ٹھیک ہو۔۔۔؟؟
شام نے اپنی آنکھوں میں جھانکتی سنہری آنکھوں والی اس لڑکی کو دیکھ کر پھر سے پوچھا۔۔۔
سحر کی نگاہوں کا ارتکاز ٹوٹا
۔۔
اسنے شام کے ہاتھ جھٹک دیئے۔۔۔ کیوں کہ وہ آہن کی تپش زدہ نگاہوں کو خود پر محسوس کر چکی تھی۔۔۔
شام نے بے حد حیرت اور دکھی نظروں سے اسے دیکھا۔۔۔
اس میں ہمت ختم ہو گئی تھی۔۔۔
وہ گھٹنوں کے بل زمین پر آ گرا۔۔۔
سحر تیزی سے اسکی سائیڈ سے نکلی۔۔ شام کی پرشکوہ اور غصیلی نگاہوں نے اسکا پیچھا کیا تھا۔۔۔
تھوڑی دیر بعد اسے وہی ہوا اپنے ارد گرد محسوس ہوئی۔۔۔
اسکے زخموں میں شدید جلن ہو رہی تھی۔۔۔
برداشت اب ختم ہو رہی تھی۔۔۔
کسی انجانی طاقت نے اسے کھڑا کیا۔۔۔
وہ کندھے جھکاۓ چل پڑا۔۔۔
تھوڑی دور جا کر
چلتے چلتے اسے زور دار جھٹکا ملا۔۔۔
سامنے ایک پانی کی ندی تھی۔۔۔ جس کا پانی شیشے کی طرح صاف شفاف تھا۔۔۔
وہ اس میں جا گرا۔۔۔ پانی برف کی طرح ٹھنڈا تھا۔۔ اسے اپنا خون جمتا ہوا محسوس ہوا۔۔
زخموں کی جلن ختم گئی تھی۔۔۔
جیسے اسکا جسم سن ہوگیا ہو۔۔۔ زخموں سے خون رسنا بند ہوگیا تھا۔۔۔
تھوڑی دیر بعد وہ اس قوت کے تحت جنگل سے باہر نکل کر اپنی گاڑی کے پاس آیا۔۔۔
وہ نہیں جانتا کہ گاڑی کیسے سٹارٹ ہوئی۔۔۔ اور کیسے اس نے ڈرائیونگ کی۔۔۔
اسے ھوش تب آیا ۔۔۔ جب اسکی گاڑی اپنے بنگلے کے آگے آ رکی تھی۔۔۔
مورے معاف کر دیں۔۔۔ آئندہ ایسا نہیں ہوگا۔۔۔
آہن زور زور سے چلّاتا مورے سے معافی مانگ رہا تھا۔۔۔
سحر ساتھ کھڑی پریشانی سے مورے کا غصہ دیکھ رہی تھی۔۔۔
مورے کے ہاتھ میں ایک لوہے کی زنجیر تھی۔۔ جس سے وہ آہن کے جسم پر زور زور سے ضرب لگا رہی تھیں۔۔۔
وہ تکلیف سے بلبلا رہا تھا۔۔۔ ایک تو اس انسان کے دئیے ہوئے چاقو کے وار کا زخم۔۔ اور اوپر سے مورے نے اپنے جادو سے اسے قید کر رکھا تھا… وہ ایک انچ ہل نہیں سکتا تھا…
یہی کچھ تمہیں سکھایا ہے میں نے کہ معصوموں پر ظلم کرو اپنی طاقت کا زور دکھا کے…؟
مورے نے ایک اور زور دار وار کیا…
مورے……!!
اب کی بار آہن کی چیخ کے ساتھ سحر کی بھی چیخ شامل تھی…
آہن کے جسم سے چنگاریاں نکل رہی تھیں…
وہ بری طرح سے تڑپنے لگا۔۔۔ مورے نے سحر کے چیخنے پر ایک سخت نگاہ اس پر ڈالی۔۔۔ جو منہ پہ ہاتھ رکھے ادھ موۓ ہوئے آہن کو آنسو بھری آنکھوں سے دیکھ رہی تھی۔۔
زیادہ دکھ ہو رہا ہے۔۔۔؟
مورے نے ایک سخت نگاہ اس پر ڈالی۔۔ سحر نے خوف زدہ نظروں سے انہیں دیکھا۔۔۔۔ وہ زندگی میں پہلی بار مورے کو اتنے غصے میں دیکھ رہی تھی۔۔۔
تم میرے ساتھ چلو۔۔۔ اور بتاؤ رات گئے باہر کیا کر رہی تھی۔۔
انہوں نے سحر کا ہاتھ پکڑا۔۔۔ اور اسے کھینچتے ہوئے وہاں سے لے گئیں۔۔۔
آہن کی بند ہوتی غضب ناک آنکھوں نے دور تک انکا پیچھا کیا۔۔۔
کچھ دیر میں وہ اپنے مکمل ہواس کھو چکا تھا۔۔۔
عالم۔۔۔۔!! مم۔۔ مرے بچے۔۔۔ یہ کس نے کیا تیرے ساتھ۔۔۔ یہ کیا ہوگیا۔۔۔
جیسے ہی وہ گھر میں داخل ہوا۔۔۔ دروازہ کھلنے اور گاڑی اندر آنے کی آواز پر سدرہ بیگم بھاگی بھاگی کمرے سے نکلی تھیں۔۔۔ اور اسے اس حالت میں دیکھ کر وہ ہواس باختہ ہو گئیں۔۔۔
کک۔۔۔ کچھ نہیں ہوا مما۔۔۔
آاا۔۔۔
شام انھیں تسلّی دیتا آخر میں کراہا۔۔۔
وہ بے اختیار منہ پے ہاتھ رکھے رونے لگیں۔۔۔
علی۔۔۔۔ علی۔۔۔ باہر آئیں۔۔۔
جلدی پلیز۔۔۔ دیکھیں ہمارے عالم کو کیا ہوگیا ہے۔۔۔
وہ اسکو صوفے پر بٹھاتیں زور زور سے علی صاحب کو آوازیں دینے لگیں۔۔۔
مما۔۔ یہ کیا کر رہی ہیں آپ۔۔۔؟ انہیں کیوں ڈسٹرب کر رہی ہیں۔۔۔ تائ جان اٹھ جائیں گی۔۔۔
اسنے غصّے سے انہیں کہا۔۔۔
وہ فقط روتے ہوئے اسے دیکھتیں دوبارہ سے اپنا عمل دہرانے لگیں۔۔
۔
شام دانت کچکچا کر رہ گیا۔۔۔
ارے کیا ہوگیا۔۔۔۔؟
علی صاحب آنکھیں ملتے ہوئے باہر نکلے ۔۔۔۔ دوسرے کمرے سے عافیہ بیگم بھی وہیل چئیر چلاتی باہر نکل آئیں۔۔۔
مگر دونوں کی نظر جوں ہی شام کی حالت پر پڑی۔۔۔
انھیں اپنی نیند بھاگتی ہوئی محسوس ہوئی۔۔۔
وہ گھبرا کر اسکی طرف اے۔۔۔
یہ ۔۔۔ یہ۔۔ کیا ہوگیا۔۔ کس نے کیا۔۔۔۔ عالم۔۔۔ میرے بچے۔۔۔
جلدی بتاؤ۔۔۔ وہ حال کروں گا۔۔۔ کہ اسکی نسلیں یاد رکھیں گی۔۔۔
علی صاحب اسکی حالت دیکھ کر ہوش ہی کھو بیٹھے۔۔۔ اب غصّے سے اسکا مجرم دریافت کر رہے تھے۔۔۔
شام کے چہرے پر تھکی سی مسکان آ ٹھہری۔۔۔۔۔
اسنے ایک نظر آنسو روکتی عافیہ بیگم کی طرف دیکھا۔۔۔ اسکا دل کٹ کر رہ گیا۔۔ وہ جان گیا تھا۔۔۔ وہ پھر سے گڑیا اور احسن تایا کو یاد کر رہی تھیں۔۔۔
مما۔۔۔ ڈیڈ مجھے کچھ ریسٹ چاہئے۔۔۔ پلیز۔۔۔
اور میں تائ جان کے پاس رہوں گا آج۔۔۔
وہی مجھے پٹی کریں گی۔۔ اور مجھ پر دم بھی کریں گی۔۔۔
جب کہ آپ صرف مجھے ڈانٹیں گی۔۔۔ اور سو سوال بھی کریں گی۔۔۔
سدرہ بیگم نے خفگی سے اسے دیکھا۔۔۔۔
اور پھر عافیہ بیگم کی طرف مسکرا کر دیکھا۔۔۔۔
وہ شام کی طرف باہیں پھیلاۓ ہوئے تھیں۔۔۔
چلو اٹھو۔۔۔۔
علی صاحب نے شام کو سہارا دیا۔۔
اور سدرہ بیگم عافیہ بیگم کی وہیل چئیر گھسیٹتے آگے بڑھ گئیں۔۔۔۔
تو پھر بتاؤ گے۔۔۔
آج کا دن کیسا رہا۔۔۔؟ اچھا کیسا اور برا کیسا ۔۔۔؟؟
عافیہ بیگم نے فرسٹ ایڈ باکس کھولتے ہوئے شام کی طرف دیکھا۔۔۔
جو شاور لے کر باہر نکلا تھا۔۔
ٹاول سے بال خشک کرتے شام نے مسکرا کر انھیں دیکھا۔۔۔
وہ ان سے محبت کے ساتھ انکی عزت بھی بہت کرتا تھا۔۔۔
آپ بھی پھر مما بن رہی ہیں۔۔۔۔
وہ شرٹ اتارتا ہوا انکے پاس آیا۔۔ اور انکی گود میں سر رکھ کر لیٹ گیا۔۔۔۔
اسکے جسم پر ان گنت خراشیں دیکھ کر وہ بے اختیار جھرجھری لے کر رہ گئیں۔۔۔
کیا ہوا تائ جان۔۔۔؟؟
وہ انکے ہاتھ تھامتا ہوا بولا۔۔۔
کچھ نہیں میرے سوال کا جواب دو۔۔ چلو پہلے اچھا وقت۔۔۔!! آج تم نے خاص کیا دیکھا۔۔
انہوں نے سپرٹ کاٹن پر لگائی۔۔
کچھ خاص۔۔۔۔!!!
شام چھت کو گھورتا ہوا کھویا کھویا سا بولا۔۔۔
عافیہ بیگم نے بغور اسے دیکھا۔۔۔
ہمم۔۔۔ کچھ خاص۔۔۔!
انہوں نے نے کاٹن اسکے زخم پر رکھی۔۔۔
سسس۔۔۔ جلن محسوس کر کہ وہ سسکا۔۔۔
انہوں نے اسکا ماتھا چوم کر تسلّی دی۔۔
ہاں۔۔۔!! میں نے آج بہت کچھ خاص دیکھا۔۔۔
حیران کن۔۔۔!!
مگر وہ کچھ تھا۔۔۔ جو “خاص” سے بھی بڑھ کر تھا۔۔۔
اسکی نظرین ایک ہی جگہ پر تھیں۔۔۔
اب وہ مکمّل اپنی سوچ میں کھویا ہوا تھا۔۔۔
اچھا۔۔۔!!
تو بتاؤ پھر وہ خاص کیا تھا۔۔۔
انہوں نے وہ کاٹن کا پیس پھینک دیا۔۔۔ اب وہ دوسرے پیس پر سپریٹ لگا رہی تھیں۔۔
اس میں خاص تھا۔۔۔ اسکے سیاہ بال۔۔۔!!
ہاں مم۔۔ مجھ سے بھی زیادہ
۔۔۔بہت لمبے تھے وہ۔۔۔۔ آبشار کی مانند۔۔۔!!
اسکے زخموں پر مرہم لگاتی عافیہ بیگم کا ہاتھ کانپ گیا۔۔۔وہ ضرور کسی لڑکی کی بات کر رہا تھا۔۔۔ اور یقیناً وہ اس لڑکی کی وجہ سے اس تکلیف سے دو چار ہوا تھا۔۔
اور اسکے بات کرنے کا انداز۔۔۔
کھویا سا تھا۔۔۔!!
وہ ادھر بولے جا رہا تھا۔۔۔
اسکے لبوں پر تل تھا۔۔۔
بہت چمکتا ہوا رنگ۔۔۔
عافیہ بیگم کی خوف زدہ نظریں اسکے بولنے کے انداز پر تھیں۔۔۔ اسکو پٹی کرتے ہوئے انکے ہاتھ کانپ رہے تھے
اور پتا ہے۔۔۔ تائ جان۔۔۔
اسکی ناک بہت پیاری تھی۔۔۔!!
اسکے پکارنے پر وہ ہڑبڑا کر ہوش میں آئیں۔۔۔
اچھا تائ کی جان۔۔۔! او۔۔۔اور بتاؤ۔۔۔؟
وہ گھبرا کر اتنا ہی اٹکتے ہوئے کہ پائیں۔۔۔ انکا دماغ کچھ اور سوچ رہا تھا۔۔
اور تائ جان۔۔۔۔؟؟
وہ چھت سے نظریں ہٹا کر انکی طرف دیکھتا ہوا بولا۔۔۔
مگر انکے ہاتھ کے ساتھ انکی نظریں بھی ایک جگہ پر رک گئی تھیں۔۔۔
تائ جان۔۔۔! اسکی آنکھیں سنہری تھیں۔۔۔ وہ انکو اسی طرح دیکھتا ہوا بولا۔۔۔
عافیہ بیگم نے چونک کر اسے دیکھا۔۔۔
بے اختیار انکا ہاتھ اپنے تکیے کے نیچے گیا۔۔۔
شام کی اس حرکت کو دیکھنے لگا۔۔۔۔
کہیں وہ یہ تو نہیں تھی۔۔۔؟
انہوں نے ایک تصویر اٹھا کر شام کے آگے کر کہ پوچھا۔۔۔
کہ شام اسے دیکھ کر بری طرح سے چونکتا اٹھ بیٹھا تھا۔۔۔۔
یہ۔۔۔ یہ تو۔۔۔!!
یہ تو۔۔۔
وہ اس تصویر کو دیکھ کر کچھ کہنا چاہتا تھا مگر الفاظ اسکے لبوں پر ہی دم توڑ گئے۔۔۔
ہاں یہ “گڑیا” کی ہی تصویر ہے۔۔۔۔
وہ آنسو روکتی ہوئی با مشکل بولیں۔۔۔
مگر۔۔۔ مگر۔۔۔!!
گڑیا۔۔۔ گڑیا تو۔۔۔۔
وہ اس سے آگے نہیں کہ سکا۔۔۔
تم بھی یہی سمجھتے ہو کہ وہ مر گئی ہے۔۔۔
انہوں نے حیرت سے اسے دیکھا۔۔۔۔
نہیں۔۔۔ تائ جان۔۔۔
وہ نم آواز لئے بولا۔۔۔
تائ جان اتنے سال گزرنے کے باوجود وہ مجھے کبھی نہیں بھولی۔۔۔
اسکی معصوم آواز۔۔۔
اسکا چلنے کی کوشش کرنا۔۔۔۔
اسکی ملائ جیسی رنگت۔۔۔!!
اور اسکی سنہری آنکھیں۔۔۔۔
ہاں۔۔۔! نن۔۔۔ نہیں۔۔۔!!
وہ چونک کر انکی طرف مڑا۔۔۔ وہ اسے عجیب سی نظروں سے دیکھ رہی تھیں۔۔۔
سس۔۔۔ سنہری آنکھیں۔۔۔!!
اسنے پھر سے دوہرایا۔۔۔
عافیہ بیگم نے وہ فریم اسکے سامنے کر دیا۔۔۔
چہرے پر بلا کی مصومیت لئے سنہری آنکھوں والی وہ بچی۔۔۔۔!!
بلاشبہ وہ گڑیا کی ہی تصویر تھی۔۔۔ اسنے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے وہ تصویر پکڑی۔۔۔
اور اسے غور سے دیکھا۔۔۔
گہرے سیاہ بال۔۔۔ اور ہونٹوں پر تل۔۔۔!!
اسکے ہاتھوں سے فریم گر گیا۔۔۔
آنکھیں بند کر کہ وہ جنگل میں کھڑی اس لڑکی کو تصور میں لایا۔۔۔۔
سب کچھ ایک جیسا تھا۔۔۔
مگر کچھ تھا جو غلط تھا۔۔۔۔
وہ گہری گہری سانسیں لیتا عافیہ بیگم کو دیکھنے لگا۔۔۔
وہ خود پر اسکی نگاہیں محسوس کر کہ خود کو کچھ بولنے کے لئے تیار کرنے لگیں۔۔۔
جب تمھارے تایا کی لاش اس گھر میں آئ تھی۔۔۔ اور میں جو گڑیا کی موت کا بھی سن چکی تھی۔۔۔۔
بلکل ہوش کھو بیٹھی تھی۔۔۔۔
مجھے اتنا یاد ہے۔۔۔ کہ بیہوش ہونے سے پہلے گڑیا کی لاش کو گھر لایا گیا تھا۔۔۔ اور اک نظر مجھے اسکے آخری دیدار کے طور پر دکھایا گیا تھا۔۔۔
انہوں نے گہری سانس لی۔۔۔ اور سلسلہ کلام جوڑا۔۔۔۔
اسکی صورت اسکا چہرہ مسخ تھا۔۔۔ مگر اس آخری لمحے میں میرے ذہن میں بس یہی بات آئ تھی۔۔۔
کہ یہ میری گڑیا نہیں ہے۔۔۔
میری گڑیا اتنی ملائم اتنی شفاف تھی۔۔۔
مگر جو لاش لائی گئی۔۔۔ وہ ایسے تھی جیسے کوئی فاقہ زدہ ہو۔۔ اسکے ہاتھ پیر سلامت تھے۔۔۔ میں انکو دیکھ کر اتنا ہی کہ سکتی تھی شاید کہ یہ میری گڑیا نہیں ہے۔۔۔
انکے آنسو اب تاب نا لا کر پلکوں کی سرحد پھلانگ رہے تھے۔۔۔
شام کو اس چیز کا بلکل احساس نہیں ہوا۔۔۔ وہ مکمّل انکی کہانی میں گم تھا۔۔۔
اسکے بعد مجھے کوئی ہوش نا رہا۔۔
ذہنی دباؤ اور شاک لگنے کی وجہ سے میرا نروس بریک ڈاؤن ہوگیا۔۔۔
ایک مہینہ ہسپتال رہنے کے بعد میں گھر آئ۔۔۔
مگر تمھارے تایا اور گڑیا کی جدائی نے مجھے ٹھیک نا رہنے دیا۔۔۔ اور آج دیکھو۔۔۔ تمھارے سامنے بے بس ہوں۔۔۔ لا چار معذور۔۔۔!!
وہ اپنے آنسو بے دردی سے گالوں سے رگڑتی ہوئی بولیں۔ ۔۔
تائ جان۔۔۔!!
آپ معذور نہیں ہیں۔۔۔
وہ انکے آنسو نرمی سے صاف کرتا ہوا بولا۔۔۔
میں ڈھونڈوں گا۔۔۔
میں سچ تلاش کروں گا۔۔۔ اگر میں سچ تلاش کرنے میں کامیاب ہوگیا تو بہت اچھا۔۔۔!
ورنہ ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کرنا پڑے گا۔۔۔
جسکو باقی سب نے تسلیم کر لیا ہے۔۔۔
وہ انکی آنکھوں میں جھانکتا مضبوط لہجے میں بولا تھا۔۔۔
سحر۔۔ تمہیں کتنی بار منع کیا ہے۔۔۔ رات کے وقت باہر مت نکلا کرو۔۔۔
مورے اسکے لمبے بالوں میں کنگھی پھیرتیں اسے سمجھا رہی تھیں۔۔۔
وہ وہی پہلے والی مورے بن گئی تھیں۔۔۔
نرم۔۔۔ دھیمے لہجے والی۔۔۔!!
وہ سر جھکاۓ خاموشی سے انکی باتیں سن رہی تھی۔۔۔
مورے۔۔۔!!
تھوڑی دیر کی خاموشی کی خاموشی کے بعد سحر کی آواز گونجی۔۔
جی مورے کی جان۔؟
وہ انسان مجھے دیکھ چکا ہے۔۔۔ اگر وہ دوبارہ پھر سے یہاں پر آگیا تو۔۔۔؟؟
وہ خوف زدہ سی بولی۔۔۔
مورے نے اسے سینے سے لگا لیا۔۔۔
مورے کی جان ڈرو مت ۔۔۔
میں نے ایک ایسا وظیفہ کیا ہے۔۔۔ کہ اسے یہاں پر ہوا کوئی واقعہ یاد نہیں ہوگا۔۔۔
یاد تو صرف تم اسکو رہ سکتی ہو۔۔۔ جو تمہارا محرم ہو۔۔
اب بھلا وہ لڑکا تمہارا محرم کب ہوا۔۔۔؟
تو اب ڈرنے کی بلکل ضرورت نہیں ہے۔ ۔
مطمئن ہو جاؤ۔۔اور جو میں کہتی ہوں اس پر عمل کیا کرو۔۔۔
کہیں تم پھر سے اس مصیبت کا شکار نا ہو جاؤ۔۔۔
وہ اسکے بالوں میں انگلیاں پھیرتی ہوئی بولیں۔۔۔
جھریوں سے بھرا انکا روشن چہرہ چمک رہا تھا۔۔۔
وہ مورے کی گود میں سر رکھے آنکھیں موند گئی۔۔۔
مورے کی چلتی ہوئی انگلیاں جادو کا کام کر رہی تھیں۔۔۔
ایک سکون اسے خود میں اترتا ہوا محسوس ہوا۔۔۔
تھوڑی دیر میں وہ گہری نیند سو گئی۔۔۔
ہر فکر سے دور۔۔۔ آزاد۔۔۔!!
مگر زیادہ دیر کے لئے نہیں۔۔۔!!