تین ہفتوں کے بعد ناہید ایک اجڑے ہوئے قلعے کے ایک کمرے میں بستر پر لیٹی تھی۔برہمن آباد سے بیس کوس کے فاصلے پر ایک گھنے جنگل میں یہ قلعہ کسی زمانے میں گنگو اور اس کے ساتھیوں کی قیام گاہ تھی۔چند دنوں سے گنگو اور اس کے ساتھی پھر سے اس قلعے کو آباد کرچکے تھے۔
ناہید کے زخم اور بخار سے گنگو کو سخت تشویش تھی اور یہی وجہ تھی کہ اس نے ناہید کے شفایاب ہونے تک ایسی جگہ کو قیام گاہ بنایا تھا، جو گردو بیش کے خطرات سے محفوظ تھی۔گنگو لوٹ مار کی قسم کھا چکا تھا۔اسے ایک خاص مقصد کے لیے اپنے ساتھیوں کے لیے گھوڑوں اور دوسرے سازوسامان کی ضرورت تھی۔جہاز غرق ہونے کے بعد اس کے پاس صرف چار بیش قیمت ہیرے رھ گئے تھے۔جنھیں وہ ہر وقت اپنے پاس رکھتا تھا۔وہ ایک گجراتی تاجر کا بھیس بدل کر برہمن آباد پہنچا۔وہاں پر صرد دو عدد ہیرے بیچنے سے اتنی رقم مل گئی جو اس کے تمام ساتھیوں کو گھوڑے تلواریں اور کھانے پینے کا سامان مہیا کرنے کے لیے کافی ثابت ہوئی۔
گنگو کو دیبل کے آس پاس اگر اس قسم کی جائے پناہ مل جاتی تو وہ یقیناً اسے اپنی سرگرمیوں کا مرکز بناتا لیکن وہاں کوئی موزوں جگہ ہونے کے علاوہ گنگو کو یہ بھی یقین تھا کہ قیدیوں کو برہمن آباد یا آرور میں راجہ کے سامنے ضرور پیش کیا جائے گا۔چند دنوں سے گنگو کے ساتھی دیبل اور برہمن آباد کے درمیان تمام راستوں پر پہرہ دے رہے تھے۔ گنگو کی نیت کے متعلق خالد کے تمام شکوک رفع ہوچکے تھے۔مایا دیوی بھی دن رات ناہید کی تیماداری کرکے گنگو کو کسی حد تک اپنی نیک نیتی کا ثبوت دے چکی تھی۔ناہید کے شبہات دور کرچکی تھی لیکن خالد پر اس کے باتوں کا کوئی اثر نا ہوا۔اس کے لیے گویا وہ تھی ہی نہیں۔وہ تیماداری کے لیے ناہید کے پاس بیٹھتا۔وہ اس کے سامنے ناہید کے زخم کی مرہم پٹی کرتی۔اسے دوائی کھلاتی، اس کا سر دباتی اور خالدکو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے اپنے ارادوں کے خلاف کئی بار یہ الفاظ دہراتی۔”آپ کی بہن کی طبعیت اب ٹھیک ہے۔زخم جلد ہی اچھا ہو جائے گا۔۔۔۔۔۔بہن ناہید اب تندرست ہے۔آپ پریشان نا ہوں۔۔۔۔خدا آپ کی مدد کرے گا۔“ لیکن خالد کی طرف سے کوئی جواب نا پاکر وہ محسوس کرتی کہ خالد کی آنکھیں اور کان اس کے لیے بند ہو چکے ہیں۔دریائے سندھ کے دہانے سے اس مقام تک کشتی کے طویل سفر میں بھی یہی حالت تھی۔دریا میں وہی پانی تھا، جسے وہ سمندر میں دیکھ چکی تھی۔ہر صبح وہی سورج نمودار ہوتا اور شام کے وقت انہیں چاند اور ستاروں کی محفل سجتی تھی لیکن خالد کے طرزِ عمل میں تبدیلی کے بعد اس کے لیے کائنات کی تمام رنگینیاں پھیکی پر چکی تھیں۔اگر خالد اسکی مسکراہٹ کا جواب مسکراہٹ سے دے سکتا۔اگر وہ ایک بار پوچھ لیتا مایا تم کیسی ہو۔اگر اس کے ہاتھ مایا کی آنکھوں سے بےبسی کے آنسو پونچھنے کے لیے معمولی سے آمادگی ظاہر کرتے تو بھائی کی جدائی کے احساس کے باوجود وہ اس بات پر خوش ہوتی کہ قدرت نے دیبل سے ان کے رابطے جدا نہیں کیے۔وہ جہاز پر سفر کے دوران میں اکثر یہ سوچا کرتی تھی کہ کاش خالد کے ساتھ اس کا سفر ختم نا ہو۔کاش کوئی طوفان جہاز کا رخ بدل دے، اور خالد کے ساتھ کسی ایسے جزیرے پر پہنچ جائے جہاں صاف اور شفاف پانی کی ندیاں بہتی ہوں۔آبشاریں محبت کے گیت گاتی ہوں۔سدا بہار درخت لہلہاتے ہوں۔گہری جھیل میں کنول کھلتے ہوں۔دیبل کی بندرگاہ کی ایک پہلی جھلک دیکھنے کے بعد تھوڑی دیر کے لیے اس کے سپنوں کی رنگین دنیا درہم برہم ہوئی لیکن قدرت نے جب اسے جہاز کی بجائے ایک کشتی میں سوار کردیا تو مایا دیوی پھر سپنوں کی نئی دنیا آباد کرنے لگی لیکن دیبل کے حادثہ نے ایک جیتے جاگتے نوجوان کو پتھر کا مجسمہ بنا دیا۔محبت اور وفا کی دیوی کی ملتجی اور متمنی نگاہوں کے جواب میں خالد کی آنکھوں میں نفرت اور حقارت کے سوا کچھ نا تھا۔
ان لوگوں میں صرف ناہید ایسی تھی جسے یقین تھا کہ دیبل کے حادثے سے مایا دیوی کا کوئی تعلق نہیں۔وہ ایک عورت کی ذکاوتِ حس سے مایا کی ذہنی کشمکش کا اندازہ کرچکی تھی۔اسے جب بھی موقع ملتا وہ خالد کے سامنے مایا کی پاکیزگی، اس کی معصومیت اور اس کی حیا کا ذکر چھیڑ دیتی۔خالد گفتگو کا موضع بدلنے کی کوشش کرتا تو وہ کہتی۔”خالد! تمہارا دل بہت سخت ہے۔تم دیکھتے نہیں اس کا سرخ و سفید چہرہ دوپہر کے پھول کی طرح مرجھا گیا ہے۔اس کا بھائی برا سہی لیکن میرا دل گواہی دیتا ہے کہ وہ معصوم ہے۔وہ تمہیں اپنی آخری پناہ خیال کرتی ہے۔تم اسے تسلی دے سکتے ہو۔وہ اب یہاں تک کہہ چکی ہے کہ اگر اس کا بھائی واقع اس سازش میں شریک تھا تو وہ اس کے پاس جانے سے مرنا بہتر سمجھتی ہے۔“
اور وہ جواب دیتا۔”میں دوپہر کے وقت چراغ کی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔میں جو کچھ دیکھ چکا ہوں۔اس کے بعد اس لڑکی کے لیے اپنی رائے بدلنا میرے بس کی بات نہیں۔“
چند دن اس قلعے میں رہنے کے بعد ناہید چلنے پھرنے کے قابل ہوگئی لیکن قمر کا زخم ابھی تک مدمل نہیں ہوا تھا۔خالد کبھی کبھی سواروں کی ٹولی کے ساتھ گشت پر چلا جاتا تھا۔
ایک شام مختلف اطراف سے سپاہیوں کی تمام ٹولیاں وآپس آگئیں لیکن خالد اور اس کے چار سپاہی وآپس نا آئے۔ناہید نمازِ مغرب کے بعد اپنے بھائی کی خیریت کی دعا کررہی تھی۔گنگو اپنے چند ساتھیوں کو خالد کی تلاش میں روانہ کرکے ایک اونچے درخت پر چڑھ کر اس کی راہ دیکھ رہا تھا۔مایا قلعے سے باہر نکل کر گھنے درختوں میں اسے ادھر ادھر تلاش کررہی تھی۔اچانک اسے دور سے گھوڑوں کی ٹاپ کی آواز سنائی دی۔ اس کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا اور وہ تیزی سے قدم اٹھاتی ہوئی آگے بڑھی۔اس کا دامن ایک جھاڑی کے کانٹوں سے الجھ گیا۔وہ کانٹوں کو الگ کررہی تھی کہ جھاڑیوں کے عقب سے خالد اور دوسرے سوار نمودار ہوئے۔خالد نے گھوڑا روکتے ہوئے پوچھا۔”میری بہن کیسی ہے؟“
کانوں کے راستے یہ الفاظ مایا کے دل میں اتر گئے۔وہ خالد کی طرف دیکھنے لگی۔خاردار جھاڑی کی چند شاخیں جو اس نے اپنے دامن سے جدا کی تھیں۔اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر پھر اس کے دامن میں الجھ گئیں۔
خالد نے پھر کہا۔”بتاو میری بہن ٹھیک ہے نا؟“
مایا نے چونک کرجواب دیا۔”وہ بلکل ٹھیک ہے۔آپ نے بہت دیر لگائی!“
”تم یہاں کیا کررہی ہو؟“
”میں___کچھ نہیں۔“ یہ کہہ کر مایا اپنے دامن کو کانٹوں سے چھڑانے لگی۔لیکن اس کی نگاہیں خالد پر گڑی ہوئی تھیں۔خالد گھوڑے سے اترا اور اس کے ساتھی دزدیدہ نگاہوں سے ایک دوسرے کو دیکھتے اور مسکراتے ہوئے آگے نکل گئے۔خالد شاخوں کو ایک ایک کر کے اس کے دامن سے الگ کرنے لگا۔مایا کا تنفس تیز ہورہا تھا۔اس کی آنکھوں میں تشکر کے آنسو امڈنے لگے۔اس نے اپنا کانپتا ہاتھ خالد کے ہاتھ پر رکھ دیا۔
خالد نے ایک شاخ اس کے دامن سے الگ کرتے ہوئے کہا۔”اسے پکڑو۔“اس نے جلدی سے شاخ پکڑنے کی کوشش کی لیکن ایک تیز کانٹا اس کی انگلی میں پیوست ہوگیا اور شاخ اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر پھر اس کے دامن سے الجھ گئی۔مایا کانٹے کی تکلیف کے باوجود مسکرائی۔تشکر کے آنسووں میں بھیگی ہوئی مسکراہٹ نے اس کا چہرہ شبنم آلود پھول سے کہیں زیادہ دلفریب بنادیا۔خالد نے اس کی طرف دیکھا اور آنکھیں جھکاتے ہوئے کہا۔”لاو میں نکال دوں۔“
مایا نے کچھ کہے بغیر اپنا ہاتھ اس کی طرف بڑھا دیا۔خالد کانٹا نکال کر پھر جھاڑی کی طرف متوجہ ہوا۔اس نے پوچھا۔”تم یہاں کیوں آئیں؟“
مایا نے جواب دیا۔”قلعے میں گرمی تھی اور میں ذرا ہوا خوری کے لیے یہاں نکل آئی تھی۔“ لیکن اس کا دل کہہ رہا تھا کہ کیا سچ مچ تم میرے یہاں آنے کی وجہ نہیں سمجھ سکے؟ کاش میں تمام عمر کانٹوں میں الجھی رہوں اور تم نکالتے رہو۔
خالد نے جواب دیا۔”لیکن اس وقت درختوں کے نیچے تو زیادہ حبس ہے؟“
مایا نے پریشان سی ہوکر خالد کی طرف دیکھا۔لیکن کچھ سوچنے کے بعد جواب دیا۔”میں دریا کی طرف جارہی تھی۔“
”دریا دوسری طرف ہے۔“
”میں بھی اسی طرف جارہی تھی۔لیکن_“
”لیکن کیا؟“
”گھوڑوں کی ٹاپ سن کر اس طرف نکل آئی۔آج آپ نے بہت دیر کی۔میں۔۔۔۔بہت پریشان تھی۔“
”میں تمہاری پریشانی کی وجہ نہیں سمجھ سکا۔اگر میں زبیر اور اپنے دوسرے ساتھیوں کی طرح قید میں ہوتا تو تمہیں بہت اطمینان ہوتا لیکن میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ میں اب بھی قید میں ہوں۔میں تمہارے بھائی کی طرح اپنی بہن کو چھوڑ کر نہیں جاسکتا۔“
مایا کے دل پر چرکا لگا۔وہ دیر تک بےحس و حرکت کھڑی رہی۔اس نے خلافِ معمول خالد کی طرف ٹکٹکی باندھ کر دیکھا اور اس کی چمکتی ہوئی پتلیوں پر پھر پانی کے دھندلے نقاب چھا گئے۔یہ نقاب ابھر کر چھلکتے ہوئے آنسووں میں تبدیل ہوگئے۔پلکیں انھیں زیادہ سہارا نا دے سکیں۔دو چمکتے ہوئے موتی رخساروں پر ہلکی ہلکی لکیتیں چھوڑتے ہوئے ہونٹوں پر آرکے۔مایا نے اپنا چہرہ دوبٹے میں چھپا لیا۔
”چلو اب دیر ہورہی ہے۔“ خالد کی آواز سن کر مایا نے چونک کر چہرے سے ہاتھ ہٹائے۔اس کا دامن کانٹوں سے الگ ہو چکا تھا اور خالد گھوڑے کی باگ پکڑ کر چلنے کے لیے تیار کھڑا تھا۔وہ بولی۔
”آپ جائیے! میں خود آجاوں گی لیکن میں آپ سے آخری بار صرف ایک بات کہنا چاہتی ہوں کہ میں بےقصور ہوں۔اگر میرا بھائی اس سازش میں شامل تھا تو یہ بھی انصاف نہیں کے اس کے پاپ کی سزا مجھے ملے۔“
خالد نے کہا۔”میں تمہیں سزا نہیں دینا چاہتا۔تمہیں بہت جلد تمہارے بھائی کے پاس پہنچا دیا جائے گا۔تمہارا بھائی بھی تم سے دور نہیں۔وہ یہاں سے چار کوس دور دریا کے کنارے ایک ٹیلے پر پڑاو ڈالے ہوئے ہے۔وہ راجہ سے انعام حاصل کرنے کے لیے قیدیوں کو برہمن آباد لے جارہا ہے۔اس کے ساتھ دیبل کا حاکم بھی ہے۔کل تک وہ برہمن آباد پہنچ جائیں گے۔شاید آج رات ہی تمہارے بھائی کے پاس ہمارا پیغام پہنچ جائے اور اگر اس نے قیدیوں کو چھوڑنا منظور کرلیا، تو تمہیں اس کے پاس پہنچا دیا جائے گا۔میں شروع سے اس بات کا حامی نا تھا کہ تمہیں یہاں رکھا جائے۔ہمارا اخلاق اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ ہم ایک بےبس عورت پر ہاتھ اٹھائیں۔تم اطمنان رکھو۔“
”آپ کو کس نے بتایا کہ میرا بھائی قیدیوں کو لے جارہا ہے۔کیا یہ ممکن نہیں کہ پرتاپ کے ساتھ وہ بھی قیدی کی حثیت میں جارہا ہو۔“
”میں خود آج اپنی آنکھوں سے دیکھ آیا ہوں۔وہ ایک مشکی گھوڑے پر سوار تھا، اور قیدی بیل گاڑیوں پر بھی پابہ زنجیر تھے۔چلو اب دیر ہورہی ہے۔گنگو میرا انتظار کررہا ہوگا۔“
”آپ جائیں! میں ابھی آتی ہوں۔“
خالد گھوڑے کی باگ پکڑ کر پیدل چلتا ہوا قلعے کے دروازے تک پہنچا۔گنگو باہر اس کے انتظار میں کھڑا تھا۔
اس نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔”خالد! مایا کو کہاں چھوڑ آئے؟“
خالد نے بےپروائی سے جواب دیا۔”وہ آرہی ہے۔“
”رات ہو رہی ہے۔تم اسے ساتھ کیوں نا لے آئے؟“
”آپ لے آئیں۔وہ کہتی تھی تم جاو میں آجاتی ہوں۔“
گنگو نے مسکراتے ہوئے کہا۔”یہ عورت بھی عجیب مخلوق ہے۔وہ چھپ چھپ کر تمہاری راہ دیکھ سکتی ہے۔تمہارے لیے کانٹوں میں الجھ سکتی ہے لیکن تم زرا اس کی طرف مائل ہوئے اور وہ وحشی ہرنی کی طرح کترا کر بھاگی۔“
خالد نے جواب دیا۔”میرے دل میں شاعری کے لیے کوئی جگہ نہیں۔اب آپ بتائیں ہمیں کیا کرنا چاہیے۔آپ دیبل کے قافلے کی خبر سن چکے ہوں گے۔“
”ہاں میں سن چکا ہوں۔ان کے ساتھ دو سو مسلح سپاہی ہیں ہم مٹھی بھر آدمیوں کے ساتھ ان پر حملہ نہیں کرسکتے۔میں جےرام کو یہاں لانے کی تجویز سوچ چکا ہوں۔“
”دیکھا اس لڑکی کی باتوں میں آکر ناہید جےرام کے متعلق اپنے خیالات بدل چکی تھی اور آپ بھی متاثر ہورہے تھے۔“
گنگو نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔”بیٹا! تم مجھ سے زیادہ متاثر تھے۔بہرحال مجھے اب یقین ہوچکا ہے کہ مایا معصوم ہے۔“
”اور اس کے باوجود آپ جےرام کو مایا کے قتل کی دھمکی دینا چاہتے ہیں۔“
”تمہارے ساتھیوں کو آزاد کرانے کی اس کے علاوہ اور کوئی صورت نہیں۔“
”لیکن اگر جےرام نے اپنے راجہ کی خوشی پر اپنی بہن کو قربان کردیا تو؟“
”مجھے ایسی امید نہیں لیکن اگر جےرام اس قدر ذلیل ثابت ہوا تو مایا جیسی لڑکی کو ایسے ظالم بھائی کے ہاتھوں سے بچانا ہمارا فرض ہے۔وہ خود بھی جےرام کی بجائے تمہاری پناہ کو ترجیج دے گی۔چند دنوں تک تمہاری بہن سفر کے قابل ہوجائے گی، اور ہم تمہیں مکران کی حدود کے اندر پہنچا دیں گے۔“
”لیکن یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ہم اپنے ساتھیوں کو مصیبت میں چھوڑ کر چلے جائیں۔“
”تم وہاں جاکر ان کی زیادہ مدد کرسکو گے۔عربوں کے علاوہ سراندیپ کے ملاحوں کو بھی قید میں رکھے جانے کی وجہ غالباً یہ ہے کہ تمہارے جہازوں کے لوٹے جانے کی خبر سندھ سے باہر نا نکلے۔اگر یہ خبر وہاں تک پہنچ گئی تو تمہاری قوم اسے خاموشی سے برداشت نہیں کرے گی۔ لیکن تم اس وقت تک نہیں جاسکتے کہ جب تک ناہید تندرست نہیں ہوتی۔اگر جےرام ہمارے قابو میں آگیا تو یہ ممکن ہے کہ ہم کم از کم زبیر کو آزاد کرانے میں کامیاب ہوجائیں۔“
”اگر یہ ہوسکے،تو بہت اچھا ہوگا۔میں عرب میں کسی کو نہیں جانتا ممکن ہے کہ بصرہ اور دمشق میں میری آواز پر کوئی توجہ نا دے لیکن زبیر وہاں ہزاروں آدمیوں کو جانتا ہے۔ہاں! آپ نے یہ نہیں بتایا کہ آج رات میرے ذمہ کیا کام ہے؟“
گنگو نے جواب دیا۔”تم آرام کرو۔لیکن مایا دیوی ابھی تک نہیں آئی۔شاید وہ دوسرے راستے قلعے میں پہنچ گئی ہو۔“
”میں ابھی معلوم کرتا ہوں۔“ یہ کہہ کر خالد بھاگتا ہوا قلعے میں داخل ہوا۔تھوڑی دیر بعد اس نے وآپس آکر گنگو کو اطلاح دی کہ وہ ابھی تک نہیں پہنچی۔
گنگو نے کہا۔”تم اسے کتنی دور چھوڑ آئے تھے؟“
”اس جھاڑی کے پیچھے کوئی سو قدم کے فاصلے پر۔“
”تم نے اس کے ساتھ کوئی سخت کلامی تو نہیں کی؟“
”نہیں۔لیکن اسے میری ہربات پر رونے کی عادت ہوچکی ہے۔ہاں میں ایک غلطی کرچکا ہوں۔“
”وہ کیا؟“
”میں نے اسے بتادیا تھا کہ اس کا بھائی یہاں سے چارکوس پر ہے۔“
”رات کے وقت اس جنگل کو عبور کرنا ایک عورت کا کام نہیں۔“ یہ کہتے ہوئے گنگو نے اپنے ساتھیوں کو آواز دے کر بلایا اور جنگل میں مایا کو تلاش کرنے کا حکم دے کر خالد کو کہا۔”تم اس طرف جاو۔ میں دریا کی طرف جاتا ہوں۔مجھے اس پر شک نہیں لیکن مایوسی کی حالت میں عورت توقع کی خلاف بھی بہت کچھ کرگزرتی ہے۔میں جاتا ہوں۔کہیں دریا کے کنارے ہماری کشتی اس کی تباہی کا باعث نا ہو۔“
خالد کے جانے کے بعد مایا کچھ دیر اس خاردار جھاڑی کے قریب کھڑی رہی وہ کانٹے جو اس کے دامن کو کھینچ کر خالد کے ہاتھوں تک لے گئے تھے۔اس کے لیے مہکتے پھولوں سے کم نا تھے۔وہ ان چند لمحات کا تصور کررہی تھی،جب خالد اس سے اس قدر قریب تھا۔اس کے الفاظ اس کے کانوں میں گونج رہے تھے۔وہ یکے بعد دیگرے زہر اور شہد کے گھونٹ اپنے حلق میں اتار رہی تھی۔اس کا دل خالد کے متعلق متضاد خیالات کی رزم گاہ تھا۔وہ کبھی اسے قہروغضب کا پیکرِ مجسم اور کبھی ایثارومحبت کا دیوتا خیال کرتی۔تھوڑی دیر وہاں کھڑی رہنے کے بعد وہ اپنے دل پر ایک ناقابلِ برداشت بوجھ محسوس کرنے لگی اور چاند کی روشنی میں درختوں اور جھاڑیوں سے بچتی ہوئی دریا کی طرف چل دی۔
دریا کے کنارے ایک کشتی کھڑی تھی۔وہ کشتی جس نے انھیں سمندر سے یہاں تک پہنچایا تھا۔جس پر سفر کرتے ہوئے اس نے پہروں تاروں سے باتیں کیں تھیں۔ اس نے کشتی کے ایک سرے پر بیٹھ کر نیچے پاوں لٹکا دیے۔پانی کی لہریں اس کے پاوں کو چھورہی تھیں۔آس پاس جنگل میں گیدڑوں اور بھیڑیوں کی آوازیں آرہی تھیں۔مایا نے اپنے نے اپنے دل سے سوال کیا۔”اگر کوئی بھیڑیا اس طرف آجائے تو؟“ اور پھر خود ہی جواب دیا۔”اگر بھیڑیا آجائے تو میں بھاگنے کی کوشش نا کروں گی۔میں کشتی سے اتر کر اس کے سامنے کھڑی ہوجاوں گی اور پھر جب وہ صبح کے وقت میری لاش دیکھے گا تو اس کی کیا حالت ہوگی؟وہ کہے گا، مایا! تم ادھر کیوں آئیں۔میں تو تمہارے ساتھ مذاق کرتا تھا۔میں جانتا تھا، تم بےقصور ہو۔مایا مجھے معاف کردو۔میں نے تمہیں پہچاننے میں غلطی نہیں کی۔نہیں! نہیں!!! وہ شاید یہ نا کہے۔وہ کہے گا۔یہ دیوانی تھی۔یہ پگلی تھی۔ہاں میں سچ مچ پگلی ہوں۔اس کے دل میں میری لیے کوئی جگہ نہیں۔وہ میرا دامن کانٹوں سے چھڑارہا تھا اور میں سمجھ رہی تھی کہ مجھے دنیا کی بادشاہت مل گئی۔۔۔۔میں دریا کے کنارے ریت کے کھروندے بنا رہی تھی اس کا دل پتھر کا ہے۔وہ ظالم ہے۔اسے کسی پر اعتبار نہیں، اور بھی کیونکر، میرے بھائی نے ان لوگوں کے ساتھ بہت برا سلوک کیا ہے۔کاش! وہ میرا بھائی نا ہوتا۔کاش اس نے جہاز پر ہی مجھے بتادیا ہوتا کہ وہ ان کے ساتھ یہ دھوکہ کرنے والا ہے اور وہ چھپ چھپ کر خالد کو نا دیکھتی۔اب وہ مجھے بھائی کے پاس بھیجنے والے ہیں لیکن اگر اس کا انجام یہی تھا تو قدرت نے مجھے اس کے جہاز تک کیوں پہنچایا؟ اور پھر جب ہم دیبل سے جدا ہونے والے تھے،قدرت ہمیں یہاں کیوں لے آئی؟ میں اب تک اس کی نفرت کے باوجود اس سے محبت کیوں کرتی رہی۔میں نے مایوسیوں کی آندھی میں کھڑی ہوکر امید کے چراغ کیوں جلائے۔۔۔۔۔۔۔۔ہاں میں مجبور تھی۔۔۔۔۔۔۔۔یہ میرے بس کی بات نہیں۔۔۔۔۔۔میں اب بھی بےبس ہوں۔۔۔۔میرا کوئی نہیں۔۔۔۔میرا کوئی نہیں۔۔۔۔۔میں اپنے بھگوان کو پکار چکی ہوں جس کی وہ دن میں پانچ بار عبادت کرتا ہے۔لیکن میرے لیے آنسووں اور آہوں کے سوا کچھ نہیں۔۔۔۔۔۔آنسواور آہیں۔۔۔۔۔کاش! میں پیدا ہی نا ہوتی۔کاش! سمندر کی لہریں مجھ پر ترس نا کھاتیں۔“
مایا سر کو ہاتھوں کو سہارا دے کر دیر تک ہچکیاں لیتی رہی۔کسی نے اس کے کندھےپر ہاتھ رکھتے ہوئے ”مایا“ کہہ کر پکارا اور اس کے منہ سے ہلکی سی چیخ نکل گئی۔اس نے مڑ کر دیکھا۔گنگو قریب کھڑا تھا۔اس نے کہا۔”بیٹی تم ڈر گئیں، اس وقت یہاں کیا کررہی ہو؟“
”کچھ نہیں۔“ اس نے آنسو پونچتے ہوئے جواب دیا۔
”تم رورہی ہو؟ کیا ہوا؟“
مایا خاموش رہی۔گنگو نے پھر پوچھا۔”اس وقت ایسی سنسان جگہ پر تمہیں ڈر نہیں لگتا؟ سنو! چاروں طرف سے بھیڑیوں کی آوازیں آرہی ہیں۔چلو میرے ساتھ!“
مایا نے کہا۔”میں آپ سے ایک بات پوچھنا چاہتی ہوں۔“
”وہ کیا؟“
”آپ سچ مچ مجھے میرے بھائی کے پاس بھیجنے کا فیصلہ کرچکے ہیں؟“
گنگو نے جواب دیا۔”میں اپنا فیصلہ سنانے سے پہلے تمہارا فیصلہ سننا چاہتا ہوں۔“
”بھگوان کے لیے مجھے اس کے پاس نا بھیجیے!“
”لیکن کیوں؟“
”میں بھائی کے پاس نہیں جانا چاہتی۔جس نے میری ماں کے دودھ کی لاج نہیں رکھی۔“
”یہ تم دل سے کہہ رہی ہو یا مجھے بنانے کے لیے؟“
”کاش آپ میرا دل چیڑ کردیکھ سکتے۔“
”لیکن جےرام سے نفرت کی وجہ؟“
”میں خالد سے اس کے متعلق سن چکی ہوں اور اب مجھے اس کی دغابازی کے متعلق کوئی شبہ نہیں رہا۔“
”لیکن کیا یہ ممکن نہیں کہ ہم تمہیں تمہارے بھائی کے حوالے کرکے زبیر کے ساتھیوں کو آزاد کرواسکیں۔“
”اگر جےرام ایک دفعہ دھوکا کرچکا ہے تو وہ دوبارا موقع ملنے پر بھی دھوکہ کرے گا۔اسے کسی صورت بھی یہ معلوم نہیں ہونا چاہیے کہ میں آپ کے پاس ہوں۔ورنہ وہ راجہ کے سپاہیوں کو ساتھ لےکر جنگل کا کونہ کونہ چھان مارے گا۔ناہید اچھی طرح چلنے پھرنے کے قابل نہیں ہوئی۔آپ کے لیے اس کی حفاظت مشکل ہوجائے گی۔“
”بیٹی! تم اطمینان رکھو۔جےرام کو تمہیں میرے قبضے میں دیکھ کر سب مکاریاں بھول جائیں گی۔اگر بعد میں اس کی طرف سے کئی خدشہ بھی پیش آیا تو ناہید کے لیے میں ایک اور محفوظ جگہ تلاش کرچکا ہوں۔“
”تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر اس نے قیدی آپ کے حوالے کردیے تو آپ مجھے اس کے سپرد کردیں گے؟“
”بیٹی! وہ تمہارا بھائی ہے۔تم اس کے پاس جانے سے کیوں ڈرتی ہو؟“
”میرا دنیا میں کوئی نہیں۔بھائی نے مجھے اپنے مقصد پر قربان کرنا چاہا اور میں آپ کے قبضے میں آگئی۔اب آپ مجھے بیٹی کہہ کر اپنے مقصد کے لیے پھر اس کے پاس بھیجنا چاہتے ہیں، اپنے بھائی کی طرح آپ کا فیصلہ بھی میرے لیے تقدیر کا حکم ہوگا۔کاش! میری تقدیر میرے ہاتھ میں ہوتی۔کاش! مجھے اس دنیا میں اپنا راستہ تلاش کرنے کا حق ہوتا لیکن میری پسند اور ناپسند کے کوئی معانی نہیں میں اس طوفان میں ایک تنکا ہوں جسے ہوا کا جھونکا جس طرف چاہے اڑا کر لےجاسکتا ہے۔میرا ہونا نا ہونا برابر ہے۔“
گنگو نے کچھ سوچنے کہ بعد کہا۔”اگر یہ معاملہ تمہاری پسند پر چھوڑ دیا جائے تو تم کیا کرو گی؟“
مایا نے قدرے پرامید ہوکرجواب دیا۔”میں آپ کی قید کو آزادی پر ترجیح دوں گی۔“
”وہ کیوں؟“
”میں ناہید کو بیماری کی حالت میں چھوڑ کر نہیں جانا چاہتی۔“
”مایا! میں ایک سوال پوچھتا ہوں،سچ کہو،تمہیں خالد کے ساتھ محبت ہے؟“
مایا نے آنکھیں جھکا لیں۔
اس نے پھر کہا۔”مایا! میرے سوال کا جواب دو۔“
وہ بولی۔”لیکن آپ یہ کیوں پوچھتے ہیں؟“
”اس لیے کہ شاید اس سوال کا جواب پوچھ کر میں تمہارے لیے کوئی بہتر فیصلہ کرسکوں۔“
”مجھے معلوم نہیں۔لیکن میں اتنا جانتی ہوں کہ میں ان کے بغیر زندہ نہیں رھ سکتی۔“
”تم یہ بھی جانتی ہو کہ تمہارے متعلق اس کے شکوک ابھی رفع نہیں ہوئے۔اس کا دل سمندر کی چٹانوں سے زیادہ سخت ہے۔میں تمہیں بیٹی کہہ چکا ہوں۔آج سے تمہارا سکھ میرا سکھ اور تمہارا دکھ میرا دکھ۔میں یہ نہیں چاہتا کہ تم کسی دن اسے اپنا بنا لینے کی امید میں سب کچھ قربان کردو۔ممکن ہے اسے تمام عمر تمہاری نیک نیتی کا یقین نا آئے۔اپنے متعلق اس کے خیالات بدلنے کے لیے تمہیں بہت بڑی قربانی دینی ہوگی۔“
”میں ہرقربانی کے لیے تیار ہوں۔لیکن مجھ سے ہمیشہ کی جدائی برداشت نہیں ہوسکتی۔“
”تمہیں بھائی کا خیال تو نہیں ستائے گا؟“
”راجہ کے ٹکڑے کھانے کے بعد وہ میرا بھائی نہیں رہا۔مجھے اس سے کئی ہمدردی نہیں۔“
گنگو نے کہا۔”میں اسے ایک طریقے سے یہاں لانا چاہتا ہوں۔اس کی صورت دیکھ کر تمہارا دل پسیج تو نا جائے گا؟ اس نے اپنے محسنوں کے ساتھ دغا کی ہے۔اگر اس کی سزا تم پر چھوڑ دی جائے تو تم اس کے ساتھ کیا سلوک کرو گی؟“
”وہی جو ایک دغاباز، بزدل اور فریبی کے ساتھ ہونا چاہیے۔“
گنگو نے کہا۔”مایا! مجھے سوچ کر جواب دو۔یہ ایک کڑا امتحان ہے۔ممکن ہے کہ میں تمہارے بھائی کو تمہارے سامنے کھڑا کرکے انصاف کی تلوار تمہارے ہاتھ میں دےدوں۔“
”میں سوچ چکی ہوں۔میں اسے رحم کی مستحق نہیں سمجھتی۔“
گنگو کچھ کہنا چاہتا تھا۔لیکن جھاڑیوں کے پیچھے سے خالد کی آواز آئی۔”مایا! مایا! تم کہاں ہو؟“
گنگو نے کہا۔”مایا تم کشتی میں چھپ جاو اور جب تک میں نا کہوں باہر مت آنا۔“
مایا نے کچھ سوچے سمجھے بغیر اس کے حکم کی تعمیل کی۔گنگو کشتی سے اتر کر دریا کے کنارے کھڑا ہوگیا۔خالد نے پھر آواز دی تو اس نے کہا۔”خالد میں ادھرہوں۔“
خالد نے جھاڑیوں کے عقب سے نمودار ہوکر پوچھا۔”مایا نہیں ملی؟ آپ یہاں کیا کررہے ہیں؟“
گنگو نے اپنے لہجے کو مغموم بنانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔”مایا چلی گئی۔آہ بےچاری۔“
خالد نے بدحواس ہوکر پوچھا۔”کہاں چلی گئی۔کیا ہوا؟“
”خالد تم نے بہت برا کیا۔کاش تم اس کا دل نا توڑتے۔“
”آخر کیا ہوا؟ خدا کے لیے مجھے بتاو۔“
”اب پچھتانے سے فائدہ؟ جو ہونا تھا سوہوچکا۔کاش وہ تم جیسے سنگدل انسان سے محبت نا کرتی۔“
خالد نے بےتاب ہوکر گنگو کو کندھوں سے پکڑ کر جھنجھوڑتے ہوئے کہا۔”خدا کے لیے مجھے پریشان مت کرو۔صاف صاف کہو کیا ہوا؟“
”مایا چل بسی۔میں یہاں آیا تو وہ دریا کے کنارے کھڑی تھی۔میں نے اسے آواز دی تو اس نے مجھے جواب دینے کی بجائے دریا میں چھلانگ لگا دی۔میں نے جلدی جلدی کپڑے اتارے لیکن اتنی دیر میں پانی کی لہر اسے کنارے سے بہت دور لےگئی۔ جب میں پانی میں کودنے لگا وہ لہروں کی آغوش میں چھپ چکی تھی۔“
خالد نے چلا کرکہا۔”مایا ڈوب رہی تھی اور تم اطمینان سے کنارے کھڑے کپڑے اتارتے رہے تھے۔بے رحم! ظالم! ڈاکو! میں سمجھتا تھا تم انسان بن چکے ہو۔“
گنگو نے کہا۔”میں کپڑوں سمیت چھلانگ لگا دیتا تو خود ڈوب جاتا۔“
”تو تم سمجھتے ہوکہ تمہارے ڈوبنے سے دنیا میں کوئی کمی آجاتی؟“
”تو اس کے مرنے سے کون سا دنیا میں کمی آگئی ہے۔بھائی سے اس کا دل ٹوٹ چکا تھا۔ تمہارے طرزِ عمل سے وہ مایوس ہوچکی تھی۔اچھا ہوا۔وہ گھل گھل کر مرنے کی بجائے دریا میں ڈوب کر مرگئی۔ہاں جب میں کپڑے اتار رہا تھا اور لہریں اسے دھکیل کر منجدھار کی طرف لےجارہی تھیں۔وہ چلا چلا کرکہہ رہی تھی۔گنگو! مجھے بچانے کی کوشش بےسود ہے۔خالد کو میرا سلام کہنا۔میں اس کی محبت سے مایوس ہوکر زندہ نہیں رہنا چاہتی۔“
خالد دیر تک بےحس و حرکت کھڑا رہا۔گنگو نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔”خالد چلو! اب افسوس سے کیا حاصل؟ جو ہونا تھا سو ہوچکا۔“
خالد نے اس کا ہاتھ جھٹک کر پیچھے ہٹاتے ہوئے کہا۔”تم جاو!“
گنگو نے کہا۔”آج رات ہمیں بہت سے کام کرنے ہیں چلو!“
خالد نے سخت لہجے میں کہا۔”گنگو خدا کے لیے جاو! مجھے تھوڑی دیر کے لیے تنہا چھوڑ دو۔“
وہ بولا۔”خالد! مجھے معلوم نا تھا کہ مایا کی موت کا تمہیں اس قدر صدمہ ہوگا۔ورنہ میں اپنی جان پر کھیل کر بھی اسے بچانے کی کوشش کرتا۔“
خالد نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔”اس کی موت کا صدمہ! گنگو تمہارے پہلو میں ایک انسان کا دل نہیں۔یہ حادثہ میری زندگی کا سب سے بڑا حادثہ ہے۔اس کی موت کا باعث میں ہوں اور میں مرتے دم تک خود کو معاف نہیں کروں گا۔“
”لیکن تم تو مجھ کو کئی بار کہہ چکے ہو کہ مایا دیوی کو اس کے بھائی کے پاس بھیج دو۔اگر تمہیں اس سے جدا ہونے کا خوف نا تھا تو اس کی موت کا اس قدر رنج کیوں؟“
”گنگوخدا کے لیے میرے زخموں پر نمک نہ چھڑکو۔میں نے اسے سمجھنے میں غلطی کی اور یہ سزا میری قوتِ برداشت سے زیادہ ہے۔“
”خالد چھوڑو ان باتوں کو۔مجھے یقین ہے کہ اگر وہ ایک بار پھر زندہ ہوجائے تو بھی تمہارا غرور تمہیں اس کی محبت کا جواب دینے کی اجازت نہیں دےگا۔تم اس کے ساتھ اس طرح پیش آو گے۔چلو ایک دو دن میں تم اسے بھول جاو گے۔“
خالد کوئی جواب دیے بغیر ایک گرے ہوئے تنے کے درخت پر بیٹھ گیا اور دریا کی لہروں کی طرف دیکھنے لگا۔اس نے درد بھری آواز میں کہا۔”مایا! مایا! یہ تم نے کیا کیا!“
گنگو نے پھر کہا۔”خالد! تمہیں اب ایک مرد کے حوصلے سے کام لینا چاہیے۔“
”گنگو تم جاو! میں ابھی آجاوں گا۔“
”اچھا تمہاری مرضی۔“گنگو یہ کہہ کر چل دیا۔لیکن قلعے کا رخ کرنے کی بجائے جھاڑیوں میں چھپتا ہوا کشتی کے قریب ایک درخت کی آڑ میں جا کھڑا ہوا اس نے آہستہ سے آواز دی۔”مایا اب نکل آو۔“
مایا کا دل دھڑک رہا تھا۔وہ خالد اور گنگو کی باتیں سن چکی تھی۔وہ اس موت کو جو اسے خالد کے دل سے اس قدر قریب لاسکتی تھی ہزار زندگیوں پر ترجیح دینے کے لیے تیار تھی۔وہ خالد کی آہیں سن رہی تھی اور اسے خدشہ تھا کہ اس مذاق کے بعد خالد اس سے ہمیشہ کے لیے بدظن ہوجائے گا۔اس نے اپنے دل میں سوچا۔کاش میں سچ مچ دریا میں کود گئی ہوتی اور آن کی آن میں یہ خیال ایک خوفناک ارادے میں تبدیل ہوگیا۔
گنگو نے پھر آہستہ سے آواز دی۔مایا کے لیے سوچنے اور فیصلہ کرنے کا وقت نا تھا۔اس نے اچانک اٹھ کر پانی میں چھلانگ لگا دی۔
گنگو مایا! مایا! کہتا ہوا بھاگا۔خالد بدحواس ہوکر اپنی جگہ سے اٹھا اور دونوں بیک وقت دریا میں کود پڑے۔گنگو کہہ رہا تھا۔”خالد پکڑو یہ مایا ہے۔مایا ٹھہرو آگے پانی بہت خطرناک ہے۔“ لیکن وہ تیر کر تیز دھارے میں جانے کی کوشش کررہی تھی۔
خالد تیزی سے پانی کو چیرتا ہوا اس کے قریب پہنچا۔مایا نے غوطہ لگا دیا لیکن اچھی بھلی تیراک کو خود کو پانی کے رحم و کرم پر چھوڑدینا ممکن نا تھا۔اس نے جلد ہی اپنا سر پانی سے باہر نکال لیا۔ اور پھر مجدھار کی طرف جانے کی کوشش کرنے لگی، لیکن خالد نے اس کا بازو پکڑ لیا۔اتنی دیر میں گنگو بھی پہنچ گیا اور دونوں مایا کو سہارا دے کر کنارے کی طرف تیرنے لگے۔
کنارے پر پہنچ کر گنگو نے کہا۔”خالد! اب مجھے اس لڑکی پر کوئی اعتبار نہیں رہا۔اسے تمہاری بےرخی نے پاگل بنا دیا ہے۔“ اور پھر مایا سے مخاطب ہوکر پوچھا۔”مایا! تم نے دریا میں چھلانگ کیوں لگائی؟“
اس نے اطمنان سے جواب دیا۔”آپ نے ان کے ساتھ یہ مذاق کیوں کیا تھا؟“
گنگو نے خالد کو کہا۔”بھئی! مجھے معاف کرنا۔میں نے تمہیں چھیڑنے کے لیے اسے کشتی میں چھپا دیا تھا۔لیکن مجھے معلوم نا تھا کہ یہ سچ مچ ایسا کر دیکھائے گی۔تم دونوں ایک دوسرے سے محبت کرتے ہو اور میں خوش ہوں۔“
خالد نے کوئی جواب نا دیا۔اس کی آنکھوں میں صرف آنسو تھے۔محبت خوشی اور تشکر کے آنسو!
گنگو نے پوچھا۔”اب مایا کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے؟“
اس نے کہا۔”مایا کے متعلق فیصلہ کرنے کا حق کسی کو نہیں۔وہ اپنے متعلق خود فیصلے کرسکتی ہے۔“
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...