(Last Updated On: )
کچھ دیر ہی گزری تھی کہ امی نے اسے کسی سے بات کرتے ہوئے پایا
“کس سے بات کر رہی ہو لڑکی؟”
انھوں نے گھبرا کر پوچھا
اپنے دوست جیسے بھائی سے بات کرنے پر تو اپکو اتفاق سے کوئی اعتراض نہیں ہوگا”
مریم کا اشارہ کس کی طرف تھا امی بخوبی واقف تھیں
“انسان خطا کا پُتلا ہے، وہ یہ بھولنے میں ذرا دیر نہیں لگاتا کہ خون ہمیشہ خون ہی رہتا ہے۔
پانی کبھی خون کی جگہ آکر کھڑا نہیں ہو سکتا”
امی نے ایک بار پھر مریم کو وہ گہری بات کہ دی تھی جسکی گہرائی عمر کے اس حصے میں اس کیلئے سمجھنا مشکل تھی
****** “”””””” ****** “”””””””” *******
عادل بھائی سے مریم کی گفتگو اس روز کے بعد کئی بار ہوئی اور یہ ایک کبھہ بھی منقطہ ہو جانے والا ذریعہ تھا
امی نے جب انکی بات چیت میں ضرورت سے زیادہ اضافہ ہوتا دیکھا تو پھر بابا کو ڈیوائس ساتھ لے جانے کا مشورہ دے آیئں
اور بس پھر کیا تھا بابا جانی ایک بار پھر سے وہ کھلونہ اپنے ساتھ لے جانے لگے، اس بار مریم اپنے پول کے کھُل جانے کے ڈر سے ضِد بھی نہ کر پائی
“امی میرا ایک وعدہ ہے اپ سے ، مریم اپکو آسمان کے اس حصے میں اُڑ کر دکھائے گی جسکی رکاوٹ بن کر اپ اسکے پر کاٹ دینے میں دلچسپی رکھتی ہیں،
بلکہ وہ اپنی زندگی خود بنائے گی ! اپنے اصولوں کے ساتھ”
اب وہ یہ بھی بھولتی جا رہی تھی کہ کچھ اور لوگ بھی ہیں جن کی زندگی اسکے ساتھ جڑی ہے
جن کے سر پر فخر کا سہرا مریم کے نام سے ہوکر گزرتا ہے
“تمھاری ضِد کہیں تمہیں آسمان کے اس حصے پر لے جاکر تمہیں نیچے نہ پھینک دے
اک نصیحت کرتی ہوں! چاہو تو رکھ لو، یا چاہو تو جانے دو”
امی نے اسے حقیقت کے پہلو دکھانے چاہے
“نصیحتوں کا پہاڑ ہی تو لئے پھر رہی ہوں ،مگر یقین جانیئے اپھی تک ان میں سے ایک بھی کام نہ ائی ہے
خیر پھر بھی فرما دیجئے”
مریم کے اکھڑے لہجے کی تو جیسے اسکی زبان عادی ہو چکی تھی
“سامانِ حفاظت تیار رکھنا ، گرتے ہوئے تمہیں کام آئے گا”
امی نے کہا اور بستر سے اٹھ کر چلی گیئں
اگلے کچھ ہفتے اسی طرح گزرے اور پھر ایک دن بن بلائے مہمان کی طرح عادل بھائی گھر تشریف لے ائے
“السلام علیکم کیسے ہیں آپ سب؟”
ارے عادل بیٹا آؤ آؤ، کیسے آنا ہوا آج”
بابا نے آنے کی وجہ درہافت کرنا چاھی
“میرے ماموں کا گھر ہے کیا میں بنا مقصد آ نہی سکتا”
“کیوں نہی بیٹا بالکل “
بابا جانی نے عادل کو فریش ہونے کا کہا اور امی کو کھانا لگانے کا حکم جاری کیا
***** “””””””” ******* “”””” *******
“یقینناً یہ اج رات یہیں ٹھہرنے والے ہیں، ورنہ اتنی رات کو واپس جانا تو منسب نہیں اور بابا جانی بھی اس وقت انہیں واپس نہیں جانے دیں گے”
مریم جو اپنے کمرے میں بیٹھی یہ سب گفتگو سن رہی تھی ،سوچنے لگی
“ارے محترمہ سید زادی اپ یہاں بیٹھی ہیں ؟اور ہم آپ سے ملنے اتنی دور سے آئے ہیں
یہاں اپ ہیں کہ اک گلاس پانی کا نہیں پوچھ رہیں”
عادل جو ابھی فریش ہو کر آیا تھا مریم کے کمرے کی طرف بڑھا اور اندر چلا آیا
نہ دروازے پر دستک دی ،نہ ہی اجازت طلب کی
جو کہ مریم کو قدرےناگوار گزرا تھا
“اپ اور مجھ سے ملنے آئے ہیں ؟خیریت تو ہے عادل بھائی؟”
کیوں بھئی؟ ، جو دل کے بہت قریب ہوتے ہیں نا انسے ملنے کو دل بےقرار ہی رہتا ہے مریم”
ایک بھائی نما دوست کے منہ سے اس طرح کے الفاظ سننا اسکو کافی عجیب لگا مگر سر جھٹک کر خیالات کو ذہن سے نکلنے کا راستہ دینا مناسب سمجھا
***** “”””””” ******** “””””” *******
رات کے کوئی سوا دو بجے کے قریب جب گھڑی کی سویئاں رقص کر رہی تھیں ، مریم جاگتی ہوئی پانی پینے کچن جا پہنچی
ابھی گلاس پانی سے بھرا ہی تھا کہ عادل بھی وہاں آپہنچا
“عادل بھائی اپ؟ اس وقت ، کچھ کھانے کو چاہیے کیا؟”
مریم نے کچھ ہمدردی سے پوچھنا چاھا
مگر پھر معلوم ہوا کہ رات کے اس پہر کچن میں یوں دبے پاوں انے کا مقصد پیٹ پوجا نہیں بلکہ کچھ اور تھا
“بات جاگنے کی ہو تو محبوب کے گھر نیند جس عاشق کو آجائے وہ عاشق نہیں نکما کھلاڑی ہے”
پاس ہی رکھی ہوئی کرسی پر بیٹھتے ہوئے کہا
“میں سمجھی نہیں اپ کہنا کیا چاہ رہی ہیں؟”
مریم نے بھنووں کو الجھا کر ،لہجہ سخت رکھتے ہوئے پوچھا
بات تو کسی نہر میں ٹھرے ہوئے پانی کی طرح صاف ہے، تم اس نہر اترنے میں ڈرتی ہو تو میرا سہارا لے سکتی ہو
وعدہ رھا کبھی خود کو ڈوبتا ہوا نہ پاؤ گی”
عادل بھائی کی انکھیں یہ اظہار وفا کرتے ہوئے نم تھیں اور مریم کی پریشان
“مجھے لگتا ہے اپ اپنے حواس کھو بیٹھے ہیں ، مجھے اب چلنا چاہئے”
مریم کا لہجہ یہ صاف ظاہر کر رھا تھا کہ کچھ دیر پہلے کہی گئی بات اسے سخت ناگوار گزری ہے
“مریم تھم جاو ،بات پوری نہیں ہوئی ابھی”
“تھم جاوں؟کتنا بہتر ہو کہ یہ الفاظ آپ اپنے اپ سے کہیں”
مریم کا لہجہ اور اسکی کاٹ کھانے والی نظریں انھیں اپنی نظریں جھکانے پر تو مجبور کر ہی چکی تھیں مگر اب اتنا بھی نہیں کہ وہ بات مکمل کئے بِنا ہی اسے جانے دیں
“جس رشتے کی بنیاد گھر کے بڑوں نے ڈالی ہو، تم اس رشتے کو مضبوط کرنے میں میرا ساتھ کیوں نہیں دے سکتیں؟”
عادل نے سوالیا جھکی نظریں اسکی طرف اٹھایئں
“رشتہ ؟ بنیاد؟ گھر کے بڑے؟ یہ سب کیا ہے عادل بھائی؟”
مریم کا سارا غصہ اس ایک سوال پر ہی پریشانی میں بدل گیا
“پھر کہتا ہوں تھم جاو، تمھاری اواز نے بڑوں کو دعوت دے دی تو میں خود کو کبھی معاف نہیں کر پاوں گا،اور ہاں میں سچ کہتا ہوں ۔۔۔۔میرا دل جس پاک کتاب کے پاک لفظوں سے بھرپور ہے ،
میں اس دل کی قسم کھا کر کہتا ہوں یہ سچ ہے”
“پر ہاں یہ آدھا سچ ہے اور میں یہاں تمہیں پورا سچ بتانے ہی آیا ہوں، ہو سکے تو سن لو۔
پھر تمھارا فیصلہ میری سر آنکھوں پر مریم”
مریم کو دیکھ کر اندازہ ہوا کہ وہ تھم چکی ہے تو مزید بات کوطول دیا
“جانتی ہو مریم ؟اس رشتے کی بنیاد خاص تمھاری اور میری امی نے مل کر رکھی ہے۔
کچھ عرصے سے تم سے رابطہ نہی ہو پا رہا تھا تو مجھے یہاں آنا پڑا
اب جو تمھارا فیصلہ ہو مجھے سنا دو، مجھے پورے دل سے قبول ہوگا”
اس نے بات مکمل کی اور فیصلہ مریم کے حوالے کرتا ہوا کمرے کی جانب چل دیا
مریم کو تھم جانے کا جو حکم ملا تھا وہ اس کے حصار میں اگلے چند منٹ تک گھِری رہی
رات ساری انہی سوچوں میں گزری کہ یہ کیا تماشا ہوا یکدم ؟ یہ کیسا پہاڑ ٹوٹ گیا اچانک؟
******* “”””””” ***””***” **** “”” ****
اگلی صبح سب کے جاگ جانے سے پہلے ہی عادل بھائی جانے کی تیاری میں تھے، امی اٹھیں اور انہیں یوں تیار دیکھا تو ڈانٹ کر بٹھا لیا
“ارے یہ کیا ماجرہ ہے؟ ناشتے سے کوئی خفگی ہے یا چھوٹے بچوں کی طرح امی کی یاد ستا رہی ہے؟”
“چلو کندھے سے یہ بستہ اتارو اور ناشتہ کیے بغیر ہلنا بھی نہیں”
“اچھا ممانی جان مگر ایک شرط پر کہ اج آپ کے ہاتھ سے لقمے کھاوں گا، کیا پتا اس کے بعد کبھی موقع ملے نہ ملے”
وہ شاید مریم کا جواب سننے سے گھبرا رہے تھے
آخر کوئی کیسے اپنی محبت کے منہ سے انکار وفا سنے
کچھ وقت یونہی گزرا اور پھر گھر کے سب افراد جاگ کر fresh ھو کر ناشتے کی میز پر آبیٹھے (جی یقینناً مریم بھی انہی افراد میں گنی جاتی تھی)
“السلام علیکم ماموں ،آیئے اسے اپنا ہی گھر سمجھئے”
عادل ہہلے ہی نشست سمبھالے بیٹھا تھا اب اپنی خفت چھپانے کے لئیے مذاق کا سہارا لیا
“بھئی اب باتیں چھوڑیں اور ناشتہ کریں جلدی سے میرے بیٹے کو دیر بھی ہو رہی ہے، جبھی تو صبح سویرے بستہ سنبھالے جانے کو ہو رھا تھا”
امی ناشتہ لے کر آتیں کہنے لگیں
“تم کیا یہاں بیٹھی باتیں سن رہی ہو؟ چلو یہاں آکر ناشتہ بنانے میں میرا ہاتھ بٹاؤ”
اشارہ مریم کی طرف تھا
کوئی عام دن ہوتا تو مریم ابھی جلے کٹے دو جملے سناتی اور اپنا رُخ کمرے کو کرتی۔۔۔پر آج تو صبح ہی نئی سمت سے ہوئی تھی
وہ فرمانبرداری سے اٹھی اور کچن میں آگی
خاموشی سے امی کا ہاتھ بٹاتی رہی، کبھی نمک کی جگہ چینی ہاتھ میں پکڑ لیتی
تو کبھی چائے میں دودھ کی جگہ پانی ہی ڈالے جا رہی تھی
امی یہ سب دیکھ رہی تھیں۔۔۔کچھ پل تو حیران ہوئی پھر سوچا کہ شائد حالت جنگ میں یہ سب کچھ ہوتا ہی ہے
ناشتے سے فراغت ملی تو ایک بار پھر بستہ اٹھائے عادل بھائی سب کو خدا حافظ کہ کر جانے لگے
سب کچھ معمول کی طرح ہی تھا سوائے اس کے کہ اس بار مریم نے عادل کو اور عادل نے مریم کو الوداع کہنے پر نظریں ایک دوسرے سے چُرا لی تھیں
عادل بھائی کے جانے کے بعد ماحول پھر سے پرانی چادر اوڑھنے لگا
بابا جانی اور مریم کی گفتگو اور اس گفتگو میں اسکی بے جا ضِد
امی اور اسکی تکرار کے لمحات (لڑائی جھگڑوں میں معصومیت کا خاتمہ اور سنجیدگی کا اضافہ ہوتا جا رہا تھا
اس بیچ مریم کا داخلہ بھی کالج میں ہو چکا تھا، اور اگلے ہفتے سے باقائدہ کلاسز کا سلسلہ شروع ہونا تھا
ہر چیز تیار تھی ،بس ایک موبائل کی کمی رہ گئی تھی
“بابا جانی اس تقریب کو فوت ہوئے اب ایک مہینہ گزر چکا ہے، جو فرمائش تب مینے اپ سے کی تھی اب وقت آپہنچا ہے کہ میں اسے ایک بار پھر دوہراوں”
“مستقبل کی ڈاکٹر ہوں ،کوئی عام بات تھوڑی ہے
ایک اچھا سا پیارا سا موبائل تو میرے پاس بھی آخر کو ہونا چاہیئے”
“تمھاری امی کو معلوم ہوا تو جانتی ہو نہ کیا ہوگا”
انھوں نے مریم کو امی کا خوف دلانا چاھا
“اچھا تو یہ بات ہے، بھلا یہ کیسا زمانہ آگیا ہے؟ کہ شوہر بیویئوں سے ڈرا کریں گے
بی آ مین بابا جانی”
مریم نے انھیں اکساتے ہوئے کہا
“بی آ مین؟ بیٹے اگر man اپنی women سے ڈرنا چھوڑ دے تو یہ دنیا جدھر ہے ادھر ہی جم جائے”
بابا یہ کہتے ہوئے میز سے اٹھے اور دفتر جانے کی تیاری کرنے لگے
******** “”””””””” ********* ‘””” *****
دو دن ہی گزرے ہوں گے کہ بابا ایک ڈبہ ہاتھ میں لئیے چلے آرہے تھے
“یہ کیا لائے ہیں؟”
مریم نے دروازہ کھولا تو ہاتھ میں اک چھوٹا سا ڈبہ دیکھ کر پوچھنے لگی
“لیجئے اپکی فرمئش پوری کی ہم نے۔
اب سمبھالو اسے اور اپنی امی کو سنبھالنا بھی تمھارے ذمے ہے اب”
“کیا کہ رہے ہیں بابا جانی اس میں واقعی میرے لیئے سیل فون ہے؟”
مریم خوشی سے اچھل پڑی تھی
“کاش نہ ہوتا مگر بدقسمتی سے وہی ہے”
وہ امی کے ڈر سے کہنے لگے
اندر جا کر جب box کھولا تو امی کی نظر بھی پڑ گئی
“یہ کیا ہے ؟ امی نے فوراً سے پوچھا
“بیگم اپ کا ڈر تو ہمیں بہت تھا مگر بیٹی کی محبت نے ہمت پیدا کردی”
“مجھے افسوس ٹھہرا کہ اپ اس خوف کی بات کر رہے ہیں جو اپکو اورجھے ہے ہی نہیں،
رہی بات بیٹی کی محبت کی تو سید صاحب محبتیں ہی اکثر انسان کی قاتل بن جاتی ہیں
اب دعا کیجئے کہ ہماری یہ محبت مریم کی تہذیب کی قاتل نہ بنے”
امی نے افسوس سے کہا
“یہ کس نوعیت کی گفتگو ہو چلی ہے یہاں ؟
بیگم! مجھے جو مان اپنی اولاد پر ہے وہ اتنی آسانی سے ٹوٹ جائے
ایسا ممکن نہی ہے”
امی مجبور ٹھہریں ،وہ کیسے اپنی ہی اولاد کی نافرمانیاں ان پر ظاہر کر دیتیں؟
وہ بھی اس باپ پر جس کا سارا غور وہ بیٹی تھی جو آہستہ آہستہ ہٹ دھرمی کی ساری حدیں توڑتی جا رہی تھی
***** “”””””””””” ***********
امی میرے نئے جوتے کہاں ہیں ؟ مل نہی رہے
صبح کالج کا پہلا دن ہے اور میں چاہتی ہوں ابھی سے تیاری کر کے سونے لیٹوں
“اب سے اپنے سامان کو خود سمیٹ کر رکھا کرو
کہیں تمھارے دشمن تمھارے مال کو مال غنیمت سمجھ کر نہ کھا جایئں”
امی نے ناراضگی ظاہر کی، جو کہ پچھلے ڈیڑھ ماہ سے جاری تھی
ماں تو ماں ہی ہوتی ہے بیٹی کے غلط راہ پر چلنے پر وہ اس سے ناراضگی ظاہر کرے
یہ تو اسکا حق ہے نا
“اففف۔۔۔۔ کبھی تو سنجیدہ ہو کر میری بات کا جواب دیا کریں ، ذرا سی غلطی کیا کر دی اپ تو میری جان لے کر چھوڑیں گی اب”
وہ شائد انکے رویے سے اب تھک چکی تھی
“جان تو اس ماں کی نکلتی ہے مریم جس کو فخر تھا کہ اسکی بیٹی کبھی جھوٹ نہیں بول سکتی ، والدین کا غرور ،مان نہی توڑ سکتی “
یہ لو تمھارے جوتے ،شوق سے جاو کالج اور اپنے موبائل کو بھی سیر کراو
ہو سکے تو نماز پڑھ کے سونا ،کیوں کہ مجھے لگتا ہے اب تمہیں اسکی ضرورت نہیں رہی
امی نے جوتے ڈھونڈ دئیے تھے اور ساتھ ہی وہ مریم کو نماز پڑھنے کی صلاح بھی دے گئیں تھیں
مریم جو نمازوں کی پابند ہوا کرتی تھی ،اب جب دل کرتا اللہ کے حضور اپنا نام لکھوا آتی
***** “””””””””” *””***** “”””””” ******
“فجر پڑھ لو باقی تمھاری مرضی “
امی نے صبح صبح مریم کو کالج کی تیاری کرتے دیکھا تو کہنے لگیں
“اوہ امی! میں بعد میں پڑھ لوں گی
کیا اپ دیکھ نہیں رہی میں کتنی مصروف ہوں اس وقت”
“ہاں میں دیکھ ہی تو رہی ہوں صرف
خدا کاش مجھے کچھ کرنے کی توفیق بھی بخشے”
امی نے بے بسی سے کہا اور اپنا فرض پورا کر کے بابا اور بھائی کو جگانے چلی گیئں
بابا چونکہ پہلے اٹھا کرتے تھے اور بھائی بعد میں ، لہذا اب یہ مسئلہ درپیش تھا کہ مریم کو کون کالج چھوڑ کر آئے گا اور کون واپسی پر اسے ائے گا
اچانک مریم کو جانے کیا سوجھی ،کہنے لگی
“رہنے دیں سب کو، اج سے میں خود ہی آیا جایا کروں گی
ویسے بھی کچھ زیادہ فاصلہ تو نہیں ہے کالج کا۔۔۔۔مجھے کافی دیر ہو چکی ہے بابا جانی مجھے رکشے کا کرایہ دیں میں جانے لگی ہوں “
“مریم یوں اکیلے جانا مناسب تو نہی لگتا، ٹھہرو تھوڑی دیر
تمکو بھائی چھوڑ آیے گا”
بابا نے پیار سے کہا
مگر وہ کیا جانتے تھے کہ اس کیلئے تو یہ بھی ایک بہانہ ہی تھا
اسے تو صرف آزادی چاہیئے تھی
وہ کرایہ سنبھالے گھر سے نکل پڑی
دنوں کی گنتی بڑھتی گئی اور کاج کا بھی آدھا سیمسٹر یونہی گزر گیا
اس بیچ تو موبائل فون کے کوئی منفی نتائج سامنے نہ آئے تھے
پر اب رفتہ رفتہ رونما ہونے لگے
کبھی مریم کال پر مصروف پائی جاتی تو کبھی گھنٹوں موبائل کی سکرین کوانگلیوں کے زور پر توڑتی رہتی
اسی درمیان عادل بھائی سے بھی رابطہ ہوتا رہتا۔۔۔وہ مریم کو اپنی یکطرفہ محبت کا یقین دلاتے رہتے اور مریم انہیں نیچہ دکھانے کی کوششیں جاری رکھتی( کہا تھا نہ ، غرور جب سر چڑھ جائے تو محبتیں زندہ نہی رہتیں)
غرور آخر جس بار کا؟ فقط اتنا کہ مجھ سے کوئی اتنی آسانی سے اس قدر محبت کیسے کر سکتا ہے
****** “”””””””” ******* “”””””” ******
“مریم مینے اور تمھارے بابا نے فیصلہ کیا ہے کہ اب تمہیں کسی کُھنٹے سے باندھ دیا جائے”
امی نے ایک دن کالج سے واپسی پر اسے عادل اور اسکے رشتے کی بابت بتائی
“ہاہا۔۔۔۔سات مہینے پرانی بات اب بھی کیوں بتائی مجھے؟
چلئے اب بتا ہی دی ہے تو سن بھی لیں کہ میں کسی ایسے شخص سے شادی نہی کروں گی جسکے گھر بیٹھنے کے لئے کرسیاں کم اور چٹایئاں زیادہ پائی جاتی ہیں
سونے کیلئے لکڑی کے سرہانے والے بستر کم اور زمین پر بچھانے والی چادریں زیادہ ہوتی ہیں۔۔۔۔۔اور تو اور اسکی ماہانہ تنخواہ دیکھی ہے اپنے؟ اتنی کم کہ میں بمشکل دو تین ہفتے ہی گزارہ کر پاوں گی”
مریم کے منہ سے کہی جانے والی یہ باتیں امی کیلئے ایسی تھیں جیسے پگھلا ہوا لوہا برف کی چٹان سے نکل رہا ہو
“وقت ہوا جاتا ھے کہ سارے خیرخواہی programs کو صندوق میں بند کر کے اک بار پھر سے جنگ کی تیاری کی جائے۔۔۔۔مدِمقابل کھڑا شخص تو بڑا ہی بے مروت نکلا”
انکا اشارہ صاف یہ بات ظاہر کر رہا تھا کہ عادل نہی تو کوئی اور بھی نہی
******** “”””””” ********* “”””” *****
کالج کا ایک سال ایسے ہی گزر گیا اور اب امتحانات سر پہ کھڑے تھے
سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر ابھی تو صرف پڑھائی پر توجہ دینی تھی۔۔۔پر اب کی بار سو فی صد میں سے نوے فی صد ہی اسکا دماغ چل پاتا
***** “””””””” ******* “””””””” ******”