ایک مہینے بعد
سعد اور مایا اب وقار صاحب اور سعدیہ بیگم کے ساتھ ہی رہ رہے تھے۔ سعد جو شادی سے پہلے تک سمجھ رہا تھا کہ وہ مایا کہ ساتھ شاید نہ رہ سکے شاید شادی کے بعد بھی اسے ندا کی یاد ستائے گی اس لئے وہ شادی کہ بعد بھی واپس لندن آجائے گا۔ مایا کا اس نے نہیں سوچا تھا کہ کرنا ہے یہی سوچ کر وہ وہاں اپنی جاب چھوڑ کر نہیں آیا تھا مگر شادی والے دن اس پر یہ بات ثابت ہوگئی تھی کہ اسے ندا سے محبت نہیں تھی وہ بس ایک ایکتریکشن تھی۔ وقتی جذبہ تھا۔ سچی محبت تو اسے اس وقت ہوئی تھی۔ عشق تو اسے ایک بار ہی ہوا تھا مایا سے۔۔!!
اس لئے وہ شادی کے دو دن بعد مایا کو ساتھ لے کر لندن چلا گیا تھا تاکہ وہ وہاں اپنا ریزائن بھی دے آئے اور اپنا سارا سامان سمیت بھی لیں اور ساتھ ہی مایا کے ساتھ وہاں گھوم پھر بھی لے گا۔
اس لئے وہ دونوں ایک ساتھ ایک ہفتہ وہاں گزار کر آئے تھے اور اب وہ سب ایک ساتھ رہ رہے تھے۔ سعد اب وقار صاحب کے ساتھ مل کر بزنس سنبھال رہا تھا۔
دوسری طرف فہیم کی طبیعت بھی ریکوری کی طرف بڑھ رہی تھی۔ فہیم ہیمبرج کا علاج لاہور کے ہی اچھے ہوسپٹل سے کروا رہا تھا۔ اس نے سرجری کروانے کے لئے بھی معلومات اکھٹی کی تھی اور ایک ڈاکٹر سے بات بھی کی تھی مگر انہوں نے کہا تھا کہ اس کی سرجری کافی خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔ اس سرجری میں صرف 10٪ ریکوری کہ چانس ہے اور 90٪ اگر آپ ریکوری نہ کرسکے تو اس سے آپ کا دماغی توازن بگر سکتا ہے۔ اس لئے ہیمبرج کے علاج کے لئے فلحال وہ میڈیسنز ہی استعمال کررہا تھا۔ یہ میڈیسنز لاہور کے سینئیر نیورولجسٹ نے اسے سگسٹ کی تھی۔ تاکہ وہ اس کا سائز چھوٹا کر سکے۔
دھیرے دھیرے مگر بہت اچھا علاج چل رہا تھا اس کا۔ اور اس سب میں ندا اس کا خوب خیال رکھ رہی تھی۔ حسن صاحب نے اسے آفس آنے سے بھی منع کیا تھا مگر بقول اس کے وہ گھر بیٹھے بیٹھے زیادہ تھک رہا تھا۔ اس طرح وہ اب آفس بھی جانے لگا تھا۔
تیسری طرف موئذ عنایہ کہ گھر رشتہ لے جانا چاہتا تھا مگر وہ اس سے پہلے فہیم سے بات کرلینا چاہتا تھا اور یہ کام اس نے سعد کے ساتھ مل کر کرنا تھا مگر سعد اسے زچ کرنے کے لئے اسے لٹکاتا رہتا۔ اور پھر آخر میں آکر موئذ نے اس سے بات نہ کرنے کی دھمکی دی تو سعد ہنستے ہوئے مان گیا تھا۔ وہ جانتا تھا اگر زیادہ تنگ کیا تو واقعی بہت مشکل سے مانے گا۔
سعد اور موئذ فہیم کے آفس میں موجود تھے۔
انہیں یہاں آئے کافی دیر ہوچکی تھی۔
وہ لوگ یہاں فہیم سےعنایہ کے متعلق بات کرنے آئے تھے۔
مگر سعد مسلسل ادھر ادھر کی ہانکے جا رہا تھا۔ فہیم جو بہت ضروری کام میں مصروف اتنی دفعہ ان کو کہہ چکا تھا کہ اگر کوئی بہتتت ضروری بات نہیں ہے تو جان چھوڑ دے انکی مگر سعد کے کان پر جوں تک نہیں رینگی تھی۔
موئذ نے اب تیسری بار سعد کی ٹانگ پر اپنا ہیوی بوٹ مارا تھا۔
اس بار مارنے پر وہ ہنسا تھا۔
” کیا ہے۔ اتنا مسئلہ ہے۔ اتنی جلدی ہے تو خود بول دے نہ” سعد نے شرارتی لہجے میں کہا تو فہیم نے حیرانی سے اسے دیکھا۔ وہ میز کی دوسری طرف بیٹھا تھا اس لئے وہ سعد کو مار کھاتا دیکھ نہیں پایا تھا۔
” اس نے کیا کہا ہے” فہیم نے بنویں اچکا کر پوچھا۔
” مارا ہے اتنی زور کا” سعد نے بچوں جیسا منہ بنا کر شیکایت کی۔
” ہیں کیوں۔ ایسی تو کیوں بات بھی نہیں ہوئی” اب کہ وہ حیران ہوا۔
ہاں ہم نے تو کوئی بات نہیں کی مگر موزی کے دل میں ایسی بات ضرور جس کے بعد اسے لگتا ہے کہ تو اسے ضرور مارے گا۔”
سعد نے شرارتی انداز میں مویذ کو دیکھتے کوئے کہا تو اس نے اسے گھورا۔
” کیا ہے۔ کیوں پہیلیاں بجھوارہے ہو۔ ایک تو زبردستی آفس میں گھس آئے ہو اور اوپر سے مسلسل بکواس کررہے ہو۔ میں آخری بار کہہ رہا ہو اگر کوئی کام ہے تو بتاؤ ورنہ اب میں نے دھکے دے کر نکالنا ہے باہر” فہیم نے جھنجھلا کر کہا۔
” اچھا چلو اب بتا ہی دیتا ہوں۔ نہیں تو تو صرف آفس سے دھکے دے کر نکالے گا لیکن باہر جا کر موئذ نے مجھے گاڑی سے بھی دھکہ دے کر باہر نکال دینا ہے” سعد اب بھی سیریس نہ ہوا تھا۔
” اب بک بھی دو” فہیم نے غصے سے کہا۔
” اچھا بتا رہا ہوں۔ یہ بھائی صاحب مایا اور عنایہ کی دوستی کو مدنظر رکھتے ہوئے عنایہ کو مایا کی بھابھی بنانے کا سوچ رہے ہیں۔ بس تیری اجازت لینے آیا ہے” سعد نے مویذ کو دیکھتے ہوئے مسکراتے ہوئے کہا تو فہیم نے حیرانی سے مویذ کو دیکھا۔ موئذ اسے خود کو دیکھتا پا کر نظریں ادھر ادھر گھمانے لگا جیسے وہ پہلی بار آفس دیکھ رہا ہو۔ اس کے انداز پر سعخ کھلکھلا کر ہنس پڑا۔
” سالا ڈرنے کی ایکٹنگ تو ایسے کررہا ہے جیسے کسی لڑکی کو غلطی سے چھیڑ کر اس کے ڈون بھائی کے سامنے بیٹھا ہو” سعد نے ہنستے ہوئےکہا تو فہیم نے بھی اس کی بات سے متفق ہوتے ہوئے اپنے سر پر ہاتھ مارا۔
” حد ہوتی یار۔ میں تجھے اتنا ظالم لگتا ہوں۔ بلکہ مجھے تو اچھا لگا کہ تو نے مجھے امپورٹنس دی کہ کچھ بھی کرنے سے پہلے مجھ سے پوچھ لیا۔ لیکن اگر میں انکار کردوں تو” فہیم نے کہا۔
” تو میں انکل آنٹی کے پاس چلا جاؤ گا۔ کیونکہ سعد نے غلط کہا ہے میں یہاں اجازت لینے نہیں بس تجھے بتانے آیا تھا۔” موئذ نے بھی برجستہ جواب دیا تو فہیم نے اسے گھورا۔
” شرم انی چاہیے تجھے اپنے سالے سے ایسے بات کرتے ہوئے” فہیم نے سنجیدگی سے کہا مگر اس کی آنکھیں مسکرا رہی تھی۔
” ہاہاہاہاہاہا۔ شروع سے ہی اس نے اپنے”سالے” سے ایسے کی بات کی ہے۔ تیرا بہنوئی تو موئذ اب بنا ہے مگر تو اس کا سالا شروع سے تھا” سعد نے شرارت سے کہا تو موئذ نے ایک بار پھر اس کی ٹانگ پر اپنا بوٹ مارا تو وہ بلبلا کر اٹھ کھڑا ہوا۔
” چل اٹھ ٹریٹ دے اب۔ جلدی کر۔۔ بھوک لگ رہی ہے شدید۔” سعد نے خود بھی اٹھ کر مویذ کو بھی زبردستی اٹھانے لگا۔
” کس بات کی ٹریٹ بھئی۔ ابھی کون سا ڈیٹ فکس ہوگئی ہے۔ ” موئذ نے چڑ کر کہا اور اپنا بازو چھڑوانے لگا۔
” میں مارو گا۔ تو نے کہا تھا کہ اگر میں بات کرو گا تو تو مجھے ٹریٹ دے گا۔ ” سعد نے خفگی سے دھمکاتے ہوئے کہا۔
” تو نے بھی تو مجھے تنگ کیا ہے نہ۔ اب تھوڑا میرا حق بھی تو بنتا ہے نہ” مویذ نے اپنے پاؤں بوٹ سمیت اٹھا کر فہیم کی ٹیبل پر رکھتے ہوئے کہا تو فہیم نے خطرناک تیوروں سے اسے گھورتے ہوئے کہا۔ اور پھر ہاتھ مار کر اس کے پاؤں ٹیبل سے واپس نیچے پھینک دئے۔
” تمیز کرو۔ اور نکلو اب یہاں سے” فہیم نے غصے سے کہا۔
” چلو اٹھو اب تو سالے صاحب نے بھی کہہ دیا ہے” سعد نے ایک بار پھر شرارت سے کہا۔ تو موئذ دونوں کو گھور کر دیکھ کر باہر نکل گیا۔
” ویسے سالے صاحب بریک ٹائم ہونے ہی لگا ہے آپ بھی آسکتے ہے” سعد نے پھر مسکراتے ہوئے کہا۔ تو فہیم گھڑی دیکھتا ہوا اتھ کھڑا ہوا اور اپنا کوٹ اٹھا کر میز کے پیچھے سے نکلا۔ اس کے پاس آکر اس کے سر پر ایک چپیٹ ماری اور ” تم لوگوں نے صبح سے جیسے بڑا کام کرنے دیا ہے نہ مجھے” کہہ کر باہر کی طرف بڑھ گیا۔ سعد پیچھے سے اسے گھور کر رہ گیا.
سعد اپنے کمرے میں بیڈ پر بیٹھا موبائل یوز کررہا تھا جب مایا ہاتھ میں کافی کے دومگ ٹرے میں رکھے اندد داخل ہوئی۔
اسے اندد آتا دیکھ کر سعد نے موبائل سائیڈ ٹیبل پر رکھ دیا تھا اور اپنی جگہ سے تھوڑا آگے کھسک گیا تھا جس کا مطلب تھا کہ وہ اس کے پاس آکر بیٹھے۔ مایا مسکراتی ہوئی اس کے پاس اکر بیٹھ گئی تو سعد نے اس کے کندھوں کے گرد اپنا ایک بازو پھیلا دیا۔ ٹرے اس نے سایئڈ ٹیبل پر رکھ کر ایک کپ سعد کو پکڑا دیا تھا اور ایک خود پکڑ لیا تھا۔
” فہیم بھائی سے بات ہوگئی” مایا نے کافی کو پھوک مار کر ٹھنڈا کرتے ہوئے بات شروع کی۔
” ہاں کرآئے۔ جتنا وہ ڈر رہا تھا اتنا تو میں بھی نہیں ڈرا تھا کہ کہی بچہ جزباتی نہ ہوجائے” سعد نے مایا کو دیکھتے ہوئے شرارت سے کہا۔ مایا نے اسے گھورا۔
” خبرداد جو میرے بھائی کو کچھ کہا تو” اس نے تنبہی انداز میں کہا۔
” کیوں۔ تمھارے بھائی سے پہلے وہ میرا دوست ہے۔ نہیں مطلب واقعی میں پتہ نہیں کیا سمجھتا تھا اسے اور سالا اتنا ڈرپوک نکلا۔” سعد نے منہ بناتے ہوئے کہا۔ آنکھیں شرارت سے چمک رہی تھی۔
” سعدددد۔۔۔ اب آپ اس طرح میرے سامنے میرے بھائی کو بھائی گالی نہیں دے سکتے” مایا نے غصے سے کہتے ہوئے اس کے کندھے پر مکہ مارا۔
” کیاااا۔۔۔ گالی کب دی ہے۔ سالا نہیں ہے کیا اب وہ میرا۔ تمھارا دماغ سوچتا ہی صرف اس ایک پہلو پر ہے تو اس میں میرا کیا قصور ہے” سعد نے اپنا کندھا سہلاتے ہوئے درد ہونے کی ایکٹنگ کرتے ہوئے منہ چڑھا کر کہا۔
مایا محض گھور کر چپ ہوگئی کیونکہ اس سے باتوں میں جیتنا اس کے بس میں نہیں تھا۔
پھر دونوں نے یونہی خاموشی سے کافی ختم کی۔ سعد نے اپنا کپ مایا کو پکڑایا اور اپنا بازو اس کے کندھے سے ہٹا کر زرا سا نیچے ہو کر اپنا سر مایا کے کندھے پر ٹکا دیا۔ بازو اپنے سینے پر باندھ لئے۔ مایا نے اسے مسکرا کر دیکھا اور اس کے بالوں پر ہاتھ پھیرنے لگی۔
وہ چند لمحے یوں ہی آنکھیں موندے لیٹا رہا۔ مگر پھر اچانک ایک خیال آنے پر آنکھیں کھول کر سر اس کی طرف موڑ کر اسے دیکھا۔ اس کی آنکھیں شرارت سے چمک رہی تھی اور ہونٹوں پر شرارتی مسکراہٹ ناچ رہی تھی۔ مایا نے مشکوک نظروں سے اسے دیکھا۔
” میں کچھ سوچ رہا تھا”
” کیا”
” یہی کہ آج میں نے فہیم کو کہا تھا کہ مویذ عنایہ کو ماہی سے قریب رکھنے کے لئے عنایہ کو ماہی کی بھابی بنانا چاہتا ہے” سعد نے بات روک کر ماہی کو دیکھا تو اس نے نا سمجھی سے اسے دیکھا۔
“تو”
“تو یہ کہ وہ تو شادی عنایہ کو تم سے قریب رکھنے کے لئے کررہا ہے مگر تم تو میرے پاس ہو۔ ےو اس لئے پھر شادی بھی مجھے ہی اس سے کرنی۔۔۔ آں۔۔ سن تو لو۔۔آں ماہی” اس سے پہلے کہ سعد اپنی بعد مکمل کرتا مایا نے اسے اپنے پاس سے ہٹا کر ساتھ پڑا کشن اسے مارنے لگی۔
” خبردار جو آپ نے آیئندہ ایسی کوئی بات سوچی بھی تو”
” کیوں بھئی میں تو تمھارے لیے کہہ رہا ہوں نہ”
” میں بتاؤ گی بھائی کو کہ آپ کا بہنوئی اپ کی بیوی پر نظر رکھے ہوئے ہے” مایا نے مسلسل مارتے ہوئے کہا۔
” اور میں بھی بتاؤ گا عنایہ کو کہ اس کی سب سے اچھی دوست اسے اپنے قریب نہیں رکھنا چاہتی اور اس سے جل بھی رہی ہے” سعخ نے بھی مسلسل اس کے حملوں سے بچتے ہوئے کہا۔
” ہاں جلتی ہوں میں۔ پھر چاہیے وہ میری جان سے پیاری دوست ہی کیوں نہ ہو” مایا نے مارتے ہوئے کہا تو سعد کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔
اب کے اس نے سیدھا ہوتے ہوئے مایا کے ہاتھ میں پکڑے کشن پر ہاتھ رکھ کر اس پر دباؤ ڈالا تو مایا اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکی اور پیچھے تکیے پر گر گئی۔ اس کے گرنے پر سعد بھی اس پر جھکا۔ جس پر مایا کے چلتے ہاتھ اور سانس رک گئی۔ ”
” اتنی محبت کرتی کو مجھ سے”
سعد نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے دھیمے لہجے میں کہا تو مایا نے ایک پل کو اس سے نظریں ملائی اور پھر چہرہ دوسری طرف موڑ لیا۔
سعد اس کے چہرے پر بکھرتے خوبصورت رنگوں کو محبت سے دیکھنے لگا۔