عاصی کاشمیری کی شعر و ادب سے وابستگی لگ بھگ نصف صدی کا قصہ ہو چلا ہے۔ شاعری کی مختلف اصناف میں طبع آزمائی کر چکے ہیں۔ تاہم غزل ان کی پہچان کا بنیادی حوالہ ہے۔ اپریل ۱۹۹۷ءکے ماہنامہ ”کتاب نما“ دہلی میں ان کے مساوی الوزن سہ مصرعی ”ماہیے“ شائع ہوئے تو میں نے ماہیے کے وزن کے مسئلے پر اپنا موقف وضاحتی مراسلے کے طور پر ”کتاب نما“ میں اشاعت کے لئے بھیجا جو مئی ۱۹۹۷ء کے شمارہ میں چھپ گیا۔ اس کے بعد میں عاصی کاشمیری کے ردعمل کا منتظر رہا۔ ”کتاب نما“ میں تو کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا لیکن ایک بار ویکلی ”راوی“ بریڈ فورڈ میں دکھائی دے گیا۔ ”راوی“ کے کسی شمارے میں عاصی کاشمیری کے درست وزن کے ماہیے چھپے ہوئے تھے۔ مجھے ان ماہیوں کو پڑھ کر بے حد خوشی ہوئی۔ پھر دوماہی ”گلبن“ احمد آباد، سہ ماہی ”کوہسار جرنل“ بھاگل پور اور ماہنامہ ”تخلیق“ لاہور اور دیگر جرائد میں ان کے ماہیے پڑھنے کو ملے اور مجھے محسوس ہوا کہ اردو ماہیے کے کارواں کو ایک ایسا خوبصورت ماہیا نگار مل گیا ہے جو ماہیے کی لوک لے سے بخوبی آشنا ہے۔ جب میرا عاصی کاشمیری سے رابطہ ہوا تو انہوں نے بتایا کہ پنجابی ماہیے کی لے کی بنیاد پر ماہیے کے اصل روپ سے تو وہ واقف تھے لیکن چونکہ اردو میں تین مساوی الوزن مصرعوں کا اہتمام کیا جا رہا تھا تو میں نے اسے اردو روایت سمجھتے ہوئے اختیار کر لیا۔ لیکن جیسے ہی مجھے علم ہوا کہ اردو میں بھی ماہیے کو اس کی لوک اصل کے مطابق رکھنے کی کاوش ہو رہی ہے تو میں نے اس رویے کو ترجیح دی۔۔۔۔
اب عاصی کاشمیری کے ماہیوں کے مجموعہ ”موسم سبھی اک جیسے“ کا مسودہ مجھے ملا ہے تو مجھے خوشی کے ساتھ حیرت بھی ہوئی ہے کہ مختصر سے عرصہ میں ان کی اردو ماہیے سے وابستگی اتنی گہری ہو گئی ہے ”موسم سبھی اک جیسے“ میں وہ تمام موضوعات ملتے ہیں جو پنجابی ماہیے کی راہ سے اردو ماہیے میں آ چکے ہیں۔ ان میں حمدیہ، نعتیہ اور دعائیہ ماہیے بھی شامل ہیں۔ سماجی ناانصافیوں پر برہمی کے مختلف رویئے بھی ملتے ہیں۔ ارض وطن سے محبت۔۔۔ عشق کی دنیا کے مختلف رنگ ڈھنگ اور بیتی یادوں کی کسک وغیرہ بھی موجود ہیں لیکن اب یہ سب کچھ ہوتے ہوئے ایک ایسا انداز بھی مل جاتا ہے جو ان کی ماہیا نگاری کو دوسروں سے مختلف کرنے کے ساتھ ان کی اصل پہچان کے امکان کو اجاگر کرتا ہے۔ پہلے عاصی کاشمیری کے روایتی انداز کے چند ماہیے دیکھیں۔
حمدیہ
تعریف سدا تیری
رہتی ہے ہونٹوں پر
سب حمد و ثنا تیری
اسلام ہے دین مرا
ایک خدا پر ہے
ایمان و یقین مرا
٭
٭
نعتیہ
توقیرِ امامت ہیں
عظمتِ آدم ہیں
وہ فخرِ رسالت ہیں
پھولوں پہ نکھار آئے
ذکرِ محمد سے
ہر شے پہ بہار آئے
٭
٭
دُعائیہ
اتنی ہے دعا مولیٰ
میری خطاﺅں کی
دینا نہ سزا مولیٰ
کچھ ایسا مقدر کر
قطرہ ہوں پانی کا
تُو مجھ کو سمندر کر
٭
٭
سماجی اخلاقیات
اخلاق سے بے بہرہ
رنگ جوانوں پر
مغرب کا چڑھا گہرا
مغرب میں سزا بن کر
سیکس کی بیماری
پھیلی ہے وبا بن کر
٭
٭
مجرم ہی بناتے ہیں
جتنے ڈرامے بھی
ٹی وی پہ دکھاتے ہیں
یہ زیست کا حاصل ہے
پینا پلانا اب
آداب میں شامل ہے
٭
٭
غریبی
جیتے رہے مر مر کے
کٹ گئی غربت میں
روٹی کو سدا ترسے
کٹیاﺅں میں دن کاٹے
کار، حویلی کے
سپنے ہی نہیں دیکھے
ماہیے کے ان مروّج موضوعات میں عاصی کاشمیری کا اندازِ بیاں دل پر ہلکی سی دستک دیتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ اردو ماہیے میں رشتے ناطوں کے مضمون میں ایک عمومیت سی راہ پانے لگی ہے لیکن عاصی کاشمیری کے بعض ماہیوں میں مذکورہ رشتوں سے ان کے تجربے کی نوعیت اتنی گہری ہے کہ وہ رشتے ناطوں کے مجموعی اظہار سے الگ ہو کر دکھائی دینے لگتے ہیں۔ ان کے اس طرح کے یہ ماہیے دیکھیں:
بھابھی نے دیا طعنہ
جا کے ولایت اب
گوری کا پکا کھانا
اس جان سے پیاری ہے
گڑیا سی لگتی ہے
پوتی جو پیاری ہے
٭
٭
اب پیتا، پلاتاہے
پب میں مرا لڑکا
ہر رات ہی جاتا ہے
بچوں کی لڑائی سے
بڑھنے لگے جھگڑے
اب میرے بھی بھائی سے
٭
٭
ہو جائے گا سمجھوتہ
بھائی تو بھائی سے
ناراض نہیں ہوتا
تھالی بھری پستے کی
بات کرو ماں سے
کوئی میرے رشتے کی
عاصی کاشمیری کے دو ماہیے ان کی ماہیا نگاری کو سمجھنے میں مددگار ہو سکتے ہیں۔ ماہیے یہ ہیں:
سادہ سی زباں رکھنا
سب سے الگ اپنا
اندازِ بیاں رکھنا
پنجاب کی ٹولی میں
گیت سناتاہوں
کشمیر کی بولی میں
اندازِ بیاں سب سے الگ رکھنے کی کاوش مصنوعی طور پر ”منفرد“ دِکھنے کی کاوش نہیں ہے بلکہ عاصی کاشمیری نیک نیتی سے سادہ زبان میں اظہار کو بنیادی اہمیت دیتے ہیں۔ کشمیر کی بولی اور اہل پنجاب کی ٹولی کے الفاظ بھی ان کے ہاں عوامی زبان اور عوام کے ساتھ ، عوام کے لئے جیسے مفہوم کو واضح کرتے ہیں تاہم ان کے ہاں ایسے لطیف رمزیہ اشارے بھی ملتے ہیں جو عوام کے لئے قابلِ فہم بھی ہیں اور ماہیے کو معیار کی عمدہ سطح تک بھی لے جاتے ہیں۔ ایسے متعدد ماہیوں میں سے یہ چند مثالیں:
ناراض ہوں ماہی سے
لکھ دیا خط اس کو
اب سرخ سیاہی سے
دن میرے بُرے آئے
جیسے کہ نندوں میں
دلہن کوئی گھِر جائے
سرخ روشنائی سے خط لکھنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ گھر سے کوئی بری خبر آئی ہے۔ پہلے ماہیے میں پنجاب کی اس پرانی رسم کے حوالے سے بات کی گئی ہے۔ مٹیار اپنے ماہی سے ناراض ہے لیکن ناراضگی کا برملا اظہار بھی نہیں کرنا چاہتی۔ سو خط کے مضمون میں تو ناراضی نہیں جتائی لیکن سرخ روشنائی سے خط لکھ کر ماہی کو اپنی ناراضی کا احساس ضرور دلا دیا ہے۔ روشنائی کو پنجاب میں سیاہی کہا جاتا ہے چاہے وہ کسی بھی رنگ کی ہو۔ سرخ سیاہی کی ترکیب کو اگر خون کے رنگ سے مماثلت دیں تو خون گر کر جم جانے کے بعد سیاہی مائل ہو جاتا ہے۔ یوں دل خون ہونے کا محاورہ معنی کے ایک اور پرت کو سامنے لائے گا۔
دوسر ے ماہیا میں ماہیا نگار نے اپنے برے دنوں کو نندوں میں گھری ہوئی دلہن سے تشبیہہ دے کر ہمارے سماج میں نندوں کے دلہن کے تئیں عمومی رویے کو اجاگر کیا ہے۔ لیکن اگر غور کریں تو یہ ہمارے سماج میں دلہن کی اپنی نندوں سے خواہ مخواہ کی کدورت کو بھی نمایاں کرتی ہے۔ یوں انہوں نے بظاہر ایک طرف کی بات کی ہے لیکن حقیقتاً نند اور بھابی کے ا س منفی رویئے کو دوطرفہ طور پر دکھا دیا ہے جو ہمارے معاشرے کا ایک عمومی رویہ ہے۔ مذکورہ بالا دونوں ماہیوں سے ظاہر ہے کہ عاصی کاشمیری سادہ زبان کے استعمال کے باوجود ماہیے کو زیادہ بامعنی بتا دیتے ہیں۔
”موسم سبھی اک جیسے“ میں دو مختلف قسم کے مکالماتی ماہیے ملتے ہیں۔ پہلے مکالماتی ماہیوں میں ماہیا نگار کا مکالمہ ایک مشرقی مزاج کی محبت سے بھری خاتون سے ہوتا ہے جبکہ دوسرے مکالماتی ماہیوں میں ماہیا نگار کا مکالمہ ایسی خاتون سے ہوتا ہے جو مغربی ماحول میں پلی بڑھی ہے اور جس کے سامنے جذبوں سے زیادہ مادی آسائشیں فوقیت رکھتی ہیں۔
مشرقی خاتون سے مکالمہ میں محبت کی راہ میں جاں سے گزر جانے کا ارادہ، محبت میں قربانی دینے کے جذبے کو ظاہر کرتا ہے جبکہ مغربی مزاج کی خاتون سے مکالمہ میں مفاہمانہ انداز سے مل جل کر زندگی گزارنے کی خواہش ہوتی ہے۔ یہ دونوں مکالماتی ماہیے پڑھنے والوں کو دلچسپ لگیں گے۔
عاصی کاشمیری کے ہاں یوں تو ہرطرح کے ماہیے مل جاتے ہیں ۔ ان ماہیوں میں نشیب و فراز بھی موجود ہیں تاہم میرے نزدیک اس انداز کے ماہیے ان کی اصل پہچان بن گئے ہیں:
انعام محبت کا
داغِ جدائی ہے
یا پھول ہے فرقت کا
کتنے ہی جتن کر کے
بھولے نہیں تم کو
ہم ترکِ وطن کر کے
٭
٭
اترا ہے سرور اس کا
ڈھلتی جوانی نے
توڑا ہے غرور اس کا
مسجد ہو کہ مندر ہو
خوف خدا لیکن
کچھ دل کے اندر ہو
٭
٭
دلہن کی سہیلی کے
گر گئے جوڑے سے
کچھ پھُول چنبیلی کے
آوارہ نگاہی سے
سیکھا نہیں کچھ بھی
یاروں کی تباہی سے
٭
٭
گرچہ ہے یہ نادانی
دل کی مگر میں نے
ہر بات سدا مانی
کھوجاﺅں نہ میلے میں
ہاتھ پکڑ رکھنا
ڈرتا ہوں اکیلے میں
٭
٭
بھٹکے ہوئے راہی کو
راستہ مل جائے
یا رب مرے ماہی کو
اب توڑ نہ دل ماہی
دیکھ لوں جی بھر کے
اک بار تو مل ماہی
٭
٭
اک رنگ نیا بھر دو
اپنی کہانی میں
اب ذکر مرا کر دو
جیسے بھی کٹی گزری
تیری محبت میں
اب ایک صدی گزری
٭
٭
بہتے ہوئے پانی کا
موڑ نہ پائے رُخ
منہ زور جوانی کا
موسم کئی آئیں گے
پھول مرے دل کے
اب کھِل نہ پائیں گے
٭
٭
چنبیلی کی کلیوں میں
گم ہے مرا بچپن
گجرات کی گلیوں میں
پھل آئے درختوں پر
بھولے مسافر اب
آ جائیں گے رستوں پر
عاصی کاشمیری کے خوبصورت ماہیوں نے اردو ماہیے کی تحریک کو تقویت پہنچائی ہے۔ انگلینڈ کے اردو شعراءکے حوالے سے بات کی جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ انگلینڈ میں سب سے پہلے درست وزن کے ماہیے کہنے والے ماہیا نگار عاصی کاشمیری ہیں۔ اب انگلینڈ میں بھی اردو ماہیا مقبول ہو رہا ہے تو اس میں عاصی کاشمیری کا بھی حصہ شامل ہے اور انگلینڈ میں تو اوّلین ماہیا نگار ہونے کا اعزاز تو بہرحال ان کا اعزاز ہے۔ مجھے امید ہے کہ ماہیے سے دلچسپی رکھنے والے عاصی کاشمیری کے اس مجموعہ کو بے حد پسند کریں گے اور اردو ماہیا نگاری میں ان کے ماہیوں کی قدروقیمت کا بہترطور پر تعین کیا جائے گا۔
میں ”موسم سبھی اک جیسے“ کا کھلے بازوﺅں سے استقبال کرتا ہوں۔
(ماہیوں کے مجموعہ”موسم سبھی اک جیسے “میں شامل)