چھوٹے سوراخ سے اندر جھانکے کی کوشش کی لیکن تاریکی میں کچھ خاص نہ دیکھ پائی پھر ہمت کر کے کھڑکی کی طرف ہو لی، پرانی لکڑی سے بنی مضبوط اور پائیدار کھڑکی کو کھولنا چاہا لیکن اس خیال کو جھٹک دیا کہ ابھی مجھے تھوڑا اور انتظار کرنا چاہیئے ۔۔ موم بتی اپنی زندگی کے آخری مراحل طے کر رہی تھی وہ مزید ایک یا آدھا گھنٹہ ہی روشنی پھیلا سکتی تھی اسکے بعد اس نے بھی گل ہو جانا تھا ۔۔۔
عائشہ کو اپنا وجود بھی اس جلتی موم بتی کی طرح محسوس ہو رہا تھا جیسے اس نے ختم ہو جانا ہے ویسے اسکی بھی زندگی ٹوٹی ہوئی شاخ کی مانند ڈول رہی ہے جو تیز ہوا کے جھونکوں سے کبھی ادھر اور کبھی ادھر پٹخی جا رہی ہے، آنسوؤں کی رفتار میں اور روانی آگئی، دل اپنے والدین اور چھوٹی بہنوں کےلئے تڑپا نجانے وہ کس حال میں ہونگے میرے لئے کتنے پریشان ہونگے، باپ کی غربت اور جھریوں سے اٹا مجبور اور بے بس چہرہ اس کا دل چیر رہا تھا ۔۔۔
ایک دم خیال کیپٹن مغیث کی طرف گیا جو اس کا شوہر بننے جا رہا تھا، کیپٹن مغیث جسکی وہ امانت ہے، ایک وجیح اور نیک سیرت انسان قرآن و سنت کا مقلد، اللہ اور رسول کے حکم کو سر آنکھوں پہ رکھنے والا، اسکے سپنوں کا شہزادہ اسے اپنے آپ سے چھینتا محسوس ہو رہا تھا۔۔۔۔
غم کی لہر اسکے دل و دماغ کو چھلنی کئے جارہی تھی ، وہ مسلسل یہی سوچ رہی تھی آج یا عزت جائے گی یا پھر زندگی ۔۔۔ میری عزت کیسے جا سکتی ہے میں تو کیپٹن مغیث کی امانت ہوں میں کیسے خیانت کر سکتی ہوں، میں منافق نہیں ہوں ۔۔ پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان اسکے دماغ میں گردش کر رہا تھا۔۔۔۔۔منافق کی 3 نشانیاں ہیں ان میں سے ایک امانت میں خیانت کرنے والا ہے ۔۔
دل خون کے آنسو رو رہا تھا ایسے لگ رہا تھا کہ جیسے اس کا کلیجہ پھٹ جائے گا، بےبسی کے اس عالم میں بھی اس نے دل سے وعدہ کیا میری جان جاتی ہے تو جائے لیکن اس بدکردار شخص کے ہاتھوں اپنی عصمت دری نہیں ہونے دوں گی، اگر ماری بھی گئی تو اپنی عصمت کو بچاتے ہوئے مروں گی تو دل میں کو ئی خلش نہیں ہو گی انشااللہ ۔۔۔
بارش کا زور ٹوٹ گیا طوفان تھم گیا ،کالی گھٹایئں ، ابر آلود آسمان کی شفافیت نیلاہٹ میں تبدیل ہو چکی تھی، کمرے کے چھوٹے سے روشن دان سے روشنی چھن چھن کر کمرے میں موجود چیزوں کی خبر دے رہی تھی ۔
ڈری سہمی عائشہ کی نظریں اس دیو قامت کمرے کا طواف کر رہی تھی، کمرے میں بچھا شاہانہ انداز کا بہت بڑا بیڈ ساتھ دونوں اطراف میں لیمپ، ایک کونے میں بہت بڑی الماری، ڈریسنگ ٹیبل جو طرح طرح کی مختلف خوشبویوں سے اٹا ہوا تھا، دبیز صوفہ اور ساتھ کافی ٹیبل، فرش کو سنگ مر مر سے مزین کیا گیا تھا ۔۔۔
کمرا ایک دم چاروں اطراف سے روشن ہو گیا سارے بلب روشن ہو چکے تھے، عائشہ نے ہمت کر کے دوسرے دروازے میں بنے تالے کے سوراخ سے اندر جھانکا تو سامنے واش بیسن اور شاور دکھائی دیا ۔۔ عائشہ نے لمبا سانس کھینچا یااللہ تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے کم ازکم وضو تو کر سکوں گی اس نے اپنی فوت شدہ ظہر اور عصر کی ادائیگی کا سوچ کر واش روم کا رخ کیا ۔بایاں پاوں اندر رکھنے سے پہلے بیت الخلاء کی دعا پڑھی ۔۔۔
( بسم الله اللهم إني أعوذ بك من الخبث و الخبائث) صحیح بخاری :143صحیح مسلم:357
“اللہ کے نام کے ساتھ؛اے اللہ میں خبیث (جنوں )اور خبیث (جنیوں) سے تیری پناہ میں آتی ہوں ”
نکلتے وقت ( غفرانک )اے اللہ!میں تیری بخشش طلب کرتی ہوں ۔۔۔
قبلہ کی سمت کا تعین کرنا مشکل تھا لیکن اپنے حساب سے اس نے اندازہ لگایا اور نماز کی ادائیگی شروع کر دی، دروازہ دھڑ دھڑ بجنا شروع ہو گیا لیکن اس نے خوف میں بھی اپنی نماز کو جاری رکھا آنسوں ٹپ ٹپ کر کے اس کے حسین گالوں کو بھگو گئے، گلاب کی پنکھڑی جیسے ہونٹ خوف وحراس کی بدولت سفید اور نیلے پڑ رہے تھے ۔۔۔
نمازوں کی ادائیگی کے بعد اپنے ہاتھ اللہ کی بارگاہ میں پھیلا دیئے اے میرے رب مجھے اس وحشی درندے سے بچا، میری عزت کو محفوظ! او اللہ میرے لئے راہ فرار آسان کر آمین ۔۔۔۔دعاؤں میں روتے روتے ہچکی بند گئی ۔۔۔میرے مالک تو جانتا میری ہر کمزوری میری ہر مجبوری کو میرے مالک میری مصیبت کو آسان کر
(يا حي يا قيوم برحمتك أستغيث أصلح لي شأني كله ولا تكلني إلى نفسي طرفة عين )حاکم 545، نسائ:570
“”اے زندہ رہنے والے ، اے(کائنات کو) قائم رکھنے والے!!میں تیری رحمت سے مدد کی طلبگار ہوں کہ میرے تمام کام درست فرما دے اور پلک جھپکنے کے برابر بھی مجھے میرےنفس کے سپرد نہ کر ۔””۔۔
پھر درود ابراہیمی کا ورد، رو رو اور تڑپ تڑپ کر گلے میں خشکی سے کانٹے چبھ رہے تھے، سائیڈ ٹیبل پر پڑے گلاس پہ نظر گئی سوچا پی لوں لیکن اس خیال کو ترک کر دیا نجانے یہ لفنگا کیا ملا کے لایا ہو پانی میں؟!بہتر ہے اسکو گرا دوں اور نلکے سے پانی نکال لوں ۔۔۔۔۔۔
عبداللہ باہر شدید غم و غصے میں تلملا رہا تھا وہ بار بار اس مضبوط بند دروازے کو دیکھتا جس میں اس کے دل کی ملکہ نے خود کو قید کر لیا تھا ، اس کے احساسات اور جذبات سے بالکل عاری، اسے سمجھ نہیں آرہا تھا میں کیسے اس کو قائل کروں، وہ اسی شش و پنج میں ڈرائنگ روم کے چکر کاٹ رہا تھا۔۔۔
عائشہ نے ہمت کر کے کھڑکی کی طرف بڑھنا شروع کیا اور دھیرے سے اس کی چٹکی ہٹائی، لکڑی کی اس مضبوط کھڑکی کے باہر مضبوط لوہے کے سریے کا جال بنا ہوا تھا جس کو دیکھ کر اس کے دل کو قرار آگیا کہ یہ لفنگا کھڑکی کے زریعے بھی اندر داخل نہیں ہو پائے گا ۔۔۔
دروازہ دھڑ دھڑ بجنا شروع ہو گیا ایسے لگ رہا تھا اب تو ٹوٹ ہی جائے گا ۔۔۔۔۔۔
عبداللہ دھاڑ رہا تھا میں دروازہ توڑنے لگا ہوں اس نے ہر حربہ آزما لیا لیکن بے سود، شاید صوفہ اور میز عائشہ کےلئے ڈھال بن گئے تھے ،عبداللہ مسلسل چلا رہا تھا اور دھمکیاں دیئے جا رہا تھا لیکن سب بےمعنی اور بےکار ۔۔۔۔
مغرب ڈھل رہی تھی رات کا اندھیرا دن کے اجالے کو اپنی لپیٹ میں لے رہا تھا، عائشہ نے کھڑکی کے پاس آکر باہر آسمان کو دیکھا اور مغرب ادا کرنے لگی ۔۔
کمرے میں لگے گھڑیال کی ٹک ٹک اسکی روح کو چھلنی کئے جا رہی تھی، یوں کسی کنواری لڑکی کی گزری باہر ایک رات کیسے اس کے دامن کو داغ دار کر دیتی ہے اسکی زندگی اجیرن ہو جاتی ہے، سب سوچیں اس کو لپیٹ میں لئے ہوئے تھیں ۔۔۔
عشاء بھی ادا کر دی پھر دعاوں کا لا متنائی سلسلہ، شدت غم سے جھیل جیسی آنکھوں میں وحشت کے سوا کچھ بھی نہیں بچا تھا، دروازے کے ساتھ جڑا صوفہ اسکی پناہ گاہ تھا، نا سونے کا سوچ کر ایک کونے میں دبک گئی ۔۔۔
عبداللہ نے بھی ہتھیار ڈال دیئے اسکو بھی اپنی شکست کا اندازہ ہو چکا تھا ، اس کو پتا چل چکا تھا کہ اس کا واسطہ کسی عام لڑکی سے نہیں پڑا، یہ لڑکی تو ڈٹ جانے والوں میں سے ہے یہ تو اپنی آخری سانس تک مقابلہ کرے گی ۔۔
دروازے پہ ہلکی سی دستک دی اور بولا! عائشہ تم اگر دروازہ نہیں کھولتی تو کم ازکم کھڑکی سے اپنا کھانا تو لے لو، میں تمھیں کھانا کھڑکی سے پکڑا دیتا ہوں، اسکے لہجے میں نرمی اور التجا واضح جھلک رہی تھی لیکن عائشہ نے اسکو نظر انداز کر دیا ۔۔۔۔
ہر طرف مکمل سناٹا تھا، عائشہ کی زندگی کی سب سے بھیانک رات، خوف کی شدت سے نا سو سکتی تھی اور نا بیٹھنے کی ہمت باقی تھی، نجانے رات کے کونسے پہر نیند میں چلی گئی، نیند میں بھی کتنی دفعہ خوف سے ہڑبڑائی ۔۔۔
باہر عبداللہ پیچ و تاب کھا رہا تھا اس سے نیند کوسوں دور تھی اس کے سارے منصوبے پہ پانی پھر چکا تھا ، اپنی عیاشی کےلئے جو سامان وہ لایا تھا سب دھرا کا دھرا رہ گیا ، آوارہ مزاج عبداللہ ہارے ہوئے جواری کی طرح بے بس و مجبور ہو چکا تھا ۔۔۔
رات 12 بجے سمیر کو کال کی ساری روداد سنائ، یار تجھے میں نے سمجھایا بھی تھا باز آجا پر تو نے میری ایک نہ سنی، سمیر شدید غصے میں تھا ۔بچے اگر یہ مر مرا گئی تو یہ سب تیرے پلے میں آئے گا کیوں کہ وہ تیرے گھر میں مری ہے اور تیرے بڑے بھیا کو پتا چلا تو بچے پھر کئ اور ٹھکانہ ڈھونڈ لینا ۔۔۔ میں کیا کروں پھر ؟؟؟ اسکو اسکے گھر چھوڑ کے آ اور پاوءں پکڑ اسکے ماں باپ کے ورنہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے خود کو دیکھ، میڈیا کو خبر ہو گئی تو؟؟ اتنی بڑی کاروباری شخصیت کا چھوٹا بھائی کیا گل کھلا رہا ہے تو بچے سب کچھ کا ذمہ دار تو خود ہو گا ۔۔۔
پر یار میں حقیقت میں اس لڑکی سے محبت کرنے لگا ہوں ۔۔عبداللہ شکستہ لہجے میں بولا۔۔ سمیر کو اور تپ چڑی اپنے کرتوت دیکھ پہلے تو قابل یے اس کے؟ وہ پاک دامن دوشیزہ اور تو ہر ڈال کا بھنورا ، میں تجھے لکھ کر دیتا ہوں وہ کبھی قبول نہیں کرے گی تجھے ۔۔ اس سارے وقت میں تجھے اندازہ نہیں ہوا وہ کیسی لڑکی ہے؟، نالائق گدھا نکما دوست، سمیر اپنے دل کی بھڑاس نکال رہا تھا ۔۔۔۔میں سونے جا رہا ہوں تو پہرا دے اپنی محبوبہ کا !!!
او یار بات تو سن عبداللہ نے منہ کھولا ہی تھا سمیر نے کال ڈسکنٹ کر دی ۔۔۔۔
اگر اس نے خودکشی کر لی تو ؟؟؟ نہیں نہیں میرے خیال میں ایسا نہیں کرے گی عبداللہ نے خود کو تسلی دی ۔۔۔
سگریٹ کی پوری ڈبییہ پھونک دی، وسکی اور بیئر اسکا منہ چڑا رہی تھیں، بے جا لاڈ پیار اور مال کی ریل پیل نے اس کو ان تمام چیزوں کا عادی بنا دیا تھا، لیکن آج سب کچھ بےمعنی تھا کوئی بھی چیز اس کے دل کو سکون نہ دے پائی ۔۔۔لاکھ کوشش کے باوجود بھی وہ پچھتاوں کی دلدل میں دھنستا چلا جا رہا تھا، اگر لوگ بلواوں دروازے توڑنے کیلئے تو پورے گاؤں کو پتا چل جائے گا اگر اسکو ایسے بند کمرےمیں چھوڑا تو یہ بھوکی پیاسی مر جائے گی ۔۔۔پوری رات اسی کشمکش میں گزر گئ ۔۔۔
صبح 4 بجے کے قریب مرغ کی بھانگ پہ عائشہ کی آنکھ کھل گئی اور حیران تھی یہ آواز کدھر سے آرہی ہے ؟ کھڑکی کی طرف بھاگی لیکن سمجھ نہ پائی کہ مرغا ہے کدھر ہے ؟!اچھی طرح وضو کیا اور کمرے میں آکر اپنی چادر کو درست کرنے لگی تو اچانک نظر آئینے پہ گئی اور گردن پہ بنے گہرے جامنی اور نیلے نشان عبداللہ کی انگلیوں نے چھوڑے تھے آنسوؤں کی جھڑی پھر سے شروع ہو گئی ۔۔۔۔۔
فجر ادا کی پھر سجدے میں گر کر اپنے رب سے التجایئں کرنے لگی ۔سجدے میں گری اس معصوم کلی کی دعائیں رنگ لا رہی تھیں ۔۔۔
عبداللہ نے شائستگی سے دروازہ بجایا اور کہا مجھے پتا ہے تم جھاگ رہی ہو میں تمھیں کچھ نہیں کہوں گا پلیز دروازہ کھول دو ، میں تمھیں تمھارے گھر چھوڑنے کےلئے تیار ہوں ۔۔
دیکھو تمھیں اللہ کا واسطہ ہے میری بات پہ یقین کرو، ان الفاظ کی ادائیگی پر عبداللہ خود بھی حیران ہو رہا تھا ۔۔۔
اچھا اگر دروازہ نہیں کھولتی تو کم ازکم میری بات کا جواب تو دو پلیز ۔۔۔ عبداللہ ٹوٹ چکا تھا نہ وہ کسی کو بلا سکتا تھا اور نہ اس کو اکیلا کمرے میں چھوڑ سکتا تھا، شدید بےبسی کے عالم میں وہ عائشہ سے التجایئں کر رہا تھا ۔۔
مجھے 5 منٹ دو میں تمھیں بتاتی ہوں عائشہ نے سوچ سمجھ کر جواب دیا ۔۔۔
عبداللہ نے شکر کا سانس لیا ۔۔۔۔
عائشہ نے صلاتہ الاستخارہ ادا کی اور اپنے رب کے سامنے گڑگڑائ اے میرے مالک میرے لیے جو بھی بہتر ہے میرے دین اور دنیا کےلئے میرے لیے وہ آسان کر دے بےشک تو ہی غیب کا علم رکھتا ہے !!!!آمین
آنسو صاف کر کے اس نے ہلکی سی دستک دی عبداللہ تو پہلےہی بےچین اس کے جواب کا منتظر تھا، ہاں بولو عائشہ میں سن رہا ہوں ۔۔۔
عائشہ گویا ہوئ میں تم پہ کیسے یقین کرلوں کہ تم مجھے خیروعافیت سے میرے گھر پہنچاو گے؟؟؟ جو کچھ تم میرے ساتھ کر چکے ہو ، تم نے میری زندگی برباد کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔۔اس سے بہتر نہیں ہے میں اپنی عزت کی حفاظت میں اسی کمرےمیں بھوکی پیاسی مر جاوں ۔؟!
تمھیں میرے اوپر یقین نا کرنے کا پورا حق ہے لیکن اپنے رب پہ تو تمھارا کامل یقین ہے ؟! یہی ہے نا عائشہ؟؟؟
تم نے کہا تھا میرا رب مجھے بچائے گا، اب اگر رب تمھیں موقع دے رہا ہے تو اس پہ توکل کرو عبداللہ نے اس کو قائل کرنے کی بھرپور کوشش کی۔۔۔۔۔
ہاں مجھے اپنے رب پر کامل توکل ہے لیکن میں کچھ باتیں طے کرنا چاہتی ہوں تمھیں وعدہ کرنا ہے کہ تم مجھے ہاتھ نہیں لگاو گے، میرا نقاب نہیں اتارو گے اور مجھ سے دور ہو کر بات کرو گے اگر منظور ہے تو ہی میں دروازہ کھولوں گی
جواب دو اب چپ کیوں ہو گئے ہو ؟؟! اور یاد رکھنا مجھے تم پر رتی برابر بھروسہ نہیں ہے ۔۔۔
ہاں مجھے منظور ہے سب تمھیں کوئی شکایت نہیں ہو گی ۔۔ عبداللہ نے شکستگی سے جواب دیا ۔۔۔۔
عائشہ نے اللہ کا نام لے کر اپنا حجاب درست کیا اور نقاب پہنا اور پھر میز اور صوفے کو پیچھے دھکیلنا شروع کر دیا۔۔۔۔
تم دروازے سے 2 میٹر دور ہو کر کھڑے ہو جاوء جب دور ہٹ گئے تو مجھے بتا دینا ۔
دروازہ کھولنے سے پہلے نظر اپنی مخروطی ہاتھوں پہ گئی جو مہندی کے دیدہ زیب نقش و نگار سے سجے تھے فورا اپنے دستانوں کی تلاش شروع کر دی لیکن صرف ایک ہی ڈھونڈ پائی، عبداللہ کے ساتھ ہاتھ پائی کے دوران ایک کہیں کھو گیا تھا شاید ، دکھی دل کے ساتھ ایک کو پہنا اور دوسرے ہاتھ کو اپنے “خمار” سے ڈھانپ لیا ۔۔
کانپتے ہاتھوں کے ساتھ کنڈی پہ ہاتھ رکھا عائشہ پہ شدید گھبراہٹ اور خوف طاری تھا ۔۔۔
باہر عبداللہ نے التجا کی کہ جلدی کرو روشنی پھیلنے سے پہلے ہمیں یہاں سے نکلنا تاکہ گاؤں کا کوئی شخص تمھیں نا دیکھ پائے ۔۔۔عائشہ کے دل ودماغ میں خطرے کی گھنٹیاں بج رہی تھیں کہ یہ ابھی کسی نیئے منصوبے کے تحت اسکو اپنے جال میں پھانسنا چاہتاہے ۔۔۔
خیر اللہ پہ توکل کر کے کنڈی کھول دی، عبداللہ کو ڈرائنگ روم کے دوسرے کونے میں کھڑا اپنا منتظر پایا ۔۔۔
عبداللہ بولا ہمیں فورا یہاں سے نکلنا ہے لیکن تم نے کل سے کچھ نہیں کھایا، جو بھی کھانا ہے کچن میں ضرورت کی ہر چیز موجود ہے ۔۔نہیں مجھے کچھ بھی نہیں کھانا مجھے صرف اپنے گھر پہنچنا ہے عائشہ نے خشک لہجے میں جواب دے کر صحن کی طرف دوڑ لگادی جبکہ عبداللہ بڑے بڑے ڈگ بھرتا اسکے پیچھے ہو لیا ، گاڑی کی اگلی سیٹ کی طرف بیٹھنے کا اشارہ کیا جسکو عائشہ نے مسترد کرتے ہوئے پیچھے بیٹھنے کو ترجیح دی ۔۔۔۔
تاریک رات کے اندھیرے چھٹ رہے تھے اجالے کی سفید دھاری اس ویران فارم ہاوس میں روشنی لا رہی تھی ، عائشہ کا دل شدت غم سے چور تھا آنسو جھلک کر آنکھوں کی باڑ توڑنے کے لئے بےتاب تھے۔۔ ۔ اس کو یہ غم اندر ہی اندر چاٹ رہا تھا کہ کیسے امی بابا اور دونوں بہنوں نے رات کیسے گزاری ہو گی؟ کتنے تڑپے ہوں گے وہ میرے لئے، عبداللہ کیے لئے دل میں نفرت اور بڑھی ۔۔۔
پجیرو 4×4 اپنے سفر پہ رواں دواں تھی، مسلسل خاموشی کو عبداللہ نے توڑا ۔۔۔۔
عائشہ اگر ہو سکے تو مجھے معاف کر دینا ، مجھے پتا ہے کہ میں نے انجانے میں بہت زیادتی کی ہے تمھارے ساتھ جو میں ہرگز نہیں چاہتا تھا لیکن میں اپنے دل کے ہاتھوں مجبور ہوگیا تھا، تم میری زندگی میں آنے والی پہلی لڑکی ہو جس نے مجھے جھنجوڑ کر رکھ دیا ہے پوری رات میں ایک منٹ کےلئے سو نہیں پایا، میں نے ہار کبھی تسلیم نہیں کی جو چیز مجھے پسند آجاتی ہے وہ بس میری ہی ہوتی ہے ۔۔۔۔۔
عائشہ نے کسی بات کا جواب نا دینا ہی مناسب سمجھا اور بس غم و غصے سے اپنی انگلیاں چٹخا کر رہ گئی ، اس کا دل کر رہا تھا اس کا سر پھاڑ دے ۔۔۔
تم کوئی جواب نہیں دے رہی اب تو میں تمھیں تمھارے گھر بحفاظت چھوڑنے کے لئے جا رہا ہوں ۔۔
عائشہ کھول کر رہ گئی ۔۔۔۔
تھوڑی دیر کی خاموشی کے بعد بولا ابھی 10 منٹ میں سروس سٹیشن آ رہا ہے کچھ کھانے پینے کےلئے لینا یے تو بتا دو میں تمھارے لیے لے آؤں ۔۔
مجھے کچھ بھی نہیں چاہیئے مجھے اپنے گھر پہنچنا ہے ابھی اور اسی وقت سمجھے تم ؟! عائشہ نے کاٹ دار لہجے میں جواب دیا ۔۔۔
شکر ہے تم نے کسی بات پہ تو جواب دیا ہے ورنہ میں ویسے ہی اپنی توانائی اکیلے بول بول کر ضائع کر رہا تھا۔۔۔
عائشہ غصے سے آگ بگولہ ہو رہی تھی بولی،،، تمھاری گردن پہ تلوار رکھی گئی تھی کہ مجھے اغوا کرو اور اپنی حوس کا نشانہ بناو ،یہ تمھارا خود کا اختیار کردہ راستہ ہے جس کا کٹھن سفر تمھارے لیے تکلیف کا باعث بن رہا ہے ۔۔تم نے میرے حجاب پہ ڈاکا ڈالا ہے اور تم چاہتے ہو کہ تمھارے اس زبانی معافی نامے پہ میں بچھ بچھ جاوءں، تمھارے گلے میں پھولوں کے ہار پہناوں، میڈل اور ٹرافیاں دو، جیسے کے-ٹو فتح کر کے آرہے ہو تم ۔۔۔ عائشہ اپنے دل کی ساری بھڑاس نکالنے کا تہیہ کر چکی تھی ۔۔۔
تمھیں کیا خبر بے حس فصلی بٹیرے میری زندگی میں سب سے عزیز ترین چیز باکردار اور باحجاب رہنا ہے، میرا حجاب میری پناہ گاہ ہے، تم جیسے حوس پرستوں کی میلی نظروں سے بچاو کی تدبیر ہے ، میرا نقاب میرا نور ہے ، تم نے مجھے بےنور کرنے کی کوشش کی ہے ۔۔۔۔۔
کاش تمھاری کوئی بہن ہوتی تو تم یہ درد محسوس کرتے کہ کیسے دوسروں کی بیٹیوں کی طرف میلی نظر اٹھاتے ہیں،
عبداللہ مکمل توجہ سے آسکی باتیں سن رہا تھا ۔۔۔تمھیں بولنے کا پورا حق ہے جو کہنا چاہتی ہو کہو میں سن رہا ہوں ۔۔۔لیکن مجھے سمجھ نہیں آتی تمھیں ہی کیوں اتنا شوق ہے حجاب اور نقاب کا باقی 95 فیصد لڑکیاں تو کوئی شوق نہیں رکھتیں ۔۔۔۔
“اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرو!اور سیدھی بات کہو ۔اللہ تمھارے کاموں کو سنوار دے گا اور تمھارے گناہوں کو بخش دے گا اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا تو اسے بہت بڑی کامیابی ہو گی ۔” الأحزاب:70۔71
میرے لئے اسوہ حسنہ صحابیات رضی اللہ عنھن ہیں، میرے لیے حجت قرآن و سنت ہے ، میں اپنے رب کے حکم بجا لانے کی پوری کوشش کرتی ہوں وہی رب جس نے مجھے ہر نعمت سے نوازا ہے اور وہی رب جس نے مجھے تم جیسے بھیڑیے سے نجات دلائی تو پھر کیوں اس کا شکر ادا نا کروں اور اس کا حکم کیوں نا مانوں؟!
چلو تم نے کسی قابل تو سمجھا ہے مجھے فصلی بٹیرا اور بھیڑیا دونوں نام ہی کافی خوبصورت لگے ہیں اور مجھے پسند آئے ہیں ۔۔۔۔ اس نے قہقہہ لگایا ۔
اچھا فرض کرو اگر میں تمھیں گھر نہ چھوڑوں تو کیا کرو گی، ؟؟؟میرا کیا بگاڑ لو گی ؟؟؟۔۔۔۔عائشہ کا دل ایک لمحے کےلئے دھڑکنا بھول گیا لیکن وہ اپنی کمزوری کو چھپاتے ہوئے بولی
“یقینا میرے ساتھ میرا رب ہے وہ یقینا میرے لئے رستہ پیدا کرے گا “۔الشعراء 62
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...