اگلی صبح وہ کافی دیر سے جاگی۔ چونکہ سنڈے کا دن تھا اس لیے چچی نے بھی اسے نہیں جگایا تھا۔ وہ فریش ہو کر نیچے آئی لاؤنج میں چچی ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھی چائے کی چسکیاں لے رہی تھی اور دوسرے ہاتھ میں اخبار پکڑے شوبز کا صفحہ دیکھ رہی تھی۔
کرن ایک کرسی کھینچ کر بیٹھ گئی اور سنجیدہ چہرے سے میز کو گھور رہی تھی۔ چچی کا اس پر دھیان گیا تو اخبار طے کر کے رکھ دیا۔ کرن کی سرخ پڑتی اور سوجی ہوئی آنکھوں سے اس کے شب بیداری کی ساری کیفیت واضح ظاہر ہورہی تھی۔
“آو کرن۔۔۔۔ آج ناشتہ میں نے رحیم چاچا سے بنوایا ہے۔۔۔۔۔ رکو تمہارے لئے منگواتی ہوں۔۔۔۔ رحیم چاچا۔۔۔۔” نگار بیگم نے اپنے شاہانہ انداز میں خانساماں کو آواز دی۔
“چچی۔۔۔۔۔ میں رانا صاحب سے شادی کرنے کے لیے تیار ہوں۔۔۔۔۔ آپ انہیں خبر کر دیجیئے۔۔۔” کرن نے چچی کی بات کو نظر انداز کر کے اپنا فیصلہ سنا دیا۔
چچی کی آنکھیں چمک اٹھی لیکن سنجیدہ تاثرات بنائے۔
“بیٹا تم پر کوئی یہ رشتہ مثلت نہیں کر رہا۔۔۔ تم چاہو تو۔۔”نگار بیگم نے کرن کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر نرمی سے پوچھا۔
کرن بے تاثر چہرے کے ساتھ نظریں میز پر گڑھی پژمردہ سی بیٹھی تھی۔
“نہیں چچی۔۔۔۔ میں نے اپنی مرضی سے یہ فیصلہ کیا ہے۔۔۔۔ کسی کے دباؤ میں آکر نہیں۔ آپ انہیں میری رضامندی کی اطلاع کر دیجیئے۔” اس نے سیٹ سے اٹھتے ہوئے کہا۔
وہ کمرے میں جانے لگی کہ چچی نے اسے مخاطب کرتے ہوئے روک لیا اور خود اٹھ کر اس کی جانب بڑھ گئی۔
کرن کے پاس آکر انہوں نے کرن کو کندھوں سے تھام کر گلے سے لگایا اور اس کی پیشانی پر بوسہ دیتے ہوئے اس کا شکریہ ادا کیا اور خوش رہنے کی دعائیں دی۔
کرن چچی کے اس انداز پر پھیکا سا مسکرائی اور پلکیں جھپکا کر ان کا شکریہ تسلیم کیا۔
“چلو کچھ پل کے لیے ہی صحیح چچی کا پیار اور دعائیں تو ملی۔” اس نے اپنے کمرے میں جاتے ہوئے سوچا اور “مطلبی دنیا” کہتے ہوئے لب کاٹنے لگی۔
اس نے بہت مشکل سے یہ فیصلہ کیا تھا اور فلوقت وہ اپنے ارادے میں کمزور نہیں پڑنا چاہتی تھی اس لیے خود کو کمرے میں بند کر دیا۔
چچی نخریلے انداز میں بال اچھالتی اپنی فتح کی خبر سنانے رانا صاحب کو کال ملانے لگی۔
***************&&&&***************
رانا صاحب ٹریک سوٹ پہنے آنکھوں پر سن گلاسس لگائے باغیچے میں کھڑے تھے اور باڈی مین چھتری تانے رانا صاحب پر سایہ بنانے کی کوشش سے دو چار ہو رہا تھا۔ رانا صاحب پوزیشن بناتے ہوئے جھکے اور گلف سٹک سے گیند کا نشانہ بنایا۔ ایک ہی شاٹ میں انہوں نے گیند دور اچھال دی۔ وہ کمر پر ہاتھ رکھے گیند کو دیکھ رہے تھے جب باڈی مین کے ہاتھ میں پکڑا ان کا موبائل بجنے لگا۔
انہوں سکرین پر نگار بیگم کا نام دیکھا تو دو قدم آگے بڑھ کر کال اٹھائی۔ باڈی مین چھتری تانے ان کے پیچے آنے لگا تو رانا صاحب نے ہاتھ اٹھا کر اسے وہی روک دیا۔
“فرمائیں نگار بیگم۔۔۔۔۔ آج کے دن کیسے یاد کیا” رانا صاحب نے حیرانگی سے پوچھا۔
نگار بیگم لانگ میکسی پہنے بالوں کو پونی میں باندھے نیم دراز لیٹی اور ہوا میں ہاتھ اٹھائے اپنا تازہ کیا ہوا manicure(ناخن تراشی اور ڈیزائن دار پالش لگانا) دیکھ رہی تھی۔
“آپ نے نگار بیگم کو ہلکے میں لے لیا تھا رانا صاحب۔۔۔۔۔ میں ایک دفعہ اگر ڈیل طے کروں تو ہر حال میں پورا کر کے چھوڑتی ہوں۔۔۔۔۔ آپ بس سہرا باندھنے کی تیاری کیجیئے۔” نگار بیگم نے فخریہ انداز میں استحزیہ مسکرا کر خوش خبری کی نوید سنائی۔
رانا صاحب خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے۔ بظاہر تو صرف مسکرا دیئے لیکن دل کی خوشی کا ٹھکانہ نہیں تھا۔
لیکن اسی پل ان کی مسکراہٹ سمٹ گئی اور انگلی اٹھا کر تنبیہہ کی۔
“اگر یہ مجھ سے صرف پیسے ہڑپنے کی چال تھی تو میں۔۔۔۔ تمہاری کھال ادھیڑ دوں گا نگار بیگم یہ یاد رکھنا۔۔” انہوں نے دانت پیستے ہوئے دبے لفظوں میں کہا۔
نگار بیگم کے شاہانہ انداز میں جھلتے پیر رک گئے تاثرات سنجیدہ ہوگئے اور خوشی پھیکی ہوگئی۔
“کیسی بات کر رہے ہے رانا صاحب۔۔۔۔۔ میں بھلا آپ کو دھوکہ دینے کا سوچ بھی کیسے سکتی ہوں۔۔۔۔۔ یقین کیجیئے میرا۔” نگار بیگم نے تسلی دیتے ہوئے کہا۔
رانا صاحب کے اعصاب ڈھیلے پڑ گئے اور ان سے جلد ملنے کا کہہ کر فون بند کر دیا۔ گلف سٹک باڈی مین کو پکڑا کر باقی کی گیم منسوخ کرنے کا کہا اور گھر کے رخ مڑ گئے۔
****************&&&&****************
نور اس دن موبائل کے ٹیون پر ہڑبڑا کر اٹھی۔ تکیے کے آس پاس ہاتھ پھیر کر اپنا موبائل ڈھونڈا نمبر دیکھ اس کی آنکھیں پوری طرح کھل گئی۔
“روحان۔۔۔۔۔ یو ایڈیٹ۔۔۔۔ یو سٹوپڈ۔۔۔۔۔ ڈفر۔۔۔۔۔ کہاں غائب ہوگئے تھے۔۔۔۔ تم ملو مجھے۔۔۔۔ ٹانگے نہ توڑ دی تمہاری پھر کہنا۔” نور نے ایک ہی سانس میں سارا غصہ نکالا اور طیش میں اپنے تکیے کو پرے دھکیل دیا۔
روحان سوٹ بوٹ میں ملبوس فل بزنس مین کا روپ بنائے اپنے سٹاف کے ہمراہ ایر پورٹ پر تیز تیز چل رہا تھا۔
“سوری۔۔۔۔ رانا بھائی نے ضروری کام سے ملیشیا بھیج دیا تھا کلاینٹ سے میٹنگ کرنے۔۔۔۔۔۔ اور۔” اس نے مصروف انداز میں جواب دیا اور معذرت چاہی۔
نور اتنے دنوں کا غصہ لیئے بلکل اسے معاف کرنے کے ارادے میں نہیں تھی۔ لیکن روحان کا “اور” سن کر اس کا دل پھر سے ڈوبنے لگا۔
“اور۔۔۔۔” نور نے پر امید انداز میں ہلکی آواز میں کہا۔ کچھ پل کے لیے اس کا سارا طیش اڑن چھو ہوگیا تھا۔
روحان کار میں بیٹھا اور کوٹ کے بٹن کھولتے ہوئے صاف گوئی سے بات کا آغاز کیا۔
“اور۔۔۔۔ رانا بھائی کا آرڈر تھا کہ۔۔۔۔۔ وہ ہمارے رشتہ پر غور کر رہے ہے اور میں۔۔۔۔۔ ان کے اپروول تک تم سے رابطہ نا کروں۔۔۔۔۔۔and u know what۔۔۔۔۔ رانا بھائی مان گئے ہے” روحان نے کہتے ہوئے پہلے افسوس سے سر جھٹکا اور پھر سرگوشی کے انداز میں ان کی رضامندی بتائی۔
سامان رکھوانے کے بعد دونوں گاڑیاں آگے پیچے کر کے گھر کی جانب رواں دواں ہوگئی۔
نور یہ خبر سن کر خوشی سے بیڈ پر ہی کھڑے ہو کر اچھلنے لگی اسے یقین نہیں آرہا تھا۔ اس کی چیخے روحان کو فون کے پار بھی سنائی دے رہی تھی۔ مجبوراً روحان کو اس کے چپ ہونے تک موبائل کان پر سے دور ہٹانا پڑا۔ جب نور واپس بیٹھ گئی تو کنفرم کرنے ایک دفعہ پھر سے پوچھ لیا۔
“کیا تم سچ کہہ رہے ہو روحان۔۔” اس نے مسرت زدہ چہرے سے پوچھا۔
“ہاں سچ کہہ رہا ہوں۔۔۔۔۔ کچھ دیر پہلے ہی بھائی نے کال کر کے بتایا اور جیسے ہی اپروول ملا میں نے جھٹ سے تمہیں کال کیا” روحان کی آواز سے اس کی خوشی چھلک رہی تھی۔
نور اسے اپنے اوپر بیتے 10 دن کی رو داد سناتے ہوئے آبدیدہ ہوگئی۔ اور روحان اسے دلاسہ دینے لگا۔
“مجھ پر بھی کم مشکل نہیں تھے یہ دن۔۔۔۔۔ پر یہ ایک امتحان تھا جسے ہم دونوں نے صبر کر کے گزارنا تھا اور دیکھو ہم پاس ہوگئے اب صرف خوشیاں ہی خوشیاں ہے” روحان نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا اور باقی باتیں گھر پہنچ کر کرنے کا کہہ کر الوداع کرتے ہوئے فون بند کر دیا۔
نور جوش سے چہکتے ہوئے شب خوابی کے کپڑوں میں ہی کمرے سے باہر آگئی۔ اسے سیڑھیوں کے سرے پر کرن فرش صاف کرتے ہوئے ملی۔ وہ بھاگتے ہوئے اس کے پاس آئی اور اسے بازووں سے پکڑے اٹھا کر گھمانے لگی۔
“اااارررےے۔۔۔۔۔۔ کیا ہوگیا ہے بھئ۔۔۔۔” کرن اس کی رفتار سے قدم ملاتے ہوئے لڑکھڑا گئی۔
نور نے اسے روحان سے رابطہ بحال ہونے اور رانا بھائی کا اس رشتہ کے لیے ہامی بھرنے کی خبر سنا دی۔ کرن کے چہرے پر خوشی کی لہر دوڑ گئی اور نور کو مبارکباد کہی۔
نور نے اس سے گلے لگ کر مبارکباد قبول کی اور ماما کو یہ خبر سنا کر آتی ہوں کہتے ہوئے سیڑھیاں اترنے لگی اور ساتھ ساتھ ماما کو پکارنے لگی۔
کرن نے ایک سرد آہ بھری اور پھر سے اپنے کام کی طرف متوجہ ہوگئی۔
نگار بیگم کمرے میں ٹہلتے ہوئے اپنی کسی سہیلی سے فون پر گفتگو کر رہی تھی جب نور ان کو پکارتے ہوئے کمرے میں داخل ہوئی نگار بیگم نے حیرت سے اسے دیکھا وہ آج کافی دنوں بعد انہیں کِھلتے ہوئے دِکھ رہی تھی۔ نگار بیگم نے کال کاٹ دی اور نور کی طرف متوجہ ہوئی۔ نور نے ان سے لپٹ کر ساری بات بتائی۔ نگار بیگم نے جب یہ خیر خبر سنی تو بہت خوش ہوئی اور صد شکر ادا کئے۔ آخر بھی ان کا پلان کامیاب ہوگیا تھا اور اب رانا صاحب سے ملنے کی دیر تھی۔
نور واپس اپنے کمرے میں چلی گئی تو نگار بیگم نے راکنگ چیئر پر بیٹھے ہوئے کرن کو بلا لیا۔
“چچی۔۔۔۔ آپ نے مجھے بلایا تھا۔” کرن نے دروازے پر دستک دے کر اجازت مانگی۔
نگار بیگم راکنگ چیئر پر بیٹھی سنجیدہ تاثرات بنائے ہوئے تھے جب کرن کو اندر آنے کی اجازت دی۔ کرن کمرے میں داخل ہوئی اور ان کے سامنے سنگل صوفے پر بیٹھ گئی۔
“تم نے دیکھا کرن۔۔۔۔۔ نور آج کتنی خوش ہے۔” انہوں نے بات کا آغاز کیا۔
“اب نور اور روحان کا رشتہ آفیشل ہوگیا ہے۔۔۔۔۔۔ اور نور رانا صاحب کی بہت عزت کرتی ہے۔۔۔۔۔۔ اور آگے جا کر نور نے شادی کر کے اسی گھر میں جانا ہے۔۔۔۔۔۔ تو۔۔۔۔” نگار بیگم کھڑی ہوگئی تو کرن بھی ساتھ کھڑی ہوگئی۔ نگار بیگم چلتی ہوئی اس کے قریب آئی اور اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر نرمی سے سمجھایا
“تو۔۔۔۔۔ میں چاہتی ہوں۔۔۔۔ تم رانا صاحب کی شرط والی بات۔۔۔۔۔ راز رکھو۔۔۔۔۔ میں جانتی ہوں تم بھی نہیں چاہو گی کہ۔۔۔۔۔۔ اس بات سے روحان اور رانا صاحب کے تعلقات میں تلخی آئے اور پھر نور کے لیے مشکل پیدا ہو۔۔۔۔۔ ہیں نا۔۔” نگار بیگم نے آنکھیں گول کر کے معصومانہ شکل بناتے ہوئے کہا۔
ان کی بات سن کر کرن نے آنکھیں اٹھا کر چچی کی آنکھوں میں دیکھا اور پھیکا مسکرائی۔
“آپ بے فکر رہیں چچی۔۔۔۔ یہ راز صرف ہمارے بیچ رہے گا۔۔۔۔ نور اور روحان کو اس بارے میں کبھی پتہ نہیں چلے گا۔” اس نے چچی کا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں تھام کر تسلی دی۔
نگار بیگم اس کی بات سے پر سکون ہوگئی اور کرن کے رخسار کو چوما۔ اس کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرا اور دعا دی۔
***************&&&&***************
رانا صاحب اور روحان اس وقت انگیجمینٹ رنگ پسند کرنے ایک جیولری شاپ میں بیٹھے تھے۔ اتنے معزز شخصیت کے موجودگی سے شاد ہونے والا سونار ان کو خوش کرنے کی پورے دل سے نوازش کر رہا تھا۔ کبھی ان کو اپنے دکان کے نایاب اور مہنگے زیورات دکھاتا کبھی ان کے کھانے پینے کے لیے کہتا۔ روحان نے ایک نگ والی diamond کی انگھوٹی پسند کی تو رانا صاحب نے اسی سے تھوڑے بڑے سائز کے نگ والی diamond رنگ پیک کروائی۔
روحان نے ان کا یہ عمل دیکھا تو کولڈرنک پیتے ہوئے حیرانی سے آبرو اچکا کر رانا صاحب کو دیکھا۔
“رانا بھائی۔۔۔ یہ دوسری رنگ کس لیے۔۔” اس نے محضوظ ہوتے ہوئے پوچھا۔
رانا صاحب نے چیک پر دستخط کر کے ادایگی کی اور رخ روحان کے جانب موڑ لیا۔
“اووو سوری بچہ۔۔۔۔۔ میں بتانا بھول گیا تھا۔۔۔۔ دراصل میں بھی شادی کر رہا ہوں۔” رانا صاحب نے اطمینان سے بازو چیئر کے پشت پر پھیلاتے ہوئے کہا۔
رانا صاحب کا انکشاف سن کر روحان کی آنکھیں پھٹی رہ گئیں اسے رانا صاحب کے اچانک بدلے ہوئے مزاج سے شاک لگا تھا۔ اسے حیرانگی اس بات سے نہیں ہورہی تھی کہ رانا بھائی شادی کر رہے ہے بلکہ اس بات سے ہورہی تھی کہ وہ پہلی شادی کے ناکام ہونے کے 12 سال بعد دوبارہ شادی کر رہے ہے۔
“ی یہ۔۔۔۔ ت تو۔۔۔۔ اچھی بات ہے رانا بھائی۔۔۔۔ مجھے خوشی ہے کہ آپ اپنی زندگی کو ایک اور موقع دیں رہے ہے۔” روحان نے پھرتی سے خود کو نارمل کرتے ہوئے کہا۔
اسے واقعی خوشی ہورہی تھی۔ وہ کافی سالوں سے چاہتا تھا کہ رانا بھائی پھر سے گھر بسا لیں فیملی شروع کرے اسی لیے اس نے اپنی شادی کا فیصلہ کرنے میں دیر کر دی کیونکہ اس کی خواہش تھی کہ پہلے رانا بھائی سیٹ ہوجائے پھر وہ لیکن رانا بھائی ہمیشہ اپنی شادی کا ذکر ٹال دیتے تھے۔ اور آج ان کا یہ فیصلہ سن کر روحان کی خوشیاں ڈبل ہوگئی تھی کہ اب دونوں بھائیوں کی ساتھ میں شادی ہوگی۔
رانا صاحب نے شاپنگ بیگ باڈی مین کو پکڑایا پھر دکاندار سے مصافحہ کرتے ہوئے کھڑے ہوگئے اور الوداعی کلمات کہہ کر چلنے لگے۔ روحان بھی ان کے پیچھے لپکا
“تو کون ہے وہ خاتون۔۔۔۔ کیا میں انہیں جانتا ہوں۔۔۔۔” روحان نے دکانوں کے وسط میں چلتے ہوئے پوچھا۔
رانا صاحب آج چیک شرٹ پر کوٹ پہنے ہوئے تھے گلاسس ہاتھ میں پکڑے تھے اور بزنس فیس بنائے سامنے دیکھ رہے تھے۔
“ہاں تم اسے جانتے ہو۔۔۔۔۔ actually ۔۔۔۔ تمہارے ہونے والے سسرال کی ہے۔۔۔۔۔ کرن۔” رانا صاحب نے اسی طرح چلتے ہوئے روحان کو ایک اور شاک دیا اور لفٹ کے آگے رک گئے۔
روحان کو کرن کا نام سن کر دھکا لگا۔ وہ سانس روکے اپنی جگہ منجمند ہوگیا۔ اسے اپنے سماعتوں میں رانا بھائی کی بات گونجتی ہوئی محسوس ہورہی تھی۔
رانا صاحب نے دیکھا کہ روحان چند قدم پیچے ساکٹ کھڑا تعجبی نظروں سے انہیں دیکھ رہا ہے تو واپس پیچے آئے اور روحان کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر دباؤ ڈالا۔
“کیوں۔۔۔۔۔۔ اچھی نہیں ہے۔۔۔۔ ” انہوں نے تسکین سے روحان کے آنکھوں میں دیکھ کر پوچھا۔
روحان کچھ پل کے لیے سمجھ نہیں سکا کہ وہ کیا جواب دیں۔
“ااا۔۔۔۔ ن نہیں۔۔۔ کرن تو اچھی لڑکی ہے۔۔۔۔ پر۔۔۔۔۔ آپ کے ساتھ۔۔۔۔۔۔ ااا۔۔۔۔ میرا مطلب۔۔۔۔۔ جوڑی بہت مس میچ لگے گی۔۔۔۔ age difference (عمر کا فرق) کافی ہے۔۔۔۔ تو۔۔۔۔” روحان نے رک رک کر اپنی وضاحت پیش کی۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ اس کی کسی بات سے رانا بھائی خفا ہوجائے لیکن اپنے سے بھی چھوٹی عمر کی لڑکی کو رانا بھائی کی بیوی تسلیم کرنے میں روحان کو دشواری ہو رہی تھی۔
رانا صاحب نے اس کا گال تھپتھپایا اور اسی با اعتماد لہجے میں مسکرائے۔
“بچہ۔۔۔ جب دل میچ کر جائے تو۔۔۔۔ age difference صرف ہندسے بن جاتے ہیں۔۔۔۔۔ اور پھر کرن نے خود رضامندی دی ہے تو میرا نہیں خیال کہ کسی اور کو کوئی اعتراض ہونا چاہیے۔۔۔۔۔۔ اوکے۔” رانا صاحب نے مستحکم بھرے انداز میں کہا اور آخری فقرہ سنجیدگی سے سمجھایا۔
روحان سمجھ گیا ان کا اشارہ کیا تھا۔ اب روحان کو دوبارہ ان کے فیصلہ پر سوال نہیں کرنا تھا۔ روحان نے سر جھٹکا اور رانا بھائی کے پیچھے بھاگتے ہوئے لفٹ میں در آیا
**************&&&&***************
اسی طرح کا طوفان اس وقت نگار بیگم کے گھر بھی برپا ہوا تھا جب نور کو کرن کی رانا صاحب سے بات پکی ہونے کا پتہ چلا تھا۔
“ماما آپ نے ان کو ہاں کیسے کر دی۔۔۔۔۔ کچھ تو دیکھا ہوتا۔۔۔۔ اور کرن۔۔۔۔ تمہارے دماغ کو زنگ لگ گیا ہے کیا۔۔۔۔۔ اندھی ہوگئی ہو تمہیں رانا بھائی کی عمر نہیں دکھ رہی۔” نور نے طیش میں آکر کرن کو جھنجوڑا۔ اسے ان دونوں کی کم عقلی پر افسوس ہورہی تھی۔
کرن اب بھی خاموش کھڑی تھی۔ نگار بیگم نے اسے پُر سکون کرنے کے لیے پہل کی۔
” نور۔۔۔۔ انسان اچھا ہو تو عمر کا فرق نہیں پڑتا۔” نگار بیگم نے نور کو سمجھاتے ہوئے کہا۔
کرن نے افسوس سے سر جھٹکا۔
“ماما۔۔۔۔ کچھ سال تو ٹھیک ہے۔۔۔۔ میرے اور روحان کے بیچ بھی 8 سال کا فاصلہ ہے لیکن۔۔۔۔۔ لیکن 21 سال کا فرق۔۔۔۔۔ ماما یہ بہت زیادہ ہوتا ہے۔” نور کے غضب میں رتھی بھر کمی نہیں آئی تھی وہ اب بھی بے یقینی سے کرن کی شکل دیکھ رہی تھی۔
کرن نے نور کو چچی پر غصہ کرتے دیکھا تو اسے سمجھانے آگے آئی اور ہاتھ پکڑ کر اسے صوفے پر بیٹھایا اور خود بھی ساتھ بیٹھ گئی۔
“نور۔۔۔۔ تمہارا غصہ بلکل جائز ہے۔۔۔۔۔ لیکن رانا صاحب سے شادی کے لیے میں خود مانی ہوں۔۔۔۔ چچی کو کچھ مت کہو۔۔۔۔۔ اور برائی کیا ہے رانا صاحب میں۔۔۔ 46 کے ہو کر بھی اتنے فٹ اور ہینڈسم ہے کہ میری جیسی ہزار لڑکیاں آج بھی ان پر فدا ہے۔۔۔۔۔ اور ان کی بیوی بننے کی یہ خوش بختی میرے نصیب ہوئی ہے۔” کرن اسے ہر ممکن قائل کرنے کی کوشش کر رہی تھی لیکن پھر بھی اس کا اضطراب کم نہیں ہو رہا تھا۔
نور نے ہار مانتے ہوئے ایک سرد آہ بھری اور کرن کی طرف رخ موڑا۔
“کرن۔۔۔۔ رانا بھائی مزاج کے بہت تند و تیز ہے۔۔۔۔۔ ان کے ساتھ رہنا بہت مشکل ہے۔” نور نے نرمی سے اسے مخاطب کیا۔
کرن، نور کی اس بات پر استحزیہ ہنسی۔ دل ہی دل میں تو وہ نور کے اندیشے سے اچھے سے واقف تھی پر انجان بننے کی اداکاری کرتی رہی۔
“تمہاری ماما کے ساتھ رہنا بھی اتنا ہی مشکل ہے۔۔۔۔ لیکن پھر بھی میں پچھلے 24 سال سے ان کے ساتھ رہ رہی ہوں نا۔۔۔۔۔ تو رانا صاحب کے ساتھ بھی رہ لوں گی”۔ کرن نے تسلی دیتے ہوئے کہا۔
نور اب بلکل ٹھنڈی ہوچکی تھی لیکن اطمینان اب بھی نہیں ہو پا رہا تھا۔
“تم غلطی کر رہی ہو کرن۔۔۔۔۔ ایک دفعہ پھر سوچ لو۔” نور نے اسے خبردار کرتے ہوئے کہا۔
نگار بیگم اب کی بار خاموش تماشائی بنی بیٹھی تھی۔ کرن کو منانا اگر انہیں اچھے سے آتا تھا تو نور کو قائل کرنے کی صلاحیت ہمیشہ سے کرن کے پاس تھی۔
کرن نے ایک نظر چچی کو دیکھا پھر نفی میں سر ہلاتے ہوئے واپس نور کی طرف متوجہ ہوئی۔
“میں ایک ہی طرح کی زندگی سے اکتا گئی ہوں نور۔۔۔۔ اب مجھے چینج چاہیے۔۔۔۔۔ آرام کی زندگی۔۔۔۔۔ نوکر چاکر۔۔۔۔۔۔ جی حضوری۔۔۔۔۔۔ عیش و عشرت۔۔۔۔۔ اور یہ سب مجھے رانا صاحب سے شادی کر کے ملے گا۔۔۔۔۔ میں تو سوچ کر ہی مسرور ہورہی ہوں۔۔۔۔۔۔۔ کیا تم نہیں چاہتی میں رانی کی طرح رہوں۔۔۔۔” اس نے اپنی جھوٹی خواہشوں کی لائن لگا دی اور معصومیت سے آنکھیں گول گول کر کے نور کو اپنا مستقبل دکھایا۔
نور نے لب کاٹتے ہوئے کرن کے گال پر ہاتھ رکھا۔
“میں تو چاہتی ہوں تم ماہ رانی بنو۔” اس نے آنکھوں میں آنسو لیئے کرن کو گلے لگایا۔
کرن نے بھی آنکھیں بند کر کے ڈھیر سارے آنسو اپنے اندر اتارے اور نور کے گرد بازو مائل کئے۔
معاملہ سنبھل چکا تھا۔ نور نے کرن کی بات سے قناعت کر لیا اور شام کو شاپنگ کے لیے جانے کی پلاننگ بھی کر لی۔
*************&&&&**************
رانا صاحب نے اپنے وعدے کے مطابق اگلے دن ہی نگار بیگم کو اپنے دفتر بلوایا اور وہ چیک ان کے تحویل میں دیا۔ چونکہ شادی جلد کرنے کا فیصلہ کیا گیا تو منگنی سادگی سے صرف فیملی کے شمولیت میں کرنا طے پایا۔
بنا طول دیئے رانا صاحب نے آنے والے جمعہ کو رسم کرنے کی تقریب مقرر کی۔ نگار بیگم ان کی ہر بات میں ہاں میں ہاں ملاتی رہی اور ملاقات کے اختتام پر وہی سے سیدھے بینک چلی گئی۔ ان کو ڈر تھا کہ کہی رانا صاحب نے صرف کرن کو راضی کروانے کے لیے پیسوں کا لالچ دے کر ان کا استعمال نہ کیا ہو۔ اس لیے وہ جلد از جلد ساری رقم اپنے پاس متقل کروانا چاہتی تھی۔
بہن کے رسم میں شرکت کے لئے حادی بھی آج صبح پہنچ گیا تھا۔ ایر پورٹ اسے صرف ڈرائیور لینے چلا گیا تھا۔ گھر پہنچ کر وہ ماما اور نور سے اچھے سے ملا اور کرن سے بھی حال احوال پوچھا۔
“پڑھائی کیسی چل رہی ہے” ماما نے اس کے ساتھ صوفے پر بیٹھتے ہوئے پوچھا۔
“ااا Fantastic ماما۔۔۔۔۔ اچھی چل رہی ہے۔” اس نے سستاتے ہوئے اور نظریں گھما کر گھر کا جائزہ لیتے ہوئے کہا۔
کرن نظریں جھکائے خاموشی سے چائے سروو کر رہی تھی۔ نگار بیگم اپنے بیٹے سے ایک سال بعد ملی تھی اس لیے مسلسل بولے جارہی تھی اور حادی صرف ہاں نا ہممم میں جواب دے رہا تھا نظریں اس کی کرن پر ہی جمی رہ گئی تھی۔ پچھلی بار جب وہ آیا تھا تو کرن بہت خوش مزاج تھی اور اس بار اس کے اندر کافی تبدیلیاں آگئی تھی جو حادی کو تجسس میں ڈال رہی تھی۔
****************&&&&&****************
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...