“میرا باپ کدھر ہے ؟”
“بلوایا ہے ۔۔۔
آتا ہوگا ۔۔۔۔۔۔۔
ہوپ سو کہ تم پہچان لو گے ۔۔”
“کیا مطلب ؟؟”
ٹھٹھک کر پوچھتی جاناں کمرے میں داخل ہوتے جمیل کی حالت دیکھ کر اس کی بات کا مطلب سمجھی تھی ۔۔۔
جمیل کو لا کر کونے میں کھڑا کر دیا گیا تھا جبکہ اس سے کھڑا ہوا جا بھی نہیں رہا تھا ۔۔
اور یہ کوئی نشے کی وجہ سے نہیں تھا ۔۔۔
نشہ تو ایک آہنی ہاتھ کا جھانپڑ کھا کر ہی ہرن ہو گیا تھا ۔۔۔
لال نیلا ہوا وہ جاناں کو دیکھ کر چونکا تھا مگر کچھ بولا نہیں تھا ۔۔۔
“تمہارے باپ نے ہمارے بندے پر ہاتھ اٹھانے کی غلطی کی ہے ۔۔”
“اور کیونکہ میرا باپ ٹھہرا “معصوم شہری” سو فوراً پکڑ کر لے آ ئے ۔۔۔
بجائے اپنے بندے سے پوچھ گچھ کرنے کے کہ وہ قانون کا محافظ ہو کر ایسی جگہ کیوں گیا تھا ۔۔۔
آپ میرے باپ کو ہی ۔۔۔۔۔۔۔”
“ایک منٹ ایک منٹ !!!”
پوری رفتار سے چلتی زبان کو حیرت سے تکتا زمان خان بگڑ کر اسے ٹوک بیٹھا تھا ۔۔۔
“تمہاری لغت میں معصوم شہری کون ہوتے ہیں ؟
تم چوری کرتے ہو ۔۔ تم بھی معصوم شہری !
تمہارا باپ نشئی جواری ۔۔ وہ بھی معصوم شہری !
تو پھر معاشرے کا ناصور کون ہیں ؟”
ایک ابرو اٹھا کر وہ ٹیبل پر زرا آگے کو جھکا تھا ۔۔۔
جواباً شانے اچکا کر جاناں نے نظریں زمان خان کے پر کشش چہرے پر جما دیں ۔۔۔
اس نظر کا مطلب سمجھ کر زمان خان نے زور شور سے سر ہلایا تھا ۔۔۔
پھر آنکھیں سکیڑ کر غیر متوقح سوال پوچھ بیٹھا ۔۔
“یہ تمہارے کندھوں کے ساتھ کیا مسئلہ ہے ؟
اچکتے رہتے ہیں ۔۔۔”
“جو مسئلہ آپ کی بھنئوں کے ساتھ ہے ۔۔۔
ناچتی رہتی ہیں ۔۔۔”
آخری جملہ منمنا کر ادا کیا تھا ۔۔۔۔
“ویل ! ایسے ہی تو میں اسے نہیں چھوڑ سکتا ۔۔۔
“اصول” تو پتہ ہیں تمہیں !!”
“میرے پاس چار سو ساٹھ روپے ہیں ۔۔۔”
کہتے کے ساتھ ہی جاناں نے جیکٹ کی جیب سے وہ پیسے نکال کر ٹیبل پر دھر دیئے تھے ۔۔۔۔
“کچھ اور بھی تو ہے ۔۔!”
“قسم لے لیں صاحب جی ایک روپیہ بھی اور ہو پاس”
کچھ اور بھی ہے ۔۔۔ جس کی پردہ داری ہے !”
“ارے سچ میں کچھ نہیں ہے صاحب جی”
زمان خان کے لہجے کی شوخی محسوس کیئے بغیر وہ اندر ہی اندر حساب کتاب میں لگی تھی ۔۔
زمان خان اس سے رشوت میں کتنی رقم طلب کر سکتا تھا اور وہ فوری طور پر اس رقم کا انتظام کیسے کر سکتی تھی ۔۔۔
“تم نہیں ہو؟”
“میں نہیں ہوں ؟”
زمان خان کے دلفریب انداز میں کہنے پر وہ غائب دماغی سے بڑبڑائی ۔۔۔
“اوہ گاڈ !”
زمان خان نے اپنے بال مٹھی میں جکڑے ۔۔۔
“مجھے معاف کردو ۔۔۔
یہ پکڑو اپنا باپ اور نکلو ۔۔
ایسوں کو رکھنے کا کوئی فائدہ بھی نہیں ۔۔۔ الٹا زحمت بن جاتے ہیں ایسے قیدی ۔۔”
جمیل کے سوکھے سے کانپتے وجود کو دیکھتا وہ نخوت سے بولا تھا ۔۔۔
“ہاہ اتنے سستے میں ۔۔۔ بلکہ فری میں کیسے جان چھوٹ گئی ۔۔؟
یہ حرام خور تو پیسے لوٹنے کے بہانے ڈھونڈتا ہے ”
دل میں سوچتے ہوئے اس نے زمان خان کی طرف دیکھا تھا جو بغور اس کے تاثرات نوٹ کر رہا تھا ۔۔۔
سٹپٹا کر دو انگلیاں پیشانی سے چھوتی وہ جمیل کو لے کر وہاں سے نکل گئی ۔۔۔
“سلی گرل ”
منہ بنا کر بڑبڑاتا زمان خان اگلے ہی پل ہنس پڑا تھا ۔۔۔۔
****************************
“اوئے جوادے !!!”
اس کی پشت پر ہاتھ مارتا وہ آنکھ دباتا اس کے پہلو میں کھڑا ہو گیا تھا ۔۔۔
جاناں کا خون خشک ہوا تھا ۔۔۔
یہ شخص اسے سخت نا پسند تھا ۔۔
ہوٹل میں کام کرنے والے بہت سے کم عمر لڑکوں سے یہ شخص بڑے گھٹیا مزاق کیا کرتا تھا ۔۔۔
غلط انداز میں ہاتھ لگاتا تھا
۔۔۔
جاناں اس سے دور رہنے کی پوری کوشش کرتی تھی ۔۔۔
مگر اب وہ خود اس کے سر پر آ کھڑا ہوا تھا ۔۔۔
اسے مکمکل نظر انداز کرنے کا تاثر دیتے ہوئے جاناں نے اپنی تمام توجہ پونچھے کی طرف مبذول کرنے کی کوشش کی ۔۔۔
“ایک بات تو بتا او جانی !”
اس کے جواباً چپ ہی رہنے پر بھی وہ ڈھیٹ بنا اس کے مزید قریب کھسکا تھا ۔۔۔
جاناں کی پیشانی پر ننھی منی بوندیں چمک اٹھی تھیں ۔۔۔۔۔
“گرمی اتنی ہے کہ کھال بھی اتار دینے کو دل کرتا ہے ۔۔۔
پھر تو اتنی موٹی جیکٹ کیوں پہنے رکھتا یے ؟
سب یہی سوچتے ہیں ”
“کیونکہ مجھے الرجی ہے ۔۔”
سرد لہجے میں کہ کر وہ پیچھے ہوئی تھی ۔۔۔
“کسسسس” سے الرجی ہے ؟”
“اپنے کام سے کام نہ رکھنے والوں سے ۔۔!!!”
یکدم ہی بھڑک کر کہتی وہ تالیوں کی آواز پر چونک کر مڑی تھی ۔۔
اور پیچھے کھڑے زمان خان کو دیکھ کر اس نے پہلی بار کچھ اچھا محسوس کیا تھا ۔۔۔
“اسلام علیکم صاحب جی خادم حاضر ہے ”
وہ اوباش شخص اتنے دنوں میں اتنا تو جان گیا تھا کہ انسپکٹر زمان خان ذاتی طور پر جواد کو جانتا ہے ۔۔
سو فوراً ہی گڑبڑا کر اس کے سامنے جھکا تھا ۔۔۔۔
“خادم لمحے سے پہلے اپنی بدصورت شکل گم کر لے !”
زمان خان کے کہنے کی دیر تھی بس ۔۔۔
وہ گرتا پڑتا وہاں سے نکلا تھا ۔۔۔
“اور تم مزید کس چیز کا انتظار کر رہی ہو ؟”
یکدم ہی اس کے بلکل قریب آ کر وہ دانت پیس کر بولا تھا ۔۔۔
ٹکر ٹکر اس کی شکل تکتی جاناں نے حلق تر کیا تھا ۔۔۔
اس کی حقیقت سے واقف ہونے کے باوجود زمان خان نے کبھی اکیلے میں بھی اسے اس طرح مخاطب نہیں کیا تھا ۔۔۔
کہ کہیں ہوائیں بھی نہ جان لیں کہ وہ جاناں ہے ۔۔۔
تو پھر اب کیا ہوگیا !
“جانتی ہو اس شخص کی نیچر ؟”
“آپ جانتے ہیں ؟”
جاناں بھی چڑ گئی تھی ۔۔۔
زمان خان کے چپ رہنے پر اس نے ناگوار مسکراہٹ کے ساتھ آنکھیں گھمائی تھیں ۔۔۔
“جب سب جانتے ہیں تو کیوں نہیں دھرتے ایسے درندوں کو ؟
کس بات کے انتظار میں رہتے ہیں؟
کہ قسمت کے مارے ان جیسے درندوں کی ہوس کا نشانہ بنتے رہیں ۔۔
پھر کوئی مظلوم ہمت کر کے زبان کھولے اور میڈیا پر بھی جب وہ معاملہ گرم موضوع بن جائے تو ان دندوں سے کچھ وصول کر کے کسی مصیبتوں کے مارے کو پکڑ کر دنیا کے سامنے ملزم بنا کر لے آئیں ۔۔
ہے نہ ؟؟؟”
جاناں کی آنکھوں میں غصہ ہلکورے لینے لگا تھا ۔۔۔
“اس بات کو چھوڑو ۔۔۔
تم بس آئندہ یہاں کام نہیں کرو گی ۔۔۔
چھوڑ دو یہ کام ۔۔
میں نے تمہیں ایک جاب آفر کی تھی نہ ؟”
بہت مشکل سے اس کڑوی حقیقت کو ہضم کرتے ہوئے زمان خان ڈپٹنے والے انداز میں بولا تھا ۔۔۔
“مجھے نہیں کرنی آپ کی جاب ۔۔ مہربانی !”
وہ یونہی منہ سُجائے بولی تھی ۔۔۔
“تمہیں میرے پاس کام نہیں کرنا ۔۔۔
میں تمہیں صرف کام دلوائوں گا !!”
وہ جیسے جاناں کے انکار کی وجہ سمجھ کر سمجھانے لگا تھا ۔۔۔
“نہیں کہا تو مطلب نہیں ”
“وجہ ؟؟؟”
جاناں نے دل پر ہاتھ رکھ کر اسے گھورا تھا جو اس کی ڈھٹائی پر تلملاتا کافی اونچی آواز میں دہاڑا تھا ۔۔۔
“میرے اور ہوٹل مالک کے درمیان کچھ معاملات طے ہوئے ہیں ۔۔۔
مجھے تقریباً ایک مہینہ یہاں مستقل کام کرنا ہے ۔۔
اور ایک مہنہ ختم ہونے میں چند دن باقی ہیں ۔۔
پھر میں یہ کام چھوڑ کر اپنا کام شروع کر دوں گی ۔۔۔!”
زمان خان کے چیخنے پر وہ ڈر گئی تھی کہ کہیں وہ جزبات میں آ کر اس کی حقیقت آشکار نہ کر دے ۔۔۔
سو فوراً جامے میں آ کر اپنا ارادہ بھی بتا گئی ۔۔۔
“اپنا کام !
کون سا کام ؟”
وہ بھی پل میں مدھم پڑا تھا ۔۔۔
“آہم آہم !! فٹے منہ تیرا “زبان” کی بچی ۔۔۔
کچھ دیکھتی نہیں ۔۔ کچھ سوچتی نہیں ۔۔۔
بس پھسل جاتی ہے ۔۔۔۔
اور یہ منحوس ! آنکھوں میں جانے کیا لگائے گھومتا ہے ”
ایک بار پھر وہ تھی ۔۔
اس کا دل تھا ۔۔
تاثرات تھے
اور سر پر ہاتھ مارتا زمان خان !!!!
“اب اگر دل میں مجھے گالیاں دے لیں ہوں تو کچھ کام کے بارے میں بتائو گی ؟”
“لے بھیا ۔۔۔ یہ تو میرے تاثرات سے بہت کچھ جان لیتا ہے ۔۔۔”
چہرے پر خوفزدہ تاثرات سجا کر وہ سوچ کے رہ گئی تھی جبکہ سینے پر ہاتھ باندھتا زمان خان بولا تھا ۔۔۔
“تمہارے چہرے پر تمہاری سوچیں بہت واضح ہوتی ہیں ۔۔۔ کوئی بھی دیکھ سکتا ہے ۔۔۔
اور عقل والا سمجھ بھی سکتا ہے ۔۔۔”
“ہنہ !! اپنے منہ میاں مٹھو !”
“کام؟”
“کام ؟؟؟؟ اوہ ہاں ۔۔۔۔ دراصل میں نے سوچا ہے میں برگر بیچوں گا ۔۔۔”
بالآخر اس نے اگل ہی دیا ۔۔
“برگر ؟”
زمان خان کے لبوں پر مسکراہٹ پھڑپھڑائی تھی ۔۔۔
“کہاں بیچو گے ؟
اور کیا نام رکھو گے؟
جواد برگر شاپ ؟”
“ارے نہیں میں اپنی اماں کے نام پر شاپ کھولوں گا ۔۔۔
“شاداں برگر شاپ !!!”
ساری دنیا کے جگنوں جاناں کی آنکھو میں اتر آئے تھے ۔۔ جنہیں دیکھتا زمان خان دیکھتا ہی رہ گیا تھا ۔۔
پھر سر جھٹک کر گویا ہوا ۔۔۔
“چند دن مطلب چند دن !
چند دن بعد مجھے یہاں نظر آئے تو گردن سے پکڑ کر ہوٹل سے لے جائوں گا ۔۔۔
اور سنو !! روز کے دو برگرز ہمارے بھی ۔۔۔
صفائی سے بنانا ۔۔۔
اور اپنا خیال رکھنا ۔۔”
اسی گندے شخص کی طرف ایک اچٹتی سی نظر ڈال کر وہ بغیر آج اس کا امتحان بنے واپس چلا گیا تھا ۔۔۔
جاتے جاتے وہ کسی خیال سے پھر جاناں کی طرف گھوما تھا ۔۔
“ہوٹل کا مالک کہاں ہے ؟”
وہ سامنے والی دکان پر گپیں ہانک رہا ہے !!”
سر ہلا کر اس نے سامنے والی دکان کا رخ کیا تھا ۔۔۔
ہوٹل کے مالک کو جاناں کا خیال رکھنے کی تلقین بھی تو کرنی تھی ۔۔۔
“یہ کیا مصیبت ہے یار ؟
اسی سے جان چھڑانے کے لیئے میں یہ کام چھوڑ رہی ہوں اور یہ کام شروع ہونے سے پہلے ہی آڈر بھی دے گیا ۔۔
کمینہ !!
لیکن آج تو بڑی انسانیت کے جامه میں تھا ۔۔۔
میری جان عذاب میں بھی نہیں ڈالی ۔۔۔
شکر ہے کچھ انسانیت جاگی ۔۔!”
سوچوں میں گم وہ پھر اپنا کام شروع کر چکی تھی ۔۔
*****************************
سگرٹ کے کش لگاتے ہوئے وہ اس گاڑی کی طرف بڑھا تھا جس کی کھڑکی پر جھکا ظفر بہت دیر سے مغز ماری کر رہا تھا ۔۔۔۔
“کیا مسئلہ ہے ؟”
“سلام صاحب !”
ظفر کے کچھ کہنے سے پہلے ہی وہ گاڑی والا چہکا تھا ۔۔۔
“کب سے کہ رہا ہوں بڑے صاحب کو بلوا دو مانتا ہی نہیں ۔۔۔
کہتا ہے میں تیرا باپ ہوں ۔۔ جو بات کرنی ہے میرے سے کر !”
“کیوں ظفر صاحب ؟
آپ کو کچھ زیادہ ہی شوق نہیں ہوگیا ہر کسی کا باپ بننے کا !
اپنے باپ کا پتہ ہے نہ ؟؟”
زمان خان اس کار سوار کو پہچانتا تھا سو بڑا چبا چبا کر ظفر سے مخاطب ہوا تھا ۔۔۔۔
“جی سر!”
ظفر نے وہاں سے نکلنا چاہا تھا لیکن وہ بازو آگے کرتا اسے روک گیا تھا ۔۔۔۔
“تو پھر بتا تیرا باپ کون ہے ؟
ابے بتا بھی دے ؟
نام وام کچھ پتہ ہے کہ نہیں ؟”
گاڑی والا بھی سگرٹ نکالتا چسکے لے رہا تھا ۔۔۔۔
ظفر کا سیاہ چہرہ غصے کی سرخی سے اور سیاہ پڑ گیا تھا ۔۔
“صغیر احمد !”
سر جھکا کر اس نے نام بتایا تھا لیکن زمان خان کی اگلی بات پر مٹھیاں بھینچ کر رہ گیا تھا ۔۔
“نہیں میں ہوں تیرا باپ !
زمان خان !!
اب نکل یہاں سے”
ترچھی نظر کی ایک تیز گھوری اس گاڑی والے پر ڈال کر وہ پیر پٹختا وہاں سے نکلا تھا ۔۔۔
“سو جبار صاحب!!!
گاڑی میں کیا ہے جو نہیں دکھاتے آپ ؟”
اس کے ہونٹوں کی مسکراہٹ معنیٰ خیز تھی ۔۔
“بس صاحب جی تھوڑا “نمک شمک” ہے ۔۔۔۔
اور یہ چھوٹا سا “تهحفه” آپ کے لیئے ۔۔۔”
ہنستے ہوئے جبار نے ایک پھولا ہوا خاکی لفافہ اس کی طرف بڑھایا تھا ۔۔۔
جسے وصولتے ہوئے زمان خان کا چہرہ روشن ہو گیا تھا ۔۔۔
“اوئے راستہ کھولو صاحب کے لیئے ۔۔۔۔
معصوم شہریوں کو زیادہ پریشان نہیں کرتے ۔۔۔”
“معصوم شہری” کہتے ہوئے زمان خان کے لب بیساختہ مسکرائے تھے ۔۔
حوالدار بھی اچھی طرح سمجھ گئے تھے یہ کس قسم کا معصوم شہری تھا ۔۔۔۔۔
سو راستے سے رکاوٹ ہٹا دی گئی ۔۔۔۔
“سہی تو کہتی ہے وہ معصوم شہری خود کو !”
اپنی گاڑی میں لفافہ ڈالتے ہوئے وہ زیر لب بڑبڑایا تھا ۔۔۔
*****************************
“ابے اوئے !!
اوئے تو مجھے للکار نہیں !!!”
جمیل کے چلانے پر پان چباتا فیروز طنزیہ مسکرایا تھا ۔۔۔
“ہاں منصور ! نہیں للکار بابے کو ۔۔۔
ابھی اٹھا کر تجھے پٹخے گا پھر تو روئے گا ۔۔
جان دیکھ رہا ہے نہ بڈھے کی ”
“ہاہاہاہاہاہاہاہاہاہا !!!”
آس پاس بیٹھے بہت سے لوگ قہقہ لگا کر ہنس پڑے تھے ۔۔۔
“اور اس کے پاس بنگلہ گاڑی کیا نہیں ہے جو یہ بولی میں نہیں لگا سکتا ۔۔۔”
کہیں سے آواز ابھری تھی ۔۔
ایک بار پھر قہقے ۔۔
“کچھ ہے تو سہی ۔۔۔۔
بچپن میں دیکھی تھی بڑی پیاری سی ، من موہنی سی اس کی لڑکی ۔۔۔
ہائے ”
نشے میں دھت منصور سینے پر ہاتھ رکھ کر لیٹتا چلا گیا تھا ۔۔۔
“اوئے ہوئے ۔۔۔ کیا بہت پیاری تھی ؟”
“ارے ایسی ویسی ؟ مکھن ملائی تھی ۔۔ نہ جانے کہاں چھپا دیا ہے اس ہیرے کو !!”
ہونٹ کاٹ کر وہ جس غلیظ اندا میں بولا تھا جمیل کا خون کھول گیا تھا ۔۔۔
وہ منصور پر جھپٹا تھا اس سے پہلے کے جمیل کا ہاتھ منصور کے کالر تک پہنچتا منصور کے جگری یار فیروز نے اسے کے منخنی سے وجود کو پکڑ کر پیچھے دھکیل دیا تھا ۔۔۔
“ابے نئی کر ! نئی کر ! چھوڑ دے بڈھے کو ہٹ پیچھے ۔۔”
وہ مونچھوں کو تائو دیتا گرے ہوئے جمیل کے پاس ہی اکڑوں بیٹھ گیا تھا ۔۔۔
“کتنا مانگتا ہے ؟”
“کیا مطلب ہے تیرا ؟”
جمیل کی دھڑکن رک سی رہی تھی ۔۔
“لاکھ دو لاکھ ؟
نہیں ؟؟
اچھا پانچ لاکھ ؟”
جمیل کی پھٹی ہوئی سرخ آنکھوں کو دیکھتا وہ اسے تھپڑ رسید کر چکا تھا ۔۔
“جہاں بھی چھپا رکھا ہے اسے بلوا دے اور میرے حوالے کر دے ۔۔۔
میں تجھے منہ مانگی رقم دوں گا ۔۔۔
جتنا بھی تو بول !!”
اپنی قمیض کا کالر جھٹک کر اس آفر پر جمیل نے زبان اپنے سیاہ ہونٹوں پر پھیری تھی ۔۔۔۔
*****************************
“شاداں برگر !!
سب سے اچھے برگر !!
صفائی سے بنے برگر !!
برگر لےلو برگر !!
مزے دار شاداں برگر !!”
مردانہ آواز میں حلق پھاڑ پھاڑ کر چلاتی وہ برگر بیچنے کی ریہرسل کر رہی تھی ۔۔
بالآخر اس کی ہوٹل سے جان چھوٹ گئی تھی ۔۔۔
اسکول کی ہیڈ ماسٹر نے اسے کام پر رکھنے سے انکار کر دیا تھا کہ وہاں پہلے ہی بچے بہت کم تھے اور چار پانچ ریڑھیاں پہلے ہی لگی تھیں ۔۔۔
جن میں سے ایک برگر کی بھی تھی ۔۔
سو اس نے شام کو گھر کے باہر بیٹھ کر برگر بیچنے کا پلان بنایا تھا ۔۔۔
“آواز لگائوں گی تو کچھ عجیب تو نہیں لگے گا ؟
یا ایسے ہی بس چپ کر کے برگر باہر رکھ کے بیٹھ جائوں ؟”
چپ سی ہوتی وہ سوچ میں گم ہو گئی تھی ۔۔۔
“آہاں !! خود باہر سامان رکھ کر بیٹھ جائوں گی اور برابر والو کے کاکے کو یہ سب یاد کرا کے تشہیر کروالوں گی ۔۔۔۔ !
منح کرے گا تو دس روپے پکڑا دوں گی کمبخت کو ۔۔۔”
محبت بھری نظروں سے پلنگ پر رکھے سامان کو تکتی اب وہ بڑے پیار سے ایک ایک چیز کو چھو چھو کر اس کا نام لے رہی تھی ۔۔
“انڈے ۔۔۔
کھیرے ۔۔۔
کیچپ ۔۔۔
مایو وایو جو بھی ہے ۔۔۔”
مایونیز کو نا پسندیدگی سے دیکھا گیا ۔۔۔
اس کا نام لینے میں اسے دشواری ہو رہی تھی ۔۔
پہلی بار اس کا ذکر سنا تھا ۔۔
“ڈبل روٹی ۔۔
اور ٹماٹر !
ایک بار دکان چل جائے ۔۔
پھر بس انڈے اور پیاز وغیرہ ڈال دوں گی ۔۔۔
میرے پاس پیسوں کا پودا نہیں ہے جو ایویں ای بھرے بھرے برگر کھلاتی رہوں ۔۔۔
ایسے ہی لوگ چھوٹے موٹے کام دھام شروع کرتے ہیں ۔۔
اور ایک دن کروڑپتی بن جاتے ہیں ۔۔۔
میرا وقت بھی آئے گا ۔۔”
کمر پر ہاتھ ٹکائے وہ تصور ہی تصور میں خود کو پیسوں سے بھرے بستر پر پڑا دیکھ دیکھ کر خوش ہو رہی تھی جب دروازے پر ہونے والی دہشت ناک دستک پر اچھل پڑی تھی ۔۔۔۔
“کون منحوس آیا ہے؟ ”
چلا کر پوچھتی وہ یہی چاہتی تھی کہ دوسری طرف والا سن لے ۔۔
دروازہ کھولتے کے ساتھ ہی اس کی چڑھی تیوری اور کمر پر ٹکا ہاتھ دونوں ڈھیلے پڑے تھے ۔۔۔
سامنے باوردی زمان خان موجود تھا ۔۔۔
آنکھوں سے سیاہ چشمہ اتار کر کر اس نے بہت سنجیدہ سی نظر اس پر ڈالی تھی پھر اسے سائڈ کر کے اندر داخل ہو گیا تھا ۔۔۔
اندر داخل ہونے کے لیئے اسے جھکنا پڑا تھا ۔۔۔
دروازہ اس کے چھ فٹ سے نکلتے قد کے لیئے چھوٹا تھا ۔۔۔
“اے اے ہلو صاحب جی !
کہاں گھسے جا رہے ہیں آپ ؟”
پل بھر کو سکتے میں رہنے کے بعد وہ اس کے پیچھے بھاگی تھی جو کمرے کا جائزہ لیتا پلنگ کی طرف آیا تھا ۔۔
“اسے خالی کرو !”
“کیوں ؟ کیوں ؟ کیوں ؟”
نا سمجھی سے اسے گھورتی جاناں زمان خان کے یہاں آنے پر اچھی خاصی ہول اٹھی تھی ۔۔۔
اس کا سوال نظر انداز کرتا وہ سامان شاپر میں ڈال کر کمرے میں پہنچا چکا تھا ۔۔۔
وہ ہاتھ مسلتی روہانسی سی اس کے پیچھے ہیچھے ہی تھی ۔۔۔
“لے آئو !!”
دروازے سے باہر جھانک کر اس نے حکم دیا تھا ۔۔۔
“کیا لانا ہے ؟ کس کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟”
رک کر جاناں نے پھیلتی آنکھوں سے چادر میں کسی کو اٹھائے اندر داخل ہوتے اہلکاروں کو دیکھا تھا ۔۔۔
اور جونہی وہ لاشا لا کر پلنگ پر رکھا گیا اور اس کا چہرہ سامنے آیا
جاناں کا دل رک گیا تھا ۔۔۔
ہاتھ پیر سن ہو گئے تھے ۔۔
اور پلکیں جھپکنا بھول گئی تھیں ۔۔
اسے لگا تھا وہ اب کبھی نہیں بول پائے گی ۔۔
لیکن اگلے ہی پل وہ حلق کے بل چلائی تھی ۔۔۔
“ابا !!!!”
*****
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...