مت سہل ہمیں جانو۔۔۔۔۔مطالعۂ میرؔ کا ایک انداز
عبداللہ جاویدکینیڈا میں مقیم ایک اہم ادبی شخصیت ہیں۔انگریزی اور اردومیں ایم اے کرنے کے بعدپہلے انگریزی کے استاد ہوئے پھر اردو کے پروفیسر ہو گئے۔۱؎۔۱۹۳۱ء میں پیدا ہوئے ۔علامہ اقبال پر ایک کتاب بیادِ اقبال کے علاوہ ابھی تک ان کے تین شعری مجموعے موج صد رنگ،حصارِ امکاں اور خواب سماں اور افسانوں کا مجموعہ بھاگتے لمحے شائع ہو چکے ہیں۔ ۲؎۔اور اب کہ۸۳ سال کے ہو گئے ہیں تو ان کی ایک انوکھی کتاب مت سہل ہمیں جانو(آئیے میرؔ پڑھیے)شائع ہوئی ہے۔
میرؔ کی شاعری کی تفہیم اور تعبیر کے حوالے سے گزشتہ دو سو سال کے عرصہ میں بہت سارا کام ہو چکا ہے۔بہت سارے قابلِ قدر کام کے ساتھ مطالعۂ میرؔ کا ایک وہ انداز بھی ہے جو روایتی طور پر اتنا دہرایا جا چکا ہے کہ اب وہ میرؔ کا درسی مطالعہ بن کر رہ گیا ہے۔تاہم اپنی تشریحی تکرار کے باوجود اس مطالعہ کی بھی اپنی ایک اہمیت ہے۔شمس الرحمن فاروقی کے شعر شور انگیز تک آتے آتے میرؔ کی تفہیم اپنے کمال کو پہنچ گئی۔اس کے بعد مطالعۂ میرؔ کی طرف آنا اور کسی نئے انداز سے بات کرنا بجائے خود ایک بڑا چیلنج تھا۔لیکن عبداللہ جاوید نے میرؔ ہی کے ایک شعر کے مطابق اس چیلنج کو قبول کیا۔
سب پہ جس بار نے گرانی کی
اُس کو یہ ناتواں اُٹھا لایا
مت سہل ہمیں جانو(آئیے میرؔ پڑھیے)اپنے اندازِ بیان کے لحاظ سے ایک غیر رسمی اور غیر روایتی مطالعہ ہے۔ایسے لگتا ہے کہ عبداللہ جاویدباتوں باتوں میں میرؔ کو پڑھتے جا رہے ہیں اور اس پر اظہارِ خیال کرتے جا رہے ہیں۔کہیں ان کا بیان پوری طرح نہیں کھلتا اور کہیں اتنی وضاحت کے ساتھ بات کرتے ہیں کہ لگتا ہے کلاس روم کے طلبہ کو سمجھا رہے ہیں۔اس کے باوجود مطالعۂ میرؔ محض درسی مطالعہ بن کر نہیں رہ جاتا۔ڈاکٹر جمیل جالبی نے عبداللہ جاوید کے مطالعہ کی ایک جہت یوں دریافت کی ہے۔
’’مت سہل ہمیں جانو میںعبداللہ جاوید نے عصری ادبی و سماجی رُجحانات اور فکری و نظری عناصر کو میرؔ کے اشعار کی تفہیم کے لیے خوبی سے برتا ہے۔عبداللہ جاوید خود شاعر ہیں اور ایک حساس اور باشعور انسان ہیں۔میرؔ کے اس مطالعے سے ہمیں اُن کے ذوق کا اندازہ بھی ہوتا ہے اور ان کی تنقیدی بصیرت کا بھی۔اُن کا مطالعہ وسیع ہے اور ماشاء اللہ حافظہ بھی قوی ہے۔اس لیے وہ دوسرے اساتذہ کے اشعار اور دوسری زبانوں کے ادبی حوالوں کوبھی بر محل استعمال کرتے ہیں۔اس طرح یہ مطالعہ صرف تفہیمِ میرؔ تک محدود نہیں رہتا بلکہ قاری کے وسیع ادبی ذوق کی سیرابی کا ذریعہ بن جاتا ہے۔‘‘۳؎
میں نے ابھی کلاس روم والے انداز کا ذکر کیا ہے،لیکن یہ محض درسی مطالعہ نہیں رہتا۔اس کی ایک جھلک اس اقتباس میں دیکھیں:
’’تھا وہ تو رشکِ حورِ بہشتی ہمیں میں میرؔ
سمجھے نہ ہم تو فہم کا اپنی قصور تھا
(ص۔۵۲)
اس شعر پر بات تو ہوسکتی ہے لیکن فی الحال میں آپ کی توجہ ’رشکِ حورِ بہشتی‘ کی ترکیب میں ’حور‘ کے لفظ پر مرکوز کرنا چاہوں گا۔ بہشت میں تو غلمان بھی ہوں گے لیکن میرؔ جی ’حور‘ کا ذکر کرنے پر اکتفا کر رہے ہیں۔ کیا اُن کے اس انتخابِ ترجیحی سے ’اسی عطار کے لونڈے‘ کے انتخاب سے پیدا شدہ شدت میں کمی نہیں آتی؟
اسی شعر میں ’حور‘ کی رعایت سے ’تھا‘ کی جگہ ’تھی‘ ہونا چاہیے تھا لیکن اگر میرؔ صاحب ’تھی‘ لکھتے تو اس وقت کا معاشرہ اس ’تھی‘ کو برداشت کرنے والا نہ تھا۔ احتمال تھا کہ تلواریں کھنچ جاتیں۔ ’تھا‘ سے ’تھی‘ تک کا سفر حکیم مومن خاں مومنؔ کی جسارت سے طے ہوا اور اخترؔ شیرانی نے تو بعد میں ’تھی‘ کی ’تھا تھک ٭ّتھیا‘ ہی مچا دی۔ اسی ایک ’تھا‘ اور ’تھی‘ کے معاملے کو سامنے رکھ کر اس صورتِ حالات کی تصدیق کی جاسکتی ہے کہ شعر، ادب اور آرٹ معاشرے کے جبر کے آگے سر نہیں جھکاتے، معاشرہ بالآخر شعر، ادب اور آرٹ کے آگے جھک جاتا ہے۔ اس مرحلے پر میں یہ معاملہ صاف کردینا چاہتا ہوں کہ ہمارے شاعر، ادیب اور فن کار کسی دور میں ٭ّکلی طور پر امرد پرستی میں مبتلا نہ تھے۔ اردو کے مذکورہ تین بڑے شاعروں میں ایک بھی امرد پرست نہیں تھا۔ فارسی والے بھی عام خیال کے برخلاف اکثر و بیشتر ’’یک زن بگیر‘‘ کے قائل رہے ہیں اور ہیں۔
میرؔ جی کے رشکِ حورِ بہشتی والے مصرعے میں ’ہمیں میں‘ کا اصرار ملتا ہے اور دوسرے مصرعے میں ’سمجھے نہ ہم‘ سے قاری کو خبردار کردیا جاتا ہے کہ کوئی معاملہ سمجھنے کے لائق موجود ہے۔ ’ہمیں میں‘ سے یہ مراد لی جاسکتی ہے کہ وہ رشکِ حورِ بہشتی ہم ہی لوگوں میں موجود تھا اور یہ بھی کہ وہ ہمارے اپنے اندر تھا۔ ہمارے ذہن، دل یا روح میں مکیں تھا۔‘‘۴؎
عبداللہ جاوید کے ہاںمیرؔ کو پڑھنے اور سمجھنے،سمجھانے کا ایک انداز یوں ظاہر ہوتا ہے۔
’’چھٹی غزل کا یہ شعر:
کہا میں نے کتنا ہے ٭ُگل کا ثبات
کلی نے یہ سُن کر تبسم کیا
لفظ ’تبسم‘ کو غالبؔ کی زبان میں ’’گنجینۂ معنی کا طلسم‘‘ کہہ سکتے ہیں یا پھر مجھ بے زبان کی زبان میں حسیاتی معنویت کی کلید۔ کلی نے تبسم کیا سے مراد یہ لی گئی ہے کہ کلی ِکھل گئی، پھول بن گئی اور پھول بن کر شاعر کے سوال کی زد میں آگئی۔ شاعر نے سوال کیا تھا کہ پھول کی دنیا میں زندگی کتنی ہے؟ شاعر نے اس کی صراحت بھی نہیں کی ہے کہ وہ حقیقت میں کس سے مخاطب ہے؟ اس کی مخاطب کلی نہیں ہے۔ شاید پھول بھی نہیں ہے۔ کلی نے شاعر کی بات سنی ہے اور اس کی بات یا سوال پر وہ مسکرانے پر مجبور ہوگئی۔ اس کی یہ مسکراہٹ جو ’تبسم‘ کے لفظ میں آکر تہہ دار اور پرت پرت ہوگئی ہے، طنزیہ بھی ہوسکتی ہے۔ طنز شاعر کے سوال اور سوچ پر ہوسکتی ہے، صورتِ حالات پر، زندگی کی ناپائیداری پر بھی عین ممکن ہے۔
میرؔ کے اس تہہ دار، پہلودار، کانٹے دار ننھے مُنے معصوم سے شعر کے بعد ہم سے زیادہ قریبی زمانے کے شاعر جوشؔ ملیح آبادی کے مندرجہ ذیل قطعے پر بھی نظر ڈال لیجیے:
غنچے تری زندگی پر دل ہلتا ہے
بس ایک تبسم کے لیے ِکھلتا ہے
غنچے نے کہا کہ اس جہاں میں بابا
یہ ایک تبسم بھی کسے ملتا ہے
مندرجہ بالا قطعے نے اکثر اوقات جوشؔ صاحب کے لیے مشاعرہ ُلوٹا ہے۔ مقبول بھی بہت ہوا ہے۔ ان اشعار میں حسیاتی شدت ہے، توانا ابلاغ ہے، فکر اور جذبے کا رچائو ہے اور دانائی و حکمت ہے، لیکن یہ الگ حقیقت ہے کہ اس میں شاعری تو ہے لیکن میرؔ کے شعر کی سی عالیہ شاعری نہیں ہے۔ زندگی کی ایک حقیقت کا بلند آہنگ بیان ہے، لیکن زندگی کی اسی حقیقت کا تہہ دارانہ ابلاغ نہیں ہے۔ جوشؔ اپنی تمام تر توانائیِ ابلاغ کے باوجود سطح پر کھڑے ہیں جب کہ میرؔ زندگی کی اسی حقیقت کی ممکنہ وسعتوں، بلندیوں اور گہرائیوں تک پہنچنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ میں بار بار یہ عرض کرتا پایا جائوں گا کہ میرؔ کا شعر مکمل نہیں ہوتا، جاری و ساری رہتا ہے۔ اُن کے دیوان سے قاری کے قلب و ذہن کے ایوان میں— لفظ کا شبدھ کا کوئی اَنت نہیں۔ لفظ، شبدھ کی پہنچ اس ذاتِ حقیقی تک ہے جو ’اللہ‘ ہے اور بے لفظ، اشبدھ ہے۔ جو وہ سوچتا ہے، ہوجاتا ہے۔‘‘۵؎
میرؔ کا مطالعہ کرتے ہوئے اپنی تفہیم کے آخر آخر میں تو ایسے لگتا ہے جیسے عبداللہ جاوید، میرؔ کے ہم قدم ہو کر چل رہے ہیں۔ایک اور شعر کی تفہیم کرتے ہوئے عبداللہ جاوید پہلے میرؔ کے زمانے میں جاتے ہیں اور پھر کہیں سے ہوتے ہوئے کہاں جا پہنچتے ہیں۔
’’لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کارگہِ شیشہ گری کا
(ص۔۶۲)
میرؔ کے عہد میں شیشہ گر منہ سے پھونک کر شیشے کے ظروف بنایا کرتے تھے اور اس دوران سانس پر قابو رکھتے تھے۔ میرؔ نے اپنا استعارہ یا امیج اس سے لیا ہے اور آفاق پر پھیلا دیا ہے۔ اب جب کہ شیشہ گری کا عمل مشینوں کی مدد سے پورا کیا جاتا ہے، شعر ہنوز اپنی پوری تخلیقی توانائیوں کے ساتھ زندہ و پائندہ ہے۔ آفاق کی کارگہِ شیشہ گری اپنی تمام تر نزاکتوں کے ساتھ اب بھی، اس لمحۂ موجود میں بھی مصروفِ بکا رہے۔ ’’لے سانس بھی آہستہ‘‘ کی پابندی یا شرط آج بھی، اب بھی برقرار ہے۔ غزل کا مقطع ایک پامال مضمون کا حامل ہے۔ لیکن مصرعِ اوّل اس میں نئی روح پھونک رہا ہے۔ اس کو میریت کہنا پڑتا ہی ہے:
ٹُک میرِؔ جگر سوختہ کی جلد خبر لے
کیا یار بھروسا ہے چراغِ سحری کا
(ص۔۶۲)
دوسرا مصرع پڑھنے والے کے ذہن و دل کا مدتوں تعاقب haunt کرتا ہے۔ ’چراغِ سحری‘ کو اردو شاعری میں خوب خوب باندھا ہے اور ستارۂ سحری کو بھی شاید اس وقت تک جب اس نے فراقؔ گورکھ پوری کو آنکھ نہیں ماری لیکن میں یہاں نظیرؔ اکبر آبادی کا وہ شعر درج کرنا چاہتا ہوں جس کو پہلی مرتبہ کسی سے سن کر یہ سوچ لیا کہ میرؔ کا شعر ہے:
ملو جو ہم سے تو مل لو کہ ہم بہ نوکِ گیاہ
مثالِ قطرۂ شبنم، رہے رہے، نہ رہے
درج بالا شعر میرے ساتھ ساتھ جی رہا ہے۔‘‘۶؎
عبداللہ جاوید نے میرؔ کے ہاں جا بجا استعاراتی اور علامتی(تلمیحاتی)طرزِ اظہار کی نشان دہی کی ہے حتی کہ تجرید کی پرچھائیوں کو بھی چھوا ہے۔لیکن ان کی مشہور غزل
ہستی اپنی حباب کی سی ہے
یہ نمائش سراب کی سی ہے
پوری کی پوری غزل تشبیہاتی سطح پر آئی ہوئی ہے۔عبداللہ جاوید نے اس غزل کو درج کیا ہے لیکن پھر اسے ’’پھول سی غزل‘‘ ۷؎کہہ کر آگے چل دئیے ہیں۔اگر درجہ بندی کے اعتبار سے دیکھا جائے تو استعارہ اور علامت کے سامنے تشبیہ کم تر درجہ پر رہتی ہے۔میرؔ کی پوری غزل کا تشبیہاتی سطح پر رہ جانا کیا ردیف کی مجبوری تھی یا اس میں کوئی اور بھید پنہاں تھا؟میرا خیال تھا کہ عبداللہ جاویداس نکتہ پر کچھ دیر کے لیے رُکیں گے۔کچھ بتائیں گے لیکن شاید ان کی توجہ اس طرف نہیں گئی۔
چلیں اب عبداللہ جاوید کے ساتھ میرؔ کے تین اشعار کا مختصر مختصر مطالعہ کرتے ہیں۔
’’آگ تھے ابتدائے عشق میں ہم
اب جو ہیں خاک انتہا ہے یہ
(ص۔۳۳۱)
آگ کی آخری منزل خاک (راکھ) ہی تو ہے۔ امیج کے مطابق معاملہ یوں ہے۔ استعاراتی رمزیت پر غور کرتے ہیں تو عشق اپنے مرحلۂ آغاز پر کچا، خام اور وارفتہ ہوتا ہے جیسے آگ جب بھڑکتی ہے تو قابو اور قیاس سے باہر ہوتی ہے، لیکن بعد میں دھیمی اور سرد پڑتے ہوئے راکھ ہوجاتی ہے لیکن کون فراموش کرسکتا ہے کہ یہ اس کی انتہا کا مرحلہ ہے۔ اس مرحلے تک پہنچتے پہنچتے سب کچھ جل کر مشتِ خاک میں بدل جاتا ہے۔ آگ مرحلۂ اوّل ہے اور خاک مرحلۂ آخر ہے۔ آگ زینے پر پہلا قدم ہے اور خاک معراج ہے۔‘‘۸؎
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’تھی کبھی ہم میں بھی گویائی بہت‘‘ والا معاملہ ہے اور ’ُچپ‘ کا مرحلہ آچکا ہے:
رات مجلس میں تری ہم بھی کھڑے تھے ُچپکے
جیسے تصویر لگا دے کوئی دیوار کے ساتھ
’حسرتِ دیدار‘ کو مصور کرنے کا انداز ملاحظہ کریں۔ تجرید کی کس طرح تجسیم کی گئی ہے۔‘‘۹؎
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’خاک تھی موج زن جہاں میں اور
ہم کو دھوکا یہ تھا کہ پانی ہے
میرؔ نے پانی کوبھی مٹی کر چھوڑا ہے جب کہ یہ ثابت ہے کہ کرئہ ارض پر تین حصے پانی اور ایک حصہ خشکی ہے۔ جب ہماری اصل مٹی ہے تو پانی کی اصل بھی مٹی ہوئی۔‘‘ ۱۰؎
مطالعۂ میرؔ کے مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے عبداللہ جاوید نے کئی بڑے حساس اور اہم موضوعات کوچھوا ہے۔الہٰیات ،روحانیت،فقیری،درویشی،جدید فلاسفی،جدید سائنس،نورکی ماہئیت اور اس کے مختلف پرت،نراکارحقیقت سے ساکاری عقائد تک کو میرؔ کی شاعری کے توسط سے سمجھنے کی کاوش کی ہے۔ان میں سے بیشتر موضوعات ایسے ہیں جن پر میری ان سے کھل کر گفتگو ہوا کرتی ہے۔لیکن مطالعۂ میرؔ میں انہوں نے جتنا کچھ بیان کیا ہے،شاید اتنا ہی احاطۂ تحریر میں لانا ممکن تھا۔کتاب کے آخر میں عبداللہ جاوید نے ایک دلچسپ تجربہ کیا ہے۔انہوں نے میر تقی میرکی نظمیں کے عنوان سے ۲۵آزاد نظمیں (ادب،احترام اور معذرت کے ساتھ )پیش کی ہیں۔یہ تجربہ کسی وضاحت کے بغیر پیش کیا گیا ہے۔لیکن مجھے ایسا لگا ہے کہ یہ بعض نظم نگاروں کو ایک رنگ میں پیغام دیا گیا ہے۔اصلاََ جدید نظم کی اردو غزل سے نہ کوئی مخاصمت ہے ،نہ کسی نوعیت کی محاذ آرائی ہے۔دونوں کے اپنے اپنے اور الگ الگ میدان ہیں۔لیکن بعض نظم نگار جو زندگی بھر ایک اچھی اور بڑی نظم نہیں کہہ سکے ،انہوں نے غزل کی مذمت کے ذریعے شہرت حاصل کرنے کا شارٹ کٹ اختیار کر رکھا ہے۔یعنی شاعر تو وہ جدید نظم کے ہیں لیکن ان کی وجہ شہرت ان کی کوئی قابلِ ذکر نظم نہیں ہے بلکہ وجہ شہرت یہ ہے کہ وہ اردو زبان کی ترقی کے لیے بار بار فریاد کرتے ہیں کہ اردو غزل کو دریا برد کر دو،اس سے اردو کا نقصان ہو رہا ہے۔میرا خیال ہے کہ عبداللہ جاوید نے کسی بحث میں الجھے بغیر اس تجربہ کے ذریعے اس قماش کے نظم نگاروں کو بتایا ہے کہ اول تو غزل اور جدید نظم میں کوئی مخاصمت نہیں ہے۔لیکن اگر کسی کوغزل کے امکانات پر شک ہے تو دیکھیں کہ میرؔ کا ہر شعر اپنی جگہ ایک چھوٹی سی آزاد نظم ہے۔یہ خوبی غزل میں تو ہے کہ اس کے اشعار کو کئی نظموں کی طرح پیش کیا جا سکتا ہے لیکن جدید نظم میں اتنی وسعت نہیں ہے کہ کسی نظم کی لفظیات کو جوں کا توں غزل کی ہئیت میں لایا جا سکے۔نمونہ کے طور پرمیرؔ کی یہ نظمیں ملاحظہ فرمائیں۔
حمدیہ
تھا مستعار حُسن سے اس کے
جو نور تھا
خورشید میں بھی
اس ہی کا ذرّہ
ظہور تھا ۱۱؎
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ثباتِ گل
کہا۔۔میں نے کتنا ہے
گل کا ثبات۔۔۔؟
کلی نے
یہ سُن کر تبسم کیا! ۱۲؎
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بارِ دگر جینا
شرط
سلیقہ ہے
ہر ایک امر میں
عیب بھی کرنے کو
ہنر چاہیے
خوف
قیامت کا
یہی ہے کہ میرؔ ہم کو جیا بارِ دگر چاہیے ۱۳؎
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عبداللہ جاوید مطالعۂ میرؔ کے حوالے سے لکھتے ہیں:
’’میرؔ پڑھنے کے اس مرحلے پر میں یہ لکھنے پر مجبور ہو رہا ہوں کہ ’’افسردگیِ سوختہ جاناں‘‘ اور ’’یار مستغنی ہے‘‘ والے اشعار سے اگر میرے ساتھ میرؔ پڑھنے والے کسی صاحب یا صاحبہ کے ذہن و دل میں کوئی ارتعاش نہیں پیدا ہوا تو یہ سمجھنا پڑے گا کہ میں ان کے معاملے میں ناکام ہوگیا ہوں، لیکن میں وثوق کے ساتھ کہتا ہوں کہ میرؔ اپنے کسی پڑھنے والے کو مایوس نہیں کرتے اور خود ہی یہ سکھا دیتے ہیں کہ انھیں کیسے پڑھا جائے۔ پڑھنا شرط ہے،‘‘۱۴؎
عبداللہ جاوید نے قارئین کو اپنے مطالعہ میں شریک کیا ہے،مختلف معاملات پر اپنا موقف بھی پیش کیا ہے لیکن قارئین پر کوئی تنقیدی فیصلہ مسلط نہیں کیا۔ ان کے مطالعہ کا مقصد قارئین کو میرؔ کے مزید مطالعہ کی طرف توجہ دلانا ہے اور اس مقصدمیں وہ کامیاب دکھائی دے رہے ہیں۔
مجھے امید ہے کہ مت سہل ہمیں جانومطالعۂ میرؔ کے سلسلہ کی ایک اہم کتاب ثابت ہو گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات
۱؎ بحوالہ جدید ادب جرمنی شمارہ نمبر ۱۴۔جولائی تا دسمبر ۲۰۰۹ء ص۱۲۶
۲؎ بحوالہ عکاس انٹرنیشنل اسلام آباد۔شمارہ نمبر ۱۹۔مئی ۲۰۱۴ء۔ص۳۵
۳؎ ڈاکٹر جمیل جالبی کی رائے۔مندرجہ فلیپ مت سہل ہمیں جانو۔
مطبوعہ جولائی ۲۰۱۴ء۔ناشر اکادمی بازیافت کراچی
۴؎ ایضاَ ص ۱۴۔۱۵ ، ۵؎ ایضاَ ص۲۱۔۲۲ ،
۶؎ ایضاَ ص۲۵۔۲۶ ، ۷؎ ایضاَ ص۹۲۔۹۳ ،
۸؎ ایضاَ ص۷۶۔۷۷ ، ۹؎ ایضاَ ص۸۱۔۸۲ ،
۱۰؎ ایضاَ ص۹۳ ، ۱۱؎ ایضاَ ص۲۹۹ ،
۱۲؎ ایضاَ ص۳۱۶ ، ۱۳؎ ایضاَ ص۳۱۹ ،
۱۴؎ ایضاَ ص۷۴ ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مطبوعہ عکاس انٹرنیشنل اسلام آباد۔شمارہ نمبر ۲۱۔ستمبر ۲۰۱۵ء
مجلہ’’الماس‘‘۔شاہ لطیف یونیورسٹی۔خیرپور۔شمارہ:۱۵