرتے۔‘‘نابیہ نے فورا ہی موحد کی طرفداری کی۔
’’بندہ فون پر تو بتا سکتا ہے ناں،میرا کتنا دل کر رہا تھا کہ موحد کی پسند سے ولیمے کا ڈریس لوں۔۔۔‘‘ثنائیلہ ناراض تھی۔
’’اُف۔۔۔!!!تم کب بڑی ہوگی؟ ۔‘‘ نابیہ نے تنبیہی نگاہوں سے اُسے گھورا۔’’تم نے اُس کے سامنے اپنی خواہش کا اظہار کیا تھا کیا۔۔؟؟؟‘‘
’’ نہیں۔۔۔!!! اُسے خود سمجھنا چاہیے تھا۔۔۔‘‘ ثنائیلہ کے بچگانہ انداز پر نابیہ نے ایک جھانپڑ اُس کے کندھے پر رسید کیا۔’’اُس کو تو شادیوں کا بہت تجربہ ہے ناں جو اُسے خود سمجھنا چاہیے تھا۔کچھ خوف خدا کیا کرو لڑکی،کتنی تخیلاتی اور تصوراتی ذہن کی مالک ہو تم،اب پریکٹیکل ہو جاؤ۔۔۔سمجھی۔۔۔؟‘‘
’’جسے دن پریکٹیکل ہوگئی،اُس دن سب سے زیادہ وہ ہی سر پکڑ کر روتا پھرے گا۔۔۔۔‘‘ثنائیلہ کی بات پر نابیہ نے یوں دیکھا جیسے اُس کی بات کی سمجھ نہ آئی ہو۔’’مائی ڈیر میری انہی تصوراتی باتوں پر تو وہ فدا ہوا تھا۔۔۔‘‘ ثنائیلہ کا موڈ اب خوشگوار ہوا۔ وہ اب سب کچھ بھلائے اُس کے ساتھ باقی ماندہ کپڑے دھلوانے میں مصروف ہو گئی۔
’’میں نے سنا ہے کہ لوگ مجھ سے خفا ہیں۔۔۔‘‘شام کو موحد کی غیرمتوقع طور پر آنے والی کال نے اُسے حیران کیا۔
’’آپ کو کون سا کسی کی پرواہ ہے۔۔۔‘‘ ثنائیلہ نے بھی شکوہ کرنے میں دیر نہیں کی۔
دوسری جانب وہ ہنسا۔’’ثنائیلہ تم نے وہ شعر سنا ہے۔۔۔؟؟؟‘‘
’’کون سا۔۔۔۔؟؟؟‘‘اُس کے فوراً ہی کان کھڑے ہوئے۔
’’وہ جو کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔ غم زندگی کہاں ، ابھی وحشتوں سے فرصت
تیرے ناز بھی اٹھا لیں گے،ابھی زندگی پڑی ہے۔
موحد کا شرارتی لہجہ ثنائیلہ کے اندر ڈھیروں پھول کھلا گیا۔بدگمانی کے سارے بادل اُسے فضاؤں میں تحلیل ہوتے ہوئے محسوس ہوئے۔بہت دنوں کے بعد اُس نے خود کو بہت ہلکا پھلکا سامحسوس کیا تھا۔
***************
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...