مت پوچھ فکرِ زیست کی غارت گری کا حال
احساس برف برف تھا مگر بھڑک اٹھا۔۔۔۔۔۔
جھلملاتی روشنیوں والی اس بڑی سی کوٹھی میں عجیب سی چخل پہل تھی آسمان پہ چاند اپنی پوری آب وتاب سے چمک رہا تھا اور زمین پہ وہ رنگ برنگے چمکیلے کپڑوں والی پریاں۔۔۔۔۔۔جو جھوم جھوم کہ زمین کو لرزا رہی تھی۔۔۔۔۔ان کے پیروں کی حرکت نے کسی شکنجے کی طرح زمین کو اپنی گرفت میں لے رکھا تھا اور سامنے بیٹھے ہوۓ وہ مرد جھوم جھوم کے ان کی اس محفل سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔۔۔۔۔۔
یہاں ہر طرف جیسے روشنیاں بکھری ہوٸی تھی یہاں کبھی رات نہیں ہوتی تھی لیکن کوٸی نہیں جانتا تھا جسم کی ان سوداگر عورتوں کے دلوں میں شام کے اتنے گہرے اندھیرے تھے جن اندھیروں نے خواہشوں کا گلا گھونٹ دیا تھا ارمانوں کی قبر بنا دی تھی اور خوابوں کی کرچیاں ان کے دل میں کھب گٸ تھی وہ جیسے کٹھ پتلیاں تھی جس کی ڈور ان کی ضرورتوں کے ہاتھ میں تھی کچھ کی تو ضرورتیں بھی مردہ تھی وہ ذندگی کے دن گن رہی تھی کچھ دو روزہ محبت کا قرض چکانے آٸی تھی۔۔۔۔۔یہاں ہر عورت اپنے گناہوں کا قرض ہی چکانے آٸی تھی
سواۓ اس ایک لڑکی کے جو اس چمکیلے پردے سے جھانک کہ رقص دیکھنے کی ناممکن کوشش کر رہی تھی آنکھوں میں عجیب سی چمک تھی۔۔۔۔۔
رانی جو کہ اس کوٹھے کی ابھرتی ہوٸی طواٸف تھی۔۔۔۔لہک لہک کہ اپنے حسن کہ جلوے بکھیر رہی تھی اور سامنے بیٹھے نشے میں دھت مرد اس منظر میں اس قدر غرق تھے کہ انھیں اردگرد کی ہوش نہیں تھی
رانی پہ نوٹوں کی بارش ہورہی تھی
اور وہ للچاٸی ہوٸی نظروں سے ان نوٹوں کو دیکھ رہی تھی
جب اس کے کندھے سے پکڑ کہ اسے کسی نے کھڑکی سے پیچھے ہٹایا تھا۔۔۔۔
اور وہ پیچھے مڑے بغیر بھی جان چکی تھی کہ وہ ہستی کون ہے
وہ ایک دفعہ پھر پکڑی جاچکی تھی۔۔۔۔۔
اس لیے آنکھیں مینچے پیچھے مڑی تھی۔۔۔۔۔
سامنے چہرے پہ ناراضگی سجاۓ اس کی ماں کھڑی تھی
”آپ پھر یہاں کھڑی ہو آپ کو لاکھ دفعہ منع کیا ہے زرپاش اس کھڑکی میں مت کھڑی ہوا کریں آپ پہ کسی بات کا کوٸی اثر نہیں ہوتا۔۔۔۔۔“وہاں باہر بیٹھے کسی مرد کی آپ پہ نظر پڑ گٸ نا تو وہ کتے کی طرح پیچھے پڑ جاۓ گا۔۔۔۔۔میں پھر آپ کو کس طرح بچاٶں گی
وہ اسے بری طرح جھڑک رہی تھی
اور وہ سر جھکاۓ کھڑی تھی
”بیس سالوں سے ان کے منتے ترلے کیے ہیں پاٶں بھی دھو دھو کر پیۓ ہیں کہ وہ آپ کو اس کام کی طرف نہ لاٸیں آپ پتہ نہیں کیوں میری محنت اکارت کرنے پہ تلی ہو۔۔۔۔“
ان کی آنکھیں جھلملانے لگی
وہ جانتی تھی وہ اس کی ماں ہیں اس پہ ٹھیک طرح سے غصہ بھی نہیں کر سکتی تھی۔۔۔۔
وہ اپنی ماں کی تمام قربانیوں سے واقف تھی
کوٹھے میں رہ کہ کسی جوان لڑکی کی عزت محفوظ رکھنا۔۔۔۔۔کتنا مشکل کام تھا وہ جانتی تھی
”اسی لیے آگے بڑھ کہ انہیں گلے لگا لیا تھا
”اماں جان معذرت۔۔۔۔خدا کی قسم ہم بس رقص دیکھ رہے تھے آپ کو تو پتہ ہے ہم رقص دیکھنے کہ کتنے شوقین ہیں۔۔۔۔۔بس اسی لیے ہمیں معاف کر دیں۔۔۔۔۔ہم آٸندہ آپ کو دکھ نہیں پہچاٸیں گے……“
وہ کان پکڑ کہ شرمندگی سے ان سے معذرت کررہی تھی۔۔۔۔۔
زری اس رقص کی خواہش مت کریں۔۔۔۔۔یہ رقص ہمارے ضمیر کو سلا دیتا ہے ہمیں بے مول کر دیتا ہے یہ بے مول رقص ہماری قیمت لگاتا ہے ہمیں کٹھ پتلی بناتا ہے آپ تو خوش قسمت ہیں کہ اللہ نے اس کوٹھے میں بھی آپ کو پاکیزہ رکھا لوگوں کی گندی نظروں سے بچایا۔۔۔۔۔
وہ اونچے تاج بھرے پلنگ پہ بیٹھ کہ افسوس اور دکھ کی ملی جلی کیفیت میں کہہ رہی تھی۔۔۔۔
اور وہ بھورے بالوں والی لڑکی یہ سوچ رہی تھی کہ کوٹھا اتنی بری جگہ بھی نہیں ہے پھر یہ کیوں بدنام ہے۔۔۔۔۔اور یہ رقص۔۔۔۔۔۔کتنا خوبصورت ہے تو پھر اس کی ماں کیوں اس رقص کے خلاف ہے۔۔۔۔“
بحث کا ارادہ ملتوی کر کے وہ وہی خاموشی سے بیٹھ گٸ۔۔۔۔
”جہاں آرا بیگم ایک نظر اپنی معصوم بیٹی کو دیکھ کہ رہ گٸ۔۔۔۔۔“
وہ کب تک زرپاش کو اس گندی جگہ پہ محفوظ رکھ سکیں گی۔۔۔۔۔۔
یہ سوچیں ایک دفعہ پھر انہیں پریشان کرنے لگی۔۔۔۔۔۔
اب میرے عیب تو مت گنواٶں
مجھے احساس ہے برا ہوں میں
صبح کا سورج ۔۔۔۔۔اس بڑی حویلی پہ اپنی پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا صبح کب کی ہو چکی تھی اب تو گھروں سے دن کے کھانے کی مہک آرہی تھی۔۔۔۔۔
یہ سادہ لوح لوگ اپنے کاموں کو دل و جاں سے انجام دے رہے تھے۔۔۔۔
”ایسے میں بڑی حویلی کے اس عالیشان کمرے میں وہ بکھرے بالوں والا خوبرو نوجوان بے زاری چہرے پہ سجاۓ پلنگ سے نیچے اتر رہا تھا۔۔۔۔۔
ملازم تیسری دفعہ دستک دے کہ جاچکا تھا لیکن۔۔۔۔۔وہ اپنی مرضی سے ہی جاگا تھا۔۔۔۔۔
اب وہ آٸینے کے سامنے کھڑا۔۔۔۔۔بال درست کر رہا تھا۔۔۔۔
چوڑی پیشانی۔۔۔۔۔۔کالے سیاہ بال جو کنگی سے پیچھے کی طرف سیٹ کر رکھے تھے۔۔۔۔۔خوبصورت شہد رنگ آنکھیں۔۔۔۔۔۔مغرور ناک۔۔۔۔۔۔۔اور داٸیں گال پہ پڑا ڈمپل۔۔۔۔۔اس کی خوبرو شخصیت میں اضافہ کر رہا تھا۔۔۔۔
سفید کاٹن کی قمیض شلوار واسکٹ پہنے وہ تیزی سے سیڑھیاں اترتا نیچے کی طرف گیا جہاں سامنے بڑے صوفے پہ میر داد خان بیٹھے تھے۔۔۔۔۔
ایک اچنٹی نظر اس پہ ڈالی۔۔۔۔
ملازمہ کو چاۓ کی ہدایت دیتے ہوۓ وہ میر داد خان کے قریب بیٹھ گیا۔۔۔۔۔۔
حیرت کی بات تھی کہ آج وہ اپنے لاڈلے پوتے سے بات نہیں کر رہے تھے۔۔۔۔۔۔۔
اور وجہ وہ جانتا تھا
”خان۔۔۔۔۔۔لگتا ہے رات کو تاخیر سے واپس آۓ ہیں آپ۔۔۔۔۔“؟
انہوں نے ذومعنی لہجے میں کہا۔۔۔۔۔
وہ چونکا
”جی بس ڈیرے پہ تھوڑا کام تھا۔۔۔۔۔“
اس نے سرسری کہا۔۔۔۔۔
”پوچھ سکتا ہوں کیا کام تھا آپ کو۔۔۔۔۔۔“؟
”دادا جی جب آپ کو علم ہو ہی گیا ہے تو۔۔۔۔۔آپ مجھے کیوں کرید رہے ہیں۔۔۔۔“
وہ بری طرح چڑ گیا تھا۔۔۔۔۔
”کیا آپ نے ملک حق نواز کے بیٹے پہ صرف ایک گھوڑے کی وجہ سے فاٸیرنگ کی ھے۔۔۔۔۔“؟
وہ ابھی تک بے یقین تھے
اس لیے سختی سے بولے۔۔۔۔۔
”نہیں اس کی بدتمیزی کی وجہ سے“
اس نے بھی دو بدو جواب دیا۔۔۔۔۔
”وہاج وہاج آپ کو ہماری ایک بات سمجھ نہیں آتی کیا۔۔۔۔۔کب آپ یہ ضد چھوڑیں گے اپنی۔۔۔۔۔۔“؟ یہ گاٶں کے لوگ ہمارے ملازم نہیں ہیں وہاج محبت پیار کے بھوکے ہیں۔۔۔۔۔سختی برداشت نہیں کرتے ہماری عزت کرتے ہیں آپ کی ان غلطیوں کا حمیازہ ہم کتنی بار بھگت چکے ہیں۔۔۔۔ اب کی بار پھر بگھتے گے ۔۔۔۔“
وہ بہت پریشان نظر آرہے تھے اس لیے اپنے لاڈلے پوتے کو پیار سے سمجھا رہے تھے
جسے وہ لاپرواٸی سے سن رہا تھا۔۔۔۔
ان کی پوری بات سن کہ وہ تھوڑا ان کے قریب ہوا۔۔۔۔۔
آنکھوں میں تپش لے کہ انھیں دیکھنے لگا۔۔۔۔۔
”خان جی۔۔۔۔۔یہاں لوگ ہماری نہیں۔۔۔۔نوٹوں کی عزت کرتے ہیں یہ دنیا لوگوں کی نہیں نوٹوں کی پجاری ہے اگر آپ کے پاس یہ دولت نہ ہوتی تو۔۔۔۔۔آپ بس نام کہ خان رہ جاتے ۔۔۔۔۔“
وہ تمسخرانہ ہنسا۔۔۔۔
وہ سفید بالوں والا شخص منہ کھولے اپنے پوتے کی باتیں سن رہے تھے۔۔۔۔
وہ اس کی اس حد تک صاف گوٸی سے بہت تنگ تھے۔۔۔۔اور آج تو اس نے حد ہی کردی تھی
اپنی غلطی وہ شروع ہی سے نہیں مانتا تھا۔۔۔۔تو آج کیوں مانتا
ہمیشہ کی طرح ان کا منہ بند کروا کہ ٹیبل پہ پڑی انہی کی گاڑی کی چابیاں اٹھا کہ باہر دروازے کی طرف بڑھ گیا
وہ جانتے تھے وہ اب دو تین دنوں بعد ہی گھر واپس آۓ گا۔۔۔۔۔
وہ بس سر جھٹک کہ رہ گۓ ۔۔۔۔۔
کچھ اس وجہ سے بھی مشہور ہم ذیادہ ہوۓ ۔۔۔
کہ صرف عیب ہی گنواۓ گۓ ہمارے
لہلہاتی کھیتوں کو چیرتی ہوٸی یہ گاڑی۔۔۔۔اس کچے پکے سڑک پہ رواں دواں تھی وہ بے دھیانی سے گاڑی ڈراٸیو کرتے ساتھ ہی فون پہ کسی سے بات کر رہا تھا
سپاٹ چہرہ لیے جیسے کسی کو ہدایت دے رہا تھا۔۔۔۔۔
”ہاں نگار بیگم کوٹھے پہ جو بھی طواٸفیں سب سے اچھا رقص کرتی ہیں بس انھیں بھیج دیجیۓ۔۔۔۔۔“
وہ ایک ہاتھ اسٹیرنگ پہ رکھ کہ جیسے حکم دے رہا تھا
”بس آج کی شام کے لیے۔۔۔۔۔“
دور اس جھلملاتی روشنیوں سے مزین اس کوٹھے میں نگار بیگم اپنی ازلی شان و شوکت لیے۔۔۔۔۔لبھانے والے انداز میں باتوں کا جواب دے رہی تھی۔۔۔۔۔
”ارے خان جی۔۔۔۔۔آپ کا حکم سر آنکھوں پر ایسی لڑکیاں بھیجوں گی کہ زمین پہ رقص کہ ایسے جلوے بکھیرے گی۔۔۔۔۔کہ سب لوگ عش عش کر اٹھیں گے۔۔۔۔۔“
وہ ایک ہاتھ سے فون درست کرتی منہ سے پان تھوکتے ہوۓ چمک کر بولی۔۔۔۔۔
گاڑی چلاتے ہوۓ اس نے بے زاری سے ان کے تعریفوں کے پل سنے تھے۔۔۔۔۔“؟
خود تو وہی ہونگے نا آپ رات میں۔۔۔۔۔“؟
نگار بیگم نے تفتیشی لہجے میں پوچھا تھا۔۔۔۔
”نھیں میں کسی کام سے دوسرے گاٶں جارہا ہوں آتے آتے رات ہوجاۓ گی آپ لڑکیوں کو بھیج دیجیۓ گا۔۔۔۔میرے دوست وہی ہونگے۔۔۔۔“
وہی ازلی مغرور لہجہ۔۔۔۔
نگار بیگم نے برا سا منہ بنا کہ فون کو دیکھا۔۔۔۔
پھر مصنوعی خوشامد لہجے میں سموتے ہوۓ رضا مندی کا اظہار کر ڈالا۔۔۔۔
”اب وہ جہاں آرا کو آوازیں دے رہی تھی۔۔۔۔۔“
جہاں آرا بوتل میں سے نکلے جن کی طرح حاضر ہوٸی تھی۔۔۔۔
”جی نگار بیگم حکم کیجیۓ۔۔۔۔۔
ان کے سامنے چمکیلی ساڑھی ذیب تن کیے۔۔۔۔۔دبلی پتلی لمبے بالوں والی تیکھے نقوش والی عورت طابعداری سے کھڑی تھی۔۔۔۔۔
انہوں نے نحوت سے اسے دیکھا تھا
لڑکیوں کو تیار کرو۔۔۔۔
رات کو خان جی کی حویلی میں رقص کے لیے جانا ہے
۔۔۔
تیکھے لہجے میں کہتے ہوۓ وہ رخ موڑ گٸ۔۔۔۔
اور وہ سر ہلا کہ باہر نکل گٸ۔۔۔۔
وہ ان کی ناراضگی سمجھتی تھی
لیکن جو وہ چاہتی تھی ایسا ہونا ناممکن تھا۔۔۔۔
ساری عمر کی خدمت کا انہیں یہ صلہ مل رہا تھا یہی سوچ کہ ان کی آنکھیں بھر آٸی تھی۔۔۔۔۔
آنسو چھپاتی۔۔۔۔اب وہ لڑکیوں کو ہدایت کر رہی تھی جو بہت طابعداری سے وہ سن رہی تھی
دور اس گاٶں میں اس لڑکے نے گاڑی کی سپیڈ بڑھا دی تھی۔۔۔۔۔
دیکھا نہ کسی نے بھی پلٹ کہ میری طرف
محسن میں بکھرے ہوۓ شیشوں کی ردا تھا
چمچماتی آنکھوں کو خیرہ کرتی روشنیوں سے مزین اس کوٹھے میں تیاریاں اپنے عروج پہ تھی۔۔۔۔۔ساری لڑکیاں دل و جاں سے تیاریوں میں مشعول تھی۔۔۔۔۔خان حویلی جانے کا سب کے دل میں ارمان تھا۔۔۔۔۔
ایسے میں صرف وہ پلنگ پہ گھٹنوں کو باہم ملاۓ۔۔۔۔۔گرد ہاتھوں کا داٸرہ بناۓ۔۔۔۔۔تھوڑی ٹکاۓ منہ پھلا کہ بیٹھی تھی۔۔۔۔۔
شیشے کے سامنے کھڑی میک اپ کو آخری ٹچ دیتی جہاں آرا۶ نے وہی شیشے میں اپنے پیچھے بیٹھی زرپاش کو ایک نظر دیکھا۔۔۔۔۔
پھر ایک ادا سے پیچھے مڑی۔۔۔۔۔
”کب تک ناراض رہنے کا اور بھوک ہڑتال کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں آپ زری۔۔۔۔“؟
وہ وہ بالوں کو سینے پہ پھیلاۓ۔۔۔۔۔۔اس کے بالکل پاس پلنگ پہ بیٹھ گٸ۔۔۔۔
”جب تک آپ ہماری بات نہیں مان لیتی ہے۔۔۔“؟
اس نے نروٹھے لہجے میں کہا۔۔۔۔۔
”ضد مت کریں زرپاش جو آپ چاہتی ہیں ویسا ممکن نہیں ہے۔۔۔“؟
انہوں نے سختی سے کہا تھا۔۔۔۔
”کیوں ممکن نہیں ہے اماں جان۔۔۔۔ہم بھی انسان ہیں ہمارا بھی دل چاہتا ہے۔۔۔۔۔کہیں جانے کو۔۔۔۔۔ہمیں تو یہ بھی نہیں پتہ باہر کی دنیا کیسی ہے۔۔۔۔۔بس کالے شیشوں والی گاڑی میں ہمیں سکول اور کالج بھیجا جاتا تھا اسی میں واپس لایا جاتا تھا آپ بتاٸیں ہم انسان نہیں ہیں کیا“؟ ہمارا بھی دل چاہتا ہے کھلی فضا میں سانس لیں باہر کی دنیا دیکھیں اور کون سا اکیلا جانے کی ضد کر رہے ہیں آپ کے ساتھ جانا چاہتے ہیں۔۔۔“
وہ یاسیت سے کہتے ہوۓ اب باقاعدہ ہچکیوں سے رونے لگی تھی
اسے اپنی ماں کی کمزوری پتہ تھی اور وہ یہی حربہ آزماتی تھی۔۔۔۔۔۔
آج بھی اس کا تیر نشانے پہ جاکے لگا تھا
وہ تڑپ اٹھی تھی۔۔۔۔
”اچھا آپ روٸیے تو مت لے چلتے ہیں ہم آپ کو ساتھ ۔۔۔۔
وہ کمزور لہجے میں بولی۔۔۔۔۔
وہ یکدم خوش ہوٸی
لیکن اگلے ہی جملے پہ اس کی خوشی معدوم ہوٸی۔۔۔۔۔
”لیکن ہماری ایک شرط ہے۔۔۔۔“؟
”آپ گاڑی سے باہر نہیں نکلیں گی“
انہوں نے سختی سے تلقین کی
وہ آنسو پونچھتی خوشی سے ان سے لپٹ گٸ۔۔۔۔۔
”آپ فکر نہ کریں جیسا کہیں گی ویسا ہی کروں گی۔۔۔۔۔“
وہ ان کا گال چومتی اٹھ کھڑی ہوٸی
اور وہ ٹھیک سے مسکرا بھی نہ پاٸی
پتہ نہیں وہ اسے لے کہ کیوں اتنے خدشات کی شکار تھی۔۔۔۔۔
شاید وہ خوبصورت تھی
یا کوٹھے میں رہتی تھی۔۔۔۔“؟
وہ سمجھ نہیں پارہی تھی۔۔۔۔۔
جس وقت وہ سب اس سبز و شاداب گاٶں میں پہنچے اس وقت شام کا ہلکا ہلکا اندھیرہ پھیل رہا تھا گاڑی فراٹے بھرتے ہوۓ آگے بڑھتی جارہی تھی پردے سے جھلکتی دو خوبصورت آنکھیں للچاٸی ہوٸی نظروں سے ہر چیز کو دیکھ رہی تھی
یہ گاڑی کا شیشہ نیچے کر کے باہر کے مناظر کو دیکھنے کا اس کا برسوں کا شوق پورا ہورہا تھا وہ خوش کیوں نہ ہوتی۔۔۔۔۔۔
ساتھ بیٹھی جہاں آرا۶ اسے دھیمی آواز میں ہدایات دے رہی تھی
اور نگار بیگم یہ سوچ سوچ کہ حیران ہو رہی تھی کہ جس لڑکی کو اس نے کبھی کمرے سے باہر نہیں نکالا آج کوٹھے سے باہر لے آٸی وہ بھی خانوں کی حویلی میں۔۔۔۔
خیر سن گلاسز ٹھیک آنکھوں سے اتار کہ ڈیش بورڈ پہ رکھ کہ سر پیچھے کی طرف ٹکا کہ ذہن میں حساب کتاب کرنے لگی۔۔۔۔۔
پیچھے بیٹھی زرپاش اپنی ماں کی ہدایات کو سنی ان سنی کرتی باہر دیکھ رہی تھی۔۔۔۔
جس وقت ان کی گاڑی ڈیرے پہنچی رات کے ساۓ گہرے ہو چکے تھے۔۔۔۔۔۔جہاں آرا۶ گاڑی سے اترتے وقت بھی عجلت میں اسے ہدایات دے رہی تھی اور وہ محض سر ہلا رہی تھی۔۔۔۔۔
گاڑی کو حویلی سے بہت پیچھے کھڑا کیا گیا تھا تاکہ کوٸی زرپاش کو دیکھ نہ پاۓ۔۔۔۔۔
جہاں آرا۶ کا بس چلتا تو اسے اکیلا چھوڑ کے نہ جاتی۔۔۔۔۔
لیکن مجبوری تھی اندر سب کچھ اسی نے سنبھالنا تھا۔۔۔۔۔
”جہاں آرا۶ اب چلیۓ بھی۔۔۔۔۔۔اندر سب انتظار کر رہے ہونگے۔۔۔۔۔“زری بچی نہیں ہیں خود کو سنبھال لیں گی
تیکھی نظروں سے زری کو دیکھ کہ جتاتے ہوۓ کہتی آگے بڑھ گٸ۔۔۔۔
جہاں آرا۶ بھی منہ ڈھانپ کہ۔۔۔۔۔جانے لگی پھر پلٹی
”زرپاش ۔۔۔۔۔اگر مجھے دیر بھی ہو جاۓ تو آپ گاڑی سے باہر مت نکلیۓ گا۔۔۔۔۔۔چہرہ ڈھانپ کہ رکھیۓ گا۔۔۔۔۔۔۔“ٹھیک ہے اور اپنا بہت بہت خیال رکھیۓ گا۔۔۔۔۔“
وہ اس کا ماتھا چوم کہ اب ڈراٸیور کو ہدایات دے رہی تھی
اور زرپاش کا دھیان کہیں اور تھا۔۔۔۔۔
میں سوچتا ہوں شہر کے پتھر سمیٹ کر
وہ کون تھا جو راہ کو پھولوں سے ڈھک گیا
”اس بڑے سے ڈیرے کے اندر۔۔۔۔۔رقص پورے آب و تاب کے ساتھ جاری تھا ہنسی قہقہے روشنیاں کیا کچھ نہیں تھا لیکن پتہ نہیں یہ سب مصنوعی کیوں تھا۔۔۔۔۔۔
اور وہ کتنی دیر سے باہر بیٹھی بور ہورہی تھی سوچ رہی تھی وہ نہ ہی آتی یہاں۔۔۔۔۔۔
یوں قید ہو کہ تو نہ بیٹھی ہوتی وہ تو گاٶں گھومنے کی غرض سے آٸی تھی اور اب وہ باہر گھومنا تو دور باہر بھی نہیں جاسکتی تھی
اسے اپنے نصیب پر جی بھر کہ رونا آیا تھا
بے دھیانی سے جیسے ہی رخ موڑا ڈراٸیور کو فرنٹ سیٹ پہ اونگھتے پایا پھر سے باہر دیکھنے لگی۔۔۔۔
یکدم اس کی سنہری آنکھیں چمکنے لگی
پھر پلٹی۔۔۔۔۔
ایک نظر دیکھا ہولے سے ہنسی۔۔۔۔۔
”اگر خدا موقع دے تو کون کافر ہے جو اس موقع کو جھٹلاۓ۔۔۔۔۔۔۔“
اور آرام سے دروازہ کھولا پلٹ کہ ایک نظر دیکھا وہ ابھی بھی سو رہا تھا اور ان کے واپس آنے کا امکان نظر نہیں آرہا تھا موقع اچھا تھا۔۔۔۔۔
شام کے اس پہر یہ جگہ عجیب خوفناک سا منظر پیش کر رہی تھی لہلہاتے کھیت اندھیرے میں ڈوبے ہوۓ دیکھاٸی دیتے تھے یہ مغرب سے ایک دو گھنٹے بعد کا وقت تھا ابھی۔۔۔۔۔۔۔چاند بھی نہیں نکلا تھا اکا دکا گھروں کے لیمپ روشن تھے
وہ کسی چیز کو خاطر میں نہ لاتے ہوۓ ڈوپٹے سے منہ چھپاۓ آگے بڑھتی جارہی تھی
ٹھنڈی ٹھنڈی ہواٸیں۔۔۔۔۔بہت عرصے بعد اس نے کھل کہ سانس لی تھی
وہ بہت اچھا محسوس کر رہی تھی۔۔۔۔۔
آج اسے اندھیرے سے خوف نہیں آرہا تھا۔۔۔۔۔
اس خوشی میں وہ یہ بھی بھول گٸ تھی کہ وہ گاڑی سے بہت آگے نکل آٸی ہے۔۔۔۔
ہوش اسے تب آیا جب ۔۔۔۔وہ کسی چیز سے بری طرح ٹکراٸی۔۔۔۔۔اس کا پاٶں بری طرح مڑا تھا اور شاید کسی چیز نے کاٹ بھی لیا تھا
اس کے منہ سے گھٹی گھٹی چیخ نکلی۔۔۔۔۔
اندھیرے میں وہ ٹھیک طرح سے سمجھ نہیں پارہی تھی کہ وہ بیٹھی ہوٸی کدھر ھے
سامنے سے آتے تیز رفتار گاڑی کی ہیڈلاٸٹس کی روشنی میں اسے پتہ چلا کہ وہ کچی سی سڑک پہ گری ہوٸی ہے۔۔۔۔۔
اس نے دہشت کے مارے آنکھوں پر ہاتھ رکھ لیا
پتہ نہیں کیوں اسے اپنی موت اتنے قریب نظر آٸی۔۔۔۔
۔
گزرا ہے شب کو دشت سے شاید وہ پردہ دار
ہر نقش پاکے ساتھ ردا کی لکیر تھی
”ارے شاہ ویز خان جی ۔۔۔۔۔وہاج خان ہمیں بلا کہ خود کہاں چلے گۓ ہیں۔۔۔۔“؟
رانی نے پاٶں سے پاٸل کھولتے ہوۓ تلاشتی نظروں سے وہاج کے ایک دوست سے پوچھا تھا۔۔۔۔۔
رقص کے دوران اس کو نہ پا کر۔۔۔۔اس کا سارا مزہ اور موڈ خراب ہو گیا تھا۔۔۔۔۔
”ارے رانی جی آپ کو تو اس کا پتہ ہے نا کہاں کسی کی بات سنتا ہے کہہ رہا تھا جلدی آجاٶں گا دیکھیۓ نا گھڑی سات کا ہندسہ عبور کر گٸ اور وہ ابھی تک نہیں پہنچے۔۔۔۔۔“
اس نے مدہوش لہجے میں جواب دیا
رانی نے مصنوعی مسکراہٹ چہرے پہ سجا کہ محض سر ہلا دیا تھا۔۔۔۔۔
”اور آپ کبھی ہم پہ بھی نظریں کرم کر دیا کریں مانوہاج جیسے خوبرو نا سہی لیکن کم ہم بھی نہیں ہیں۔۔۔۔“
اس کی لمبی سیاہ زلفوں میں چہرہ چھپاۓ وہ حوس بھری نظروں سے اس کے سراپے کو گھور رہا تھا
اور وہ جیسے کسی پتھر کے مجسمے کی طرح بیٹھی تھی
اور دور بیٹھی جہاں آرا۶ دکھ سے یہ منظر دیکھ رہی تھی۔۔۔۔
انہیں اپنی بیٹی کی فکر کھاۓ جارہی تھی۔۔۔۔
اور نگار بیگم رقص کرتی لڑکی پہ پیسوں کی بارش ہوتے دیکھ کہ پھولے نا سما رہی تھی
پیسہ اتنا قیمتی تھا کہ اس کے سامنے کسی کا جسم کسی کے احساسات سستے تھے۔۔۔۔
”اسی وقت دور اس کچی سڑک پہ اس کے بالکل قریب آکہ کسی نے بریک ماری تھی
ٹاٸروں کی چرچراہٹ کی آواز سے اس نے سر اٹھایا تھا
گاڑی کا دروازہ کھلا تھا اور کوٸی باہر نکلا تھا
وہ مدہم روشنی میں یہ تو سمجھ گٸ تھی کہ سامنے کوٸی مرد ہے لیکن کتنی عمر کا ہے یہ اندازہ لگانا مشکل تھا۔۔۔۔۔
گاڑی کی ہیڈ لاٸٹس آن تھی
جب وہ قریب آیا تو وہ اس کا چہرہ واضح ہوا
چہرہ پہ غصہ واضح تھا
”محترمہ۔۔۔۔۔آپ کو مرنے کا اتنا ہی شوق ہے تو۔۔۔۔۔۔کسی کنویں میں چھلانگ لگا دیں یوں راستے میں نہ بیٹھیں ابھی آپ کا ایکسیڈنٹ ہو جاتا
سر جھکا کہ بیٹھی اس لڑکی کو دیکھ کہ وہ روکھے لہجے میں بولا
تو وہ ہچکیوں سے رونے لگی وہ سر ابھی تک جھکا رکھا تھا
”اب نیا ڈرامہ شروع ۔۔۔۔۔“
کون ہیں آپ یہاں کیوں بیٹھی ہیں۔۔۔“؟
وہ اسے روتا دیکھ کہ ذرا نرم پڑ گیا
وہ خاموش رہی
اسے خاموش دیکھ کہ وہ چڑ گیا
اس لیے اس بار ذرا اکتاۓ ہوۓ لہجے میں کہا
”محترمہ آپ مجھے بتاٸیں آپ کون ہیں ورنہ راستے سے ہٹ جاٸیں۔۔۔“
اسی لمحے اس نے سر اٹھایا تھا وہ اسے دیکھ کہ مبہوت رہ گیا تھا
گول چہرہ سفید رنگت۔۔۔۔۔بڑی بڑی سنہری آنکھیں تیکھی ناک عنابی ہونٹ۔۔۔۔۔پاٶں کو چھوتا کالے رنگ کا فراک۔۔۔۔۔اس کی خوبصورتی میں اضافہ کر رہا تھا دوپٹہ البتہ سر پہ ٹکا رکھا تھا چہرے پہ آنسٶں کے نشان تھے اور کاجل گال پہ بہہ گیا تھا
وہ وہی کھڑا یہ سوچ رہا تھا کوٸی اتنا خوبصورت کیسے ہو سکتا ہے
اسی لمحے اس کے دل میں اس معصوم لڑکی کے لیے ہمدردی جاگی۔۔۔۔۔
وہ اپنے سفید لباس کی پرواہ نہ کرتے ہوۓ اس کے قریب بیٹھا۔۔۔۔۔
اس نے چونک کہ اسے دیکھا۔۔۔۔
”کیا ہوا۔۔۔۔“؟
اس نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوۓ پیار سے پوچھا۔۔۔۔۔
تو وہ ایک دفعہ پھر رونے لگی
”ہم اپنے گھر کا راستہ بھول گۓ ہیں۔۔۔۔اور ہمارا پاٶں بھی زخمی ہو گیا ہے۔۔۔۔۔شاید کسی کیڑے نے کاٹ لیا ہے ہمیں بہت ڈر لگ رہا ہے۔۔۔۔۔“
وہ پھر دونوں ہاتھوں میں چہرہ چھپا کہ رونے لگی
دیکھاٸیۓ اپنا پاٶں۔۔۔۔۔؟
ہیڈلاٸٹس کی مدہم روشنی میں اس نے دیکھا اس کے پاٶں میں کانٹا چبھا ہوا تھا
اس نے اس کا پاٶں اپنی گود میں رکھا
اس لمحے کوٸی اسے دیکھ لیتا تو ہر گز یقین نہ کرتا کہ یہ وہی مغرور انسان ھے
اسے خود یقین نہیں آرہا تھا وہ ایسا کیوں کر رہا ہے۔۔۔۔
پاٶں سے کانٹا نکالا تو اس نے ہاتھ پکڑ کہ اسے روکنا چاہا۔۔۔۔۔
”درد ہو گا مجھے اس نے معصومیت سے کہا
تو وہ دھیرے سے مسکرایا
”نہیں ہو گا “
ساتھ ہی اس کے نازک پاٶں سے کانٹا نکالا۔۔۔۔۔
وہ ہلکا سا سسکی۔۔۔۔
پھر جیب میں سے رومال نکال کہ اس کے پاٶں پر باندھا۔۔۔۔
اور اٹھ کھڑا ہوا
آٸیں میں آپ کو گھر چھوڑ دوں۔۔۔۔
”کچھ تو یاد ہو گا آپ کو“؟
اس نے ہاتھ اس کی طرف بڑھاتے ہوۓ کہا
پہلے وہ ہچکچاٸی پھر اس کا ہاتھ تھام کہ اٹھ کھڑی ہوٸی
اس نے دروازہ کھول کہ اسے بیٹھایا۔۔۔۔۔
اور خود ڈراٸیونگ سیٹ سنبھال لی
اب وہ گاڑی چلا رہا تھا
اور وہ اپنی انگلیاں مڑوڑ رہی تھی
ڈراٸیور جاگ گیا ہو گا اماں جان کو بھی پتہ چل گیا ہوگا
وہ ذہن میں سوچے جارہی تھی۔۔۔۔
کوٸی نشانی بتاٸیۓ گھر کی یا والد کا نام
وہ سنجیدگی سے ونڈ اسکرین کے باہر دیکھتے ہوۓ بولا تو وہ چونکی
”جی میں کسی کے گھر مہمان آٸی ہوں۔۔۔۔۔جو وہاج خان کا ڈیرہ ہے نا۔۔۔۔۔۔“؟اس کے قریب ہی گھر ہے۔۔۔۔“
اس نے ناسمجھی میں بولتے ہوۓ جیسے ہی اس کی طرف دیکھا تو وہ مسکرا رہا تھا
وہ اس کی اس مسکراہٹ کا مطلب نہ سمجھ پاٸی۔۔۔۔۔
اوہ اچھا۔۔۔۔۔“
اس نے بھی ذیادہ بحث نہ کی
شناسا جگہ کو دیکھ کر وہ چہکی۔۔۔۔۔
بس یہی روک دیجیۓ۔۔۔۔۔۔
”یہاں ہے آپ کا گھر“؟
اس نے سر باہر نکال کہ ایک دو گھروں کو دیکھتے ہوۓ کہا۔۔۔۔۔
”آٸیں میں۔۔۔۔۔۔آپ کو چھوڑ دوں۔۔۔۔“؟
وہ ڈراٸیونگ سیٹ سے اترنے لگا
”نہیں میں خود چلی جاٶں گی۔۔۔۔۔“ چاچا پتہ نہیں کیا سمجھیں بہت شکریہ آپ کا۔۔۔“
وہ تیزی سے شکریہ ادا کرکے اترنے لگی
جب اس نے اسے پکارا
”آپ کا نام۔۔۔۔۔“؟
مسکراتے ہوۓ سوال کیا گیا تھا
اور وہ سوچ رہی تھی سچ بولے یا جھوٹ۔۔۔۔۔؟
زرپاش۔۔۔۔۔“
جلدی سے کہہ کہ دوپٹہ درست کرتی لڑکھڑاتے قدموں سے وہ آگے بڑھ کہ اندھیرے میں وہ غاٸب ہو گٸ ۔۔۔۔
و
وہاج کی نظروں نے دور تک اس کا پیچھا کیا تھا
اسی لمحے اس کی نظر اپنی گاڑی میں گری پاٸل پر پڑی
وہ یقیناً زرپاش کی تھی
اٹھا کہ ایک نظر پاٸل کو دیکھا۔۔۔۔۔اور مسکرا دیا۔۔۔۔