سلطان جمیل نسیم(کراچی)
آنکھوں نے پیروں میں ایسی زنجیر ڈال دی کہ پھر کرم داد کہیں نہ جا سکا۔
چار برس پہلے جب اُ سکی عمر بارہ، تیرہ سال تھی وہ اِ س گھر میں آیا تھا۔کام زیادہ نہیں تھا۔ پابندیاں بھی کم تھیں۔تنخواہ سے اُسے کوئی واسطہ نہیں تھا کہ ہر مہینے اُ س کا باپ آکر لے جاتا تھا۔شروع میں دو چار مہینے تک تنخواہ کے ساتھ دن بھر کی چھٹی دلاکر اِسے بھی اپنے ساتھ لے جاتا رہا․․․․پھر کرم داد نے جانے سے خود ہی انکار کردیا․․․․ویسے جب بھی اُس کا جی چاہتا وہ گھنٹہ دو گھنٹہ یا ایک آدھ دن کی چھٹی لے کر چھوٹے بہن بھائیوں اور ماں سے ملنے چلا جا تا تھا۔ ایک دفعہ گیا تو ماں نے اپنے قریب بٹھا کے سمجھا یا کہ صاحب لوگو ں سے کہنا۔ پگھار، ابا کے ہتھ نہ دیں، اللہ جانے کہاں پھونک آتا ہے․․․․کرم داد کو پہلے سے معلوم تھا کہ ابااپنی بھی کمائی چلم میں رکھ کے پھونک جاتا ہے اور پیٹ کی آگ بھڑکتی رہتی ہے․․․․اُسی دن واپس آکے اُس نے بیگم صاب کو اماں کی یہ بات بتادی․․
اس گھر میں تین لوگ ہی تو رہتے تھے۔صاب، بیگم صاب اور بے بی صاب․․․․صاب کسی دفتر میں کام کرتے تھے․․․․صبح ہی صبح ڈرائیور آکے گاڑی کو چمچما تا۔ دو بار بھونپو بجاتا ․․تو صاب بے بی صاب کو آواز دیتے․․اگر بے بی صاب نے ناشتہ نہ کیا ہوتا تو بیگم صاب اُن کا ناشتہ ا یک سفید مہین سے کاغذ میں لپیٹ کر اورنارنگی کا شربت ایک بوتل میں بند کرکے ساتھ کر دیتی تھیں جس پر بے بی صاب بُرا سا منہ تو بناتی تھیں مگر ساتھ لے جاتیں۔ بیگم صاب مسکراتی رہتی تھیں،آدھا گاڑی میں گرائے گی آدھا پئے گی ساتھ میں ڈیڈی کی ڈانٹ بھی کھائے گی اور کالج تک لیکچر بھی سنے گی۔ بیگم صاب کے کہے ہوئے الفاظ میں سے آدھے تو کرم داد کے پلّے ہی نہیں پڑتے تھے۔
کرم داد جب اِس گھرمیں آیا تو اجنبیت کی بے کلی سینے میں ایسے مچلتی رہی جیسے ایک مرتبہ اس کے دانتوں میں چھوٹا ساتنکا اٹک گیا تھا۔ تکلیف کوئی نہیں تھی مگر بیچینی․․․․ہر وقت زبان دانتوں سے لگی رہتی جب تک وہ تنکا نکل نہیں گیا بے کلی کا عالم طاری رہا․․․․سو کچھ دن کی بیکلی کے بعداِس گھر سے بھی اجنبیت کا تنکا نکل گیااور وہ اِس گھر سے بالکل مانوس ہو گیا،وہ گھر کے سارے کام بہت دل لگا کر اور بڑی پُھرتی سے کرتا ․․․․اور کام بھی کیا تھے․․․․پانی پلانا․․․․جوتوں پر پالش کرنا․․․․کپڑوں پر استری کرنا․․․․بازار سے کوئی چیز منگانی ہوتی وہ لا کے دے دینا․․․․اِن میں سے بہت سے کام اُس کو پہلے ہی آتے تھے، اس لئے جلدی وہ ان سارے کاموں کا عادی ہو گیا اور ایسا عادی کہ جب کوئی کام نہ ہو تو خود جاکے پوچھے:بیگم صاب کچھ منگانا ہے بازار سے؟
صاب جی جوتا پالش کردوں۔؟۔۔۔۔۔۔۔بے بی صاب آپ نے بلایا ہے مجھے۔؟
جب اپنے گھر جاتا تو بیگم صاب از خود صاحب کی کوئی پرانی قمیص پتلون،اپنا کوئی نظر سے اترا ہوا جوڑا، اُس کے حوالے کردیتیں لیکن عجیب بات ہے جب وہ بے بی صاب کے کپڑوں کی الماری کی طرف جاتیں تو وہ سنتا۔
’’مما۔ میری المیرا کی طرف تو آپ آئیے گا نہیں۔۔ ماں بیٹی میں زیادہ باتیں ہوتیں تو وہ سنتا۔پہلی بات یہ کہ میرے کپڑے نہ اُس کی ماں کے آئیں گے نہ چھوٹی بہنوں کے․․․․اچھا چھوڑیئے میں اب کے سنڈے کو بازار جاؤں گی تو لے آؤنگی ایسے کپڑے جو اس کی بہنوں کے آجائیں،پلیز۔ اب تو ہٹ جائیے میری الماری کے پاس سے۔۔اور جب کرم داد لداا پھندا اپنے گھر جاتا تو چھوٹے بھائی بہن ہی نہیں ماں باپ بھی اُن کپڑوں پر یو ں ٹوٹ پڑتے جیسے وہ اسی شہر کی ایک بستی سے نہیں بلکہ دبئی سے آیا ہے۔پھر وہاں کھائے ہوئے لذیذکھانوں کا ذکر اتنے چٹخارے لے کر کرتا کہ چھوٹے بہن بھائی تو رہے ایک طرف ماں کے منہ میں پانی آجاتا۔’’ارے کرمو کبھی روٹی سالن بھی لے کے آنا۔‘‘۔۔۔بس اسی بات پر وہ چڑ جاتا۔’’تم سب مجھے کرمو کہتے ہو ۔۔اور ساب لوگ مجھے کرم داد کہہ کرپکارتے ہیں۔
ایک دن صاحب نے طے کیا کہ کرم داد کو تھوڑا بہت لکھنا پڑھنا بھی آنا چاہئے، اور اُسی شام دو ایک کتابیں اور ایک سلیٹ لا کے دیدی گئی۔اتالیق مقرر ہوئیں بیگم صاحب کہ سارا دن اُن ہی سے واسطہ رہتا تھا۔جب بھی اُن کو ذرا فرصت ملتی آواز لگاتیں۔’’کرم داد کتاب لے کے آؤ اپنی‘‘
پھر ایک دن اُس نے بیگم ساب کے چہرے کو ذرا غور سے دیکھا، ہنستے ہوئے اُن کے گالوں میں گڑھے پڑ جاتے ہیں اور جب وہ باتیں کرتی ہیں تو ہونٹ گولائی میں کُھلتے ہیں․․․․․پھر اُس کو اپنی ماں یاد آگئی ، جس کا لباس گندا ہوتا ہے ، سر کے بالوں سے کچی سرسوں کے تیل کے بھپکے اُٹھتے ہیں، دانت پیلے، ہونٹ موٹے، جسم پتلا ،رنگ کالا ہے․․․․مگر ․․․․مگر جب سینے لگاتی ہے تب جو سوندھی سوندگی خوشبو آتی ہے بس اُسی خوشبو کی کمی ہے بیگم ساب میں․․․․یا شاید ہو․․․اُس کا دل چاہنے لگاکہ جس طرح وہ اپنی ماں سے لپٹ جاتا ہے ایسے ہی بیگم ساب کے سینے سے لگ جائے،اور اُس خوشبو کو سونگھے․․․․اور․․․․اور اس طرح بیگم ساب ہر صورت میں ماں سے آگے بڑھ جائیں۔
پہلے دن جب وہ آیا تو اُسی شام ساب اور بیگم ساب اُس کے لئے نئے کپڑے کے دو جوڑے لائے، دانت مانجھنے کا منجن اور برش، منہ دھو کے صاف کرنے کے لئے دو، تولیے اور جب ساب نئے جوتے بھی دلوانے لگے تو بیگم ساب نے کہا،ہفتہ دو ہفتہ ٹھہر جائیں۔ اگر یہ ٹِک گیا تو پھر اور بھی کئی چیزیں دلانی ہونگی۔ایک بار ساب کے پاؤں دباتے دباتے اُن کا موازنہ اپنے باپ سے کیا․․․․ماں کے وجود میں خوشبو تو محسوس ہوئی تھی، باپ تو ساب کے پاسنگ بھی نہ نکلا۔ پیلے دانت اور بیڑی کے ساتھ گانجہ چرس اور نجانے کیسی کیسی بدبو ․․․․․رہیں بے بی ساب ․․․․تو اُن میں اپنی کوئی بات ہی نہیں تھی، ساری خوبیاں بیگم ساب اور ساب کی بٹور کر بے بی ساب بن گئی تھیں۔کرم داد سے وہ زیادہ بات چیت بھی نہیں کرتی تھیں بس اگر کوئی کام ہوا تو کہہ دیا․․․․ایک دفعہ ڈانٹا بھی تھا․․․․پانی مانگا․․․․وہ لے کر پہنچ گیا․․․․پہلے تو بیگم ساب نے سمجھایا کہ جب کوئی پانی مانگے تو گلاس کو پلیٹ میں رکھ کر لایاکرو۔ ایک طرف یہ بات سنی دوسری طرف بے بی ساب نے گلاس لینے کو ہاتھ بڑھایا․․․․وہ سمجھا بے بی ساب نے گلاس تھام لیا ہے اُس نے چھوڑ دیا۔۔دراصل اُس وقت وہ بے بی ساب کی گردن دیکھ رہا تھا جہاں گلابی رنگت میں ہلکے نیلے رنگ کی باریک باریک نسیں چمک رہی تھیں․․․․تو سارا پانی قالین پر گر گیا۔ وہ ایک دم کرم داد سے کرمو بن کر کانپ گیا۔ دو ایک چھنٹیں تو بے بی ساب کے کپڑوں پر بھی گری تھیں․․․․نجانے اب کیا سزا ملے․․․؟
ایڈیٹ․․․․نان سینس․․․․جنگلی․․․
بیگم ساب نے ماں کی طرح پیٹھ پر دوہتھڑ بھی نہ مارا․․․․ساب نے باپ کی مانند کوئی غلیظ گالی بھی نہ دی۔اِس گھر میں گالیوں کی بدبو اور تھپڑوں کی جلن کرم داد بھول گیا تھا۔اب پہلی دفعہ ایسا ہوا تھا جو اُس کے نزدیک بہت ہی سنگین بات تھی خوبصورت دبیز قالین پر پانی سے بھرا ہوا گلاس گرا تھا، بے بی ساب کے کپڑوں پر چھینٹیں پڑی تھیں․․․․وہ سمجھ رہا تھا ساب اُٹھ کرایک گالی کے ساتھ بھرپور چانٹا رسید کریں گے․․․․پھر بیگم ساب اور بے بی ساب خبر لیں گی․․․․مگر یہاں تو معاملہ ہی اُلٹا نکلا۔ ساب ہنس پڑے․․․․بیگم ساب نے گود میں رکھا ہوا تولیہ قالین پر گرے پانی پر ڈال دیا اور بے بی ساب․․․․بس تیوری پہ بل پڑے․․․․لہجہ میں غصہ کی چٹک․․․․جھٹکوں کے ساتھ نکلتی ہوئی خوبصورت آواز:ایڈیٹ،نان سینس،جنگلی۔۔۔کرم داد کا جی چاہا وہ ایک گلاس اور گرادے․․․․مگر اُس نے گلاس اُٹھا یااور اسی گھر سے سیکھا ہوا ایک لفظ رسان سے ادا کر دیا۔’’ساری‘‘
یہ سن کر سب ہی ہنس پڑے․․․․بے بی ساب نے کہا․․․․جاؤ گلاس رکھو جاکے․․․․کر م داد نے پہلی مرتبہ شیشے کے گلاس کو غور سے دیکھا․․․․ایسا باریک․․․․ایسا صاف ․․․․ جی چاہابرف کی طرح منہ میں رکھ کے چبا جائے۔
سال بھر میں تو کرم داد اسی گھر کا ہوکے رہ گیا۔سارا گھر اُس کے سپرد کرکے وہ سب کبھی دعوت میں چلے جاتے․․․․کبھی سنیما دیکھنے․․․․جاتے وقت بیگم ساب صرف اپنے کمرے کو بند کر جاتی تھیں اور کرم داد کو اُن کا کمرہ دیکھنے کا ایسا شوق بھی نہیں تھا․․․وہ تو ہر روز اُ ن کے کمرے میں جاتا تھا۔ بستر صاف کرتا․․․․کبھی چادر بدلی کبھی تکیہ کے غلاف․․․․․اس کو معلوم تھا کہ بیگم ساب کے کمرے میں ایک الماری ہے جس میں اُن کے زیورات رکھے ہیں اور گھر کے خرچ کے روپے بھی․․․․مگر اُسے اِن چیزوں سے کوئی واسطہ نہیں تھا۔ وہ تو بس ان سب کے جاتے ہی لاؤنج میں رکھا ہوا ٹی وی کھول کے بیٹھ جا تا اور جب تک وہ لوگ آنہیں جاتے دیکھتا رہتا․․․․کر م داد کے اِس شوق سے سب ہی واقف تھے اور کسی کو کوئی اعتراض بھی نہیں تھا،بلکہ اکثر ،خاص طور سے گرمیوں کی دوپہر میں جب بیگم ساب اور بے بی ساب اپنے اپنے کمرے کا ائر کنڈیشنرکھول کے کمرہ بند ہو جاتی تھیں اُس وقت بیگم ساب جاتے جاتے کہتی تھیں۔
’’ارے یہاں آنکھیں تاپنے اور خود تپنے کے بجائے ذرا دیر آرام کرلیا کر․․․․‘‘یہ سن کر وہ دانت نکوس کے رہ جاتا۔
ایک دن بیگم ساب کے کمرے کی صفائی کرتے ہوئے اُسے ایک تڑامڑا سا سو روپے کا نوٹ ملا․․․․پہلے تو اُس نے اُٹھا کے سنگھار میز پر رکھ دیا․․․․پھر وہاں سے اُٹھا کے انٹی میں داب لیا․․․․کہیں گر نہ جائے یہ سوچ کر تھوڑی دیر بعد اپنے جوتے میں جاکے چھپادیا․․․کئی دن گزر گئے․․․․بیگم ساب نے پوچھا ہی نہیں․․․․لیکن جب بھی وہ آواز دیتیں اُس کا دل دھڑکنے لگتا کہ اگر نوٹ کے بارے میں پوچھ لیا تو وہ کیا جواب دے گا۔دس بارہ دن گزرگئے جب کسی نے پوچھا ہی نہیں تو ایک رات اُس نے جاکے یہ تصدیق کی کہ نوٹ جوتے میں ہی رکھا توہے ۔؟تسلی ہوگئی پھر اُ س نے سوچنا شروع کر دیا۔اب کے گھر جاؤں گا تو ماں کو دیدوں گا․․․․اور گھر جانے سے پہلے وہ دن آگیا۔ جب آنکھوں نے پیروں میں زنجیر ڈال دی۔
رات کو سونے سے پہلے بے بی ساب کے لئے دودھ کا گلاس لے کر گیا۔ حسبِ معمول وہ اُن کے کمرے تک پہنچااور بند دروازہ کھول کر اندر گیا تو ․․․․․․گلاس میں سے دودھ چھلک ہی گیا․․․․․․بے بی ساب لباس تبدیل کر رہی تھیں․․․․․․ہر کمرے میں تو قالین بچھے ہیں، نہ قدموں کی چاپ ابھرتی ہے نہ دروازے سسکاریاں بھرتے ہیں۔․․․․۔یہ تو اچھاہی ہوا کہ بے بی ساب کو پتہ ہی نہ چلا کہ وہ کمرے میں آیا تھا،اُس کے ہاتھ کانپے تھے اور گلاس میں سے دودھ چھلکا تھا۔ جیسے کوندا لپکتا ہے اور آنکھوں میں چکا چوند بھر جاتی ہے۔بے بی ساب کے بدن کی روشنی میں وہ روشنی ہی کی رفتار سے کمرے کے باہر ایسے آگیاکہ خود اسے اپنے آنے کی خبر نہیں ہوئی۔ خیر تو یوں بھی گزری کہ بے بی ساب اُس کی آمد سے بے خبر رہیں۔مگر کوندے کی ایک لپک نے یا کمرے میں گزری ہوئی ایک ساعت نے کرم داد کی ساری زندگی کو اپنی مٹھی میں بھینچ لیا۔آنکھوں نے پیروں میں ایسی بیڑیاں ڈالیں کہ لمحہ بھر کی جست میں اپنی عمر کے دو تین سال طے کرگیا۔
جب رات ہوئی تو کرم داد شش و پنج میں پڑگیا۔وہ اتناہی بڑا ہے جتنا اِس گھر میں آیا تھا یاکچھ اوراُس کی عمر بڑھ گئی ہے۔؟کرم داد کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا وہ کہاں ہے۔ اور وہ کون تھی جس کو اُس نے بے بی ساب کے کمرے میں دیکھا۔؟اُسے اپنا ہوش کہاں تھا وہ تو کمرے سے باہر آنے کے بعد بھی دودھ کا گلاس ہاتھ میں لئے کھڑا یہ سوچ رہا تھادوبارہ اندر جائے یاگلاس کو فرج میں رکھ دے․․․․․دروازے پر دستک دے یا چپکے سے جھانک کر دیکھ لے۔صبح اُٹھتے ہی اُس نے پہلا کام یہ کیا کہ جوتے میں چھپایا ہوا نوٹ نکال کر بیگم ساب کے پاس پہنچا۔
’’ بیگم ساب ․․․یہ نوٹ ․․․آپ کی میز کے پاس پڑا تھا۔‘‘بیگم ساب نے بے دلی سے نوٹ لے کر سامنے پڑی ہوئی میز پہ رکھی کتاب میں دبا کے چھوڑدیا۔
اب اُس نے نوٹ کے بارے میں سوچنا بالکل ہی چھوڑ دیا۔ اب وہ اِ س تاک میں رہتا․․․․بے بی ساب کالج سے آئیں یاکسی پارٹی سے واپس ہوں․․․․وہ کوئی نا کوئی چیز لے کر اُن کے کمرے کے قریب جاتا․․․․آہستہ سے دروازہ کھولتا․․․․اندر چور نظروں سے دیکھتا ․․․․مگر دو منٹ․․․․دو مہینہ․․․․یا دو سال پہلے جو لمحہ لپک کر آنکھوں میں آن بیٹھا تھا وہ پھر کبھی اپنے پورے خدو خال کے ساتھ دکھائی ہی نہیں دیا۔․․․کئی بار تو اُس نے منہ دھونے کے بہانے اپنی آنکھوں میں اتنا صابن بھر لیا کہ دیر تک آنکھیں دھونے کے بعد بھی اُس ایک جھلک کی جلن کو نہیں نکال سکا۔
ایک مرتبہ بے بی ساب کی طبیعت خراب ہو گئی ، ساب اور بیگم ساب دونوں ہی بے چین تھے․․․․ایک ہی ڈاکٹر کی کئی دوائیں بدلنے کے بعد ڈاکٹربدل کے بھی دیکھ لیا․․․․حالت جوں کی توں رہی․․․․․خدا خدا کرکے گیارہویں دن بخار ٹوٹا۔․․․بیگم ساب تو بے بی ساب کی پٹی سے لگ کربیٹھ گئیں تھیں․․․․دن رات ایک کردیئے․․․․اللہ آمین سے پالی ہوئی ایک ہی تو اولاد تھی․․․․بے چین تو کرم داد بھی تھا․․․․بے بی ساب ٹھیک ہو جائیں․․․․کالج جائیں․․․․کسی پارٹی میں جائیں اور واپسی میں گزرے ہوئے لمحہ کو بھی ساتھ لے آئیں۔تب ممکن ہے اُ سکے بدن میں رات بے رات بجنے والی گھنٹیاں خاموش ہوکراُس دماغ اور اُس کے بدن کوسکون پہنچا سکیں۔
بیماری کے بعد والی کمزوری سے لڑتے بھڑتے اور ایک ہفتہ گزر گیا۔ایک دن جب وہ بے بی ساب کے بستر کے قریب دودھ کا گلاس لئے کھڑا تھا اور بیگم ساب خوشامدانہ اندازمیں بے بی ساب سے اصرار کئے جارہی تھیں کہ بیٹے ایک دو گھونٹ پی لو․․دواؤں کی حدت کچھ کم ہوگی اتنے دن ہوگئے دو چمچ سوپ کے سوا تم لیتی ہی کیا ہو۔ ․․․دودھ کے چند گھونٹ سے ذرا سی تو طاقت آئے گی۔ماں کے زور دینے پر․․․․پہلا گھونٹ ہی بھرا تھا ابکائی لگی․․․․گلاس واپس کرم داد کے ہاتھ میں تھمایا اور بستر سے اُٹھ کر باتھ روم کی طرف بھاگیں․․․․بیگم ساب پیچھے پیچھے تھیں۔
کل اسی وقت بستر کی چادر اور تکیہ کے غلاف بدلے گئے تھے۔ مگر چوبیس گھنٹے بے سدھ لیٹے رہنے سے تکیہ سے بستر تک بے بی ساب کے سراپے کی چھاپ پڑ گئی تھی۔کرم داد کا جی چاہا کہ وہ اسی بستر پر․․․․اس زاویئے سے لیٹ جائے کہ بے بی ساب کے بدن کی پر چھائیں پر وہ بالکل فِٹ آجائے․․․․اور بستر میں بسی ہوئی اُن کے بدن کی ساری بھبک اُس کے وجود میں سما جائے،اس طرح شاید آنکھوں کے ذریعہ سارے جسم میں پھیل جانے والی جلن میں کچھ کمی ہو۔ذرا سی ٹھنڈک ملے․․․․سکون مل جائے․․․․سینے میں بجنے والی گھنٹیاں بند ہو جائیں․․․․کھوئے ہوئے لمحہ کی لذت پلٹ آئے․․․․․پل بھر میں آنے والے خیالوں پر عمل تو ہو نہیں سکتا تھا․․․․لیکن بسترپہ نظر آنے والے ہیولے کو چُھو تو سکتا تھا․․․․جب اُس نے ہاتھ بڑھائے تو اُسی وقت دونوں ماں بیٹیاں باہر آگئیں، کرم داد نے اپنی خواہش کی پردہ پوشی یوں کی کہ بستر کی سلوٹیں درست کرنے لگا۔ دو تین برس پہلے دل میں اٹھنے والا طوفان تھم گیامگر اب یہ آندھی چلنے لگی کہ جب بستر پہ بے بی ساب کے بدن کی مُہر لگی ہواُس وقت وہ اپنے جسم کو توڑ مروڑ کراِس طرح لیٹ جائے کہ برسوں کی پیاس بجھ جائے۔اِ س خواہش کو پورا کرنے کے لئے اُس نے بڑے جتن کئے ․․․․بے بی ساب کے جاگنے سے پہلے تو اٹھ ہی جاتا تھا ․․․․انتظار کرتارہتا جوں ہی وہ اپنے کمرے سے نکلیں یہ جھاڑن لے کرپہنچ جائے․․․․مگر کبھی بستر ایسا نہیں ملا جس پر اُن کے سارے بدن کا نقش ابھرا ہوا ہو․․․․․․․․․․کرم داد سوچتا․․․․کیا بے بی ساب صوفے پر سونے لگی ہیں․․․․وہ صوفہ کو غور سے دیکھتا․․․․
کرم داد کی عمر کے ساتھ اُس کی تنخواہ بڑھادی گئی تھی جو ہر مہینے اب اُس کی ماں آکے لے جاتی تھی۔ اسے کسی چیز کی ضرورت ہی نہیں پڑتی تھی۔ جو گھر کے سب لوگ کھاتے وہی کھانے کو ملتا، جیسے سب کے کپڑے دھلتے اسی طرح اس کے بھی دھلتے تھے جس طرح وہ سب کے کپڑوں پر استری پھیرتا اسی طرح اپنے کپڑوں پر بھی․․․․ساب کے جو توں پر پالش کرنے کے بعد وہی برش اپنے جوتوں پر بھی مار لیتا تھا․․․․کوئی کمی اور کوئی فرق نہ ہونے کے باوجود․․․․ایک بیقراری․․․․ایک اضطراب․․․․خون کے ساتھ رگوں میں دوڑتا رہتا تھا․․․․وہ اُس خواہش کے ہاتھوں عاجز تھا جوکسی سانپ کی طرح اندر ہی اندر اسے ڈسے جا رہی تھی۔
ساب اور بیگم ساب کا بچھونا روز ٹھیک کرنا اس کے معمول میں شامل تھا مگر اُن کے بستر کی رُلی ملی سلوٹوں کی طرف اُس نے کبھی توجہ دی ہی نہیں۔ اُس کے بس میں نہیں تھا کہ وہ بے بی ساب کے اُٹھنے سے پہلے ہی اُن کے کمرے میں چلا جائے․․․․روشنی سے تراشا ہوا بدن چھونے کی ہمت تھی نہ قسمت اور نہ خواہش․․․․اُس کی تو ایک ہی تمنا تھی ،کسی د ن بدن کا سایہ دار بسترمل جائے اور وہ پل بھر وہاں لیٹ کرسستالے۔․․․․۔ایک پل سستانے کے لئے بعض اوقات تو وہ رات رات بھر جاگا تھا اور جاگتے میں عجیب عجیب سے خواب دیکھے تھے۔
ایک رات کرم داد کی آنکھ آپی آپ کھل گئی۔ اتنی رات گئے گھر کیسی آوازوں سے بھرا تھا․․․․وہ اُٹھ کے لاؤنج میں آیاتو بیگم ساب ڈاکٹر کو فون کرکے بلا رہی تھیں․․․اور بے بی ساب جن کے چہرے کا رنگ اُڑ ا ہوا تھا، اپنے رات کے لباس میں بیگم ساب کے پاس کھڑی تھیں۔’’ایمبولینس کے ساتھ پلیز آپ بھی آجائیے‘‘
اتناکہہ کر دو دونوں اپنے اپنے کمرے کی طرف لپکیں․․․․کرم داد کچھ سمجھا․․․․کچھ نہیں․․․․جب بے بی ساب لباس بدل کر آئیں اتنی ہی دیر میں دروازہ کی گھنٹی بجی۔۔۔
جب انجیکشن لگانے کے بعد ساب کو ایمبولنس میں لے جایا جارہا تھا بیگم ساب اور بے بی ساب بھی ساتھ بیٹھ کر چلی گئیں۔ چلتے وقت بیگم ساب نے کہا تھا: کرم داد ․․دعا کرنا․․ساب کو دل کا دورہ پڑا ہی
ایمبو لنس کے روانہ ہوتے ہی پاس کی مسجد سے اذان کی آواز آئی․․․․․اِ س آواز کے ساتھ ہی کرم داد کو بیگم ساب کا درد میں ڈوبا لہجہ یاد آیا۔ ساب کی خوبیاں یاد آئیں۔ وہ دعاکے لئے ہاتھ اُٹھانے والا ہی تھا کہ’ ٹھک‘ سے ایک خیال اُس کے ذہن میں آیا۔․․․․دعا کے لئے اُٹھے ہوئے ہاتھوں کے ساتھ وہ بے بی ساب کے کمرے کی طرف دوڑا․․․
کچی نیند سے اُٹھنے والی بے تر تیبی پورے کمرے میں پھیلی تھی․․․․․وہ دبے قدموں بے بی ساب کے بستر کے پاس پہنچا․․․․․وہاں اُن کے بدن کی خوشبو کے ساتھ ایک ہیولے کا عکس بھی موجود تھا۔وہ اتنی آہستگی اور اتنی احتیاط سے بستر پر لیٹا کہ اگر ذرا سی بھی بے احتیاطی ہوئی تو بے بی ساب جاگ اُٹھیں گی۔