ماضی
“مت کرو مجھے اپنا اتنا عادی کہ پھر گزارا مشکل ہو جائے۔۔” ایمان نے کہا تھا۔۔
“کیوں بھئ ایسی بھی کیا مصیبت آن پڑی ہے کہ تمھیں میرے بغیر گزارا کرنا ہے۔۔؟” سر صوفے کی پشت سے ٹکائے وہ دور غیر مرئی نکتے کو گھورتی بیتے کل کو یاد کر رہی تھی۔۔ محض چند منٹوں کا کھیل تھا اور اس کا سب کچھ لٹ گیا تھا۔۔ اس کا کشکول خالی رہ گیا تھا۔۔ اسے شاہ کی زندگی چاہئے تھی مگر اسے رب کے در سے خالی ہاتھ لوٹایا گیا تھا۔۔ الله نے اپنے بندے کو اپنے پاس بلایا تھا جیسا کہ شاہ وعدہ کر کہ آیا تھا، مگر ایمان سے کیا ہر وعدہ آج ٹوٹ گیا تھا۔۔
اس نے آنکھیں موند لیں۔۔ ذہن کے پردے پہ شاہ کی تصویر ابھری۔۔ وہ منزل کی جانب رواں دواں تھا۔۔ گاڑی کی فرنٹ سیٹ پہ بیٹھے، منہ میں کچھ چباتا، پہلو میں بیٹھے شخص سے باتوں میں مگن تھا۔۔ گاہے بگاہے وہ دھیما سا ہنستا۔۔
“ایمان مجھ سے ملنا چاہتی تھی۔۔ میں اسے انکار نہیں کر سکتا تھا۔۔” منہ میں کچھ چباتے اس نے محبت سے پاش لہجے میں کہا تھا۔۔ پہلو میں بیٹھا حمزہ شرارتی سا ہنس دیا۔۔
“محبت کی بلندیاں تو دیکھو ذرا۔۔” شاہ اس پہ اچٹتی نگاہ ڈالے مسکرایا تھا۔۔ “تو اک کام کر اب شادی کر کہ ہی وآپس لوٹیں۔۔ رخصتی کے بعد۔۔” وہ اسے لتاڑ رہا تھا۔۔ شاہ خفیف سا ہوتا مسکرایا۔۔
“شرم کرو حمزہ۔۔” دفعتاً تیز روشنی اس کی آنکھوں سے ٹکرائی۔۔ “افففف خدایا۔۔” آنکھیں چندھیا گئیں۔۔ گاڑی تیز رفتار ٹرک سے ٹکراتی ہوا میں کلابازی کھاتی زمین پہ آ گری۔۔ شاہ کا وجود ادھ مواہ سا زمین پہ ڈھلک گیا۔۔ ناک اور سر سے خون بھل بھل کر زمین پہ بہہ رہا تھا۔۔ آنکھوں کے مقابل منظر دھندلانے لگا۔۔ اس پہ غنودگی چھانے لگی۔۔
“نہیں گھر آ جاؤ۔۔ میں تمھیں دیکھنا چاہتی ہوں۔۔ سننا چاہتی ہوں۔۔ شاہ مجھے لگ رہا ہے کہ کچھ برا ہونے والا ہے۔۔” شاہ کی سماعتوں سے ایمان کی بھیگی آواز ٹکرائی۔۔
“یا الله۔۔” شاہ کے ہونٹ کپکپائے۔۔ “یا الله۔۔” اس کا لہجہ بھیگا۔۔ نگاہوں کے مقابل ایمان کا مسکراتا چہرہ رینگ گیا۔۔ منظر دھندلانے لگا۔۔ درد کی شدت سے آنکھیں بند ہونے لگیں۔۔ “شاہ مت جاؤ۔۔” آنکھ کا کنارہ بھیگا۔۔ سرد آہ بھرتے شاہان قمرالحق نے اپنی آخری سانس لی۔۔
ایمان کا وجود اک جانب کو ڈھلک گیا۔۔ “ایمان۔۔” پہلو میں بیٹھی طاہرہ بیگم نے اسے پکارا۔۔ احمد صاحب دھوڑے آئے۔۔ ڈاکٹر کو بلایا گیا۔۔ اس کا معائنہ کیا گیا۔۔ فاطمہ بیگم سکتے کی کیفیت میں گھری دروازے کو ٹٹکی باندھے دیکھ رہیں تھیں۔۔ قمر چوکھٹ پہ کھڑے اپنے بیٹے کے منتظر تھے۔۔ وہ جو آج اک عرصے بعد لوٹنے والا تھا، آج اپنا وعدہ نبھا رہا تھا۔۔ شاہ آ رہا تھا مگر ہسپتال کی گاڑی میں۔۔ اس کے والدین اس کے وجود کو دیکھ سکتے تھے مگر اس کی روح کو محسوس کرنے سے قاصر تھے کہ وہ اس جہاں میں پرواز کر چکی تھی کہ جہاں سے لوٹ آنا ناممکن تھا۔۔
یک دم ایمبولینس کے سائرن کی آواز سنائی دی۔۔ سٹریچر کے گھسیٹے جانے کی آواز۔۔ عورتوں کے بین۔۔ چیخ وپکار۔۔ عجب وہشت کا سا سماں تھا۔۔
“ان کو رلائیں۔۔ اگر یہ یونہی رہیں تو انکی صحت پہ اثرانداز ہوگا۔۔” بستر پہ چت لیٹی ایمان چھت کو گھور رہی تھی۔۔ سپاٹ سے تاثرات تھے۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کو مطلع کر رہے تھے جو بمشکل خود کو سمبھالے کھڑی تھیں۔۔ “آپ انہیں باہر لے جایئں۔۔ شاید شاہان کو دیکھ کر یہ اپنے حواسوں میں وآپس لوٹ آئیں۔۔” سر کو خم دیتے طاہرہ اسے کندھوں سے تھامتے بمشکل کھڑا کیا۔۔ “چلو بیٹا۔۔ شاہ کو دیکھ لو۔۔”
“آخری بار؟؟؟” سپاٹ سے انداز میں پوچھا گیا۔۔ قدم اٹھ رہے تھے۔۔ طاہرہ نے خاموشی کا لبادہ اوڑھ لیا۔۔ ایمان کو جواب کی توقع بھی نہ تھی۔۔ چوکھٹ میں کھڑی وہ لڑکھرائی تھی۔۔ نگاہ شاہ کے مکمل سراپے سے ٹکرائی۔۔۔ پٹیوں میں جکڑا چہرہ دیکھ اسے وہشت سی ہوئی۔۔ سانسیں مدھم ہونے لگیں۔۔ دل کا درد بڑھنے لگا۔۔ شاید ایمان احمد کی کیفیت بیان کرنا لفظوں کے بس کی بات نہ تھی۔۔
ایمان نے اپنا پہلا قدم اٹھایا۔۔
(وہ شاہ کے کمرے میں کھڑی جہازوں کو دیکھ رہی تھی۔۔ اس نے ہاتھ بڑھاتے سب سے خوبصورت جہاز تھاما تھا۔۔ “تم نے اسے کیوں پکڑا؟؟؟؟” عقب سے شاہان کی آواز آئی تھی۔۔ وہ اس سے کھلونا جھپٹ رہا تھا۔۔ ایمان نے اکتا کر اسے فرش پہ دے مارا۔۔ جہاز فرش سے ٹکراتا ریزہ ریزہ ہو گیا۔۔ ٹھیک ایمان کے دل کی ماند۔۔)
بمشکل اگلا قدم بڑھایا۔۔
آنکھ کا کنارہ بھیگا۔۔
وہ اس کے مقابل تھا۔۔
مگر ایمان اسے محسوس کرنے سے قاصر تھی۔۔
کہ دونوں کی روحیں آج جدا ہو چکی تھیں۔۔
(دروازہ کھلا تو نگاہیں شاہ سے ٹکرائیں۔۔ “وہ۔۔ تمہاری اردو کی نوٹ بک چاہئے تھی۔۔” ایمان نے اپنے آ موجود ہونے کی وجہ بیان کی۔۔ دوسری جانب شاہ کے روم روم میں سکون کی لہر سی ڈھور گئی۔۔ دشمن مدد مانگنے آئی تھی۔۔ “واٹ؟؟؟میرا ہوم ورک تم کر کہ دو گی؟؟؟” ابرو اچکائے وہ فرضی سختی لاتا کہہ رہا تھا۔۔)
لب ہلے تھے۔۔
سوکھے ہونٹوں پہ زبان پھیری۔۔
ایمان نے آنکھیں موند کر کھولیں۔۔
مزید اک قدم بڑھایا۔۔
(دونوں کو عین آنکھ کر قریب چوٹ لگی تھی۔۔ وہ اک دوسرے کے مقابل بیٹھے تھے۔۔ شاہان نے اسے عجوبہ کہا تھا۔۔ ایمان کے تو سر پہ لگی تلوؤں پہ بھجی تھی۔۔ کشن اٹھاتے اسنے نشانہ باندھا تھا۔۔ وہ بروقت پیچھے ہٹتا اسکا نشانہ ناکامیاب بنا گیا تھا۔۔ سر جھٹکتے وہ اک دوسرے کی صورت دیکھے ہنستے گئے۔۔)
پانچواں قدم اٹھایا۔۔
قدم من من بھر کہ ہو گئے تھے۔۔
دل کا بوجھ بڑھتا جا رہا تھا۔۔
(ان کے رشتے کی بات چل رہی تھی۔۔ ایمان متزبزب سی کمرے میں ٹہل رہی تھی جب اسے شاہ کی کال موصول ہوئی۔۔ “آئی وانٹ یو ایز مائی لائف پارٹنر۔۔ ول یو بی؟؟؟؟”
وہ سٹریچر پہ لیٹی تھی۔۔ شاہ اس کی خیریت دریافت کر رہا تھا۔۔ ایمان کی نگاہ شاہ کے کپڑوں کی جانب اٹھی۔۔ اپ-ٹو-ڈیٹ رہنے والا شاہان چھ دن پرانے سوٹ میں ملبوس تھا۔۔
“تم نے چینج نہیں کیا؟؟؟”
“حالت دیکھی ہے اپنی؟؟؟”
“ویسے کیوٹ لگ رہے ہو۔۔”)
چند قدم باقی تھے۔۔
ان کے درمیان حائل فاصلہ اب ختم ہو کے بھی نہ ختم ہونے والا تھا۔۔ یہ شاہان کا آخری دیدار تھا۔۔ آج کے بعد وہ اس کے دیدار سے محروم ہونے والی تھی۔۔ وہ خوش قسمت نہ تھی۔۔ خوش فہم تھی کہ اسے اس کی محبت حاصل ہونے والی ہے، مگر دور ساتوں آسمانوں کے پار بیٹھے رب کو کچھ اور ہی منظور تھا۔۔
(ان کی باقاعدہ منگنی کی رسم ادا کی گئی تھی۔۔ وہ چاند کی چاندنی کو افق پہ چمکتا دیکھتی شاہ کی دھڑکنین سن رہی تھی، جو اسی کے لئے دھڑکتی تھیں۔۔ اسی کا نام پکارتیں تھیں۔۔ “مائی ہارٹ بیٹس فار یو۔۔”)
فاصلہ بلآخر اختتام پذیر ہوا۔۔ عورتیں والہانہ انداز میں اس کا ماتھا چومتی، بین ڈالتی، اسے تسلی دے رہی تھیں۔۔ ایمان اطراف سے بیگانی بس شاہ کے مردہ وجود کو دیکھے گئی۔۔ “مت جاؤ۔۔” سماعتوں سے اپنی ہی کہی بات ٹکرائی۔۔ اشک گالوں پہ بہہ نکلا۔۔ اس نے ہاتھ شاہ کی جانب بڑھایا۔۔
پہلو میں بیٹھی عورت نے اس کا ہاتھ روک دیا۔۔ “وہ تمہارے لئے نامحرم ہے۔۔ اس کی آخرت خراب مت کرو۔۔ آپ کو اسے ہاتھ لگانے کا حق حاصل نہیں ہے۔۔” ایمان کے لب بےبسی سے کپکپائے۔۔ وہ اس کی محبت تھا۔۔ اس کی کل کائنات۔۔ ایمان اسے آج آخری بار دیکھ رہی یہ سوچ ہی دل دہلا دینے والی تھی۔۔ وہ اس سے لپٹ کر رونا چاہتی تھی اسے اس کے وعدے یاد دلانا چاہتی تھی مگر وہ اس کی محرم نہ تھی۔۔ محبت کا محرم ہونا بھی ایک نعمت ہے اور ایمان اس نعمت سے محروم رہ گئی تھی۔۔
“ایسی کیا مصیبت آن پڑی ہے کہ تمھیں میرے بغیر گزارا کرنا پڑے؟؟؟” ایمان نے کرب سے آنکھیں میچ لیں۔۔ دل شدت درد سے پھٹا جا رہا تھا۔۔ سر چکرانے لگا تھا۔۔ “شاہ۔۔ گھر آ جاؤ۔۔ میں تمھیں دیکھنا چاہتی ہوں۔۔ سننا چاہتی ہوں۔۔” اس نے آنکھیں کھولیں۔۔ کچھ نہ بدلہ تھا۔۔ شاہ کا بےجان وجود اس کے قریب پڑا تھا۔۔
“مت جاؤ۔۔” ایمان کے لب ہلے تھے۔۔ سر چکرانے لگا۔۔ منظر دھندلانے لگا۔۔ غنودگی چھانے لگی۔۔ ایمان کا وجود اک جانب کو ڈھلک گیا۔۔
کاش محبت دو جانوں پہ ایک رحم کر دیتی۔۔
اگر جدائی ہی مقدار ہوتی تو دونوں کو سپردخاک کر دیتی۔۔
* * * * * * *
وہ دیکھ سکتی تھی۔۔
تاریک پڑے کمرے میں گھٹنوں کے بل بیٹھے وہ چہرہ گھٹنوں میں چھپائے پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی۔۔ اس کی سسکیاں ابھرتی معدوم ہو رہی تھیں۔۔ پچھلے دو گھنٹوں سے وہ یونہی زمین پہ بیٹھی روئے جا رہی تھی۔۔ دل پہ پڑا بوجھ ہلکا ہونے کا نام نہ لے رہا تھا۔۔
قریب ہوتی آہٹ پہ بھی اس نے نگاہیں نہ اٹھائیں۔۔ بس گھٹنوں میں منہ دئے روتی گئی یہاں تک کہ وہ اس کے قریب آ بیٹھا۔۔ اکڑوں بیٹھے اس نے ایمان کے بازو پہ شفقت سے ہاتھ رکھا۔۔ شناسا لمس محسوس کرتے اس نے نگاہیں اٹھائیں۔۔ وہ اس کے مقابل تھا۔۔ اداسی سے مسکراتا، شاہ اسے دیکھ رہا تھا۔۔
ایمان نے بےدردی سے گالوں پہ بہے آنسو صاف کئے۔۔ “کہاں تھے تم؟؟؟ میں نے تمھیں کہاں کہاں نہیں ڈھونڈا۔۔ کہاں چلے گئے تھے شاہان؟؟؟”
“میں یہیں ہوں ایمان۔۔ تمہارے دل میں۔۔ تم نے ہی مجھے محسوس نہیں کیا۔۔” اس کے ہاتھ تھامتے وہ اداسی سے کہہ رہا تھا۔۔
“نہیں مجھے نہیں کرنا محسوس۔۔ کوئی دلاسہ آمیز بات سننے نہیں آئی میں۔۔ مجھے تمہارے ساتھ جانا ہے شاہان۔۔ میں۔۔ بہت دور تک آئی ہوں۔۔ تمھیں ڈھونڈتے میں نے سب رشتوں کو ٹھوکر مار دی ہے۔۔ میں ان رشتوں میں زندہ نہیں رہنا چاہتی۔۔ مجھے تمہاری دنیا میں جانا ہے۔۔” ہاتھوں کو مضبوطی سے تھامے وہ فریاد کر رہی تھی۔۔ شاہ نے سرد آہ بھری۔۔
“طاہرہ انٹی کا کیا؟؟؟ احمد انکل کا کیا؟؟ تمھارے بھائیوں کا کیا؟؟؟” وہ اسے سمجھا رہا تھا ایمان نے نفی میں گردن ہلائی۔۔ ہاتھوں پہ گرفت مزید مضبوط ہو گئی۔۔ شاہ کے وجود سے پھوٹتی روشنی نے کمرے کو منور کر رکھا تھا۔۔ وہ ایک دوجے کے مقابل بیٹھے، اک اک نقش کو نگاہوں پہ رقم کر رہے تھے۔۔
“فاطمہ انٹی کا کیا؟؟؟ قمر انکل کا کیا؟؟؟ میرا کیا شاہان؟؟؟” وہ حلق کے بل چلائی تھی۔۔ “میرا کیا؟؟ میں کہاں جاؤں؟؟ میرا سکون تو تم اپنے ساتھ لے گئے۔۔ مجھ سے کیا ہر وعدہ، ہر قسم توڑ دی۔۔ میرا کیا؟؟؟” شاہ کی آنکھیں نم ہوئیں۔۔ نگاہیں موڑے وہ ضبط کر گیا۔۔
“یہ الله کے فیصلے ہوتے ہیں’ ایمان۔۔۔ میں نے دنیا میں قدم رکھنے سے قبل الله سے عہد لیا تھا کہ مجھے اسی کہ پاس لوٹنا ہے۔۔ الله سے کیا گیا عہد۔۔ ہر وعدے، ہر قسم سے زیادہ اہم تھا۔۔” سفید لباس میں ملبوس وہ پرنور چہرے والا مرد کہہ رہا تھا۔۔ ایمان نے بےیقینی سے اسے دیکھتے کرب سے آنکھیں میچ لیں۔۔
“ٹھیک ہے۔۔ یہ وعدہ، یہ عہد کہ مجھے الله کہ پاس وآپس لوٹنا ہے۔۔ یہ عہد میں نے بھی کیا تھا۔۔ مجھے بھی اپنے ساتھ لے چلو۔۔” ٹہر ٹہر کر ہر لفظ ادا کرتی وہ اک آس سے بولی تھی۔۔ دل میں آس کے ٹوٹنے کا خوف بھی تھا مگر وہ وآپس لوٹنے والی ہرگز نہ تھی، یہ تو طے تھا۔۔۔
“ابھی تمہارا وقت نہیں آیا۔۔”
“اس کا فیصلہ کرنے والے تم کوئی نہیں ہوتے۔۔” پرتپش نگاہوں سے اسے گھورتے وہ بولی۔۔ “میں جاؤں گی۔۔ جہاں تم ہو وہیں ایمان ہے۔۔ میں تمھیں لوٹنے پہ مجبور نہیں کروں گی کیوں کہ یہ ممکن نہیں۔۔” نگاہیں زمین پہ مرکوز کئے وہ اٹک اٹک کر ہر لفظ ادا کر رہی تھی۔۔ مسلسل رونے سے اس کی ہچکی بندہ چکی تھی۔۔ آنکھیں سرخ انگارے کی ماند دہک رہی تھیں۔۔ گالوں پہ آنسوؤں کہ قطرے واضح دکھائی دیتے تھے۔۔ “لیکن میں تمہاری دنیا میں آ سکتی ہوں۔۔ میں اک طویل سفر طے کر چکی ہوں۔۔ اب وآپس تو میں ہرگز نہیں جاؤں گی۔۔”
“ایمان۔۔” شاہ نے اسے سختی سے پکارا۔۔ “تم وآپس جاؤگی۔۔ مجھے۔۔ مجھے مزید تکلیف مت دو۔۔ خدا کے لئے۔۔”
ایمان اس کی بات کاٹتی بولی۔۔ “میری تکلیف کا کیا شاہان؟؟؟ تم۔۔ تمہیں صرف اپنی پرواہ ہے۔۔”
“میں تمہیں نہیں لے جا سکتا۔۔ تمہیں وآپس اپنی دنیا میں لوٹنا ہوگا۔۔” ضبط سے کہتے شاہ اٹھ کھڑا ہوا۔۔ اس کے وجود سے پھوٹتی روشنی نے اطراف میں اجالا کر دیا۔۔ “میں جا رہا ہوں۔۔” شاہ کے گالوں پہ اک اشک کی بوند ٹوٹ کر بہی تھی۔۔ یہ بوند عام سے پانی کی ماند تھی۔۔ اس کے پرنور وجود کے برعکس کھارے پانی جیسی بوند اک لکیر سی چھوڑ گئی تھی۔۔ شاید یہ بوند عام ہونے کے باعث کھارے پانی کی ماند تھی۔۔ الله کی راہ میں بہے آنسو ہی صرف خاص ہوتے ہیں، خالص ہوتے ہیں۔۔
“شاہ۔۔ شاہان۔۔” وہ اٹھ کھڑی ہوتی اسے پکارنے لگی۔۔ شاہ کا وجود ہوا میں تحلیل ہونے لگا۔۔ “شاہان۔۔” وہ حلق کے بل چلائی۔۔
“لوٹ جاؤ۔۔” شاہان نے کہا تھا۔۔ ساتھ ہی اس کا وجود مکمل غائب ہوگیا۔۔ کمرہ اک بار پھر تاریکی میں ڈوب گیا۔۔
“نہیں جاؤں گی۔۔” نفی میں گردن ہلائی۔۔ “یہیں رہوں گی۔۔ تمھیں مجبور کر دوں گی۔۔ ہر دن۔۔ ہر گزرتے دن میں یہیں تمہارا انتظار کروں گی۔۔ تم مجبور ہو جاؤ گے۔۔ سن رہے ہو تم۔۔ میرا بھی بلاوا آئے گا۔۔ میں تم سے دور نہیں جاؤں گی شاہان۔۔” زمین پہ گھٹنوں کے بل ڈھیتے وہ بلکنے لگی۔۔
“الله!!!! کیا تجھ پہ میرے آنسو۔۔ میری سسکیاں۔۔ کچھ بھی اثر انداز نہیں ہو رہا۔۔ کیوں؟؟؟” وہ بلکنے لگی۔۔ “کیوں کیا؟؟؟” حلق کے بل چلاتے آسمان کی جانب دیکھا۔۔ مکمل تاریکی کے باعث اسے کچھ دکھائی نہ دیا۔۔ کچھ ایسا ہی حال اس کے دل کے گوشوں کا تھا۔۔ شاہ کے دم سے ان میں رونق تھی مگر اب اس کا وجود تاریکی میں دھنستا جا رہا تھا،، وہ ٹوٹ چکی تھی۔۔ بکھر چکی تھی مگر وہ اس راہ سے وآپس ہرگز نہ لوٹنے والی تھی۔۔
* * * * * * *