گائی داموپساں، فرانسیسی شاعر و افسانہ نگار ۵؍اگست ۱۸۵۰ء کو پیدا ہوا۔ اُس کا دادا ایک متمول زمیندار تھا جس نے اپنی موت پر اپنے لڑکے یعنی موپساں کے باپ کے لیے کافی جائداد چھوڑی۔
موپساں نے روئن لیں کی درس گاہ میں تعلیم حاصل کی۔ وہ ابھی فلسفے کی ہی تعلیم حاصل کررہا تھا کہ اس نے اپنی پہلی کتاب اشعار کے ایک مجموعے کی صورت میں شائع کی۔
ایّامِ جوانی میں موپساں ادبی گفتگوؤں میں بہت کم حصہ لیا کرتا تھا۔ اگرچہ اس کے ملنے والے طرگنیف ، الفونسودادے اور زولا ایسے بلند پایہ ادیب و انشاپرداز تھے مگر یہ ملاقاتیں غالباً ادبی مشاغل کے سلسلے میں تھیں، اس لیے کہ ان اُدبا کی نظر میں موپساں اس وقت صرف ایک کھلاڑی کی حیثیت رکھتا تھا۔
ایک دوسرے مجموعۂ اشعار کی اشاعت کے کچھ سال بعد اُس نے ایک اخبار میں اپنے افسانے چھپوانے شروع کیے۔ اُس کے پہلے افسانے Boule de Suif نے ادبی دنیا پر یہ ظاہر کردیا ہے کہ وہ واقعی ایک کامیاب افسانہ نگار ہے اور اُس میں اس صنف سے متعلق تمام صلاحیتیں بدرجۂ اتم موجود ہیں۔ اس افسانے کے طبع ہونے پر عوام کے علاوہ اُس کے ہم عصر انشا پردازوں کے تعجب کی بھی کوئی انتہا نہ رہی جب اُنھوں نے اُن کاغذوں کے چند پُرزوں پر کسی پختہ افسانہ نگار کے معجز نما افکار جلوہ گر پائے۔۔۔۔۔ چند اور افسانوں کی اشاعت نے فرانس کے ہر اس ادبی حلقے کو جو مصنف کے انتخابِ مضمون سے متنفر تھا، یہ تسلیم کرنے پر مجبور کردیا کہ موپساں واقعی اپنے فن کا بہترین ماہر ہے۔
موپساں، شاید اپنے وقت کا بہترین مختصر افسانہ نویس ہے اور یہ حقیقت ہے کہ اُس کا پہلا افسانہ Boule de Suif فن کے لحاظ سے لاثانی ہے۔ اس کے علاوہ ہمارے پیشِ نظر ایسی کوئی مثال نہیں ہے کہ کسی مصنف نے اپنی ادبی سرگرمیوں کی ابتدا ایک فقیدالمثال شاہکار سے کی ہو۔۔۔۔۔ یہ بھی ایک دل چسپ حقیقت ہے کہ خود موپساں کی تصانیف میں ایسا کوئی افسانہ موجود نہیں ہے جو اس پہلی کاوش کا مدِ مقابل ٹھہرایا جاسکے۔
موپساں کی ادبی زندگی صرف دس سال کے قلیل عرصے تک جاری رہی۔ اس عرصے میں اس نے بے شمار افسانے اور نصف درجن ناول سپردِ قلم کیے جو ادبی دنیا میں کافی بلند مرتبہ رکھتے ہیں۔
موپساں کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ اس نے اپنی تصانیف میں Naturalism کو تباہ کردیا ہے اس لیے کہ وہ اسے حقیقت نگاری کی آخری حد تک لے جاتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ موپساں نے کبھی موجد ہونے کا دعویٰ نہیں کیا۔ وہ صرف انسان کی زندگی کو بعینہٖ اسی طرح بیان کرتا تھا جیسی اُس کی آنکھیں دیکھا کرتی تھیں۔ یہ دوسری بات ہے کہ دنیا کے لوگوں کے نزدیک اس کے مشاہدے کے نتائج بعض اوقات ناگوار ہوتے ہیں۔
بعض حضرات موپساں کو اس فن کے لحاظ سے روسی افسانہ نگار انتون چیخوف کا ثانی قرار دیتے ہیں۔۔۔۔۔ یہ ایک عظیم غلطی ہے۔ ان دونوں افسانہ نویسوں کے عمیق مطالعے کے بعد یہ امر روشن ہوجاتا ہے کہ اُن کی نفسیات میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔
موپساں کی نظر انسان میں حیوانی جذبات دیکھتی ہے اور چیخوف انسانیت کے عمیق ترین گڑھوں میں محبت اور امید کی تلاش کرتا ہے۔
بیشک چیخوف بھی موپساں کی طرح ایک مصور تھا اور اُس نے ہمارے سامنے وہی پیش کیا جس کا اس نے اپنے گرد و پیش مطالعہ کیا مگر ایسا کرتے وقت وہ ہمیشہ اُس زندہ چنگاری کی جستجو کیا کرتا تھا جو سرشتِ انسانی میں نہاں ہے۔۔۔۔۔ یہی وہ فرق ہے جو ان افسانہ نگاروں کے بظاہر یکساں فن میں پوشیدہ ہے۔
موپساں بھی اپنے استاد۱ ہی کی طرح ایک بڑا اہلِ طرز (Stylist) ہے۔ اس کی تصانیف کے مطالعے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ وہ ہر وقت موزوں لفظ کی جستجو میں رہتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اُس نے ہر مقام پر غیر ضروری الفاظ سے اجتناب کیا ہے۔
موپساں کے آرٹ کے متعلق اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ وہ نیکی کو بدی پر ترجیح نہیں دیتا، نہ وہ ایک کردار کو دوسرے کردار پر برتری بخشتا ہے، اور نہ وہ اپنی حکایت بیان کرتے وقت درمیان میں ٹھہرکر زندگی کے معانی پر بحث کرنا شروع کرتا ہے۔۔۔۔۔ دراصل اُس کا مقصدِ وحید اپنے مشاہدات بیان کرنا ہے۔ اُس کی طرزِ نگارش بہت سادہ مگر پُرمعنی ہے۔ وہ پھیکے سے پھیکا لفظ بھی استعمال میں لے آئے گا اگر وہ اُس کی تصویر میں صحیح نقش کا کام دے سکتا ہے۔
موپساں کی آخری تصانیف میں یک لخت ایک غیرمعمولی تغیر رونما ہوا، یعنی اس کے افکار میں پُراز الم زندگی سے جذبۂ ہمدردی کا اظہار جھلک دکھانے لگا۔ یہ ہمدردی ہمیں اس کے اکثر افسانوں میں بھی نظر آتی ہے جو اُس نے ۱۸۹۰ء میں قلم بند کیے۔
La vie Errante کی اشاعت کے بعد جو سیاحت سے متعلقہ تحریروں پر مشتمل ہے، موپساں کی ادبی سرگرمیوں کا خاتمہ ہوگیا۔ ادب سے کنارہ کش ہوکر وہ مذہب میں دل چسپی لینے لگا، مگر اس عرصے تک اس کے اعصاب، شراب کی کثرتِ استعمال اور جسمانی بے اعتدالیوں کی وجہ سے بالکل خراب ہوچکے تھے۔ چناں چہ تھوڑے عرصے کے بعد ہی وہ فالج ایسے مہلک مرض کا شکار ہوا۔ اس مرض کی غیر معمولی تکلیف سے تنگ آکر اس نے جنوری ۱۸۹۲ء میں خودکشی کا اقدام کیا مگر وہ بچ گیا۔ آخر وہ ۶؍جولائی ۱۸۹۳ء کو پیرس میں اس جہاں سے رخصت ہوگیا۔۔۔۔۔ کہا جاتا ہے کہ اس نے اپنے آخری ایّام بہت تکلیف میں گزارے۔
موپساں، انگریزی افسانہ نگاروں ایڈ گرایلن پو اور اوہنری کی طرح مختصر نویسی کا امام تسلیم کیا جاتا ہے، مگر یہ حقیقت ہے کہ موپساں کا درجہ ان باکمال افسانہ نگاروں سے بھی بلند ہے۔ یہ فوقیت اُسے اپنے انتخابِ مضامین کے وسیع تنوّع کی وجہ سے حاصل ہے۔۔۔۔۔ موپساں نے ’مافوق الفطرت افسانہ نگاری‘ کی مشکل صنف میں بھی ایلن پو کی طرح نہایت کامیابی سے طبع آزمائی کی ہے۔
اگر موپساں کچھ دیر اور زندہ رہتا تو یقین تھا کہ وہ اپنی موجودہ تصانیف سے کہیں زیادہ اہم تحریریں چھوڑتا کیوں کہ آخری ایام میں وہ اپنے نظریے کو بالکل بدل چکا تھا۔ بہرحال ادب سے دل چسپی لینے والے حضرات اب بھی اس جواں افکار افسانہ نویس کی ادبی خدمات کے معترف ہیں۔
روس کے شہرۂ آفاق انشاپرداز و تمثیل نگار کاؤنٹ لیو طالسطائی نے موپساں کے افسانوں کے روسی تراجم کا تعارف لکھا جس میں اس روسی مفکر نے موپساں کی تحریروں پر ایک عالمانہ تنقید کی ہے۔ اس تعارف کے چند اقتباسات نقل کرنے سے پیشتر ہم مناسب خیال کرتے ہیں کہ طالسطائی کے مشہور نظریۂ صنعت کے متعلق کچھ بیان کیا جائے۔
طالسطائی کی نظر میں صرف وہی دماغی تخلیق آرٹ ہوسکتی ہے جو متعدی (Infectious) ہو، یعنی وہ اپنے خالق کے احساسات دوسرے دماغ پر منتقل کرسکے۔ اس طرح وہ ہر اس پارۂ صنعت کو آرٹ تسلیم کرنے سے یکسر منکر ہے جو ناقابلِ فہم ہو۔ ہم یہاں خو دطالسطائی کے الفاظ درج کرتے ہیں:
’’اپنے احساسات کو کسی دوسرے شخص کے دل و دماغ میں حرکات، نقوش، آواز کے زیر و بم، الفاظ یا رنگوں کے ذریعے سے اس طرح پیدا کرنا کہ اس پر وہی حالت طاری ہو۔۔۔۔۔ یہ ہے آرٹ کی خاصیت‘‘۔
’’آرٹ یہ ہے کہ کوئی شخص ارادتاً بیرونی اشارات کے ذریعے سے اپنے احساسات دوسرے دماغ پر نہایت کامیابی سے منتقل کرے اور معمول عامل کے ان احساسات سے پوری طرح متاثر ہو‘‘۔
طالسطائی آرٹ کو حسن کاری، خوب صورت اشیا کا پیدا کرنا، ایک کھیل یا ذریعۂ مسرت نہیں مانتا۔ وہ آرٹ کو ایک ذریعۂ اتحاد کہتا ہے جو انسان کو انسان کے ساتھ احساسات کی ایک ہی لڑی میں منسلک کردے۔۔۔۔۔ ارسطو، افلاطون، سقراط اور دیگر حکمائے یونان کا بھی کسی حد تک آرٹ کے متعلق یہی نظریہ رہا ہے، مگر وہ اسے صرف مذہبی تعلیم کا ذریعہ خیال کرتے ہیں۔
طرگنیف۲ طالسطائی کو موپساں کے افسانوں کا ایک مجموعہ دے کر اس سے سفارش کرتا ہے کہ وہ اس نوجوان فرانسیسی افسانہ نگار کے افکار کا ضرور مطالعہ کرے۔ اس کے علاوہ طرگنیف، طالسطائی کو موپساں کے متعلق چند ایسی باتیں بھی کہتا ہے جو اُس کے لیے بہت تعجب خیز ہوتی ہیں۔
طالسطائی تعارف میں لکھتا ہے:
’’چوں کہ میں اس زمانے میں جب طرگنیف نے مجھ سے موپساں کی ایک تصنیف کا مطالعہ کرنے کے لیے کہا، اپنا نظریۂ حیات۳ بالکل تبدیل کررہا تھا۔ اس لیے میرے لیے ایسی کتابوں کا مطالعہ کرنا جن کے متعلق خود طرگنیف کے الفاظ بہت عجیب سے تھے، بہت مشکل تھا مگر چوں کہ مجھے طرگنیف کو ناراض کرنا مقصود نہ تھا اس لیے میں نے اُس کتاب کا بغور مطالعہ کیا۔
اس مجموعے کی پہلی کہانی La Maison Tellier کا نفسِ مضمون فی الواقع بہت عامیانہ اور بازاری تھا مگر اس کے باوجود میں مصنف کی قابلیت کا معترف ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔
وہ واقعی ایک قدرتی عطیے کا، جسے ہم قابلیت کے نام سے پکارتے ہیں، مالک تھا۔ مگر بدقسمتی سے میں اس قابلیت میں وہ امر جو اُن تین اصولوں میں (جو آرٹ کے لیے لازم و ملز وم ہیں) سب سے زیادہ اہم ہے، نہ پاسکا۔
(۱) ایک صحیح یعنی اخلاقی رشتہ مصنف کا اپنے مضمون کے ساتھ
(۲) اظہار کی وضاحت یا حسنِ تشکیل
(۳) خلوص، یعنی اپنے مضمون سے صناع کا پورا اخلاص
ان تین چیزوں میں سے موپساں صرف آخری دو کا بڑی حد تک مالک ہے مگر اس کے افکار میں سب سے ضروری امر کا فقدان ہے یعنی اس کا رشتہ اپنے انتخاب کردہ مضامین کے ساتھ اخلاقی طور پر بالکل غیر درست ہے‘‘۔
’’میں اُس کی کتاب کے مطالعے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ وہ اپنے مشاہدات کو، جو دوسرے لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ ہیں، بیان کرنے کی پوری اہلیت رکھتا ہے۔ وہ ایک خوب صورت طرزِ نگارش کا مالک ہے۔ جو کچھ وہ کہنا چاہتا تھا بہت وضاحت سے بیان کرتا ہے۔ اس کے افکار میں وہ تعدیہ (Infection) بدرجۂ اتم موجود ہے جس کے بغیر آرٹ آرٹ نہیں ہوسکتا۔ مگر ان امور کے باوجود بدقسمتی سے وہ اُس ضروری عنصر سے بالکل محروم ہے جس کے بغیر آرٹ ہرگز بلند مرتبہ نہیں ہوسکتا۔ یعنی اس کی تحریروں میں اخلاقی رشتہ بالکل مفقود تھا۔۔۔۔۔ دیگر الفاظ میں وہ نیکی اور بدی میں تمیز کرنے سے قاصر ہے۔ وہ اُن باتوں کو بیان کرنا پسند کرتا ہے جو اُسے پسند نہ کرنی چاہیے تھیں اور نہ ان کے بیان کرنے کی کوشش کرنی چاہیے تھی۔
چناں چہ بدقسمتی سے مصنف نے اس زیرِ نظر کتاب میں بڑے شوق و محبت سے بیان کیا ہے کہ کس طرح عورتیں مردوں کو دامِ گناہ میں گرفتار کرنے کی کوشش کرتی ہیں اور کس طرح مرد عورتوں کو اپنی نفسانی خواہشات کی تکمیل کے لیے رغبت دلاتے ہیں اور وہ ملک کے مزدور پیشہ لوگوں کو نہ صرف حقارت کی نظر سے دیکھتا ہے بلکہ اُن کو حیوانوں سے بدتر پیش کرتا ہے۔ زندگی کے صحیح نظریے کا فقدان، مزدور پیشہ لوگوں کی دل چسپیوں سے تغافل اور ان کی بھدّی تصویر کشی، وہ بڑا بھاری نقص ہے جو فرانس کے اکثر انشاپردازوں کے افکار میں موجود ہے۔ان میں موپساں بھی شامل ہے جو نہ صرف پیشِ نظر افسانوں میں بلکہ ہر اس مقام پر جہاں وہ عوام کے متعلق کچھ تحریر کرتا ہے، ان لوگوں کو ہمیشہ وحشی اور بھدّے حیوان دکھاتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ فرانسیسی مصنف اپنی قوم کو مجھ سے بہتر سمجھتے ہیں مگر اس حقیقت کے باوجود کہ فرانسیسی کاشتکاروں کے درمیان بود و باش کا موقع نہیں ملا، میں یہ ہر گز تسلیم نہیں کرسکتا کہ وہ لوگ واقعی ایسے کردار کے مالک ہیں جیساکہ یہ مصنف ہمیں بتاتے ہیں۔
اگر فرانس، جس نے اتنی نادر شخصیتیں پیدا کی ہیں، جس نے آرٹ، ادب، سائنس اور انسان کی اخلاقی ترقی کے لیے اتنی خدمات انجام دی ہیں، اب بھی وہی فرانس ہے تو وہ مزدوری پیشہ جماعت جس کے کاندھوں پر فرانس قائم رہا ہے، کبھی وحشی اور حیوان اور روحانیت سے عاری نہیں ہوسکتی۔ چناں چہ میں موپساں اور اسی قسم کے دیگر مصنّفوں کی بیان کردہ کہانیوں کو قابلِ اعتبار نہیں سمجھ سکتا۔ میری نظر میں انشاپرداز، موپساں کی طرح صرف عورتوں کی گردنوں اور کولھوں کی تعریف میں رطب اللسان ہیں اور جو مزدوری پیشہ لوگوں کی زندگی کو تمسخر آمیز لہجے میں بیان کرتے ہیں ایک عظیم صناعانہ (Artistic) غلطی کے مرتکب ہیں، اس لیے کہ وہ صرف جسمانی امور کو لے کر باقی تمام ضروری چیزوں کو نظرانداز کردیتے ہیں۔ موپساں کا خیال ہے کہ اخلاق و بداخلاقی اور نیکی و بدی میں تمیز کرنا کسی آرٹسٹ کا کام نہیں‘‘۔
’’مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ ایک کامیاب مصور نے مجھے اپنی تیار کردہ تصویر دکھائی جس میں ایک مذہبی جلوس دکھایا گیا تھا۔ یہ تصویر فن کے لحاظ سے بہت خوب صورت تھی مگر اس میں بھی صناع کا مضمون سے رشتہ مفقود تھا۔ میں نے اُس سے دریافت کیا کہ ’تم مذہبی رسوم کو اچھا سمجھتے ہو، کیا ایسے جلوس نکلنے چاہئیں‘؟
میرے اس متحیر کن جواب پر وہ صرف اس قدر کہہ سکا کہ میں اس کے متعلق کچھ نہیں جانتا اور نہ میں جاننا چاہتا ہوں۔ میرا کام مشاہدے کی تصویر کشی ہے۔
میں نے اُس سے پھر سوال کیا: مگر کم از کم تمھیں یہ جلوس پسند تو ہوں گے؟
میں اس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔
تو پھر تمھیں یہ رسوم ناپسند ہوں گی۔
’یہ بھی مجھے معلوم نہیں‘۔ یہ تھا وہ جواب جو اُس کامیاب و بہترین فن کار مصور نے مجھے دیا۔۔۔۔۔ مصور جو زندگی کی تصویر کشی تو کرتا ہے مگر اُسے یہ بھی معلوم نہیں کہ وہ، مضمون سے جس پر طبع آزمائی کررہا ہے، نفرت کرتا ہے یا محبت۔
بدقسمتی سے موپساں بھی اسی تاریکی میں تھا اور بدقسمتی سے اُس کے گرد و پیش کا ماحول ہی کچھ اس قسم کا تھا کہ آرٹ کی خدمت صرف حسن کاری تصور کی جاتی تھی۔۔۔۔۔ عورت کا حسن، جو نوجوان اور شکیل ہو، خاص کر برہنہ ہو اور پھر اُس کے ساتھ مرد کا شہوانی تعلق‘‘۔
’’یہ غلط نظریہ نہ صرف موپساں اور اُس کے ہم عصر انشا پردازوں کے پیش نظر تھا بلکہ اُس وقت کے فلسفہ داں۴ حضرات یعنی ملک کی نوجوان نسل کے استاد بھی اسی غلط فہمی میں مبتلا تھے‘‘۔
’’مگر موپساں فنی مہارت کا مالک تھا یا وہ اپنے مشاہدات بیان کرتے وقت بلاارادہ حق کو نظر انداز کردیتا تھا۔ دراصل وہ بلا ارادہ ہر اُس چیز میں جس میں وہ نیکی کی جستجو کرتا، بدی دیکھ کر بیان کردیتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم اسے اُس کی تمام تصانیف میں بجز ایک ناول کے صحیح راستے سے بھٹکا ہوا دیکھتے ہیں۔۔۔۔۔ اگر کسی جگہ وہ برائی کو برائی اور نیکی کو نیکی تسلیم کرتا ہے تو دوسرے مقام پر وہ بدی کو نیکی قرار دیتا ہے۔۔۔۔۔ یہی وہ چیز ہے جو کسی فنی تخلیق کی صحیح بنیادیں تباہ کردیتی ہے، وہ بنیادیں جن پر آرٹ کی استواری کا انحصار ہے‘‘۔
’’موپساں نے اپنے دو ناولوں میں رشتۂ حیات کو صحیح طور پر بیان کرنے کی کامیاب سعی کی ہے مگر جونہی وہ مندرجہ بالا فیشن ایبل نظریہ کی طرف پلٹا تو یہ خیال کرتے ہی کہ صناع کا کام صرف حسین اشیا کی تخلیق یعنی حسن کاری ہی ہے، اُس کے افسانے آرٹ کے دائرے سے باہر ہوگئے‘‘۔
’’خوش قسمتی سے موپساں نے چند ایسے افسانے لکھے ہیں جن میں وہ اِس غلط نظریے پر کاربند نہیں رہا۔ انھی چند افسانوں میں ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ احساسِ اخلاق کی چنگاری اس مصنف کے دل میں پیدا ہوچکی تھی‘‘۔
’’اگر موپساں کی عمر نے وفا کی ہوتی تو یقیناًہمیں اُس سے آرٹ کی صحیح خدمت کی توقع تھی‘‘۔
حواشی:
۱ فلابرٹ (Flaubert) ۔
۲ طالسطائی کا ہم عصر افسانہ نگار۔
۳ طالسطائی نے اس وقت آرٹ کی سرگرمیوں سے بالکل علاحدہ ہوجانے کا اعلان کردیا تھا۔ دیکھو Contemporary Russian Literature از پرنس ڈی. ایس. مرسکی۔
۴ یہ اشارہ فرانس کے مشہور فلسفی Renan کی طرف ہے۔