وہ جیسے ہی شکستہ قدم لئے گھر ہوئی اسے اپنی ماں کے کھانسنے کی آواز سنائی دی۔ اس نے اپنی نم آنکھیں صاف کیں اور اپنی ماں کے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔اس کی ماں کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلا تھی اور یہی بات حریم کی نیندیں اڑاۓ ہوئے تھی کہ اگر اسکی ماں کو کچھ ہو گیا تو ؟ اس تو کے آگے نہ وہ کبھی سوچ پائی اور نہ ہی سوچنا چاہتی تھی۔ اس کی ماں ہی اس کا واحد سہارا تھی اور وہ بھی اپنی ماں کا واحد سہارا تھی۔وہ اپنے ماں باپ کی اکلوتی اولاد تھی۔ باپ کی زندگی میں حالات پھر بھی ٹھیک تھے۔ اگر زیادہ اچھے نہیں تو زیادہ برے بھی نہیں تھے۔ باپ کے ساۓ نے زمانے کے سرد و گرم سے پناہ دے رکھی تھی۔ پر باپ کے آنکھیں موند نے کے بعد تو زندگی جسے عذاب بن گئی تھی۔ زمانے کے گد ہر وقت اکیلی جوان اور خوبصورت لڑکی کو نوچنے کے لئے تیار بیٹھے ہوتے۔ باپ کی موت کے بعد ماں کی بیماری نے تو جیسے حریم کی کمر ہی توڑ دی تھی۔ اوپر سے گھر کے مالی حالات بھی دن بدن خراب ہوتے چلے جا رہے تھے۔ وہ اپنی تعلیم بھی ادھوری چھوڑ چکی تھی۔ آج کل وہ کسی جاب کی تلاش میں تھی جو کے اتنی تعلیم کے ساتھ ملنا مشکل تھی۔آج بھی وہ ایک اسکول میں ٹیچنگ کے لیے ایپلاۓ کرنے گئی تھی پر وہاں کے پرنسپل کی اپنے وجود پر اٹھتی گندی نظروں سے وہ انجان نہیں تھی۔ وہاں سے بھی اٹھ کے نکل آئ اور واپسی پر بشیر کی گھٹیا باتوں نے اسے اور بھی دل برداشتہ کر دیا تھا۔ اس نے ساری سوچوں کو دماغ سے جھٹکا اور اپنی بیمار ماں کی جانب متوجہ ہو گئی
🖤🖤🖤🖤🖤🖤
وہ گھر سے نکل کر سیدھا اپنے فلیٹ پر آ گیا تھا۔اس نے مستقیم کو بھی یہاں ہی بلا لیا تھا۔ وہ اسکا جگری یار تھا۔ اسکا رازدان، اس کے دکھ درد کا ساتھی۔ وہ اسکی زندگی کے ہر پہلو سے واقف تھا۔وہ دہ جسم،ایک جان تھے۔ اس نے فلیٹ پہ آنے کے بعد سامان باہر لاؤنج میں موجود صوفے پہ رکھا اور فریش ہونے کے لئے بیڈ روم میں چلا گیا۔ فریش ہو کہ باہر آیا اور لاؤنج میں لگی ہوئی ایل-سی-ڈی اون کر لی۔ اس کا سر شدید درد کر رہا تھا اور اس نے اب تک کھانا بھی نہیں کھایا تھا۔ اس کا کھانا بنانے کا فلحال کوئی موڈ نہیں تھا۔ اس نے سوچا کے چاۓ پہ ہی گزارا کر لیا جاۓ۔ کم از کم سر درد میں تو آفاقہ ہوگا ۔ ابھی وہ کچن کی طرف بڑھ ہی رہا تھا جب اسے ڈور بیل سنائی دی۔ وہ جانتا تھا کہ اس وقت دروازے پر کون ہوگا۔ اسکی امید کے عین مطابق مستقیم ہی تھا دروازے پر۔ فاتح نے دروازہ کھلا ہی چھوڑ دیا اور خود پھر کچن کی طرف بڑھ گیا۔ مستقیم بھی دروازہ بند کر کے اسکے پیچھے کچن میں ہی آ گیا۔اسکے ہاتھ میں کھانے والا بیگ تھا جو وہ ابھی آتے ہوئے اپنے ساتھ لایا تھا۔اس نے وہ بیگ شلف پہ رکھا اور برتن میں کھانا نکالنے لگا۔
“لو جی یہی رہ گیا اپنی زندگی میں اب بس۔ لوگوں کی بیویاں انکے گھر واپس آنے پر ان سے کھانے کا پوچھتی ہیں اور پھر نہایت پیار سے کھانا لگاتی ہیں اپنے شوہر کے لئے پر مجھے لگتا ہے میں ایک کمینے دوست کی بیوی ہی بن کر ہی رہ جاؤں گا بس” مستقیم کے اس طرح دہائی دینے پر فاتح کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آ گئی جس کو اس نے فورا لب دبا کر چھپا لیا۔
“ہنس لے ہنس لے کمینے مزہ لے لے تو میری اس مسکین حالت کا۔مجھ سے لکھوا لے جتنا میں تیرا خیال رکھتا ہوں نہ تیری فیوچر وائف بھی نہیں رکھے گی۔اب دیکھ میں جانتا تھا میرے جگر نے کھانا نہیں اب تک کھایا ہوگا اس لئے آتے ہوئے کھانا لیتا آیا۔” وہ اپنی ہی ہاناک رہا تھا۔ وہ جانتا تھا ضرور فاتح کے گھر میں کوئی مسلہ ہوا تھا ورنہ وہ اس طرح سامان اٹھا کے یہاں فلیٹ پہ نہ آتا ۔
” تو تجھے کس نے کہا تھا کھانا لانے کے لئے اور میری خدمات کرنے کے لئے۔تجھے خود هی میری بیوی بننے کا شوق اگر تو میں کیا کہ سکتا ہوں۔” فاتح نے ناک چڑھا کر کہا پر سچ تھا کہ مستقیم کے آنے سے اسکا ذہن فلحال اپنی پریشانی سے ہٹ چکا تھا۔
“پھر کیا سوچا تو نے اب۔ آفس کب سے ری جوائن کر رہا ہے۔” کھانا کھانے کے بعد اب وہ فاتح سے اسکے نیکسٹ پلان کی بارے میں پوچھ رہا تھا۔
“نہیں فالحال آفس نہیں جوائن کر رہا نیکسٹ ویک سے سٹارٹ کروں گا تب تک سمبھال لو تم ہی۔ دانیال انکل کی کال آئ تھی آج۔ انکے کالج کے ایک ٹیچر کی ڈیتھ ہو گئی۔ فلحال کسی ٹیچر کی ضرورت ہے انھیں۔ مجھ سے ریکویسٹ کر رہے تھے کے تھوڑا ٹائم دے دوں اور تم جانتے ہو میں انکل کو انکار نہیں کر سکتا اس لئے حامی بھر لی میں نے۔ کالج 3 لیکچر اٹینڈ کر کے وہاں سے ہی آفس آ جایا کروں گا پھر۔” فاتح سے اسے ساری ڈیٹیل بتا دی۔
“چل ٹھیک ہے لالے جیسا تجھے بہتر لگے اور تو ٹینشن نہ لے میں کر لوں گا آفس مینیج۔ چل اٹھ اب کافی بنا کے پلا اچھی سی۔” مستقیم نے فاتح کو حکم سنایا اور خود وہیں صوفے پر لیٹ کر موبائل میں مصروف ہو گیا۔
“اوکے لاتا ہوں۔” یہ کہہ کر فاتح کچن کی طرف بڑھ گیا۔
🖤🖤🖤🖤🖤🖤
دعا اور امايا کلاس میں ساتھ ہی داخل ہوئیں۔ لاسٹ بنچ خالی تھا۔ وہ دونوں جا کر وہاں بیٹھ گئیں۔ تمام سٹوڈنٹس آپس میں باتوں میں مگن تھے۔ دعا اور امايا بھی ایک دوسرے کو اپنی فیملی اور اپنے رزلٹ کے بارے میں بتانے لگیں۔ امايا کو وہ معصوم اور پیاری سی گڑیا جیسی لڑکی بہت پسند آئ تھی۔ وہ دونوں ایک دوسرے کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا چکی تھیں۔ یہ آغاز تھا دعاحیدر اور امايا حسن کی دوستی کا۔امايا بہت کونفیڈنٹ لڑکی تھی اور دعا اس کے بالکل برعکس۔ دعا بچپن سے بس ماں باپ کی چھاؤں میں رہی تھی۔اس کی اسکول میں بھی کوئی دوست نہیں تھی۔ امايا حسن اسکی پہلی دوست تھی۔ وہ پہلی لڑکی جسے دعاحیدر نے دوستی کا شرف بخشا تھا۔
ابھی وہ سب باتوں میں مصروف تھے جب پرنسپل سر فاتح کے ساتھ کلاس میں داخل ہوئے۔انہوں نے سٹوڈنٹس کو کالج میں ویلکم کرنے کے بعد ان سے فاتح کا تعارف کروایا۔ اسکے بعد پرنسپل سر وہاں سے روانہ ہو گئے تو فاتح کلاس کی طرف متوجہ ہوا۔
“السلام علیکم سٹوڈنٹس! ماے نیم از فاتح ابراھیم خان۔آیٔ ڈڈ ماے MBA تھری ایرز اگو۔ ناؤ آئ ایم ہیر تو ٹیچ یو فزکس۔ ناؤ اسٹینڈ اپ ون باے ون اینڈ انٹروڑیوس یور سیلف۔”
اس کے چپ ہوتے ہے ایک سحر تھا جو ٹوٹا تھا اسکی پرسنیلیٹی کے بعد اسکا بولنے کا انداز ساحرانہ تھا۔ اسکے کہنے پر سب سٹوڈنٹس باری بری کھڑے ہو کر اپنا تعارف کروانے لگے۔
“ارے یار دعا سر کتنے ہینڈسم ہیں نا یار۔ بلکل ٹرکش ہیروز کی طرح۔ ” وہ دعا کے کان کے قریب جھک کر بولی۔ لیکن دعا نے جواب نہ دیا۔ وہ نوٹ بک پر جھک کچھ لکھنے میں مصروف تھی۔اتنے میں امايا کی باری آئ تو اس نے بھی کھڑے ہو کر اپنا انٹروڈکشن کروایا۔ اسکے بعد اب فاتح اگلے سٹوڈنٹ کے بولنے کا انتظار کر رہا تھا ۔وو لڑکی جھک کر کچھ لکھنے میں مصروف تھی۔ اسکا چہرہ نہیں نظر آرہا تھا اس طرح۔ صرف سفید مومی ہاتھ ہی نظر آ رہے تھے جوتیزی سے کچھ لکھنے میں مصروف تھے۔ امايا نے اسکو بازو سے پکڑ کر ہوش دلایا اور اسکا دھیان سر کی طرف کروایا۔اس نے جسے ہی سر اٹھایا اس کی کانچ سی نیلی آنکھیں فاتح کی بھوری آنکھوں سے ٹکرائیں تھیں۔ اسکے چہرے پر پڑنے والی پہلی نظر ہی فاتح ابراھیم خاں کا چین وین سب لے اڑی تھی۔پل بھر میں ہی فاتح ابراھیم کا دل لٹنے کو تیار ہوا تھا۔وہ معصومیت کا پیکر تھی اور حسین تھی۔ بہت حسین۔ بالکل کسی شاعر کی غزل کے جیسی۔ شبنم کے پہلے قطرے کے جیسی۔پاک اور شفاف۔ فاتح ابراھیم کا دل ڈولنے لگا تھا اسے دیکھ کر۔اگر کوئی اس وقت فاتح ابراھیم سے پوچھتا کے دنیا کا سب سے خوبصورت منظر کونسا ہے تو وہ آنکھیں بند کر کے ایک لمحے سے پہلے جواب دے دیتا۔ دعا حیدر کے چہرے پر پڑنے والی پہلی نظر۔ اور یہ پہلی نظر ہی فاتح ابراھیم کو لے ڈوبی تھی۔ دل کو بڑی مشکل سے آمادہ کر پایا تھا وہ اس کے چہرے سے نظریں ہٹانے سے۔ دعا نے جلدی سے اپنا نام بتایا اور واپس بیٹھ گئی۔
🖤🖤🖤🖤🖤🖤
وہ آج پھر ایک دفعہ اپنی قسمت آز مانے نکلی تھی ۔ اس نے ایک کمپنی کا ایڈ دیکھا تھا جہاں اسٹاف کی اشد ضرورت تھی ۔ وہ جانتی تھی کہ اس کی تعلیم ناكافی ہے اس پوسٹ کے لیے لیکن پھر بھی وہ اپنے دل کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اللّه کا نام لے کر گھر سے نکل پڑی تھی ۔ اس کے پرس میں اس وقت صرف دو سو روپے ہی تھے ۔ آفس اس کے گھر سے پیدل پچیس منٹ کی مسافت پر ہی واقع تھا ۔ اس نے سوچا کےکہ پیدل ہی آفس پہنچ جاۓ گی کم از کم آٹو کے پیسے تو بچیں گے ہی نا ۔ اس سوچ کو لے کر وہ جلدی ہی گھر سے نکل آئ تھی کہ وقت سے پہلے ہی وہ آفس پہنچ جاۓ گی ۔ اسے کل رات سے بخار تھا اور اب تو جسم بے جان ہوتا ہوا محسوس ہو رہا تھا نقاہت کی وجہ سے سر بار بار چکرا رہا تھا پر وہ ہمت سے کام لیتے ہوئے سڑک پر پاؤں گھسیٹتی چلتی جا رہی تھی ۔ اپنی بے دیهانی میں اسے پتا نہیں چلا تھا کہ وہ سڑک کے درمیان میں آ چکی ہے ۔ گاڑی کے ٹائر چر چرانے کی آواز نے اسے ہوش کی دنیا میں لا پٹخا تھا اس نے بے ساختہ ہی قدم پیچھے لے جانا چاہے پر تب تک وہ گاڑی اسے ٹکر لگا چکی تھی ۔ وہ لہرا کر نیچے گری تھی ۔ مستقیم جو جو اچانک ایک لڑکی کو گاڑی کے سامنے آتا دیکھ کر بریک لگا چکا تھا اسے نیچے گرتا دیکھ کر جلدی سے گاڑی سے نکل کر اسکی طرف لپكا ۔ وہ لڑکی سفید چادر میں ملبوس تھی ۔ مستقیم اسے آواز دینے ہی والا تھا جب اس نے چہرہ اٹھا کر اسکی طرف دیکھا ۔ مستقیم حریم کو یوں اس طرح اس حالت میں اپنے سامنے دیکھ کر حیران ہونے کے ساتھ ساتھ پریشان بھی ہو چکا تھا ۔ وہ شکل سے ہی نڈھال لگ رہی تھی چہرے کی شادابی تو جیسے کہیں کھو ہی گئی تھی حریم نے اٹھنا چاہا پر بخار کی نقاہت اور کہنی پر لگنے والی چوٹ نے جیسے ہمت ہی چھین لی تھی ۔ بے بسی سے اسکی آنکھوں سے آنسو نکل پڑے ۔ادھر مستقیم اس کے آنسو دیکھ کر بے چین ہو اٹھا تھا ۔ اس نے بے ساختہ ہی اسے سہارا دے کر اٹھایا اور گاڑی کا فرنٹ ڈور کھول کر اسے اندر بٹھایا ۔ اس نے دروازہ یونہی کھلا چھوڑ دیا اور ڈیش بورڈ سے پانی کی بوتل پکڑ کر اسکا ڈھکن کھول کر حریم کو پکڑا دی ۔ وہ مسلسل رو رہی تھی ۔ مستقیم کو مزید ٹینشن ہونے لگی شاید اس لڑکی کو زیادہ چوٹ لگ گئی ہو۔ یہ سوچ کر اس نے حریم کو مخاطب کیا ۔
“ایکسکیوز می مس! آپ کو زیادہ چوٹ تو نہیں لگی؟ پلیز آپ رونا بند کریں اور مجھے بتائیں کہاں چوٹ لگی ہے آپ کو.” وہ بہت نرمی سے حریم سے پوچھ رہا تھا۔
“یہاں!” حریم نے کہنی سے کپڑا ہٹا کر زخم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا۔ اسے واقعی زیادہ چوٹ آئ تھی۔ کہنی سے جلد پھٹ چکی تھی اور خون بہہ رہا تھا۔ مستقیم نے جلدی سے اپنے کوٹ کی جیب سے رومال نکالا اور اسکے زخم پر رکھ کر ہاتھ پیچھے کر لیا۔
“آپ زخم پر رومال دبا کر رکھیں تا کہ زیادہ بلیڈنگ نہ ہو ہم ابھی کسی کلینک سے پٹی کروا لیتے ہیں۔” مستقیم نے اسکی سائیڈ کا دروازہ بند کر دیا اور ڈرائیونگ سیٹ کی طرف بڑھ گیا۔ وہ اس کو منع کرنا چاہتی تھی پر نہ جانے کیوں ایسا نہ کر پائی اور سیٹ کے ساتھ سر ٹکا کر آنکھیں موند گئی۔
🖤🖤🖤🖤
رات کے تیسرے پہر جہاں ساری خلقت میٹھی نیند کے مزے لے رہی تھی وہاں ہی ایک وجود ایسا بھی تھا جو کسی محبوب ہستی کی یاد میں غافل تھا۔بلیک ہڈی اور بلیک ہی پینٹ پہنے وہ اس اندھیرے کا ہی ایک حصہ معلوم ہو رہا تھا۔ اس کے عنابی ہونٹوں پر اس وقت دلکش مسکراہٹ تھی۔
تمہیں سوچ کر جو آتی ہے
وہ مسکراہٹ کمال کی ہوتی ہے
اس کے خیالوں پر اس وقت ایک پری پیکر کا بسیرا تھا۔ اسکی یاد ہی باعث سکون تھی۔ وہ اس سے میلوں دور تھی پر ایسا محسوس ہو رہا تھا اسے جیسے وہ یہیں کہیں آس پاس ہی ہو۔ کتنی عجیب بات تھی نا ایک پتھر دل انسان کے اسی پتھر دل کو ایک نازک اور چھوٹی سی لڑکی اپنے بس میں کر چکی تھی۔
عشق عین، عشق شین، عشق قاف کرتا ہے
یہ لاحق جسے ہو جائے اسے برباد کرتا ہے
ابھی وہ اسی پری پیکر کے خیالات میں گم تھا تھا جب اسکی گھڑی سے مخصوص الارم کی آواز سنائی دی۔ اس نے اپنی سوچوں کو جھٹکا اور اپنے مخصوص ٹھکانے کی طرف چل دیا۔
🖤🖤🖤🖤
دعا اور امايا کی ان دو دنوں میں ہی بہت اچھی دوستی ہو چکی تھی۔ ان کا بیچ بھی سیم تھا اس لئے دونوں سارا دن ساتھ ہی ہوتی تھیں کالج میں۔ ابھی بھی وہ دونوں کینٹین سے آئ تھیں۔ یہ انکی فزکس کی کلاس تھی۔ دعا شروع سے ہی پڑھائی میں بہت شارپ سٹوڈنٹ تھی پر فزکس اسے تھوڑی سی مشکل لگتی تھی۔اسی لئے وہ پورے لیکچر میں اپنا سارا فوکس صرف بک پر ہی رکھتی تھی۔ اس کے لئے پلس پوائنٹ یہ تھا کہ سر فاتح بہت اچھا پڑھاتے تھے۔ پر ان کے چہرے پر سرد مہری دیکھ کر اسے بہت ڈر لگتا تھا ان سے۔ وہ ایک سخت ٹیچر تھے۔ ابھی بھی وہ اپنی نوٹ بک پر ایک نمیریکل حل کرنے میں مشغول تھی جب فاتح نے اسے پکارا۔”رول نمبر ٹین اسٹینڈ اپ!” فاتح نے دعا کو مخاطب کیا پر وہ ابھی بھی اپنے نمیریکل میں ہی الجھی ہوئی تھی۔ ساری کلاس اسکی طرف متوجہ ہو چکی تھی۔ امايا نے اسے بازو سے پکڑ کر ہلایا اور اسکی توجہ سر کی طرف دلوائی۔ وہ ہربڑا گئی۔
“رول نمبر ٹین آج سے آپ اس کلاس کی سی-آر ہیں۔ سٹوڈنٹس کی اسائنمنٹس جمع کر کے میرے آفس میں پہنچا دیں آپ۔”
“سر میں؟” وہ بوکھلا گئی۔بھلا وہ کیسے اتنی بڑی ذمہ داری لے سکتی تھی۔
“جی آپ! آئ تھنک رول نمبر ٹین آپ ہی ہیں۔”
“جج۔۔۔جی سر اوکے سر!” بول کر وہ جلدی سے سر جھکا گئی۔ جب کہ اسکی ایسی حالت پر کلاس میں سب سٹوڈنٹس کی ہنسی چھوٹ گئی جسکو بریک فاتح سر کی ایک سرد نگاہ نے ہی لگائی تھی۔ لیکچر ختم ہوا تو دعا نے کلاس سے اسائنمنٹس جمع کیں اور مرے مرے قدموں سے فاتح سر کے آفس کی طرف بڑھ گئی۔
🖤🖤🖤🖤
اسکا موبائل مسلسل بج رہا تھا ۔کال اس کے پرسنل نمبر پر آ رہی تھی نہ جانے کون ڈھیٹ تھا جو مسلسل کال کری جا رہا تھا فون مسلسل بج بج کر اب بند ہو چکا تھا وہ ابھی شاور لے کر باہر آیا تھا اور اب شیشے کے سامنے کھڑا تولیے سے اپنے بال خشک کر رہا تھا اسنے کالا ٹراؤزر اور کالی ہی بنیان پہنی ہوئی تھی ابھی وہ بال خشک کر کے ہیئر برش اٹھا رہا تھا جب فون ایک دفع پھر بجا۔اسنے دور سے ہی ایک اکتایٔ ہوئی نظر سائیڈ ٹیبل پر پڑے موبائل پر ڈالی اور اسکی طرف بڑھ گیا۔اس نے موبائل اٹھایا تو سامنے ہی اسکے والد محترم کی کال آ رہی تھی اسکے چہرے پر ایک تلخ مسکراہٹ چھا گئی وہ کال اٹھانا نہیں چاہتا تھا پر نہ جانے کس جذبے کے تحت اس نے کال اٹھا کر موبائل کان سے لگا لیا پر آگے سے سے اسے جو آواز سننے کو ملی تھی سن کے اسکا حلق تک کڑوا ہو گیا ۔
“السلام علیکم فاتح بیٹا کیسے ہیں آپ پلیز کال بند نہ کریے گا میری پوری بات سن لیں پہلے” فائقہ بیگم کی نم آواز سن کر وہ اپنے لب بھینچ گیا۔
“جی بولیں کیا بات کرنی ہے آپکو جلدی بولیں میرے پاس وقت نہیں ہے۔”
“فاتح اپ کے بابا کی طبیعت بہت خراب ہے وہ آپکو بہت یاد کرتے ہیں پلیز ایک دفع آ کر ان سے مل لیں آپ” وہ التجائیہ لہجے میں بولیں۔
“میں ابھی بزی ہوں فون رکھتا ہوں اللّه حافظ” وہ اپنی بات کہہ کر انکی کوئی بات سنے بغیر کال کاٹ گیا۔
وہ اپنے باپ سے نفرت کا دعوے دار تھا پر اسکا دل اپنے باپ کی بیماری کا سن کر بے چین ہو اٹھا تھا لوگوں کی نظر میں ایک کامیاب اور ہینڈسم بزنس مین تھا پر اصل میں اتنا بدنصیب تھا کہ ماں کی محبت کے بعد باپ کی محبت سے بھی محروم تھا۔ اس نے سر جھٹک کر ساری سوچوں کو پیچھے پھینکا ا ور ڈریسنگ روم میں گھس گیا۔
🖤🖤🖤🖤🖤
وہ اسے ایک پرائیویٹ کلینک لے آیا تھا اور اسکی پٹی بھی کروا چکا تھا۔ اس نے کلینک سے فری ہو کر اسے پھر سے گاڑی میں بٹھایا۔ وہ ڈاکٹر سے پٹی کروانے کے دوران اسکا نام جان چکا تھا۔
“مس حریم آپ ایڈریس بتایں مجھے اپنے گھر کا میں آپکو ڈراپ کر دوں۔ آئ ایم سوری میری وجہ سے آپکا اتنا وقت ضائع ہو گیا۔ ”
اسکا یہ کہنا ہی تھا کہ حریم کو یاد آیا کہ وہ تو جاب کے انٹرویو کے لئے نکلی تھی گھر سے اور پھر مستقیم کی گاڑی سے ٹکرا گئ۔ یہ یاد آتے ہی وہ پھر سے رونا شروع ہو گئی۔ مستقیم تو اسے روتے دیکھ کر بوکھلا گیا اسے یہی لگا لگا کہ وہ درد کی وجہ سے رو رہی ہے پر وہ تو اپنی آخری امید کے ٹوٹنے پر رو رہی تھی ۔
“کیا ہوا مس حریم زیادہ درد ہو رہا ہے آپکو کیا ؟” وہ بہت نرمی سے آنکھوں میں پریشانی لئے حریم سے استفسار کر رہا تھا ۔ اسکی نرمی پر حریم کا دل اور بھی بھر آیا ۔
“نہیں میں۔۔۔ اب درد کی وجہ سے ۔۔۔۔نہیں ۔۔۔رو رہی ۔۔ بلکہ کسی اور وجہ سے۔۔۔۔ رو رہی ہوں” وہ اب باقاعدہ سسکیاں لیتے ہوئے اٹک اٹک کر بول رہی تھی۔ اسکی سرخ ناک اور آنکھیں دیکھ کر مستقیم کا دل پھر سے ڈولنے لگا۔ کوئی روتے ہوئے اس قدر خوبصورت کس طرح لگ سکتا تھا!
“تو بتائیں پھر کیوں رو رہی ہیں آپ؟”
“آج مجھے ایک انٹرویو کے لئے جانا تھا ایک کمپنی میں پر ایکسیڈنٹ ہو گیا پھر اور اب تو بہت وقت گزر چکا ہے. یہ میری آخری امید تھی وہ بھی ختم ہو گئی اب میں کیا کروں گی ؟” وہ مستقیم کو اپنا مسلہ بتا کر پھر سے رونا جاری کر چکی تھی۔
“اوہ تو اس وجہ سے رو رہی ہیں آپ یہ تو بہت چھوٹا سا اشو تھا جو کہ آپ سمجھیں حل بھی ہو گیا ایکچولی میری کمپنی کو بھی کیضرورت ہے آپ میری کمپنی جوائن کر سکتی ہیں.” وہ چٹکی بجاتے اسکا مسلہ دور کر چکا تھا.
“نہیں بلکل بھی نہیں مجھے جاب اپنی کابلیت کے بل بوتے پر چاہیے آپ کی ہمدردی کے باعث نہیں” وہ قطعیت بھرے لہجے میں بولی تھی ۔
“ارے میں کونسا آپکو ایسے ہی جاب دے دوں گا پہلے آپکا انٹرویو ہوگا پھر ہی اپکی سلیکشن ہوگی.” وہ اسکی سوچ پڑھ کے اسکے مطابق بولا کیوں کہ وہ جان چکا تھا ک وہ اسکا احسان نہیں لے گی ۔
“اوکے ٹھیک ہے .’وہ اب کے نیم رضا مند ہوتے ہوئے بولی تھی .
“چلیں اپنا ایڈریس بتائیں آپ .میں آپکو اپکے گھر ڈراپ کر دوں .دو دن ریسٹ کر کے پرسوں آپ اس ایڈریس پر آجائیے گا انٹرویو کے لئے .’وہ اپنا کارڈ اسے دیتا ہوا بولا.
“آپ پلیز یہاں سائیڈ پر ہی اتار دیں مجھے میں خود چلی جاؤں گی تھنکس آپ نے میری اتنی ہیلپ کی اب میں خود ہی چلی جاؤں گی.” وہ جھجک کر بولی.
“نہیں اپ اس طرح نہیں خود جا پائیں گی آپ مجھے اپنا ایڈریس بتائیں مجھے اب مزید کوئی بحث نہیں۔” اسنے حریم کو دیکھتے ہوئے قطعیت سے کہا تو وہ ناچار اسے اپنا ایڈریس بتا گئی کیوں کے وہ اسکی بہت مدد کر چکا تھا۔ مستقیم نے ایک نظر اسکے جھکے ہوئے چہرے پر ڈال کر گاڑی آگے بڑھا دی
🖤🖤🖤🖤🖤
وہ آج بہت تھک چکی تھیں۔ اپنی اسائنمنٹس وہ دونوں جمع کروا کر کلاس سے باہر آ گئیں۔ انکا اگلا لیکچر ایک گھنٹے بعد تھا اس لئے وہ دونوں ریفریش ہونے کے لئے باہر آ گئیں۔
چلو یار کینٹین سے کچھ لے کر آتے ہیں۔ آج تو میں ناشتہ بھی نہیں کر کے آئ تھی ٹیسٹ کے چکر میں۔” امايا دعا سے کہتی ہوئی اسکے ساتھ کینٹین کی طرف بڑھ رہی تھی .
“ہاں چلو پر کینٹین میں نہیں بیٹھیں گے بلکہ گراؤنڈ میں بیٹھیں گے کتنی پیاری ہوا چل رہی ہے نا!” دعا اپنی آنکھیں بند کر کے ٹھنڈی ہوا اپنے اندر کھینچتی ہوئی بولی.
وہ دونوں کینٹین سے برگر اور کولڈ ڈرنک لے کر گراؤنڈ میں بیٹھ گئیں. وہ دونوں بیٹھی ابھی باتوں میں مصروف تھیں جب انکا کلاس فیلو کمیل انکے پاس آ کر بیٹھ گیا .
“ہیلو دعا اینڈ امايا کیسی ہیں آپ دونوں؟ کیا میں یہاں بیٹھ سکتا ہوں؟” وہ مسکراتا ہوا دونوں سے اجازت مانگ رہا تھ۔ا پر اسکا سارا دیہان دعا کے چہرے کی طرف ہی تھا۔
“مسٹر کمیل آپ آل ریڈ ی ہی بیٹھ چکے ہیں .”
امايا اسے چبھتی ہوئی نظروں سے دیکھتے ہوئے طنزیہ لہجے میں بولی .
وہ کافی دن سے مسلسل کمیل کی نظریں دعا پر محسوس کر رہی تھی. اسے یہ لڑکا شروع سے ہی نہیں پسند تھا جو عجیب نظروں سے دعا کو گھورتا رہتا تھا .
اسکے جواب پر وہ ڈھیٹ پن سے دانت نکالنے لگا .
“دعا مجھے آپ کی اسائنمنٹ مل سکتی ہے کیا ایکچولی آپ کی اسائنمنٹس بیسٹ ہوتی ہیں تو اگر اپ مجھے ۔۔۔۔۔”وہ بات ادھوری چھوڑ کر اسے منتظر نظروں سے دیکھنے لگا .
“رول نمبر 10 کم ہیئر ” اس سے پہلے کہ وہ کمیل کی بات کا جواب دیتی ایک بھاری گھمبیر آواز میں اپنے نام کی پکار سنائی دی اسے .
اس نے نظر اٹھا کر سامنے دیکھا تو تھوڑی ہی دور سر فاتح اپنی شاندار شخصیت کے ساتھ سامنے ہی ایستادہ تھے۔
“رول نمبر 10 آئ ایم کالنگ یو ” اس نے دوبارہ آواز دی تو وہ ہڑبڑا کر اٹھی. گود میں پڑا ہوا برگر نیچے گر پڑا .وہ دوپٹے سے الجھتی گرتی پڑتی جلدی سے فاتح کی طرف بڑھی.
“جج ۔۔۔جی سر آپ نے بلایا .”
“میرے آفس میں آئیں آپ فورا ” وہ سنجیدگی سے کہ کر اپنے آفس کی طرف بڑھ گیا ۔
وہ پہلے تو ہونق بن کی کھڑی رہی پھر یاد آنے پر تیزی سے فاتح سر کے آفس کی طرف بڑھی.
🖤🖤🖤🖤🖤
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...