(Last Updated On: )
یارخیرمحمد آج کا دن ہمارے لیے اچھا ثابت نہیں ہوا۔
کیوں؟
تین چار بار قسمت آزمائی ۔ محنت بھی خاصی کی اور صرف اسی روپے ہاتھ آئے ۔ حالانکہ بٹوے خاصے موٹے تھے۔
ارے علی محمد آج کل فیشن کازمانہ ہے۔ لوگ خالی جیبوں میں دل خوش کرنے کے لیے بٹوے رکھتے ہیں تاکہ تمھارے جیسے ، ان موٹے بٹووں کو دیکھ کر مست ہو جائیں ۔ بھائی لوگ بہت ہوشیار ہو گئے ہیں پھر آج کل ہر بس اور ویگن میں یہ جملہ ضرور لکھا ہوتا ہے : جیب کتروں سے ہوشیار۔ اس لیے ہم نے اپنے فن کو آزمانا کم کر دیا ہے۔ اتنی محنت کرو ، جان مصیبت میں ڈالو اور ہاتھ کچھ بھی نہ آئے۔ لال کی نگری میں یہ وارداتیں بھی اچھی نہیں ہیں۔
خیر محمد! تمھارا تو خیر سے پیٹ بھرا ہوا ہے۔ اس لیے تم پر خوب مستی چھائی ہوئی ہے۔ دو دن ہو گئے ہیں کوئی شکار ہاتھ نہیں آیا ہے ۔ میں بہت پریشان ہوں۔ اور تم ہمیں نصیحتیں کر رہے ہو اور خود نے کراچی کا سیٹھ شکار کر لیا ہے ۔ تمھارے لیے سیٹھ کے چالیس ہزار کم تو نہیں ہیں۔
علی محمد! استاد چمن اپنے حصے کے پانچ ہزار روپے جمعہ خان جمعدار اپنے حصے کے پانچ ہزار لے گیا ہے ۔ باقی تیس ہزار روپے مجھے ملے ہیں۔ تمھیں پتہ ہے کہ مہنگائی کتنی ہے۔
دودن میں تیس ہزار۔ کافی ہیں خیر محمد۔ خوب لندے پھندے گھرجاؤ گے۔ بچے خوش ہوں گے علی محمد اسی لیے میں تمھیں سمجھاتا ہوں کہ کام دکھانے میں جلدی مت کیا کرو۔ ترچھی آنکھ سے صرف مطلوبہ آدمی کی صرف جیب ٹٹول۔ پھر اپنی جان مصیبت میں ڈال تاکہ مزہ بھی آئے۔
یار محمد! نصیب کی بات ہے دیکھو نا وہ موٹا کاٹھیا واڑی سیٹھ کیسے آسانی سے تمھارے ہتھے چڑھ گیا تھا۔
علی محمد! آسانی سے کہاں ہاتھ آئی اسامی ۔ میں بہت دیر تک صدر دروازے پر کھڑا یہ دیکھ رہا تھا کہ میلے میں سیٹھ کیوں نہیں آ رہے ہیں۔ پیسا تو سیٹھوں کی جیبوں میں ہوتا ہے ۔ مال حرام، جسے لٹا کر وہ رحم دل اور حاتم طائی بنتے ہیں ۔ میں نے یہ دیکھا کہ ایک سیٹھ بڑی تیزی سے چلا آ رہا ہے۔ میں اس کے ساتھ لگ گیا۔ بس جیسے ہی وہ چوکھٹ کو چومنے لگا۔ میں نے کام دکھا دیا۔ کاش اس وقت تم میرے ساتھ ہوتے۔ تین چار سیٹھ اور بھی تھے اس کے ساتھ ۔ کاش تم بس اسٹینڈ کے چکر نہ لگاتے۔ اب بسوں میں غریب غربا آتے ہیں ۔ سیٹھ ، وڈیرے ، جاگیردار اور اعلیٰ افسر اب اپنی بڑی بڑی کاروں میں آتے ہیں۔ میری بات مانو۔ آج لال سائیں کے میلے کا آخری دن ہے۔ تم اب صدر دروازے پر جا کر قسمت آزماؤ۔ تمھاری نگرانی میںکروں گا۔
خیر محمد! میں قسمت آزما کر دیکھ لیتا ہوں ۔ سنا ہے کہ آج شام کو بھی دھمال ہو گا ۔ فلمی دنیا کی نامی گرامی حسین لڑکیاں دھمال میں حصہ لیں گی۔ منتوں اور مرادوں کے لیے اور ان کے ہم راہ عشاق بھی ہوں گے۔ ہو سکتا ہے کہ وہاں قسمت یاوری کر جائے۔
علی محمد! کچے کھلاڑی ہو۔ تمھارے استاد نے ان عاشقوں کے بارے میں تمھیں نہیں بتلایا کہ یہ تو پہلے ہی خالی ہو چکے ہوتے ہیں۔ اپنے پیاروں کاساراخرچ یہی تو اٹھاتے ہیں۔ باقی کیا بچے گا؟
بھائی! دھمال کا خیال چھوڑو اور میرے ساتھ آ۔ آج میرے تجربے کو آزما اور اپنی قسمت بنا۔ میرا استاد لعل چند کہتا تھا کہ شکا ر کے لیے قیامت کی نظر رکھو۔ دور سے تاڑ لو کہ شکار کیسا ہے۔ اور ہاں! سال بھر میں دس بارہ سے زیادہ شکار مت کرو۔ شیر بنو ۔ شیر۔ گیدڑ کی نیت مت رکھو۔ غریبوں پرہاتھ صاف مت کرو۔ غریب کی بدعا اور آہ بہت بری ہوتی ہے۔ اس سے بچو۔ اور آو چلو۔۔۔ پہلے پریل کے ہوٹل پر کڑک چائے پیتے ہیں۔ پھر سائیں لال شہباز کا ’’ گانا‘‘ گلے میں ڈالیں گے اور پھر شکار کو تلاش کریں گے۔آج آخری دن ہے اور ہماری کامیابی کا دن ۔ بس بے چین مت ہونا۔ جلد بازی مت کرنا۔ شکار کو اطمینان سے گھیرنا۔ اور پھر پھرتی اور مہارت سے کام دکھا دینا۔ اور ہاں سنو! میاں میں یہاں صرف میلہ گھومنے آتا ہوں۔ اتفاقاً اگر کوئی شکار مل گیا تو ٹھیک، ورنہ میلہ دیکھ کر چلا جاتا ہوں۔ تم بھی آئندہ صرف میلہ دیکھنے کے لیے آنا۔ دھندے کے لیے اور بہت سی جگہیں ہیں ۔ یہاں پر تو معشوق بھی گناہ نہیں کرتے۔
خیر محمد! تین ماہ سے مسلسل پریشان ہوں۔ مقدر میںبھوک ہی بھوک ہے اور اب یہاں بھی شکارہاتھ نہیں آ رہا ۔ دل چاہتا ہے کہ آج شام کی دھمال میں ’’ ریما‘‘ کے ساتھ دھمال ڈالوں، مستی میں لہراؤں۔ پیا کے سنگ ہو جاؤں اور ساری فلمی دنیا میری دھمال کو دیکھے۔ ساری فلمی ہیروئنیں مجھ پر رشک کرنے لگ جائیں ۔ کیوں۔۔۔ ہے نا ایک اچھی بات۔ اپنی پیاری پسندیدہ ہیروئن کے ساتھ چند لمحے گزاروں چاہے پھر جان چلی جائے۔
ارے بھائی! بھوکے پیٹ تو خواب بھی نظر نہیں آتے اور تم کس فلمی چکر میں پڑنا چاہتے ہو۔ اس فلمی چکر میں پڑ کر بہت سے نوجوان پہلے ہی تباہ ہو چکے ہیں۔
خیرمحمد! ہم تو ویسے ہی تباہ ہیں۔
علی محمد ! نہیں ۔۔۔ ہمت مت ہارو۔یہ مانا کہ ہماری روزی کھوئی ہوئی ہے۔ بس جلدی مت کرو۔ اس جلدی نے بہت سے لوگوں کو ’’ اندر‘‘ کروا دیا ہے۔ ویسے خمیسو میر بحر مجھے بتلا رہا تھا کہ تم بھی اندر جاتے جاتے بچے ہو۔
کیا بتاؤں خیر محمد، بس غلطی ایسی ہو گئی تھی ۔۔۔ آئندہ کے لیے توبہ۔۔۔ تکبر سے توبہ۔۔۔
علی محمد ویسے تم بے صبرے بن جاتے ہو ۔ تحمل اور وقار سے کام کرو۔ اندر جانے سے آدمی اور فن داغ دار ہو جاتے ہیں ۔ لو چائے پیو۔ کڑک چائے۔ اپنی طبیعت تویہ چائے پی کر خوش ہوگئی ہے۔ آج کام یابی کے بعد لال سائیں کے ڈبے میں ضرور کچھ ڈال دینا ۔ یار۔ وہ اوقاف والے کھا جائیں گے ۔ تمھاری بلا سے کوئی بھی کھا جائے۔ آؤ میرے ساتھ اور دیکھو اس چوک پر ہی زیادہ رش ہوتا ہے۔ سامنے والے بڑے دروازے سے سب اندر جاتے ہیں دھکم پیل بھی یہیں ہوتی ہے اور تمھیں کام بھی یہیں دکھانا ہے۔ گھبراہٹ اور بزدلی مروا دیتی ہے۔ مرد بننا۔ ہمت سے کام لینا۔ میں تمھارے پیچھے ہوں۔ چلو رقص کرتے ہوئے نعرے لگاتے ہوئے۔ جھومتے اور لہراتے ہوئے شیر کی چالاکی کے ساتھ ۔ سامنے دیکھوگاڑی سے میڈم اتری ہے۔ اور اس کے ساتھ والا ہمارا شکارہے۔ چلو آگے بڑھو۔ خیر محمد ، دمادم مست قلندر کانعرہ لگا کر آگے بڑھنے لگا علی محمد بھی ہوش یاری سے اپنے شکار کے ساتھ آہستہ آہستہ جھومتا اور رقص کرتا ہوا چل رہا تھا اور جھولے لال کے نعرے بھی لگا رہا تھا۔ چلتے چلتے وہ اپنے شکار کے قریب پہنچ گیا۔ دھمال کے لیے رش بڑھ رہا تھا ۔ لوگ ایک دوسرے کو دھکے دیتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے۔ علی محمد نے بڑی ہوشیاری سے بلیڈ اپنے شکار کی جیب پر مارا اور پھرتی اور مہارت سے خاصی رقم نکال کر آگے بڑھ گیا ۔ اس نے ساری رقم اپنی خفیہ جیب میں منتقل کر دی اور اطمینان کا سانس لیا۔ وہ والہانہ رقص کرتا اور نعرے لگاتا آہستہ آہستہ باہر نکل آیا۔ خیر محمد نے اس کا ماتھا چومتے ہوئے کہا ، علو واہ بھئی واہ! منٹوں میں شکار چت کرکے تم نے کمال کر دیا ہے ۔ شاباش۔۔۔ بس اب دیر مت کرو اور اپنے اپنے گھروں کی راہ لیں ۔ آؤ۔۔۔ ہاں چلنے سے پہلے چرس کا اک سوٹا لگاتے چلیں ۔ تاکہ سرور مل جائے۔
بس اسٹاپ پر دونوں نے ایک دوسرے کو خدا حافظ کہا۔ علی محمد نے اپنی سیٹ پر بیٹھ کر بیڑی سلگائی اور آہستہ آہستہ کش لگانے لگا۔
سائیں۔۔۔ ٹکٹ۔۔۔ کنڈیکٹر نے اس کے سامنے ہاتھ لہراتے ہوئے کہا۔
خیر محمد نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا۔۔۔ تو اس کا ہاتھ خالی باہر آیا۔
کنڈیکٹر نے ہنستے ہوئے کہا۔ سائیں۔آپ کا کرایہ ایک آدمی دے کر چلا گیا ہے اور اس نے یہ پیغام بھی دیا ہے کہ تم سے حاصل شدہ ساری رقم نذرانے کے بکس میں ڈال دی ہے۔
قلندر کی نگری میں ایک ہی نعرہ گونجتا ہے ، دمادم مست قلندر۔۔۔ یہاں مستی اچھی نہیں ہوتی۔
ہاں بابا ہاں۔۔۔ خیر محمد نے زور سے بیڑی کا کش لگایا اور کہا۔ جھولے لال ۔۔۔ دمادم مست قلندر۔۔۔
_______________