مٹی اپنی ذات میں کتنی خوبصورت تھی۔ بارش کی پہلی بوند پر ہی مہکی مہکی اِتراتی پھرتی تھی۔ ہوا ذرا سی تیز ہو جائے تو اِٹھلا اِٹھلا کر اُڑتی پھرتی۔۔۔ جمع کر لو تو برتن، بانڈے ، جو مرضی بنا لو اور جب نقش و نگار کا سنگھار بھی کر دو تو یہی مٹی انمول اور بے دام ہو جاتی ہے اور جب رب اِسے گوندھ کر اِنسان بنا دے تو ایک بھی دوسرے سے نہ ملے۔۔۔ یہ مٹی اپنی ذات میں جتنی خوبصورت تھی اِتنی ہی عجیب تھی۔ ہر رنگ میں ایک پہیلی تھی۔۔۔
مٹی کا سفر ہر طرف تھا، ہر جانب، ہر سمت۔۔۔ جدھر دیکھو ہر طرف مٹی ہی مٹی تھی۔ شہروں شہروں ، ملکوں ملکوں اُڑتی پھرتی تھی۔۔۔ ہر روپ میں سفر کرتی تھی اپنی منزل کی طرف اور پاک بھی اِتنی کہ پانی نہ ملے تو وضو بھی اِسی سے کر لو۔ یہ سارا فلسفہ میری بی بی جی کا تھا جو اصل میں میری دادی جان تھیں۔
میرے بابا جو اُن کے اکلوتے بیٹے بھی تھے اور دراصل ان دونوں میں ایک دوسرے کی جان بھی بند تھی۔ لہٰذا ہمیں دِن رات اپنی بی بی جی کی عادت سی تھی۔
اُن کی باتیں۔۔۔
اُن کی کہانیاں۔۔۔
بابا فریدؒ کی کافیاں۔۔۔
بابا بلھے شاہؒ کا کلام ایسے سناتیں کہ دِل میں اُترتا سا لگتا تھا۔ بی بی جی کو یہ سب کیوں آتا تھا، کہاں سے سیکھتی تھیں ، ہمیں کچھ پتہ نہ چلتا۔۔۔ ان کی ذات کا سفر کچھ اِتنا کشفی سا تھا میں اور عبد اللہ ، جو مجھ سے صرف دو سال چھوٹا تھا ، ہمیشہ ان کے گرد ہی رہا کرتے تھے اور ہمارے گھر میں ہماری اکلوتی پھوپھو مدیحہ بھی رہتی تھیں جو ہماری دوست زیادہ اور پھوپھو کم لگتی تھیں۔ پھوپھو یونیورسٹی میں ہسٹری میں ماسٹر کر رہی تھیں اور ہاں امی جی جو ہم سب کے ساتھ دوستوں کی طرح رہتی تھیں ، ہمیں کبھی لگا ہی نہیں کہ کوئی ایک دوسرے کے بغیر رہ سکتا ہے۔ خوشی ، امن ، پیار ہمارے چھوٹے سے گھر کی پہچان تھی۔۔۔ وہ ہمیشہ کہتیں ’’کاش تعلیم عام ہو جائے۔ ‘‘اور میں ہمیشہ کہتی ’ بی بی جی ہم سب ا سکول جاتے ہیں۔‘
’’نہیں پُتر میں تو گاؤں کی بات کر رہی ہوں۔ ہمارے زمانے کی بات اور تھی اب تو بغیر پڑھے لکھے آپ زندہ نہیں رہ سکتے۔ دنیا کا مقابلہ کیسے کریں گے۔ ‘‘ اور وہ ہمیشہ اپنی حرماں نصیبی کا اختتام ایسے کرتیں کہ’’ لڑکیوں کو پڑھا لکھا ہونا چاہیے۔ اگر اِس دنیا کو ڈاکٹر، انجینئر، سائنسدان چاہئیں تو ماؤں کو پڑھا لکھا ہونا پڑے گا۔۔۔‘‘
’’لیکن بابا تو بہت پڑھے لکھے ہیں اور آپ؟ ‘‘ عبداللہ کو کون چپ کراتا۔
’’ہاں بیٹا! تمہارے بابا بہت ذہین ہیں ، اُنہوں نے اَن پڑھ ماں کی لاج رکھ لی بیٹے ! شکر رب کا۔۔۔ اُس نے مجھے اس کی ماں ہونے کا اعزاز دِیا۔ ‘‘ان کے خوبصورت بوڑھے ، دِلکش چہرے پر نمی سی اُترنے لگتی۔ اُنہیں اپنے ان پڑھ ہونے کا قلق دِن رات رہتا اور اسی لیے دِن رات توجہ سے وہ ہم تینوں کو سمجھاتی رہتی کہ ’انسان ان پڑھ بے شک ہو پر جاہل نہ ہو۔‘
’’بھئی بی بی جی اب اس قصے میں اِس بات کا کیا تعلق؟‘‘ مدیحہ پھوپھو جو کب سے اپنی کتابوں سے مغز ماری کر رہی ہوتی تھیں ، جھلّا جاتیں۔
’’ارے پگلی ہوئی ہو۔۔۔ ‘‘ بی بی جی انہیں گھُرکتیں۔
’’جاہل ہمیشہ جھگڑے کرتے ہیں ، انہیں سمجھ تو ہوتی نہیں ہے اور نہ ہی تعلیم اور نہ ہی کوشش کرتے ہیں۔ سو وہ کانوں کے بھی کچے ہوتے ہیں۔بھروسہ بھی کرتے ہیں تو اپنے ہی جیسوں کا۔ تو جاہل تو خسارے میں رہا ناں !! ‘‘ وہ ہلکی سی چپت مدیحہ پھوپھو کے سر پر مار کر اپنے کمرے کی طرف چلی جاتیں۔
’’بی بی جی اگر پڑھی لکھی ہوتیں نہ تو قسم سے خلیل جبران تک کے فلسفے کو چیلنج کر دیتیں۔‘‘
’’خیر کر تو وہ ابھی بھی سکتی ہیں۔ بس ذرا انہیں کتابیں سنانے کی دیر ہے۔‘‘
’’بھئی میں تو چلا۔۔۔ عبد اللہ کو پڑھنے میں دلچسپی اتنی سی تھی جتنی اچھے نمبروں کے لئے ضروری ہوتی ہے اور میرا تعلق بھی اسی طرح کے قبیلے سے تھا۔۔۔ ہاں انہیں پڑھ کر سنا تا کون تھا۔ یہ تھیں ہماری امی جی۔۔۔ جو اُنہیں قرآن پاک سے لے کر بابا فریدؒ کی کافیاں تک سنایا کرتی تھیں۔ جنہیں بی بی جی بڑی محبت سے یاد کرتی رہتیں۔ شکر خدا کا ، امی جی کو خلیل جبران کے فلسفے میں کوئی دلچسپی نہ تھی لیکن یہ سچ تھا کہ بی بی جی کا فلسفہ سارے فلسفوں سے انمول تھا۔ اب بھلا امن کا خوشی سے اور خوشی کا پیار سے جو تعلق تھا ، اس کا تمام تر سہرہ تعلیم کو دیتی تھیں۔ تعلیم بھی ایسی جو جاہل نہ بنا دے اور پھر ان جاہلوں کو ان پڑھ سے کم تر ہونے کا اِدراک صرف بی بی جی کو ہوا کرتا تھا۔ اگر علم کو صرف کتابی علم سے دور رکھ دیا جائے تو میری بی بی جی سب سے زیادہ پڑھی لکھی تھیں۔
اُنہیں اَن پڑھ اور جاہل کا فرق پتہ تھا۔۔۔
انہیں مٹی کے سفر کا اِدراک تھا۔۔۔
اُنہوں نے ہر قدم پر کچھ سیکھنے کا فیصلہ کر رکھا تھا۔
اور پھر ہمارے بزرگ ہمارے رول ماڈلز ہی تو ہوا کرتے ہیں۔۔۔
اندر ہی اندر میں بھی بی بی جی کی ہی طرح سوچنے لگی تھی یا پھر کوشش کرتی رہتی تھی۔ ہمارے چار کمروں کے اس گھر میں بی بی جی کا کمرہ ہمارے ساتھ والا ہی تھا۔ اس طرح سے بابا نے یہ گھر بنایا تھا کہ بیچ میں دروازہ ہونے کی وجہ سے ان کا اور ہمارا کمرہ ایک بڑا سا کمرہ لگتا تھا۔ عبد اللہ کا کمرہ اس کے ساتھ والا تھا۔ تینوں کمروں کے سامنے ڈرائینگ ، ڈائیننگ کے ساتھ امی بابا کا کمرہ اور بیچ میں کچن اور بڑا سا ہال نما کمرہ جسے ہم T.Vلاؤنج کی طرح استعمال کرتے تھے۔ گرمی ہوتی یا سردی، صبح فجر کی نماز بابا ، بی بی جی کے ساتھ ہی پڑھا کرتے تھے۔ سالوں کا معمول تھا۔ بابا اُٹھتے ، پانی گرم کرتے ، ہلکے سے بی بی جی کو اُٹھاتے ، ان کے واش روم جانے کا اہتمام کرتے ، وضو کراتے ، جائے نماز بچھاتے ، دونوں ماں بیٹا اِکٹھے نماز پڑھتے۔ دعائیں مانگتے۔ پھر بابا ان کے لئے چائے بناتے اور وہ دونوں اِکٹھے چائے پیتے اور باتیں کرتے جاتے۔ بی بی جی با آواز بلند دعائیں دیتے ہوئے انہیں کام کے لئے رخصت کر دیتیں۔ کبھی کبھی امی بھی ان کے ساتھ شریک ہو جاتیں۔ لیکن ایسا کم ہوتا تھا۔
لوگوں کو بڑا حیران کن لگتا تھا۔ لیکن ہم سب کو دیکھنے کی عادت سی تھی۔
ہم سب کو دعاؤں کے ساتھ باری باری رخصت کرتیں ، پھر امی جی کے ساتھ گھر کے کاموں میں ان کا ہاتھ بٹاتیں۔ واپسی پر ہم سب کو بھی تلقین کرتیں کہ’ کام سب کو پیارا ہوتا ہے نہ کہ خوبصورتی۔‘ جب بھی وہ مجھے یا پھوپھو کو کبھی ہار سنگھار کرتے دیکھ لیتیں یا کپڑوں کی ٹرائیاں مارتے ہوئے پکڑ لیتیں تو پھر سارا دن ان کی نصیحتوں کی نذر ہو جاتا۔
مدیحہ پھوپھو اکثر کہتیں کہ’ آخر آپ اس قدر سیریس کیوں رہتی ہیں۔ ‘
’’ارے ! تم نے زندگی کو عیش سمجھ لیا ہے۔ پوچھو ان سے جنہیں دو وقت کی روٹی بھی نصیب نہیں ہے اور تم لوگ کپڑے اس طرح پھینک رہی ہو جیسے کوئی بات ہی نہ ہو۔ ابھی پچھلے مہینے ہی تو لیئے تھے۔ ‘‘ وہ دوبارہ سارے کپڑے تہہ کرتی جاتیں اور ہمیں سمجھاتی جاتیں۔
’’دیکھو تمہارے بابا کتنی محنت سے کماتے ہیں۔ ایک اکیلا وہ اور ہم کھانے والے کتنے۔۔۔ ذرا خیال کیا کرو۔ پیسوں کو صحیح طریقے سے خرچ کرنا بھی ایک طرح سے مدد ہے۔ جانے تم کب سمجھو گی۔ ‘‘
’’بی بی جی پلیز۔۔۔ ‘‘ مدیحہ پھوپھو میدان چھوڑ کر جا چکی تھیں۔
اور میں بس کپڑے ہی سمیٹتی رہ گئی۔ لیکن تھوڑے سے وقت کے بعد ہی وہ نارمل ہو جاتیں۔ سہیلیوں کی طرح بیٹھ کر ہر موضوع پر رائے دے رہی ہوتیں۔ امی جی دھیرے دھیرے مسکراتی رہتیں۔ ان کی بھی تو بی بی جی کل کائنات تھی۔ اکلوتی تھیں۔ ایک حادثے میں نانا نانی فوت ہو گئے تھے۔ خالاؤں نے پالا تھا۔ سولہ سال کی عمر میں بی بی جی اُنہیں بہو بنا لائی تھیں۔ سو بی بی جی تو ان کی بھی ماں تھیں اور بابا کی بھی اور ہم سب کی بڑی ماں تھیں۔۔۔ ماں بھی ایسی کہ جو صندوق کی طرح ہوتی ہے۔ جس میں رنگ برنگے سارے رنگوں کے کپڑے ہوتے ہیں۔ جو ہر خوشی اور غمی پر چھا جاتے ہیں۔ انہیں سنبھالنے اور چھپانے کا ہنر آتا ہے۔
یا پھر ماں ایک ایسی البم کی طرح ہوتی ہے۔ جسے جدھر، جہاں سے پلٹو، وہیں ایک لمحہ پڑا مل جاتا ہے۔ ان کی آنکھوں میں ، دل میں لمحے ایسے قید ہوتے ہیں جیسے تصویریں۔۔۔
تمہارے بابا جب پیدا ہوئے تو وہ ایسے تھے۔۔۔
اور جب مدیحہ ہوئی تو ایسی تھی۔۔۔
کب گردن اُٹھا کر ان کو دیکھا۔ کب بیٹھنا شروع کیا۔۔۔
کس دن اور تاریخ کو ان کو بی بی جی کہہ کر بلایا۔۔۔
کب چلنا شروع کیا۔۔۔
کب ا سکول کا پہلا دِن تھا۔۔۔ کب کالج یونیورسٹی گئے۔۔۔ کب ان کی زندگی ویران ہو گئی تھی اور کب انہوں نے جینا سیکھا تھا، کب امی جی دلہن بن کر آئیں۔ پھر میں اور عبد اللہ۔۔۔ ان کے پاس سارے لمحے آباد اور موجود ملتے تھے۔بس وہ ایک صندوق کی طرح تھیں یا پھر کوئی پرانی البم۔۔۔ جس میں بلیک اینڈ وائٹ کے ساتھ کلر تصویریں بھی ہوتی ہیں۔ مدیحہ پھوپھو کو ان باتوں سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ وہ ان باتوں کو درمیان میں ہی چھوڑ کر اُٹھ جایا کرتی تھیں۔
’’بی بی جی آپ کے پاس تو وقت ہی وقت ہے لیکن میرے پاس نہیں۔ میں تو چلی پڑھنے۔۔۔ ‘‘
’’ہاں بیٹے ضرور پڑھ۔ میں اور کیا کروں۔ پتہ ہے جب تو نے پہلی بار ’ا، ب‘ لکھا تھا تو تجھے ’ج‘ لکھنی نہیں آتی تھی۔‘‘
’’تب تو آپ نے مجھے ضرور مارا ہو گا۔ ‘‘ مدیحہ پھوپھو کتابیں اُٹھا کر باہر کی طرف نکل گئیں۔۔۔ بغیر بی بی جی کا جواب سُنے۔
’’ارے بھئی سُنو تو۔۔۔ ‘‘
’’مجھے سنا دیجئے۔۔۔‘‘ میں ان کے پاس ہی بیٹھ گئی اور اپنا سر ان کے کندھوں پر ڈال دِیا۔
اُنہوں نے دلار سے میرے ماتھے پر پیار کیا۔
’’بیٹی اپنی ماں سے پوچھو ، تم کیا تھیں اور کیسے اِتنی بڑی ہو گئیں۔۔۔ ماں ہی کو پتہ ہوتا ہے۔ جانے کیسے وہ ساری تاریخیں یاد کر لیتی ہے۔ یہ سارے خزانے تو ماں کے پاس ہوتے ہیں ، تحفے کی طرح، جتنے چاہے بٹور لو۔۔۔ تمہیں امیر ہونا ہے تو ماں سے باتیں کیا کرو۔ اس سے پوچھو وہ باتیں جو تمہیں پتہ بھی نہیں اور یاد بھی نہیں۔۔۔ ‘‘
’’اونہوں۔۔۔ ‘‘ میں نے ان کی گود میں ہی آنکھیں موند لیں۔ بھلا امیری کا ماں کی باتوں سے کیا تعلق تھا۔شاید مجھے اپنی ماں ایسی ہی لگتی تھی جیسے مدیحہ پھوپھو کو اپنی ماں۔ غیر اہم سی۔۔۔ عام سی عورت۔
لیکن کچھ دِنوں سے کچھ عجیب ہو رہا تھا۔ بی بی جی اکثر چیزیں رکھ کر بھولنے لگی تھیں۔ ہم سب ان کی عمر کو وجہ بتلا رہے تھے اور امی جی شاید ایک بار پھر ایک اچھے رشتے اور مدیحہ پھوپھو کے انکار کو وجہ بتا رہی تھیں۔ ڈپریشن اور Stressبھی وجہِ بحث رہا۔۔۔ ہر شخص نے مدیحہ پھوپھو کو وجہ جان کر خوب ہی لتاڑا۔
’’بھئی یا تو مجھ سے پوچھا نہ جائے اور ہاں کر دی جائے اور اگر آپ واقعی مجھ سے پوچھتے ہیں تو پھر جو مجھے اچھا لگے گا اور صحیح ہو گا وہی بتاؤں گی۔۔۔‘‘
بی بی جی نے ان کے سر پر ہاتھ رکھا۔ دونوں ہاتھوں سے دوپٹہ ان کے شانوں پر پھیلا دِیا اور ماتھے پر پیار کرتے ہوئے اپنے کمرے کی طرف چلی گئیں۔ مدیحہ پھوپھو نے ان کی آنکھوں میں اُترتی نمی سے آنکھیں چرانے کی کامیاب کوشش کی تھی۔ دیر تک ناخنوں سے کھیلتی رہیں۔۔۔ امی جی تڑپ کر بی بی جی کے پیچھے لپکیں۔
’’بی بی جی بچی ہے۔ مان جائے گی۔
سُنیں تو۔۔۔
پلیز سمجھئے نا!
یہ زمانہ اور ہے۔۔۔
دیکھئے گزارا تو اس نے کرنا ہے۔۔۔ پھر مذہب اور قانون نے بھی تو اجازت دے رکھی ہے۔۔۔ ‘‘ امی ان کے قدموں میں بیٹھی ہوئی ان کے ہاتھ سہلا رہی تھیں۔ وہ اپنی کرسی پر بیٹھی ساکت انہیں سن رہی تھیں۔ ایک دفعہ بھی آنکھ نہ اُٹھائی تھی۔
’’بی بی جی۔۔۔ !! میں مدیحہ سے بات کروں گی۔ ‘‘ امی جی کی آواز میں اُمید کے جگنو چمک رہے تھے۔ بی بی جی نے انہیں ایسے دیکھا جیسے وہ ان کی بات نہ تو سمجھ رہی ہیں اور نہ جان رہی ہیں۔ اِتنی اجنبیت، اِتنی حیرانگی، اِتنی ویرانی۔۔۔ وحشت۔۔۔ کیا کچھ نہ تھا ان کی نظروں میں۔ امی جی نے اُنہیں زور زور سے ہلایا۔
’’بی بی جی۔۔۔‘‘
’’ہاں آں۔۔۔ کیا کہا بیٹی تم نے۔۔۔ ‘‘ بی بی جی ایسے چونکیں جیسے کسی خواب سے واپسی ہوئی ہو۔
’’آپ ٹھیک تو ہیں نا بی بی جی۔ ان کی آنکھوں میں اجنبیت ابھی تک امی جی کے لئے حیرت کا باعث تھی۔
’’ہاں۔ کیا ہوا۔۔۔ ‘‘ اُنہوں نے ایسے کہا جیسے ابھی کچھ دیر پہلے کچھ نہیں ہوا تھا۔ امی جی گھبرا کر بابا کے پاس چلی گئیں۔ وہ بہت فکر مند تھیں۔ خدا جانے کیوں۔ اُنہوں نے پہلی بار مدیحہ پھوپھو کو ڈانٹا تھا۔
’’سب مجھے ہی ڈانٹ رہے ہیں ، میرے ہی پیچھے پڑ گئے ہیں۔‘‘ ان کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔
’’ارے میری گڑیا۔ بس کاش تم بی بی جی کی آنکھیں دیکھ لیتیں۔۔۔ دیکھو میں بہادر نہیں ہوں۔ میں ڈر گئی تھی۔ میں اُنہیں کھونا نہیں چاہتی۔ میرا ان کے سوا ہے کون۔ ‘‘ امی جی کی بے قراری کو کہیں قرار نہ تھا۔
’’تو بھابی میرا بھی کون ہے ان کے سوا۔۔۔ ‘‘
’’یہ کیسے کہا تم نے۔ میں ہوں ، تمہارے بھائی ہیں۔ لیکن میری تو صرف بی بی جی ہیں۔ ‘‘ وہ دونوں ایک دوسرے سے گلے لگے بلا وجہ روئے جا رہی تھیں۔
’’ارے کیا ہوا تم دونوں کو۔ ‘‘ بی بی جی نے دونوں کو گلے سے لگا لیا۔ آخر ماں جو تھی۔ معاف کرنے والی۔۔۔ پیار لٹانے والی۔۔۔
’’میں ڈر گئی تھی بی بی جی ‘‘ امی جی انہیں دیوانہ وار دیکھ رہی تھیں۔
’’اور بھابھی نے مجھے ڈرا دیا! ‘‘ مدیحہ ابھی تک ان سے لپٹی ہوئی تھی۔
’’اور میں ہی ایک بہادر تھا۔‘‘ بابا بھی وہیں چلے آئے اور یوں ہم سب سارے واہموں سے آزاد ہو گئے۔
کئی ہفتے گزر گئے۔ پھر کئی مہینے بھی گزر گئے۔
کوئی خاص بات نہ ہوئی۔ سب اپنی اپنی جگہ سیٹل ہو چکے تھے۔
ہلکی سی سردیاں شروع ہو چکی تھیں۔ شام گئے خنکی بڑھ جاتی تھی۔ خاص طور پر ہمارے اور بی بی جی کے کمرے کی طرف اگر ذرا سی کھڑکی بھی کھلی رہ جائے یا دروازہ۔ لان سے سیدھی ٹھنڈی ہوائیں کمروں میں آتی تھیں لہٰذا سختی سے ہر چیز پر نظر رکھی جاتی تھی۔حسبِ معمول بی بی جی ہمیں پڑھتا دیکھ کر خوشی سے دعائیں دے کر اپنے کمرے کی طرف چلی گئیں۔
پھر وقت گزرتا گیا۔ رات کا کوئی ایک بجا ہو گا ، مدیحہ پھوپھو لائٹ بند کرنے اُٹھیں تو بی بی جی کے کمرے کی لائٹ جل رہی تھی۔ وہ حیرانگی سے آگے بڑھیں تو بی بی جی اپنے کمرے میں نہ تھیں۔
’’سنو گڑیا۔ بی بی جی اپنے کمرے میں نہیں ہیں۔ ‘‘ انہوں نے مجھے گھبرا دِیا۔
’’کہاں گئیں۔۔۔‘‘ وہ اِدھر اُدھر اُنہیں ڈھونڈنے لگیں۔ میں بھی ان کے پیچھے پیچھے آ گئی۔ لان کی طرف کا دروازہ کھلا تھا۔
’’وہ سخت خنکی میں گھاس پر ٹہل رہی تھیں یا چکر کاٹ رہی تھیں ، پتہ لگانا مشکل تھا۔
’’بی بی جی۔۔۔ ! ‘‘ مدیحہ پھوپھو نے زور سے انہیں آواز دی مگر وہ مستقل ہمیں نظر انداز کر رہی تھیں۔ کوئی جواب نہ آیا۔
’’بی بی جی۔۔۔ ! ‘‘اب میں نے انہیں متوجہ کرنا چاہا۔
پھر امی جی اور بابا بھی وہیں آ گئے۔ عبد اللہ بھی جاگ گیا۔
لیکن خدایا۔۔۔ !بی بی جی کی آنکھوں میں جو اجنبیت اور حیرانگی تھی اس نے ہمیں ہلا کر رکھ دِیا۔
’’بی بی جی۔۔۔! ‘‘ بابا انہیں ہلا رہے تھے۔ انہوں نے ایک ٹک غور سے انہیں دیکھا اور چونک گئیں جیسے انہیں کچھ یاد آ گیا ہو۔
’’کیا ہوا بیٹے ؟ کیا نماز کا وقت ہو گیا ہے ؟؟ ‘‘ انہوں نے حیرانگی سے پوچھا۔
’’چلئے اندر چلئے۔ ‘‘
’’اتنی سخت سردی میں آپ باہر کیوں آئیں۔
طبعیت خراب ہو جاتی تو۔۔۔
کوئی چیز چاہیے تھی تو مجھے آواز دے دیتیں۔
اور تم لڑکیو! کب بڑی اور ذمہ دار ہو گی۔۔۔‘‘ خدایا! امی کی تقریر اب عروج پر تھی۔ ان کی آواز میں لڑکھڑاہٹ تھی اور آنکھوں میں نمی۔ اپنی بانہوں میں سمیٹ کر انہیں کمرے میں لے آئیں۔بابا نے ہیٹر قریب کیا لیکن تھوڑی دیر بعد بی بی جی پھر نارمل ہو گئیں۔
’’کیا ہو جاتا ہے آپ کو؟
آپ ذرا اپنا خیال نہیں رکھتیں۔
ہمارا ہی خیال کر لیا کریں۔ کیا کروں گا آپ کے بغیر۔ ‘‘ بابا بے قرار سے ہو گئے۔
’’ارے تم لوگوں نے ذرا سی بات کا بتنگڑ بنا لیا ہے۔ ‘‘ بی بی جی نارمل لگ رہی تھیں۔
’’کچھ نہیں ہوا ہے مجھ کو۔
اور کچھ نہیں ہو گا تم لوگوں کو۔۔۔
جاؤ تم سب آرام کرو۔ میں بھی تھک گئی ہوں۔ ‘‘ انہوں نے ہم سب کو اپنے اپنے کمروں میں بھیج دِیا لیکن رات گئے جانے کتنی بار امی جی اور بابا انہیں دیکھنے آئے تھے۔ اور پھر تو یہ معمول ہو گیاسب کا۔ بس بی بی جی پر نظر رکھنی ہے۔ ان کا بستر ہمارے ساتھ ہی لگ گیا اور ان کا کمرہ نماز اور دیگر پڑھائی کے لئے استعمال ہونے لگا۔اگر میں اس کمرے میں پڑھ رہی ہوتی تو مدیحہ پھوپھو ان کے پاس پڑھ رہی ہوتیں یا کوئی اور کام کر رہی ہوتیں اور پھر میں ان کی جگہ آ جاتی اور امتحانوں کے دِنوں میں امی جی کی ڈیوٹی ہوتی کہ ان کی دیکھ بھال کرتی رہیں۔
دِن ایک ایک کر کے گزر رہے تھے۔
کبھی کبھی بی بی جی وضو ہی کرتی رہتیں جیسے بار بار بھول جاتی ہوں۔ یا پھر نماز ہی پڑھتی رہتیں۔۔۔ سلام پھیرنا بھول جاتیں۔اور اب تو حد ہو گئی تھی کہ کھانا کھانا بھول جاتی تھیں۔ یہ سب کچھ کبھی بہت جلدی جلدی ہو جاتا اور کبھی کبھی ہفتوں بعد ایسا ہوتا۔ لیکن آہستہ آہستہ وقفہ کم ہوتا جا رہا تھا۔
تشویش بڑھ رہی تھی۔
ڈاکٹر کریم ہمارے فیملی فزیشن تھے۔۔۔ ان کے ساتھ بابا کی لمبی لمبی ڈسکشن چلنے لگی۔ بابا فکرمند سے دِکھتے تھے۔ وہ امی جی سے کہہ رہے تھے۔
’’یہ ساری علامات یا تو Dementiaکی ہیں یا پھر شاید برین ٹیومرBrain Tumerہے۔ کہتے کہتے ان کی آواز حلق میں پھنس گئی تھی۔
آنِ واحد میں پورا گھر ساکت ہو گیا تھا اور بی بی جی کی اپنی دنیا تھی۔ ان کی دنیا جو ہماری دنیا سے مختلف ہو گئی تھی۔ ایک وقت تھا وہ ایک لمحہ بھی ہم سے جدا نہ ہوتی تھیں۔
اب ایسے دیکھتیں جیسے ہم ان کے کچھ نہ لگتے تھے۔
اتنی حیرت سے کہتیں کہ ’’تم کون ہو؟ ‘‘ یہ سب کچھ ہوا تو بہت آہستہ تھا لیکن پتہ بہت اچانک چلا تھا۔
جس دِن انہوں نے سی ٹی برین CT Brainکے لیے جانا تھا اسی دن پڑوس کی یاسمین خالہ کے ہاں ان کے دیور کی شادی بھی تھی۔ بی بی جی گھر سے غائب تھیں۔ خدا جانے کب دروازہ کھلا اور وہ باہر چلی گئی تھیں۔ ہر شخص انہیں ڈھونڈ رہا تھا۔ پڑوس کی شادی میں آیا ہوا ہر شخص ہماری بی بی جی کو پوچھ رہا تھا اور ہم سب پریشان تھے۔ بوکھلا کر سڑک سڑک انہیں کھوج رہے تھے۔
’’ہائے اگر انہیں کچھ ہو گیا تو۔۔۔‘‘
خدانخواستہ ایکسیڈنٹ۔۔۔ بابا دِل پکڑ کر فون کی طرف دوڑے کہ ہسپتال فون کریں۔ گھر آئے تو بی بی جی اپنی جگہ پر بیٹھی ہوئی تھیں۔بابا کے پیچھے سب مایوس مایوس گھر میں داخل ہوئے تو بابا ، بی بی جی کی گود میں سر رکھے بچوں کی طرح رو رہے تھے۔
’’بی بی جی۔۔۔ میری بی بی جی۔۔۔! ‘‘ امی جی ان کے گلے لگ گئیں۔
’’کیا ہوا تم لوگوں کو ؟ کیوں رو رہے ہو ؟‘‘ وہ حیران ہو کر پوچھ رہی تھیں۔
’’آپ کہاں گئی تھیں ؟ ‘‘ مدیحہ پھوپھو نے ان کے سر پر اپنا سر ٹکا دِیا۔
’’پتہ نہیں۔۔۔ میں تو یہیں تھی۔‘‘ وہ مستقل حیران گی سے دیکھ رہی تھیں۔ اِتنے میں یاسمین خالہ بھی آ گئیں۔ وہ امی جی کو سونے کی بالیاں واپس کرنے آئی تھیں جو بی بی جی ان کو شادی پر تحفتاً دے کر ابھی ابھی لوٹی تھیں۔
’’تمہیں مبارک ہو بہن۔۔۔ بزرگوں کی عطا کی ہوئی ہر بات ہر چیز تحفہ ہوتی ہے۔ ہماری بی بی جی کا تحفہ آپ کو مبارک ہو۔ہمیں واپس دے کر شرمندہ نہ کریں۔ ‘‘
’’لیکن یہ تو اپنے ہوش میں نہیں ہیں پھر یہ تو زیادتی۔۔۔‘‘ یاسمین خالہ نے جھجھک کر بات کو نامکمل ہی رہنے دِیا۔
’’اس سے کیا فرق پڑتا ہے ؟ دِیا تو بی بی جی نے ہے ناں۔‘‘ امی جی نے بڑی محبت سے بالیاں دوبارہ ان کے ہاتھ پر رکھ دِیں۔ ان کے جانے کے بعد بی بی جی کے سارے ٹیسٹ ہو گئے۔
بلڈ ٹیسٹ سے لے کر CTبرین پھر ایم آر آئیMRI۔ پھر اسپیشلسٹ کا بلاوا۔ہم سب دم سادھے بیٹھے تھے کہ جانے اب کیا سُنیں گے۔
ڈاکٹر حسین ماہر نیورولوجسٹ Neurologist تھے۔ انہوں نے مسکرا کر ہمیں دیکھا اور پھر بی بی جی کو جو ہم سب سے بے نیاز سی بیٹھی ہوئی تھیں۔ بالکل ایک ایسے بچے کی طرح اپنے آپ میں مگن تھیں جو اپنی من پسند جگہ پر آ کر گھر والوں کو ایک منٹ میں بھلا دیتا ہے اور بس مگن ہو جاتا ہے۔
ڈاکٹر حسین کہہ رہے تھے۔ بابا اور امی جی دِل تھامے سن رہے تھے۔
’’اللہ کا شکر ہے کہ تمام رزلٹ آ چکے ہیں اور وہ کسی ٹیومر کی نشاندہی نہیں کرتے ہیں۔ سو آپ کی بی بی جی کو ’’Dementia‘‘ یعنی یاد داشت کے کھو جانے کا مرض ہے۔
’’جی۔۔۔! ‘‘ بابا کی آواز مدھم ہو گئی تھی۔ ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ ٹیومر نہ ہونے کی خوشی کریں کہ Dementiaہونے کا غم۔۔۔دونوں صورتوں میں وہ ساکت ہی رہ گئے تھے۔
’’Dementiaجنرل پاپولیشن میں 2 فی صد عام ہے۔ اور یہ عمر کے ایک خاص حصے میں ہوتا ہے۔ تقریباً 65 سال سے 70 سال کی عمر میں زیادہ تر ہوتا ہے۔اگر یہی عمر 80 سال سے اوپر کی ہو تو تقریباً 20 فی صد چانس ہوتا ہے کہ کسی کو بھی Dementiaہو جائے۔‘‘ ڈاکٹر حسین حتیٰ الامکان کوشش کر رہے تھے کہ آسان سے لفظوں میں سمجھا سکیں۔
عبد اللہ پہلو بدل رہا تھا۔
مدیحہ پھوپھو بی بی جی کے پیچھے کھڑی کانپ رہی تھیں۔
امی جی کبھی بابا کو دیکھتیں اور کبھی بی بی جی کو جو کبھی بے نیازی سے مسکرا دیتیں اور کبھی مدیحہ پھوپھو کے اپنے شانوں پر ٹکے ہاتھوں کو چومنے لگتیں۔
’’اس دنیا میں کئی ملین لوگ اس مرض میں مبتلا ہیں۔ ‘‘
ڈاکٹر حسین کی بات سن کون رہا تھا۔
ہمیں ملین لوگوں سے کیا غرض۔ مسئلہ تو ہماری بی بی جی کا تھا۔ ہمیں اس دنیا سے کیا لینا دینا۔
مدیحہ پھوپھو کے آنسو ٹپ ٹپ گر رہے تھے اور بی بی جی کے دوپٹے میں جذب ہو رہے تھے اور انہیں کچھ خبر نہ تھی۔ جو ان کی ذرا سی اداسی پر دل گرفتہ سی ہو جاتی تھیں۔
’’میری بچی۔۔۔ کیا چاہیے تمہیں ؟
اچھا یہ کھا لو۔ یہ لے لو۔
’’اچھا کیا یہ پکا دوں ؟؟ ‘‘بی بی جی مدیحہ پھوپھو کی پسند کی چیزوں کے نام گنوا گنوا کر پوچھتیں۔
’’اچھا چلو تم گڑیا کے ساتھ یا اپنی بھابی کے ساتھ بازار ہو آؤ۔۔۔‘‘
انہیں بہلانے کا ہنر آتا تھا۔ وہ سب کو بہلا لیتی تھیں لیکن ابھی ابھی ہم میں سے کوئی بھی بہل نہیں رہا تھا۔
’’دیکھئے آپ سب کو بی بی جی کا بہت خیال رکھنا ہو گا۔‘‘ ڈاکٹر حسین اپنے مریض کی ہر طرح کی دیکھ بھال کی ذمہ داری ہم سب پر ڈال رہے تھے۔
’’گھر کی ترتیب میں کوئی فرق نہ آئے۔‘‘ یعنی سیٹنگ وغیرہ بدلنے سے پرہیز کریں۔ خاص طور پر ان کا کمرہ۔
’’انہیں کوئی تکلیف دہ خبر نہ سنائی جائے۔
کبھی کبھی ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ آپ کو لگے گا کہ یہ پاگل ہو گئی ہیں اپنے آپ سے باتیں بھی کر سکتی ہیں۔ خود بخود ہنستی رہیں گی۔ آپ سب کو گھبرانے یا ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ بس یہ دھیان رہے کہ کہیں چولہے کے پاس نہ چلی جائیں۔ یا اکیلی باہر نہ چلی جائیں۔ چھُری ان کی پہنچ سے دور رکھیں کہیں خود پر ہی استعمال نہ کر لیں۔ اور ہاں ! ان کو نہانے کے لیے بھی اکیلا نہ چھوڑیں۔
’’ہر وقت نگرانی کرتے رہیں۔‘‘
ہم سب حیرانگی سے ڈاکٹر حسین کو دیکھ رہے تھے اور وہ مدّبر سے چشمے کے پیچھے اپنی ذہین، چمکتی آنکھوں سے ہم سب کو باور کرا رہے تھے کہ کوئی گڑبڑ نہ ہو نے پائے۔ باتیں کرتے ہوئے وہ کبھی میز پر جھک جاتے اور کبھی سیدھے ہو جاتے۔
’’میری بی بی جی ٹھیک تو ہو جائیں گی ناں ؟
کوئی دوا تو ہو گی ڈاکٹر صاحب! ‘‘ بابا کی بے چارگی دیکھی نہ جاتی تھی۔
’’I am sorry.
Brain cell has been damage.
ہاں اِتنا ہو سکتا ہے کہ مزید تباہ(Deterioration)نہ ہو۔ میں اس کے لیے دوائی لکھ رہا ہوں۔ اور ہاں۔۔۔! اکثر و بیشتر مریض کو ہوش نہیں رہتا کہ اسے واش روم جانا ہے لہٰذا کنٹرول نہ ہونے کی وجہ سے کبھی کبھی Infectionہو جاتا ہے۔‘‘
’’یعنی ہماری بی بی جی کبھی ٹھیک نہ ہو سکیں گی۔ ‘‘ عبد اللہ نے بے چینی سے پہلو بدلا۔
’’انسان تو مہمان ہوتا ہے اس دنیا میں۔ ہم سب کو جانا ہے۔ کبھی پہلے ، کبھی بعد میں۔ ‘‘
’’کیا؟ ‘‘ ڈاکٹر حسین کی بات پر امی جی جو کب سے خاموش تھیں تڑپ کر بی بی جی کے پاس آ گئیں۔
’’دیکھئے اکثر ایسا ہوتا ہے۔ ‘‘
’’جی ڈاکٹر صاحب ہم سمجھ چکے ہیں۔ شکریہ آپ نے اِتنا وقت ہمیں دِیا۔ ‘‘ بابا میں مزید سننے کی سکت نہ تھی۔ اُٹھ کھڑے ہوئے۔
’’Best of luck.‘‘ ڈاکٹر حسین نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ بابا سے ہاتھ ملایا۔ اگلی پیشی کی تاریخ باہر سیکرٹری سے لینے کی ہدایت لے کر ہم سب باہر آ چکے تھے۔
گھر وہی تھا۔
مکین بھی وہی۔
پر وقت اچھا نہیں تھا۔
ہر فرد بی بی جی کی بیماری یاد کر رہا تھا۔ سو لگ بھگ دو سال سے وہ آہستہ آہستہ کبھی سالن میں نمک ڈالنا بھول رہی تھیں اور کبھی چائے میں دودھ۔ کبھی نماز پڑھنا تو کبھی نماز ختم کرنا بھول جاتیں۔کبھی کچھ اور کبھی کچھ۔۔۔ لیکن اتنی ساری یادوں کے ساتھ جیا کیسے جائے گا، یہ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔
ہر شخص بی بی جی کا سایہ بنا ہوا تھا۔
بابا اُداسی کی مورت ہو گئے تھے۔ لیکن ان کی صبح والی روٹین میں فرق نہ آیا تھا۔ امی جی کو چپ سی لگ گئی تھی۔ گھبرا گھبرا کر بی بی جی کو چیک کرتی رہتیں۔ اپنے ہاتھ سے نہلاتیں ، کپڑے بدلتیں ، کنگھی کرتیں ، باتیں کرتیں۔ انہیں یاد کرانے کے سارے جتن کرتیں لیکن وہاں پر کبھی شناسائی کی جھلک ہوتی اور کبھی سرد مہری اور اجنبیت۔
مدیحہ پھوپھو کو بھی ایک چپ سی لگ گئی تھی۔
دیکھئے اگر آپ بھی ایسی ہو جائیں گی تو ہم سب کا کیا ہو گا۔ ایک دن میں نے انہیں خلاؤں میں کچھ ڈھونڈتے دیکھا تو پریشان سی ہو گئی۔
’’گڑیا۔۔۔ میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ میری ماں مجھ سے عمر میں بہت بڑی ہیں اور وہ کبھی بھی کمزور پڑ سکتی ہیں۔۔۔ مجھے چھوڑ کر بھی جا سکتی ہیں۔ میں تو اس واہمے میں رہی کہ جن سے ہم پیار کرتے ہیں وہ کبھی بچھڑ ہی نہیں سکتے۔
میں غلط تھی گڑیا! میں تو بچھڑ جانے کی اذیت سے گزر رہی ہوں۔۔۔اپنے ہی سوالوں سے ڈر رہی ہوں۔۔۔ میں اب کس سے پوچھوں گی کہ میں بچپن میں کیسی تھی۔ میں نے ’’ج‘‘ کب لکھنا شروع کیا تھا۔
کونسا رنگ مجھ پر جچتا تھا۔
میرے ابا جی مجھے کیا کہہ کر بلا تے تھے۔
میرے پڑھنے پر انہیں کیوں روحانی خوشی ہوتی تھی۔
گڑیا میں نے تو کبھی ان کی بات دھیان سے سُنی ہی نہیں۔
میری البم کھو گئی ہے گڑیا! میرے پاس کوئی یاد نہیں ہے۔ کوئی تصویر نہیں ہے۔
میری یادوں کے صندوق سے بھری میری ماں مجھ سے زندگی میں ہی بچھڑ گئی ہے۔
بچھڑنے کی اذیت ایسی ہوتی ہے۔مجھے یقین نہیں آتا۔۔۔مجھے قرار نہیں آتا۔۔۔
وہ مجھے اب دعا نہیں دے سکے گی۔
وہ مجھے رخصت بھی نہیں کر سکے گی۔
وہ ہم میں رہتے ہوئے بھی ہم میں نہیں ہیں۔
وہ ہم سے اتنی دور جا چکی ہیں جہاں سے واپسی ممکن ہی نہیں۔
وہ زندہ ہیں ، پر زندگی سے کتنی دور جا چکی ہیں۔۔۔
ہائے میں کیا کروں ! ‘‘ مدیحہ پھوپھو بے قراری سے رو رہی تھیں۔
کبھی اُٹھ کھڑی ہوتیں اور کبھی بیٹھ جاتیں۔
’’کتنا بڑا نقصان ہو گیا ! یہ Dementiaکہاں سے آ گیا ہمارے بیچ میں۔ کتنا بڑا خسارا ہے۔ کسی انسان کا زندہ رہتے ہوئے بے بس ہو جانا۔ زندہ نہ رہنا۔ دنیا کے لیے بیکار اور فالتو سا ہو جانا۔
ان کی بے نیازی ، اجنبیت، خالی خالی آنکھیں مجھے تڑپا رہی ہیں گڑیا! تم کتنی خوش نصیب ہو۔ تمہاری ماں ہوش و حواس میں ہے۔ سر سے پیر تک۔ اندر سے باہر تک ہوش مند، با خبر! تم نہ کھونا اپنی البم کو ! ہر لمحہ باتیں کرنا! تمہیں یاد ہے ناں بی بی جی کیا باتیں کرتی تھیں۔ ’ ماں سے باتیں کرنا ہی امیری ہے۔ ‘
’’دیکھو میں فقیر ہو گئی ہوں۔ غریب ہو گئی ہوں۔ ‘‘ مدیحہ پھوپھو کی بے بسی سنبھالنی میرے بس سے باہر ہو رہی تھی۔
وہ دِن بدن اُداس ہوتی جا رہی تھیں۔
خاموش، ویران، تنہا تنہا سی۔ ان کی کیفیت ایسی تھی جیسے پہلی بار کوئی بچہ اپنی ماں سے جدا ہوتا ہے۔ دنیا کو حیرانگی سے دیکھتا ہے۔ پلٹ پلٹ کر آنسوؤں بھری آنکھوں سے ماں کو تکتا ہے۔ جو اس کی کل کائنات ہوتی ہے۔ ایک یقین اور بھروسہ ہوتی ہے۔
سارے دکھوں سے بچا لینے والی ماں۔
خوش رنگ کھلونے کی طرح بہلانے والی ماں۔
پیار کی طرح برس جانے والی ماں کو ایسے دیکھتا ہے جیسے اب کبھی نہ دیکھے گا۔سارا دِن بے چین رہنے کے بعد گھر آتا ہے تو ماں کی گود میں چھپ کر پھر سب کچھ بھول جاتا ہے۔
بچہ ماں کو اکثر بھول جاتا ہے۔ لیکن ماں کبھی بچے کو نہیں بھولتی۔
لیکن کبھی کبھی عمر کے آخری حصے میں ماں بچے کو بھول سکتی ہے۔ انہیں آزمائشوں کے کٹہرے میں کھڑا کر سکتی ہے۔ اِسی کی بے اعتباری تھی۔۔۔
بابا ، مدیحہ پھوپھو اور امی جی، ہم سب ہی کا خسارا ہوا تھا۔بی بی جی کی صورت دعاؤں کا نقصان ہوا تھا۔۔۔ گھر کی خوشیوں کو گھات لگی تھی۔
مکینوں کے دِلوں پر حملہ ہوا تھا۔
اس طرح بچھڑنے کی اذیت کسی کے مر کر بچھڑ جانے کی اذیت سے بہت مختلف تھی۔ اپنی سب سے پیاری اور عزیز ہستی کی بے بسی اور اجنبیت کے ساتھ دیکھنا بڑے ہی حوصلے کی بات تھی۔۔۔
تب ہی تو امی جی مدیحہ پھوپھو کو گلے سے لگا کر تسلی دے رہی تھیں۔
مٹی اپنی ذات میں بڑی عجیب ہوتی ہے۔ ہوا کے دوش پر ملکوں ، شہروں اُڑتی پھرتی ہے۔
اسی مٹی کے بنے ہوئے انسان بھی بڑے عجیب ہوتے ہیں۔ ملکوں ، شہروں اُڑتے پھرتے ہیں۔
اپنی اپنی منزلوں کی طرف۔
اُس رب کا حکم جو ہوا۔ مٹی کو تو سفر ہی کرنا ہے اپنی منزل کی طرف۔
ہماری بی بی جی کی یہی منزل تھی۔
یہی منزل تھی ان کی۔۔۔
مٹی کا سفر کب رکا ہے۔
کون روک سکا ہے۔
———————–