اماں وقاص اور کنول آپس میں باتوں میں لگے تھے
ان کا خاندان ایک تھا
ان کی اپنی باتیں تھیں
سب ہی بولے جا رہے تھے کوئی سن بھی رہا ہے ان کی اس پر کسی نے توجہ نہیں دی
ربان یہ سب دیکھ کر کڑھتا رہا
وہ سب اسے اگنور کر رہے تھے
وہ خود کو مس فٹ سمجھتے ہوئے اٹھنے لگا جب وقاص کو اس کا خیال آیا
“سو ربان صاحب
کیا کرتے ہیں آپ؟”
ربان نے بڑا اکڑ کر ٹانگ پر ٹانگ چڑھائی اور کنول کو نظروں میں رکھ کر بولا
“تمہاری بہن کنول سے محبت کرتا ہوں”
کنول کو کھانسی آ گئی تھی
اور اماں کو شرم نے آ گھیرا تھا
جبکہ وقاص نے توصیفی انداز میں سر ہلایا تھا
“کیا بات ہے”
وقاص نے شرارتی نظروں سے کنول کو دیکھ کر کہا تو کنول کا دل کیا کہیں غائب ہو جائے
“ممی ڈیڈی”
جان اور وانی بھی اپنے روم سے باہر نکل کر آ گئے تھے
“یہ کون ہیں ممی؟”
اماں کو تو وہ دونوں جانتے تھے
وقاص کے بارے میں استفسار کیا تھا تب ہی
اس سے پہلے کہ کنول کوئی جواب دیتی ربان بول اٹھا
“یہ تم لوگوں کے ماموں ہیں
وقاص ماموں
ہائے کہو انہیں”
“ہیلو ماموں”
“ہیلو لٹل اینجلز”
وقاص بچوں میں گھل مل گیا تو کنول ڈنر کی تیاری کے خیال سے کچن میں چلی گئی
کنول خانساما کے ساتھ کھانے کی تیاری کرتی ہوئی لائونج سے آنے والی آوازوں پر مسکرا رہی تھی جب ربان وہاں بھی کچن میں چلا آیا
ایک ایک گھوری دونوں نے ایک دوسرے پر ڈالی تھی پھر کنول نے پھر کام کرنا شروع کر دیا مگر ربان کچن کے سلیب پر کہنی ٹکا کر مسلسل گھور کر کنول کو زچ کرنے لگا
“کیا ہے ؟”
کنول جھنجلا گئی
“میں یونہی تمہیں کچھ الگ چیز سمجھ رہا تھا
میرے بچے تو اپنے وقاص ماموں سے بھی بہت کلوز ہو گئے ہیں”
ربان چڑانے والے انداز میں بولا
“بچے توجہ اور محبت مانگتے ہیں
جو بھی انہیں یہ دے دے اس سے پیار کرنے لگتے ہیں
اور میں نے کب کہا کہ میں الگ چیز ہوں ؟”
ربان جواباً ہنس پڑا تھا
پھر کچن سے نکلتے نکلتے بولا
“الگ چیز تو ہو
یونہی تو نہیں دل ہارا میں”
کنول جھینپ گئی پھر کچھ یاد آنے پر ربان کو پکار بیٹھی
“ہاں؟”
ربان نے پوچھا
“وہ اماں سے آپ نے آج بہت اچھے طریقے سے بات کی ہے
تھینک یو”
“اس میں تھینک یو کی کیا بات ہے ہنی؟
وہ جب بھی زیادہ سے عرصے بعد آئیں گی میں ان سے ایسے ہی بات کروں گا”
کنول کو کچھ ٹائم لگا تھا ربان کی بات سمجھنے میں اور سمجھ میں آنے پر کنول نے غصیلی نظریں ربان پر ڈالی تھیں جو ہنستا ہوا کچن سے نکل گیا تھا
🍁🍁🍁
جان اور وانی کو اسکول بھیج کر وہ ربان کی تیاری میں ہیلپ کرنے لگی اور پھر ربان کے آفس چلے جانے کے بعد وہ کافی کا کپ لے کر سکون سے صوفے پر بیٹھی ہی تھی جب پیچھے سے وقاص کی آواز آئی
کنول حیران ہو کر صوفے سے اٹھ کر پلٹی تھی
“وقاص بھائی آپ کب آئے ؟”
کنول کے چہرے پر حیرت ہی حیرت تھی
کل رات ہی تو وقاص یہاں آیا تھا اب اگلی ہی صبح پھر اس کا یہاں چلے آنا الجھا رہا تھا
“اممم
لگتا ہے ربان صاحب کی طرح تمہیں بھی میرا آنا اچھا نہیں لگا”
وقاص کے کہنے پر کنول شرمندہ سی ہو گئی
“ارے بلکل نہیں
میں بس حیران تھی اتنی صبح صبح کیسے ؟
اور ربان کے بیہیویر کو مائنڈ نا کریں انہیں شاذ و نادر ہی کچھ اچھا لگتا ہے”
“اور تم ان شاذ و نادر میں سے ہو”
وقاص کہ کر کر خود ہی ہنس دیا تھا
کنول بھی ہنس پڑی
“آپ بیٹھیں میں چائے لاتی ہوں”
“ارے بلکل نہیں رکو
میں تم سے ضروری بات کرنے آیا ہوں اور ابھی ہاسپٹل بھی جانا ہے
بات میں کل ہی کر لیتا مگر موقح ہی نہیں ملا”
وقاص کے ایک دم سے سنجیدہ ہونے پر وہ بھی اس بڑے سے صوفے کے دوسرے سرے پر بیٹھ گئی
“جی کہیں؟”
کنول بھی سنجیدہ ہو گئی
“تمہاری فرینڈ تھی ایک رخشندہ ؟”
“اَلْحَمْدُلِلّه اب بھی ہے”
کنول حیران ہو گئی تھی اپنی فرینڈ کے زکر پر
“وہ اسی ہاسپٹل میں نرس ہے جہاں میں کام کرتا ہوں
تمہاری وجہ سے کچھ جان پہچان تھی تو میں اس کا کچھ خیال کر لیتا تھا
خیال خیال میں پتا ہی نہیں چلا وہ کب میرے خیالوں کی ملکہ بن گئی”
کنول اچھل پڑی تھی بیٹھے بیٹھے
وقاص نے جھینپ کر اسے دیکھا پھر مزید بولا
“اب میں نے اسے پرپوز کر دیا ہے
اس نے کہا میں اپنے گھر والوں سے بات کروں
اور میرے گھر والوں کا تو تمہیں پتہ ہے”
کنول افسوس سے سر ہلانے لگی
وقاص بھائی کے امی اور ابو یعنی کنول کے خالہ اور خالو وقاص کے بلکل الٹ تھے
بہت لڑاکا اور لالچی نیچر تھی ان دونوں کی
اب خالہ سب سے یہی کہتی پھرتی تھیں کہ
“بہو میں ٹرک بھر کر جہیز لانے والی نہیں بلکہ “جہیز بھرے بنگلے والی” لائونگی”
اپنے غربت کے دن بھلائے خالہ اور خالو وقاص بھائی کی کامیابیوں کو کیش کر رہے تھے
“کہاں خالہ خالو کے ارمان اور کہاں میری معصوم سی سہیلی رخشندہ فرمان
اس کے مالی حالات تو میرے گھر والوں سے بھی زیادہ برے ہیں”
کنول سوچنے لگی وقاص نے اس کی آنکھوں کے آگے چٹکی بجائی
“تو اب میں کیا کر سکتی ہوں؟”
کنول نے پوچھا تھا
“میرے امی ابو اب تمہاری بہت عزت کرنے لگے ہیں کیونکہ تم شہر کے معزز لوگوں میں شامل ہو گئی ہو وہ تمہاری بات سمجھنے کی کوشش کریں گے
پلیز ان سے بات کرنا”
کنول جواب دینے ہی لگی تھی تب گلا کھنکھار کر ربان نے انہیں اپنی طرف متوجہ کیا
وہ دونوں چونک کر ربان کی طرف دیکھنے لگے تھے
ربان جلن بھری نظروں سے انہیں ایک ہی صوفے پر بیٹھا دیکھ رہا تھا حالانکہ کنول اور وقاص کے درمیان اتنی جگہ تھی کہ جان وانی اماں اور ربان خود بھی آرام سے ایک ساتھ ان دونوں کے درمیان بیٹھ سکتے تھے
دونوں کو گھورتے ہوئے ربان ان کے درمیان آ کر بیٹھ گیا
“اوہ ربان صاحب
کیسے ہیں آپ ؟”
“بہت ہینڈسم”
وقاص کے پوچھنے پر ربان نے جیسا جواب دیا تھا اس پر کنول نے حقیقت میں اپنا سر پیٹ لیا تھا جبکہ وقاص کنول کو یوں دیکھنے لگا جیسے کہ رہا ہو
“کیا چیز ہے تمہارا شوہر”
“اوکے ربان صاحب مجھے ہاسپٹل کے لیئے بہت دیر ہو رہی ہے
کنول سے کچھ ضروری بات کرنی تھی جو میں کر چکا ہوں
اب میں چلتا ہوں
اوکے کنول
سی یو”
“خدا حافظ بھائی”
کنول دروازہ بند کر کے پلٹی تو پیچھے ہی کھڑے ربان سے ٹکراتے ٹکراتے رہ گئی
کنول دروازے سے چپکی ربان کو گھورتی رہی تو ربان دونوں ہاتھ دروازے پر کنول کے دائیں بائیں لگائے اس کا راستہ روکے گھور رہا تھا
“آپ واپس کیوں آئے تھے؟”
کنول نے حیرانگی سے پوچھا
“فائل بھول گیا تھا ضروری
میرے بچوں کے ماموں جان کیوں صبح صبح ٹپکے تھے؟”
ربان کا لہجہ تفتیشی تھا
کنول کو نفرت تھی شکی لوگوں سے
لیکن ربان کا انداز شکی نہیں بلکہ جلا ہوا تھا
جلن تھی اس کے انداز میں
جس پر کنول کو ہنسی آ رہی تھی
تب ہی اسے ستانے کے لیئے بولی
“شادی کی بات کرنے”
آدھا ادھورا سچ بتا کر کنول کھلکھلا کر ہنس پڑی تھی کیونکہ ربان کا رنگ اڑ گیا تھا کنول کی بات پر
“اپنی اور میری سہیلی کی شادی کی بات کرنے”
“وٹ؟”
ربان حیران ہوا
“وٹ وٹ ؟
کنول نے ربان کے سینے پر ہاتھ رکھ کر اسے پیچھے کیا پھر پوچھا
“کونسی فائل تھی ؟”
“وہ بلیو والی
جس پر میں آج کل کام کرتا ہوں”
ربان نے اسے جواب دیا تھا مگر دماغ ابھی بھی وقاص اور کنول کی سہیلی کے معاملے پر اٹکا تھا
“کیا بہت ضروری ہے فائل کا آفس پہنچنا ؟”
کنول ربان کے ٹائی ہاتھ پر لپیٹتے ہوئے پوچھنے لگی
“ہاں”
ربان کے پسینے چھوٹنے لگے کنول کے انداز پر
“فائل کے ساتھ آپ کا بھی جانا ضروری ہے؟”
“نہیں
بلکل بھی نہیں
کیوں ؟”
ربان سمبھل کر اپنے اصل بولڈ انداز میں لوٹا اور کنول کی کمر کے گرد بازو حمائل کر کے مزے سے بولا تھا
“تو پھر فائل بھجوادیں ڈرائیور کے ہاتھ اور آپ میرے ساتھ آئیں سامان شفٹ کرنا ہے میرا”
کنول اپنے روم میں چلی گئی تو حیرت زدہ سا ربان بھی گنگناتا ہوا اس کے پیچھے ہو لیا
🍁🍁🍁