اگلی صبح اس کی آنکھ دیر سے کھلی۔ عنایہ اور ماہم کمرے میں نہیں تھیں ۔وہ فریش ہو کر لاؤنج میں آیا تو کچن سے ماہم اور عنایہ کے بولنے کی آواز آرہی تھی۔
” السلام علیکم ۔” ماہم نے اسے دیکھ کر جھٹ سے سلام کیا۔
” وعلیکم السلام ۔آپ لوگ یہاں کیا کر رہے تھے۔” وہ کاؤنٹر پہ نظر دوڑاتے ہوئے بولا۔جہاں ناشتے کی تیاری ہورہی تھی۔
” میں سب کے لیے ناشتہ بنا رہی تھی۔آپ کیا کھائیں گے ناشتے میں ۔” اس نے پوچھا ۔
” کک کہاں گیا؟ “اس نے پوچھا۔
” پتا نہیں بیگم سراج کہہ رہی تھیں کہ میں کھانا بنایا کروں ۔آپ کیا کھائیں گے۔” اس نے دوبارہ سے پوچھا۔
” تم کیوں کھانا بناؤ گی جب کک آل ریڈی موجود ہے۔”وہ حیرت سے بولا۔
” پتا نہیں جی۔اب بتا بھی دیں کہ کیا بناؤ۔” وہ بیزار ہوئی۔
” پاپا بریڈ اور ہاف فرائی ایگ کھاتے ہیں ۔” ارسلان کے بجائے عنایہ نے جواب دیا ۔
” آپ بھی اپنے پاپا کے ساتھ باہر بیٹھو ۔میں اب پنکھا بند کرنے لگی ہوں ۔کچن میں گرمی ہے۔”وہ عنایہ کا گال تھپتھپاتے ہوئے بولی۔
ارسلان نے غور سے اسے دیکھا کیا واقعی ہی وہ ایسی تھی یا اس کے سامنے بن رہی تھی۔اور اسے ہمیشہ کی طرح ماہم کے چہرے پہ معصومیت نظر آئی۔
سب کا ناشتہ بنا کر اس نے ٹیبل پہ لگایا اور اپنا کچن میں ہی رہنے دیا۔پتا نہیں وہ لوگ اس کو ساتھ بٹھا کر کھلانا پسند کرتے یا نہیں ۔
” تم نے ناشتہ نہیں کرنا۔”ارسلان نے اسے عنایہ کو کھلاتے دیکھ کر پوچھا۔
بیگم سراج نے چونک کر ارسلان کو دیکھا وہ کیوں ماہم کی اتنی پروا کر رہا تھا۔
” وہ صاحب جی میرا ناشتہ کچن میں پڑا ہے۔کیا میں یہاں بیٹھ کر ناشتہ کرسکتی ہوں ۔” وہ اپنی ازلی معصومیت کے ساتھ بولی۔
” تم اس گھر کی فرد ہو ۔جو چاہے مرضی کرو۔” وہ جواباً بولا۔
” سچی۔” وہ خوش ہوگئی تھی۔
” اور آئندہ مجھے صاحب نہ کہا کرو۔میں اب تمہارا صاحب نہیں ہوں۔” اس نے مزید کہا۔
بیگم سراج نے ناگواری سے دونوں کو دیکھا ۔یہ ارسلان کس خوشی میں ماہم کو اتنی اہمیت دے رہا تھا۔اور اس ماہم کے کان تو بعد میں کھینچے گی۔
” پھر کیا کہوں ۔” وہ کنفیوز ہوئی۔
” میرا نام لو۔”وہ چائے کا گھونٹ بھرتے ہوئے بولا۔ایسے لگتا تھا میز پہ بس وہ دونوں ہی ہیں ۔
” خالہ شکورن کہتی ہیں شوہر کا نام نہیں لیتے۔” وہ نفی میں سر ہلا کر بولی۔
” آپ کہہ دیا کرو۔” بیگم سراج اس فضول کی بحث سے تنگ آ کر بولیں ۔
” یہ ٹھیک ہے۔” وہ اثبات میں سر ہلا کر بولی۔اپنا ناشتہ لانے کے بعد وہ ایک نوالہ خود کھا رہی تھی اور دوسرا عنایہ کے منہ میں ڈال رہی تھی۔
ارسلان اسے دیکھتے ہوئے سوچ رہا تھا جب سگی ماں نے پروا نہیں کی تو سوتیلی ماں کیسے کر رہی ہے۔
اور بیگم سراج کو یہ خدشہ لاحق ہوچکا تھا کہ انہوں نے ماہم کو اس گھر کی بہو بنا کر غلط تو نہیں کیا۔
” نہ تُو کیوں کل سے سوگ میں ہے۔” صبح عجیب و غریب پراٹھے اور چائے نامی شے سے ناشتہ کرتے ہوئے رفعت بیگم نے ناعمہ سے پوچھا۔آدھی زندگی گزار کر بھی انہیں کھانا بنانا نہ آیا تھا۔
“اماں سچ میں میرے اندر ایسا بدذائقہ کھانا کھانے کی بالکل بھی ہمت نہیں ہے۔میری شادی کراؤ کم از کم اچھا کھانا کھانے کو تو ملے گا۔” فہد چنگیز پیچھے کرتے ہوئے بولا۔
” شرم کر ماں کے کھانے کو ایسا کہہ رہا ہے۔” وہ اسے گھور کر بولیں ۔
” جو سچ ہے وہ سچ ہے۔بچپن میں بھی ہم کتنی مشکل سے آپ کے ہاتھ کا کھانا کھاتے تھے۔وہ تو شکر ہے گیارہ سال کی عمر سے ماہم نے کھانا بنانا شروع کردیا تو ہمیں بھی اچھے کھانے نصیب ہوگئے۔ورنہ تو ہم ایسے کھانے ہی کھاتے ۔اور ماہم کتنے اچھے خستہ خستہ پراٹھے بناتی تھی۔” فہد منہ بنا کر بولا۔
” اتنی ہی تکلیف ہے تو خود ہی بنا لے۔”وہ تیز لہجے میں بولیں ۔
آئمہ بھی منہ بنائے ناشتہ کر رہی تھی اور ناعمہ تو گہرے دکھ میں تھی۔اسلیے ناشتہ کیسا بنا ہے اسے پروا نہیں تھی۔
” یہ جو دو بھینسیں پالی ہیں انہیں ہی کچھ سکھا دیں ۔اگلے گھر میں یہ ہی کام آنا ہے۔یا پھر ملازمہ ہی رکھ لیں ۔بیگم سراج جو اتنے پیسے دیں گی آخر کدھر جانے ہیں ۔” اس نے دونوں بہنوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے طنز کیا۔
آئمہ نے احتجاجی نظروں سے ماں کی طرف دیکھا۔وہ فہد سے کم ہی مقابلہ کرتی تھی یہ شعبہ تو ناعمہ کا تھا جو پتا نہیں کس مراقبے میں چلی گئی تھی ۔
فہد کے منہ سے پیسوں والی بات سن کر رفعت بیگم کا منہ کھل گیا۔
” تجھے کوئی غلط فہمی ہوئی ہے ۔میں بھلا کیوں بیگم سراج سے پیسے لینے لگی۔” وہ اپنی بوکھلاہٹ پہ قابو پاتے ہوئے بولیں ۔
” آپ میری ماں ہیں ۔میں آپ کو نہایت اچھے سے جانتا ہوں ۔بنا فائدے کے آپ کچھ نہیں کرتیں ۔اور ان دونوں کی شادی کا خرچہ بھی بیگم سراج اٹھائیں گی۔”فہد ماں کی اڑی رنگت سے حظ اٹھاتے ہوئے بولا۔اس نے اس دن بیگم سراج اور اماں کی گفتگو سن لی تھی۔
” ہاں تو جو بھی کیا ہے ۔اپنی اولاد کی بہتری کے لیے کیا ہے۔تجھے کیا مسئلہ ہے۔”وہ بنا شرمندہ ہوئے بولیں ۔
” کوئی مسئلہ نہیں ہے پر میری بھی شادی کروانی ہے۔اور ابھی تو پیسے نکالیں میں اپنے لیے ناشتہ لاؤں۔”وہ چٹائی سے اٹھتے ہوئے بولا۔
” ہمارے لیے بھی نان چنے لے آنا۔” وہ دوپٹے سے بندھے پیسے فہد کی طرف بڑھاتے ہوئے بولیں ۔ایسا عجیب ناشتہ کرنا ان کے بس میں نہیں تھا۔
آئمہ نے خوش ہو کر ناعمہ کو جھجھوڑا۔ناعمہ نے بیزاری سے اس کی طرف دیکھا۔
” تم نیچے مت سونا۔”رات کو جب اس نے گدا زمین پہ بچھایا تو بیڈ پہ بیٹھا لیپ ٹاپ پہ کام کرتا ارسلان بول پڑا۔
” پھر میں کدھر سوؤں گی۔” وہ پریشان ہوئی۔
” بہت سارے کمرے ہیں کوئی بھی ایک کمرہ اپنے لیے سلیکٹ کر لو۔” وہ دوبارہ سے کام کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے بولا۔
” نہیں جی۔آپ لوگوں کے اتنے بڑے بڑے کمرے ہیں ۔اور جگہ بھی نئی ہے مجھے تو ڈر کے مارے نیند نہیں آئے گی۔” وہ نفی میں سر ہلا کر بولی۔
” عنایہ تو میرے پاس ہی سوتی ہے۔اور مجھے اچھا نہیں لگتا کہ تم نیچے سوتی ہو۔” وہ سنجیدہ لہجے میں بولا۔
” پر مجھے تو اچھا لگتا ہے ۔اتنا نرم گدا ہے مجھے تو پکی والی نیند آتی ہے۔ادھر گھر میں تو میرے پاس پھٹا پرانا بستر تھا۔”وہ ہمیشہ کی طرح معصومیت سے سچ بول گئی۔
” تمہاری امی تمہارے ساتھ ایسا سلوک کیوں کرتیں تھیں ۔”وہ ہمدردی سے اسے دیکھتے ہوئے بولا۔
” وہ دراصل ابا نے میری اماں سے دوسری شادی کی تھی تو اسلیے۔”وہ جواباً بولی۔
” تو جب وہ تمہیں مارتی تھی تو تمہارے ابا کچھ کچھ نہیں کہتے تھے۔” اس نے پوچھا۔
” ابا کے سامنے تھوڑی مارتی تھیں ۔”اس نے فوراً سے جواب دیا۔
” تو تم نے کبھی اپنے ابا کو نہیں بتایا۔”وہ حیرت سے بولا۔
” اماں کہتی ہیں اگر میں نے ابا کو کچھ بتایا تو اللہ تعالیٰ مجھے گناہ دیں گے۔”وہ سادگی سے بولی ۔
” اگر تم اپنے ابا کو بتاتی تو آج تمہارے ساتھ یہ نہ ہو رہا ہوتا۔تمہیں اپنے حق کے لیے بولنا آتا۔” وہ سنجیدہ لہجے میں بولا۔
” پر میرے ساتھ تو کچھ نہیں ہوا۔” وہ حیران ہوتے ہوئے بولی۔
” تم نے مجھ سے شادی کیوں کی؟ “وہ اچانک سے پوچھ بیٹھا۔
” میں نے تو اماں کو کہا تھا کہ مجھے آپ سے شادی نہیں کرنی لیکن انہوں نے میری بات نہیں مانی۔”وہ منہ پھلا کر بولی۔
” مجھے پتا تھا کہ تم کیوں عنایہ کے لیے اپنی زندگی برباد کرو گی۔تمہاری امی کو یہ سب نہیں کرنا چاہیے تھا ۔” وہ افسوس سے سر ہلا کر بولا۔
” عنایہ کا یہاں کیا ذکر۔”وہ ناسمجھی سے بولی۔
” مطلب تم کیوں عنایہ کو پالنے کے لیے مجھ سے شادی کرتی۔” اس نے وضاحت دی۔
” عنایہ کے لیے ہی تو مانی ہوں ۔ورنہ میں آپ سے شادی نہ کرتی۔”وہ سوئی ہوئی عنایہ کی طرف دیکھ کر بولی۔
” مجھ میں کیا مسئلہ ہے۔” وہ حیران ہوا۔
” آپ تو جی غصے کے بڑے تیز ہیں ۔بات بات پہ نوکری سے نکالنے کی دھمکی دیتے تھے۔اور اب مزے کی بات پتا ہے کیا ہے۔” وہ منہ بنا کر بولی۔
” کیا ہے؟ “اس نے دلچسپی سے پوچھا۔زری کے بعد ماہم وہ لڑکی تھی جس سے اسے بات کر کے اچھا لگ رہا تھا۔
” اب تو آپ مجھے نوکری سے نہیں نکال سکتے کیونکہ میں آپ کے پاس نوکری ہی نہیں کرتی۔”وہ مزے سے بولی۔
” ہاں یہ تو ہے۔”وہ مسکراتے ہوئے لیپ ٹاپ کی طرف متوجہ ہوا۔
” ہاں لیکن آپ مجھے گھر سے نکال سکتے ہیں لیکن خیر ہے کیونکہ اماں مجھے اس بات پہ نہیں ماریں گی۔کیونکہ تنخواہ کا جو مسئلہ نہیں ہوگا۔”وہ ہلکا سا مسکرا کر بولی۔آنکھوں میں پتا نہیں کیوں نمی آئی تھی۔
ٹائپنگ کرتے ارسلان کا ہاتھ تھما تھا۔اس نے حیرت سے گردن اوپر اٹھائی۔ماہم اب نظر نہیں آرہی تھی شاید وہ لیٹ چکی تھی ۔
وہ بیزاری سے دوبارہ کام کی طرف متوجہ ہوا۔
” تیرا کونسا سوگ ہے جو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔” رفعت بیگم نے دو دن سے منہ بنا کر بیٹھی ناعمہ کو آڑے ہاتھوں لیا۔
” اماں تم نے مجھے دھوکا دیا ہے۔” ناعمہ نم آنکھوں کے ساتھ بولی۔
” نی میں نے کیا کِیا ہے؟” وہ ناک پہ انگلی رکھ کر حیرت سے بولیں ۔
” تُو نے اس چٹی کبوتری کی شادی اتنے حسین بندے سے کرا دی۔تجھے میرا ذرا خیال نہ آیا۔” وہ شکوہ کناہ نظروں سے ماں کو دیکھتے ہوئے بولی۔
” تیرا دماغ ٹھیک ہے کیا اول فول بک رہی ہے۔” وہ اسے گھورتے ہوئے بولیں ۔
” سچ کہہ رہی ہوں ۔میں نے سمجھا کوئی درمیانی عمر کا بندہ ہوگا۔پر وہ تو اتنا جوان اور حسین ہے۔تجھے اس سے ماہم کے بجائے میری شادی کرانی چاہیے تھی۔” وہ دکھی ہوئی۔
” اس نے بیٹی کے لیے شادی کی ہے۔”انہوں نے یاد دلایا۔
” تو کیا ہوا ۔ وہ تو اتنا پیارا ہے۔مجھے ایسا ہی دولہا چاہیے تھا۔اور جہاں تک بات بیٹی کے لیے شادی کی ہے تو میں اسے قابو کرلیتی۔”اس نے کہا۔
” دماغ ٹھیک ہے ۔میں تیرے لیے کنوارہ ڈھونڈ رہی ہوں اور تجھے شادی شدہ بچے والا چاہیے۔”انہوں نے اسے گھرکا۔
” مجھے ارسلان چاہیے تھا۔تم نے میرے ساتھ بڑی زیادتی کی ہے۔”اس نے منہ پھلایا۔
” نی چل ۔میرا دماغ نہ کھا۔ایک تو پہلے ہی کوئی سستی کام والی نہیں مل رہی۔کام کر کے میری ہڈیاں گھس گئی ہیں پر تم دونوں کو ماں پہ رحم نہ آیا۔”وہ کمر پہ ہاتھ رکھتے ہوئے بولیں ۔
” اور کرتیں ماہم کی شادی۔”وہ تنک کر بولی اور منہ پہ دوبارہ سے چادر اوڑھ لی۔
رفعت بیگم اپنی ہڈحرام اولاد کو گھور کر رہ گئیں ۔
” میں بازار سے ناشتہ منگوا رہا ہوں ۔تم نے کیا منگوانا ہے۔” وہ ناشتہ بنانے کے لیے کاؤنٹر پہ چیزیں رکھ رہی تھی جب ارسلان کچن میں آکر پوچھا۔
” میں بس ناشتہ بنانے لگی تھی۔” اس نے کاؤنٹر کی طرف اشارہ کیا۔
” تم ناشتہ نہیں بناؤ۔میں باہر سے منگوا رہا ہوں ۔”اس نے ہاتھ اٹھا کر منع کرتے ہوئے کہا۔
” کیوں جی؟ آپ کو میرا ناشتہ پسند نہیں آیا۔” وہ پریشان ہوئی۔
” ارے نہیں تم بہت اچھا کھانا بناتی ہو لیکن مجھے اچھا نہیں لگ رہا کہ تم کوکنگ کرو ۔کک واپس آ رہا ہے ۔آئندہ وہ ہی کھانا بنائے گا۔”اس نے جواب دیا۔
” لیکن مجھے تو بڑا اچھا لگتا ہے ۔آپ کا اتنا پیارا اور بڑا سا کچن ہے۔”وہ مسکرا کر بولی۔
” کیا منگوانا ہے ۔”وہ اس کی بات نظرانداز کرتے ہوئے بولا۔
” ابھی تک ناشتہ نہیں بنا۔بتایا بھی تھا کہ مجھے ضروری کام ہے۔”بیگم سراج کچن میں داخل ہوتے ہوئے تیز لہجے میں بولیں ۔لیکن ارسلان کو وہاں کھڑا دیکھ کر حیران رہ گئیں ۔وہ اتنی جلدی کیوں اٹھ گیا تھا۔
” میں ابھی آپ کی طرف ہی آرہا تھا۔میں باہر سے ناشتہ منگوا رہا ہوں ۔آپ کیا کھائیں گی۔”اس نے ان سے پوچھا ۔
” باہر سے کیوں؟ یہ ناشتہ بنا رہی ہے۔” وہ سوالیہ نظروں سے ماہم کی طرف دیکھ کر بولیں ۔
ماہم کے بولنے سے پہلے ارسلان بول پڑا۔
” یہ کوکنگ نہیں کرے گی ۔کک تھوڑی دیر تک واپس آرہا ہے۔”
ماہم خاموشی سے کھڑی انگلیاں چٹخا رہی تھی اور سوچ رہی تھی ارسلان کتنے اچھے ہیں ۔اس کا کتنا خیال کر رہے ہیں ۔
” اس کو کوکنگ کرنے میں کیا مسئلہ ہے۔پیچھے کون سا نوکر چھوڑ کر آئی ہے جو یہاں آ کر نخرے دکھا رہی ہے ۔” وہ ناگواری سے بولیں ۔
ماہم شرمندگی سے دوسری طرف دیکھنے لگی۔
” آپ نے اور زری نے بھی تو کبھی کوکنگ نہیں کی تو اب پھر اب یہ بھی نہیں کرے گی۔” وہ سنجیدہ لہجے میں بولا۔
یہ بات سن کر بیگم سراج کے اندر اشتعال کی ایک لہر دوڑی۔ارسلان اس ہونق لڑکی کو ان دونوں سے ملا رہا تھا۔
” ہم کون سا فارغ ہوتے تھے۔” وہ فقط یہ ہی کہہ سکیں ۔
” بہرحال اس بحث کو چھوڑیں آپ کو دیر ہورہی ہے۔اور ویسے بھی یہ عنایہ کے لیے یہاں ہے۔تو یہ صرف عنایہ کا ہی خیال رکھے گی۔” وہ نارمل انداز میں بولا۔
بیگم سراج اپنے ناشتے کا بتا کر کچن سے باہر نکل گئیں ۔انہیں اپنے فیصلے کا شدت سے غلط ہونے کا احساس ہورہا تھا۔
جب ارسلان نے اس سے ناشتے کا پوچھا تو اس نے شرماتے ہوئے نان چنے لانے کا کہا۔اسے نان چنے بڑے پسند تھے پر گھر میں بہت کم اس کے لیے بچتے تھے۔
ناعمہ اور آئمہ نے منہ کھول کر اس بڑے سے بنگلے کو دیکھا۔اس پاگل کا نصیب کتنا اچھا تھا۔
ناعمہ نے شکوہ کناہ نظروں سے ماں کو دیکھا ۔وہ اسے گھور کر رہ گئیں ۔
وہ تینوں لاؤنج میں داخل ہوئیں تو ملازمہ نے ان سے کہا کہ وہ یہاں بیٹھیں ۔ وہ چھوٹی بیگم صاحبہ کو بلاتی ہے۔
” حق ہا اب یہ وقت بھی آنا تھا کہ وہ پاگل بیگم صاحبہ بنے گی۔” آئمہ افسوس سے سر ہلا کر بولی۔
” سارا قصور اماں کا ہے۔” ناعمہ کا دکھ مزید گہرا ہوا۔
“چپ کر ۔میرا دماغ مت گھوما ۔” وہ ناعمہ کو گھور کر بولیں ۔
ناعمہ نے منہ بنا کر سامنے دیکھا۔عنایہ کے ساتھ آتی ماہم کو دیکھ کر اس کا منہ کھل گیا۔نئے خوبصورت جوڑے کے ساتھ ماہم نے مالا اور کانٹے پہن رکھے تھے۔
جس ماہم کو انہوں نے کبھی پیتل کا چھلا بھی لے کر نہیں دیا تھا۔آج اسے سونا پہنے دیکھ کر رفعت بیگم کا دل ڈوبا۔
” کیسے ہیں آپ لوگ۔” وہ مسکرا کر بولی۔
آئمہ نے حسد سے ماہم کو دیکھا وہ تو بوسیدہ کپڑوں میں بھی خوبصورت لگتی تھی ۔اور اج تو غضب ڈھا رہی تھی۔
” بڑے مزے ہورہے ہیں ۔” ناعمہ جلی ۔
” عنایہ کا کھیلنے کا دل تھا تو ہم اس کے کمرے میں کھیل رہے تھے۔” وہ سادگی سے بولی ۔
” یہ سونے کا زیور تُو نے کہا سے لیا ہے۔” رفعت بیگم اس کے گلے میں لٹکتی مالا کو ہاتھ سے تولتے ہوئے بولیں ۔مالا کافی بھاری تھی۔
” بیگم سراج نے دی ہے۔”اس نے جواب دیا۔وہ ان کے حکم پہ انہیں بیگم صاحبہ کے بجائے بیگم سراج کہتی تھی۔
” اور کیا کیا دیا ہے۔” وہ پرتجسس لہجے میں بولیں ۔
” بس یہ ہی ہے۔” اس نے کہا ۔
” اب کچھ کھانے کے لیے بھی منگوا دو۔” آئمہ نے تیز لہجے میں کہا۔
“آپ لوگ کیا کھائیں گے۔”وہ عنایہ کو صوفے پہ بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے بولی۔
عنایہ بیزاری سے صوفے پہ بیٹھی ۔وہ اور ماہم اچھا بھلا کھیل رہے تھے کہ یہ ٹپک پڑیں ۔
” میں خود دیکھتی ہوں فریج میں کیا کیا ہے۔”آئمہ صوفے سے اٹھتے ہوئے بولی۔
وہ بھی اس کے پیچھے کچن میں چلی آئی۔کک نے حیرت سے اس موٹی سک لڑکی کو دیکھا جو فریج سے جوس،فروٹ اور کیک نکال رہی تھی۔ آئمہ نے نگٹس اور کباب کا ڈبہ کک کی طرف بڑھایا کہ یہ بھی تل دے ۔
پھر آئمہ چھوٹے فریج کی طرف بڑھی۔
” اس میں عنایہ کے لیے چیزیں ہیں ۔” اس نے منع کرنا چاہا۔
” تو پھر۔” آئمہ نے بےپروائی سے کہتے ہوئے فریج کھالا۔اندر موجود مزے مزے چیزیں دیکھ کر اس کے منہ میں پانی آگیا۔
” مت لیں ۔وہ بہت غصہ کریں گے۔یہ فریج میرے علاوہ کسی کو کھولنے کی اجازت نہیں ہے۔” اس نے منت کی۔
” پرا مر۔”آئمہ فریج سے ڈیری ملک چاکلیٹ کا ڈبہ نکالتے ہوئے بولی اور باہر نکل گئ۔
وہ بھی پریشانی سے اس کے پیچھے نکلی۔اتنا کچھ فریج سے نکالنے پہ یقیناً اس کی بےعزتی ہونی تھی اور عنایہ کی چاکلیٹ لینے پہ تو شاید ارسلان اسے ایک آدھ لگا ہی دیتا۔
” جلدی سے آجاؤ۔اتنی مزے کی چیزیں ہیں ۔” آئمہ باری باری چیزیں میز پہ رکھتے ہوئے بولی۔
رفعت بیگم تو فوراً سے ڈائننگ ٹیبل کی طرف بڑھیں ۔جبکہ ناعمہ مرے مرے قدموں سے ان کے پیچھے چل دی۔ماہم کو اتنے اچھے حال میں دیکھ کر اس کا دل کٹ رہا تھا۔
” یہ میری چاکلیٹس ہیں ۔” عنایہ نے میز سے ڈبہ اٹھاتے ہوئے کہا۔یہ آنٹیاں اسے ذرا پسند نہیں آئیں تھی۔
” کیسی بدتمیز بچی ہے۔اسے تمیز سکھاؤ۔” آئمہ نے عنایہ کو گھور کر ماہم سے کہا۔
” میں نے آپ سے کہا تھا کہ اس کی چیز ہے۔” وہ جواباً بولی ۔
” تم یقیناً عنایہ کے پاس ہی سوتی ہو گی۔” ناعمہ نے دل کی بات زبان پہ لائی۔
” عنایہ تو ان کے ساتھ بیڈ پہ سوتی ہے۔میں نیچے گدا بچھا کر سوتی ہوں ۔”وہ سادگی سے بولی۔
ناعمہ خوش ہوگئی۔یعنی ارسلان کو ماہم سے کوئی دلچسپی نہیں تھی اس کا چانس بن سکتا تھا۔
” چھوڑو نا آئمہ تم بھی بچوں والی حرکتیں کرتی ہو۔اتنی چیزیں پڑیں ہیں وہ کھا لو۔” ناعمہ نے آئمہ کو ڈپٹا۔
آئمہ نے منہ کھول کر بہن کو دیکھا۔
رفعت بیگم نے نفی میں سر ہلایا۔انہیں پتا تھا ناعمہ ایسا کیوں کر رہی ہے۔
ایک گھنٹہ مزید وہ لوگ بیٹھیں ۔گھوم پھر کر گھر کا جائزہ لیا۔اس کی کچھ چیزیں بھی آئمہ اپنے قبضے میں کر چکی تھی۔اور رفعت بیگم نے جاتے جاتے اس سے مالا اور کانٹے اتروا لیے کہ انہوں نے کسی شادی میں پہن کر جانے ہیں ۔
کک نے بیگم سراج کو دن کی ساری رپورٹ دی۔بیگم سراج کے ماتھے کی شکنوں میں اضافہ ہوگیا ۔سارا کا سار خاندان ہی پاگل اور ندیدہ تھا۔وہ ویسے بھی ماہم سے دوٹوک بات کرنا چاہتی تھیں۔ اب تو موقع بھی بھی تھا۔ارسلان عنایہ کے ساتھ بیکری میں گیا تھا۔
” کیا تماشا لگا رکھا ہے تم نے۔” ماہم جو ٹی وی دیکھ رہی تھیں ۔بیگم سراج کی آواز پہ اچھلی۔
” کک کیا ہوا۔” وہ گھبرا کر بولی ۔
” میں نے تمہیں کہا تھا کہ ارسلان سے فری نہ ہونا لیک تم نے میری بات نہیں مانی۔” وہ سخت لہجے میں بولیں ۔
” مم میں تو ان سے کبھی فری نہیں ہوئی۔”وہ نفی میں سر ہلا کر بولی۔
” تو پھر چار ہی دنوں میں اسے تم سے ہمدردی کا بخار کیوں چڑھ گیا۔” وہ اسے گھور کر بولیں۔
” مجھے نہیں پتا جی۔”وہ معصومیت سے بولی۔
” اسی معصومیت کے چنگل میں اس کو پھنسا رہی ہو۔لیکن ایک بات یاد رکھنا اگر تم نے میری بیٹی کی جگہ لی تو جان سے مار دوں گی۔” وہ اس کا منہ دبوچتے ہوئے غرائیں۔
اس نے گھبرا کر اثبات میں سر ہلایا۔
” جیولری کدھر ہے۔” انہوں نے اب غور کیا تھا۔
” وہ اماں نے شادی پہ پہننی تھی تو کچھ دنوں کی لیے لی ہے۔”وہ ڈر ڈر کر بول رہی تھی۔
” واٹ بیوقوف لڑکی۔اتنا مہنگا سیٹ تم نے اپنی اس لالچی ماں کو دے دیا۔میری ہی غلطی تھی جو تم جیسی احمق کو زیور دے دیا۔” وہ غصے سے بولیں ۔
ماہم نے بےمشکل اپنے آنسو روکے۔
” شام تک مجھے وہ سیٹ چاہیے ورنہ تمہارے حق میں اچھا نہیں ہوگا ۔اور اپنی ماں بہنوں کو کہو کہ آئندہ یہاں نہ آئیں ۔ایک دن میں اتنا ٹھونس لیا جیسے صدیوں کی بھوکی ہوں۔”وہ سخت لہجے میں بولیں ۔
بیگم سراج کے جانے کے بعد وہ واش روم کی طرف بڑھ گئی۔اس کا آنسوؤں سے بھرا چہرہ دیکھ کر عنایہ لازمی سوال کرتی۔